ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 نومبر، 2014

میراہاتھ اسکی ناک / ممتازملک ۔ پیرس

                                          

                                   میراہاتھ اسکی ناک
                                   ممتازملک ۔ پیرس



اللہ پاک نے انسان کو حیران کر دینے والی صلاحیتوں کیساتھ دنیا میں بھیجا ۔ اسے مختلف رنگ روپ دیئے اسے جدا گانہ نین نقش دیئے ، اسے کتنی مختلف آوازوں سے نوازہ ،اسے ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں عطا کیں. اسے بڑے سے بڑا غم جھیلنے کی ہمت دی اسے بڑی سے بڑی خوشی کو سنبھالنے کا حوصلہ دیا ، ایک چھوٹا سا دل بھی دیا جو کبھی نہ کبھی ضرور اپنی من مانی کرنے کو ایک بچے کی طرح مچلتا ہے ۔ اب اس کی ننھی ننھی خواہشوں کو اگر قابو کر لیا جائے اور جائز اور ناجائز کی حدود میں باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کی بے ضرر خواہشات کو پورا بھی کر لیا جائے .جیسا کہ نبی پاک ﷺنے بھی فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ''لوگو تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے ۔'' اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حق کا دائرہ وہاں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں کسی اور کے حق کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا بلکل ٹھیک رہے گا کہ آپ کے ہاتھ کی پہنچ وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے اگلے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ آج کل نیٹ کا زمانہ ہے اس ٹیکنالوجی کو اور آگے سے آگے بڑھنا ہے ، بہت سے پردے ہمارے آنکھون سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ نیٹ انہیں بھی میسر ہے جو دن رات ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہیں اور انہیں بھی جو مشکل سے اسے آن کرنا ہی جانتے ہیں ۔ اس صورت میں کیونکہ سب لوگوں کا آئی کیو لیول ایک سا نہیہں ہوتا اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ملک میں ویسے بھی خواتین کا ہر کام کرنا ایک ہوّا بنا لیا جاتا ہے ایسے میں فیس بک کی دنیامیں خواتین کو دیکھنا  ان کے لیئے ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ٹافیوں کی دکان پر بے شمار ٹافیاں پڑی ہوں ،دکان کا مالک انہیں نظر نہ آ رہا ہو اور کوئی سمجھ لے کہ اسے دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ،لہذا جتنی چاہے ٹافیاں اٹھا کر فرار ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مالک کسی خفیہ مقام سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہو اور پتہ اس وقت چلتا ہے جس اس کی گردن پر ایک زور کا ہاتھ پڑتا ہے ۔ ان میں اکثر زنانہ نام تو زنانے مردوں نے فرضی طور پر اختیار کیئے ہوتے ہیں ،جنہیں ہم فیک اکاؤنٹس کہتے ہیں یہ وہ زنانے کردار ہیں جو خاتون بنکر کسی بھی مرد کی بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس میں ان کا مردوں سے نازیبا گفتگو ، گھروں کے حالات تک رسائی ،ان کے اغوا اور اب تو قتل کی وارداتوں تک بات پہچ چکی ہے ۔ لیکن اس کے لیئے ٹیکنالوجی ذمہ دار نہیں ہے یہ تو ختم کبھی نہیں ہو گی بلکہ  مذید جدید شکل اختیار کرتی جائی گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اسے سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا ہی خیال کیا جائے اپنے بیڈ روم یا کسی نیٹ کیفے میں چھپ کے اس پر بات کرنے کو یہ نہ مسمجھ لیا جائے کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا یا کوئی آپ کو نہیں پڑھ رہا یا نہیں پکڑ سکتااور آپ جو چاہیں گل کھلاتے رہیں ۔ یاد رکھیں یہ وہ اعمال نامہ ہےجو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں ۔ اور یہ وہ کمبل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"  کسی بھی خاتون کو یہ کہنا تو آپ کو بڑا کمال لگتا ہے کہ" میں آپ کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتا ہوں" لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ" کیا یہ سہولت آپ نے اپنی بہن کو بھی مہیا کر رکھی ہے" تو فورََا حضرات کی دم پر ایسا پاؤں پڑتا ہے کہ الامان اور الحفیظ ۔ ایک منٹ میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ مرد کس ذہنیت کا مالک  ہے ۔ بھئی اپنے کام کی بات کرو کام سے مطلق سوال کرو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھو ۔ اپنے ہاتھ کو دوسرے کی ناک تک پہنچاؤ گے تو جواب تو سننا ہی پڑیگا. ان لوگوں کو جب کسی دوسرے میں ڈھونڈنے پر بهی کوئ عیب نہ ملے تو یہ فوراً دوسرے کی فزکس پہ جملہ بازی فرمانے لگیں گے. یہ کالا ہے یہ موٹا ہے. .یہ ناٹاہے .یہ لمبا ہے.یہ.بهینگا ہے بلا بلا بلا. جب بهی کوئ آپ کی ذات پہ ایسی بات کرے تو فوراً سمجه جائیں کہ انہیں آپ میں کوئی اور عیب نہیں مل سکا. اور اپنی جلن مٹانے کے لئیے یہ سب کہہ رہے ہیں. ویسے بهی انگور کهٹےہوں تو انسان کامنہ تھوڑی دیر کے لیئے تو سکڑ ہی جاتا ہے. جب تک آپ ایسے مردوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہیں یا خاموش رہیں یہ خواتین کو میم ، میڈم، محترمہ کہتے رہیں گے جیسے ہی آپ نے انہیں کسی بات سے منع کیا تو فوراً سے پیشتر اپنی اوقات آپ کو دکها دینگے.  اور اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف بهی پیش کر دینگے. .لہذا ہم تمام خواتین کو یہ بات زہن نشین کر لینا چاہیئے .کہ جھوٹی تعریف میں کبهی اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دینا چاہیئے..اور بے مقصد اور بے تکی باتوں کا جواب دینے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے. تاکہ کسی کا بهی ہاته ہماری ناک تک نہ پہنچ سکے.اور ہم بھی اپنا ہاته انکی ناک سے دور رکھیں. 
                                        ....................

جمعرات، 27 نومبر، 2014

● (21)کیسا نصف ایمان / کالم۔ سچ تو یہ ہے

                                    
          (21) کیسا نصف ایمان
             تحریر:ممتازملک۔ پیرس


بحیثیت ایک مسلمان کے ہم سب بچپن سے ایک حدیث پاکﷺ اکثرہی سنتے رہے ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن اس بات کا بهید تب کھلتا ہے جب ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی کبھی بهی پبلک ٹائلٹ کا استعمال کرتے ہیں. پهر چاہےجہاز ہو یا ٹرین ،کسی ریسٹورنٹ کے ٹائلٹ ہوں یا سینما کے اور تو اور ہاسپٹل میں بلکہ کسی سکول یا مسجد کے ٹائلٹ ہی جا کر دیکھ لیں کہ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر باقاعدہ شک ہونے لگتا ہے ۔ غرض کوئی بهی جگہ ہو، بس کسی پاکستانی کے وہاں سے نکلنے کے بعد ایک نظر اس ٹائیلٹ یا واش روم پر ڈال لیں وہ جگہ خود چیخ چیخ کر بتائے گی کہ وہاں سے کون ہو کر آیا ہے. اور تو اور واش بیسن کے استعمال کے بعد اس کی حالت ان پر آنسو بہا رہی ہوتی ہے. ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جس صفائی کو ہمارا نصف ایمان فرمایا ہے اس نصف ایمان تک پر ہم پورا نہیں اترتے تو باقی نصف کہاں سے مکمل ہو گا. کیا ہمارا دین خود پسندی کی کوئی گنجائش رکھتا ہے ۔ اس کا جواب نہیں ہے تو ہم یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نماز کی نام پر زمین پر ماتھا رگڑ لیں گے یا ہر لغو بات کیساتھ صبح سے شام تک روزے کے نام پر فاقہ کر لیں گے یا لوگوں کو دکھانے کے لیئے حج کا ٹیگ ماتھے پر لگا لیں گے تو ہمارا ایمان مکمل ہو جائے گا ۔ جب کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے ایمان کا اتنا بڑا حصہ قرار دیا گیا ہو ۔ یہ سب فرائض ہیں جو ہمارے ذاتی مفاد کی باتیں ہیں جو کسی کمی کے بعد بھی انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتیں لیکن جو چیز ہمیں ایمان سے خارج کرتی ہے اس میں حقوق العباد کو اہم ترین قرار دیا گیا جو کہ ساری دنیا کے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمیں صفائی کی جانب متوجہ کیا گیا اس قدر سختی کیساتھ اسے ہمارے ایمان کا آدھا حصہ بنا دیا ۔ جس تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے اور یہ حکم ہمیں صرف اپنے گھروں کے باتھ روم ٹائلٹس ہی صاف رکھنے کے لیئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے ہماری پوری زندگی پر محیط کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ہم لوگ اپنے پورے ملک اور عوام کے کسی بھی طبقے پر نظر ڈالیں افسوس صد افسوس  کہ ہمیں لگے گا کہ صفائی سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے آگے ڈال دینا ، گھروں کا کچرا سو روپے کسی جمعدار کو نہ دینے کے لیئے گھر کے قریب کسی بھی پلاٹ میں یا کسی ندی میں پھینک کر اسے نالہ بنا دینا ،  ہمارے لیئے کبھی بھی باعث شرم نہیں رہا ۔ کیونکہ باعث شرم تو وہ کام ہوتا ہے جو سب نہیں کرتے کوئی ایک آدھ ہی کر رہا ہو جبکہ جہاں سب ہی ایک کام میں برابر کے شریک ہیں تو پھر شرم کیسی وہ تو رواج ہو گیا نا ۔ پبلک پلیس پر لگے کوڑا دان اول تو کوڑا ڈلنے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور اگر شومئی قسمت کسی کوڑے دان کو بھرنا نصیب ہو بھی جائے تو مجال ہے کہ صفائی والی گاڑیاں کبھی بھی باقاعدگی سے آ کر اس کوڑا دان کو خالی کرنے کی تکلیف گوارہ کر لیں جب تک کہ اس میں کوڑا اُبل اُبل کر باہر گرنا نہ شروع کر دے یا علاقے کے لوگ ناک پر رومال باندھ کر صفائی والوں کو گالیاں دیتے ہوئے گزرنا شروع نہ کر دیں ۔ لگتا ہے ان گاڑیوں کو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کی تنخواہ دی جاتی ہے ان کے ہاں ایک دو دن بعد کا کوئی ٹائم ٹیبل کم از کم ہم نے تو کبھی کہیں نہیں دیکھا ۔ اس گندگی میں صرف مرد ہی نہیں ہماری خواتین بهی کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں. کیا واش روم کے استعمال کے بعد خواتین کو اس بات پر کبھی شرم محسوس ہوئی کہ وہ واش روم کو کس حالت میں چھوڑ کر جا رہیں ہیں اپنے بچوں کے نیپی جنہیں استعمال کرنا اور پھینکنا ہی نہیں آتا وہ محترمائیں بھی نیلی پیلی لپ اسٹک پوتنا نت نیا فیشن کرنا تو جانتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی ہیں کہ بچے کو کیسے صاف کیا جائے ، اس کے نیپی کیسے رول کیئے جائیں اور انہیں کہاں پھینکنا ہے ؟ اور تو اور انہیں تو شاید اتنی بھی تمیز نہیں ہوتی کہ واش روم پبلک پلیس کا بلکل یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہاں سے دنیا کا کوئی اور بندہ نہیں گزرے گا ، یا  اسے کسی بھی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور وہاں اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھانے کے لیئے چھوڑ آئیں ۔ کہ  دیکھو یہاں سے کس گندے آدمی یا یا عورت کا گزر ہوا ہے ۔ ایک بات کوئی بھی حرکت کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ ایک خاتون کی بے شرمی یا گندگی سبھی خواتین کی بے شرمی اور گندگی سمجھی جاتی ہے اسی طرح ایک مرد کی گندگی اور ، بےحیائی کو بھی سبھی مردوں کی گندگی اور بے حیائی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم اپنے آسانی سے مکمل ہونے والے ایمان کے آدھے حصے کو ہی مکمل نہیں کر سکتے تو باقی ایمان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

                  



جمعہ، 21 نومبر، 2014

ضد کا تالا



                                       ضد کا تالا
                                    ممتازملک ۔ پیرس


انسان کی فطرت ہے کہ وہ جو بات سمجھنا چاہیے بس وہی سمجهتا ہے اور جو بات نہ سمجھنا چاہے وہ اسے دنیا کا بڑےسے بڑا حکیم لقمان ہو یا عالم فاضل پروفیسر یہاں تک کہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو نہیں سمجها سکتا . کیونکہ سمجھنے کے لئے سمجھنے کا ارادہ ضروری ہے ۔ جبهی توآپ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کهولیں گے۔ جب کھڑکی کھلے گی تو ہی دماغ نامی گهر میں تازہ ہوا جائے گی ورنہ اس گهر میں گندگی اور بدبو کا ہی راج رہے گا. آپ کتنی بهی خوشبو چھڑک لیں لیکن یہ خوشبوئیں تازہ ہوا کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتیں. یہ ہی حال انسانی سوچ اور سمجه کا بهی ہے ۔ انسان وہیں پر زہنی ترقی کرتا ہے جب وہ اپنےنظریات اور سوچ کو ضد نہیں بناتا بلکہ اس میں دوسروںسے اچھی باتیں بآسانی لینے اور اپنی اچھی بری باتیں چهانٹنے کا عمل کھلے دل سے جاری رکھے ۔ جبهی اس کا شمار کامیاب انسانوں میں ہوتا ہے ۔ ورنہ سوچ کے گهر کو ضد کا تالہ لگا ہو تو وہاں انا پرستی اور ناکامی و تنہائی کے آسیب بسیرا کر لیتے ہیں. اللہ پاک نے بهی اپنے کلام پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ !
" ہدایت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہدایت لینا چاہتے ہیں" یاہدایت مانگتے ہیں یعنی جو انسان سمجهناچاہتا ہے رب بهی اسی کو سمجھاتا ہے. ورنہ وہ چاہتا تو ہر ایک کو سمجھنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کردینا کیا اس کے لئے کچه مشکل تها؟
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس  کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے.  تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
. .اور مرضی کے پهول اور بوٹے اگاتا نظر آئیگا. اور اس کی مشین بهی بہترین حالت میں رہے گی. یہ ہی حال لوگوں کا بهی ہے لوگ دماغ کے بغیر نہیں لیکن عقل کے بغیر ضرور گھومتے نظر آئیں گے. ان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بےمقصد بحث کریں گے. .کوئی اپنی بات کے ہزار دلائل دیے لے لیکن انکے مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہو گی . یہ بغیرعقل گهومنے والے ایک ہی کام شوق سے کرتے نظر آتے ہیں دوسروں کو گھمانے کا..وہ بهی انتہائ بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ.
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی.  ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور  کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں  سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو  کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
 کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔ 
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 نومبر، 2014

● (20) بین المذاہب شادیاں/کالم۔سچ تو یہ ہے



(20)بین المذاہب شادیاں 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



ایک وہ وقت تھا جب اسلام نیا نیا دنیا میں اپنی پہچان بنا رہا تھا تو صحابہ رض کی ٹولیوں کو مختلف ممالک میں دین کی ترویج و تبلیغ کے لیئے بھیجا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں سفر کی سہولیات آج جیسی نہیں تھیں ۔ سفر تجارت پر بھی جانے والے مہینوں اور کئی بار تو سالوں بعد گھروں کو لوٹا کرتے تھے ۔ تو گویا اپنے عزیزوں سے اسے طرح مل کر نکلتے تھے جیسے آخری بار مل رہے ہوں ۔ کیوں کہ زندگی میں اب وہ دوبارہ واپس آئینگے یا نہیں۔ کوئی کٓچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اسی بنیاد پر جب دنیا میں وفود کے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں اس بات کی اجازت بھی نبی پاک ﷺکے زمانے ہی میں ملنے لگی کہ وہ جہاں آباد ہوں گے وہیں کے نومسلم نیک نام خاندانوں میں شادیاں بھی کرتے جائیں ۔ تاکہ ان علاقوں میں انہیں جان پہچان بھی مل سکے اور لوگوں کا ساتھ بھی میسر آسکے ۔ اور اسی میل ملاقات میں انہیں اپنا کردار ان آبادیوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملیگا اور اسلام تیزی سے  وہاں اپنی جگہ بنائے گا ۔  مسلمان مردوں کو تو ایک قدم اور بڑھکر اجازت ملی کہ جو خواتین اہل کتاب ہیں  اور اسلام کی جانب راغب نظر آتی ہیں اور آپ خود بھی باعمل مسلمان ہیں تو ایسی خواتین سے بھی نکاح کریں ۔ تاکہ آپ کے اعلی کردار سے متاثر ہو کے انہیں بھی اسلام کی روشنی اور رہنمائی نصیب ہو ۔ لیکن اب نہ وہ زمانہ رہا نہ ہی وہ مسلمان رہے۔ بلکہ اب تو مسلمان ہی اسلام کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں ۔ یہاں اس اجازت کو استعمال کرنے والے اہل افراد ہی موجود نہیں ہیں۔ تو اس پر عمل کرنے کا بھی کسی کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ یہاں تو ایسی مسلم خواتین بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جنہوں نے صرف نکاح نامے پر خانہ پری کرنے کے لیئے مولانا صاحب کے سامنے غیر مسلم لڑکے کو بٹھا کر کلمے کے الفاظ دہرا دیئے جسکا اسے مطلب بھی  معلوم نہیں ہو گا  کہ چلو جی ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ رہے باقی دیکھی جائے گی ۔ یا پھر ایسے مرد  بھی دیکھے ہیں جنہوں نے 18 ، 18 سال یا اس سے بھی ذیادہ وقت غیر مسلم خواتین کے ساتھ نکاح کر کے گزار دیئے اور انہیں تو کیا کردار سے متاثر کرتے ـ( کردار ہوتا تو متاثر بھی کرتے ۔) الٹا رہا سہا ایمان بھی گنوا بیٹھے ، نماز سو کبھی پہلے عید کے عید پڑھ لیتے تھے اب اس سے بھی گئے ۔ روزہ جو کبھی خدا کے خوف سے نہیں لوگوں کے خوف سے ہی رکھ لیتے تھے اس سے بھی گئے اور بڑی ڈھٹائی سے فرمائیں گے کہاں جی یورپ میں کون سا روزہ ۔ یعنی اپنے بدکرداری کا ملبہ سارے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر ڈال دینا، (جبکہ یورپ کا مسلمان  اور پاکستانی، پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں ذیادہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنے کی کوشش کرتا ہے)۔  غیر مسلم بیگم ایک برتن میں سؤر پکاتی ہیں تو موصوف اسی دیگچی میں حلال حلال کھیلتے پائے جاتے ہیں ۔  پیگ بھی بیگم کیساتھ مل کر پیتے پائے جاتے ہیں ۔ ایک بار ہم نے ایسے ہی ایک موصوف سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے اپنی بیگم کو اپنی زبان کیوں نہیں سکھائی تو موصوف بولے ، چھوڑیں جی اب پاکستان سو باتیں فون پر میں کرتا ہوں اچھا ہے نا کہ نہیں سمجھتی ۔ ورنہ کس کس بات کا جواب دیتا ۔ (واہ کیا تاویل پیش کی ہے ۔ اتنا ہی ڈر اللہ کو جواب دینے کا بھی ہوتا تو شاید موصوف یہ گُل نہ کھلا رہے ہوتے ۔) لہذا ایسی تمام شادیوں کو اسلام کی ڈھیل نہ سمجھیں اس پر شدید گرفت کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ پہلے خود کو باعمل مسلمان بنائیں کہ کوئی آپ کے کردار کو دیکھ کر اسلام پر طعنے نہ کسے بلکہ اسلام میں داخل ہونا خوش نصیبی سمجھے ۔ ورنہ پھر ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں رنگین بوتل ایک میں نامحرم عورت کا ہاتھ اور ڈھونڈتے ہیں حلال گوشت کی دکان ۔ ( بندہ پُچھے جب کرنا حرام، بھرنا حرام ، اٹھنا حرام بیٹھنا حرام ، کمائی حرام، جمائی حرام، سونا حرام، جاگنا حرام ، پینا حرام تو بھیا  کھا بھی حرام لو ) چھوڑو یہ تکلف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●

جمعہ، 14 نومبر، 2014

خوشبو کے بھبھکے / ممتازملک / پیرس



                              خوشبو کے بھبھکے
                                  ممتازملک / پیرس



انسان جہاں جاتا ہے جن  لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے. ان کی کچھ نہ کچه عادات اور خیالات ضرور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کو ئ مکهی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تواپنے پروں اور پیروں ميں چاہے نہ چاہے وه گندگی نہ صرف اٹهاکرلیجانی ہے ۔ بلکہ اسےجہاں جائے گی اور بیٹهے گی وہاں وہاں پھیلائے گی ۔ اسی طرح جب یہ ہی مکھی پھول پر بیٹھے گی تو انہیں پروں میں پھول کے بیج چپکا لائے گی اور اسی پھول کی پنیری بنانے کاسبب بھی بن جائے گی ۔
 بچپن سے سنا کرتے تھے کہ کوئلہ بیچنے والوں کے پاس بیٹھو گے تو کوئلے بیچو نہ بیچو دامن پر کالک ضرور لیکر اٹھو گے ۔ جبکہ عطر والوں کے پاس بیٹھو گے تو عطر خرید سکو یا نہ خرید سکو خوشبو کے بھبکے تو لیکر ہی اٹھو گے  اس وقت یہ باتیں ہمارے لئے جانے کس جہاں کے قصّے ہوتے تهے لیکن آج خود زمانے کے سرد گرم دیکه کر ہم اس مقام پر ہیں جہاں دوسرے ہمارے لہجے کی سختی کبھی ہمارے دنیا سے پروائی کا گلہ کرتے ہیں ۔ کبھی ہمیں سب کو خوش رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈپلومیسی  کا نام دیکر منافقت کق پرچار کرو اور خوش رہو کا فارمولا سکھایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ نہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ لفظوں کی سختی اصل میں اس تجربے یامشاہدے  کایقین ہوتا ہے یا خود زندگی کے تجربات کے بعد آنے والا بهروسہ ، اپنے لفظوں پر اعتبار ہوتا ہے جسے ناسمجھ لوگ ہم جیسے ناسمجھوں کو بدنام کرنے کے لیئے سخت مزاج یابدمزاج کاٹیگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.
انسان کے دوست بهی مکھی کےپروں سے چپکی گندگی یاپهولوں کے بیج جیسے ہوتے ہیں .ان کی صحبت بهی کوئلے کی کالک یا خوشبو کے بھبکے جیسی ہوتی ہے .ہم اکثر اپنے بہن بهائوں سےوہ باتیں نہیں بانٹ سکتے جو ہم اپنے دوستوں سے بانٹتے ہیں۔ .حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بهی بهائ کو سونا تو دوست کو ہیرا کہا ہے .
 دوست کو دوست کا آئینہ کہا جاتا ہے.
 دوست کا مشورہ خلوص پر جبکہ بهائ کا مشورہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے.
 دوست کا جھگڑا کسی نقطے اور دلیل پر ہو گا جبکہ بہن یابهائ کا جھگڑا ضد اوز ضرورت پر ہو گا.
 اسی لیے کہا گیا کہ اچها دوست جتنی بار روٹھے اسے اتنی بار منا لینا چاہیئے کیونکہ موتیوں کی مالا یاتسبیح جتنی بار ٹوٹتی ہے موتی اتنی ہی بار پھر سے چُن لیئے جاتے ہیں پھر سےتسبیح بنا لی جاتی ہے.
حکیم لقمان نے بیٹے کو وصیّت کی کہ دنیا سے جانے کے وقت تک تمہارے دو مخلص دوست بهی تم نے پا لئے تو جان لینا کہ تم نے دنیا کی زندگی بیکار نہیں گنوائی. اس سے معلوم ہوا کہ ایک اچها دوست کس قدر کرانقدر سرمایہ ہے ۔دنیا کی دولت روپے پیسے کی تو آپ حفاظت کرتے ہیں جبکہ دوست ایسی دولت ہے جو خود آپکی آپکے وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعرات، 6 نومبر، 2014

جنت کس کے ٹھیکے پر۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے






      جنت کس کے ٹھیکے پر               (ممتازملک / پیرس)


بڑا ہی کمال کیا ہے ان لوگوں نے ، جنہیں خود تو اسلام کی الف بے کا پتہ نہیں ہے ۔ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے، اپنی بہنیں بیٹیاں جوئے میں ہار کے آ جانا جن کی عادت ہو ، گھر کے سامنے مسجد میں ماتھا ٹیکنے کے لیئے جنہیں کبھی خدا یاد نہیں آیا ۔جو اپنے سگے بچوں کو مار مار کر کتے جیسی حالت کر دیتے ہیں ، جنہیں تیسرا تو کیا دوسرا کلمہ مطلب چھوڑیں رٹا ہوا بھی نہیں آ تا، جنہیں زندگی بھر میں اللہ  کی پاک کتاب کی ایک آیت تک کا مفہوم معلوم نہیں، جس نے کبھی زندگی کاایک دن کسی کو گالی دیئے بنا نہ گزارا ہو، جس نے کبھی ایک پورا دن پاک صاف اور باوضو نہ گزارا ہو ۔ جس نے کبھی اپنے محلّے کی عورت کو تاڑنے پر شرم نہ  محسوس کی ہو ایسا جی ہاں ایسا ہی ہےہمارا آج کا ان پڑھ ،جاہل اسلام کا گلی گلی محلّے محلّے بیٹھا ہوا ٹھیکے دار ۔ 
جس کا جب جی چاہتا ہے جہاں جی چاہتا ہے کبھی بھی کسی غیر مسلم کو گھر سے بھگا کر یا دھمکا کر مسلمان بنانے کا ڈرامہ کر کے خدا کو دھوکا دیکر جنت میں چور دروازے سےداخل ہونا چاہتا ہے تو کبھی کسی کے بھی خون سے اس لیئے ہاتھ رنگتا ہے کہ وہ ویسا مسلمان نہیں ہے جیسا میں چاہتا ہوں ۔ گویا ہمیں کیسا مسلمان ہونا ہے ،ہونا بھی ہے یا نہیں ہونا ہے، یہ بات اب کوئی بھی انسان خود طے نہیں کریگا بلکہ اسے ہمارے علاقے کا کوئی بھی جاہل ، کم علم لُّچّہ لفنگا۔ بدمعاش آ کر طے کریگا ۔ 
اور جب اس کی من مانی نہیں چلے گی تو وہ اسے اٹھا کر کبھی قتل کر دیگا یا زندہ جلا دیگا ۔ کہاں ہے پاکستانی قانون کہاں ہیں ہمارے انصاف کے اندھے گونگے بکاؤ ٹھیکیدار۔
 کہیں تو پتّہ ہلنے پر سوو موٹو ایکشن اور کہاں لاہور جیسے شہر میں اٹھارہ گھنٹے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور ایک ایف آئی آر تک نہیں کٹتی، اور کہاں پر کوئی بھی بے دین ، جاہل منہ اٹھا کر اسلام کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے ۔ اور کتنی توہین اس ملک کے نام نہاد مسلمان اسلام کی اور نبی پاک ﷺ کی کرینگے گے ؟ اب تو دنیا کے دل بھی، اپنے پاکستانیوں کے دل بھی آپ لوگوں کے لیئے پکے ہونے لگ گئے ہیں اور تواور ہم جیسے موم کا دل رکھنے والے بھی اپنے دل کو سمجھا کر آپ کے غموں اور خدائی آفتوں کو آپ کے لیئے حق بجانب سمجھنے لگے ہیں ۔ 
کیوں بدنام کیا جارہا ہے نبیپاکﷺ کی سنّتون کو اسلام پھیلانے کے ٹھیکے دار بنکر ۔ کب پھیلایا تھا ہمارے پیارے نبی ﷺنے اسلام اس طرح ۔ کہاں طائف کے بازاروں میں اپنے ہی لہو میں اپنے ہی پاؤں ڈبوئے کھڑا رحمت اللعآلمین  ۔ کہاں اپنے پیارے چچاکا کلیجہ چبانے والی بد بخت عورت کو بھی معاف کردینے والا نبیﷺ، اور کہاں آج کا یہ نام نہاد دو نمبر مسلمان ۔ خالی ہاتھ غیر مسلموں کو زندہ جلانے والے ،اس گروہ کو بھی ایسی ہی عبرت ناک سزا ملنی چاہیئے کہ دنیا اس کی مثال دیا کرے ۔ اصل میں توہینِ اسلام کسی غیرمسلم نے کبھی نہیں کی ،کیونکہ توہین وہ کرےگا جسے اس چیز سے کوئی عقیدت ہو یا وہ اسکا ماننے والا ہو ، جسے اس کتاب یا اس کے نبیﷺ پر اعتقاد ہی نہیں اسکی بات کو توہین کہنے کا کیا عقلی جواز ہے ۔ کیا اس غیر مسلم کو اپنی درندگی دکھا کر ہم بڑے رستمِ دین بن جائیں گے۔ اس کے بجائے اگر ہم اپنے کردار پر توجہ دیں کہ جس کی بنیاد پر ہمارا رب ہم سے اس زندگی کا حساب کتاب طلب کریگا ،تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا ۔ اس پوری  غیر مسلم آبادی سے جو پاکستان میں کبھی بھی کسی بھی پاکستانی یا خاص طور پر کسی بھی مسلمان پاکستانی سے اذیت اٹھا چکا ہے ہم تہہ دل سے معافی چاہتے ہیں اور حکومت پاکستان سیاسی بنیادوں پر تو سرعام لوگوں کا قتل عام کر کے سینہ چوڑا کر کے گھومتی ہے ،اسے اگر غیرت کی رمق اپنے اندر محسوس ہوتی ہے تو اس چیلنچ کوقبول کرے اور پاکستان میں لوگوں کو زبردستی خود کا دوسرے سے بڑا مسلمان ثابت کرنے والوں اور لوگوں کو جبری مسلمان بنانے والوں  کو قرار واقعی سزائیں دلوا کر جلد از جلد انہیں ان کی خیالی اور افیمی جنت تک پہنچانے کا بندوبست کریں ۔ کیونکہ حقیقی جنت میں جانا شاید خدا نے ان کے مقدر میں لکھا ہی نہیں، جنہیں اللہ کی مخلوق سے پیار نہیں خدا کو بھی ایسے کچرے کو اپنی جنت میں بٹھا کر اس جنت کی توہین کرنا کبھی منظور نہیں ہو سکتا ۔   کیونکہ جنت صرف پاکیزہ لوگوں کے لیئے ہے اور زانی اور قاتل کبھی پاک نہیں ہو سکتے ۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 نومبر، 2014

لو کل لو بات ۔ کالم




لو کل لو بات 
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)



ہر روز کی ایک نئی کہانی اور نئی چخ چخ ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے لیکن یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ اس چخ چخ کے زمہ دار اکثر ہم لوگ خود ہی ہوتے ہیں ۔ یہ تمام نہیں تو کم از کم 80 فیصد مسائل ہمارے اپنے پیدا شدہ ضرور ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے والے تو جو حرکتیں کرتےہیں، سو کرتے ہیں اس کا تو انہیں بے شرمی سرٹیفیکیٹ مل ہی چکا ہوتا ہے ، لیکن کیا کریں کہ لڑکی والے بھی جو جو کمالات دکھا رہے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔ لڑکیوں کی ماؤں کی تربیت ہی اچھی نہیں ہے جبھی تو لڑکیاں بھی ایسی ایسی توقعات شادی کے نام سے وابستہ کر لیتی ہیں کہ جو اس جنم تو کیا کسی بھی جنم میں پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ہر گھر میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد رشتوں کے انتظار میں بال سفید کر رہیں ہے ۔ لیکن انہیں اپنے بلند فرمائشی پروگرام سےفرصت ہی نہیں  یا انکی ماؤں کا دماغ ہے کہ انکا گھر آباد ہو کے ہی نہیں دے رہا ۔ 
زرا فرمائشی فہرست نوٹ فرمالیں ۔ اور کوئی ایسا سپیشل پیس مارکیٹ میں دستیاب ہے تو ہمیں بھی ضرور مطلع فرمائیں ۔ شاید اسی بہانے ہمیں بھی کو ئی انوکھا نمونہ دیکھنے کو مل جائے ۔ 
لڑکا خوب پڑھا لکھا ہونا چاہیئے  ۔ (اپنے ابا جی نی ان پڑھ ہو کر بھی انہیں ڈاکٹر انجینیئر اس لیئے بنایا کہ اب وہ اپنی سے ایک کلاس کم پڑھے کو بھی ان پڑھ سمجھنے لگیں ۔ کیا بات ہے ۔ )
ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہونا چاہیئے ۔(خود صاحبزادی کو میک اپ کے بغیر دیکھ لیں تو بھوتنیاں بھی حسین لگیں ۔)
قد تو 6 فٹ سے کم بلکل نہیں ہونا چاہیئے ۔(چاہے ہماری بٹیا رانی 4 فٹ کی ہی کیوں نہ ہو ۔ )
 25 ، 26 سال کا ہی ہونا چاہیئے ۔ (چاہے لڑکی 36 کی ہو ۔)
ڈبل ماسٹر ز تو ضرور ہی کیا ہونا چاہیئے ۔ (بی بی میاں چاہیئے یا ٹیوٹر۔)
بڑا سا گھر بنا چکا ہو ۔(خود چاہے کرائے کے گھر میں یا دو کمرے کے مکان میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں )
 خوب روپیہ پیسہ ہو بلا شرکت غیرے ۔(خود چاہے ساری عمر ہزار کا نوٹ بھی  نہ دیکھا ہو ۔)
نئے ماڈل کی گاڑٰی تو ضرور ہی ہونی چاہیئے ۔ (اپنے پاس چاہے انیس سو ڈوڑھ کی گاڑٰی ہو۔)
بہن بھائی نہ ہی ہوں تو بیسٹ ہے ۔(خود کے اماں باوا نے چاہے گھر میں بچوں کا جمعہ بازار لگایا ہو ۔)
اور ہاں سنئے اگر اماں باوا بھی جہاں سے رخصت ہو چکے ہوں تو اور بھی اچھا ہے ۔ اب کون ان کی آئے دن کی بک بک سنتا رہے ۔ ایسا ہو جائے بہن تو میں تمہیں سونے کے کڑے پہناؤں گی ۔ (یہ اور بات کہ بیچارے یا بیچاری میچ میکر کو کڑے تو کیا اسکی مقررہ فیس ادا کرتے ہوئے بھی ان کی اپنی جان نکلتی ہے اورفیس ادا کرنے کے بجائے اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیں ۔)
اب آپ ہی بتائیں کہ کہ کیا ایسا رشتہ اس دنیا میں ممکن ہے ۔اس کے لیئے تو یقینا انہیں آنکھیں بند کر کے صرف خواب میں ہی بیاہ کرنا پڑیگا ۔ اور تو اور یورپ میںتو یہاں تک حال ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے دماغ میں ماؤں نے کیا زہر بھرا ہوا ہے کہ لڑکا 2،3 سال سے زیادہ بڑا ہے تو فورا بیٹی صاحبہ کی ناک بھوں چڑھی رائے سنائی دے گی کہ اتنا بوڑھا ااااااااااااا کتنی عجیب بات ہے کہ انہیں کی مائیں ان کے جن باپوں کے ساتھ زندگیاں گزار چکی ہیں وہ ان سے دس سے بیس بیس سال تک بڑے تھے ۔ لیکن انہوں نے ان کے ساتھ 40 ، 40 سال خوشی سے گزار دیئے ۔ انہیں باپوں کو یہ اپنی ماؤں کے لیئے آئیڈیل شوہر کہتی ہیں ۔
 دنیا کا مثالی مرد پوچھیں تو جھٹ سے جواب آئے گا میرے پاپا ۔
 لیکن اپنے بچوں کو کیا یہ لڑکیاں ایسا مثالی باپ نہیں دینا نہیں چاہتیں ۔ لیکن بیٹی صاحبہ کو 2 سال سے زیادہ بڑا لڑکا نہیں چاہیئے ۔ ایسی کسی بھی بیٹی صاحبہ  کو تو یہ ہی مشورہ ہے کہ کوئی لڑکا گود لے لیا کریں پہلے آپ اسے پالیں پھر وہ( آپ کے نصیب میں ہوا تو) آپ کو پالے گا ۔
  ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیٹی اچھے گھر میں جائے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے خوابوں کے ایسے جزیرے میں قید کر دیں کہ اس کے پاس وہاں سے نکلنے کے لیئے امید کی کوئی کشتی اور سمجھوتے کا کوئی چپُّو ہی نہ رہے ۔ 
اگر ہمیں واقعی اپنے بچوں سے  محبت ہے تو ہمیں ان کو حقیقت کی دنیا میں لا کر ذمّہ دار بنانا چاہیئے نہ کہ اکثر والدین خصوصََا مائیں جنہیں اپنی زندگی میں 30 سال بعد بھی جو نہیں ملا ہوتا، وہ اپنی بیٹیوں کے دماغ میں انہی خواہشات کے ناگ پالنے لگتی ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ یہ ناگ انہی کی بیٹیوں کو ڈس ڈس کر ہلاک کر ڈالیںگے ۔
 اسی طرح لڑکیوں کے باپ بھی اپنا دماغ زمین پر رکھیں اور اپنی شادی کے وقت کی اپنی اوقات اور حیثیت کو یاد رکھا کریں اور اپنے دامادوں سے اس بات کی توقع نہ کریں (کہ جو کچھ آپ نے چالیس سال کی محنت کے بعد بنایا ہے وہ آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے والا شادی کے وقت ہی لا کر آپ کی  بیٹی کے قدموں میں ڈھیر کر دے )تو سوچیئے اگر یہ ہی سوچ آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیتے وقت آپ کی بیوی کے والدین کی بھی ہوتی تو یاد رکھیں کہ آپ بھی آج بال بچوں والے نہ ہوتے کہیں بیٹھے اپنے نصیبوں کو رو رہے ہوتے یا بد کاریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ۔ عورت کا مقدر ہی فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے ۔ شادی سنت رسول ہے اسکا راستہ اپنی اولادوں کے لیئے تبھی آسان بنایا جاسکتا ہے جب ہم خود بھی حقیقت پسند بنیں اور اپنی اولادوں کو حقیقت پسند بنائیں ۔اور انہیں اپنے مقدر پر یقین کرنا اور اسے آزمانا سکھائیں ۔ جو چیز ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں ڈھونڈتی ہوئی خود ہم تک آن پہنچتی ہے اور جو چیز ہمارے مقدر میں نہیں ہے وہ ہمارے پاس ہو کر بھی ہماری نہیں ہوتی ۔  
بیٹے بیٹیوں کو گناہ کی دلدل سے بچانا ہے تو انہیں جلد از جلد اپنے گھروں کا کریں ۔ ماں باپ کچھ بھی کر لیں اپنی اولاد کی تربیت تو کر سکتے ہیں اسے اچھے مقدر کی دعا تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے مقدر کی گارنٹی نہیں دے سکتے ۔ لہذا یہ کام اللہ کے ہیں اور اللہ پر ہی چھوڑ دیں تو ہی اچھا ہو گا ۔ ہم خدا سے وہ مانگتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے جبکہ اللہ پاک  ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لیئے بہتر ہوتا ہے ۔ رشتوں کے انتظار میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کب بیٹا یا بیٹی گناہ کے رستے پر چل پڑا ۔ اور اس سارے جرم میں بطور والدین آپ کا کردار کہیں بھی معافی کے لائق  نہیں ہو گا ۔ اور آپ دنیا میں تو بدنام ہوتے ہی ہیں آخرت کو بھی اپنے ہاتھوں تباہ کر بیٹتے ہیں ۔ 
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جمعرات، 30 اکتوبر، 2014

● (6) واقعہ کربلا ، روشی بھی رہنمائ بھی /کالم۔ سچ تو یہ ہے


                 

       واقعہ کربلا ، 
 (6) روشنی بھی رہنمائی بھی 
        تحریر:ممتازملک ۔ پیرس





واقعہ کربلا کو جس بھی زاویئے سے دیکھیں اس میں انسانی بقاء اور حرمت کا، انسانی حقوق کا ایک نیا ہی پہلو آپ کو راستہ دکھاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کہیں جانثاری کی روایت میں اپنا سر کٹانے کا جذبہ عشق ہے، تو کہیں کہہ مُکرنیوں اور بزدلی کے کارہائے نمایاں۔ کہیں ہمیں سب انجام جانتے بوجھتے ہوئے اپنے پیاروں کو انہیں کی رضامندی سے اپنے ساتھ مقتل گاہ میں عشق حقیقی کے سامنے سربسجود ہوتے امام حسین علیہ سلام کا سر مبارک کٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے تو کہیں  اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا اپنے کردار اور گفتار سے اپنے مشرکین آباءواجداد کی روایات کو منافقت کا چولا پہنے عملی صورت میں یذید لعین کی مکروہ شکل میں کھڑا دکھائی دیتا یے ۔ عورت کے روپ میں یہ واقعہ کہیں تو ہمیں زوجہء رسول حضرت اُم سلمی  رضی اللہ تعالی عنہ کو امانت داری نبھاتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سونپی گئی خاک کربلا کے لہو ہونے کی تصدیق کرتے دکھاتا ہے تو کہیں بی بی زینب سلام اللہ علیہ بنکر مردانہ وار جرات اظہار اور جراءت کردار کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے نظر آتا ہے ۔          
آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہمیں اس بات کا سختی سے اپنے اندر محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں ایک مسلم تصور کا تحفظ اور مثال پیش کرتے ہیں یا ہم اس ہندو ریاست کا نظریہ دہرانے کی ایک انجانی کوشش کر جاتے ہیں۔ جسے آج  ایک مسلم سٹیٹ پاکستان میں سرسٹھ سال سے رہتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر سے نہیں نکال پائے ۔ گویا ہندو نظریات آج بھی ہماری سوچوں کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں ۔ چاہے شادی بیاہ ہو ، بچوں کی کوئی خوشی ہو، لین دین ہو یا وعدہ وعید ہر معاملے میں ہمیں اپنے لیئے دین اسلام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ حضرت امام  حسین علیہ سلام ہوں یا شیر خدا علی علیہ سلام سبھی عورت کو گھر کے رشتوں سے شروع  کرتے ہوئے انسانی حقوق کی معراج تک لے جاتے ہیں اور یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ کائنات کی سب سے زیادہ پارسا اور مستند ہستیاں ہیں کہ ان کے کسی ایک قول کو بھی ہم نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا تو ہم کہیں ناکام نہیں ہو سکتے چاہے وہ دنیا ہو یا آخرت۔       آج بھی کوئی خاتون کسی میدان میں جرات اظہار یا جرات کردار کا مظاہرہ کرتی ہے تو اسے عجیب و غریب طعنے سننا پڑتے ہیں کہ یہ تو مردوں کے کام ہیں یہ تو مردوں کی باتیں ہیں۔ سیاست میں عورتوں کا کیا کام، کاروباری معاملات میں عورتوں کا کیا کام، رشتوں کے معاملات میں عورتوں کو بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ،(چاہے وہ اپنی شادی ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو ،) ملکی فیصلوں میں عورتوں کو بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ حالانکہ ہمارا دین ہی وہ مکمل دین ہے جس نے عورت کو زندہ رہنے کے حق سے آگے بھی بہت بلکہ بے شمار حقوق عطا کیئے ہیں ۔ صرف اس ڈر سے کہ یہ عورت کہیں ہم مردوں سے آگے نہ نکل جائے، ہم سے ذیادہ عزت نہ حاصل کر لے اور ہم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو جائیں ایسی چھوٹی باتیں صرف کوئی کمینہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری بیٹی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے نایاب ہیرے کے رشتے کے لیئے پوچھتے ملتے ہیں کہ فاطمہ بیٹی کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟       اور تو اور بی بی زینب  کے پیارے بابا شیر خدا انہیں تحفظ دیتے اور حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات منواتے نظر آتے ہیں کہ بی بی ذینب کو ان کی زندگی کے مقاصد سے کسی طور نہیں روکا جائیگا اور نہ ہی انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے اور ان کے کاموں میں شامل ہونے سے روکا جائیگا ۔ اسی شرط کو ماننے کے بعد ہی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت عبداللہ بن جعفر بن طیار رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں  دی ۔ آج اگر کوئی خاتون کسی مسئلے پر جرات اظہار دکھائے تو فورا اسے دس بہتان لگا کر کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ سوچ کہیں کسی بھی زاویہ سے مسلم سوچ نہیں ہے بلکہ جو بھائی ایسا سوچتے ہیں وہ دین اسلام اور خاص طور پر اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار اور جرات اظہار کو ضرور پڑھیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے موڑ دیئے ۔ ماہ محرم کے ہی حوالے سے حضرت زینب سلام اللہ علیہ کے کردار کو کوئی کافر بھی رد نہیں کر سکتا ۔ امام حسین علیہ سلام نے اپنے کردار ، گفتار اور قربانی کا جو علم حق کی راہ میں بلند کیا ۔ اسی علم کو اٹھا کر بی بی ذینب سلام اللہ علیہ شام کے بازاروں سے بھی گزریں اور یزیدی دربار میں ظالم حکمران کے سامنے کلمئہ حق بلند کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں ۔ قید کی اذیتیں بھی سہتی ہیں  اور قید سے واپسی پر خاندان رسول کے شہداء کی تدفین کرتے بھی نظر آتی ہیں ۔ مدینہ تک اپنے غم و اندوہ کو کلیجے میں دبائے قافلے کی سالاری بھی کرتی ہیں ۔ 



 کہیں معصومین کو حوصلہ دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں تو کہیں بیماروں کو سنبھالتے ہوئے نظر آتی ہیں کہیں یذید مردُود کے منہ پر کھڑے ہو کر اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ جس میں یہ سچائی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے کہ بدر کے میدان میں  حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ  کا کلیجہ چبانے والی ہندہ جیسی عورت کا پوتا یزید جیسا خبیث نہیں ہو گا تو اور کیسا ہوگا ۔ یہ ماؤں اور دادیوں کے خون کی تاثیر ہی تو ہوتی ہے جو کسی کو امام اعظم بنا دیتی ہے تو کسی کو یزید مردُود ۔ کسی کو بی بی زینب جیسا مرتبہ عطا کر دیتی ہے تو کسی کو ہندہ جیسی کلیجے چبانے والی  عورت کے نام کی بدنامی ۔  جس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغض و عناد صرف ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکا اثر زہر سے بھی ذیادہ خوفناک ہوتا ہے اور نسلوں تک آپ کے دودہ  اور خون میں اسکا اثر گردش کرتا ہے ۔ زہر تو صرف ایک آدمی کی جان لیتا ہے ۔ جبکہ بغض وعناد کا یہ مرض ہر رشتے اور ہر احترام کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت اور مرد کو جانچنے سے پہلے اس کے کردار کو اور نظریات کو سنت حسینی اور سنت  ذینب رض کے پیمانے پر جانچیں ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں واقعہ کربلا سے رہنمائی حاصل کریں ۔ کہ یہ واقعہ اپنے اندر عجیب معجزاتی حیثیت اور طاقت رکھتا ہے اسے جب جہاں اور جس معاملے میں پڑھیں گے ، یاد کریں گے یا جانچیں گے تو ہر بار روشی کا اور رہنمائی کا ایک نیا در وا ہو گا ۔ 
                    ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
                   ●●●

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی / ممتازملک ۔ پیرس





کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
ممتازملک ۔ پیرس



ہر تنظیم اور جماعت اپنے کام,اوراس سے وابستہ اغراض و مقاصد سے ہی پہچانی جاتی ہے. پیرس میں بہت عرصے سے صحافت بهی سیاست کی طرح ایک کیچڑبنتی جا رہی تهی. جس میں روز کے فوٹو سیشن اور ریسٹورنٹ یاتراپیسہ بنانے کا ایک زریعہ بن چکا ہے . گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ  صحافت جو کبھی تحریری ہوا کرتی تھی ۔ وہ یہاں آتے آتے تصویری صحافت کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں نے وہ کام کرنا شروع کر دیا کہ جو ان کا کام کبھی تھا ہی نہیں ۔ کیونکہ جو بات بھی فطرت کے خلاف کی جائے گی اس میں صرف اور صرف گند ہی مچے گا ۔ جس کا ثبوت ہم دن رات اپنے ارد گرد اور میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک میڈیا اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا کا کام ستھرے اوراہل لوگوں میں رہا۔ بہت مستند بھی رہا اور باوقار بھی ۔ لیکن جیسے ہی یہ کام بازاری لوگوں کے ہاتھ لگا اس کا ہر ہر انداز بازاری ہوتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ حلقوں میں شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں ملکی ,معاشرتی اور اخلاقی مسائل پرسنجیدگی سے بحث کی جاسکے اور ان کے حل تجویز کیئے جا سکیں ۔ اس کے لیئے ضروری تھا تصویری صحافت کا رخ پھر سے تحریری صحافت کی جانب موڑا جائے اوراسے اسی مقام پر پہنچایا جائے جس کا کہ صحافت تقاضا کرتی ہے ۔ .ایسے ماحول میں کہ جہاں مردوں کو بهی اپنی حقیقی رائے دینے کیلئے پچاس لوگوں سے لابنگ کرنی پڑتی ہے. وہاں خواتین کے لئے تو ایسا سوچنا بهی محال ہے کہ وہ آزادانہ اپنی بات کو قارئینِ تک پہنچا سکیں. جہاں خواتین اپنی عزت بھی بچائیں اور ایک نسل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیئے تحریری شکل میں اپنا کام قارئین تک بھی پہنچائیں اور اسے اپنے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی اولادوں کے لیئے فخریہ اثاثے کے طور پر چھوڑ سکیں ۔ کہ یہ ہی اصل صدقئہ جاریہ بھی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں آج سے قریباً دو سال قبل پیرس کی معروف رائٹر اور کالم نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے ایک بہت بڑا اور اہم قدم اٹھایا۔ خواتین کے لئیے ایک اکیڈمی کا پروگرام پیش کر کے.اس وقت تک یہ ایک خیال کی سی حیثیت رکهتی تهی۔ لیکن ارادے کی پختگی اور سوچ کی مضبوطی نے اس خاتون سے وہ کام کروا لیا جس کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ                                                                                   
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
بڑے بڑے ڈراونے جہازوں کو اپنی تمام تر دہشتوں کے باوجود جو منزل اور مقام نہ مل سکا وہ مقام اس تنظیم اور اکیڈمی نے اپنے ملک ,معاشرے اور اخلاقیات کی درستگی مین قابل فخر بہنوں کی معیّت میں بہت جلد حاصل کر لیا. لیکن یہ تو ابهی شروعات ہے.ابهی ہمیں بہت آگے جانا ہے.                                                  
 چھ سال سے آج زیادہ ہونے کو ہے جب مجهے ذاتی طور پر شاہ بانو میر صاحبہ کو جاننے کآ موقع ملا. یہ کوئ روایتی دوسہیلیوں کآ تعلق نہیں تها .یہ دو سوچوں، دو زہنوں اور دوشخصیات کا تعلق تها اس میں کهٹےمیٹهے پل بهی آئے.  لیکن یہ کهٹاس بهی کوئ ذاتی نوعیت کی کبھی نہیں رہی ۔ یہ دو سوچنے اور نقطہ نظر  رکھنے والوں کے اصولی نکات پر دلیلی کهٹاس ہوا کرتی تهی جب ہم اس پر بحث کرتے اور جس کی دلیل مضبوط ہوتی ہم اسے بلا چون وچرا قبول کر لیا کرتے تهے ۔ یہ اس لیئے بهی تها کہ ہمارے کام میں کوئ پیسے کا لالچ یا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں تھا. لہذا خود غرضی کا بهی کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تها .کئی سمجهداروں نے ہمیں ایک دوسرے سے توڑنے کی ناکام کوششیں کیں لیکن جن بنیادوں کو لالچ کی ریت کے بجائے عزت،اعتماد ,اور یقین کے سیمنٹ سے بهرا جائے اور اس پر مقاصد کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو تب کہیں جا کر آپ کو ایک کامیابی کا محل نصیب ہوتا ہے.                                                     
یہ اسی خاتون کا عزم تها کہ جس نے مجهے اس کے کردار کی مضبوطی پر کبھی شک کرنے کی اجازت نہیں دی. جس نے بهری جوانی کو ہر ایک کے لیئے ماں جیسی سوچ اور رویے میں ڈھال کر گزار دیا ہو اس پر اب جب اپنے بچے اپنے قد برابر آن کھڑے ہوں،  اس کی جوانی کے کردار کو نظرانداز کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی. اور کم از کم میں تو یہ ناانصافی کرنے کا نہیں سوچ سکتی. یہ مسئلہ  میرا یا شاہ بانو میر صاحبہ جیسی خواتین کا عموماََ ہی ریا ہے کہ ہم بہت سے بھائیوں کی اکلکوتی بہنوں کے لیئے مرد کوئی دنیا کی انوکھی مخلوق نہیں رہتے وہ ہمارے لیئےیا تو ابو جی اور ڈیڈی جان ہوتے ہیں یا پھر ہمارے پیارے پیارے بھائی جن سے ہم لڑتے بھی ہیں، بحث بھی کرتے ہیں ، باتیں مانتے بھی ہیں اور منواتے بھی ہیں ۔ اور کبھی کبھی ان سے ناراض ہو کر انہیں اپنی اور اپنے مقصد کی اہمیت کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہم سے بات کرتا ہے تو ہمارے لیئے وہ ہمارے بچوں جیسا ہی ہوتا ہے جسے کبھی ہم پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر سمجھانے اور کسی خرابی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں وہ پیارے بھائی جنہیں ایک عورت دانتوں میں دوپٹہ دبائے  یا پھر زلفیں بکھرائے بیوٹی پارلر کا اشتہار بنے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے وہ اس ، بااعتماد ،موضوعات ہر بےدھڑک اور دلائل سے بات کرتی ہوئی عورت ایک دم سے ذہنی طور پر قبول نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ان کی نظر میں دلیل دینا ، بحث کرنا ، کوئی مقصد اپنی زندگی میں رکھنا یہ صرف اور صرف ایک مرد کا حق ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ذینب سلام اللہ علیہ کی زندگی اس ہندووانہ تصور  کی واضح نفی کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ہی سوچوں کی ہم اہنگی اور اور ایک دوسرے کا احترام ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ اور یہ ساتھ انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہیگا ۔ چاہے اس میں کتنے بھی اختلاف آئیں ۔ یہ تعلق دو سچی روحوں کے احترام کا تعلق ہے ۔                                                
  میں نے ہر ناراضگی کے بعد دوبارہ ملنےپر شاہ بانو میر صاحبہ کے لیا اپنے جذبات کو مزید نکھرا ہوا اور پہلے سے کہیں زیادہ محبت انگیز پایا ہے .اس اکیڈمی کے تحت ہر موقع اور حالات کے مطابق رپورٹس اور کالمز ہمارے قارئین تک پہنچتے رہے ہیں ۔ جس میں سیاسی. سماجی. معاشرتی اخلاقی اور دینی مسائل بهی شامل رہے ہیں. ہماری کوئی بهی تحریر کبھی بهی کسی ایک فرد کو نشانہ بنا کر تحریر نہیں کی گئی. جو ایسا سمجهتا ہے تو وہ ناسمجھ ہے.                             اس ٹیم کی ہر بہن ذہنی طور پر انتہائی مضبوط ، بااعتماد، اور باشعور ہے ۔ محترمہ وقارالنساء صاحبہ ، محترمہ نگہت سہیل صاحبہ ،محترمہ انیلہ احمد صاحبہ ، محترمہ ممتاز ملک صاحبہ اور خود بانی اکیڈمی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ اس اکیڈمی کے لیئے اللہ پاک کی جانب سے کسی تحفے سے کم نہیں ہیں ۔                  ہماری تحریر کا مقصد ہمیشہ ایک اجتماعی اصلاح رہی ہے.  اور اس اصلاح کے عمل میں اور اسکے نشانے پر خود ہماری اپنی زات بهی ہوتی ہے کیونکہ ہم خود کو فرشتہ نہیں سمجھتے ہم میں  بهی بےشمار خامیاں ہوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان خامیوں کو ٹهیک کرنا چاہتے ہیں ۔کئی دوسرے ساتھیوں کی طرح اپنی خامیوں پر اکڑتے نہیں ۔ کیونکہ اکڑنا ، غرور کرنا ، تکبر کرنا ، بڑائی کرنا یہ سب باتیں صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کو ہی زیب دیتی ہیں۔ ہم انسانوں کا اس سے کیا لینا دینا ۔ یہ باتیں اللہ پاک میں تو خوبیاں ہیں لیکن کسی انسان میں ان کا شائبہ بھی آ جائے تو اس کا بدترین عیب بن جاتی ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں ان عیوب سے اپنی امان میں رکھے ۔  آمین 
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                  

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

● (7) زبان اور بیان / کالم۔ سچ تو یہ ہے





                                  
(7)  زبان اور بیان 
     تحریر: ممتازملک۔پیرس  





  جب انسان کے پاس سامنے والے کی عمر , مقام, مرتبے, موقع اور جنس کے حساب سے کہنے کو مناسب الفاظ نہ ہوں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر وہ بولتے ہوئے خود کو اچھے لگتے ہیں تو نہ بولنے پر سب کو بہہہہہہہہہت اچھے لگتے ہیں.  یہ ہمارا ذاتی خیال ہے اور آپ کو اس سے اختلاف کا پوووورا حق حاصل ہے. ویسے بھی کہتے ہیں کہ بیشک زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ بڑوں بڑوں کی ہڈیاں تڑوا دیتی ہے. کہنے کو زبان منہ میں یہ چهوٹا سا گوشت کا لوتهڑا ہے لیکن اپنی زرا سی لغزش پر حضرت انسان کوجنت اور جہنم کا چکر بهی لگوا سکتی ہے. عزت کے مرتبے بهی دلواتی ہے اور پھانسی کے پھندے میں بھی فٹ کرواتی ہے. کتنی ہی اچھی صورت ہو اور کتنا ہی مہنگا سوٹ کسی کے بدن پر سجا دیا جائےلیکن اس کی انسانی حیثیت اور قیمت اس کا منہ کھلتے ہی سامنے آ جائے گی ۔ اور کئی بار پھٹے پرانے ملبوس میں موجود کوئی بدصورت انسان جسے شاید کوئی دیکھ کر پاس بٹھانے پر بھی تیار نہ ہو، لیکن جب وہ بات کرنا شروع کرتا ہے تو انسان اس کے الفاظ و انداز کی ادائیگی کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس کا کرداردیکھتے ہی انسان کی نظریں اور سر عقیدت سے اس کے سامنے جُھکتا چلا جاتا ہے ۔ یہ ہی زبان اسے عظمت کی بلندیوں تک لیجاتی ہے، لیکن ہاں اس زبان کی تاثیر بھی بے شک اس کے کردار میں چُھپی ہوئی ہے ۔ بے کردار آدمی کی زبان بھی اس کی طرح بے اثر ہو جاتی ہے ۔ اس کی مثال اس صدی کے علماء کو ہی دیکھ لیں ۔ کتنا کلیجہ باہر نکال نکال کر چِلا چِلا کر لوگوں کو آیات اور احادیث سنا رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کیوں کہ انکا اپنا کردار صاف نہیں ہوتا تو بدلے میں انکی زبان اور الفاظ سے بھی تاثیر اللہ پاک کی جانب سے چھین لی جاتی ہے۔ ویسے تو دل کے بارے میں بھی یہی فرمایا جاتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے مگر کیا کریں کہ کمبخت دل بهی انسان کو پلٹیاں دینے سے باز نہیں آتا . نظر کو ساتھ ملاتا ہے اور دوسروں کے ہر جذبے ، ہر خواہش ، ہرنوالے پر نظر رکھتا ہے. اور خود لوگوں کے شِپ کے شِپ ڈکار چکا ہو، وہ دیکھنے کو تیار نہیں. اسی دل کے مرض نے ہی تو حرام اور گناہ میں مزے کی نوید سنائی. دماغ میں دل کے ہی مہمان بِٹھا لئے جاتے ہیں اور اس وجود کا بزرگ سا مالک ضمیر اپنی نحیف آواز میں انہیں خبردار کرتا رہتا ہے لیکن کیا فائدہ ضمیر بابا ! اگر خطرے اور امتحان کی گھڑی میں لمبی تان کر نہ سوتے تو حالات مختلف نہ ہوتے کیا؟         اب جب زبان، دل ،دماغ اور نظر آپ کے ہاتھ سے نکل ہی چکے ہیں تو آپ بس دعائے خیر ہی کریں کیونکہ دعائے مغفرت تو بڑی دھوم دھام سے ہو گی .
●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●


اتوار، 19 اکتوبر، 2014

● (8) مادر وطن اور چادر وطن/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(8) مادر وطن اور چادر وطن
تحریر: ممتاز ملک. پیرس


بہت ہی ذیادہ دیر ہوچکی ہے خواتین کو معذوروں جیسی ذندگی گزارتے ہوئے ۔ اللہ پاک نےعورت کو بھی دماغ عطا کیا ہے ۔ ویسے ہی سوچنے کا حق بھی عطا کیا ہے ۔ لیکن بد نصیبی سے ہمارے ہاں خواتین کو نہ تو اپنی زندگی پر کوئی اختیار حاصل ہے نہ ہی انہیں اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی اچھا فیصلہ یا کوئی عقل کا کام کر سکتی ہیں ۔ اور تو اور ہماری 70 فیصد عورتوں کو الیکشن کے زمانے میں اپنی مرضی سے کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کی تک کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں ہمیشہ گھروں سے حکم دیکر بھیجا جاتا ہے کہ بس فلاں بندے کے نشان پر ہی مہر لگانی ہے ۔ اکثر علاقوں میں تو ان خواتین کے گھر والے  کسی بھی وڈیرے ، چودھدری ، یا خان کو اس کی لاعلمی میں ہی اسکا ووٹ ایڈوانس میں ہی بیچ کر آ جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان بے عقل مردوں کی وجہ سے عورت کا ووٹ بھی کسی اچھے امیدوار کی جگہ کسی نہ کسی ایسے امید وار کو چلا جاتا ہے جسے دیکھ کر بعد میں انسان اکثر سوچتا ہے کہ" اوہو اس سے اچھا تھا کہ میں اپنا ووٹ کسی کوڑے دان میں ڈال آتا"۔                 ان سب باتوں کی وجہ تمام مردوں اور خواتین کی جہالت ہی ہوتی ہے۔ عورتوں کراپنے ووٹ کا  احساس دلانے کا وقت آن پہنچا ہے .پاکستان کے (67)سرسٹه سال ہمیں یہ سبق دے کر گئے ہیں کہ اپنے گھروں اور خاندانوں کے مردوں کو ہم نے یہ سوچ کر اپنے سوچنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا کہ یہ ہمارے نگہبان ہیں اور ہماری حفاظت کی ذمّہ داری ادا کریں گے . لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ ہماری کیا حفاظت کرتے الٹا انہوں نے کہیں ہمیں کاری کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا. تو کہیں جائیداد بچانے کے لئے ہمارے ساتھ قران سے نکاح جیسی مذموم حرکتوں کی تاریخ بنا دی .کبھی ہمیں جانوروں کے بدلے بیچا گیا تو کہیں ہمیں جوئے میں ہارا گیا. کہیں ہمیں تیزاب سے نہلایا گیا. تو کہیں ہمیں آگ لگا کر راکھ کیا گیا. کہیں ہماری ہی عزتیں لوٹ کر ہمیں ہی بدکار کاخطاب بهی دے دیا.             ہماری حفاظت کے ذّمہ داروں نے آج تک اپنے عمزادوں میں سے کسی کو سولی کیا چڑھانا تها ان کے خلاف آج تک کہیں کوئی آواز تک نہیں اٹھائی.کہیں مردوں نے ان مجرموں کو سزا دلوانے کی کوئی کوشش نہیں کی. یہاں تک کہ ایک جلوس تک نہ نکالا. ہمارے ہی گھروں کے مردوں نے ہمارے ووٹ بیچ بیچ کر ایک سے ایک بڑا کرپٹ اور بدکار اور بدمعاش آدمی ہمارا لیڈربنا کر مادر وطن کو دنیا بھرمیں رُسوا کیا. آج ہر عورت کو یہ بتانے کا وقت آگیا ہے کہ ووٹ صرف کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہے بلکہ ہماری عزت, جان, تعلیم, اپنی اولادوں کے مستقبل کا وہ ٹهیکہ ہے جو بنا سوچے سمجھے کرنا ہی ہمیں برباد کر گیا ہے. اب اپنے ووٹ کا حق ہمیں خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا ملک کی ہماری 54% آبادی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے .اب ہمیں ان لوگوں کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانا ہے جو سب سے پہلے عورت اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور عورت کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت کے لئیے عملی اقدامات کرے. ہماری عظمتوں کے لٹیروں کو سرعام(48) اڑتالیس گھنٹوں کے اندر پھانسی پر لٹکا کر دکھا ئے .ہمارے حقوق غصب کرنے والا چاہے ہمارا باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہو  انہیں ایک ہی مہینے میں کڑی سے کڑی سزا دلائے اور یہ سب کرنے کی شروعات اس ووٹ مانگنے والے کے اپنے گھر سے ہونی چاہئیے . اس امیدوار کا اپنے گهر میں اپنی ماں, بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ حقوق ادا کرنے کا ریکارڈ کیسا ہے؟ اگر اس کے اپنے گهر میں کسی عورت رشتہ دار کا کوئی حق مارا جا رہا ہے تو اسے الیکشن میں کھڑا ہونے سے پہلے ہی نا اہل کر دینا چاہیئے. منتخب ہونے کے بعد بھی جو عورتوں اور بچوں کو حقوق پہلے سال میں نہ دلوا سکے اسے بهی اپنے گهر کی راہ دکھائیں گے. عورتوں کے مجرموں کو عورتوں کے سامنے ہی سزا ملنی چاہئیے. اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہی مادر وطن کو اس کی چادر لوٹائی جا سکتی ہے. اٹھ اے پاکستانی عورت کہ مادر وطن کو بہت دن ہو گئے ننگے سر ہوئے. اس کی چادر بیٹے توسرسٹه سال میں نہ لوٹا سکے لیکن اسکی بیٹیاں ضرور لوٹائیں گی کہ ماں کا دکھ بیٹی سے زياده کون جان سکتا ہے.  
   ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●
                            


جمعرات، 16 اکتوبر، 2014

مدعی سُست گواہ چُست/ کالم





مدعی سُست گواہ چُست
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)


15اکتوبر 2014 کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میںفرزانہ باری انسانی حقوق کی علمبردار کو حامد میر سے بہت کچھ کہتے سنا کہ کیسے انہوں نے کھل کرملالہ بی بی کی حمایت میں  اسلامی اور قرآنی احکامات پر اعتراضات کئے . اس خاتون نے کہاں کہاں سے قرانی ادھورے حوالوں کو جوڑ کر ملالہ کو صحیح اور قران کو نعوذبااللہ غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جبکہ ان خاتون کے لئے ہمارا ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ اللہ آپ کو توفیق دے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور قرآن کآ ترجمہ پڑھ لیں تاکہ آپکو آپ کے ہی سوالوں کا جواب مل سکے.رٹا رٹایا عربی قران پڑھنے سے اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ کو قران جیسی الہامی کتاب کی سمجھ آ گئی ہے تو آپ کو انگریزی پڑھنے کے لیئے اس کا مطلب سمجھنے کی بھی کیا ضرورت تھی اسی طرح انگریزی کا رٹا لگا کر ہی ڈگری کیوں نہیں مل جاتی کیوں اس کے لیئے انگریزی کے ٹینسز یاد کیئے جاتے ہیں۔ کیون اسکی ووکیبلری کا رٹا لگایا جاتا ہے ۔ کیوں کہ ہر زبان کو سمجھنے کے لیئے اس کے حروف تہجی کی صرف شکل پہچاننا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کی گرائمر اور لغت میں اس کے الفاظ و معنی کا بھی مکمل علم ہونا چاہیئے ۔ 
  جو قران غیر مسلموں کو بڑے بڑے بے دین اور بددماغ لوگوں کو انسان کی اور خدا کے فیصلوں کی حقیقت بیان کرتا ہے ۔ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لا کر کھڑا کرتا ہے ،وہ آپکوبهی سچائی کا رستہ دکھائے گا. ابهی جو آپ ملالہ کی وکالت میں تڑپ کر بیان بازی کر رہی ہیں تو آپ ہی عراق. میانمار.،غزہ کے ہزاروں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کئے رہیں؟ کیوں انسانی حقوق کے نام پر آپ کی این جی اوز کے منہ سی دئیے جاتے ہیں؟ظاہر ہے جو ہڈی ڈالتا ہے وہ اپنی مرضی کے خلاف نہ تو کسی کوبھونکنے دیتا ہے نہ کاٹنے دیتا ہے. اسلامی احکامات انسان کی اس دنیا ہی نہیں بلکہ اگلی زندگی میں بهی کامیابی کے گر بتاتے ہیں.                                                             
                              ذندگی کے پچیس ، تیس برس اس خاتون نے دنیا کا علم کمانے میں گزار دی ، اب ہمت کریں تو صرف تیس دن ہی دین اور قران کے علم پر صرف کر کے دیکھیں ۔ آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ یہ دنیا اور وہ دنیا انسان کی ذندگی میں کیا مقام رکھتی ہے اور انسان سے کیا تقاضا کرتی ہے ۔  اللہ کے احکامات کو چیلنچ کرنے کے بجائے اگر آپ اس کے احکامات کے اغراض ومقاصد کو ہی سمجھنے میں کچھ روز صرف کر دیتیں تو آج  میڈیا کی شہہ پر آپ کو یوں بے دینی کی باتیں کرتے ہوئے اپنے دین میں کیڑے کبھی نظر نہیں آتے ۔ ہم آپ کے لیئے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک آپکو دین کی سمجھ اور قران کی محبت عطا کر دے ۔ اور یہ تبھی ہو گا جب دنیاوی شہرت اور پیسہ کمانے کا بھوت آپ کے سر سے اترے گا ۔  اور کسی کی بھی محبت میں اتنا مبتلا نہیں ہو جانا چاہیئے کہ اس کی جانب سے سوال کرنے والوں سے جھگڑنا اور اپنی جانب سے جواب گھڑنا شروع کر دیں۔ محبت اپنی جگہ رکھیں اور جواب دہی کے لیئے دوسرے کو ہی لب کشائی پر مجبور کریں ورنہ معاملہ مدعی سُست اور گواہ چُست کا ہوجاتا ہے جس میں جوتے گواہ ہی کو کھانے پڑتے ہیں ۔                          
             ۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                   


پیر، 13 اکتوبر، 2014

نوبل مذاق/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





نوبل مذاق
ممتازملک۔پیرس


انعام حاصل کرناہر انسان کی ہیزندگی کی ایک بڑی خواہش ہوتی ہے
 اس کے لیئے کوئی کوشش کرتا ہے اور کوئی سازش کرتا ہے ۔ اور جب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تو خواب ےتو ضرور ہی دیکھتا ہے ۔
ہمیں بھی چند روز پہلے ایک ایسا ایوارڈ وہ بھی نوبل ایوارڈملا کہ پوری پاکستانی 
قوم دانتوں میں انگلیاںداب کر رہ گئی۔دنیا میںجب
 بھی کسی بھی ملک کے کسی فرد کو یہ ایوارڈ
ملتا ہے تو وہ سینہ پھلاکراس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اس کا اس ایوارڈ پر حق ثابت کرتے ہیں ۔ لیکن ہم پاکستانی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ آخر جس کو یہ ایوارڈ ملا ہے تو کس بات پر ملا ہے ۔ ابھی کچھ ہی عرصہ
 قبل کی بات ہے جب ایک معصوم صورت بچی کو پاکستان کے ایک شورش ذدہ اور دہشت گردی کے شکار ہمارے پیارے صوبے کے پی کے میں پڑھنے لکھنے کے شوق میں اور دنیا کو پاکستان میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف متوجہ کرنےپر پاکستان بھر کی محبت بھی ملی اور لاڈ دلار بھی ملا ۔ ہر آدمی نے اسے اپنی ہی بچی کی نظر سے دیکھا ۔ پھر کچھ ہی عرصہ میں جانے کیا کھچڑٰی پکتی نظر آئی
 ایک ڈرامائی حملہ پلین کیا گیا اور اس میں کئی بچوں کی جانوں کو داؤ پر لگا کر یہود و ہنود نے چیل کی طرح ایک خاص تماشے کے ساتھ ملالہ نامی لڑکی کو جہازوں میں اڑایا اور سازشی پنجوں کے ذریعے اسے پاکستانی ماڈل بنانے کی ناپاک کوشش کو آغاز ہو گیا ۔ اس کے ساتھ کی بچیاں کہاں گئیںآج کسی کو پتہ نہیں ۔ اس لڑکی کے ڈی این اے پر سوالات اٹھے تو جوابات کا کوئی پتہ نہیں ۔ اس کے والدین پر سوالات اٹھے تو کوئی جواب نہیں ۔   پھر ایک ایک دن میں اس کبھی ہم نے سلمان رشدی خنزیر اور، تسلیمہ نسرین بنگلہ بھگوڑی کے ساتھ تصویروں میں دیکھا کیا ایسی سیانے لڑکی جو 10 ، اور بارہ سال کی عمر میں دنیا بھر کو اپنی چٹھیوں اور میلز کے زریعے متوجہ کر سکتی ہے اتنی احمق اور جاہل ہو گئی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کن اسلام دشمنوں اور مسلم کش لوگوں کیساتھ کھڑی ہے ۔
 آج اسے جنرل اسمبلی دعوت خطاب دے رہی ہے تو کل اسے امریکہ کا پریذینٹ گود میں بٹھانے کو بیتاب ہے ۔ کبھی ملکہ برطانیہ دیوانی ہو رہی ہیں تو یورپئین اس پر کتابیں چھاپ چھاپ کے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں ۔ 
کیا ہے یہ سب سیہونی ڈرامہ ۔ آج کئی
سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے تو سوچا کہ کیا ہی کمال بلکہ کمالات کی مالکہ ہیں یہ لڑکی کہ کچھ نہیں کرتی مگر اوروں کے کندھوں پر بیٹھی کمال کرتی ہے ۔ ہم سب دوارب سے اوپرکی آبادی کے مسلمان تو ایسا کوئی علم اور ہنر رکھتے ہی نہیں تھے جو نوبل ایوارڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ۔ لیکن کل کی چھوکری نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ارے بیوقوفو اس ایوارڈ کو لینے کے لیئے قابلیت کا ہونا نہیں بلکہ پشت پر یہودو ہنود کا وہ ہاتھ ہونا لازمی ہے ۔  آدمی کو میر جعفر ہونا چاہیئے پھر ایوارڈ کی کیا کمی ہے پنجابی میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
" سِر سلامت تے جُتیاں ہزار "
ملالہ بی بی کو تب تک یہ نوازشات ملتی رہیں گی جب تک اس کی غیرت بیدار نہیں ہو جاتی ۔ جس دن اسے کشمیر اور فلسطین کے معصوم شہید نظر آنے لگے ، جس دن اسے میانمار کی مسلم لاشوں کی گنتی نظر آگئی ،جس دن اسے غزہ کے بچوں کے پھٹے ہوئی میت نظر آگئے ، اس دن ملالہ بی بی جان لیں کہ ان کے یہ ہی یہودی ہنودی آقا انہیں بڑی صفائی سے قتل کر کے ایک اور ایوارڈ اس کی گردن میں پھولوں کے ہار کے ساتھ اس کے فریم پر ٹانگ دیں گے ۔ 
پاکستانی قوم وہ بہادر اور ڈھیٹ قوم ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے امتحان سے گزرتی ہے لڑکھڑاتی ہے گرتی ہے روتی ہے آنسو پونچھتی ہے اور پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اس میں ہر آدمی کئی کئی کہانیاں رکھتا ہے ۔ آزمائش کے کئی کئی مرحلے گزارے بیٹھا ہے ۔ اسے تو کبھی زبانی پزیرائی دینے کی بھی کسی کو کوئی توفیق نہیں ہوئی ۔ کہاں ایک دس بارہ سال کی لڑکی کو بنا کوئی تیر مارے ہیروئین بنانے کا قِصّہ ۔ عافیہ صدیقی کا جرم ، ایک امریکی پر حملہ کرنے کے جواب میں غیرت مندوں کی طرح بندوق اٹھانا،                      
 گولیاں کھانے کے لیے تو ہماری پورے قوم کے ساٹھ ہزار سے زیادہ کے لوگوں نے خود کو قربان کر کے مثال قائم کر دی ،                                           
ایک استانی نے اپنے شاگردوں کو جلتی گاڑی سے نکالتے ہوئی خود کو شعلوں کی نذرکرلیا۔                                                                                      
خدمت کی مثال بنے تو ایدھی جی پر فلمیں  بن سکتی ہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن انہیں ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا ۔ دنیا کی سب سے بڑی فلائنگ ایمبولینس سروس بھی انہیںیہ ایوارڈ نہ دلا سکی ۔                            
14 سالہ بچے کا اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کی جان بچانے والے کو بھی نہ مل سکا ۔                                                                        
سوچیئے تو سہی کہ یہ ایوارڈ اسے کیوں ملا؟اور اسے اپنے ہی ملک میں مشکوک کیوں بنا دیا گیا ۔ اور اگر یہ لڑکی پاکستانی ہے تو اسے پاکستانیوں کےہی اعتراضات پرکوئ تکلیف کیوں نہیں ہے؟
عراق ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، برما، کشمیر ، پاکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر اعلانیہ صلیبی جنگ لڑنےوالے 
یہود ہنود اب اس لڑکی کو کب کہاں اورکیسے قتل کریں گے یہ پکچر 
ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


   



                                                


جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں۔ کالم ۔



ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں
(ممتازملک۔ پیرس)




عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ایک قدرتی امر ہے ۔ خاص طور پر بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کی مثال کمہار کے ایک ایسے برتن کے جیسی ہوتی ہے جو بظاہر تو چاک پر ہی ایک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے لیکن ابھی اس کے لچکتے وجود کو پختگی اور سمجھداری کی تپش کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ورنہ وہ دھڑام سے بنانے والے ہی کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈھیری کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔                                                            
13 سال سے لیکر 19 سال تک کی عمر بچوں میں جسے ہم ٹین ایج بھی کہتے ہیں،ایک خاص دور ہوتا ہے اس میں ماں  کو بچوں کے لیئے اور باپ کو بیٹوں کے لیئے بہت ذیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ عمر کا یہ ہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں یا تو آپ اللہ کے کرم سے کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی ناسمجھی سے ناکام ہو جاتے ہیں ۔                                                                              
 آج ہم خاص طور پر اس عمر کی بچیوں کی مزاجی تبدیلی پر بات کرتے ہیں ۔ اکثر ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ بچیوں کے شوق لڑکوں سے جدا ہوتے ہیں جیسے انہیں ماؤں کی جیولری ، کپڑوں اور میک اپ کو خود پرٹرائی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ ان میں کارٹون ہی کیوں نہ لگیں ۔ بس یہ انکے لیئے کشش کا باعث ہوتا ہے کہ ہماری ماں یہ سب لگاتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں تو ہم بھی اچھے لگیں ۔ اچھا لگنے کی یا شاباش لینے کی خواہش بچیوں میں ضرور موجود رہتی ہیں اور اسکا کسی بھی انسان اور خاص طور پر بچوں میں ہونا کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں انہیں پیار سے یہ بات دوستانہ انداز میں ماؤں کو باتوں باتوں میں بتاتے رہنا چاہیئے کہ بیٹا آپ کی عمر میں کیا چیز آپ کے لیئے اچھی ہے یا آپ پر اچھی لگتی ہے ، یا کس کس چیز یا میک اپ سے آپ کی نازک جلد خراب ہو سکتی ہے ، آپ کے پیارے سے چہرے پر ہمیشہ کے لیئے کوئی بھی میک اپ میں شامل جزو داغ چھوڑ سکتا ہے ۔ اس لیئے آپ کو 20 سال کی عمر سے پہلے وہ چیز چہرے پر ٹرائی نہیں کرنا چاہیئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  اس عمر کے بچوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس عمر میں ہونے والی ذہنی اور جسمانی تبدیلیاں دوران خون کو خاصا تیز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے بہت اتھرے ہیں یا ہائیپر ہیں ، جوشیلے ہیں وغیرہ اس لیئے ایسے بچے اکثر بہت بحث کرتے ہیں یا بہت ذیادہ سوال کرتے ہیں۔ انہیں " یہ نہ کرو "کیوں کہ میں نے کہاہے،کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ انہیں ہر بات کہ وجہ چاہیئے ہوتی ہے ۔ کئی مائیں تو کیا باپ بھی جہالت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بیٹے ہی نہیں جوان بیٹیوں کو بھی دوسروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرنے یا انہیں مارنے پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کرتے ۔ کئی گھروں میں تو بیٹیوں کو مارنا غالبٓٓا بڑی شان سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری مار کے ڈر سے ہی ہماری بیٹی کسی برائی میں نہیں پڑی توایسے تمام خوش خیال جاہل والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں جب لڑکی نے آپکو تارے دکھانے ہیںتو وہ پنجرہ توڑ کر بھی فرار ہو سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ اس کے ساتھ آگے ہو گا کیا ؟ لیکن جس کی فطرت میں پاکیزگی ہے اسے بے دھڑک بھی چھوڑ دیں تو بھی وہ کسی گندگی میں شامل نہیں ہو گی کیوں کہ عورت کی فطرت میں حیا اللہ نے شامل کی ہے ۔ جبکہ جو لڑکیاں ان برائیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اس میں ان کے والدین اور خاص طور پر ماں ہی قصوروار ہوتی ہے ۔ جو بچی کی عمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سمجھنے کے بجائے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا بڑی بہادری سمجھتی ہے ۔                                                        
 پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو بڑے  ٹھٹھے کیساتھ چلی، جس میں ایک ٹین ایج لڑکی گھر سے کسی اور ڈریس میں نکلی اور باہر آکر اس نے  اپنے کپڑۓ بدل لیئے جبکہ نیچے اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی ۔ ماں نے اسے پیچھے کہیں دیکھ لیا اور گلی ہی میں خوب واویلہ کیا ور اس جوان بچی کو انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا اور بالوں سے گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئی ۔ اس وقت ہمیں بہت افسوس ہوا جب ھاھاھا  لکھ کر اس وڈیو کو شئیر کیا گیا ۔ کیسی بے غیرتی کی بات ہے ان بھائیوں کے لیئے جو بہن کو ایسے شرمسار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ یہ اس لڑکی کی ایک خواہش تھی کہ وہ پینٹ شرٹ میں سکول جائے تو ماں کو نہیں پسند تو اسے بچی کو پہلے ہی ذہنی طور ہر محبت سے یہ بات سمجھانی چاہیئے تھی کہ بیٹا ہمیں آپ کا یہ لباس پہننا اچھا نہیں لگتا ۔ تو شاید بچی بھی اپنی پسند پر غور کر لیتی یا اسے یہ کہا جاتا کہ اس پینٹ کے ساتھ شرٹ لانگ استعمال کرو تو آپ پر اچھی لگے گی تو بھی بات سمجھ میں آ جاتی ۔ اس عمر کی بچوں کو اپنے منہ پر میک اپ ملنا ہے اور کہنے پر بھی ٹرائی کرنا ہے تو کرنے دیں کیوں کہ ان کا دل جلد ہی اس سے بھر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ ٹین ایج سے نکلنے تک انکا سارا شوق ختم ہو چکا ہو گا جبکہ آپ نے ان پر بیجا سختی کی تو یہ کام تو انہوں نے کرنا ہی ہے سامنے نہیں تو چھپ کر کریں گی ۔ تو کیا فائدہ ۔ دوسری بات ہماری بہنوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کسی بھی بچی کی عمر دیکھے بنا اس پر اعتراض کرنے کا ۔ اپنی بیٹی چاہے ان کی حرکتوں سے باغی ہو کر کہیں بھی منہ کالا کروا لے، وہ اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں دکھائی نہیں دیگا لیکن کسی کی بچی نے ٹین ایج میں منہ پر میک اپ نام کا کوئی لال پیلا رنگ لگایا ہو تو فورا اس بچی میں اخلاقی اور شرعی عیب ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی ۔اور معذرت کیساتھ آجکل کی نام نہاد تہجد گزار اور وظیفہ پڑھے والی خواتین میں یہ عیب عروج پر ہے ۔ حالانکہ وہ اپنی عمر میں یہ سب کچھ کر چکی ہیں مگر پوچھنے پر خود کو پیدائشی حاجن بی بی ثابت کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔    گویا یہ کہنا ہی باقی ہوتا ہے کہ جی  ہم تو '' دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں''  کی کسر ہی رہ جاتی ہے ۔  آپ نے اکثر ایسی بزرگ خواتین 50 سال سے اوپر کی بھی دیکھی ہوں گی کہ جو پورا بیوٹی پارلر بن کر باہر نکلتی ہیں ۔ عجیب سے نیلے پیلے کپڑے ، بڑے بڑے بندے ، دونوں کلائیاں ہر طرح کی چوڑیوں سے بھرے ،  خوفناک میک اپ ۔ جی ہاں یہ وہی خواتین ہوتی ہیں جن کا ٹین ایج انتہائی تکلیف میں گزرا ہوتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی سے ننھی منھی خواہشیں  پوری کرنے کی اجازت بھی کبھی نہیں دی گئی ۔ اور وہ حسرتیں ان کے دل میں پلتی رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد بھی کئی گھروں میں ان پر بیجا پابندیوں نے ان کے اس شوق کو اور ہوا دی اور بڑہاپے میں جب انہیں اختیارات ملے تو انہوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کر دیئے ۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والوں کے لیئے یہ ہنسنے کی بات لگتی ہو ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ایسے شوق کی وجوہات کو سمجھنا چاہیئے ۔ اور ان سے ہمدردی رکھنی چاہیئے ۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں  کہ کل کو اپکی بیٹی کو بھی کوئی دیکھ کر اس کا مذاق نہ اڑائے تو خدارا اپنی ٹین ایج بچیوں کی دوست بنیں اس کوپیار سے اپنی تہذیب سکھائیں۔ انہیں  سوشل ایونٹس میں بھی اپنے سارتھ رکھیں تاکہ انہیں لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ، بات کرنا ، اور لوگوں کو سمجھنا آئے ۔ کیوں کہ آخر کو انہوں نے نئے لوگوں میں بھی بیاہ کر جانا ہے تو اگر آج وہ لوگوں کو سمجھ سکیں گی تو اپنے گھروں کو جلد اچھے سے سنبھالنے کے بھی قابل ہو جائیں گی کہ یہ خود اعتمادی آپ ہی کی دی ہوئی ہو گی ۔ ماں کی محبت اور سمجھداری عورت کی ہر عمر میں اس کی عادات سے جھلکتی ہے ۔ اگر مائیں بچیوں کی دوست ہوں توانہیں کبھی زندگی میں کسی دوست کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے بچے دوستوں میں رہنا ذیادہ پسند کرتے ہیں یا آپ کیساتھ کہیں جانے پر تیار نہیں ہیں  تو اپنے رویے پر غور کریں کہیں وہ آپ کی صحبت سے نالاں تو نہیں ہیں ۔ غور کریں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں ۔ اگر آپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/