ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 14 نومبر، 2014

خوشبو کے بھبھکے / ممتازملک / پیرس



                              خوشبو کے بھبھکے
                                  ممتازملک / پیرس



انسان جہاں جاتا ہے جن  لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے. ان کی کچھ نہ کچه عادات اور خیالات ضرور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کو ئ مکهی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تواپنے پروں اور پیروں ميں چاہے نہ چاہے وه گندگی نہ صرف اٹهاکرلیجانی ہے ۔ بلکہ اسےجہاں جائے گی اور بیٹهے گی وہاں وہاں پھیلائے گی ۔ اسی طرح جب یہ ہی مکھی پھول پر بیٹھے گی تو انہیں پروں میں پھول کے بیج چپکا لائے گی اور اسی پھول کی پنیری بنانے کاسبب بھی بن جائے گی ۔
 بچپن سے سنا کرتے تھے کہ کوئلہ بیچنے والوں کے پاس بیٹھو گے تو کوئلے بیچو نہ بیچو دامن پر کالک ضرور لیکر اٹھو گے ۔ جبکہ عطر والوں کے پاس بیٹھو گے تو عطر خرید سکو یا نہ خرید سکو خوشبو کے بھبکے تو لیکر ہی اٹھو گے  اس وقت یہ باتیں ہمارے لئے جانے کس جہاں کے قصّے ہوتے تهے لیکن آج خود زمانے کے سرد گرم دیکه کر ہم اس مقام پر ہیں جہاں دوسرے ہمارے لہجے کی سختی کبھی ہمارے دنیا سے پروائی کا گلہ کرتے ہیں ۔ کبھی ہمیں سب کو خوش رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈپلومیسی  کا نام دیکر منافقت کق پرچار کرو اور خوش رہو کا فارمولا سکھایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ نہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ لفظوں کی سختی اصل میں اس تجربے یامشاہدے  کایقین ہوتا ہے یا خود زندگی کے تجربات کے بعد آنے والا بهروسہ ، اپنے لفظوں پر اعتبار ہوتا ہے جسے ناسمجھ لوگ ہم جیسے ناسمجھوں کو بدنام کرنے کے لیئے سخت مزاج یابدمزاج کاٹیگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.
انسان کے دوست بهی مکھی کےپروں سے چپکی گندگی یاپهولوں کے بیج جیسے ہوتے ہیں .ان کی صحبت بهی کوئلے کی کالک یا خوشبو کے بھبکے جیسی ہوتی ہے .ہم اکثر اپنے بہن بهائوں سےوہ باتیں نہیں بانٹ سکتے جو ہم اپنے دوستوں سے بانٹتے ہیں۔ .حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بهی بهائ کو سونا تو دوست کو ہیرا کہا ہے .
 دوست کو دوست کا آئینہ کہا جاتا ہے.
 دوست کا مشورہ خلوص پر جبکہ بهائ کا مشورہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے.
 دوست کا جھگڑا کسی نقطے اور دلیل پر ہو گا جبکہ بہن یابهائ کا جھگڑا ضد اوز ضرورت پر ہو گا.
 اسی لیے کہا گیا کہ اچها دوست جتنی بار روٹھے اسے اتنی بار منا لینا چاہیئے کیونکہ موتیوں کی مالا یاتسبیح جتنی بار ٹوٹتی ہے موتی اتنی ہی بار پھر سے چُن لیئے جاتے ہیں پھر سےتسبیح بنا لی جاتی ہے.
حکیم لقمان نے بیٹے کو وصیّت کی کہ دنیا سے جانے کے وقت تک تمہارے دو مخلص دوست بهی تم نے پا لئے تو جان لینا کہ تم نے دنیا کی زندگی بیکار نہیں گنوائی. اس سے معلوم ہوا کہ ایک اچها دوست کس قدر کرانقدر سرمایہ ہے ۔دنیا کی دولت روپے پیسے کی تو آپ حفاظت کرتے ہیں جبکہ دوست ایسی دولت ہے جو خود آپکی آپکے وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/