آسان سمجھ رکھا ہے
معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
جتنا انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے
میری امید قوی اتنی کہ دل نے میرے
غم کو ہر درد کو مہمان سمجھ رکھا ہے
ایک طوفان ہے ہر چیز مٹا دیگا یہ
تم نے وقتی جسے ہیجان سمجھ رکھا ہے
جو نہیں چاہیئے وہ یاد بھی رکھے کیونکر
مصلحت ہے جسے نسیان سمجھ رکھا ہے
اس کے نمبر کبھی کم ہو نہیں سکتے صاحب
جس نے مضمون کا عنوان سمجھ رکھا ہے
کتنا اچھا ہے یہ ممتاز بھرم رکھتا ہے
ایک پردہ جسے مسکان سمجھ رکھا ہے
●●●
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں