ادب سرائے کا تازہ شمارہ
ناصر علی سید کی تحریر:
دوستوں کے لئے۔۔۔۔میرے کالم میں احباب کی رسمی اور غیر رسمی نشستوں کا، مہمان شاعرہ ممتاز ملک کا اور پشاور کے قلم قبیلہ کے لئے ایک پیغام اختر شیرانی کی غزل کی وساطت سے۔۔گر قبول افتد۔۔۔۔۔۔۔ناصر علی سیّد
ایک ہی بستی میں ہیں، آساں ہے ملنا، آ ملو
سنا تو یہی تھا کہ جلد ایک کتاب کی رونمائی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے، لیکن بہت دنوں تک پھر کوئی سن گن نہ تھی،میں بھی بھول گیالیکن تین چار دن ادھر ایک میسج سے عقدہ کھلا کہ پیرس میں مقیم ایک پاکستانی شاعرہ ممتاز ملک پشاور میں ہے اور ان کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا اہتمام حیات آباد کے فیز فائیو میں کیا جا رہا ہے،مجھے یاد آیا کہ ممتاز ملک چند برس پہلے بھی جب پاکستان آئی تھیں تو پشاور یاترا کے دوران حلقہئ ارباب ذوق پشاور کی ہفتروزہ نشست میں بھی شریک ہوئی تھیں اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس دن حلقہ کی نشست ”غالب فہمی“ کے لئے مخصوص تھی،غالب کی غزل میں احباب نے عمدہ گفتگو کی تھی جس میں ممتاز ملک نے بھی حصہ لیا تھا اور جو یہ جو تنقیدی نشستیں ہوتی ہیں اس میں تخلیقات پر گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو تا کہ بات کرنے والے کو ادب سے کتنی دلچسپی اور کتنی دسترس ہے، پشاور میں تنقیدی نشستوں کا یہ سلسلہ قیام پاکستان سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اور اردو کی حد تک حلقہئ ارباب ذوق،ینگ تھنکرز فورم،حلقہئ فکر و نظر،ادارہ علم و فن،سنڈیکیٹ آف رائٹرز،ملاقات، مکالمہ، وجدان،انجمن ترقی پسند مصنفین اور کئی دیگر تنظیمیں اپنی سی کوششیں کرتی رہی ہیں، اور ہر تنظیم کے اجلاس میں شہر کے کم و بیش سارے تخلیق کار شریک ہوتے رہے ہیں،اور اب تو فقط ایک حلقہئ ارباب ذوق ہے جس میں سینئر احباب تکلف سے شریک ہو تے ہیں غنیمت ہے کہ سیکریٹری سید شکیل نایاب اور جوائنٹ سیکریٹری راشد حسین کی کوششوں سے اب نو واردان ِ ادب نے حلقہ کی تنقیدی نشستوں کو آباد کر رکھا ہے، شنید تھا کہ ممتاز ملک کے اعزاز میں شعری نشست شاید شہر میں ہو گی شاید اباسین آرٹس کونسل میں ہو نا تھی مگر پھر قرعہئ فال فیز فائیو کے نام نکل آیا، جگہ دور تھی،پہنچنے میں بھی دیر لگی، لیکن ٹھنڈے کمرے نے شعرا کی بہت کم تعداد کے باوجود ایک عمدہ نشست کے لئے اچھا ماحول بنا دیا تھا، شعری نشست سے پہلے مہمان شاعرہ کی پوری گفتگو تو نہ سن سکا، لیکن جتنی بھی سنی اس سے ان کی اپنی مٹی،اپنی صنف اور اپنی اقدار سے محبت اور کمٹمنٹ مترشح تھی، ڈاکٹر صغیراسلم میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے، وہ بھی گرمیوں کی طویل چھٹیاں کینڈا میں گزار کر اسی ہفتے پشاور آئے تھے، تقریب میں شاعرات کی تعداد اگر شاعروں سے بہت زیادہ نہ بھی تھی تو کم بھی نہ تھی، ممتاز ملک کی تازہ کتاب دراصل ان کا نعتیہ مجموعہ ”اے شہہ محترم“ ہے جس میں حمد و نعت کے ساتھ ساتھ منقبت و سلام و مناجات بھی شامل ہے۔ اس تقریب کا اہتمام عزیز اعجاز نے کیا تھا، ممتاز ملک اچھے شعر اور اپنے صلح کل رویہ کے ساتھ چونکہ سوشل میڈیا پر بھی خاصی متحرک ہے اس لئے ایک بڑا حلقہ ان کا گرویدہ ہے، عزیز اعجاز نے ایک پر تکلف عصرانے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا،تقریب کے بعد دیر تک فوٹو سیشن ہوتا رہا اور سلفیاں بنتی رہیں، اب یہ بھی پس تقریب کی ایک لازمی سرگرمی بن گئی ہے، ہم دیر سے آئے تھے اور د یرسے واپس گھر آئے، کچھ عرصہ پہلے جب امریکہ سے شاعرہ و براڈکاسٹر الماس شبی آئی تھی تو تقریب کے بعد پار کنگ میں بھی کوئی گھنٹہ بھر تصویریں بناتے رہے کہ وہ شب مہتاب تھی، مگراب کے اماوس تھی یعنی یہ رات قمری مہینے کی آخری راتیں میں سے تھی پھر بھی ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنے میں بہت وقت لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب پشاور میں اس طرح کی ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کے مواقع بہت کم ہو گئے ہیں، اس سے کچھ دن پہلے جب میں اور مشتاق شباب نذیر تبسم کے پاس چند لمحوں اور ایک مختصر سی میٹنگ کے لئے گئے تھے تو وہ ملاقات بھی گھنٹوں تک پھیل گئی تھی،وجاہت نذیر نے ایک تصویر بنائی جسے فیس بک پر دیکھنے والوں نے وائرل کر دیا اور تینوں دوستوں کے ا َحبّا نے مزے مزے کے کمنٹس کئے اور کچھ دوستوں نے استفسار کیا کہ کیا گفتگو ہوئی؟گویا تصویر کے لئے شکریہ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ آپ وہ باتیں بھی شئیر کریں جو آپ تینوں دوستوں کے مابین ہوئیں، میں نے وعدہ بھی کر لیا کہ جلد بات کریں گے اصل میں ہم جلد ہونے والی ایک تقریب کے خد و خال ترتیب دینے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے، اور ظاہر ہے کہ پھر شہر اور پاکستان کے حوالے سے رفتار ادب پر بھی بات ہوئی، کچھ دوستوں کی کتابوں پر اور ان کے کام پر بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا گیا، کہ کچھ دوست سر جھکا کے کار ادب کو آگے بڑھانے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، اس سے خیبر پختونخوا کا ادب دوسروں منطقوں تک پہنچ رہا ہے، خصوصا جو دوست یہاں سے جا کرباہر کے ممالک شفٹ ہو گئے ہیں،وہاں بھی وہ اپنے علاقے کے سفیر بن کر کام کر رہے ہیں ابھی انگریزی زبان میں ایک چھوٹی سے کتاب پشاور کے حوالے سے ڈاکٹر سید امجد حسین کی آئی ہے، اور ان کی محبت کہ اس کی کچھ نسخے مجھے بھیجے ہیں، پشاور کا یہ ایک عمدہ تاریخی،ادبی ثقافتی اور سماجی تعارف ہے، ڈاکٹر سید زبیر شاہ اور ڈاکٹر اویس قرنی کے افسانوں پر بھی بات ہوئی، کوہاٹ کے طرحدار شاعر و ادیب کے شعری مجموعہ سرمئی پر بھی میں نے بات کی اور دوستوں کو بتایا کہ ان کے انگریزی ادب کے سلسلے میں اچھے مضامین اور تراجم نیٹ کی باوقار ویب سائٹس پر مو جود ہیں، باین ہمہ یہ ایک مختصر سی ملاقات تھی اور ضرورت ہے کہ شہر میں اس طرح مل بیٹھنے کا اہتمام اگر تواتر سے ہو تو شاید باقی شہروں کی طرح یہاں کی ادبی فضا بھی متحرک اور فعال ہو جائے، اختر شیرانی نے جو کل کہا تھا۔۔ شہر گل کے نئے پرانے سارے تخلیق کاروں کے لئے۔۔ آج اِن اشعار میں پیغام بھی ہے اور دعوت ِفکر بھی۔۔۔۔۔
دو گھڑی مل بیٹھنے کو بھی غنیمت جانئے
عمر فانی ہی سہی یہ عمر فانی پھر کہاں
آ کہ ہم بھی اک ترانہ جھوم کر گاتے چلیں
اس چمن کے طائروں کی ہم زبانی پھر کہاں
ایک ہی بستی میں ہیں آساں ہے ملنا آ ملو
کیا خبر لے جائے دَور آسمانی پھر کہاں
فصل گل جانے کو ہے دور خزاں آنے کو ہے
یہ چمن، یہ بلبلیں یہ نغمہ خوانی پھر کہاں
آج آئے ہو تو سنتے جاؤ یہ تازہ غزل
ورنہ اختر پھر کہاں یہ شعر خوانی پھر کہاں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں