تھکا ہوا سا بدن لیکے یار چلتے ہیں
صبائے باد تھے مثل غبار چلتے ہیں
کلیجہ اپنا ہے حاضر جدھر سے وار کرو
زباں کے تیر ہیں جو آر پار چلتے ہیں
کچھ اور شکل ہوا کرتی ہے عقیدت کی
ہاں ارد گرد اگر جانثار چلتے ہیں
دعا کرو کہ خدا انکو بھی شفاء بخشے
انوکھے درد لیئے بیقرار چلتے ہیں
عجب سا زعم تو آجاتا ہے نا چاہتے بھی
کسی پہ کر کے جو ہم اعتبار چلتے ہیں
جو بخشتے ہیں ہمیں اپنی چاہتوں کا یقین
انہیں کا دم ہے جو ہم باوقار چلتے ہیں
ہمیں تو درد بھی ممتاز کرنے والے ملے
روزانہ ساتھ ہمارے دو چار چلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں