دل دہلتا ہے سوچ کر میرا
کیسے دل سے اتار دیتے ہیں
اپنے وقتی مفاد کی خاطر
لوگ لوگوں کو مار دیتے ہیں
سرحدیں ہجرتیں دکھاتی ہیں
پھول لیتے ہیں خار دیتے ہیں
کوئی مسلک کا کوئی مذہب کا
نام لیکر شکار دیتے ہیں
مدتیں ہو گئیں انہیں دیکھے
جو مقدر سنوار دیتے ہیں
رہنما ایسے ہم نے پائے ہیں
آر لیتے ہیں پار دیتے ہیں
بیقراری نتیجہ ء الفت
جھوٹ ہے کہ قرار دیتے ہیں
پشت پر تیر کے نشاں ہیں جو
اس زمانے کے یار دیتے ہیں
جھوٹے وعدے فریب لفاظی
آرزو انتظار دیتے ہیں
ہم سے نادان سچ سمجھتے ہوئے
جان ممتاز وار دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں