ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (33) جھکی نظریں/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(33) جھکی نظریں



شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
 کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا

     اپنی یہ بے بسی میں نے خود مول لی
   عزت نفس اپنی خودی  تول دی 
  سوچ کے آبگینے سبھی توڑ کر  
 گُن جو احسان مندوں کے گانے چلا  

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا  
 کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 

  اپنی فطری گواہی بڑی معتبر 
  اہمیت اسکی سمجھا نہ میں جان کر 
 اب کٹہرے میں آیا جو دل کا وکیل 
  سارے بھولے وہ قصے سنانے چلا  

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
  کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 

دوستو تم نہ جذبوں کا سودا  کرو
   اپنے افکارواظہار سے نہ ڈرو
  یہ تمہاری ہی تہذیب کا ہے سبق
  اپنی تہذیب کیوں یوں گنوانے چلا

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
  کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (34) ناسمجھ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(34) ناسمجھ



ناسمجھ میں بھی ہوں اور تُو بھی سمجھ دار نہیں 
  وار کرتے  ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں

 چھوڑ کر رب کو کرے اپنی انا کی پوجا
    ایک تو شرک کریں اس پہ گناہ گار نہیں 

  اک قدم تُو جو چلے ایک قدم  میں آؤں 
   سوچ لے راستہ پھر کوئی بھی دشوار نہیں  

 دائرے کچھ تو میری ذات کے گرد ایسے ہیں  
  اور کچھ شوق کی شدت کا بھی اظہار نہیں  

  میری خواہش پہ کرے رقص جو انگاروں پر
  کیا وہی دل کا قلندر میرا دلدار نہیں  

  اسکو یاد آتا ہے کچھ دیر سے مقصد اکثر  
 سوچ مُمتاز یہ جلدی کہیں بیکار نہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (43) تعلق/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(43) تعلق



تعلق میں گرمجوشی نہیں پہلے سی اب باقی 
   نہ اب وہ رہبری نہ رہبری کا شوق ہے باقی 

 تمہیں کیا زندگی سے اپنے اندر جذب کرنا ہے
  یہ کچھ قسمت ہے اورکچھ اپنا اپنا ذوق ہے باقی  

 وہ اک لمحہ توجہ جس جگہ مرکوز ہو جاۓ 
   اسی اک قیمتی لمحے کا یہ سنجوک ہے باقی 

 نظر نیچی کیئے وہ جنکو  حور العین کہتے ہیں
   انہیں حاصل کیئے جانے پہ بھی اک روک ہے باقی 

 یہ سورج چاند جو گردش کریں اپنے مداروں میں
 یہ ہی حکم و یقیں ہے تو بڑا دو ٹوک ہے باقی 

  کسی انسان کے اندر  یہ ہی تو سب سے اعلی ہے 
  جوانمردی نکل جاۓ تو پھر اک طوق ہے باقی 

کوئی بھی شام ہو مُمتاز رنگ اسمیں اداسی کا 
 کہ رو شن دن کے پیچھے ایک چھبھتی نوک ہے باقی
●●● 
 کلام:مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

● (26) انسان اور انسانیت/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(26) انسان اور انسانیت



انسانیت  ؛      
 آزاد پرندوں کی طرح گھوم رہی ہوں 
   سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں  

 پیسوں ک عوض کچھ نہیں بکتا ہے یہاں پر
   کردار کی جب ہی تو میں معصوم رہی ہوں 

 انسانیت ہے نام میرا تجھ کو پتہ کیا 
 دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں 
انسان  ؛      
  درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا  
   ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہا ہوں  

 جس لمحہ تک نہ ظالموں کے ہاتھ کو روکا 
  اس لمحہ تک میں خود بڑا مظلوم رہا ہوں  

 مُمتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی 
  شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہا ہوں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (76) یا الہی تیرے دربار میں/ دعا ۔ میرے دل کا قلندر بولے


دعا
(76) یاالہی تیرے دربار میں 



یا الہی تیرے دربار میں حاضر ہو کر 
  میں کروں عرض یہ ہی سر کو جھکا رو رو کر

   بادشاہی ہے تیری اور خزانے تیرے 
  یہ زمانہ ہی نہیں سارے زمانے تیرے

  میری بے خوابی میری نیند کی نعمت تیری
  بھوک بھی تیری تو لذت بھرے کھانے تیرے   

  بحر میں بر میں چلا کرتی ہے مخلوق تیری
   جن کی ہر سانس بیاں کرتی فسانے تیرے  

 تو جسے چاہے زمانے کی حکومت دیدے 
  کیسے مُمتاز کوئی ماپے پیمانے تیرے  
●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (32) شمس/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(32) شمس



جس طرح شمس سے رشتہ ہے اسکی حدت کا
 آج کے دور میں سنتے ہیں شور جدت کا 

آجکل پیار کے احساس کا دعوی ہے بڑا  
  اب کہاں پہلے کا انداز رنگ شدت کا

   آنکھ سے دور چلا جائے چار  دن بھی اگر
   بھولنے کے لیئے محتاج نہیں مدت کا

   چند لمحوں کی رفاقت پہ نہ اترایا کرو
   اب تو برسوں کی ریاضت میں رنگ بدعت کا
   
کیا خزاؤں میں درختوں کی ویرانی دیکھی  
 جیسے بھرپور جوانی میں دور عدت کا 

   ہار کا درد کا ممتاز مارتا ہے خیال
  بارھا دیتا ہے آرام درد شدت کا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (42) ملک کی ہوا / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(42) ملک کی ہوا 



کل اپنے ملک کی مجھ کو ملی ہوا  بولی 
  کہاں پہ جا کے بسے آج میرے ہمجولی

   میرے وقار کی خاطر کبھی نہ بکتے تھے  
 جو مانگنے کے لیۓ کھولتے نہیں جھولی 

  زمانے بھر کو محبت کے گیت سنواتے  
جنہوں نے آنکھ محبت کی گود میں کھولی  

 جنہوں نے آج جہنم مجھے بنایا ہے 
  میری فضاؤں میں کھیلی ہے خون کی ہولی 

   جو سب سے پہلے میرے پیار کی قسم کھا کر
  زمانے بھر میں پھرا کرتے تھے بنے گولی 

میرے وقار کا مُمتاز دربدر سودا
 دکان بیچنے کی مجھ کو آج جا کھولی 
●●●
کلام: ممتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (31) قافلہ چل پڑا / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(31) قافلہ چل پڑا 


 
قافلہ چل پڑا کارواں چل پڑا
لیکے عزم مُصمم جہاں چل پڑا

اب اندھیرا اُنہیں کیا ڈراۓ گا اور
روشنی کا لیئے سائباں چل پڑا

میرے قائد جواہر کی کیا حیثیت
تیرے نعرے میں لیکے اماں چل پڑا

اتنی لاشیں اُٹھائیں کہ خود مر گئے 
زندگی کا ملا جو نشاں چل پڑا

دوستو چل بھی دو ورنہ لٹ جاؤ گے
ہاتھ سے رہزنوں کے کماں چل پڑا

سر بریدہ کھڑے پوچھتے رہ گئے 
میرا قاتل بتاؤ کہاں چل پڑا
 
اب لُٹیرے نہ اغیار میں جائیں گے
گھر میں اُن کا کڑا امتحاں چل پڑا

عیش کر لی بہت داد دے لی بہت
ظالموں میں اب آہ و فُغاں چل پڑ

جو سنوارے گا ملت کی تقدیر کو
ایسا اُمید کا گُلستاں چل پڑا

رکھ نہ مُمتاز دامن میں مظلومیاں
چاک کرنے تو اب گریباں چل پڑا
 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (21) ڈرتے ہو مجھ سے/ اردو شاعری۔ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے





(21) ڈرتے ہو مجھ سے



قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
مجھ کو لوٹ کے 
مجھکو بیچ کے 
بے شرمی کی حد کو توڑے
چار آنکھیں کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

سارے ظالم سارے ڈاکو
سارے شرابی سارے ہلاکو
میرے منہ پر کالک مل کر
رحم طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

میں مظلوم اور میں بیچاری
دنیا میں ہوں ماری ماری
بچے میرے بھٹکیں دردر
صرف نظر کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جب مرنا ہے سوچ لیا ہے 
اب دھرنا ہے سوچ لیا ہے
اپنی شرط پہ اب جاں دینگے
جان طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جھوٹو تم سے اب نہ ڈریں گے
بجلی بنکر تم پہ گریں گے
موت اور بھوک کے بانٹنے والو
کیوں بڑ بڑ کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (27) ابر رحمت/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(27) ابر رحمت

  
 ہو کیا اچھا کہ میرے ملک پر تُو ابر رحمت بنکے برسے
یہاں سب کچھ میسر ہو کوئی لُقمے کو نہ ترسے

نہ ماں کی گود سونی ہو نہ چوڑی ہاتھ کی ٹوٹے
تلاش رزق میں کوئی نہ جائے اب کبھی گھر سے

تمناؤں کی سب تکمیل میرے گھر تک آتی ہو
فصیل شہر سے باہر کوئی خواہش نہ جاتی ہو

میں اپنے دل کا اک پرچم بنا کر اسکو لہراؤں
سبھی بھٹکے ہوؤ پلٹو منادی آج کرواؤں

چلو ہم پھر سے اک تحریک کا آغاز کرتے ہیں
کہ لیکر سب توانائیاں نئی پرواز بھرتے ہیں

پسینہ اب نظر آئے چٹانوں کی جبینوں پر
میری مٹی کریگی فخر اپنے سب نگینوں پر

نئے رستوں کی آنکھیں اب ہماری منتظر ہوں گی
وطن کے عشق میں ممتاز اب گھڑیاں بسر ہوں گی
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (29) غرور/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(29) غرور



کس بات کا گھمنڈ ہے کس بات کا غرور
   کچھ فیصلے تو موقع پہ ہو جاتے ہیں ضرور 

  آپ اپنی فطرتوں میں تو چالاک ہے مگر
حکمت کی اک نظر سے بھی کوسوں ابھی ہے دُور

  مالک کا کرم تجھ پہ تجھے یہ تو چاہیئے   
 تیرا کرم کسی پہ تجھے یہ نہیں منظور  

  سجدوں کا رنگ دونوں جبینوں پہ جدا ہے 
  اک روشنی سے دُور ہے اک روشن و معمور

   پہلے جو احترام میں شامل کبھی رہے
 اب عیب پوشی کے لیئے ان سب کا ہے ظہور

   مُمتاز ہر برائی میں بااختیار ہیں  پر 
 اچھے عمل کے واسطے رہتے جو بے شعور  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (2) حضور آگئے ہیں/ نعت ۔ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(2) حضور آگئے ہیں




حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 
  حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں
   وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی  
 نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
  نگاہوں کا میری غرور آگئے ہیں
   حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

  وہ جن کے لیئے یہ  زمیں آسماں بھی
   جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی  
 وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں  
حضور آگئے ہیں  حضور آگئے ہیں 

  وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی   
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
   وہ حسن و عمل کا شعور  آگئے ہیں
  حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں  
●●●  
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (22) گُفتگُو/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(22) گُفتگُو



دو چٹانیں گفتگو کرنے کو ہیں
فیصلوں کی جستجو کرنے کو ہیں 

تنگ لہجے کچھ کشادہ ہو چلے 
نرم خُوسے سخرو کرنے کو ہیں 

آشنا جو رنگ و بُو سے نہ رہے
اب اسی کی آرزو کرنے کو ہیں 

لانگ کر اسکو ہمیشہ جو چلے
آبرو کی آبرو کرنے کو ہیں 

 لامُحالہ بات آدھی رہ گئی
اب مکمل گفگتگو کرنے کو ہیں 

پہلے اتنے غور سے دیکھا نہ تھا 
خود کو تم سے رُوبرُو کرنے کو ہیں

بات وہ جس کا نہیں تھا حوصلہ
مُمتازاب وہ دُوبدُو کرنے کو ہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (18) زرا ٹہرو مجھے ۔۔/نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے



(18) زرا ٹہرو مجھے تم سے۔۔۔۔



زرا ٹہرو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
بہت ممکن ہے کل پھر اسطرح لمحے نہ مل پائیں 
کہ ہم تم اسطرح اک میز پر بھی بیٹھ نہ پائیں
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 

ہمیشہ اپنے لفطوں کو معانی دیکے جانا تم
ادھورے لفظ تو اک کند سا ہتھیار ہوتے ہیں 

کہ اسکے وار سے اک بار میں میں مر بھی نہ پاؤں
تیرے ہاتھوں یہ استعمال کتنی بار ہوتے ہیں 

ملو جب تم تو لفظوں  کے اسی خنجر میں تیزی ہو
کہ جس کو دیکھ کے معلوم تیری عرق ریزی ہو
خیالوں کے کسی جنگل میں گم ہونے سے پہلے کیا
حقیقت میں جو تھا اس باغ میں کچھ دیر ٹہلے کیا

ہمیشہ ہی مہکتی ہیں  اگر اچھی ہوں یادیں تو 
سدا ہی لطف دیتی ہیں  اگر دلکش ہوں باتیں تو 

                ●●●                         
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

● (20) منسوب/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(20) منسوب



وہ جو اک نام تیرے نام سے منسُوب ہوا
ہر جگہ تیری خطاؤں پہ وہ معتوب ہوا

ناگہانی بڑی گزری ہیں اسی کے دل پر
جرم بھی اسکا نہ تھا جس پہ وہ مصلُوب ہوا

اسنے تو اپنی خودی کے لیئے سب کچھ ہارا 
اور ایک تُو تھا جو اغراض سے مغلُوب ہوا

ذندگی ضد کا ہی بس نام بنا کر رکھ دی 
جو گوارہ نہ مجھے وہ تجھے مطلُوب ہوا

وقت کی قید نہ تھی فیصلہ ہو جانے تک
پھر بھی دشمن ہی میرا کیوں تجھے محبُوب ہوا

اسنے مُمّتاز بچھائے تھے نوکیلے پتھر
بارھا راہ میں گر کر جو میں مضرُوب ہوا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

منگل، 30 جولائی، 2013

میری نگاہ



میری نگاہ

میری نگاہ میرا دل یہ میرے بس میں نہیں  
 جہاں پہ روح پھڑپھڑاۓ اس قفس میں نہیں

 ہو پُر خطر ہر لمحہ شکار ہونے کا
   میں کیسے مان لوں کہ یہ میرے نفس میں نہں

 نظر جو عزت و تکریم سے ہو بے بہرہ  
 شمار اسکو کیا جاۓ کیا ہوس میں نہیں

   زمانے بھر کی کثافت جو ساتھ لے کے چلا

  تمہارے ساتھ ہے شامل تو اب نجس میں نہیں

کہں سے ڈھونڈ کے مُمتاز لا سکو تو کہو

 ہے تیر کونسا جو تیرے نیم کش میں نہیں 

 کلام/  مُمتاز ملک  

....................

جمعرات، 11 جولائی، 2013

دنیا ماں کی گود نہیں ہے


دنیا ماں کی گود نہیں ہے
ممتازملک . پیرس

ایک بار ایک قاتل کو  سزاۓ موت سنائ گئ تو اسنے  آخری خواہش میں اپنی ماں سے بات کرنے کی اجازت مانگی .ماں جب اسکے پاس آئ تو اس نے کان میں بات کرنے کے بہانے اسکا کان چبا ڈالا جج صاحب نے اس کی  ماں کو اس سےبمشکل چھڑوایا اور اس سے اس حرکت کی وجہ دریافت کی تو وہ مجرم بولا جج صاحب آج میں یہاں موت ک پھندے تک کبھی نہ پہنچتا اگر میری ما ں نے مجھے اس وقت چانٹا مارا ہوتا جب میںنے اسکول میں پہلی بار ایک بچے کی پنسل چرائ تھی اور اس نے لوگوں سے بھڑ کر مجھے بچا لیا اور میری غلطی کی پردہ پوشی کی . یا اس وقت جب میں نے کسی کا سر پھاڑ دیا تھا اور میری ماں نے مجھے سچا ثابت کرنے کے لیۓ لوگوں سے جھگڑا کیا . اس بات سے میری ہمت بڑھتی چلی گئ اورایک دن میں چوروں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا .میری ہر حرکت پر میری ماں نے کان بند کر لیۓ . جس پر میں ایک ڈاکو بن گیا اور ایک دن اسی ڈاکہ زنی میں میرے ہاتھوں لوگوں کا قتل ہو گیا .اور آج میں سزاۓ موت کے پھندے پر جھولنے جا رہا ہوں . اگر اس نے پہلی بار مجھے چانٹا مارا ہوتا،
میری ماں میری پہلی شکایت پر ہی میرے  طر ف داری نہ کرتی اوراپنے کانوں میں روئ  نہ ٹھونس لیتی تو شاید  مجہے یہ دن نه دیکھنا پڑتا . . .......

  یہ وا قعہ سنانے کی وجہ پچھلے دنوں میری نظر سے گزرنے والا ایک قصہ ہے  جس میں ایک ١٠  سال کا  بچہ[جسے میں گلی میں بچوں کیساتھھ خوب بتمیزی کرتے دیکھہ چکی تھی .]   کی ماں  گلی میں کھیلتی ایک چھے سال کی بچی  سی لڑتی دکھی  ..بچی نی کہا کہ آ نٹی پہلے آپ کی بچےنے
بدتمیزی   کی ہے  تو خاتون نے نہایت  بدتمیزی سے  اس بچی  کو جواب دیا کو بکواس بند کرو  . میرے بیٹے بہت شریف ہیں جب اسے  کہا گیا  کہ آپ پڑھی لکھی نظر آ تی ہیں کیوں ایسے بچوں کے منہ لگ رہی ہیں . تو فرمانے لگیں کہ ہاں میں پڑھی لکھی ہوں اور جانتی ہوں کو ایسے بچوں سے کیسے بات کرنی ہے  . جب ہم نے کہا کہ بچوں کی باتوں میں آ کریوںجھگڑا   کرنا بیوقوفی ہے تو  فرمانے لگی میں تو مجبورا مُحلے میں رہتی ہوں  اوریہ  تو میرا سٹینڈرڈ ہی نہیں ہے میرے بچے تو انتہائی  معصوم اور شریف  ہیں  گلیوں میں رہنے والے بچے چالاک ہوتے ہیں . ہم نے انہیںکہا کہ وہ اینےمعصوم بچوں  کو  اپنے گھر سےباہر ہی نه آ نے دیا کریں تو بولیں کہ میں تو بہت منع  کرتی ہوں لیکن یہ  مانتے ہی نہیں  تو ہم نے  کہا کہ یہی توبچپن ہے کہ ابھی لڑے ابھی پھر یکجا ہو گنے لیکن بڑوں  کی دل میں آ ئ ہوئ  میل  کبھی نہیں جا تی   . لیکن نہیں جناب کتنی دیر کے دلائل کی بعد بھی خاتون مصر رہیں کہ نہیں انکی بات' ان کے بچے' ان کا رویہ ' سب ٹھیک ہے اور باقی سب لوگ انکی باتیں سب غلط ہیں .
  میں آ ج تک یہ  بات نہیں جان پا ئ  کہ ہمارے ما ں  باپ نے ہمیں اس نظرۓ سے پالا کہ ' کھلاؤ  سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے ' . ہم  نے تو یہ ہی دیکھا کہ  ڈسپلنڈ ماںباپ ا وربیجا طرفداری  نہ کرنے والوں کی بچے ہی بڑے ہو کر ان کی طرح   انصاف پسند اور باکردار بنتے ہیں  . کیا ہماری ما ؤں نی ہمیں درد اٹھا  کر پیدا نہیں  کیا تھا. یا ہمیں مشقتوں سے پا لا نہیں تھا . وہ تو ہم سے یوں  نہیں لپٹتے تھے . آج کی انہیں جیسی  ماں باپ کے لیے کہا گیا تھا کو مال  اور اولاد ہی سب سی بڑا فتنہ ہیں ان سی بچننے  کی کوشش کرنی چاہیۓ .آج کی ماں کیوں ایک ناکام ماں ثابت ہوئ جارہی ہے ؟ کیوں آج کی ماںیہ بات بھول گئ ہے کہ یہ دنیا ماں کی گود نہیں ہے ۫؟ یہاں ہر قدم ایک نۓ امتحاں درپیش ہیں اور اچھی ماں وہی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو ان سختیوں او امتحانات   کے لیۓ قبل از وقت تیار کرتی ہے .

ورنہ باڈر پر جاتے یہ سجیلے جوان گھروں کے  پھولوں سے بیٹے جو مائیں  مادر وطن کو پیش کرتی ہیں . جن کے گلے میں ایک ایک پانی کی چھاگل اور جیب میں مٹھی بھر چنے ہوتے ہیں . جس پر وہ کئ  گھنٹوں . دنوں . یا مہینوں بھی رہ جاتے ہیں .کیا وہ ان بیٹوں سے پیار نہیں کرتی ہیں .نہیں جنت کے یہ مسافر اپنی ماؤن کو دنیا میں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں , لیکن ہاں ان کی محبت کا انداز عملی ہوتا ہے ہم جیسا کاغذی نہیں .  کیوں کہ  وہ جانتی ہیں کہ
دنیا ماں کی گود نہیں ہے
........................

پیر، 17 جون، 2013

میرے بابا کا گھر جل گیا ہے ۔ مُمؔتاز ملک ۔ پیرس


ہائے !میرے بابا کا گھر جل گیا ہے 
مُمؔتاز ملک ۔ پیرس



ہم بہت برے لوگ ہیں ۔ ہم بہت بے حس لوگ ہیں ، ہم بہت خود غرض لوگ ہیں،  جن کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں انہیں کے آگے زبان چلانے لگتے ہیں ، جن کی گود مین  جھول کر جوان ہوتے ہیں اسی باپ کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں ۔ جن کے کندھوں پر سواریاں کرتے ہیں انہیں کو سڑکوں پر گھسٹنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ۔ جن کے منہ کے نوالے کھا کھا کر ہم ہٹے کٹے ہوتے ہیں ان کے بڑھاپے میں ہم انہی کو لاغری میں بے بسی اور بھوک کا تحفہ بھی دیدیتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی پوشاک نہ خریدی اس میں نیا پیوند لگا لیا ہم نے انہین کے بدن پر چھیتھڑے بھی نہ چھوڑے ۔ اور تو اور جو ہمیں سر چھپانے کے لیئے اپنے ہڈیاں گلا کر چھت بنا کر دیتے ہیں ،  بدن میں زور آتے ہی ہم انہی کو اس گھر سے نکال کر اس گھر کی اینٹوں پر ایک دوسرے کا سر مارنا شرع کر دیتے ہیں ۔ ارے ہم کیسے لوگ ہیں ۔ خدا ہمیں کیسے معاف کرے گا ۔ ہم تو دوسروں کو دنیا میں رشتوں کا محبت کا درس دینے چلے تھے مگر یہاں تو ہم اپنی ہی منزل سے بھٹک گئے۔ لوگ ہم پر ہنسنے لگے ہیں  ۔ کل رات  جب بڑے بڑے بے دین لوگ بھی اپنے باپ کو کوئی نہ کوئی پھول، کیک، مٹھائیاں رقم اور جو ہو سکا پیش کر رہا تھا ہم نے کیا کیا  ؟ پتہ ہے ہم نے کیا کیا ہم نے اپنے اس بوڑھے باپ کو تحفے میں کیا دیا ہم نے اس کے گھر کو آگ لگا دی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ارے ظالمو یہ کیا کیا ۔ ایسا تو جانور بھی نہیں  کرتے ۔ یہ وہی باپ تھا نہ جس نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اس جدو جہد میں گزار دیئے کہ  سارے بیٹوں کو ایک ملک ایک اپنا گھر دے سکوں جہاں یہ پیا ر اور محبت کیساتھ سکون کی زندگی گزاریں گے ۔  جہاں کوئی انگریز کوئی بنیا انہیں اپنے جوتے چاٹنے پر مجبور نہیں کریگا ۔ کوئی ان کی بہنوں کو بہٹیوں کو ماؤں کو دن دہاڑے اٹھا کر نہیں لیجائے گا ۔ جہاں انہیں نماز پڑھنے لے لیئے آقاؤں سے اجازت نامہ نہین لینا پڑے گا ۔ یہ وہی باباہے نہ جنکی ہڈیاں ٹی بی جیسے موذی مرض نے گُھلا دی تھیں لیکن وہ اپنے سائے سے بھی اس مرض کو پوشیدہ رکھ کر خدا سے یہ دعا کرتا رہا کہ یا خدا میرے ہاتھوں میرے اس گھر کے حُصُول کے خواب کو شرمندء تعبیر ہونے تک مجھے زندہ رکھنا ورنہ میری قوم کے بچے رُل جائیں گے ۔ بیٹیاں بے آبرو کر دی جائیں گی ۔ اور خدا نے اس دُکھی دل کی فریاد کے صدقے میں ہمیں پاکستان نام کا گھر دیدیا ۔ اور بابا نے اس کی بنیادوں میں اینی جان دیدی اور یہ بتا دیا کہ جو لوگ اپنے گھروں کی بنیادوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کرتے قدرت انہین اپنے گھر کی آزادی کبھی نصیب نہیں کرتی ۔  مگر ! !!!!!!! یہاؐں کیا ہوا بابا یہ کتنے ظالم لوگ ہیں انہوں نے اپنے بابا کی روح کو بھی تڑپا دیا انہوں نے تو وہ کر دیا جو آج تک کسی فرنگی اور بنیئے نے بھی نہیں کیا تھا ۔ ہم نے اپنے بابا کے گھر کا آگ لگا دی ۔ ہمیں معاف کر دیں بابا ہم نے آپ کے گھر کو سجانا تو دور کی بات اس کی اینٹوں کو بھی راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا ۔ دنیا سچ کہتی ہے ہم قوم نہیں ایک بھٹکا ہوا ریوڑ ہیں ۔ ہم انسان نہیں اپنے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی ہوس کے پچاری ہیں ۔ ہماری کوئی ماں بہن نہیں ہیں جن کے لیئے ہم گھروں کی حفاظت کریں ۔ ہماری کوئی آبرو نہیں ہے جسے  بچائے رکھنے کے لیئے ہم اپنے بابا کے گھر کی چھت کو مضبوط کریں ۔ اسے لیئے تو ہم نے اپنے بابا کے گھر کو آگ لگا دی ۔ کسی کا دل کیوںنہ  پھٹا ۔ کسی کی آہوزاری کیوں نہیں سنائی دی ۔ کیا سب اندھے گونگے بہرے ہو گئے ہیں تو سن لو میں رو رہی ہوں ۔میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس گھر کی راکھ اپنے سر میں ڈالوں اور چیخ چیخ کر بین کروں۔ آسمان بھی میرے ساتھ مل کر آنسو بہائے کہ کہ ایک بابا کا گھر میرے بابا کا گھر میرے ہی ماں جائیوں کے ہاتھوں جل گیا راکھ کا ڈھیر بن گیا  ۔ ۔ اپنے بابا کی بیٹی رو رہی ہے شاید بیٹیوں کے مقدر میں رب کعبہ نے کچھ زیادہ ہی آنسو رکھ دیئے ہیں جو کبھی بھائیوں کی بے اعتنائی پر روتی ہیں ، کبھی شویر کی بے وفائی پر روتی ہیں، کبھی بیٹے کی نافرمانی پر روتی ہیں، تو کبھی اپنے باپ کے گھر کو جلتا ہوا دیکھ کرتڑپ جاتی ہیں ۔ بیٹیاں رو رہی ہیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میرے بابا کا گھر  جل گیا بابا میں کیا کروں کاش میرے آنسو تیرے گھر میں لگی آگ بجھا سکیں ۔ کاش یہ آنسو میرے بھائیوں کا دیا ہوا یہ داغ دھو سکیں  کاشششششش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ہفتہ، 25 مئی، 2013

مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ممتاز ملک ۔ پیرس


مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
ممتاز ملک  ۔ پیرس


آج کل مردوں میں بڑی ہی تیزی سے ایک مرض پھیلتا جارہا ہے پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہمارے آج کے  آرٹیکل کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ ہم آپ کو اس مرض کی وجوہات، علامات اورعلاج  اور ہاں حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کریں ۔ یعنی آج ہم آگاہی مہم پر ہیں ۔ کیا کہا، کس کی جانب سے ۔ کیا مطلب اب ہمیں کوئی کہے گا نہیں تو ہم کیا ساری عمر کسی مہم پر ہی نہ جائیں ۔ ہاں تو ہم اس مہم پر ہیں ، خود اپنی طرف سے ہی ۔
 اس مرض کی وجوہات میں ریٹائرمنٹ سرفہرست ہے جبکہ بیکاری یا بیروزگاری بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ایک دو جگہ محلٓے مین مرمت کروانا بھی اسکی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اپنے آپ کو مُنٓے راجہ کہلانے کا شوق بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔ ایسے مریضوں کے محلٓہ داروں کو چاہیئے کہ انہیں مُنٓے راجہ ہی پکارا کریں تاکہ یہ اپنے تماشے دوسرے محلے میں کر کے اپنے محلے کی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔
   اس مرض کی علامات یہ ہیں کہ مرد سب سے پہلے تانک جھانک میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اسے اپنے گھر کی عورت کے سوا دنیا کی ہر عورت مس ورلڈ لگنے لگتی ہے چاہے وہ کالی کلوٹی گندی مندی بدبدبودار جمعدارنی ہی کیوں نہ ہو ۔  موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی اپنی بےعزتی کا سامان پیداکرتا رہتا ہے کسی کو کیااپنے دشمنوں کو بھی یہ سامان پیدا کرنے کی تکلیف نہیں دیتا  ۔ اس کام کے لیئے اسکی اپنی حرکتیں جو کافی ہوتی ہیں یعنی کہ موصوف خود کفیل ہوتے ہیں ۔
 دوسرے مرحلے میں جناب کو ایک عدد فیس بُک اکاؤنٹ کی سوجھتی ہے ، یعنی ہری ہری سوجھتی ہے، تو جناب فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں تو اپنی عمر  کا سال غائب کر کے اور ایک عدد پُرااااااااااااااااانی سی فوٹو کو نیا کر کے لگاتے ہیں اور جب بھی کسی خاتون کے خوبصورت سی پک نظر آئی لگے فورا  اس کو ریکوئسٹ بھیجنے، اس کے بعد اس کا حدود اربعہ جاننے کے لیئے بے چین ہو جائیں گے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہی گھر میں بلکہ اپنے ہی بیڈ روم میں  25 سال سےساتھ رہنے والی خاتون( جو کہ بدنصیبی سے ان کی بیگم جانی جاتی ہیں )انہیں ان تک کا حدود اربعہ تک معلوم نہین ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہین کہ چراغ تلے اندھیرا ۔  یا پھر بیگم بغل میں اور ڈھنڈھورا فیس بُک میں ۔
 تیسرے درجے میں یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ ہی مریض اس خاتون سے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں اس خاتون کو جسے فرینڈر بنانا چاہتے ہیں فٹ سے آنٹی کہہ دیتے ہیں ۔ خود کو کم سن ثابت کرنے کے لیئے ۔ اسے کہتے ہیں " چور کی داڑھی میں تنکا"۔
(  ارے مریض برادر فیس بُک رشتہ داریاں بنانے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ  یہاں لوگ اپنی پسند اور ناپسند کی تحریریں یا تصویریں ایک دوسرے کیساتھ  بانٹتے یا بھیجتے ہیں ۔) لیکن ایسے مریض بیچاری فیس بُک کو بھی اپنے مُحلّے کا تھڑا ہی سمجھ کر ٹھرک جھاڑنے کا زریعہ بنا لیتے ہیں جوابا یا تو ذلیل ہوتے ہیں یا پھر بلاک ۔
   مرض کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے خواتین سے ان کا سکائب پر بات کرنے کا اصرار ۔ جس میں یہ کُھل کر اپنی اوقات دکھانا چاہتے ہیں تو مذید شرمندہ کیئے جاتے ہیں ۔
اس مرض کو کہتے ہیں عمر چوری کا مرض جو کہ کبھی خواتین میں بکثرت پایا جاتا تھا ۔ لیکن اب مبارکاں مردوں میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے  ۔
 اب ہم آپ کو بتاتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج ۔ ایک مرتبہخواتین اور مردوں کی  ایک مشترکہ ادبی نشست میں کسی خاتون نےشاعر مشرق جناب علّامہ اِقبال سے پوچھا کہ جناب خاتون  کی جمع تو ہے خواتین  ۔ تو مرد کی جمع کیا ہوئی   ؟ تو علّامہ اِقبال نے برجُستہ جواب دیا کہ مرد کی جمع ہوئی مۤردُود ۔ یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ پڑا ۔ اس سچے لطیفے کی سمجھ ہمیں بھی بڑی دیر سے آئی ۔ 
ایسے مریض مرد سمجھتا ہے کہ فیس بُک شاید اسکے دل کا کوئی راز ہے جسے کوئییییییییییییی نہیں جان سکتا ۔
 جبکہ اسکا علاج یہ ہے کہ اسے کوئی قابل بچہ یا دوست بیٹھ کر سمجھائے کہ بڑۓ ابّا ۔ یا انکل ماموں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیٹ کی دنیا اور خاص طور پر فیس بُک کی دنیا ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے دو فرشتے منکر نکیر ہمارے کندھوں پر قلم دوات دیکر بٹھا رکھے ہیں کہ ہماری ہر چٓوّل کو نوٹ کریں اسی طرح چند شریر ذہنوں نے فیس بُک بنا دیا تاکہ ہم اپنے کرتُوتوں کو اپنے ہی ہاتھوں اس میں ایڈ کرتے جائیں ۔ اور گندے گندے کمنٹس دیکر یا فیک نک سے آئی ڈیز بنا کر یا گندے واہیات ولگر لائیکز کر کے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اسے ڈیلیٹ کر دیا تو یہ  بے نام و نشان ہو گیا یا ہم نے اسے پوشیدہ کر دیا تو اب یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ جی نہیں اس میں ہماری ہر کی ہوئی بات شاید ہم تو بھول جائیں لیکن برادر مریض یہ شیطانی جال ہمیں کبھی بھولنے نہیں دیتا ۔
لہذا یا تو نیٹ استعمال کرنا ہے تو اسکی تھوڑی سی سیکھ لیکر اسکا استعمال کریں  اور تہذیب اور شائستگی سے بھی کبھی کبھی اپنی واقفیت کا اظہار کر دیا کریں اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آپ کو جھیلنے والے کی صحت پر بھی ۔ یا پھر جس حساب سے بابوں کے اور شوقین مردوں کی شکایتیں ہو رہی ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بہنوں کو گھروں مین لیپ ٹاب  پر لکھ کر لگانا پڑے کہ اسے چھچھوروں اور بابوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
                                     منجانب ۔ تحفظ بچیات و دفعانِ واہیاتیات
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2013

عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے / ممتازملک ۔ پیرس


عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے

ممتازملک ۔ پیرس


کافی عرصے سے پاکستان میں ایک ایسی پارٹی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو آ کر ملک میں قائم دو پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑ سکے ۔   اپنی 17 سالہ جدوجہد کے بعد اور بلند ارادے اور حوصلے سے بآلاخر تحریک انصاف کی صورت عمران خان نے اپنی پارٹی کو وہ تیسری  پارٹی بنا ہی لیا  جو کہ عوام کی خواہشات کو شرمندء تعبیر کرنے کا عزم لیکر میدان عمل میں کود چکی ہے ۔ آج سے دو سال پہلے عمران خان کی سونامی  کواسوقت ایک بڑا دھکہ لگا جب جوک در جوک دوسری پارٹیز کے ممبران نے اس کا رخ کرنا شروع کیا ۔ اور تحریک انصاف کے نادان مشیروں نے یہ سوچے سمجھے بغیر بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیا  کہ جو لوگ بیس بیس سال تک کرسیوں کے مزے لوٹنے کے بعد بھی ملک کے لیئے کچھ اچھا نہ کر سکے اُلٹا ملک کو اربوں روپے کا چونا لگاتے رہے  ۔ وہ  بھلا آپ کی پارٹی کو نوالہ تر سمجھنے کے سوا اور کیا کریں گے ۔   ایک نئی اور ابھی نہ آزمائی ہوئی پارٹی کو شکار کرنے کا منصوبہ اس کے اپنے نادان دوستوں نے بڑی ہی کامیابی کے ساتھ پورا ہونے دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا بہت سے وہ مخلص کارکنان جنہوں نے یہ سوچ کر اس  نئی پارٹٰ کو اپنا وقت ، حوصلہ اور طاقت دی کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی اپنے ملک کے لیئے کوئی اچھا کام کرنے کا موقع یہ قوم ضرور دیگی ۔ وہ سب ہی بدظن ہو گئے  ۔ لوگوں کی  امیدوں کا  مورال جو دو سال پہلے ایک دم آسمان کی بلندیوں تک پہنچا ۔ وہ ایک دم سے زمین پر آرہا ۔ اور ایسے نوجوانوں کی اکثریت نے اس پارٹی کا رخ کیا جو بیشک پڑھے لکھے تو بہت تھے لیکن تہذیب اور تمیز سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ انہین فر فر انگریزی بولنی تو آتی تھی لیکن کس سے کیسے بات کرنی ہے اس کی الف بے  سے بھی وہ واقف نہیں تھے  ۔ دوسری جانب عمران خان اس ایکدم کے بہاؤ کو شاید پوری طرح سے سنبھال نہیں پا رہے تھے جسکا ثبوت ان کی پارٹی کے ممبران اور ورکرز کے وقتا فوقتا نظر آنے والی بدتمیزیاں اور بےترتیبیاں تھیں ۔ کہیں پنڈال الٹے ۔   تو کہیں کھانے کی لوٹ مار کی گئی ۔ کہیں کرسیاں اور برتن لوٹ لیئے گئے تو کہیں پارٹی الیکشن کے موقع پر ایک دوسرے کی جم کے دھنائی کی گئی ۔  یہ سب کیا تھا یہ کوئی الزامات نہیں ہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں ۔ ہماری بات کا مطلب کہیں بھی تحریک انصاف میں کیڑے نکالنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسی پارٹی کو ایک اچھے شہری کے طور پر یہ مشورہ دینا ہے کہ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کون کون سی خامیاں رہیں کہ جن کی وجہ سے ایک ایسی پارٹٰ کو جسے کم از کم 100 سے 150 تک نشستیں حاصل کرنی چاہیئں  تھیں وہ صرف 25 سے    35 سیٹوں کے بیچ جھول گئی ۔  کیوں کہ یہ پانچ سال  ہر اس پارٹی کے ایک ایک ممبر کے لیئے ایک ٹرائل پیریڈ ہے جو آئندہ پاکستان میں رہنا چاہتی ہے یا پورے پاکستان پر اپنا سکہ جمانا چاہتی ہے ۔ ایک تو آپ اپنے  ورکرز اور ممبران کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تمیز سے بات کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ پڑھائی لکھائی سرٹیفیکیٹ کی صورت سجانے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے عملی طور پر بھی آپ کی بات چیت  ، اخلاقیات اور طور طریقوں میں   نظر آنا چاہیئے ۔  ہر وقت ہر جگہ ہماری ہی مرضی کی بات نہیں ہوتی ہے ۔ اسلیئے جہاں کہیں کسی سے بات کریں تو اتنے اچھے اور مدلل لہجے میں کریں کہ ان کی بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن ان کے اخلاق کی ایک اچھی چھاپ ضرور اس کے دل پر چھپ جائے ۔ کیوں کہ صرف یہ ہی ایک ایسی صورت ہے جب کوئی شخص آپ کی بات پر غور کرنے پر تیار ہو گا کیوں کہ کوئی بھی شخص زبر دستی ڈنڈے کے زور پر تو اپنی کوئی بات کسی سے کبھی بھی نہیں منوا سکتا ۔ ۔ ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی سمجھداری ہے ۔ ویسے بھی پھل دار ڈالیاں جھکی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں ۔ اکڑے ہوئے پیڑوں کے تو سائے نہیں ہوتے ۔ 

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 

جمعرات، 16 مئی، 2013

● (7) تیرے نظارے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(7) تیرے نظارے



 اے وطن تیرے نظارے اسقدر سستے نہیں

منزلوں تک جو نہ پہنچیں ایسے بھی رستے نہیں 

ہم جنہیں اپنا کہیں وہ جانتے ہیں بات یہ 
دوستوں کی ہم لگامیں پر کبھی کستے نہیں 

جن گھروں میں چین ہواور صحن میں بھی سکھ بسے
ان گھروں میں بھوت  آ کر پھر کبھی بستے نہیں 

اے وطن جو لوگ عزت قرض میں لیتے نہیں
یہ جہاں والے کبھی ان لوگوں پہ ہنستے نہیں 

جن کے پیروں میں نہیں کانٹوں پہ چلنے کی سکت
ایسے لوگوں پر کبھی گُل آ کے برستے نہیں 

کیا بتائیں ہم کہ دنیا پوچھتی ہے ہر جگہ
  چاہنے والے تیرے کیا اس نگر بستے نہیں 

ممتاز تجھ کو خواب کے نذرانے کیوں کر دے سکے
 کیوں کہ میرے ہاتھ یہ اب ریت میں دھنستے نہیں 
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بلی تھیلے سے باہر ۔ کالم



بلی تھیلے سے باہر آہی گئی 
ممتازملک ۔ پیرس


 لیجیئے ملاحظہ فرمایئے کل تک جو باتیں ایم کیو ایم کی جانب سے الزامات کہی جاتی تھیں آج ان تمام باتوں پر انہین کے نام نہاد لیڈر نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے  ۔
بہت سالون سے جو چنگاری الظاف حسین اپنے سینے میں دبائے بیٹھے تھے آج اسے اس لاوے کی  الٹی ہو ہی گئی ۔ایلیکشن تو ایک بہانہ تھا۔ حقیقت میں 25 سال سے الطاف حسین المعروف الطاف بھائی جس محاذ پر تھے اس میں کراچی والوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائیں اپنے پیاروں کے لاشے بھی اٹھائے ، بوری بند لاشوں اور نامور لوگون کی ٹارگٹ کلنگ کے زریعے کراچی کو نایاب لوگوں سے پاک کرنے کے سنگین منصوبے بھی بھگتے ۔ اس بار کا ایلیکشن  میڈیا کے انقلاب کا ایک بہت بڑا ٹٰیسٹ کیس تھا ۔  جسے پاکستانی قوم نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے تو پاس کر لیا لیکن جن لوگوں کو پچھلے تماشوں کی عادت تھی ان کا ہاضمہ ضرور خراب ہو گیا ۔   جس پولنگ بوتھ پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجاذت نہیں دیگئی وہاں پرجعلی ووٹنگ کو کیا کھیل کھیلا گیا   کئی خفیہ موبائل کیمرے اپنی آنکھوں میں ان مناظر کو قید کر رہے تھے جو جعلی کامیابیوں کا رونا روتے نظر آئے ۔ جعلی انگوٹھوں کی بہار بھی دیکھی گئی ۔ پورے پورے رجسٹر پر چند پارٹی کے لٹیرون کو دھڑا دھڑ ٹھپے ۔ انگوٹھے لگاتے واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں کسی کا انگوٹھے کا نقش کسی بھی دوسرے کیساتھ نہیں ملتا ۔اب جب  کہ ایلیکشن کا ایک ایک ایکشن قوم کی نظر میں آ چکا ہے تو ایک جانب تو الطاف حسین نے  نواز شریف کوسارے ملک میں سیٹیں لینے کے باوجود  پنجابی لیڈر کہہ کر اپنے تعصب کا کھلا اظہار کر دیا ۔ دوسری جانب کراچی میں بھی اپنی سیٹس جو غنڈہ گردی کے زریعے جیتی جاتی تھیں وہ بھی جاتے دیکھ کر موصوف اپنا آپہ ہی کھو بھیٹھے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے ۔ بندہ پوچھے جگت بھائی صاحب  آپ بقول اپنے اتنے ہی کامیاب لیڈر اور جماعت کے بانی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج 25 سال سے بھی ذائد عرصہ سیاست کے میدان میں گزار کر بھی آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کھلے بندوں  کوئی بھی سیٹ کیوں نہیں جیت سکے ۔ کیوں کسی اور شہر نے آپ کو اپنے ہاں ترقیاتی کاموں کے لیئے اعتبار سے نہیں نوازا۔ کیوں کوئی بھی شخص آپ کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھنا  چاہتا ۔ تو بھائی صاحب یہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ بہت بڑی سچائی ہے ۔ کہ جان بوجھ کر اپنی موت کو کوئی دعوت نہیں دیتا ۔ لہذا آپ کو بھی کسی نے اپنے شہر میں قبول نہیں کیا کیوں کہ آپ کی جماعت کا ماضی اور  تصور دونوں غنڈہ گردی / بوری بند لاشوں / ٹارگٹ کلنگ /بھتہ خوری / اغواہ برائے تاوان / ٹارچر سیلوں سے اٹا ہوا ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو قومی لیڈر مان لیا جائے ۔کسی بھی ایشو پر ہر گھنٹے بعد تو آپ کا انکار اور اقرار تک بدل جاتا ہے ۔  آپکا اپنا کوئی دین اور ایمان آج تک نہ تو آپ کی اپنی باتوں میں نطر آیا نہ ہی آپکی پارٹی کے افراد کے قول و فعل میں ۔ اسی لیئے آپ لوگ  اپنا وقار  بھی قائم نہ کر سکے ۔ خود کو جناح کی اولاد کہنے والوں کو شرم آنی چاہیئے  ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ  جنہوں نے قائد کے شہر کو اسی کے باسیوں کے لہو میں ڈبو دیا اوروہی قاتل شہر  اپنے نام کیساتھ آج بھی قائد کا نام لگاتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں موصوف کی تما م  تقاریر کو اکھٹا کر کے سنا جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے ایک ایسے آدمی کا چہرہ سامنے آتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے نہ تو اسے اس ملک سے محبت تو کیا دوردورتک کوئی ہمدردی ہے نہ ہی  اس ملک کے لوگوں کیساتھ اسکا کوئی درد کا رشتہ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے ادمی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس کی موشگافیوں کا بھرپور علاج کیا جائے ۔ اس سے پہلے کہ پھوڑا ناسور  ۔۔بنے اس کا فوری علاج ملک و قوم کے مفاد میں بہت ضروری ہو چکاہے  ۔ خدا کے لیئے اپنے ملک سے محبت کیجیئے ۔ یہ ملک ہی ہماری ماں ہے ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی ماں کا دامن جھٹکنے والے نہ تو دنیا میں کامیاب ہوئے نہ ہی انہیں آخرت میں بخشش ملی ۔ اور نہ ہی انہیں تاریخ میں کوئی باعزت مقام ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔




منگل، 7 مئی، 2013

ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب) ممتاز ملک ۔پیرس


ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب)
ممتاز ملک ۔پیرس





  1. پیرس میں 5 مئی 2013 کو ماؤں کے دن کے سلسلے مین ایک پروقار تقریب کا اہتمام انصاف وویمن ایسوسی ایشن کے تحت کیا گیا ۔ اس پروگرام  میں بین الاقوامی سطح کی نامور شخصیات کی شرکت نے اسے ایک یادگار تقریب بنا دیا ۔  ان کامیاب خواتین مین انگلینڈ سے نور ٹی وی کی میزبان محترمہ سمیہ ناز صاحبہ ، سپین سے  آسے سوپ کی روح رواں ڈاکٹرھما جمشید صاحبہ ، ڈنمارک سے نساء ٹی وی کی منیجنگ ڈائیریکٹر اور معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا صاحبہ اور اٹلی سے دی جزبہ کے چیف ایڈیٹر محترم اعجاز حسین  پیارا صاحب نے خیر سگالی کے جزبے کے تحت خصوصی  شرکت کی ۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اسکے بعد بچوں نے ایک نعت پاک کی سعادت حاصل کی ۔ ایسوایشن کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے مہمانان کو خوش آمدید کہا ۔ ڈاکٹر ھما جمشید صاحبہ نے خواتین پر زور دیا کہ ایسے تمام عناصر جو اچھے  گھرون سے تعلق رکھتی ہین اور اپنی خاندانی ذمہ داریون کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریان احسن طریقے سے انجام دی رہی ہین ان کے خلاف ایک مخصوص ٹولہ کافی عرصے سے ان کی کردار کشی کرنے مین ایکا کیئے ہوئے ہے ۔ جن کا مقصد صرف اور صرف ایسی خواتین کو اپنی فیلڈ مین کام کرنے سے روکنا ہے جو ان کی کسی بھی قسم کی ناجائز مانگون کو پورا کرنے سے انکار کرتی ہین ۔ انہون نے خواتین پر ذور دیا کہ ایک اچھی مان کے حیثیت سے وہ تب ہی اچھی تربیت کا فریضہ ادا کر سکتی ہین جب کہ وہ خود اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہون اور ان کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہون ۔ ورنہ وہ خواتین کو ان کے کردار پرکیچڑ اچھال کر یون ہی کھڈے لائن لگاتے رہین گے ۔ صدف مرزا صاحبہ نے  فرمایا  پچھلی صدی مین بھی اسی طرح بدنامیون کے بوجھ کے نیچے کئی باکردار خواتین دب کر خود کشی تک کرنے پر مجبور کر دی گئیں  ۔ کیون کہ کسی بھی خاتون اور خاص طور پر اگر وہ ایک ماں ہے تو اس کے لیئے سب ے آسان طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے ختم کرنا ہے تو اسے اس کی اولاد کی نظر مین گرا دیا جائے ۔  وہ عورت خود بخود مر جائے گی ۔ لیکن بدمعاشی کی ان مثالون کو ہم اس صدی مین مشعل راہ نہین بننے دینگے ۔ اور ایسے تمام لوگون کا ہر پلیٹ فارم پر محاسبہ کیا جائیگا جو خواتین کو اور ماؤں کو اپنے غلط مقاصد کے لیئے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں ۔  اس کام کے لیئے خواتین کو یہ بات جاننی ہو گی کہ جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کی جانی والی گھٹیا کاروائیون کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی ۔  سمیہ ناز صاحبہ نے ایسے لوگون کی کاروائیون کو قابل افسوس قرار دیا ۔ ممتاز ملک نے اپنی کتاب ،،مدت ہوئی عورت ہوئے سے ،،سے اپنی نظم  ،، یہ مائیں کیون مر جاتی ہین ،، پیش کر کے داد سمیٹی ۔ اور ماؤن کو سلام پیش کیا ، انہون نے کہا کہ سب کو اپنی ماں بہت اچھی لگتی ہے ۔ لیکن زندگی کے تین ادوار ہوتے ہین ایک دور جب بچہ ہر طرح  سے ماں کا محتاج ہوتا ہے تو اسکی کل کائینات اسکی ماں ہوتی ہے پھر ٹین ایج آتی ہے تو بچے کو نئی جوانی میں اپنی ماں ہی اپنی دشمن لگنے لگتی ہے  پھر جیسے ہی اس کی یہ عمر بیس بائیس کی حد پار کرتی ہے اور اپنے مان باپ بننے کا زمانہ آتا ہے تو پھر سے اولاد کو شدت سے اپنی ماں کی قربانیوں کو احساس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہ محبت عقیدت کا روپ بھی دھار لیتی ہے ، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو ماں باپ کی زندگی میں ہی یہ بات جان لیتے ہین اور ان کی خدمت کا موقع حاصل کر لیتے ہین ۔  محترم اعجاز حسین پیارا نے تمام ماؤں کو خراج عقیدت  پیش کیا ۔  اور تمام ماؤں بہنون کو اس بات کو یقین دلایا کہ ہم لوگ بھائیون کی طرح  اپنی ماؤں بہنون کی عزتون کی حفاطت کرنا جانتے ہین ۔ اور سبھی مرد ابھی اتنے بے غیرت نہین ہوۓ کہ یہ بھول جائین کہ ان کے اپنے گھرون مین بھی مائیں بہنیں بیٹھی ہین اگر آج آپ کسی خاتون کی کردار کشی کرتے ہین تو اصل مین آپ بلا واسطہ اپنے ہی گھر کی خواتیں کو ذلیل کر رہے ہوتے ہین ۔ انہون نے ایسی تمام کاروائیون کی بھر پور مذمت کی ۔ جناب اٖفضل گوندل صاحب نے بھی بہت جذباتی انداز مین ماؤں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ایسے لوگون کو شرم دلائی کہ ہر مرد صرف مرد ہی نہین ہوتا بیٹا بھی ہوتا ہے بھائی بھی ہوتا ہے ، باپ بھی ہوتا ہے ، اسے اپنے تمام رشتون کو نبھانا بھی آتا ہے اور جو شخص خواتین کا احترام نہین کرتا تو گویا وہ اپنے گھر میں بھی نہ تو اچھا بیٹا ہو گا ، نہ ہی اچھا بھائی اور نہ ہی اچھا باپ ہو گا ۔   ایک نوجوان مظہر نے  بہت  ہی خوب صورت انداز مین  ماں کی شان میں نظم پیش کی اور آنکھوں کو آبدیدہ کر دیا ۔ بہت سی خواتیں اور بچون نے اپنی ماؤن کی یاد میں خوبصورت باتون کو بانٹا ۔    پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر ہما جمشید نے شاہ بانو میر صاحبہ کو چادر اوڑھا کر انہیں عزت دی ۔ صدف مرزا صاحبہ نے بھی دوپٹہ اوڑھا کر انہین ماؤں کی عزت کی حفاظت کے محاز پر انہین اپنے ساتھ کا یقین دلایا   ۔ اور کہا کہ یہ دوپٹہ ان کے لیئے اسلیئے بھی بہت خاص ہے کہ یہ ان کی مرحومہ والدہ کی نشانی تھی جسے وہ اس خاتون کو اس لیئے پیش کر رہی ہیں کہ وہ ان کی نظر مین ماؤں کی عزت کی علامت ہیں ۔  اور اس بات کا بھی یقین دلایا کہ مٹھی بھر بدقماش ٹولے کے ہاتھوں تحریر کے ذرائع کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا ۔ یوں یہ خوبصورت شام شرپسندون کو یہ پیغام دیتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچی کہ جو اپنی ماں کی عزت کرتا ہے وہ کبھی کسی اور کی ماں بیٹی پر انگلی نہین اٹھا سکتا ۔ 
 ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/