ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 30 اکتوبر، 2014

● (6) واقعہ کربلا ، روشی بھی رہنمائ بھی /کالم۔ سچ تو یہ ہے


                 

       واقعہ کربلا ، 
 (6) روشنی بھی رہنمائی بھی 
        تحریر:ممتازملک ۔ پیرس





واقعہ کربلا کو جس بھی زاویئے سے دیکھیں اس میں انسانی بقاء اور حرمت کا، انسانی حقوق کا ایک نیا ہی پہلو آپ کو راستہ دکھاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کہیں جانثاری کی روایت میں اپنا سر کٹانے کا جذبہ عشق ہے، تو کہیں کہہ مُکرنیوں اور بزدلی کے کارہائے نمایاں۔ کہیں ہمیں سب انجام جانتے بوجھتے ہوئے اپنے پیاروں کو انہیں کی رضامندی سے اپنے ساتھ مقتل گاہ میں عشق حقیقی کے سامنے سربسجود ہوتے امام حسین علیہ سلام کا سر مبارک کٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے تو کہیں  اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا اپنے کردار اور گفتار سے اپنے مشرکین آباءواجداد کی روایات کو منافقت کا چولا پہنے عملی صورت میں یذید لعین کی مکروہ شکل میں کھڑا دکھائی دیتا یے ۔ عورت کے روپ میں یہ واقعہ کہیں تو ہمیں زوجہء رسول حضرت اُم سلمی  رضی اللہ تعالی عنہ کو امانت داری نبھاتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سونپی گئی خاک کربلا کے لہو ہونے کی تصدیق کرتے دکھاتا ہے تو کہیں بی بی زینب سلام اللہ علیہ بنکر مردانہ وار جرات اظہار اور جراءت کردار کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے نظر آتا ہے ۔          
آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہمیں اس بات کا سختی سے اپنے اندر محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں ایک مسلم تصور کا تحفظ اور مثال پیش کرتے ہیں یا ہم اس ہندو ریاست کا نظریہ دہرانے کی ایک انجانی کوشش کر جاتے ہیں۔ جسے آج  ایک مسلم سٹیٹ پاکستان میں سرسٹھ سال سے رہتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر سے نہیں نکال پائے ۔ گویا ہندو نظریات آج بھی ہماری سوچوں کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں ۔ چاہے شادی بیاہ ہو ، بچوں کی کوئی خوشی ہو، لین دین ہو یا وعدہ وعید ہر معاملے میں ہمیں اپنے لیئے دین اسلام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ حضرت امام  حسین علیہ سلام ہوں یا شیر خدا علی علیہ سلام سبھی عورت کو گھر کے رشتوں سے شروع  کرتے ہوئے انسانی حقوق کی معراج تک لے جاتے ہیں اور یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ کائنات کی سب سے زیادہ پارسا اور مستند ہستیاں ہیں کہ ان کے کسی ایک قول کو بھی ہم نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا تو ہم کہیں ناکام نہیں ہو سکتے چاہے وہ دنیا ہو یا آخرت۔       آج بھی کوئی خاتون کسی میدان میں جرات اظہار یا جرات کردار کا مظاہرہ کرتی ہے تو اسے عجیب و غریب طعنے سننا پڑتے ہیں کہ یہ تو مردوں کے کام ہیں یہ تو مردوں کی باتیں ہیں۔ سیاست میں عورتوں کا کیا کام، کاروباری معاملات میں عورتوں کا کیا کام، رشتوں کے معاملات میں عورتوں کو بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ،(چاہے وہ اپنی شادی ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو ،) ملکی فیصلوں میں عورتوں کو بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ حالانکہ ہمارا دین ہی وہ مکمل دین ہے جس نے عورت کو زندہ رہنے کے حق سے آگے بھی بہت بلکہ بے شمار حقوق عطا کیئے ہیں ۔ صرف اس ڈر سے کہ یہ عورت کہیں ہم مردوں سے آگے نہ نکل جائے، ہم سے ذیادہ عزت نہ حاصل کر لے اور ہم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو جائیں ایسی چھوٹی باتیں صرف کوئی کمینہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری بیٹی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے نایاب ہیرے کے رشتے کے لیئے پوچھتے ملتے ہیں کہ فاطمہ بیٹی کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟       اور تو اور بی بی زینب  کے پیارے بابا شیر خدا انہیں تحفظ دیتے اور حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات منواتے نظر آتے ہیں کہ بی بی ذینب کو ان کی زندگی کے مقاصد سے کسی طور نہیں روکا جائیگا اور نہ ہی انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے اور ان کے کاموں میں شامل ہونے سے روکا جائیگا ۔ اسی شرط کو ماننے کے بعد ہی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت عبداللہ بن جعفر بن طیار رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں  دی ۔ آج اگر کوئی خاتون کسی مسئلے پر جرات اظہار دکھائے تو فورا اسے دس بہتان لگا کر کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ سوچ کہیں کسی بھی زاویہ سے مسلم سوچ نہیں ہے بلکہ جو بھائی ایسا سوچتے ہیں وہ دین اسلام اور خاص طور پر اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار اور جرات اظہار کو ضرور پڑھیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے موڑ دیئے ۔ ماہ محرم کے ہی حوالے سے حضرت زینب سلام اللہ علیہ کے کردار کو کوئی کافر بھی رد نہیں کر سکتا ۔ امام حسین علیہ سلام نے اپنے کردار ، گفتار اور قربانی کا جو علم حق کی راہ میں بلند کیا ۔ اسی علم کو اٹھا کر بی بی ذینب سلام اللہ علیہ شام کے بازاروں سے بھی گزریں اور یزیدی دربار میں ظالم حکمران کے سامنے کلمئہ حق بلند کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں ۔ قید کی اذیتیں بھی سہتی ہیں  اور قید سے واپسی پر خاندان رسول کے شہداء کی تدفین کرتے بھی نظر آتی ہیں ۔ مدینہ تک اپنے غم و اندوہ کو کلیجے میں دبائے قافلے کی سالاری بھی کرتی ہیں ۔ 



 کہیں معصومین کو حوصلہ دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں تو کہیں بیماروں کو سنبھالتے ہوئے نظر آتی ہیں کہیں یذید مردُود کے منہ پر کھڑے ہو کر اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ جس میں یہ سچائی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے کہ بدر کے میدان میں  حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ  کا کلیجہ چبانے والی ہندہ جیسی عورت کا پوتا یزید جیسا خبیث نہیں ہو گا تو اور کیسا ہوگا ۔ یہ ماؤں اور دادیوں کے خون کی تاثیر ہی تو ہوتی ہے جو کسی کو امام اعظم بنا دیتی ہے تو کسی کو یزید مردُود ۔ کسی کو بی بی زینب جیسا مرتبہ عطا کر دیتی ہے تو کسی کو ہندہ جیسی کلیجے چبانے والی  عورت کے نام کی بدنامی ۔  جس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغض و عناد صرف ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکا اثر زہر سے بھی ذیادہ خوفناک ہوتا ہے اور نسلوں تک آپ کے دودہ  اور خون میں اسکا اثر گردش کرتا ہے ۔ زہر تو صرف ایک آدمی کی جان لیتا ہے ۔ جبکہ بغض وعناد کا یہ مرض ہر رشتے اور ہر احترام کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت اور مرد کو جانچنے سے پہلے اس کے کردار کو اور نظریات کو سنت حسینی اور سنت  ذینب رض کے پیمانے پر جانچیں ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں واقعہ کربلا سے رہنمائی حاصل کریں ۔ کہ یہ واقعہ اپنے اندر عجیب معجزاتی حیثیت اور طاقت رکھتا ہے اسے جب جہاں اور جس معاملے میں پڑھیں گے ، یاد کریں گے یا جانچیں گے تو ہر بار روشی کا اور رہنمائی کا ایک نیا در وا ہو گا ۔ 
                    ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
                   ●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/