ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 13 اکتوبر، 2014

نوبل مذاق/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





نوبل مذاق
ممتازملک۔پیرس


انعام حاصل کرناہر انسان کی ہیزندگی کی ایک بڑی خواہش ہوتی ہے
 اس کے لیئے کوئی کوشش کرتا ہے اور کوئی سازش کرتا ہے ۔ اور جب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تو خواب ےتو ضرور ہی دیکھتا ہے ۔
ہمیں بھی چند روز پہلے ایک ایسا ایوارڈ وہ بھی نوبل ایوارڈملا کہ پوری پاکستانی 
قوم دانتوں میں انگلیاںداب کر رہ گئی۔دنیا میںجب
 بھی کسی بھی ملک کے کسی فرد کو یہ ایوارڈ
ملتا ہے تو وہ سینہ پھلاکراس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اس کا اس ایوارڈ پر حق ثابت کرتے ہیں ۔ لیکن ہم پاکستانی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ آخر جس کو یہ ایوارڈ ملا ہے تو کس بات پر ملا ہے ۔ ابھی کچھ ہی عرصہ
 قبل کی بات ہے جب ایک معصوم صورت بچی کو پاکستان کے ایک شورش ذدہ اور دہشت گردی کے شکار ہمارے پیارے صوبے کے پی کے میں پڑھنے لکھنے کے شوق میں اور دنیا کو پاکستان میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف متوجہ کرنےپر پاکستان بھر کی محبت بھی ملی اور لاڈ دلار بھی ملا ۔ ہر آدمی نے اسے اپنی ہی بچی کی نظر سے دیکھا ۔ پھر کچھ ہی عرصہ میں جانے کیا کھچڑٰی پکتی نظر آئی
 ایک ڈرامائی حملہ پلین کیا گیا اور اس میں کئی بچوں کی جانوں کو داؤ پر لگا کر یہود و ہنود نے چیل کی طرح ایک خاص تماشے کے ساتھ ملالہ نامی لڑکی کو جہازوں میں اڑایا اور سازشی پنجوں کے ذریعے اسے پاکستانی ماڈل بنانے کی ناپاک کوشش کو آغاز ہو گیا ۔ اس کے ساتھ کی بچیاں کہاں گئیںآج کسی کو پتہ نہیں ۔ اس لڑکی کے ڈی این اے پر سوالات اٹھے تو جوابات کا کوئی پتہ نہیں ۔ اس کے والدین پر سوالات اٹھے تو کوئی جواب نہیں ۔   پھر ایک ایک دن میں اس کبھی ہم نے سلمان رشدی خنزیر اور، تسلیمہ نسرین بنگلہ بھگوڑی کے ساتھ تصویروں میں دیکھا کیا ایسی سیانے لڑکی جو 10 ، اور بارہ سال کی عمر میں دنیا بھر کو اپنی چٹھیوں اور میلز کے زریعے متوجہ کر سکتی ہے اتنی احمق اور جاہل ہو گئی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کن اسلام دشمنوں اور مسلم کش لوگوں کیساتھ کھڑی ہے ۔
 آج اسے جنرل اسمبلی دعوت خطاب دے رہی ہے تو کل اسے امریکہ کا پریذینٹ گود میں بٹھانے کو بیتاب ہے ۔ کبھی ملکہ برطانیہ دیوانی ہو رہی ہیں تو یورپئین اس پر کتابیں چھاپ چھاپ کے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں ۔ 
کیا ہے یہ سب سیہونی ڈرامہ ۔ آج کئی
سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے تو سوچا کہ کیا ہی کمال بلکہ کمالات کی مالکہ ہیں یہ لڑکی کہ کچھ نہیں کرتی مگر اوروں کے کندھوں پر بیٹھی کمال کرتی ہے ۔ ہم سب دوارب سے اوپرکی آبادی کے مسلمان تو ایسا کوئی علم اور ہنر رکھتے ہی نہیں تھے جو نوبل ایوارڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ۔ لیکن کل کی چھوکری نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ارے بیوقوفو اس ایوارڈ کو لینے کے لیئے قابلیت کا ہونا نہیں بلکہ پشت پر یہودو ہنود کا وہ ہاتھ ہونا لازمی ہے ۔  آدمی کو میر جعفر ہونا چاہیئے پھر ایوارڈ کی کیا کمی ہے پنجابی میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
" سِر سلامت تے جُتیاں ہزار "
ملالہ بی بی کو تب تک یہ نوازشات ملتی رہیں گی جب تک اس کی غیرت بیدار نہیں ہو جاتی ۔ جس دن اسے کشمیر اور فلسطین کے معصوم شہید نظر آنے لگے ، جس دن اسے میانمار کی مسلم لاشوں کی گنتی نظر آگئی ،جس دن اسے غزہ کے بچوں کے پھٹے ہوئی میت نظر آگئے ، اس دن ملالہ بی بی جان لیں کہ ان کے یہ ہی یہودی ہنودی آقا انہیں بڑی صفائی سے قتل کر کے ایک اور ایوارڈ اس کی گردن میں پھولوں کے ہار کے ساتھ اس کے فریم پر ٹانگ دیں گے ۔ 
پاکستانی قوم وہ بہادر اور ڈھیٹ قوم ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے امتحان سے گزرتی ہے لڑکھڑاتی ہے گرتی ہے روتی ہے آنسو پونچھتی ہے اور پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اس میں ہر آدمی کئی کئی کہانیاں رکھتا ہے ۔ آزمائش کے کئی کئی مرحلے گزارے بیٹھا ہے ۔ اسے تو کبھی زبانی پزیرائی دینے کی بھی کسی کو کوئی توفیق نہیں ہوئی ۔ کہاں ایک دس بارہ سال کی لڑکی کو بنا کوئی تیر مارے ہیروئین بنانے کا قِصّہ ۔ عافیہ صدیقی کا جرم ، ایک امریکی پر حملہ کرنے کے جواب میں غیرت مندوں کی طرح بندوق اٹھانا،                      
 گولیاں کھانے کے لیے تو ہماری پورے قوم کے ساٹھ ہزار سے زیادہ کے لوگوں نے خود کو قربان کر کے مثال قائم کر دی ،                                           
ایک استانی نے اپنے شاگردوں کو جلتی گاڑی سے نکالتے ہوئی خود کو شعلوں کی نذرکرلیا۔                                                                                      
خدمت کی مثال بنے تو ایدھی جی پر فلمیں  بن سکتی ہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن انہیں ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا ۔ دنیا کی سب سے بڑی فلائنگ ایمبولینس سروس بھی انہیںیہ ایوارڈ نہ دلا سکی ۔                            
14 سالہ بچے کا اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کی جان بچانے والے کو بھی نہ مل سکا ۔                                                                        
سوچیئے تو سہی کہ یہ ایوارڈ اسے کیوں ملا؟اور اسے اپنے ہی ملک میں مشکوک کیوں بنا دیا گیا ۔ اور اگر یہ لڑکی پاکستانی ہے تو اسے پاکستانیوں کےہی اعتراضات پرکوئ تکلیف کیوں نہیں ہے؟
عراق ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، برما، کشمیر ، پاکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر اعلانیہ صلیبی جنگ لڑنےوالے 
یہود ہنود اب اس لڑکی کو کب کہاں اورکیسے قتل کریں گے یہ پکچر 
ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


   



                                                


1 تبصرہ:

  1. ہمارے ملک میں نوبل پرائز کے حق داروں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ مگر افسوس اس بات کو ہے کہ دیا بھی تو کسے ۔ جس کے سر پر پاکستان میں ڈرون اٹیک سے مؑصوم لوگوں کا خون کروایا ۔ دینا میں مسلمانوں کے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ۔ شاید یہ انعام ملا بھی تو اسی کارنامے پر ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/