فیروز پور انڈیا کے نوجوان شاعر قمر جاوید لیاقتی کے شعری مجموعہ کلام "رات کا مسافر" پر تبصرہ۔
تبصرہ نگار: ممتازملک
پیرس فرانس
زرا دھیان دیجیئے۔۔۔۔
اس وقت بلاؤں میں گرفتار ہوں اللہ
میری ہیں تیری شان کریمی پہ نگاہیں
بے یار و مددگار ہوں لاچار ہوں اللہ
طوفان کی زد میں ہے میرے دل کا سفینہ
کر مجھ پہ کرم تیرا پرستار ہوں اللہ
جاوید قمر لیاقتی ایک نوجوان شاعر جو ان کے یہ اشعار پڑھنے کے بعد آپ کو اپنا اور اپنے خدا کا تعلق بہت آسانی سے سمجھاتے ہیں۔
اس کتاب رات کے مسافر کے ان کے پہلے کلام پر ہی جب میری نظر پڑی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی شاعری نہ صرف قافیہ اور ردیف سے سجی ہے بلکہ مضمون باندھنے میں بھی وہ ماہر ہیں۔ ہندوستان کے شہر فیروز آباد میں رہنے والا یہ نوجوان ہوں تو ڈاکٹر ہے لیکن اردو زبان سے محبت میں شاعری سے اپنا تعلق خدا کی دین کے طور پر بڑی خوبصورتی سے ظاہر کر رہا ہے۔ حقیقت پر اس کی نظر ہے۔ وہ اپنے رابطوں کو شعر کی صورت ڈھالتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔
نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی محبت ظاہر کرتے ہیں تو کہتے ہیں
راہ حق سے وہ بھٹک جائیں یہ ممکن ہی نہیں
جن کے ہیں پیش نظر سیرت رسول اللہ کی
آپ کے قدموں پہ میرے جان و دل قربان ہیں
دیکھ کر بولے عمر صورت رسول اللہ کی
اندازہ لگائیے کہ وہ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں الفاظ کے چناؤ کا ، احترام کا کس قدر خیال رکھتے ہوئے اسے بیان کر رہے ہیں۔ یقینا نعت کہنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔
اگر ان کے باقی کلام کو دیکھتے ہیں تو کیا کیا مضامین باندھے ہیں انہوں نے۔
کہیں کہتے ہیں
سنا ہے بستی سے آندھی گزرنے والی ہے
تمہارا پھونس کا چھپر ہے جاگتے رہنا
سمجھ کے آئینہ تم جس کے پاس بیٹھے ہو
وہ ائینہ نہیں پتھر ہے جاگتے رہنا
تباہ کر نہ دے تم کو یہ نیند غفلت کی
یہ مانا پھولوں کا بستر ہے جاگتے رہنا
یوں جس کلام میں جس شعر کو بھی آپ پڑھیں گے ۔ واہ واہ کر اٹھیں گے ۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
میرے خط لے کے تیرے کوچے میں
اب کوئی ڈاکیا نہیں جاتا
دل بہت قیمتی نگینہ ہے
یہ سبھی کو دیا نہیں جاتا
ذکر سب کا ہے تیری محفل میں
نام میرا لیا نہیں جاتا
یا یہ شعر پڑھیئے
رشتوں کا خون ہونے لگا گام گام پر
آتا ہے اب تو رونا محبت کے نام پر
اپنوں سے دکھی ہوئے تو ببانگ دل آوازاٹھاتے ہیں کہ
تباہی میں میری شامل ہیں اپنے
کسی دشمن کی یہ سازش نہیں ہے
مکان چھوٹے بڑے اس شہر کے ہیں
یہاں مہمان کی گنجائش نہیں ہے
آج کے نفسا نفسی کے دور سے شاکی ہوئے تو کہا۔۔۔
پہلے تو اس حویلی میں ہر سو تھیں رونقیں
ارمانوں کی حویلی کھنڈر بعد میں ہوئی
جھک کر سلام کرتی تھی دنیا ہمیں قمر
ہستی ہماری زیر و زبر بعد میں ہوئی
ایسے ہی اور بے شمار اشعار سے سجی ہوئی یہ کتاب "رات کا مسافر" آپ کو دعوت مطالعہ دیتی ہے. اس نوجوان شاعر کے لیے تہہ دل سے بہت ہی دعائیں اور نیک خواہشات۔
ان کا آگے کا سفر بہت روشن دکھائی دیتا ہے۔ سبھی پڑھنے والے یقینا اس کتاب کو اپنی لیئے ایک خوبصورت تحفہ جانیں گے ۔
دعا گو:
ممتازملک
پیرس، فرانس
( شاعرہ , کالم نگار ، کہانی کار عالمی نظامت کار)