ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 1 جولائی، 2018

سانس لینا میری ضرورت ہے / کالم


سانس لینا میری ضرورت ہے
ممتاز ملک. پیرس



آئے دن سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں نے جہاں صوتی آلودگی میں کماحقہ اضافہ کیا ہے وہیں اس کے ایندھن سے نکلنے والی فضائی آلودگی نے اس دنیا کے حسن کو برباد کر ڈالا ہے.  انسانی صحت اور ماحول دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں  . گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے.  گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں. اگر فضا سے دنیا کے مختلف شہروں کا جائزہ لیا جائے.  تودنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی  کا میڈل ہمیں بھی ضرور
ملتا ہے. 
ہمارے شہر محض اینٹ پتھروں کے مقبروں کا منظر پیش کرتے ہیں.  جب کے بیچ کسی ہرے بھرے پودے کا نظر آ جانا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے جسم پر بیٹھا کوئی مچھر.  جسے آپ کی آنکھ تلاش کے لے تو آپ کی نظر کا کمال ہے.
اس میں قصور وار اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی عوام ہیں جنہیں سب کچھ حکومت کر کے دے.  بلکہ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے ہر احساس ذمہ داری کے حقوق بحق سرکار ضبط کرا رکھے ہیں اور ان کا کام صرف شور مچانا اور آوازیں بلند سے بلند کرنا ہے. 
کام چور عوام کو اس طرف متوجہ کیا جائے توبہانوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو سنانے کا بہت وقت ہو گا انکے پاس..  ارے بھائی کیا بتاؤں پودے لگانے کے لیئے جگہ نہیں ہے ..پانی نہیں ہے... وقت نہیں ہے ..پیسے نہیں ہیں.. پودے سنبھالنے نہیں آتے... جبکہ پودے نہ لگانا  کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.
نہ صرف لانز میں بلکہ چھتوں پر بالکونیوں میں گھروں کے صحن میں گملوں میں ,تھابڑوں میں, اور بوتلوں میں ,دیواروں پر کہیں بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں.  ہم نے بہت چھوٹے گھروں میں بڑے ہی سلیقے سے لگے پھول اور پودے دیکھے ہی جو نہ صرف اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس گھر کے رہنے والوں کی صحت اور سوچ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں.  اور کچھ نہیں تو جہاں کچھ دھوپ میسر ہے اس کھڑکی کے  پاس ہی گملے میں کچن گارڈننگ کے طور پر دھنیا, پودینہ, ٹماٹر, لیموں, مرچیں اور ایسی ہی سبزیاں بو سکتے ہیں . اگر دو چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جگہ میسر ہے تو اسی میں کوئی پھلدار  درخت کا تین چار فٹ کا تیار درخت لا کر لگا دیجیئے.  یہ درخت تھوڑے ہی عرصے میں آپ کو پھل بھی دیتا رہیگا اور سایہ بھی.
عمران خان نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا  لیکن انہوں نے ایک ارب درخت لگانے کی پھلجھڑی کسی شرارتی مشیر کے کہنے پر چھوڑ دی.  جس سے ایک سنجیدہ کاز بھی مذاق بن گیا.  بات اتنی ہی کرنی چاہیے جو پوری کی جا سکے.  اس میں ہم سب کو بھی حقیقت پسند بننا چاہیئے .
چلیں اربوں نہ سہی لاکھوں درخت تو ضرور خان صاحب نے لگوا ہی لیئے ہونگے. انہوں نے  ایک اچھے کام کی طرف توجہ تو دلائی ہے سب کی .  اس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے.  دل بڑا کریں .  ایکدوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے.
  ویسے بھی درخت لگانا کسی ایک حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے  بلکہ یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی آبیاری بھی کرے.
کیا ہم اپنی اولادوں کو ایک گنجا , پتھریلا اور ریتیلا پاکستان دیکر جائیں گے. 
پاکستانی قوم نے تو عرب کے صحراؤں کو اپنی محنت سے گل و گلزاز بنا دیا.  چاول اور گندم کا مزا چکھا دیا.  کیا ہم اپنے ملک کو عرب صحرا بنتا دیکھتے رہینگے ؟
کسی نے سچ ہی کہا کہ ہم دنیا کے وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اتنا حسین ملک ہرا بھرا کرنے کے بجائے اسے ریگستان بنانے پر تل گئے ہیں.  اللہ پاک ہمیں عقل و ہدایت عطا فرمائے.
دنیا کے وہ تمام خوبصورت اور ہرے بھرے ملک جن کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے . وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی فطرت کے قریب کرنے کا انتظام کرتے ہیں.  انہیں مٹی میں کھیل کر, اس میں گوڈی کر کے بیج بو کر , اس سے محبت کرنا سکھاتے ہیں.  جبکہ ہمارے نودولتیئے اپنے بچوں کو مٹی پر ہاتھ رکھنے سے اس لیئے روکتے ہیں کہ میلے ہو جائیں گے جبکہ غریب مٹی کو غربت کی نشانی سمجھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں مگن رہتے  ہیں. ایسے میں سانس لینا کیسے آسان ہو سکتا ہے.
درخت لگائیے پھول اور پودے لگائیے خدا کے لیئے. اس دن سے پہلے کہ جب ہر آدمی کو سانس لینے کے لیئے اپنا اپنا سلنڈر اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنا پڑے ..
                  ●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/