ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& آٹے میں نمک۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



آٹے میں نمک

گلی سے ایک بچی کھیلتے ہوئی ان کے گھر آ نکلی اور اس کیساتھ کھیلنے کی ضد کرنے لگی۔
وہ ماں کی طرف درخواست بھری نظروں کے ساتھ دیکھنے لگی۔
 میں تھوڑی دیر اسکے ساتھ کھیل لوں
وہ منمنائی۔۔۔
 نہیں ابھی تمہارا باپ آئے گا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا تمہارے۔ خبردار جو گھر سے باہر نکلی۔
 اچھا چلو ہم چھت پر جا کر کھیل لیں۔۔
 اس نے پھر سے درخواست کی
 تو گھر کا کام تو تمہارا باپ کرے گا اس لڑکی کو بولو جائے اپنے گھر۔
 اس نے نفرت تھی اپنی بیٹی کو جھڑک دیا
 اور کمرے میں جا کر اپنے کسی کام میں  مصروف ہو گئی وہ بچی چھوٹی بچی ہی تو تھی۔
 وہ چپکے سے محلے کی بچی کے ساتھ چھت پر جا کر کھیل میں مصروف ہو گئی۔
 ماں کمرے سے باہر نکلی تو اسے صحن میں نہ پا کر آگ بگولا ہو گئی۔
 اس نے چلا چلا کر اس کا نام پکارنا شروع کیا 
 کہاں مر گئی کھوتے کی بچی۔۔
 کہاں دفع ہو گئی۔۔
 ٹہر میں تیرا حشر کرتی ہوں۔۔
 یہ آوازیں سن کر چھت پر کھیل میں مصروف بچی کی جیسے جان ہی نکل گئی
 وہ تیزی سے دوڑتی دوڑتی گرتی پڑتی نیچے کی طرف سیڑھیوں سے اتری۔
 ماں نے اسے پڑوس کی بچی کے سامنے ہی خوب مارنا شروع کر دیا وہ پڑوسن بچی تو ڈر کے مارے بھاگ گئی۔
 لیکن یہ اپنی ماں کے ہاتھ سے بھاگ کر کہاں جاتی۔
 سو خوب مرمت کرنے کے بعد اس نے اسکی ماں نے اسے کچن میں لا کر پٹخا اور بولی
 چل چل کے آٹا گوندھ۔ تجھے پتہ نہیں آٹا تیرا باپ گوندھے گا کیا۔۔
 وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی اور رو رہی تھی
 اس نے جلدی سے پرات  میں اٹا نکالنا شروع کیا ہاتھ دھوئے اور آٹا گوندھتے لگی۔
 جلدی کر آٹا  ٹھہر جائے تو روٹی بھی بنانی ہے ابھی۔
 یہ تیری عیاشیاں ہیں نا یہ تجھے جوتے پڑوائیں گی۔
 پوری رن ہو چلی ہے اور تجھے ابھی تک کام کا نہیں پتہ۔
 وہ 10 سال کی بچی ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے حیران پریشان کھڑی ہوتی اور سوچتی
 تو کتنی پرانی روح ہے اسے اس کی ماں نے کن کن غلیظ خطابات سے نواز رکھا تھا۔
 وہ اسے کیا سمجھتی ہے کہ وہ واقعی اس کی ماں ہے۔
چھوٹے سے دماغ میں پتہ نہیں کون کون سے خیالات آتے رہتے  اور وہ اپنے آنسو اپنے دوپٹے میں جذب کر کے چولہا جلانے لگی۔
 اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پیڑے بنانا شروع کئے۔
 اتنے میں اس کا باپ فیاض گھر آ چکا تھا۔
 اسے دیکھتے ہی اس کی ماں نے دو تین پکے سے چانٹے اس کے سر پہ رسید کیئے اور اسے چولہے کے آگے سے  اٹھا کر پیچھے کی طرف پٹخا۔
 پیچھے ہو ہڈ حرام ابھی تک روٹی نہیں بنائی تو نے۔
 وہ جلدی سے پیڑے بنا کر توے پر روٹیاں ڈالنے لگی ٹریے میں کھانا لگا کر اس نے فیاض کے اگے رکھا۔
 وہ جانتی تھی تھوڑی سی بھی دیر ہوئی تو فیاض نے منہ کھول کھول کر وہ وہ مغلظات سنانی شروع کرنی ہیں کہ سارے محلہ پھر سے ایک نیا تماشہ  دیکھے گا۔
فیاض نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔
 اپنی بیوی میراں کے منہ پر کھانے کی ٹرے مارتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک دیا۔
 بدبخت عورت اتنا نمک ہے روٹی میں کہ زہر کر ڈالا ہے۔ تجھے آٹے میں نمک کا بھی اندازہ نہیں ہے نکمی عورت۔
 منہ سے جھاگ اڑاتا ہوا فیاض تو گھر سے باہر نکل گیا،کسی ہوٹل پر کھانا کھانےکو،
  میراں نے دس سالہ بیٹی مومنہ کو بانس کے جھاڑ کے دستے سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔
گلی کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو ماں نے اسے گالیوں کے ساتھ پکارا تو ڈر کے مارے آٹا گوندنے سے پہلے اس نے شاید ایک بار شروع میں اور ایک بار شاید بعد میں بھی پھر سے نمک شامل کر دیا اور اسے علم بھی نہ ہو سکا اور یوں آٹے میں نمک زیادہ ہو گیا ۔
 وہ چاہتی تو اسی آٹے کو تھوڑا تھوڑا کر کے دوسرے آٹے میں ملا کر دوبارہ سے گوند سکتی تھی۔
 بغیر نمک کے آٹے میں ملا کر وہ اسے پکا سکتی تھی۔
 آٹا بھی استعمال ہو جاتا اور نمک بھی برابر ہو جاتا۔
 لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے اپنے شوہر سے پڑی ہوئی مار کا بدلہ اس بچی سے لینے کے لیئے پہلے تو اسے خوب پیٹا۔
جب تھک گئی تو باقی غصہ اتارنے کے لیئے نمک بھری روٹی کے نوالے بنا بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ 
وہ آدھ مری بچی اکھڑے سانسوں کیساتھ ہاتھ جوڑتی رہی۔ معافیاں مانگتی رہی ۔ لیکن میراں  کو اس پر ترس نہ آیا۔
 بلکہ میراں نے  اسے غلیظ ترین گالیوں سے نوازتے ہوئے اگلے سات روز تک اسی آٹے کی روٹی بنا کر کھلائی۔
 کیونکہ میراں تو روزانہ سہیلیوں سے گپیں لگانے بیٹھ جاتی تھی گھر کے سارے کام تو اس بچی مومنہ سے کرواتی تھی۔

 جھاڑو پونچھا آٹا گوندھنا اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا فرض تھا کیونکہ اسکا جرم تھا کہ وہ اسکی کوکھ سے جنمی تھی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

* آسان نہیں ہوتا۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا

آسان نہیں ہوتا


ہو وقت مسکرانا آسان نہیں ہوتا
دنیا سے غم چھپانا آسان نہیں ہوتا

 گھڑ گھڑ کے روز اپنی خوشیوں کا کوئی قصہ 
مخلوق کو سنانا آسان نہیں ہوتا

جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر 
کچھ اور ہی دکھانا آسان نہیں ہوتا

ہر وقت دل کا موسم اک جیسا نہیں رہتا
 جب بھی اسے منانا آسان نہیں ہوتا

 چوبیس گھنٹے دشمن رہتا ہے جو قریبی
 پل پل اسے لبھانا آسان نہیں ہوتا

ممتاز دھجیاں جو عزت کی یاں بکھیرے
 سر سامنے جھکانا آسان نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کلام۔( آسان نہیں ہوندا )


* ◇ آسان سمجھ رکھا ہے/ اردو شاعری / اور وہ چلا گیا

آسان سمجھ رکھا ہے 


معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
جتنا انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے

میری امید قوی اتنی  کہ دل نے میرے
 غم کو ہر درد کو مہمان سمجھ رکھا ہے

ایک طوفان ہے ہر چیز مٹا دیگا یہ 
تم نے وقتی جسے ہیجان سمجھ رکھا ہے

جو نہیں چاہیئے  وہ یاد بھی رکھے کیونکر
مصلحت ہے جسے نسیان سمجھ رکھا ہے

اس کے نمبر کبھی کم ہو نہیں سکتے صاحب
جس نے مضمون کا عنوان سمجھ رکھا ہے

کتنا اچھا ہے یہ ممتاز بھرم رکھتا ہے
ایک پردہ جسے مسکان سمجھ رکھا ہے
                   ●●●              




* غضب ‏داستاں / اردو ‏شاعری ‏۔ اور وہ چلا گیا


غضب داستاں 


عجب ان کہی کی غضب داستاں ہے 
کہ ہر لو کے آگے دھواں ہی دھواں ہے

یہ تقدیر بھی کیا تماشا دکھائے
 کہاں اسکو جانا تھا پہنچا کہاں ہے

کبھی اسکو دیکھا تو سوچا تھا میں نے
نہیں میری منزل  یہ اسکا جہاں ہے 

بنا سوچے سمجھے جو وارد ہوا ہے 
کسی بدگماں کا وہ سچا گماں ہے 

بتاتی ہے ممتاز یہ عمر رفتہ
حقیقت سے ذیادہ تخیل جواں ہے
۔۔۔۔۔۔
 

* حال زمانے والا۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا

       حال زمانے والا


وہ شب و روز میرے ساتھ بتانے والا
اب بھی ملتا ہے مگر حال زمانے والا

جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا

مجھ سا بیکار نہیں ہے یہ مجھے علم نہ تھا
ورنہ ہوتا نہ گلہ اس سے ستانے والا

جانے والے کو برا کہتے نہیں لوگ کہیں
خوش رہے مجھ پہ وہ الزام لگانے والا

کتنے ہنگامے تھے وابستہ اسی کے دم سے
وہ جوچپ چاپ میرے شہر سےجانے والا

اس کو نسیان عجب طرز کا لاحق ہے سنا
یاد رہتا نہیں پیمان نبھانے والا

حال اپنا نہ کھلا اس پہ وگرنہ ممتاز
وہ تو ریکھاوں سے تھا راز چرانے والا
               ۔۔۔۔۔

* ملاقات ۔ نظم۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


      ملاقات 

ایک ہی شہر میں رہتے ہیں جناب
 چاہے نہ چاہے 
ملاقات تو ہو جاتی ہے
بے تکلف نہیں پہلے سے مگر
 ہاں رسما
حال بھی پوچھتے ہیں بات تو ہو جاتی ہے 
رب سے ملنے کے لیئے سجدے میں جھک جاتے ہیں 
ہاتھ اٹھتے ہیں
 مناجات تو ہو جاتی ہے 
یاد کر کر کے برستی ہیں یہ آنکھیں ایسے
کب سے سوکھی پڑی اس دل کی زمیں پر ممتاز
مینہہ برستا ہے جو 
برسات تو ہو جاتی ہے
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 10 جولائی، 2024

* توڑا ہے کسی نے ۔ اردو شاعری۔ مصرع طرح۔ اور وہ چلا گیا


مصرعہ طرح:
دل امید توڑا ہے کسی نے۔۔۔


حساب زیست جوڑا ہے کسی نے
دل امید توڑا ہے کسی نے

وہ گل جو شاخ پر سویا ہوا تھا
اسے جا کر جھنجھوڑا ہے کسی نے

بہت قابل جسے مانا جہاں نے
ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے

نشانے پر  رقیب زندگی تھا
نئے رخ اسکو موڑا ہے کسی نے

میری آنکھوں سے جو بہنے لگا ہے
لہو دل کا نچوڑا ہے کسی نے

بہت نازک تھا دل کا آبگینہ 
اسے پتھر پہ پھوڑا ہے کی نے

لہو کی باڑ سی کیوں آ گئی ہے
یہاں پر  دل نچوڑا ہے کسی نے

درندہ بن وجود آدمیت
تسلی سے بھنبھوڑا ہے کسی نے

پڑے ممتاز بل جب تیوری پر
نگاہوں کو سکوڑا ہے کسی نے
-------



 

* تیرے نشانے پر۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


تیرے نشانے پر


ہم نے ڈالی نظر زمانے پر 
 دل میرا ہے تیرے نشانے پر

کیوں ہو حیران یہ تو ہونا تھا
ایک فتنے کے شاخسانے پر

وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

وہ نظر ڈالے جسکا نام لکھا
اس جھلکتے ہوئے پیمانے پر

تیر برسے ہیں اشک کی صورت
بات بدلی نہیں گھمانے پر

دھوپ پر بھی خراج لگتا ہے 
بل ہے سورج کے اس خزانے پر

اب نہ ہم سے کرو یہ فرمائش
ٹیکس لگتا ہے مسکرانے پر

قصد کرنا ہے واپسی کا عبث
سزا لازم ہے جی  لگانے پر 

اک دکھاوا بھروسہ مجبوری
رنج ممتاز  آزمانے پر 
۔۔۔۔۔۔



* جب بھی اپنا کوئ۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا



جب بھی اپنا کوئی


جب بھی اپنا کوئ بچھڑتا ہے 
دل کی حالت عجیب ہوتی ہے

اور ملنے کا بھی عجب عالم 
لب تو ہنستے ہیں آنکھ روتی ہے

کیا خوشی کا بھی تذکرہ کرنا 
یہ تو پہلو میں غم کے سوتی ہے 

دیکھ کر عشق کی بلندی کو 
عقل والوں کی عقل کھوتی ہے 

کڑوے لفظوں سے کیا ہوا حاصل
میٹھے لہجے سے بات ہوتی ہے 

 نسل ایسی اداس رہتی ہے
 جو تعصب کا بیج بوتی ہے

قوم ممتاز ہو نہیں سکتی 
جاگنے کا ہو وقت سوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

منگل، 9 جولائی، 2024

* سوگ ‏منائینگے ‏ہم/ اردو شاعری ۔ عید کلام ۔ اور وہ چلا گیا



سوگ 

عید کی رت میں اچانک یوں بچھڑنے والے 
عمر بھر سوگ میری جان منائینگے ہم 

دھڑکنیں ہو گئیں ساکت تیرے جاتے جاتے
کسطرح تجھکو میری جان بھلائینگے ہم

اب نگاہوں کے مقدر میں ترسنا ٹہرا
تو نہ آئے گا تجھے روز بلائینگے ہم 

بن تیرے ہم نے گزاری ہے جو لمحہ لمحہ
بعد تیرے وہ کسے حال سنائینگے ہم

زندگی اب تیری صورت ہی میں ڈھل جائیگی 
درد کی جب کوئی تصویر بنائینگے ہم

حال دل تجھ کو سناتے تھے تیرے بعد مگر 

نام لیکر کسے  ممتاز بتائینگے ہم 
-----

عید دی رت چہ اچانک اے بچھڑنے والے
عمر بھر سوگ میری جان  مناواں گے اسی

دھڑکناں رک ہی گئیاں نیں تیرے جاندے جاندے 
کسطرح تینوں میری جان بھلاواں گے اسی

ہوںڑں نگاواں دے مقدر چہ ترسنا لکھیا
تو نہ آویں گا تینوں روز بلاواں گے اسی

بعد تیرے جو گزاری اسی لمحہ لمحہ
بعد تیرے اور کنوں حال سُناواں گے اسی

زندگی ہن تیری صورت وچ ڈھل جائے گی
پیڑ دی جد کوئی تصویر بناواں گے اسی

حال دل تینوں سنڑاندے ساں تیرے باہجوں پر
لیکے ناں کس طرح ممتاز صداواں گے اسی
۔۔۔۔۔۔۔


* احساس کی کمی ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


    احساس کی کمی ہے



محرومیوں کا درد یا، احساس کی کمی ہے
سوچوں کے آئینے  پر، گرد سی جمی ہے
ز کر شد نمک کم خود سے

کچھ فیصلے قضاء کے، اپنے بھی حق میں ہونگے
نبضِ حیات کب سے ،اس آس پر تھمی ہے

بیچینیوں کو گھر کا، رستہ دکھا رہے ہیں 
کیاڈھونڈتے ہیں ہم اور،کس چیزکی کمی ہے

اس حادثے کی شدّت،کس طور سے بیاں ہو
آواز رندھ گئی ہے،لفظوں میں بھی نمی ہے

رہنا ہے ساتھ اسکو، مر جائے گا وگرنہ
جو اسکےدل پہ باندھی وہ ڈور ریشمی ہے

ترتیب سے ہراک شے،رکھی ہےاپنی جا پر
پھر کیوں ہمارے اندر،اس درجہ برہمی ہے

ممتاز مجھ پہ جانے، پتھر کہاں سے برسے
احساس کے شہرکا،لہجہ تو شبنمی ہے

      ********

ہفتہ، 6 جولائی، 2024

گورمکھی لکھائی نال۔ بہانے ۔ پنجابی کلام

                ●
گورمکھی ترجمے دے لئی
 شکریہ دکھ بھنجن رندھاوا صاحب 


ਬਹਾਨੇ نظم  

   بہانے ਨਜ਼ਮ

وکھرے وکھرے ،ون سوونے
بہانے اونوں آندے سن
جد اوہناں دا،جی چاہندا سی
نوی کہانی پاندے سن

ویلے اینے، کم نہیں کوئی
 لتے لیڑے دی لت پئی اے
الماری وچ ،تھاں کوئی نہیں
اک پاندےاک لاندےسن

چنگا ویلہ سی،جد لوکی 
سچ دےاُتےکٹھ کردےسی
اوچی  مسند، دے  اُتے او
 اوچے  بندے بہاندے سن

غربت دے، مارےلوکاں دا 
ناں لے کے عہدے ہتھیائے
فیرانہاں،غربت دےماریاں دے
حق ہنسکےکھاندےسن

ہرشےہوندیاں،خوش ناہونا
جیویں اوہدی عادت بن گئی
رب دےناں تو،ضدکردےسی
خورےاوکی چاہندےسن

نور جیا ہر پاسے ،جیویں
 کھلر کھلر ،جاندا سی
پردہ اپنی ،باری دا جد
 ہلکا جا سرکاندے سن

شکوے کر کر ،بھکے مر مر
تھک گئے لوکی  مہنگائی نال
سڑکاں اتے، آکے سارے 
روندے تے کرلاندے سن 

وجد اندر ، دنیا دا چرخہ 
گھمدا سی ممتاز اوہدوں 
عشق دے نغمے ، اک تارے دے
 اتے جد وی گاندے سن

Mumtaz Malik
ਮੁਮਤਾਜ਼ ਮਲਕ



ਬਹਾਨੇ نظم     بہانے ਨਜ਼ਮ

وکھرے وکھرے ،ون سوونے
بہانے اونوں آندے سن
جد اوہناں دا،جی چاہندا سی
نوی کہانی پاندے سن
ਵੱਖਰੇ ਵੱਖਰੇ ਵੰਨ ਸਵੰਨੇ
ਬਹਾਨੇ ਉਹਨੂੰ ਆਂਦੇ ਸਨ
ਜਦ ਉਨਾਂ ਦਾ ਜੀ ਚਾਹੰਦਾ ਸੀ
ਨਵੀਂ ਕਹਾਣੀ ਪਾਂਦੇ ਸਨ
ویلے اینے، کم نہیں کوئی
 لتے لیڑے دی لت پئی اے
الماری وچ ،تھاں کوئی نہیں
اک پاندےاک لاندےسن
ਵੇਲੇ ਇਨੇ ਕੰਮ ਨਹੀਂ ਕੋਈ
ਲਤੇ ਲੀੜੇ ਦੀ ਲੱਤ ਪਈ ਏ 
ਅਲਮਾਰੀ ਵਿੱਚ ਥਾਂ ਥਾਂ ਕੋਈ ਨਹੀਂ
ਇੱਕ ਪਾਂਦੇ ਇਕ ਲਾਂਦੇ ਸਨ
چنگا ویلہ سی،جد لوکی 
سچ دےاُتےکٹھ کردےسی
اوچی  مسند، دے  اُتے او
 اوچے  بندے بہاندے سن
ਚੰਗਾ ਵੇਲਾ ਸੀ ਜਦ ਲੋਕੀ
ਸੱਚ ਦੇ ਉੱਤੇ ਕੱਠ ਕਰਦੇ ਸੀ
ਉੱਚੀ ਮਸਨਦ ਦੇ ਉੱਤੇ ਉਹ
ਉੱਚੇ ਬੰਦੇ ਬਹਾਂਦੇ ਸਨ
غربت دے، مارےلوکاں دا 
ناں لے کے عہدے ہتھیائے
فیرانہاں،غربت دےماریاں دے
حق ہنسکےکھاندےسن
ਗੁਰਬਤ ਦੇ ਮਾਰੇ ਲੋਕਾਂ ਦਾ
ਨਾ ਲੈ ਕੇ ਉਹਦੇ ਹਥਿਆਏ
ਫਿਰ ਇਨਹਂ ਗੁਰਬਤ ਦੇ ਮਾਰਿਆਂ
ਦੇ ਹੱਕ ਹੱਸ ਕੇ ਖਾਂਦੇ ਸਨ
ہرشےہوندیاں،خوش ناہونا
جیویں اوہدی عادت بن گئی
رب دےناں تو،ضدکردےسی
خورےاوکی چاہندےسن
ਹਰ ਸ਼ੈ ਹੁੰਦਿਆਂ ਖੁਸ਼ ਨਾ ਹੋਣਾ
ਜਿਵੇਂ ਉਹਦੀ ਆਦਤ ਬਣ ਗਈ
ਰੱਬ ਦੇ ਨਾਂ ਤੋਂ ਜ਼ਿੱਦ ਕਰਦੇ ਸੀ
ਖੌਰੇ ਉਹ ਕੀ ਚਾਹੁੰਦੇ ਸਨ
نور جیا ہر پاسے ،جیویں
 کھلر کھلر ،جاندا سی
پردہ اپنی ،باری دا جد
 ہلکا جا سرکاندے سن
ਨੂਰ ਜਿਆ ਹਰ ਪਾਸੇ ਜੀਵੇਂ
ਖਿਲਰ ਖਿਲਰ ਜਾਂਦਾ ਸੀ
ਭਰਦਾ ਆਪਣੀ ਵਾਰੀ ਦਾ ਜਦ
ਹਲਕਾ ਜਿਾ ਸਰਕਾਂਦਾ ਸੀ
شکوے کر کر ،بھکے مر مر
تھک گئے لوکی  مہنگائی نال
سڑکاں اتے، آکے سارے 
روندے تے کرلاندے سن 
ਸ਼ਿਕਵੇ ਕਰ ਕਰ ਭੁੱਖੇ ਮਰ ਮਰ
ਥਕ ਗਏ ਲੋਕੀ ਮੰਗਿਆਈ ਨਾਲ
ਸੜਕਾਂ ਉੱਤੇ ਆ ਕੇ ਸਾਰੇ
ਰੋਂਦੇ ਤੇ ਕੁਰਲਾਂਦੇ ਸਨ
وجد اندر ، دنیا دا چرخہ 
گھمدا سی ممتاز اوہدوں 
عشق دے نغمے ، اک تارے دے
 اتے جد وی گاندے سن
ਵਜਦ ਅੰਦਰ ਦੁਨੀਆ ਦਾ ਚਰਖਾ
ਘੁੰਮਦਾ ਸੀ " ਮੁਮਤਾਜ਼ " ਉਦੋਂ
ਇਸ਼ਕ ਦੇ ਨਗਮੇ ਇਕ ਤਾਰੇ ਦੇ
ਉੱਤੇ ਜਦ ਵੀ ਗਾਂਦੇ ਸਨ

Mumtaz Malik
ਮੁਮਤਾਜ਼ ਮਲਕ

                 ●
گورمکھی ترجمے دے لئی
 شکریہ دکھ بھنجن رندھاوا صاحب 

ਬਹਾਨੇ نظم     بہانے ਨਜ਼ਮ

ਵੱਖਰੇ ਵੱਖਰੇ ਵੰਨ ਸਵੰਨੇ
ਬਹਾਨੇ ਉਹਨੂੰ ਆਂਦੇ ਸਨ
ਜਦ ਉਨਾਂ ਦਾ ਜੀ ਚਾਹੰਦਾ ਸੀ
ਨਵੀਂ ਕਹਾਣੀ ਪਾਂਦੇ ਸਨ

ਵੇਲੇ ਇਨੇ ਕੰਮ ਨਹੀਂ ਕੋਈ
ਲਤੇ ਲੀੜੇ ਦੀ ਲੱਤ ਪਈ ਏ 
ਅਲਮਾਰੀ ਵਿੱਚ ਥਾਂ ਥਾਂ ਕੋਈ ਨਹੀਂ
ਇੱਕ ਪਾਂਦੇ ਇਕ ਲਾਂਦੇ ਸਨ

ਚੰਗਾ ਵੇਲਾ ਸੀ ਜਦ ਲੋਕੀ
ਸੱਚ ਦੇ ਉੱਤੇ ਕੱਠ ਕਰਦੇ ਸੀ
ਉੱਚੀ ਮਸਨਦ ਦੇ ਉੱਤੇ ਉਹ
ਉੱਚੇ ਬੰਦੇ ਬਹਾਂਦੇ ਸਨ

ਗੁਰਬਤ ਦੇ ਮਾਰੇ ਲੋਕਾਂ ਦਾ
ਨਾ ਲੈ ਕੇ ਉਹਦੇ ਹਥਿਆਏ
ਫਿਰ ਇਨਹਂ ਗੁਰਬਤ ਦੇ ਮਾਰਿਆਂ
ਦੇ ਹੱਕ ਹੱਸ ਕੇ ਖਾਂਦੇ ਸਨ

ਹਰ ਸ਼ੈ ਹੁੰਦਿਆਂ ਖੁਸ਼ ਨਾ ਹੋਣਾ
ਜਿਵੇਂ ਉਹਦੀ ਆਦਤ ਬਣ ਗਈ
ਰੱਬ ਦੇ ਨਾਂ ਤੋਂ ਜ਼ਿੱਦ ਕਰਦੇ ਸੀ
ਖੌਰੇ ਉਹ ਕੀ ਚਾਹੁੰਦੇ ਸਨ

ਨੂਰ ਜਿਆ ਹਰ ਪਾਸੇ ਜੀਵੇਂ
ਖਿਲਰ ਖਿਲਰ ਜਾਂਦਾ ਸੀ
ਭਰਦਾ ਆਪਣੀ ਵਾਰੀ ਦਾ ਜਦ
ਹਲਕਾ ਜਿਾ ਸਰਕਾਂਦਾ ਸੀ
 
ਸ਼ਿਕਵੇ ਕਰ ਕਰ ਭੁੱਖੇ ਮਰ ਮਰ
ਥਕ ਗਏ ਲੋਕੀ ਮੰਗਿਆਈ ਨਾਲ
ਸੜਕਾਂ ਉੱਤੇ ਆ ਕੇ ਸਾਰੇ
ਰੋਂਦੇ ਤੇ ਕੁਰਲਾਂਦੇ ਸਨ

ਵਜਦ ਅੰਦਰ ਦੁਨੀਆ ਦਾ ਚਰਖਾ
ਘੁੰਮਦਾ ਸੀ " ਮੁਮਤਾਜ਼ " ਉਦੋਂ
ਇਸ਼ਕ ਦੇ ਨਗਮੇ ਇਕ ਤਾਰੇ ਦੇ
ਉੱਤੇ ਜਦ ਵੀ ਗਾਂਦੇ ਸਨ

Mumtaz Malik
ਮੁਮਤਾਜ਼ ਮਲਕ


                 ●●●

& جبری ہیر کا جھوٹا رانجھا۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


جبری ہیر کا جھوٹا رانجھا



وہ جب بھی ملتی جس سے بھی ملتی اپنے داماد کی تعریفوں کے پل باندھ دیتی۔
 جب سے وہ اپنے بھتیجے کو اپنا داماد بنا رہی تھیں ہر ایک آئے گئے کے اگے اس کی ایسی ایسی صفتیں بیان کرتی کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ۔
 وہ  اتنا اچھا ہے،  وہ اتنا حسین ہے، وہ اتنا خوبصورت ہے،  وہ اتنا فرمانبردار ہے ، مجھ پر تو جان چھڑکتا ہے ۔ چاچی چاچی کہتے اس کا منہ نہیں سوکھتا ۔ میرے آگے پیچھے بچھا جاتا ہے۔ بھئی میں تو بڑی خوش نصیب ہوں بلکہ میری بیٹی بہت خوش نصیب ہے ۔
وہ اپنی بیٹی کو شادی کے لیئے پاکستان لے جا رہی تھی اور اپنی سہیلیوں میں اس شادی کی خوب دھوم مچا رکھی تھی۔
 ان کی بیٹی پڑھنا چاہ رہی تھی، لیکن انہوں نے اسے اس سے پہلے کہ ضد کرتی اور 18 سے اوپر ہو کر اپنی مرضی سے اپنی ضد کو منوا سکتی،  اس سے پہلے پہلے پاکستان لے جا کر شادی کی بیڑیوں میں باندھنا ضروری سمجھا۔
 ورنہ یورپ میں لڑکی خراب ہو جائے گی۔
 اس سوچ نے انہیں اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے مزید سوچنے دیا ، نہ اس کے مستقبل کی فکر کی ۔ 
بس یہاں جو تھا خراب ہو جائے گا۔
 انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ خود خراب نہیں ہوئی تو ان کی بیٹی خراب کیوں ہو جائے گی ۔
لیکن ان کا خیال تھا کہ بس کسی کی شادی کر دو اور کسی کو اس کا چوکیدار بنا دو تو ان کی بیٹی خراب نہیں ہوگی ۔
اور جو لڑکیاں شادی نہیں کرتیں وہ سب خراب ہو جاتی ہیں ۔ یہ وہ دیہی سوچ تھی جو وہ اپنے ساتھ پاکستان سے لے کر آئی تھی۔
 یورپ آتے ہوئے جو زمانہ اور جو وقت ان کے دماغ میں پھنس چکا تھا وہ آج تک اسی وقت میں قید انہی لوگوں میں شامل تھی۔ جو پتھر بن چکے تھے۔ پیچھے مڑ کر ایک ہی بار دیکھنے پر۔
 ان کی سہیلیاں بھی انہی کی ذہنیت کی تھیں ۔
 ہر کسی نے ان کو شاباش دی کہ وہ بڑا نیک کام کرنے جا رہی تھی۔
 یورپ میں ان دنوں یہ پہلی نسل تھی ۔ جو 18 سال کی عمر تک پہنچ رہی تھی ۔ اس سے پہلے ابھی لوگوں نے اپنی فیملیاں یہاں لا کر آباد نہیں کی تھیں۔
 اس لیئے پہلی نسل اور خاص کر پہلے بچے کے لیئے لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے
 اور اگر وہ لڑکی ہوتی تو ہر بات اسی ڈر سے کہ یہاں کے قوانین اسے آزاد کر دیں گے۔  اسے آوارہ کر دیں گے۔ وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اسی خوف کے تحت اکثر والدین نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی شادیاں اور نکاح جبرا کیئے اور انہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ باندھ دیا جو نا ذہنی طور پر ان کے مطابقت رکھتے تھے،  نہ ہی وہ اخلاقی طور پر ان کے معیار کے تھے۔  نہ ہی ان کا کوئی تعلیمی بیک گراؤنڈ تھا ۔
لیکن اگر کسی کی دکان تھی تو اسے دکان پر لا کر بٹھا لے گا۔
 کسی کا ہوٹل تھا تو وہ ہوٹل میں بٹھا لے گا ۔
اسی سوچ کے تحت انہوں نے داماد پاکستان سے لانے کا پروگرام بنایا پاکستان میں جب خاندان کا ہر لڑکا اس انتظار میں ہو کہ چاچا ماما تایا وہاں سے آئے گا اور اپنی بیٹی ان کی گود میں پھینک کر ان کے ماتھے پر نیشنلٹی کی سٹیمپ لگائے گا اور وہ باہر جا کر عیش کرے گا ۔
میموں کے ساتھ گھومے گا ، انہیں بغل میں لے کر۔
 یہ ایک ایسا خواب ہے جو ہر دیسی لڑکا اور خصوصا نکما لڑکا دن رات بن رہا ہوتا ہے ۔
 ان کے ذہن میں ایک ہی بات ان کے گھر والوں نے اور ان کی ماؤں نے ڈال رکھی ہوتی ہے کہ یہ چاچے مامے تائے کی یورپ بیٹھی لڑکیاں،  تو ان کو پوچھتا ہی کوئی نہیں ہے۔
 یہ تو آوارہ ہوتی ہیں ان کی تو مجبوری ہے ۔ تم جیسے شہزادے یہاں سے لے کر جائیں گی۔  انہیں وہاں کون گھاس ڈالتا ہے۔
 اور بس اسی بات پر وہ پھولے پھولے اور پھیلے پھیلے گھومتے ہیں۔
 نہ انہیں پڑھائی سے غرض نہ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہنر ، نہ انہیں بات کرنے کی تمیز،  نہ انہیں کسی کلچر کی تہذیب ، 
سمجھو جانور لا کر یہاں یورپ میں ا  آباد کرنے کے لیے یہاں کے لوگ اپنی بیٹیوں کو نیشنلٹی کارڈ بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔
سکینہ بیگم نے دھوم دھام سے ایک سے ایک قیمتی چیز اپنے بھتیجے کے لیے اکٹھی کی۔
 ایسا لگتا تھا وہ بیٹی کی ماں نہیں ہے ۔ وہ اس بھتیجے کی ماں ہے۔
 ان کا بس چلتا تو اپنی ہر چیز اس کے نام لکھ دیتی ۔
 اور اس لڑکی کو اس کا نوکر بنا دیتی۔
 روتی پیٹتی بیٹی  انہیں اس بات پر مجبور کرتی رہی ۔
 اماں چلیں اسی سے میری شادی کر دینا لیکن ابھی مجھے کچھ عرصے پڑھ لینے دو۔ کچھ بن جانے دو ۔
لیکن سکینہ نے اسے دھتکار دیا۔
 منہ توڑ دوں گی اگر دوبارہ ایسی بات کی تو۔
 اتنا اچھا لڑکا تمہارے انتظار میں بیٹھا رہے گا کیا ۔
اور یوں پاکستان جا کر جہاں ہزار لگتے تھے وہاں لاکھوں اور جہاں لاکھ لگتے تھے وہاں کئی لاکھ لگا کر انہوں نے دھوم دھام سے اپنے بھتیجے کے سارے شوق پورے کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو زبردستی اس کے نکاح میں دے دیا۔
 واپس آنے کے بعد انہوں نے اس لڑکے کے پیپر بنانے کے لیئے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔
لڑکی کو نوکری کروائی۔
 تاکہ اس کے اپنے شوہر کو بلانے کے لیئے کیس کو تیار کیا جا سکے۔
  یوں وہ لڑکا یہاں آیا۔
اس کے لیئے الگ سے گھر لے کے دیا۔
 بیٹی کے الگ گھر میں منتقل ہونے کے بعد بھی وہ اپنی زندگی کی جس روٹین میں شروع ہو چکے تھے۔
 جہاں بھی وہ دونوں میاں بیوی آتے جاتے ملتے بے حد خوش اور مثالی جوڑے کا آئینہ دکھاتے۔
 لوگ ان کی تعریف کرتے ۔
 واہ واہ کیا جوڑی ہے۔
 واہ واہ کتنی محبت ہے ہیر رانجھا کو شرما دینے والی محبت۔
 اس لڑکے نے ساری دنیا کے سامنے تصویر پیش کر دی۔ 
لوگوں کے سامنے وہ لڑکا ایک فرشتے کی طرح تھا۔
 وہ کتنا خوبصورت ہے، کتنی تمیز والا ہے، کتنی محبت کرتا ہے اپنی بیوی سے۔
  سکینہ بی بی اپنے بھتیجے کے گن گانے میں کسی سے پیچھے نہیں تھی۔
 آئے روز وہ انکی بیٹی کو  اپنے میکے بھیجتا۔
 خود چھوڑ کر جاتا ۔
خود لے کر جاتا ۔
 کسی نے پوچھا کہ ہر روز وہ تمہارے گھر آتی ہے۔ تمہارا داماد ہر روز اسے لے کر آتا ہے۔کوئی خاص بات؟
 اسے اپنے گھر میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا ۔۔
تو اس نے کہا ارے نہیں محبت کرتا ہے مجھ سے بہت زیادہ ۔
اس لیئے میری بیٹی کو ملانے کے لیئے روزانہ لے آتا ہے ۔
لیکن آج کیا ہوا۔۔۔
ایک خبر بجلی بن کر گری لوگوں پر۔
 ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوئی۔
 ہر گھر میں یہ خبر پہنچی۔۔۔
 سکینہ بی بی کے داماد نے  اپنی دو سال کی بچی اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا ۔
جس نے سنا اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
کیا کہہ رہے ہو؟
 یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
 اس نے اسے کیوں قتل کر دیا؟
 وہ تو ہیر رانجھے جیسی جوڑی تھی۔ وہ تو رانجھا بنا اس کے پیچھے گھومتا تھا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔
 لوگوں نے ان کے گھر پہنچنا شروع کیا اور حیرت کی بات ہے۔
 اپنی بیٹی کے لیے رونے کے بجائے سکینہ اب بھی اپنے بھتیجے کے لیئے زیادہ رو رہی تھی اور ہر ایک سے کہتی تھی۔
 ارے نہیں نہیں میرا داماد ایسا نہیں کر سکتا ۔ میرا داماد ایسے کیسے کر سکتا ہے ۔
وہ تو بہت اچھا ہے ۔وہ تو بہت اچھاہے۔
 میری بیٹی بہت خوش تھی ۔ میری بیٹی تو بہت خوش تھی۔
 تو پھر کیا ہوا ۔ ان چار سالوں کے اندر اس نے ایسا کیا کیا ایک خاتون نے دوسرے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ یہ سب کیسے ہوا۔
 اس نے بتایا
 میاں بیوی میں کسی بات پر بحث ہوئی۔
 آئے روز اسے مارا کرتا تھا اور پیسے مانگنے کے لیئے اپنی ماں کے گھر بھیجا کرتا تھا۔ 
اور وہ یہاں آ کر روتی پیٹتی تو ماں اسی کو دھتکار دیتی۔
 کہ جھوٹ مت بول۔ میرا داماد بہت اچھا ہے۔ 
 یوں اسے مسکرانے پر مجبور ہونا پڑتا ۔
آئے دن یہاں سے ہزاروں یورو لے جا کر وہ میاں کو بھرا کرتی اور وہ ویلا نکما جو پاکستان میں کبھی تنکا توڑ کر نہیں دے سکا اس نے کام دکھایا۔
 وہ یہاں کیا کام کرتا ۔ 
وہ اسی پیسے پر عیش کر رہا تھا۔ کچھ سرکاری امداد کے اوپر اور کچھ ساس سسر کے مال کے اوپر عیش کرنے کی ایسی عادت پڑی تھی کہ وہ کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔
 اسی عیش پرستی میں اس نے بیوی کو پھر سے مجبور کیا کہ گھر جا کر کچھ پیسے لے کر آ ۔
وہ شرماتی تھی۔ اپنی ماں سے بار بار مانگتے ہوئے۔
 اس نے جب جانے سے انکار کیا تو اس نے اس کی چٹیا پکڑ کر ایسے جھٹکا دیا اور اتنی زور سے جھٹکا دیا ۔
 زوردار چانٹا مار کے اسے پھینکا کہ اس کی اس مردانہ قوت کے  جھٹکے کے ساتھ ہی اس کمزور کی گردن سے ایک آواز آئی اور وہ دور جا گری اس کی گردن کا منکا ٹوٹ چکا تھا۔
 اس کا منکا ٹوٹ چکا تھا وہ اپنی طاقت دکھا چکا تھا ۔
لیکن جیسے ہی جھٹکے سے ہوش میں آیا تو یہ کیا۔۔
 یہ اس نے کیا کر دیا اسے اٹھایا دیکھا لیکن وہ موقع پہ مر چکی تھی۔
 اس کی چھوٹی سی تین سال کی بچی جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ وہ سہم کر صوفے کے پیچھے چھپ گئی۔
 اس کی ماں کو مارا جانا ،چانٹے مارنا، اس کے بال کھینچنا اور پھر زور دار چانٹے کے ساتھ ایک کڑاکے کی زبردست آواز کے ساتھ ایک زندگی کا خاتمہ۔۔
 لیکن اس سے پہلے کہ کوئی اس بچی کو دیکھتا اس نے سوچا
 یہ لڑکی تو سب کچھ بتا دے گی۔ وہ پکڑا جائے گا ۔
وہ یہ بھول گیا کہ  یہ بچی کسی کو کچھ بتائے نہ بھی بتائے یہ یورپ ہے ۔یہاں وہ بچ نہیں سکتا۔
 یہاں کی پولیس اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالے گی۔
 لیکن جاہل اور پینڈو یہ بات اپنے آپ کو سمجھانے کے بجائے اسے مارنے کو لپکا۔۔
اس نے بچی کو بھی بے رحمی سے دبوچا اور اس معصوم بچی کا بھی گلا گھونٹ دیا ۔
لیکن آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
 اس نے اتنی تفصیل سے کہانی سننے کے بعد پڑوسن سے پوچھا۔
 پڑوسن بولی
 وہی معلوم کیسے نہیں ہوتا ۔اس واقعے کو دو دن ہو چکے ہیں اور پولیس نے دو دن کے اندر اندر نہ صرف قاتل کو ڈھونڈ نکالا بلکہ یہ سب اس کے منہ کا اپنا بیان ہے۔
 لڑکی کی لاش ابھی سرد خانے میں ہے۔
 پولیس نے خاموشی رکھی تاکہ یہ جہاں جہاں بھٹکنا چاہتا ہے اسے آرام سے فالو کیا جا سکے اور پولیس نے کامیابی سے اسے آ دبوچا۔
اگلے کئی سال اس مفت خورے کو  یہاں کی جیل نے پھر مفت کی خوب کھلائی۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 4 جولائی، 2024

& سردرد ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی

 
              سر درد


آج بھی وہ کھانا کھانے کے لیئے گھر آیا تو اس کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے شازیہ نے اپنے سر درد کی شکایت کی۔
 سنو میرا سر درد سے پھٹا جا رہا مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
 ارے تم عورتوں کا تو کام ہی یہی ہے جب دیکھو تمہارے ڈرامے ہی ختم نہیں ہوتے۔ سر درد،  سر درد ہمیں تو نہیں ہوتا سر درد۔۔
 عزیز خدا کے لیئے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ آج تیسرا دن ہے میرا سر پھٹنے والا ہے۔
 ابھی میرے پاس اتنے فالتو پیسے نہیں ہیں  کہ میں ڈاکٹر کو جا کر 30 30 یورو کی فیس دوں اور تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اپنا اتنا وقت ضائع کروں ابھی مجھے کام کے لیئے نکلنا ہے دوبارہ۔
وہ تڑپ رہی تھی لیکن وہ بہت اطمینان کے ساتھ بیٹھا کھانا ٹھونسنے میں مصروف تھا۔
 یہاں تک کہ اسے الٹی بھی ہو چکی تھی ۔
میں تمہیں کبھی نہ کہتی ساتھ چلنے کو ۔لیکن تم جانتے ہو مجھے زبان نہیں آتی یہاں کی، اور یہ لوگ میری زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیئے مجھے ساتھ لے جاؤ تاکہ میری تکلیف بیان کر سکو۔
 بکواس بند کرو اور اپنی یہ ڈرامے نا  اپنی ماں کو سناؤ۔ جو فون کر کر کے تمہیں روزانہ پٹیاں پڑھاتی ہے۔۔
 کون سی پٹیاں؟
 کیا ہو گیا تمہیں۔۔
 میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور تمہیں نئی نئی کہانیاں سوجھ رہی ہیں۔
 اتنی دور پردیس میں تمہیں ہر وقت میری ماں کہاں سے یاد آ جاتی ہے۔
 وہ کون سی یہاں میرے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ہفتوں ہفتوں  فون کارڈ نہیں لا کے دیتے کہ میں اپنی ماں سے بات کر سکوں ۔
خدا کے لیئے مجھے کوئی دوائی لا دو۔
 مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
 اس نے ایک موٹی سی گالی دی اور اسے پیچھے دھکا دے کر دروازہ بھیڑتے ہوئے بڑ بڑ کرتا ہوا باہر نکل گیا ۔
شازیہ سر کے درد کے ساتھ دیوانہ وار اپنا سر پٹخ رہی تھی۔
 اس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
 اس نے بڑی مشکل سے فون کر کے پڑوس میں ایک عورت کو خبر کی۔
 ٹوٹی پھوٹی زبان میں اسے سمجھایا کہ میری مدد کرو ۔
اس دوران کیا ہوا ۔
وہ زمین پر گر کے بے ہوش ہو چکی تھی۔
 پڑوسن نے جلدی سے اس کے گھر کی طرف دوڑ لگائی۔
 اس بلڈنگ میں اس کی سلام دعا تھی اور جانے کس وقت انہوں نے ایک دوسرے کو ٹیلی فون کا نمبر بھی دیا ۔
بچوں کو سکول لاتے لے جاتے وقت۔
 لیکن دروازہ پیٹتے ہوئے جب اس نے اسے آوازیں دیں تو شازیہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
 ڈوبتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔
 بڑھنا چاہا 
لیکن آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں
 باہر کھڑی عورت کو خطرے کا احساس ہو چکا تھا ۔
اس نے ایمرجنسی نمبر کے اوپر پولیس کو فون کر  دیا اور مددگار طلب کیئے۔
 نزدیک ترین مددگاروں نے چند منٹ میں ہی پہنچ کر اس کے دروازے کا لاک توڑا اور جیسے ہی اندر داخل ہوئے۔
 شازیہ زمین پر بے سدھ پڑی تھی ۔
اسے سٹریچر پر ڈالا گیا
ایمرجنسی ڈاکٹر نے اسے چیک کیا اسے فورا ہسپتال لے جانے کے لیئے روانہ کیا۔
اس کی حالت بہت خراب تھی۔
 ہسپتال پہنچنے تک اس کے میاں کو خبر دے دی گئی۔
 پولیس نے اس کو اطلاع دی کہ تمہاری بیوی کی حالت ٹھیک نہیں تو تم اسے ایسے چھوڑ کے کیسے جا سکتے ہو۔
 اس نے آئیں بائیں شائیں کی اور پولیس کا نمبر دیکھ کر ویسے ہی اس کی جان نکل گئی۔
 پولیس نے اسے فورا ہسپتال پہنچنے کی تاکید کی۔۔
 لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے پہلے اسے سکول سے اپنے بچے لینے کی ہدایت کی اور انہیں ان کی پڑوسن کے حوالے کرنے کا کہہ کر اسے ہسپتال آنے کا حکم دیا گیا۔
 جب تک وہ ہسپتال پہنچتا 27 سالہ شازیہ دماغ کی رگ پھٹنے کے سبب دم توڑ چکی تھی۔
 پڑوسن نے بتایا یہ تین دن سے سر درد کی شکایت کر رہی تھی۔
 لیکن زبان نہ جاننے کی وجہ سے یہ اپنے شوہر کو مجبور کر رہی تھی کہ مجھے لے کر جاؤ لیکن وہ اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔
 یہ بات اس نے مجھے ٹیلی فون پر اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان میں بتائی۔
 کہ ابھی ابھی وہ نکل کر گیا ہے ۔
 میری حالت خراب ہے۔ وہ مجھے نہیں لے کر گیا ۔مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ ۔
جب تک میں پہنچتی بہت دیر ہو چکی تھی۔
 شاید یہ تھوڑی دیر پہلے باہر نکلنے کے بجائے اسے ہسپتال لے جاتا تو اسے بچایا جا سکتا تھا۔
 پولیس نے فورا ایکشن لیتے ہوئے اسے ڈھونڈ نکالا۔
 ہتھکڑی لگائی اور تھانے لے گئے۔
 یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ برتی اور اس کی موت میں اہم کردار ادا کیا۔ 
اس کے بچوں کو الگ لے جا کر کونسلنگ کرنے والی آفیسر نے بہت پیار سے اچھے ماحول میں ان سے یہ پوچھا کہ
 ان کے گھر میں کیا ہوتا ہے؟
 سارا رویہ، سارا ماحول پوچھنے کے بعد انہوں نے رپورٹ دی کہ
 یہ اپنی بیوی کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔
 کبھی اس سے محبت سے بات نہیں کرتا تھا۔
 اس کی تکلیفوں کو نظر انداز کرتا تھا۔
 اس کی ضرورتوں کے لیئے اسے ترساتا تھا ۔
کیونکہ یہ اپنے ملک میں موجود اپنے خاندان کو اپنے سارے سورسز بھیجنے پر زور لگاتا تھا اور اس کی بیوی یہاں اس کے گھر میں صرف ایک آیا،  ایک نوکرانی کا کردار ادا کر رہی تھی۔
 نہ اسے کہیں ملنے دیتا تھا نہ اس کی کہیں ملاقات تھی۔
 مدد کرنے کے لیئے آنے والی پڑوسن  سے بچوں کو سکول لانے لیجانے کے دوران اسکی علیک سلیک ہوئی۔
بعد میں اس کی واقف بن گئی اور ایمرجنسی کے لیے ایک دوسرے کو انہوں نے اپنے  فون نمبرز کا تبادلہ کر لیا ۔ جو کہ اکثر وہاں کی خواتین اور پڑوسی ایک ہی سکول یا کلاس میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں اور والدیں کر لیا کرتے ہیں ۔
کہ اگر بچے کہیں لیٹ ہو جائیں یا والدین اپنے گھر سے دور ہوں تو ہم ایک دوسرے کے بچوں کو لے سکیں۔
 وہی ایک ایمرجنسی نمبر آج اسے گھر سے نکال کر ہسپتال پہنچانے کا باعث بنا۔
 لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
 عزیز کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا ۔
اسے اپنی بیوی کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر کئی سال کی سزا سنائی گئی۔
 اس کے بچوں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر بچوں کے ہاسٹل میں منتقل کر دیا ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 3 جولائی، 2024

& روشنی کی طرف۔۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


     روشنی کی طرف 


فون کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی۔
 میں نے جلدی سے کچن میں ہاتھ دھوتے ہوئے دوڑتے ہوئے فون اٹھایا
 ارے تم نے سنا پلوشہ باجی کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ۔
سلام دعا کے بعد نگو آپا نے اسے یہ افسوسناک خبر سنائی
اوہ بہت افسوس ہوا ۔یہ کب اور کیسے ہوا؟ ان کی بیٹی تو ابھی بہت جوان ہے۔ شاید 27 یا 28 سال کی۔
 اسے کیا ہوا ؟
میں نے  افسوس اور حیرت میں کئی سوال  ایک ساتھ کر ڈالے۔ نگو آپا نے کہا
 یہ تو مجھے نہیں معلوم۔ بس مجھے خبر ملی ہے۔
 تم کیونکہ ہمارے گروپ کی صدر ہو۔ اس لیئے مجھے لگا تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔ویسے بھی وہ تمہارے نزدیک ہی رہتے ہیں۔ اگر تم پہنچ سکو تو ۔۔
 پلوشہ باجی ہمارے گروپ کی پرانی ممبر رہی ہیں۔ ان کے گھر تعزیت کے لیے جانا چاہیئے۔
جی جی آپا بالکل آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آپ لوگ پہنچئیے۔ میں بھی پہنچتی ہوں۔
 یہ کہہ کر میں نے پلوشہ باجی کا نمبر ملایا ۔ ان سے افسوس کیا اور پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔
 انہوں نے سرسری سا بتایا کہ ان کی بیٹی کینسر کی مریضہ تھی۔ کچھ عرصے سے اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ یوں اپنی 28 ویں سالگرہ سے پہلے اس نے دنیا چھوڑ دی۔
 میں شدید افسوس میں تھی۔ کیونکہ یہ دونوں بہنیں بالکل چھوٹی بچیاں تھیں۔جب میں نے انہیں دیکھا تھا ۔
 ابھی مشکل سے 18 سال کی ہوئی تھیں ۔ اپنی لازمی تعلیم سے ہی فارغ ہوئی تھیں۔ جب ان کے کزنز کے ساتھ ان کی شادی کے لیئے ان کے والدین انہیں پاکستان لے گئے اور وہاں یہ اپنے عزیزوں میں بیاہی گئیں۔
 واپس آ کر ان لڑکیوں نے جنہوں نے اپنے اعلی تعلیم بھی شروع نہیں کی تھی۔ دونوں بہنوں نے دن رات ایک کر کے نوکریاں کیں۔ ان کے کاغذات بنوائے۔ ان لڑکوں کو یہاں بلوایا۔ سیٹل کروایا۔ ان کے بچے پیدا کیئے۔
 لیکن رشتہ داروں کی روایتی ہٹ دھرمی کے تحت "جو کرو کم تھا " 
میں نے پوچھا باجی اگر آپ کو غسل وغیرہ کے لیے کسی خاتون کی مدد ساتھ میں چاہئے تو میں حاضر ہوں۔ آپ مجھے ساتھ لے جا سکتی ہیں۔
 یہ سن کر انہوں نے پہلے شکریہ ادا کیا ۔کچھ تکلف کیا اور پھر بولیں۔
ٹھیک ہے۔ ابھی ہم لوگ اسپتال کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ وہیں پر اس کو غسل دیا جائے گا۔
 میں نے کہا ٹھیک ہے اگر ہو سکے تو آپ مجھے پک کر لیجیئے گا۔ کیونکہ میرے شوہر ابھی گھر پہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم وہیں سے گزریں گے۔  آپ تیار رہیئے گا۔
 ٹھیک آدھے گھنٹے میں ہم آپ کو پک کریں گے۔
 میں نے فٹافٹ کپڑے تبدیل کیئے۔ گھر کی کچھ چیزیں سمیٹیں۔چابی مخصوص جگہ پر رکھی۔
 تاکہ بچے سکول سے آئیں تو دروازہ کھول سکیں۔
 ویسے تو بچوں کے پاس اپنی اپنی  چابی موجود تھی لیکن وہ جانتے تھے کہاں سے وہ چابی لے سکتے ہیں۔ اس لیئے اگر ان کی چابی کہیں گم بھی ہو جائے تو انہیں چابی مل جاتی۔ سالن تیار تھا ۔  روٹیاں  بنا کے ہاٹ پاٹ میں رکھ چکی تھی۔ کیونکہ یہاں بچے ساڑھے گیارہ بجے گھر آ کر کھانا کھاتے ہیں ۔ تو ناشتے کیساتھ ہی ہانڈی روٹی بھی چڑھا دیتی ہوں ۔  اس لیئے جیسے ہی انہوں نے مجھے فون کی بیل دی میں دوڑتے ہوئے بلڈنگ میں اپنے فلور سے نیچے اتری اور ان کے ساتھ روانہ ہو گئی۔
 میرے دل میں کھد بد مچی تھی۔ کتنے سوال جواب کے منتظر تھے۔
آخر کیا ہوا؟ اتنی جوان پیاری لڑکی 28 سال کی عمر میں دو بچیوں کی ماں وہ اتنی اذیت ناک تکلیف میں کیسے مبتلا ہوئی۔
 گاڑی میں بیٹھ کر علیک سلیگ ہوئی۔
 کئی سال سے میں یہاں رہ رہی تھی۔ لیکن پلوشہ باجی کے ساتھ میرا سلام دعا سے زیادہ کبھی اتنا رابطہ نہیں ہوا تھا۔
 آج اتفاق سے ہم سفر کر رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کے سفر میں میں نے ان کے علاقے کی زبان میں جب ان کے ساتھ بات کی، تو وہ بہت خوش ہوئیں اور یوں بے تکلفی کے ساتھ بات کرنے لگیں۔ اپنی بیٹی کا دکھ وہ بیان کرنا چاہتی تھیں لیکن بیان نہیں کر پا رہی تھیں۔
 ان کی دوسری بیٹی جو اگلی سیٹ پر اپنے بھائی کے ساتھ موجود تھی جو ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اس نے بہت تجسس اور خوشی کا اظہار کیا اپنی زبان پر۔
 ہم لوگ ہاسپٹل پہنچے ۔
ہمیں اس حصے میں لے جایا گیا جہاں پر لوگ اپنے مرحومین کو آخری غسل دینے کے لیے آتے ہیں۔
 اس جیتی جاگتی  لڑکی کا حسین چہرہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
 اسے اتنی تکلیف کون پہنچا سکتا ہے؟ 
 اتنی پیاری اتنی خوبصورت ، اتنی ذہین لڑکی 18 سال کی عمر میں بیاہ کر دو بچوں کی ماں بن کر بے حد حسین بچیاں ایک پانچ سال کی اور ایک چھ سال کی ، وہ انہیں چھوڑ کر اس دنیا سے کیسے جا سکتی تھی۔
 دل بوجھل سا ہوا جا رہا تھا۔
 ہم غسل خانے کی طرف روانہ ہوئے۔ اندر ایک لمبا سا پلاسٹک کا بیگ تھا ۔ زپ والا، جو اس نہلانے کے تھڑے پر رکھا ہوا تھا۔ 
میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اسے کھولنا چاہا۔ تو خیال آیا ۔میرے ساتھ پلوشہ باجی اسکی ماں  یہ سب کیسے برداشت کریں گی۔
وہ میرے ساتھ کھڑی تھیں۔ان کے دل کی کیا حالت ہوگی جبکہ میں اسے برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔
 عجیب سی بے بسی اور عجیب سا غم تھا ایک زندہ انسان کو کسی پلاسٹک بیگ میں دیکھنا میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
 انہوں نے کہا سنو میں تمہارے ساتھ رہوں۔
 میں نے کہا نہیں باجی آپ باہر جائیں۔
ہمارے ساتھ غسل کے لیئے عرب لڑکیوں کا ایک پورا تربیت یافتہ گروہ آ چکا تھا۔
 یہ کام بہت احسن انداز میں انجام دیا کرتی تھیں۔
میرے لیئے پہلا تجربہ تھا۔ میں سیکھنا چاہتی تھی۔ اس لیئے میں نے اپنی خدمات ہر کسی کے لیئے پیش کی تھیں۔ جسے ضرورت ہو وہ مجھے خواتین کے لیے غسل میں اپنے ساتھ مددگار بلا سکتا ہے ۔
میں نے باجی کو درخواست کی۔
 باجی آپ باہر جا کر بیٹھ جائیں تھوڑی دیر ۔
ہم کر لیں گے۔ آپ یہاں مت رکیئے ۔
آپ صبر نہیں کر پائیں گی۔ انہوں نے کچھ سوچا ۔
آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور وہ باہر کی طرف روانہ ہو گئیں۔
 ہم سب نے مل کر جب بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ بیگ کی زپ کو کھولا۔۔۔
 اف خدایا کیا منظر تھا۔
 ایک  عورت جو کل تک ایک سلم سمارٹ خوبصورت لڑکی تھی۔ گوری چٹی حسین جس کے حسن کی مثال دیتے تھے۔ وہ ایک بھاری بھرکم وجود کے ساتھ وہاں پر اس بیگ سے برامد ہو رہی تھی۔
 اس کے چہرے پر ایک ایسی بے بسی تھی جیسے کہہ رہی ہو
 یا اللہ ہماری بس یہی اوقات ہے۔۔۔ ہمارا یہی سچ ہے۔
وہ جو ایک ایک لمحہ ہماری خبر لیتے تھے۔  آج انہیں پتہ نہیں کہ میں کب سے اس مردہ خانے میں ایک بےبس  سافر کی طرح اس انتظار میں ہوں۔ کہ کوئی آئے اور مجھے میری منزل کی طرف روانہ کر دے۔
 میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے,
 لیکن میں نے اپنے دل کو اپنے قابو میں رکھا.
 اس حسین لڑکی کا وہ چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا تھا .
لیکن یہ عورت کون تھی میں نہیں جانتی تھی ۔
 10 سال، صرف 10 سال میں اس نے کتنا لمبا سفر طے کر لیا تھا۔

 میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جیسی
ے  اسے دلاسہ دینا چاہتی ہوں لیکن مجھے کون دلاسا دیتا۔
 میں نے لڑکیوں کی ساتھ بہت ساری  آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کے بدن پر پانی ڈالا ۔
اس کے جسم پر تولیا تھا لیکن اس کے بازوں پر اس کے سینے پر جگہ جگہ نیل کے، زخموں کے نشان،  آنکھوں کے گرد نشان۔۔۔
  اوہ خدایا اس نے کتنی تکلیف سے جان دی ہوگی۔
 جسم کے ہر ہر حصے پر کوئی نہ کوئی ٹانکا ، کوئی نہ کوئی زخم ، کوئی نہ کوئی نیل موجود تھا یہ کتنی اذیت میں ہوگی۔ اس نے کتنی تکلیف سہی ہوگی۔
 وہ دیکھ کر میرا دل بند ہونے لگا۔ لیکن جیسے جیسے اس کا غسل مکمل ہوا اور اسے کفن پہنایا ہم لوگ پہلے اس کو جب کروٹ دینا چاہتے تھے بڑی مشکل سے ہم چھ سات خواتین نے مل کر اس کو کروٹ دی ۔
اس کا وجود اس قدر وزنی تھا کہ ہم اسے کروٹ نہیں دے پا رہے تھے ۔
کروٹ کے بعد  اس کے اوپر پانی بہا کر غسل دینے کے بعد اس کو دوسری طرف سے کروٹ دی اور پاک صاف کیا اور اسے سیدھا پشت پر لٹا دیا۔ اسی طرح سے اس کو کفنانے کے بعد جیسے ہی اس کے جسم پر کفن پہنانا مکمل ہوا تو ہم نے سوچا اس کا وزن بہت زیادہ ہے۔
 تابوت ا چکا تھا ہم نے اسے اس میں رکھنا تھا ۔
سب نے کہا بسم اللہ پڑھ کر ایک دم سے اسے اٹھائیں گے تاکہ ہم اسے اٹھا سکیں ۔
چھ سات لوگوں نے مل کر جب سر اور پاؤں کی طرف سے اسے اٹھانا چاہا تو یہ کیا ؟؟؟
پھول سے بھی ہلکا وجود چہرے پہ رونق اور ایسے جیسے آپ نے کسی بچے کو اٹھا کر تابوت میں رکھا۔
 ہمیں پتہ ہی نہیں چلا ۔۔
جسے ہم کروٹ نہیں دے پا رہے تھے وہ ایسے دو انگلیوں کے سہارے کے ساتھ۔۔۔
 اور ہم چھ سات خواتین ایک ساتھ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
 اسے تابوت میں کہیں آرام سے لٹانے کے بعد جیسے اس پر نگاہ پڑی 

ا  اف خدایا۔۔۔
 وہ تھکے ہوئے مسافر کا چہرہ جیسے کھل چکا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکان، رنگت وہی سفیدی اور گلابی پن
 اور ایسا لگا جیسے کسی نے سر سے ٹارچ جلائی ہو اور پاؤں کی انگلی تک اس کی روشنی نکل گئی ہو۔
 اسکے چہرے پر روشنی  بکھر چکی تھی۔
 اف میرے خدا کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں۔
 یہ بات میں نے سن رکھی تھی لیکن میری زندگی میں پہلی بار میں نے اتنے مطمئن چہرے کے ساتھ کسی کو اس دنیا سے جاتے دیکھا۔
 وہ بے بس مسافر اپنی منزل کی طرف باقی روشنی کی طرف روانہ تھی۔
 سب سے آیات کا ورد چھوٹ گیا الحمداللہ جاری ہوا
  پروشہ باجی کو اندر بلا کر جب انہوں نے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا۔
 ایک طرف ان کی آنسوؤں کی جھڑی تھی اور دوسری طرف سب نے انہیں مبارک دی کہ آپ کی بیٹی جنت کے سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔
 انہوں نے اس کا ماتھا چوما تابوت کو بند کر دیا گیا 
تابوت لے جایا گیا 
مسجد میں آج اس کا جنازہ ہوا 
جس نے سنا دوڑتا چلا آیا 
جس نے جانا وہ حیران ہوا
 اس عمر کی لڑکیوں کی تو ابھی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں اور یہ اپنے پیچھے دو بچے چھوڑ کر دس سال کی عذاب ناک زندگی گزار کر یہ دنیا ہی چھوڑ کر جا چکی تھی۔
 یہ ایسا غم اور حیرت انگیز تجربہ تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔
 پلوشہ باجی نے اپنے گھر پر دعا کی محفل رکھی اس وقت انہوں نے جب مجھے کہا کہ دعا تم کراؤ کیونکہ میں نے رات کو صوبیہ کو خواب میں دیکھا اس نے کہا یہ آنٹی جب بھی آتی ہے اور میرے لیے دعا کرتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
میں یہاں بہت خوش ہوں انہیں سے دعا کروائیے گا۔
 اور میں سوچ رہی تھی جس سے زندگی میں نہیں ملے۔
 اس کا تعارف مردہ گھر میں ہوا ہو۔۔ کیا وہ بھی دوست بن جاتے ہیں؟
 ہاں اس نے دس سال زندگی کے جس کے ساتھ گزارے جس کے لیئے اس نے محنتیں کیں، نوکریاں کیں،  بچے پیدا کیئے، دھکے کھائے ۔۔
خوش نہ رہ سکی اور وہ اس کا دوست نہ بن سکا لیکن جس نے اس کی میت کی بیگ  کا زپ  کھولا 
اس کے چہرے اس کی سر پر ہاتھ پھیرا ۔
ایک میت کو دلاسا دیا 
وہ اس کی دوست بن گئی آہ
 کتنی عجیب بات تھی۔ زندہ اور مردہ یہ کیسی دوستی تھی ۔
جو ایک اس دنیا سے،  ایک اس دنیا سے اور ان دو  دنیاوں کے دو لوگوں کی دوستی ۔۔۔اف
 عجیب سا تجربہ تھا زندگی کا وہ۔
 چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی ماں کے لیئے دعا کی محفل میں بیٹھی جنہیں شاید موت کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔
 ان کے لیئے ایسے ہی تھا جیسے ماں کہیں گئی ہے۔
 ابھی آ جائے گی۔
 وہ تو اپنی نانی کے گھر تھے اور جس کی بیوی تھی جو دس سال اسے اذیتیں دے کر اپنی ماں کو خوش کرنے کے لیے نت نئے جسمانی اور ذہنی اذیت کے نسخے ڈھونڈا کرتا تھا۔

 ان کے ساتھ اسے اپنے بچوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ ان بچیوں کا باپ مرحومہ صوبیہ کا شوہر پاکستان جا کر پھر سے سہرا باندھ کر نئی بیوی لانے کی تیاری کر رہا ہے۔
 کیونکہ کاغذات اور نیشنلٹی تو بیوی کے صدقے اس کو مل ہی چکی تھی۔
 اپنی بیوی کے ساتھ اب دوسرے گھر میں آباد ہو رہا تھا ۔
کسی نے پوچھا بچوں کا کیا ہوگا
 کہنے لگا نانا نانی جانیں
 اور اج جب زوبیہ کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی وہ اپنی بیٹیاں اپنے گھر میں اپنی نئی بیوی کی ملازمائیں بنانا چاہتا تو تھا لیکن نانا نانی نے قانونا یہ لڑائی اپنے حق میں کر کے ان سے درخواست کی کہ ہماری بچی کی اولاد ہمیں دی جائے۔

 جو آدمی چند مہینوں میں دوسری بیوی لا سکتا ہے وہ ان بچیوں کو کیا پالے گا۔
 لہذا آج نانی صوبیہ کی بچیاں اپنے گھر لا چکی تھی کہ ان کا باپ نئی بیوی لا کر نیا گھر بسا چکا تھا۔۔
لیکن میں کیوں رو رہی تھی ۔۔

                    ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 25 جون، 2024

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا۔ کالم

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا 
تحریر:
    (ممتازملک۔ پیرس)

ان لوگوں پر بہت حیرت ہوتی ہے جو لوگ گھر بیٹھے دوسروں کی کردار کشی اور منافقت کے ذریعے اپنے آپ کو جانے کس مقام پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سی حجاب ،نقاب عبائے پہنے ہوئے لوگ جب انہی جبوں عبایوں کی توہین کرتے ہیں اپنی زبانوں سے ، اپنے اعمال سے،  اپنی نظروں سے، اپنی سوچوں سے۔
  اگر اپنے آپ کو بہت دیندار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی زبانوں اور سوچوں کو اس گندگی سے آزاد کیجئے۔ لیکن اگر آپ نے فیشن کے طور پہ یہ ساری چیزیں اپنا رکھی ہیں۔ چہرے پر داڑھی سجا رکھی ہے۔ یا جبے پہن رکھے ہیں تو یہ لوگ  اس عورت کے مثل ہیں جو اپنے دروازے میں ایک سوراخ بنا کر دوسروں کے گھروں کے آنے اور جانے والوں پہ نظر بھی رکھ رہی ہے لیکن دوسری جانب تسبیح بھی گھما رہی ہیں، تہجد اور نمازیں بھی پڑھ رہی ہیں۔ اور آخر میں اللہ تعالی ان کی ساری عبادات ان کے منہ پہ مار دیتا ہے۔ جب آپکو پتہ چلتا ہے کہ آپ حج یا،عمرے پر جا رہے یا کسی بھی عبادت میں مشغول ہیں تو آپ کی اس عبادت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اللہ کے گھر جانے والوں کے اوپر تہمتیں لگائی جاتی ہیں، گندگی اچھالی جاتی ہے۔ کہیں کہا جاتا ہے فلاں محرم کے بغیر چلی گئی، فلاں فلیٹ میں رہ رہے ہیں، ہوٹل میں رہ رہے ہیں  اور انہوں نے وہاں پہ یہ کھایا، یہ پیا، فلانے نے ان کو یہ کہا، فلانے نے انکو وہ کہا ۔ ان سے پوچھیں آپ انکے ساتھ اتنی بڑی جو دوربین فکس کر کے بھیج رہے ہیں
 وہ دوربین آپکو دوزخ میں کہاں تک پہنچائے گی کاش اس دوربین سے آپ یہ بھی دیکھ سکتے۔  آپ انہی لوگوں کے ساتھ آنے کے بعد بغلگیر ہو کر مبارکباد اور تبرکات کی تقسیم کے لیئے آگے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جو وہ ان مقدس مقامات پر جا رہے ہیں اور وہاں سے اگر وہ اپنی تصاویر، آڈیوز ، ویڈیوز لگاتے ہیں تو یہ بات ہر وہ بندہ جانتا ہے جو کتنے کتنے سالوں کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ مکہ میں کعبہ کے سامنے حاضری دیتا ہے اور ہر دعا بھول جاتا ہے وہ جو مدینہ میں سرکار مدینہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑی نہ لگے یہ تو ہو نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر  اسکا بس چلے تو وہ ایک ایک منٹ، ایک ایک لمحے کو اپنی آنکھوں کو کیمرہ بنا کر، اپنے دل میں محفوظ کر لیں۔ ساری دنیا میں بتاتا پھرے کہ دیکھو دیکھو اللہ تعالی نے مجھ گنہگار کو کہاں کھڑا کیا، بخشش کا ایک موقع دینے کے لیے اللہ نے مجھے یہاں بلایا، اپنا مہمان کیا، کاش میں ایک ایک لمحہ اپنی زندگی کا محفوظ کر لوں ۔میں اپنے دوستوں میں بانٹوں وہ جو ترس رہے ہیں۔ سلام کے لیئے۔حاضری کے لیئے۔ میں انہیں دکھاؤں دیکھو میرے توسط سے تم بھی اس کی دید کرو۔ اللہ تعالی سے مانگو وہ تمہیں بھی یہاں بلائے۔ ایسی جگہوں پہ پہنچنے کے بعد جب لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ عبادت کرنے گئے یا تصویریں لگانے کے لیئے، تو ان بدبختوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ موقع تو اللہ تقدیر سے دیتا ہے۔ بے شمار  امیر کبیر کروڑ پتی بھی دیکھے ہیں جن کے نصیب میں یہ زیارات نہیں تھیں۔ یہ سلام نہیں تھا۔ یہ سجدہ نہیں تھا ۔وہ وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکے۔ کئی تو ایسے تھے جو ساری دنیا گھومے لیکن اسی دربار میں پہنچنے کی دعا کرنے کی بھی توفیق حاصل نہیں کر سکے۔ ایسے میں اللہ ہم جیسے گنہگاروں کوبلا کر وہاں سجدے کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، وہاں آہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ گناہگار اپنے دشمنوں کو معاف کرتا ہے۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لیئے ہدایت و بخشش مانگتا ہے۔ انکے سلام لے کر جاتا ہے اور ان مناظر کو محفوظ کرنا چاہتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ آپ کسی کے دل اور نیت کا ٹھیکہ مت لیجیئے، کہ کون کہاں کس کے ساتھ گیا، رہا، کسی کا محرم کے ساتھ یا بغیر جانے کی بات تو 50 سال کے بعد کوئی بھی خاتون کہیں بھی جا رہی ہے۔ اگر حکومت سعودیہ اس کے اوپر اعتراض نہیں کر رہی۔ جو اس چیز کی ذمہ دار ہے۔ اگر شریعہ کے بغیر انہوں نے فیصلہ کیا تو اس کی گنہگار سعودی حکومت ہے جو عمرے اور حج کے ویزے جاری کرتی ہے ۔ چھپ کر تو کوئی وہاں نہیں پہنچا، نہ عمرہ کرنے کے لیئے، نہ حج کرنے کے لیئے، تو وہ عورتیں جو یہاں پر حجاب نقاب اور جبوں کے ڈراموں میں اور وہ مرد حضرات یہاں داڑھیاں رکھنے کے بعد دوسروں پر تبصرے کرتے ہیں تو انہیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے گھر، اللہ کے حکم اور اللہ کی اجازت سے اس کے مہمان ہوئی ہیں۔ آپ ان کا فیصلہ نہیں کرو گے۔ اللہ تعالی کو اسکے فیصلوں کے لیئے نہ تو آپ سے اجازت لینی ہے اور نہ ہی آپ اسے حکم دے سکتے ہیں۔ ان لمحوں میں اچھی دعا کیجئے۔ کیا پتہ قبولیت کی گھڑی ہو اور آپ کو اللہ کے گھر کی حاضری نصیب ہو جائے۔ لوگوں کے کردار پر ،اللہ کے گھر میں جانے پر بھی جب آپ بہتان تراشتے ہیں، گندگی اچھالتے ہیں تو یہ گندگی آپ ان پر نہیں چاند پر تھوکتے ہیں جو آپ کے اپنے منہ پر گرتا ہے۔ اللہ سے اچھائی کی توفیق بھی مانگیئے اپنی زبانوں سے اپنے لیئے جہنم کے کنویں مت کھودیئے۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 22 جون، 2024

سالگرہ عید ملن۔ رپورٹ۔

بےنظیر بھٹو کی 71ویں سالگرہ اور عید ملن پیرس میں 
رپورٹ:
 ممتازملک۔پیرس)


پاکستان پیپلز پارٹی ویمن ونگ فرانس کے زیر اہتمام شہید جمہوریت محترمہ بےنظیر بھٹو کی 71 ویں سالگرہ نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ پیرس کے مقامی ریسٹورنٹ میں منائی گئی۔  جس میں مختلف مکتبہ فکر کی خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی  ۔ اس موقع پر عید ملن کا  بھی موقع تھا اور پروگرام کا تھیم  اور ڈریس کوڈ، سبز رنگ رکھا گیا  ۔ تمام خواتین نے سبز رنگ کے مختلف شیڈز زیب تن کر رکھے تھے۔ جس نے پروگرام کو سبز ہریالی  کے منظر میں ڈھال دیا ۔ اور پاکستان کا قومی رنگ چھا گیا۔ سبھی خواتین ون ڈش کے طور پر اپنی اپنی خاص ڈش تیار کر کے لائیں۔ جو ایک سے بڑھ کر ایک لذیذ تھیں۔ سکول کے زمانے کی ہوم اکنامکس کا ککنگ کلاس کا زمانہ نگاہوں میں گھوم گیا۔ 
اس تقریب کی صدارت روحی بانو صاحبہ نے کی جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر ارشاد علی کمبوہ تھے۔ نظامت کے فرائض پیپلز پارٹی ویمن ونگ کی جنرل سیکرٹری محترمہ سارا کرن صاحبہ نے ادا کیئے ۔ 
ناصرہ خان  ، ممتاز ملک ، نیناں خان ، فردوس بیگم ، فرحت عاشق،  پرویز صدیقی سید کفایت حسین نقوی اور راجہ کرامت نے بے نظیر بھٹو کی گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ پیپلز پارٹی فرانس کی ویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ نے بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی اور انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ۔
جبکہ پیرس کی معروف جرنلسٹ محترمہ ناصرہ خان صاحبہ  ، معروف شاعرہ،  لکھاری اور نظامت کار محترمہ ممتازملک صاحبہ اور معروف فیشن ڈیزائنر نیناں خان صاحبہ اور سائرہ کرن صاحبہ نے بے نظیر بھٹو کی بطور خاتون رہنما انکی شخصیت کو،خراج عقیدت پیش کیا تو وہیں سماجی و سیاسی رہنما محترمہ روحی بانو صاحبہ کی خدمات کو بھی ناقابل فراموش قرار دیتے ہوئے انہیں پیرس کی بے نظیر کا خطاب دیا ۔ جو ہمیشہ خواتین اور فیملیز کے لیئے مختلف نوعیت کے اجتماعات کا اہتمام وقتا فوقتا کرتی رہتی ہے اور ان پر خواتین اور فیملیز کے اعتماد کو بھرپور سراہا گیا ۔ جس کی وجہ سے ان کی ایک ہی دعوت پر ایک ہی کال پر خواتین پورے اعتماد کے ساتھ اپنی بیٹیوں کے ساتھ شرکت کرنا پسند کرتی ہیں۔  پرتکلف عشائیے کے بعد 
  'بے نظیر زندہ ہے"  کی صداؤں میں وی خوبصورت کیک کاٹا گیا، جو کہ روحی بانو صاحبہ نے پیلپز،پارٹی کے جھنڈے اور نشان کے ڈیزائن کیساتھ خصوصی طور پر اپنی جانب سے تیار کروایا تھا۔ 
اس ذبردست عشائیے میں دلچسپ تبصرے بھی ہوئے ۔ چٹکلے چھوڑے گئے۔ ہر پکوان کی تعریف ہوئی اور بنانے والی کو دل سے شاباش دی گئی۔ یوں یہ خوبصورت یادوں  کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/