ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 15 جولائی، 2018

انتخابات یا حادثات و مغلظات کا طوفان


انتخابات یا حادثات و مغلظات کا طوفان 

ممتازملک. پیرس 


پاکستان جوسالہا سال تک دہشگردی کا شکار رہا. بیشمار  جانی اور مالی قرنیایاں دینے والی اس قوم اور اس کی بہادر افواج نے کبھی ہمت نہیں ہاری.
  پاکستان کے حالات میں انہی بےلوث اور بے مثال قربانیوں کے بعد سدھار آیا. تو عوام نے سکھ کا سانس لیا.  لیکن جیسے ہی انتخابات کا زمانہ شروع ہوا.  عجیب و غریب عدالتی فیصلوں نے ساری قوم کو بے چین  کر دیا اور ایک افراتفری کی سی صورتحال پیدا کر دی.
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ  ساری جماعتوں کے کارنامے کارپٹ کے نیچے کر کے صرف اور صرف ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جا ریا ہے اور دوسری جانب
ایک مخصوص جماعت کو آگے لانے  کے لیئے یک طرفہ اور جانبدارانہ فیصلوں نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم پھر سے زبان بندی کے دور میں دھکیلے جا رہے ہیں . کیونکہ آپ کے پاس زبان تو ہے لیکن آپ بول نہیں سکتے.  آنکھیں تو ہی لیکن آپ کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے.  دماغ تو ہے لیکن سوچنے کی زحمت مت کیجئے.  سیاسی جماعتوں کو دیکھیں تو جس کی جماعت کے خلاف کوئی اعتراض پیش کیا جائے وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لوگوں کی ماں بہن کو یوں خراج عقیدت پیش کرنا شروع کرتے ہیں جیسے کہ نہ ان کی اپنی ماں ہے نہ بہن.  اگر یہ کہیں کہ پاکستانی  مردوں کی بدزبانی کا عروج دیکھنا ہو تو الیکشن کے زمانے کو دیکھئے,  یا عام دنوں میں ان مردوں کی سیاست پر گفتگو کو ہی ملاحظہ فرما لیجیئے.  ہر آدمی اس بات کو تیار بیٹھا ہوتا ہے کہ کب اسے موقع ملے اور کب وہ سامنے والے کی گردن کاٹ ڈالے یا پھر اور کچھ نہ  کر پائے تو اس کی عزت کے پرخچے تو ضرور ہی اڑا کر رکھ دے. گویا انتخابات کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اپنے اندر کا سارا گند اور سارا زہر دوسروں پر انڈیل دینے کا زمانہ ہے.  یہ مت بھولیں کہ انتخابات تو ہو ہی جائینگے . یہ وقت گزر ہی جائے گا.  لیکن آپ کے کردار و اخلاق کے بھانڈا پھوڑ کر ہی جائیگا.  اور اس زمانے کے جاتے جاتے آپ کے کئی رشتے اور کئی دوست  آپ کی زندگی سے جا چکے ہونگے. 
دوسری جانب ملک میں ایسے مواقع پر کچھ خاص قوتیں ہمیشہ ہی سرگرم  ہو جاتی ہیں جن کا مقصد حالات کو اپنی مرضی کے رخ پر موڑنا ہوتا ہے.  پھر اس کے لیئے انہیں کتنے ہی محبان وطن ہارون بشیر بلور  یا سراج رئیسانی اور سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کے خون کی ہولی ہی کیوں نہ کھیلنی پڑے.
پشاور سے بلوچستان تک ان معصوم شہیدوں کی لاشیں, ان کے برباد خاندان ان کے مقصد کی راہ میں بددعاؤں کا پہاڑ لیئے ہی کیوں نہ کھڑے ہوں .
ان حالات میں یہ یاد رکھیں کہ آپ کتنی بھی اچھی نیت کر لیں , لیکن جھوٹ, بہتان تراشی ,دھوکہ, دھونس دھاندلی آپ کو کبھی بھی اچھی منزل تک نہیں پہنچا سکتا . پھر بھی
یہ ہی تو پاکستانی سیاست کا طُرَہ امتیاز ہے
ہم ہندوؤں  کیساتھ رہ رہ کر انہیں جیسا تصور  زندگی اتنا خود میں بسا چکے ہیں کہ اسلام بس اپنی زندگی کی ہندو ڈش پر بگھار کے طور پر ہی استعمال کرتے ہیں یہ بھی تو وہیں سے آیا ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے کچھ بھی کرو
چھل  بل  کھپٹ
دھوکہ, یوٹرن, بہتان تراشی.  ..
.بس تم جیت جاؤ چاہے ساری عزت, سارے رشتے, سارے بھرم,  سارے اعتبار ہار جاؤ....
                     ...........

منگل، 10 جولائی، 2018

تارکین وطن کی مشروط ووٹنگ

تارکین وطن کی مشروط ووٹنگ
ممتاز ملک.  پیرس

دنیا بھر میں میڈیا کو اچھے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لوگوں کو تازہ ترین حالات سے باخبر رکھنے کے لیئے  استعمال کیا جاتا ہے.
لیکن آج کل اسی میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا اور فیسبک کو جس طرح سے زہر فشانی, منافرت, دھوکہ دہی,جھوٹ  اور برین واشنگ کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے وہ لمحۂ فکریہ ہے.  آج ہر ہاتھ میں موبائل فون موجود ہے اور اس کے ذریعے سے کسی بھی شخص تک رسائی ممکن ہے .
ایسی صورتحال میں جب کہ امریکہ اور بھارت میں صدور کے فالورز میں لاکھوں  فیک آئی ڈیز بے نقاب ہو چکی ہیں.  تو ان کی دو نمبر شہرت بھی سامنے آ چکی ہے.  اسی کی روشنی میں پاکستانی سیاستدان کیوں پیچھے رہتے. 
آج جب پاکستان کے انتخابات میں تارکین وطن کی ووٹنگ  کا بڑا ذور دار مطالبہ کیا جا ریا ہے.  تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے ِ کہ یہاں تو ایک ایک پاکستانی نے صرف ذاتی دشمنی میں سو سو فیک اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں.   جس میں اس کا مقصد صرف دوسرے کو نیچا دکھانا ہے.  اس کے ذریعے دوسرے کو ذلیل کرنا اور اپنی بیکار پوسٹ پر بھی واہ واہ بٹورنا ہے.  ایسے میں یہاں تو معاملہ ہے کرسی کا, اختیارات کی بندر بانٹ کا, لہذا الیکشن کمیشن کو کوئی بھی فیصلہ ہر طرح کے  آئی ٹی ماہرین اور نیٹ ماہرین کو ساتھ میں شامل کئے بنا ہر گز نہیں کرنا چاہیئے.  کیونکہ یہ معاملہ ملک کی سلامتی اور وقار کا ہے.  آپ کی ذرا سی جلد بازی ملک کو کسی بھی غیر محفوظ صورتحال سے دوچار کر سکتی ہے. 
لہذا تارکین وطن یعنی پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ضرور دیجیئے.  لیکن اس بات کا یقین کر لیجیئے کہ اسے نادرہ کے آئی ڈی کارڈ کیساتھ وابستہ کر دیا جائے.  ایک نادرہ کارڈ نمبر پر صرف ایک ہی ووٹ کاسٹ کیا جائے.  اس کے لئے غلطی سے بھی ایک اکاؤنٹ ایک ووٹ کی پالیسی نہ اپنائی جائے.  کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں نے حسب توفیق لوگوں کو لاکھوں روپے ماہوار پر صرف اور صرف ایسے ہی فیک فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹس  اور فالوورز بنانے پر متعین کر رکھا ہے.  جس کا مقصد انکی مصنوعی اکثریت ظاہر کرنا ہے.  سو جب بھی کسی بھی بیرون ملک ووٹنگ یعنی رائے شماری کا موقع آئے تو
ان ممالک میں انتخابی سینٹرز پر ایماندار  لوگوں کے سامنے نادرا کارڈ  رکھنے والے رجسٹرڈ ووٹرز کے ہی ووٹ ڈالنے کا انتظام کیجیئے  اور سب کے ووٹس گننے کا اہتمام کیجیئے.  جس پر اسی دن موقع پر عملدرآمد کرایا جائے.  یا پھر انٹر نیٹ پر ووٹنگ پول کروانا چاہیں تو بھی اس کے ساتھ رجسٹرڈ ووٹرز کو نادرا کارڈ نمبر کے ساتھ ہی ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے. 
پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیئے اسے جعلی رائے شماری سے بچانا بہت ضروری ہے. 
کیونکہ فیک اکاونٹس میں پھر صرف پاکستانی فیک اکاؤنٹس ہی شامل نہیں ہونگے بلکہ دنیا بھر سے پاکستان دشمن قوتیں بھی سرگرم عمل ہو جائینگی.
جنکا مقصد اپنی ایجنٹ قوتوں کو برسر اقتدار لانا ہوتا ہے. 
سو نادرہ کارڈ کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹرز کو ہی ان کا حق رائے دہی ملنا چاہئے. 
تارکین وطن کو حق رائے دہی ضرور دیجیئے لیکن نادرہ کارڈ نمبر اور ووٹر لسٹ میں رجسٹریشن کی شرائط کیساتھ ......
                         ..........

بیداری بہت ضروری ہے

         بیداری بہت ضروری ہے
             ممتازملک. پیرس

ان تمام مرد و زن پاکستانیوں  کو سلام جنہوں نے پانچ سال موجیں مارنے والے ان لوگوں کو ممبران اسمبلیان کوکہ جنہوں نے  پانچ سال بعد یہ سوچا کہ چلو جی بریانی کی پلیٹ پر وڈیرے سائیں کے نام پر, برادری کے نام پر, قبروں کے نام پر,  لاشوں کے نام پر,  پھر سے بیوقوف بنانے چل دیں گے .
لیکن آپ نے ان سے سوال کر کے, ان کا راستہ روک کر, ان سے حساب کا آغاز کر کے یہ ثابت کرنا شروع کر دیا ہے کہ آپ جاگ رہے ہیں . آپ زندہ ہیں . اور اپنے پانچ سال اپنی عزت ,جان ,مال کی حفاظت اور اپنے خزانے  کا حساب لینا جانتے ہیں . ان لٹیروں کو جانے نہیں دینا . کوئی کتنا بھی بڑا لیڈر بنتا رہے . پاکستان کے اصل مالک, پاکستان کی عوام ہے. 
 اور اب پاکستانی عوام کے مذاق بنانے کا سلسلہ بند کرنے کا وقت آگیا ہے .
گونگے بہرے اور اندھے بن کر ان لوگوں کو وڈیروں, زردراروں, بھٹو, ملکوں, شریفوں,اور خانوں کو ووٹ دینے سے پہلے ضرور پوچھیئے کہ سناؤ بھائی پانچ سال کہاں گم تھے ؟ .
کیا کیا کہاں کیا ؟
کتنا انفراسٹرکچر بنایا ؟
کتنا سسٹم بدلا ؟
اس نے سرکاری عوامی خزانے پر کتنا رحم کیا ؟
آپ سے کئے ہوئے کتنے وعدے پورے کئے؟ نہیں کیئے تو کیوں نہیں دیئے؟
پوچھیئے کہ یہ آپ کا حق ہے . کسی کے مجبور کئے جانے یا منتیں ترلے کرنے پر ووٹ ہر گز نہ دیں . سامنے والے کے کردار اور افکار و نظریات  پر پوری نظر رکھیں کہ وہ اس قابل ہے کہ ہم اپنے زندگی کے پانچ سال اپنی عزتیں, جانیں ,رزق , روزگار سب اس کے حوالے کر دیں ؟
کیا اس نے پچھلے پانچ سال آپ کے  علاقے کو آپ کے رہنے کے قابل بنایا ؟
آپ کو صاف ستھرا,صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کیا ؟
اس نے خود اپنی کتنی خدمت کی اور اپنے علاقے کے رہنے والوں کی کتنی خدمت کی؟
 پوچھیئے, پوچھیئے, پوچھیئے ورنہ آئندہ پانچ سال مزید آپ کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال کر گھسیٹا جائے گا. . تو خود پر رحم کھائیں  خدارا...
اگر آپ کو خود کو انسانوں والے کردار میں اپنا وجود ثابت کرنا ہے تو اپنے ووٹ کی پرچی کو اپنی زندگی جیسا قیمتی سمجھ کر استعمال کرو . 
ہر ووٹ مانگنے والے  کو اپنے نلکے یا جوہڑ کا پانی پینے کو ضرور پیش کریں.  اگر وہ آپ کیساتھ آپ کے اور آپ کے بچوں کے پینے کا پانی تک نہیں بانٹ سکتا تو سوچ لیجیئے وہ آپ کے دکھ درد کیسے بانٹے گا اور آپ کی خدمت کیا خاک کریگا.  اسے ووٹ نہیں جوتے دیجیئے. 
اس پیغام کا عام آدمی خصوصاً سندھ اور بلوچ عوام تک پہنچنا بیحد ضروری ہے. جہاں کھلم کھلا اپنے حلقے اور علاقے کے عوام کو ڈرایا دھمکایا جا  رہا ہے. 
کہیں انہیں بے غیرت کہا جا رہا ہے اور کہیں لعنتی کہہ کر پکارا جا رہا ہے.  آپ کی غیرت اور حمیت, چوروں اور لٹیروں کو آگے لانے میں نہیں ہے بلکہ اپنے ووٹ بم سے ان کے پرخچے اڑانے میں ہے. 
جب تک ان دو صوبوں میں تعلیم  اور شعور  نہیں پہنچے گا پاکستان کی ترقی کا پہیہ آگے نہیں بڑھے گا.
سندھ کی بھی خبر لیجیے نگران وزیر اعظم اور وزیراعلی صاحبان
یہ عرصہ آپ کو کروڑوں کے حج اور عمرے اور خاندانی نِکمَے بھرتی کرنے کے لیئے نہیں دیا گیا بلکہ الیکشن میں عوام کو دھمکانے اور ڈرانے والوں  کی گردنیں دبوچنے کے لیئے دیا گیا ہے .
وہاں الیکشن کمیشن کب پوچھے گا پرانے لیڈران سے کہ پچھلے پانچ سال کی اپنی کارکردگی کے ثبوت کاغذات نامزدگی کیساتھ منسلک کرو ....
اپنے فرائض کو انصاف کیساتھ ادا کیجیئے .  ورنہ آپ کو بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا. 
یاد رکھئیے...
ووٹ صرف پاکستان کے لئے کام کرنے والوں کے لیئے
ووٹ صرف پاکستان کی ترقی کے لیئے.
نہ ووٹ کسی وڈیرے کا
نہ ووٹ کسی لٹیرے کا
نہ وو ٹ کسی قبر کا
نہ ووٹ کسی دربار کا
ووٹ صرف پاکستان کے خدمتگار کا
ووٹ صرف پاکستان کا.....
                        ............

بدھ، 4 جولائی، 2018

ماہ رجب (انتخاب)


انتخاب: ممتازملک 
تحریر:
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

                  ماہ رجب

رجب توبہ کا مہینہ ہے، شعبان محبت کا اور رمضان تقرب کا مہینہ ہے۔حضور اکرم کا ارشاد ہے:

”پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جن میں اللہ اپنے بندے کی دعا کو رد نہیں کرتا، 
ماہِ رجب کی پہلی رات، ماہِ شعبان کے وسط کی رات، جمعہ کی رات، عیدالفطر کی رات اور قربانی کی رات“۔ (السید احمد الہاشمی، مختار الاحادیث النبویہ والحکم المحمدیہ حدیث نمبر 568.)ماہ رجب بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ 

رجب لفظ ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اس کے دیگر معانی بھی ملاحظہ فرمائیں: ( i) ۔الاصب (سب سے تیز بہاﺅ):

 اس ماہ میں توبہ بڑی جلد قبول ہوتی ہے اور عصیاں کے صحرا دریائے رحمت و مغفرت کے تیز بہاﺅ سے سیراب ہوجاتے ہیں۔ عبادت گزار انوار قبولیت سے فیض پاتے ہیں۔ (ii)۔ الاصم (سب سے زیادہ بہرہ): 

زمانہ قبل اسلام میں اس ماہ میں جنگ و جدل کی آواز قطعاً سنائی نہیں دیتی تھی۔ جنگ اس ماہ میں حرام ہے۔

 (iii)۔ رجب جنت کی ایک نہر کا بھی نام ہے جو اس ماہ کے روزے داروں کو نصیب ہوگی۔(iv)۔ مطہر (پاک کرنے والا): رجب کو پاک کرنے والا اس لئے کہتے ہیں کہ یہ روزے داروں کے گناہوں اور تمام برائیوں کو پاک و صاف کردیتا ہے۔ 
اس ماہ میں دعائیں خوب قبول ہوتی ہیں۔ سورة توبہ کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہے:”مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے‘ 
اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے‘ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے ذی القعد‘ ذی الحجہ،محرم اور رجب کو محترم قرار دیا۔

 ان حرمت والے مہینوں میں نافرمانی بہت ہی قبیح ہے۔ جس طرح مقدس مقامات اور مبارک اوقات میں نیکی کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح ان مقامات اور اوقات میں نافرمانی کی سزا زیادہ ہوتی ہے۔ (بحوالہ: پیر محمد کرم شاہ الازہری: ضیاءالقرآن، جلد دوم، صفحہ 202)شب معراج کا واقعہ (27 رجب ):

ماہ رجب کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں پہلی بار حضرت جبرائیل ؑ وحی لے کر نبی اکرم پر نازل ہوئے تھے۔ اسی ماہ تاریخ اسلام میں شب معراج کا واقعہ پیش آیا جو بہت اہمیت اور عظمت کا حامل ہے۔ یہ واقعہ 27 رجب کو پیش آیا۔ 

اس ماہ تکمیل عبودیت ہوئی تھی۔ یہ معجزہ ایک ایسا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نہیں ملا۔ امام غزالی مکاشفة القلوب میں رقمطراز ہیں:

”حضور اکرم نے فرمایا: رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے“۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: جس نے ستائیس رجب کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ ماہ کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا۔ حضور اکرم نے فرمایا: یاد رکھو رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ جس نے رجب میں ایک دن روزہ رکھا، ایمان کے ساتھ اور محاسبہ کرتے ہوئے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضوانِ اکبر ( یعنی سب سے بڑی رضا مندی) لازم ہوگئی“ (بحوالہ : امام غزالی مکاشفتہ القلوب، صفحات: 680-678)نوسو برس عبادت کا ثواب:رجب کے پہلے جمعہ سے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہر فرشتہ رجب کے روزے رکھنے والے کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا: جس نے ماہ حرام میں تین روزے رکھے، اس کے لئے نو سو برس کی عبادت کا ثواب لکھ دیا گیا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ سے نہ سنا ہو تو میرے کان بہرے ہوجائیں۔امام دیلمی سے روایت ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: میں نے جناب رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔ عید قربان کی رات کو ، عیدالفطر کی رات کو، نصف شعبان کو اور رجب کی پہلی رات کو۔دعا کی قبولیت: 
امام دیلمی نے حضرت ابو امامہؓ سے روایت نقل کی کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا: پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رَد نہیں ہوتی: 1۔ رجب کی پہلی رات۔ 2۔ نصف شعبان کی رات (یعنی چودہ اور پندرہ کی درمیانی رات)3۔ جمعرات۔4۔ عیدوں کی رات۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی تصنیف غنیة الطالبین میں فرماتے ہیں کہ ایک بار رجب کا ہلال دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے دن منبر پر چڑھ کر فرمایا: کان کھول کر سن لو یہ اللہ کا مہینہ ہے اور زکوٰة ادا کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر کسی پر قرض ہو تو اپنا قرض ادا کردے اور جو کچھ مال باقی ہے اس کی زکوٰة ادا کردے۔رجب کے روزوں کی فضیلت :اگر کوئی رجب میں ایک دن کا روزہ رکھے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ سے ثواب کی ہو اور خلوص سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہو تو اس کا ایک دن کا روزہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو بجھا دے گا اور آگ کا ایک دروازہ بندکرا دے گا اور اگر اسے تمام زمین بھر کا سونا دیا جائے تو اس ایک روزے کا پورا ثواب نہ مل سکے گا اور دنیا کی کسی چیز کی قیمت سے اس کا اجر پورا نہ ہوگا۔ اگر یہ اجر پورا ہوگا تو قیامت کے دن ہی حق تعالیٰ پورا فرمائے گا۔ اس روزے دار کی شام کے وقت افطار سے پہلے دس دعائیں قبول ہوں گی۔ اگر وہ دنیا کی کسی چیز کے لئے دعا مانگے گا تو حق تعالیٰ وہ اسے عطا فرمائے گا۔ 

حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا : نبی اکرم نے رمضان کے بعد کسی ماہ کے اکثر روزے نہیں رکھے بجز رجب اور شعبان کے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو کسی حرمت والے مہینے کے جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے تین روزے رکھ لے، حق تعالیٰ شانہ‘ اس کے لئے نو سو سال کی عبادت لکھ لے گا۔ کہا جاتا ہے

 رجب ترک غداری کے لئے ہے، شعبان فرمانبرداری اور وفاداری کے لئے ہے اور رمضان صدق و صفائی کے لئے ہے۔ سال کی مثال ایک درخت کی ہے۔ رجب اس درخت میں پتے پھوٹنے کا زمانہ ہے، شعبان اس میں پھل آنے کا موسم ہے اور رمضان پھل پکنے کا وقت ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: جو رجب کا ایک روزہ رکھ لے گویا اس نے ایک ہزار سال کے روزے رکھے اور گویا اس نے ایک ہزار غلام آزاد کئے اور جو اس میں خیرات کرے گویا اس نے ایک ہزار دینار خیرات کیے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے عوض ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے۔ ایک ہزار درجے بلند فرماتا ہے اور ایک ہزار برائیاں مٹادیتا ہے اور اس کے لئے رجب کے ہر روزے کے عوض اور ہر صدقے کے عوض ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے لکھ لیتا ہے۔نبی اکرم نے فرمایا کہ جو رجب کی پہلی تاریخ کا روزہ رکھے تو یہ روزہ ثواب میں ایک ماہ کے روزوں کے برابر ہے اور جو سات روزے رکھ لے اس سے جہنم کے ساتوں دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جو آٹھ رکھ لے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں اور جو دس رکھ لے حق تعالیٰ اس کی برائیاں نیکیوں سے بدل ڈالے گا اور جو اٹھارہ روزے رکھ لے تو ایک آواز دینے والا آسمان میں اعلان کرتا ہے کہ اس کے گناہ بخش دئیے گئے اب ازسر نو نیک عمل کرے۔عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ:حضرت سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے : جس نے ستائیسویں (27) کا روزہ رکھا، اس کے لئے یہ روزہ عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور اگر وہ اس سال مرجائے گا تو شہید ہوگا۔ پچاس سال کے گناہ معاف:حدیث پاک میں ہے کہ 

جس نے رجب کے مہینے میں ایک بار سورة اخلاص (یعنی قل ہواللہ شریف) پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے پچاس سال کے گناہ بخش دے گا۔ حضرت علیؓ کا عمل:حضرت علیؓ پورے سال میں خاص طور سے عبادت کے لئے ان چار راتوں میں خوب سرگرم عمل رہا کرتے تھے۔ 

رجب کی پہلی تاریخ میں، عید الفطر کی رات میں، عیدالاضحی کی رات میں اور نصف شعبان کی رات میں۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی رجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھے پھر جمعہ کی رات میں مغرب سے لے کر عشاءتک بارہ رکعت نماز پڑھ لے اور ہر رکعت میں ایک بار سورة فاتحہ، تین بار سورة قدر اور بارہ بار سورة اخلاص پڑھ لے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیر دے اور سلام پھیر کر ستر بار یہ درود پڑھ لے: اللھم صلی علے محمدن النبی الامی وعلیٰ آلہ سبوح قدوس ربنا ورب الملائکة الروح ۔پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستر بار یہ دعا پڑھے رب اغفر وارحم وتجاوز اعمالھم فانک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدے میں جاکر پہلے سجدے والی دعائیں پڑھے تو مرادیں پوری ہوں گی۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو بندہ اور جو کنیز یہ نماز پڑھ لے گی یقینا حق تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دے گا اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ اور اس کی ریت کے ذرات کے، پہاڑوں کے وزن کے، بارش کے قطروں کے اور درختوں کے پتوں کے برابر کیوں نہ ہوں اور قیامت کے دن اس کی شفاعت اس کے خاندان کے سات آدمیوں کے حق میں قبول کرلی جائے گی اور قبر کی پہلی ہی شب میں اس کے پاس اس نماز کا ثواب کھلے ہوئے چہرے کے اور جاری زبان کے ساتھ آئے گا۔ تاجدارِ انبیاءحضرت محمد نے فرمایا کہ رجب میں ایک دن اور ایک رات ایسی آتی ہے کہ اگر کوئی اس میں روزہ رکھ لے اور اس رات عبادت کرے تو اسے سو سال کے روزوں کا اور سو سال کی راتوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ یہ دن رات رجب کی 27 ویں تاریخ ہے۔ اسی دن رسول اللہ مبعوث فرمائے گئے۔ماہ رجب کی عبادات: قرآن و حدیث کی روشنی میں ماہ رجب کی فضیلت بیان کی گئی۔ اس فضیلت کے پیش نظر ماہ رجب کی عبادات حسب ذیل ہیں: 1۔ یکم رجب کو روزہ رکھا جائے۔2۔ 27رجب کو چونکہ معراج شریف ہے لہٰذا اس دن روزہ رکھا جائے۔3۔ اس ماہ میں توبہ کثرت سے کی جائے۔4۔ اس ماہ میں تین روزے بروز جمعرات، جمعتہ المبارک اور ہفتہ ضرور رکھے جائیں کیونکہ ان تین روزوں کا ثواب نو سو سال کی عبادت کا ثواب ہے۔5۔ اس ماہ میں زکوٰة دی جائے۔6۔ کسی کا قرض ادا کرنا ہو تو اس ماہ میں وہ قرض ادا کیا جائے۔7۔ ہمارے وہ اقارب جو فوت ہوچکے ہیں (مثلاً والدین وغیرہ) ان کی مغفرت کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم رجب کی فیوض وبرکات سے فائدہ اٹھائیں۔ آمین!
                   -------------

دلیل سے ذلیل تک



دلیل سے ذلیل تک 
ممتاز ملک.  پیرس


جب میری کسی دلیل کے جواب نہ بن پڑا تو پہلے ادارہ منہاج القران کے ایک کینسر گروپ  نے  اپنے کچھ چمچے چمچیاں اور لنگر گروپ  والے میری کردار کشی پر متعین کر دیئے... میرے آرٹیکل  خاموشی بھی اب جرم ہے (ذینب کیس کی روشنی میں لکھے گئے)  کے بعد.. 
 اب  پی ٹی آئی  کو پوٹی آئی ثابت کرنے والے کچھ بکاؤ چیلوں نے میرے سوالات اٹھانے پر فیک آئی ڈیز کے ذریعے میری کردار کشی کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے.  
اب بیچارے کریں بھی تو کیا... سچ بولتے تو فیک آئی ڈیز بنانے کی نوبت ہی کیوں آتی...
میں  نے تو اپنے آرٹیکلز میں پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ
ایسا ہی کیا جانے کی مجھے سو فیصد امید ہے کیونکہ یہ  ہمارا کلچر ہے  جس جماعت کی بھی چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی  پول کھلتی ہے تو وہ تڑپ تڑپ کر دوسرے پر بہتان تراشیاں اور  کردار کشی کی اپنی خاندانی خوبیوں کا کھلا مظاہرہ شروع  کرنے کے  لیئے اپنے مفت خورے بلکہ حرامخورے میدان میں اسی طرح کسی بھی لکھنے والے کے خلاف چھوڑ دیتے ہیں جیسے کوئی پاگل کتا کسی بھی راہ چلتے  پر چھوڑ دیا جائے.  
اب بھونکنا ان کا کام ہے اسی کے بل پر یہاں کسی کو دو ٹائم کے مفت کے کھانے مل جاتے ہیں,  یا گھر کا کرایہ مل جاتا ہے کسی کو یوٹیلٹی بل کی خیرات  یا فرانس میں رہنے کے لیئے پیپروں کا آسرا مل جاتا ہے تو کسی پر بھونکنے میں ہرج ہی کیا ہے.  چلو میرا نام لیکر ان جیسوں کو تھوڑی سی ہڈی کہیں سے بھی مل جاتی ہے تو مزے کریں. بس یہ یاد رکھیں کہ یہ ہی ہڈی جب ان کے گلے میں پھنستی ہے تو بڑے بڑوں کو ان کی نانی یاد آ جاتی ہے.  
الیکشن میں جانے کے لیئے کارکردگی کی ضرورت ہوتی ہے.  اور جب کارکردگی نہ ہو تو اسی طرح سے ان  لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیئے  کتے ان کے پیچھے چھوڑے جاتے ہیں جو ان سے کارکردگی کا سوال کرتے ہیں.   
ہو سکے تو جاؤ جا کر اپنی پارٹیوں سے پاکستان میں زمین پر نظر آنے والے کام کرواؤ  تاکہ یوں لوگوں کے سوالوں پر انہیں کاٹنے کے لیئے فیک آئی ڈیز  کے چور دروازوں کا سہارا نہ لینا پڑے.  اس تحریر کیساتھ  اس بہادر یوتھییے کی وال کا اور اس کی لفاظی کا  سکرین شارٹ بھی دے رہی ہوں.  تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ ان جیسے  بھیک مانگ کر  کھانے والے کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں....
فیضان  بٹ کے جعلی نام کے اس کتے اور اس کے ساتھیوں پر میں سائیبر کرائم میں جانے اور پولیس کی کاروائی کا حق محفوظ رکھتی ہوں. ضرورت محسوس ہوئی تو انہیں اچھی طرح سے قانونی طور سے بتا دونگی کہ بیٹا  اصیل لوگ پردوں اور روٹیوں کے پیچھے چھپ کر  وار نہیں کرتے اور زانیوں شرابیوں جواریوں کی حمایت میں اپنا منہ کالا نہیں کرتے ....یہ فرانس ہے اور یہاں کی پولیس ان کے دادے پردادے کے ریکارڈز بھی کھنگھال کر نکالنا جانتی ہے .  تم چاہے کتنے ہی بے برقعوں میں چھپ جاؤ . بس یہ یاد رکھو کہ
 میدان میں کھڑے ہو کر بات کرنے والی عورت کو ہی کہتے ہیں
            ممتاز ملک. پیرس سے ...   


منگل، 3 جولائی، 2018

بھونکتے کتے

سچ کے راستے میں چلتے ہوئے کئی کتے آپ پر بھونکتے ہیں
لیکن ہر بھونکنے والے کو رک کر جواب دینا
یا
اس کے برابر بھونکنا آپ کی شان نہیں ہے ....
چھوٹی چھوٹی باتیں
ممتازملک. پیرس


اتوار، 1 جولائی، 2018

سانس لینا میری ضرورت ہے / کالم


سانس لینا میری ضرورت ہے
ممتاز ملک. پیرس



آئے دن سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں نے جہاں صوتی آلودگی میں کماحقہ اضافہ کیا ہے وہیں اس کے ایندھن سے نکلنے والی فضائی آلودگی نے اس دنیا کے حسن کو برباد کر ڈالا ہے.  انسانی صحت اور ماحول دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں  . گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے.  گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں. اگر فضا سے دنیا کے مختلف شہروں کا جائزہ لیا جائے.  تودنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی  کا میڈل ہمیں بھی ضرور
ملتا ہے. 
ہمارے شہر محض اینٹ پتھروں کے مقبروں کا منظر پیش کرتے ہیں.  جب کے بیچ کسی ہرے بھرے پودے کا نظر آ جانا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے جسم پر بیٹھا کوئی مچھر.  جسے آپ کی آنکھ تلاش کے لے تو آپ کی نظر کا کمال ہے.
اس میں قصور وار اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی عوام ہیں جنہیں سب کچھ حکومت کر کے دے.  بلکہ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے ہر احساس ذمہ داری کے حقوق بحق سرکار ضبط کرا رکھے ہیں اور ان کا کام صرف شور مچانا اور آوازیں بلند سے بلند کرنا ہے. 
کام چور عوام کو اس طرف متوجہ کیا جائے توبہانوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو سنانے کا بہت وقت ہو گا انکے پاس..  ارے بھائی کیا بتاؤں پودے لگانے کے لیئے جگہ نہیں ہے ..پانی نہیں ہے... وقت نہیں ہے ..پیسے نہیں ہیں.. پودے سنبھالنے نہیں آتے... جبکہ پودے نہ لگانا  کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.
نہ صرف لانز میں بلکہ چھتوں پر بالکونیوں میں گھروں کے صحن میں گملوں میں ,تھابڑوں میں, اور بوتلوں میں ,دیواروں پر کہیں بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں.  ہم نے بہت چھوٹے گھروں میں بڑے ہی سلیقے سے لگے پھول اور پودے دیکھے ہی جو نہ صرف اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس گھر کے رہنے والوں کی صحت اور سوچ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں.  اور کچھ نہیں تو جہاں کچھ دھوپ میسر ہے اس کھڑکی کے  پاس ہی گملے میں کچن گارڈننگ کے طور پر دھنیا, پودینہ, ٹماٹر, لیموں, مرچیں اور ایسی ہی سبزیاں بو سکتے ہیں . اگر دو چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جگہ میسر ہے تو اسی میں کوئی پھلدار  درخت کا تین چار فٹ کا تیار درخت لا کر لگا دیجیئے.  یہ درخت تھوڑے ہی عرصے میں آپ کو پھل بھی دیتا رہیگا اور سایہ بھی.
عمران خان نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا  لیکن انہوں نے ایک ارب درخت لگانے کی پھلجھڑی کسی شرارتی مشیر کے کہنے پر چھوڑ دی.  جس سے ایک سنجیدہ کاز بھی مذاق بن گیا.  بات اتنی ہی کرنی چاہیے جو پوری کی جا سکے.  اس میں ہم سب کو بھی حقیقت پسند بننا چاہیئے .
چلیں اربوں نہ سہی لاکھوں درخت تو ضرور خان صاحب نے لگوا ہی لیئے ہونگے. انہوں نے  ایک اچھے کام کی طرف توجہ تو دلائی ہے سب کی .  اس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے.  دل بڑا کریں .  ایکدوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے.
  ویسے بھی درخت لگانا کسی ایک حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے  بلکہ یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی آبیاری بھی کرے.
کیا ہم اپنی اولادوں کو ایک گنجا , پتھریلا اور ریتیلا پاکستان دیکر جائیں گے. 
پاکستانی قوم نے تو عرب کے صحراؤں کو اپنی محنت سے گل و گلزاز بنا دیا.  چاول اور گندم کا مزا چکھا دیا.  کیا ہم اپنے ملک کو عرب صحرا بنتا دیکھتے رہینگے ؟
کسی نے سچ ہی کہا کہ ہم دنیا کے وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اتنا حسین ملک ہرا بھرا کرنے کے بجائے اسے ریگستان بنانے پر تل گئے ہیں.  اللہ پاک ہمیں عقل و ہدایت عطا فرمائے.
دنیا کے وہ تمام خوبصورت اور ہرے بھرے ملک جن کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے . وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی فطرت کے قریب کرنے کا انتظام کرتے ہیں.  انہیں مٹی میں کھیل کر, اس میں گوڈی کر کے بیج بو کر , اس سے محبت کرنا سکھاتے ہیں.  جبکہ ہمارے نودولتیئے اپنے بچوں کو مٹی پر ہاتھ رکھنے سے اس لیئے روکتے ہیں کہ میلے ہو جائیں گے جبکہ غریب مٹی کو غربت کی نشانی سمجھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں مگن رہتے  ہیں. ایسے میں سانس لینا کیسے آسان ہو سکتا ہے.
درخت لگائیے پھول اور پودے لگائیے خدا کے لیئے. اس دن سے پہلے کہ جب ہر آدمی کو سانس لینے کے لیئے اپنا اپنا سلنڈر اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنا پڑے ..
                  ●●●

اتوار، 17 جون، 2018

مرضی سے جینے کی سزا موت



   مرضی سے جینے کی سزا موت                 ( تحریر /ممتاز ملک.  پیرس)                 
          
اللہ پاک نے انسان کو دنیا میں آذاد
پیدا کیا.  اس آذادی میں اس کی سوچ اس کا اسی طرح بنیادی حق قرار دیا جس طرح اس کا سانس لینا, کھانا کھانا ,پانی پینا.. اسی سوچ کے حق میں اس کا یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کیا طرز زندگی اپنانا ہے,  کونسا مذہب اختیار کرنا ہے, کن سے دوستی کرنی ہے,  کن سے کاروباری معاملات رکھنا ہیں اور کئی ایسے ہی دوسرے معاملات ...
ان سبھی حقوق میں سر فہرست ہے اس کا یہ حق کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس شخص کیساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے یا چاہتی ہے. یعنی وہ کس کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتا ہے.  یہ اس قدر اہم حق ہے کہ اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی زبانی اس بات کا حکم دیا   اور اس پسند اور رضامندی کے بغیر اس رشتے کو ہی جائز قرار نہیں دیا. 
لیکن ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو صورتحال خوفناک بھی ہے اور عجیب و غریب بھی.  چند فیصد لوگوں کے سوا باقی سبھی کے ہاں شادیاں عملی طور پر جبری ہی ہوتی ہیں.  لڑکی کی خصوصاً اور لڑکے کی عموماً وہیں پر شادی کرنے میں روڑے اٹکائے جاتے ہی جہاں اس رشتے میں ان کی اپنی رضامندی شامل ہوتی ہے.
لڑکی کے ابّا اور بھائیوں کی مونچھ کا بال داؤ پر لگ جاتا ہے کہ لڑکی ہو کر اس نے اپنی مرضی سے کیسے اپنا بَر چن لیا. اللہ نے اجازت دی ہو تو دی ہو  , انہیں   اس کیا فرق پڑتا ہے فرق پڑتا ہے تو لڑکی کے ابَا اوربھائیوں کی اجازت سے . کہ انہیں یا تو اس شادی کے بدلے من چاہے مفادات حاصل ہوں یا پھر اور کچھ نہیں تو ان کی انا کی تسکین تو ضرور ہونی چاہئے  ورنہ پھر یہ شادیی کبھی نہیں ہو سکتی.  اور لڑکے نے اپنے لئیے کوئی لڑکی پسند کر لی تو لڑکے کی امّاں اور بہن کے پیٹ میں بل پڑنا لازمی ہیں .  کیونکہ وہ گھر کے لیئے غلامانہ اور ملازمانہ مزاج بہو لانا چاہتی ہیں جبکہ لڑکا تو لے آیا ہنر مند یا ان کے مقابلے اور ٹکر کی سیانی بہو تو اس شادی سے انہیں کیا آرام ملا .
ایشئین ممالک میں ہونے والے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل یعنی آنر کلنگ کا سرا بھی کہیں نہ کہیں انہیں واقعات کے ساتھ جا کر جڑتا ہے. آنر کلنگ  تعداد اس قدر خوفناک ہے کہ اس پر شرم سے ہی ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے.  پاکستان میں اس کی شرح کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیئے کہ ایک عالمی اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے عزت کے نام پر اگر پانچ قتل ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک قتل پاکستان میں ہوتا ہے . 
افسوس صد افسوس ہمارے ہاں سالہا سال تک ویسے بھی دورے کیسز میں بھی نہ تو قاتلوں کو سزائے موت ہوتی ہے اور نہ ہی زانیوں کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے... لیکن ماراجاتا ہے تو محبت سے عزت سے اپنا گھر بسانے والے معصوم لوگوں کو چن چن کر اور ڈھونڈ  ڈھونڈ کر بیدردی سے مار دیا جاتا ہے...
آپ جانتے ہیں ہمارے ہاں دہشت گرد اورچور ڈاکو  کیوں زیادہ ہو گئے ہیں؟
آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہماری اولادوں کی آنکھ سے حیا اور زبان سے لحاظ کیوں رخصت ہو گیا ہے؟ تو غور کیجیئے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں ان چوروں ڈاکوؤں قاتلوں اور زانیوں کے والدین کے حالات زندگی پر اور ان کی شادیوں کے معاملات پر.. ان میں ننانوے فیصد وہ لوگ ہیں جن کے والدین کو جبراً ایک دوسرے کا شوہر یا بیوی بننے پر مجبور کیا گیا.  جبکہ وہ ایک دوسرے کی ذات سے کیا وجود سے بی نفرت کرتے تھے .  گزارنے کو شاید انہوں نے ساری زندگی بھی ایک ہی گھر میں گزار دی ہو گی.  لیکن اس میں بے ان کی رضا سے زیادہ ان کی مجبوری یا خوف ہی حائل رہا یا اولاد پیدا ہونے پر اس کی محبت نے انہیں اپنا دل مارنے ہر مجبور کر دیا.  اورجب اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی راہ میں وہی  اولاد ہی چٹان بن کر کھڑی ہو گئی.
گویا ایک جبری فیصلے سے آپ کے ہاں پیدا ہونے والی پوری نسل کو مشکوک بھی بنا دیا اور مجرم اورنفسیاتی مریض بھی .  حرام کے رشتے سے حلال کی اولاد کی توقع  بالکل ایسا ہی ہے جیسا سورج سے ٹھنڈک اور سائے کی تمنا ..
جہاں ایک فریق  نے  شادی سے انکار کیا تو دوسرے فریق  کو اس سے اپنی سوچ کا دائرہ بدل لینے کے بجائے اسے  اپنی ضد اور انا بنا کر اسے سبق سکھانے کی سوجھی اور اپنے اس مجرمانہ عمل کو نام دیدیا عزت کی خاطر قتل کا .   کمال ہے نا اتنے بڑے بے غیرتی کے کام کو( جس میں کس کا حق فیصلہ اللہ اور رسول کیساتھ قانون کا بھی دیا ہوا اپنی زندگی اپنی مرضی اور پسند کے انسان کے ساتھ گزارنا ) کو بدمعاشی اورغنڈہ گردی کے ذریعے سلب کر لیا جائے.  ایک انسان کی زندگی کو اس کی خواہشات اور احساسات کا مقبرہ بنا دیا جائے.  یا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یا اسے زندہ جلا دیا جائے... اور نام دیدیا جائے عزت کے نام پر قتل.   ....
اور قتل بھی نوے فیصد کیسز میں صرف خواتین کے ہی قتل...
اس کا مطلب ہے غیرت صرف مرد میں ہوتی ہیں اسے جننے والی عورت کا غیرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.  اس لحاظ سے مرد میں غیرت کہاں سے آئی؟ انسان تو جو کچھ دنیا میں لیکر آتا اپنی ماں کے خون سے ہی لیکر آتا ہے .
تو ڈرئیے اس دن سے جب عورت نے مرد کو اپنی خون سے دی ہوئی غیرت خود بھی کھانی شروع کر دی تو گھر گھر غیرت کے نام پر مردوں کی لاشیں بچھ جائینگی . اس دن سےخدا کی پناہ مانگیں . اور اپنی اولادوں اور بہن بھائیوں کی شادیوں  میں ان کی رائے اور مرضی کو اہمیت دیکر انہیں حرام کی زندگیاں گزارنے سے بچائیں. ورنہ یہ بوجھ آپ کی گردن سے قیامت
تک نہیں اتر سکتا.  دنیا میں تو برباد ہونگے ہی آخرت بئ نہ بچا پائیں گے. 
                        ...........
نوٹ.  یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی.  شکریہ

جمعرات، 24 مئی، 2018

● حمد ۔ میرے مولا / اے شہہ محترم


میرے مولا 
کلام . ممتاز ملک 


🌸میرے مولا تو سب سے بڑا ہے
بخش دے جو بھی میری خطا ہے

ساری دنیا کو پرکھا تو جانا 🌸
تیری رحمت کا بس آسرا ہے

چھیننے والے لاکھوں ہیں لیکن🌸 
تو ہی دیتا ہے دیتا گیا ہے 

کیوں کسی در پہ دامن پساروں 🌸
جو ملا تیرے در سے ملا ہے

میں نے پھیلائی جھولی جہاں سے🌸
کوئی خالی نہ ہر گز گیا ہے 

اس سے آگے کہاں جاؤں مولا 🌸 
تیری چوکھٹ پہ سر رکھ دیا ہے

جان جاتی ہے ممتاز جائے🌸
تو ہی لے گا تیری ہی  عطا ہے 
🌸🌸🌸





اتوار، 13 مئی، 2018

مجھے جو معتبر کر دے / شاعری



مجھے جو معتبر کر دے 
ممتاز ملک. پیرس 

کڑکتی دھوپ میں سایہ❤
اندھیروں میں اجالا ہے
کوئی ثانی نہیں اس کا. ❤     
مجھےجس ماں نے پالا ہے

محض اک سیپ تھی میں تو❤
گوہر اُس نے نکالا ہے
ہمیشہ مشکلوں میں جس نے❤   
اس  دل کو سنبھالا ہے

مجھے جو معتبر کر دے ❤
میری ماں کا حوالہ ہے
مجھے ممتاز کرنے کو ❤         
دعاؤں کا وہ ہالہ ہے


اتوار، 6 مئی، 2018

"رفتہ رفتہ" کی تقرری رونمائی

رفتہ رفتہ کی تقریب رونمائی
ممتاز ملک.  پیرس  

فرانس میں خواتین کی تنظیمات "لے فم دو موند " اور پاکستانی خواتین کی پہلی  ادبی تنظیم "راہ ادب" کے زیر اہتمام پیرس کے علاقے سارسل میں 5 مئی 2018 ء بروز ہفتہ ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا . جس میں معروف شاعرہ اور کالمنگار محترمہ شمیم خان صاحبہ کے دوسرے شعری مجموعے "رفتہ رفتہ " کی رونمائی کی گئی . پروگرام کی نظامت " راہ ادب " کی آرگنائزر اور ہر دلعزیز سیاسی سماجی کارکن اور شاعرہ روحی بانو اور معروف کالمنگار ,شاعرہ اور ٹی وی ہوسٹ اور راہ ادب کی جنرل سیکٹری ممتاز ملک نے کی .
پروگرام کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا . جس کی تعظیم میں سبھی شرکاء کھڑے ہو کر اس میں شریک ہوئے.
اس کے بعد تمام مہمانان خصوصی کو سٹیج پر بلا کر عزت دی گئی .  
ایک بچی آسیہ کی پیاری آواز میں تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا .
  جس کے بعد معروف شاعر عاکف غنی نے اپنی خوبصورت  آواز میں نعت رسول پاک ص ع و پڑھنے کے سعادت حاصل کی . سبھی مقامی شعراء نے اپنے کلام سے محفل کو نوازہ اور بھرپور داد سمیٹی . شعراء میں شامل تھے عاکف غنی صدر (اہل سخن ), ایاز محمود ایاز (جنرل سیکٹری اہل سخن) آصف عاصی , معروف شاعرہ اور ناول نگار شاز ملک (صدر ویمن ونگ اہل سخن ) فیشن ڈیزائنر اور شاعرہ  نبیلہ آرزو (جنرل سیکٹری ویمن ونگ اہل سخن)  روحی بانو اور ممتاز ملک .
جبکہ سماجی ,سیاسی اور صحافی دوستوں میں اظہار خیال کرنے والوں میں شامل تھے محترمہ طاہرہ سحر (ڈیلی تاریخ کی ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور کالمنگار) , ناصرہ خان ( بیورو چیف گجرات لنک اور اوور سیز فائل  )  نیناں خان (جذبہ ) , شبانہ چوہدری (کشمیر کمیٹی ,سویرا نیوز) . صاحبزادہ عتیق الرحمان (سینئر صحافی سابقہ صدر پاکستان پریس کلب )
سبھی  دوستوں نے محترمہ شمیم خان صاحبہ کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا  . جن کے صبر تحمل اور بردبار لہجے نے سبھی کو ہمیشہ ایک بڑی بہن اور ماں جیسا احساس نوازہ ہے.  ان کے کام میں ان کی وہی سنجیدگی متانت اور وقار بولتا ہے . 
پروگرام کی مہمان خصوصی پیرس ادبی فورم کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ تھیں . جنہوں نے اپنے کلام سے بھی شرکاء کو محظوظ کیا .
میڈیا کے نمائندگان نے بڑی تعداد میں اس پروگرام میں شرکت سے اس پروگرام کو یادگار بنا دیا .
جبکہ پروگرام میں سب سے خاص اور خوبصورت  بات پہلی بار  پیرس میں موجود سبھی پاکستانی ادبی تنظیمات کی ایک ہی جگہ موجودگی اور بنا کسی کھینچا تانی اور مقابلہ بازی کے بھرپور اور پرجوش شرکت تھی . جس نے پروگرام کو ایک یادگار پروگرام بنا دیا .
شمیم خان صاحبہ نے سبھی مہمانان گرامی کا خصوصی شکریہ ادا کیا .اور اپنے کلام سے بھی نوازا .
پروگرام کے آخر میں محترمہ شمیم خان صاحبہ کو پھولوں کے گلدستے پیش کیئے گئے  . اور کیک کاٹا گیا . اور یوں  ہنستے مسکراتے اس یادگار شام اختتام ہوا .

جمعہ، 27 اپریل، 2018

دوپہر کی ہنڈیا



دوپہر کی ہنڈیا

تحریر :
(ممتازملک. پیرس)













ہمارے ہاں عام طور پر  صبح صبح ہی گھر کی خواتین کی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا ہے .کیونکہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے اور اپنے شوہر کو اس کے کام پر روانہ کرنے لیئے ناشتے کی تیاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.  کیونکہ دن کے کھانے کا وقت عام طور پر ایک ڈیڑھ بجے کا ہوتا ہے تو اس کی تیاری کا آغاز بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے. 




 ایسے میں وہ خواتین جن کی ہانڈی سہہ پہر کے چار بجے تک چڑھ کے ہی نہیں دے رہی یا پکنے پر ہی نہیں آ رہی تو غور کیجئے کہ ماجرا کیا ہے ؟

*  کیا یہ خواتین اپنے ابَا کے گھر میں بھی چار بجے دوپہر کی ہانڈی چولہے پر چڑھانے ک عادی تھیں؟ تو جواب سو فیصد آتا ہے کہ سوال ہی  پیدا نہیں ہوتا.. 

*  اب کیا اپنے بچوں کو وہ چار بجے تک بھوکا رکھے گی ؟ جواب.. کبھی ہو ہی نہیں سکتا... 
* اپنے میاں کو چار بجے تک دوپہر کے کھانے کے لیے لٹکائے گی ؟ تو جواب ہو گا کہ ہاں ہو سکتا ہے بازاری کھانے کے چسکے میں میاں کو لٹکائے کہ غریب بازار سے ہی کچھ لا کر اسے لذت کام ودہن فراہم کر دے ... 
*  یا پھر اس عورت کو گھرداری کی الف ب کا ہی پتہ نہیں ہے .
ایسی عورت کو ہی پھوہڑ اعظم کا خطاب بلا شک و شبہ دیا جا سکتا ہے.  
اب اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ ہانڈی چار بچے کچھ خصوصی مواقع پر ہی چڑھتی ہے تو یقیناً وہ موقع گھر پر خاتون کی ساس یا نند کہ آمد ہی ہو سکتی ہے.  اکثر جب چلترباز بہو یا بھابھی اپنی ساس یا نند کو اچھی طرح سے اپنے فائدے میں نیمبو کی طرح نچوڑ لے اور اسے مزید ان تِلوں میں تیل دکھائی نہ دے تو شروع ہوتی ہے مکار بہو کی آخری کاروائی...
یعنی کہ وہ ہر روز آٹھ بجے ہونے والا ناشتہ  دس گیارہ بجے تک گھسیٹ لے گی یا پھر دوپہر کا کھانا ایک بجے پیش ہونے والا دن چار بجے تک "ہانڈی چڑھاتی ہوں ابھی" کہہ کر آپ کو گیٹ لاسٹ کا پیغام دیتی رہیگی.  اس وقت تک کہ جب تک آپ دوبارہ اس کی تجوری بھرنے کا انتظام نہ کر لیں.. 
اور پھوہڑ اعظم خواتین کو ایک  ہی سبق دیا جا سکتا ہے کہ نالائیقو کل کیا پکانا ہے ایک دن پہلے ہی سوچ کر اس کا سامان (دال سبزی گوشت جو بھی پکنا ہے) وہ منگوا لیا جائے.  اور صبح گھر کا ناشتہ نمٹاتے ہی ساتھ یہ دوپہر کی ہانڈی بھی چڑھا دی جائے. ساتھ میں آٹا گوندھنے اور برتن دھونے تک نہ صرف کھانا تیار ہو جائے گا بلکہ آپ کے کچن کی صفائی بھی ایک ہی بار میں ہو جائے گی اور آپ کے باقی گھر کو سمیٹنے کے وقت میں دوپہر کے کھانے سے بے فکری اور وقت کی بچت بھی ہو جائے گی.. 
کام کرنے کی ترتیب درست ہو اور نیت کام چوری کی نہ ہو تو گھر کا کام کوئی ہوَا نہیں ہوتا.  کہ ختم ہی نہ ہو پائے. 
سو بہنوں جس کا بیٹا آپ کو ساری عمر کی موج مستی فراہم کر رہا ہے اگر اس کی ماں بہن کبھی آپ کے گھر کچھ روز کے لئے آ ہی جائیں تو انہیں حقیر جاننے کی بجائے ان کی عزت اور تواضع آپ کا فرض ہے.  اپنے ہی میکے کو تین سو پینسٹھ دن  بھرنے والیو اگر اللہ توفیق دے تو اپنے سسرال والوں کو بھی عزت دیکر دیکھیں اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا کمی کبھی نہی آ ئے گی.  اکثر اپنے باپ کے گھر میں بیٹھی بوڑھی ہوتی لڑکیاں جب رُل رُل کر وظیفے تسبیحات  کر کر کے شوہر پا ہی لیں تو شوہر ملتے ہی وہ وہ پینترے بدلتی ہیں کہ اللہ ہی معاف کرے.  ایسے میں ان کے دماغ میں ان کی جاہل ماؤں کا بھرا ہوا یہ خناس کہ" میاں کو قابو میں رکھ بس... باقی جائیں بھاڑ میں " یا" اب وہ تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا" ہی ان کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے.  ایسے میں ان کا شوہر کسی مصلحت کی خاطر خاموشی اختیار کر بھی لے تو بھی نہ تو ایسی بیویاں اس کی نظر میں عزت پا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں سکون ہو سکتا ہے.  ہر مرد کی عام طور پر تین ہی خواہشات ہوتی ہیں 
ایک...  اچھا صاف ستھرا گھر کا پکا ہوا لذیذ کھانا, 
دوسرا... صاف ستھرا سلیقے سے سجا گھر, 
اور تیسرا.... صاف ستھری اچھا پہنے اوڑھے  ہوئے اس کی مہذب بیوی 
یہ تین چیزیں نہ صرف اس کی تھکن اتار دیتی ہیں.  بلکہ وہ ایسی بیوی کی اکثر باتی بھی بخوشی مانتا رہتا ہے.  اور اسے ناراض کرنا بھی پسند نہیں کرتا.  ...
جبکہ چار بجے ہانڈی چڑھانے والیاں شوہر کو پاگل بنانے کے لیئے اکثر تعویذ دھاگوں اور بابوں کے حجروں میں ہی لائنوں میں ہی عمریں گزارتی پائی جاتی ہے.  لیکن یہ بھول جاتی ہیں کہ جو محبت اور عزت خدمت اور بُردباری میں ملتی ہے وہ ان غلیظ لوگوں اور بابوں  کے اڈوں پر کبھی نہیں مل سکتی . ان سے بچیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح ڈگر پر لائیے... 
                         ............


منگل، 24 اپریل، 2018

"راہ ادب" پروگرامز کی تاریخیں


فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب " کا قیام کا اعلان  11.4.2018 بروز بدھ فلانات سارسل پیرس میں ٹیم راہ ادب کے ساتھ مل کر مشاورت کیساتھ کیا گیا
. تنظیم کا نام بھی اسی بیٹھک میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا.
اس میں ٹیم کی طور پر بنیادی اراکان جو شامل ہیں .  ان کے نام ہیں
شمیم خان صاحبہ  . روحی بانو صاحبہ.  ممتاز ملک صاحبہ

نمبر شمار. تاریخ. دن. موقع. مقام تقریب
1- 21.4.2018.بدھ. اقبال ڈے دعائیہ تقریب.
رہاشگاہ شمیم خان سارسل فرانس

اتوار، 22 اپریل، 2018

اقبال ڈے پر راہ ادب میں دعائیہ تقریب

   21 اپریل 2018ء
     بروز ہفتہ
یوم اقبال کے موقع پر
خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کے زیر اہتمام محترمہ شمیم خان صاحبہ کی رہائشگاہ پر ایک دعائیہ محفل کا انعقاد کیا گیا.  جس میں ادب سے محبت رکھنے اور آئندہ نسل کو پاکستانی اور اردو تہذیب سے جوڑے رکھنے کی خواہش رکھنے والی بہنوں اور بیٹیوں نے بھرپور شرکت کی.  اس محفل میں  ختم کلام پاک  کی نشست ہوئی.  سورہ یٰسین کا ورد کیا گیا.  اور اس کے بعد ممتاز ملک ,شمیم خان,  غزالہ صاحبہ نے گلہائے عقیدت بحضور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.
اور "راہ ادب" کے اغراض و مقاصد بیان کئیے گئے.  جس سے سبھی بہنوں نے نہ صرف مکمل اتفاق کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ محفل میں شریک ہر خاتون کو جب اپنے اظہار خیال کا موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنی بہترین تجاویز بھی  پیش کیں اور اپنی خدمات بھی پیش کرنے کا بھرپور اظہار کیا.  متفقہ طور پر اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ ہمیں فرانس میں اپنی جوان ہوتی ہوئی نسل کو اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے اس طرح جوڑ کر رکھنے کی ہر وہ بھرپور کوشش کی جائے کہ جس سے وہ ہمارے جیتے جی ہی نہیں بلکہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی فخریہ انداز میں منسلک بھی رہی اور اسےآگے بھی بڑھائیں.  اپنے ادبی اور تہذیبی اثاثے کو اپنی بیٹیوں میں منتقل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے شاید اس کی ضرورت کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا گیا تھا.  اور ہر بار ہر پلیٹ فارم پر بات اکھٹے ہو کر  گپ شپ لگانے اور زبانی جمع خرچ پر ہی ختم کر دی جاتی تھی.  جبکہ "راہ ادب" کی ٹیم اپنی کمیونٹی کی سبھی بہنوں کیساتھ مل کر اس تفریق کے بنا کہ کون کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں یا کون کس تنظیم سے وابستہ ہیں یا کون کس مذہبی جماعت کا حصہ ہیں ؟ سبھی کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان شاءاللہ ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش کریگی جس میں ماں کی لوری سے لیکر باپ کی قربانیوں اور محبتوں, بہنوں کے لاڈ ,بھائیوں کا مان, رشتوں کی مٹھاس اور معافی کا مزا کھیلوں کی روایت دوستوں کے بے غرض ساتھ ,اپنے شاعروں اور لکھاریوں  سے تعارف.... نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائ , غرض کہ ہر تہذیبی اور معاشرتی رنگ کو اپنی بہنوں اور بیٹیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.  کہ آج کی بیٹی ہی اگلی نسل کی ماں بن کر یہ امانت اپنی اولاد تک پہنچا سکے. 
تقریب میں شمیم خان, روحی بانو, ممتاز ملک, شاز ملک ,ناصرہ خان, صومیہ بابری, صائمہ بابری, ریشمین شیخ, تحریم شیخ, سعدیہ, مہتاب, غزالہ اور دیگر بہنوں نے بھی بھرپور شرکت کی.
آخر میں ان الفاظ کیساتھ سبھی شریکان محفل کا شکریہ ادا کیا گیا
محفل میں شریک سبھی پیاری بہنوں اور بیٹیو آپکی آمد کا اور خوبصورت محفل سجانے کا بہت شکریہ ہم ان ادب سے محبت کرنے  والی اپنی سبھی بہنوں بیٹیوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں جنہوں نے آکر ہماری حوصلہ افزائی کی. اور اپنی قیمتی آراء سے نوازہ .
اللہ پاک راہ ادب کے راستے کو کامیابیوں سے بھر دے. آپ کا ساتھ سلامت رہے.  امین🌹🌹🌹🌹
ٹیم "راہ ادب "
(شمیم خان, روحی بانو, ممتازملک)
پروگرام کے اختتام پر ممتاز ملک نے خصوصی دعا کروائی.  پروگرام کے اختتام پر شمیم خان صاحبہ نے  مہمانان گرامی کے لیئے  پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا. 
                       ...........

منگل، 17 اپریل، 2018

عاشقان ساگ

ہمارے ایک کرایہ دار تھے ایسے ہی عاشقان ساگ
سرگودھا سے انکے ہاں بوری بھر کر ساگ آتا تھا اور اس کے ختم ہونے سےپہلے ہی اگلی ساگ کی بوری پہنچ جاتی تھی .
ہمیں تو انہوں نے ساگ کےنام سےہی نفرت کرا دی تھی 😖😖😖
لیکن آج کسی کا سرسوں کا ساگ, مکی کی روٹی اور لسِّی کیساتھ کیک پر لکھا "ساگ مبارک " دیکھ کے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ

لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑا عاشقِ ساگ ہے 😮
   اس کی تو تُنَِی بھی ہرے رنگ کی ہو گی یقیناً 😜😜😜

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/