ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 24 جولائی، 2024

تبصرہ ۔ امجد رحمان۔ اور وہ چلا گیا



تبصرہ امجد رحمان امجد سیالکوٹ 
لکھاری۔  40 کتب

شعر اور فرد کے مابین استوار ہونے والے رشتوں میں سب سے واضح اور معتبر رشتہ "لاشعور" کی سطح پر قائم ہوا کرتا ہے۔ شعری زبان اور ہیئت (form) کی تفہیم فوری طور پر "شعور" کی مرہون منت ہی سہی لیکن متن( text) کی(application) ہمیشہ "لاشعور" بلکہ اگر صحیح اصطلاح اپنائی جائے تو "اجتماعی لاشعور " کے وسیع و عریض علاقے پر ہوتی ہے ۔ یوں بھی جدید نفسیات کے مطابق افہام کی اصل سطح "اجتماعی لاشعور" کی انہی یادداشتوں سے عبارت ہے۔  تخلیق سے اظہار تک کے تمام مراحل سہل نہیں ۔ نہ جانے کتنے ہی ہفت خواں سر کرنے کے بعد شاعر اس اقلیم سخن تک رسا ہوتا ہے
 جہاں اسے لفظ کا اصل فطری لحن نصیب ہوتا ہے اور بقول غالب~
 بے نشہ کس کو طاقت آشوب آگہی
 بہرحال سخن کے حوالے سے کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ (اگرچہ نہ ہونے کے برابر صحیح ) اور آج بھی اس سلسلے میں انفرادی سطح پر بہت سے لوگ مصروف کار ہیں۔ آج اس قبیلے کی ایک فرد سے آپکو ملوانا چاہتا ہوں۔ اس کے کہے ہوئے شعروں میں، اس کے برتے ہوئے لفظوں میں، دھیما سا سہی لیکن ایک نیا ذائقہ آپ کو ضرور ملے گا۔
 >ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا، میرے خدا ہو جا

>جب سے چوما ہے میں نے صحن حرم
 بے قراری سے میں قرار میں ہوں
 محترمہ ممتاز ملک کی ذات اور شاعری میں جو باتیں مشترک ہیں اور ان میں سب سے اہم بات کسی اور کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت ہے۔ جس طرح محترمہ ممتاز ملک سے ملنے والا شخص ان سے متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تیسری ملاقات میں ان کے گنوں کو پوری طرح جان جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی شاعری فوری طور پر ذہنوں پر حاوی ہو کر اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہے۔ ( یہ میرا خیال ہے) آئیے محترمہ ممتاز ملک کے آئینے کے سامنے کچھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔
* ہم نہ آتے جو یہاں کون بتاتا ہم کو
 کس کی اوقات ہے کیا آ کے یہاں جان لیا 

*کھردری کھردری اداسی ہے
 مخملی مخملی خماری ہے 

*ساری دنیا کی اذیت سے تقابل کرتے
 اس کا ہر لفظ جہاں بھر سے تھا بھاری ہم

* محرومیوں کا درد یا احساس کی کمی ہے
 سوچوں کے آئینوں پر اک گرد سی جمی ہے 

*دھڑکنیں ہو گئیں ساقط تیرے جاتے جاتے
 کس طرح تجھ کو میری جان بھلائیں گے ہم

* اگر ہر شعر کو اکائی سمجھا جائے تو اس کتاب میں شامل اکثر غزلیں ایک بالغ نظر حساس شخصیت کی زندگی میں لمحہ لمحہ رنگ بدلتی رتوں اور تیور بدلتے رشتوں کی رپوتاژ بھی کہلا سکتی ہیں دراصل ۔۔۔۔۔ 
سچا تخلیق کار وہی ہوتا ہے جو اپنی داخلی واردات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات و مشاہدات کو بھی پیرایئہ اظہار دینے کا ہنر رکھتا ہو۔
محترمہ ممتاز ملک پر یہ نقطہ یقینا منکشف ہو چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مذکورہ بالا دونوں جہتیں موجود ہیں اور لطف یہ کہ تمام تر فنی باریکیوں کے ساتھ ۔۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔۔۔
*میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
 اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے

 *ہرگز یہ سمجھنا یہاں دشوار نہیں ہے
 اس ملک سے کوئی بھی وفادار نہیں ہے

* گھلی ہیں سسکیاں ہر ایک لے میں 
 یہی اس گیت کا رنگ طرب ہے

* کیا خوشی کبھی تذکرہ کرتا
 یہ تو پہلو میں غم کی سوتی ہے 

* لب پہ نغمے وصال کے لیکن
 آنکھ میں ہے جدائی کا موسم

 اس کتاب کی بیشتر غزلوں میں شاعرہ کی ٹریٹمنٹ میں نہایت سادگی نظر آئے گی۔ اس کی زبان میں محاورے سے زیادہ روزمرہ کا لہجہ استعمال ہوتا ہے۔  محترمہ ممتاز ملک اور لفظوں کے درمیان بڑی بے تکلفی ہے اور یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں جیتی جاگتی اور سانس لیتی زندگی دکھائی دیتی ہے۔
* وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے 
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

* گر بجھا سکتے نہیں، اچھا ہے تم دور رہو 
مت بھڑکتے ہوئے، شعلوں کو ہوا دو جا کر

* بہت قابل جسے مانا جہاں نے
 ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے

* دبا کے درد کو مسکان کوئی کم تو نہیں 
اسے اسی میں تو بے حد کمال گزرا ہے 

*نظروں سے لوگ پوچھتے ہیں سجتا دیکھ کر 
کس کو سنگھار اپنا دکھائیں تیرے بغیر

* لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے
 ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے
 ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
 والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

* جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
 بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا 

* معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
 جتنے انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے

* ہم زندگی کی بھیڑ میں گم کس قدر ہوئے 
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح

* جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر
 کچھ اور ہی دکھانا , آسان نہیں ہوتا 

*زندگی میں سکون رہنے دو
 تھوڑا تھوڑا جنون رہنے دو 
ہو چکا ہے جو رب کی رحمت سے 
تم بھی اس کو ملعون رہنے دو

 زندگی کی کڑوی اور سنگین حقیقتوں کی نقاب کشائی محترمہ ممتاز ملک کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ تخیل پرست نہیں بلکہ جو کچھ اپنے سامنے دیکھتی ہے اس کو اپنے شعر کا موضوع بناتی ہے۔  خارجی حالات کو دیکھ کر جو باتیں اس کے ذہن میں آتی ہیں۔ انہی کی تفصیل اور جزئیات کو پیش کرتی ہیں۔ اس کی شاعری میں عذاب زیست کے سارے باب کھلے نظر آتے ہیں۔  محترمہ ممتاز ملک جذبوں کا جوڈو کھیلنا جانتی ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو بیان کر جاتی ہیں۔ دراصل اس نے چھوٹی باتوں میں ہی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھا ہے ۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کو ٹٹولتی ہے جس پر ہاتھ ڈالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ فنی اعتبار سے وہ اپنا جواب آپ ہے۔۔۔ وہ حساس اور بے باک ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہے۔ اس کے شعری سٹائل میں سادگی اور پرکاری کے ساتھ تیکھا پن اور نوک پلک کی درستی بڑی مٹھاس کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ وہ دو مصروں میں بے تکلفی کے ساتھ سارے گن ظاہر کر دیتی ہے۔ وہ شعر بازوں اور شعر گروں سے الگ تھلگ رہ کر اپنے فیصلے صادر کرنے کی عادی ہے۔ اس لیے وہ اکثر فیصلے درست کرتی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی ٹریجڈی کو سہولت کے ساتھ ایک شعر میں بیان کر سکتی ہے۔ اس کی شاعری مخملی ملائم کے ساتھ کلف کیئے ہوئے کاٹن کی طرح کھنک اور اینٹھتی ہوئی اکڑ بھی موجود ہے۔
" اور وہ چلا گیا"  کا عنوان ہی اپنے اندر بے پناہ درد اور معنویت رکھتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ مصرع جس شعر یا غزل سے لیا گیا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر مصر ایک الگ اور آزاد بلاز کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک اکائی کی حیثیت سے ہر مصرع شاعرہ کی مکمل تحلیل نفسی کا تقاضا کرتا نظر آتا ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے۔ آپ بھی اس کتاب کے ٹائٹل کو کچھ وقت الگ سے ضرور دیں۔
 محترمہ ممتاز ملک کے بقول~

ہم کو بھی سانس لینے کو، تازہ ہوا ملے 
گل سے گلوں سے، ہم کو لگاوٹ نصیب ہو
 میں محترمہ ممتاز ملک کو ان کے پابچویں  اردو شعری مجموعہ کلام " اور وہ چلا گیا "
کی تخلیق پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں 
" اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
 دعاگو 
رحمان امجد مراد
 بانی اور چیئرمین کرائیڈن اکیڈمی سیالکوٹ 
0321.6151642

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/