مجھے گویائی دے
میں بہت دیر سے خاموش ہوں طوفاں کی طرح
کوئی تو دیکے بہانہ مجھے گویائی دے
سر پٹخنہ ہی اگر میرا مقدر ٹہرا
پھر کوئی آ کے مجھے کیسے مسیحائی دے
کیسے حرفوں میں بکھیروں میں خدائی تیری
تو تو ہر سمت ہر اک شے میں خود دکھائی دے
تیرے دیدار کو آنکھوں کی ضرورت کیا ہے
میں کروں بند جو آنکھیں تو تو سنائی دے
سرد لمحوں میں تیرے ہونے کا احساس بہت
پھر کوئی درد نہ تکلیف ہی سجھائی دے
ایک تو ہی جو میرے عیبوں پہ پردہ ڈالے
عزتیں میں نے جسے دیں مجھے رسوائی دے
ہے وہاں اپنی پہنچ بھی نہیں ممتاز جہاں
دوست کیسا جو مجھے طعنہء رسائی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں