یہ زیست کا چراغ بھی کیسا چراغ ہے
اک بار جو بجھا تو جلایا نہ جائے گا
دیتی ہے زندگی ہمیں کچھ اس طرح سبق
اک بار یاد ہو تو بھلایا نہ جائے گا
کوئی سکھانا چاہے تو پھر سیکھ لیجیئے
جینے کا ڈھنگ ورنہ سکھایا نہ جائے گا
ایسا کیا ہے انکو فراموش وقت نے
یادوں میں بھی کسی کے وہ پایا نہ جائیگا
اچھے میں کیا برے کے بھی قابل نہیں رہے
اب نام تذکرے میں بھی لایا نہ جائے گا
شرطیں کڑی ہیں انکو زرا نرم کیجیئے
ایسے تو ساتھ پھر یہ نبھایا نہ جائیگا
ہنسنے کے واسطے بھی بہانہ تو چھوڑیئے
اتنا تو اشک ہم سے بہایا نہ جائیگا
اتنا خلوص ہمکو پروسا نہ کیجیے
کہتا ہے اک طبیب پچایا نہ جائیگا
ساز اجل پہ کسکی جسارت کہ کہہ سکے
گھڑیاں خوشی کی ہوں تو بجایا نہ جائیگا
اتنا کڑا ہے وار کہ کچھ سوجھتا نہیں
لگتا ہے دل یہ اب کے بچایا نہ جائیگا
برباد کر دیا جسے طوفان اشک نے
ممتاز آنسوؤں سے لبھایا نہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں