بات کیسے ہو بدگمانی میں
جھوٹ پلتا ہے لن ترانی میں
آج تنہا اداس بیٹھے ہو
کتنے کردار تھے کہانی میں
تم جسے سوچ بھی نہیں سکتے
ہم نے بھگتا ہے زندگانی میں
بات اندر کہیں چھپی تو تھی
منہ سے نکلی ہے جو روانی میں
پوچھتے کیا ہو ہم پہ کیا گزری
ہائے کیا کیا ہوا جوانی میں
اسکو ہمدرد جان کر ہم نے
چوٹ کھائی ہے خوش بیانی میں
صرف ہمکو دکھائی دیتی ہے
اک غرض اسکی مہربانی میں
دل کی تاریکیاں تو چھٹ جائیں
راہ دیکھیں گے ضوفشانی میں
جتنی ممتاز ہو نہیں چلتی
عقل انساں کی ناگہانی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں