ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 18 اگست، 2015

دین کا مذاق بند کرو


                
دین کا بند کرو
ممتازملک ۔ پیرس


ویسے توپاکستان میں کوئی بھی معاملہ یا حادثہ ہو جائے اسے کسی دوسرے حادثے سے ری پلییییس کر دیا جاتایے. تاکہ عوام کا غم کم کیا جا سکے . بجلی کو روئیں گے تو گیس کا رونا ڈلوا دیا جایئے گا ، گیس پر تڑپیں گے تو پانی کا مسئلہ پیدا کر دیا  جائے گا . اور ہماری  اسلام کی ٹھیکیدار مسلمان جماعتیں (مسلمان اس لیئے کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان سمجھتے ہی کب ہیں )مہنگائی پر تو میدان میں  آئیں گی لیکن کتنی حیران کن بات ہے میں نے ان نام نہاد دینی جماعتوں کو کبھی کسی زناکار  کے خلاف، قاتل کے خلاف ،تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف ، کاروکاری کے خلاف، وطن فروشووں کیخلاف،بچوں کے بدفعلی کے مجرمان کو پھانسی دلانے کے لیئے کبھی نہ تو کوئی جلسہ  کرتے دیکھا، اور نہ ہی کسی مقام سے ان کی مذمت  کی کوئی خبر سنی  . یہ کیسی داڑھیاں ہیں ان کے چہرے پر جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی کسی سنت کی کوئی جھلک ہی نہیں . کہیں حلیہ بنا کر اپنے آپ کو چھپانے کی مکروہ  صیہونی سازش تو نہیں . ہمارے نبی نے تو بچوں اور خواتین کے جتنے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے اور ان کے  لیئے کئی مقام میں بار بار خداسے ڈرنے کا حکم سنایا ہے اس حساب سے تو ہمارے ملک کو بچوں اور عورتوں کے تحفظ کے لحاظ سے مثالی ملک ہو نا چاہیئے تھا .لیکن یہاں تو سینکڑوں خواتین تیزاب سے جھلسادی جائیں یا بے شمار بچے بدکارہوں کی بھینٹ چڑھ جائیں  . بے غیرتوں  اور بدکاروں  کو.نہ تو سزار دلوانے کا مطالبہ سامنے آیاہے اور تو اور  ان نیم ملااوں نے  اسے برا  کہنے کی بھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی  . کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سارے واقعات میں اور خاص طور پر بچوں سے زیادتی کی واقعات میں یہ ہی سب سے زیادہ منہ پر داڑھی رکھ کر اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرنے والے مجرمان ہی ملوث ہیں . ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ بدکردار اور بدنام ہو جاتا ہے یا بدنامی کے کالے کام کرنے والا ہو تا ہے وہ اسے داڑھی رکھ کر چھپانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ سارا علاقہ اسے صوفی صاحب سمجھ کر اس پر اعتبار کرتا رہے اور یہ اس کی آڑ میں اپنے گناھ گارانہ کام کرتے رہیں . یہ بات سو فیصد لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن  80% لوگ یہ ہی گل کھلا رہے ہیں جس کی وجہ سے 20%نیک لوگ بھی بدنام ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کوہم اپنے ہی دین پر جگ ہنسائی کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں . ہمارے تمام نام نہاد علماء نے کہیں ان بدکاریوں پر بھی دین کے نام کی کلی چڑھانے کا تو نہیں  سوچ رکھا . کیونکہ اگر یہ پنڈورا بکس کھلے گا تو انہیں ملاوں کے نام  ہی سب سے زیادہ ملوث پائے جائیں گے . ہماری قبروں می کسی ملا نے ہمارا جواب نہیں دینا وہاں ہمارے اپنے ہی اعمال یا ہمیں بخشوائیں گے یا مروائیں گے . تو پھر انہیں دین کا ٹھیکیدار بنا کر ہم اپنے بچوں کو ان جیسے بدکارہوں کے آگے چارہ بنا کر کیوں پیش  کر رہے ہیں . ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں مرتد اور بے دین قرار دیکر ہم پر زندگی تنگ نہ کر دیں . لیکن ہمارے لیئے ان کا خوف خدا کے خوف پر بھی غالب آ گیا ہے کیا. . ؟؟؟؟؟لوگوں نے مدرسوں میں بچے بھیجے تو شاید ہی کوئی بچہ اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے تک مکمل ذہنی تندرست ان کے مدرسے یا ادارے سے باہر نکلا ہو . . کوئی جسمانی یا ذہنی عارضہ اس بچے کیساتھ استاد کے تحفے کے طور پر جاتا ہی ہے . . ایسا کیا ہوتا ہے اس بچے کیساتھ کہ جس پر وہ باہر جاکر بدکار اور مجرم ہی بنتا ہے . جب اس صورت حال کو بہت دیر سے ہی سہی والدین نے بھانپ لیا اور گھروں پر بچوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا تو بھی پڑھانے تو مولوی صاحب نے ہی آنا ہوتا تھا تو بدکاریوں کیساتھ یہ ہی بچے قتل بھی ہونے لگے کہ اب تو پکا پکڑے جانے کا امکان موجود ہے لہذا قصہ ہی ختم کر کے ہی جاو .  ان تمام لوگوں پر کیا توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں لگتا.  اگر نہیں لگتاہے  تو لگنا چاہئیے، تاکہ اچھے اور برے لوگوں میں تمیز کی جا سکے اور جب تک کسی کا مکمل کردار سنت رسول کے مطابق نہ ہو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محض نقالی کرنے کو بھی جرم قرار دیا جانا چاہیئے . کم از کم سو گواہ اس آدمی کے سابقہ دس سال کی گواہی دیں کہ یہ آدمی واقعی دین دار باحیا اور نیک و شریف ہے تب اسے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیئے کی نقل کی اجازت ہونی چاہیئے . ہم آلو پیاز خریدتے ہوئے تو گھنٹوں  بازار میں بحث کر لیں گے لیکن نبی کی سنت پر چار باتوں کی پابندی کا زور نہیں دے سکتے ،پھر بھی ہمارا دعوی ہے کہ ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں ہے . اب جب ان آدھے ایمان والے لوگوں کے ہاتھوں پاکستان ریکارڈ برباد ہو ہی چکا تو اب تو آنکھیں کھول ہی لینی چاہیئں . اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہماری مسجد کا کوئی بھی امام ،خطیب  یا مولانا ہماری مقامی گلی محلے یا علاقے کا ہی ہونا چاہیئے اور بال بچوں والا ہونا چاہیئے تاکہ اس کے جرم کر کے بھاگنے کے راستوں کو مسدود کیا جا سکے . یہ ہماری عورتوں اور بچوں دونوں کے تحفظ کے لیئے از حد ضروری ہے دین کا مذاق اب بند ہونا چاہیئے .

پیر، 3 اگست، 2015

ووٹ اور آواز



ووٹ اور آواز
ممتازملک ،پیرس




خواتین کا ووٹ اسی طرح ان کی آواز ہے جیسا کہ کسی بھی مرد کی لیکن یہ کیا کہ جہاں خواتین کو اپنے کسی بھی مقصد کے لیئےاستعمال کرنا ہو وہاں انہیں سڑکوں پر بھی لایا جاتا ہے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تد کیا کلاشنکوف  بھی تھما دی جاتی ہے اور جہاں ہمارے مردانہ استحصالی مزاج کا میٹر گھومتاہے تووہاں خاتون کی آواز بھی کسی نے سنی تو وہ واجب القتل ہو گئ. جہاں کسی نے اس پر نگاھ بھی ڈالی تو وہ کاری کر دی گئ اور کسی نے اس سےبات کر لی پھر تو پکی فاحشہ قرار دے دی گئ. یہ کون بتائے گا کہ خاتون کو کب کس سے کتنے لفظوں میں بات کرنی ہو گی ؟ جب کہیں سیاسی محاذوں پر ضرورت ہوتی ہے انہیں موسموں کی شدت ہو، حالات کی سختی ہو، خوب خوب آزمایا جاتا ہے لیکن جب انہی سیاسی پنڈتوں کا جی چاہتا ہے   تو انہی خواتین پر گھروں سے نکلنے پر بھی فتوی لگ جاتاہے اور ان کا ووٹ دینا بھی کبھی اسلام کے خلاف قرار دے دیا جاتا ہے تو  کبھی کمیونٹی  کے اصولوں کے. خواتین کے ساتھ مذہب اور روایت کے نام پر یہ بلیک میلنگ کہیں ختم ہوتی دکھائ نہیں دیتی.ابھی کے پی کے میں ہونے والے انتخابات نے اس بات کو پھرسے ثابت کردیا ہے کہ جہاں مرد ٹھیکداروں کی مرضی ہو گی یاشاید دوسرے لفظوں میں جن علاقوں میں خواتین مردوں کی من نانی کو مانتے ہوئے اپنے ووٹ کاسٹ کریں گی وہاں تو ان کا ووٹ ڈالنا اسلامی بھی ہے اور روایتی بھی لیکن جہاں اور جن علاقوں می  خواتین پر شبہ ہوا کی یہ اپنا کوئ انتخاب رکھتی ہیں یا مردانہ من مانی کو قبول نہیں کریں گی وہاں ان کا ووٹ بھی غیر اسلامی ہے اور ان کی رائے بھی غیر روایتی  .یہ مذہب اور روایت کے نام پر کب تک خواتین کو فٹبال بنایا جائے گا. پہلے تو ان فرقوں کے دینے والوں کی اپنی مذہبی تعلیمات کا درجہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے.

جمعرات، 23 جولائی، 2015

ہم کیسے لوگ ہیں ؟۔ کالم




ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس


ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ  کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا بظاہر معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلیکچوئیل .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کی غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں . خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپا تلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا، بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف کوئی مخصوص خاتون  ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکی بابوں کا سالوں لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ،زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .
جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں.اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب کے نام پر تھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہںدںخت اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی. جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔




بدھ، 22 جولائی، 2015

امید کا دیا۔ رپورٹ ۔ عظمت نصیب گل کی کتاب رونمائی




امید کا دیا
ممتازملک ۔ پیرس


19 جولائی 2015 بروز  اتوار عید کا تیسرا دن تھا ۔ جب "پیرس ادبی فورم" کی ٹیم نے ایک خوبصورت  عید ملن مشاعرے  کا اہتمام پیرس کے علاقے گوزاں وِل  کے "تاج محل" ریسٹورنٹ میں  کیا گیا . اس مشاعرے  میں خصوصی طور پر ہی مدعو کیئے گئے مہمانوں نے شرکت کی . یوں یہ ایک عوامی پروگرام نہیں تھا بلکہ ایک خصوصی  
پروگرام تھا . پیرس ادبی فورم
کے تقریبا سبھی اراکان کیونکہ بذات خود اچھے شاعر بھی ہیں اور لکھاری بھی ہیں . اس لیئے سبھی نے اپنے اپنے کلام سے محفل میں رنگ بھرے . تقریب کا آغاز وقار بخشی نے تلاوت کلام پاک سے کیا . جبکہ نعت رسول پاک ستارہ ملک صاحبہ نے پیش کی . ایاز  محمود ایاز اور بانی فورم ثمن شاہ صاحبہ نے احسن انداز میں تقریبکی
میزبانی بھی کی اور اپنے خوبصورت اور بہت معیاری  کلام سے بھی نوازہ . جبکہ دیگر شعراء میں عاکف غنی صاحب ،بخشی وقار صاحب ، ممتازملک صاحبہ نے اپنے اپنے کلام پر حاضرین محفل سے داد پائی .


اس تقریب کے دوسرےحصے  کی
خاص بات  پیرس میں ہی مقیم ایک منفرد انداز بیاں رکھنے والے پاکستانی شاعر کی دریافت بھی تھی( جو دو کتابیں تخلیق کر چکے ہیں لیکن ابھی بہت سی نگاہوں سے اوجھل تھے) .  یہ ہیں ہمارے قلم قبیلے کا نیا اضافہ جناب عظمت نصیب گِل صاحب . جن کا نیا پنجابی شعری مجموعہ "سراب یورپ " بھی اس تقریب میں رونمائی کے لیئے پیش کیا گیا .  عظمت نصیب صاحب نے اپنے لکھے اردو اور پنجابی کلام سے چیدہ چیدہ انتخاب پیش کیا جسے حاضرین نے بے حد سراہا.  ان کے کلام میں اپنی مٹی سے جدائی کا درد بھی ہے اور اس مٹی سے جدائی کی وجہ بننے والے عناصر سے دکھ اور ناراضگی کا اظہار بھی ہے . کہیں وہ پردیس میں  تنہا مشقّتوں کے عذاب کو رقم کرتے ہیں .تو کہیں ماں جائیوں سے جدائی  اور پیاروں سے دوری کو اس کے کرب کو بیان کرتے ہیں . ان کی شاعری میں چکی کی مشقت  کا ذکر بھی ہے  اور ایک پیار کرنے والے ذمہ دار انسان کی معصوم  خواہشات دونوں ہی چھلکتی ہیں . بلاشبہ عظمت نصیب صاحب کو ہم شاعری میں ایک خوبصورت اور حساس اضافہ قرار دے سکتے ہیں . اس پروگرام  کی کوریج کے لیئے گجرات لنک سے ناصرہ خان صاحبہ،یاسر الیاس صاحب کیساتھ جبکہ اے آر وائے کی جانب سے جناب خالد بشیر صاحب  اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے . جنہوں نے تمام احباب کو اس محفل کی مبارکباد بھی پیش کی . پروگرام کے آخر میں پرتکلف عشائیے کا بھی انتطام کیا گیا تھا . پیرس کے مقامی گائیک شاہد صاحب نے بھی خوبصرت کلام اپنی آواز میں خوبصورتی سے  پیش کیئے ۔

 پیرس ادبی فورم کی ٹیم  اس پروگرام  کے لیئے بلاشبہ مبارکباد کی مستحق ہے . جس کے ذریعے  انہوں نے نئے شعراء کے لیئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور پیرس کے ادب سے لاتعلق اور ادب ناشناس  ماحول میں  امید کا ایک دیا روشن کیا ہے .جہاں جہالت کی حبس میں  اردو اور پنجابی ادب کی تازہ ہوا کا جھونکا زندگی کا پیغام دے رہا ہے . پیرس کے ان تمام ادب شناس لوگوں کے لیئے ( کہ جنہیں ہمیشہ ہی کسی پلیٹ فارم کے نہ ہونے کی شکایت رہی ہے ) یہ فورم حاضر خدمت ہے . آئیے اور اپنا کام ثابت کیجیئے .  "پیرس ادبی فورم "کا یہ قلم قبیلہ آپ کا منتظرہے .

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 13 جولائی، 2015

جلدی کیجیئے۔ کالم۔ افسانہ



جلدی کیجیئے
ممتازملک ۔ پیرس






آج پھر  دنیا بھر مسلمان انشااللہ شب القدر  کی مبارک رات سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں .
چراغاں کیا جا رہا ،ختم  قرآن کی مبارک محفلیں سجائی جا رہی ہیں ۔

عید کی تیآریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں . 
لیکن ہمارے ہی گھر  کے بغل میں کوئی یتیم بچی اور  اسکا بھائی روز گلی سے گزرنے والے خوش باش ماں باپ کے ساتھ کودتے پھلانگتے بچوں کو ہاتھوں میں شاپر  خریداری کے تھیلے پکڑے آتے جاتے حسرت سے دیکھ رہے ہیں ۔
اور ہر بار اپنے دو کمرے کے کرائے کے گھر میں جا کر اپنی امی سے سوال کرتے ہیں ۔۔
امی ہمارے کپڑے بنا لیئے ہیں عید کے لیئے .
ماں نے ایک قمیض کے دامن پر کڑھائی کرتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھوں میں دنیا جہاں کی بے بسی لیئے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بھرائی آواز سے کہا
 ہاں  ہاں بن جائیں گے ابھی تو بہت دن ہیں ....
چپ کرو جن کے ابو نہیں ہوتے ان کے نئےکپڑے بھی نہیں ہوتے. 
پانچ سال کی نور نے ماں کے ساتھ لگ کر جانے کس لہجے میں کہا کہ
 ماں کے ہاتھ میں سوئی چبھی اور ایک آہ اس کے منہ سے نکل گئی۔۔
دروازے پر بیل سن کر نور نے بھاگ کر دروازہ کھولا 
پڑوس کی رافعہ خالہ نے اسے پیار کیا اور پوچھا امی ہیں گھر پر ۔۔۔
جی اندر ہیں 
اس نے تمیز سے جواب دیا .
اتنے میں دروازہ دھڑ دھڑ بجا 
ایک بھاری اور بدتمیز آواز آئی
آمنہ بھابی  تین ماہ سے کرایہ نہیں دیا دو دن میں پیسے بھجوا دو ورنہ اپنا کہیں اور ٹھکانہ کر لو۔ پرسوں آوں گا کرایہ لینے۔۔
خالہ رابعہ نے آمنہ سے گِلہ کیا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ اتنی تنگی میں ہیں .
آمنہ نے شرمندگی کے مارے سر جھکا دیا 
کیا بتاتی یہ تو ہمارے روز کی مجبوری ہے آپ لوگوں کا ٹھیکہ تھوڑی ہے کوئی . سلائی کے کام سے چولہا ہی بمشکل جلا پاتی ہوں ۔ باقی اخراجات جانے کیسے پورے کروں .
رافعہ کو اس کے حالات سے اتنی آگاہی نہیں تھی
 اس نے اپنا سلا ہوا سوٹ اٹھایا ۔ سلائی کے پیسے دیئے اور خدا حافظ کہہ کر نکل گئی۔
چاند رات کی رونق میں ہر ایک مصروف تھا۔
صبح عید تھی اور اس کے بچوں کے پاس سوائے بہکاوے کے کچھ بھی نہ تھا .
سات سال کا قاسم اداس تھا۔ ماں سے لپٹ کر بولا 
امی آپ اداس نہ ہوں .اب میں کبھی نئے کپڑے نہیں مانگوں گا .مجھے باجی نے بتا دیا ہے۔
 جن کے ابو نہیں ہوتے وہ نئے کپڑے نہیں پہنتے .
آمنہ نے اسے زور سے اپنے سینے سے بھینچ کر لگا لیا .
شدت کرب سے آنکھیں میچ لیں . 
قریب تھی کہ اس کا دل بند ہو جاتا دروازے کی گھنٹی بجی ....
کون۔۔۔
میں رافعہ ہوں آمنہ بھابی 
آمنہ نے دروازہ کھولا تو رافعہ نے مسکراتے ہوئے  ایک بڑا سا شاپر اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور بولی
 چاند رات مبارک ہو بھابی
آپ کو بھی مبارک ہو ۔
یہ کیا ہے ؟
یہ بعد میں کھولیئے گا ۔
پہلے تو یہ بتا دوں کہ آپ کا تین ماہ کا کرایہ مالک مکان کو پہنچ گیا ہے ۔اب آپ پریشان مت ہوئیئے گا ۔
اور ہاں آئیندہ سے جب تک آپ کے بچے اٹھارہ سال کے نہیں ہو جاتے ، ہم گلی والے مل کر آپ کے گھر کا کرایہ اور راشن کا خرچ ادا کیا کریں گے .
کیا؟ 
حیرت سے آمنہ گنگ سی کھڑی رہ گئی.
لیکن 
لیکن ویکن  کچھ نہیں مجھے افسوس ہے کہ ہمیں یہ سب آپ کے شوہر کی وفات کے وقت ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ 
لیکن ہمیں خیال ہی نہیں رہا .اس محلے میں پچیس گھر ہیں اور ہر گھر سالانہ کچھ نہ کچھ زیورات اور فطرانہ کی مد میں ضرور  نکالتا ہے  ۔ اس ساری رقم سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے کسی ایک ضرورت مند خاندان کی مدد کر سکیں .اور یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم اور ہمارا دینی فریضہ ہے . 
پچھلی کوتاہی کے لیئے سارے محلے کی جانب سے معذرت چاہتی ہوں .
یہ کہتے ہوئے رافعہ تو چلی گئی، 
لیکن بچوں نے بے صبری سے وہ بڑا شاپر کھولا تویہ کیا ۔۔چم چم کرتی چوڑیوں کے سیٹ۔ تینوں بچوں اور ماں کے لیئے دو دو ریڈی میڈ سوٹ ، بچیوں کے لیئے بندے ہار .
اور تو اور عید کی صبح کے لیئے شیر خورمہ اور دن کے کھانے کا خشک سامان ....
آمنہ نے تخت پوش پر اپنا سر سجدے میں جھکا دیا .اور
 اس کے دل سے آواز آئی یا اللہ ان تمام لوگوں پر جنہوں نے ان یتمیوں پر شفقت فرمائی تو بھی اپنی شفقت فرمانا ۔
جنہوں نے ہماری مشکل آسان کی ان کی بھی تمام مشکلیں آسان فرمانا .
 سجدہ شکر میں گرم گرم آنسووں نے اس کی گلوں  کو دھو دیا .
اگر سب لوگ یہ سوچ لیں کہ 
ذرا دیکھیئے ہمارے پڑوس میں بھی کوئی ایسا سفید پوش خاندان تو آباد نہیں . جس کے لیئے  در یتیم نبی کائنات صلی الیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی بھوکا سویا اور اس نے پیٹ بھر کر کھایا تو گویا وہ ہم میں سے نہیں .
ذکوات اور فطرانہ دینا فرض ہے  تو کیوں نہ اسے عید سے پہلے بلکہ رمضان کا،چاند دیکھتے ہی ایسے مستحق خاندانوں میں پہنچا دیا جائے۔
 تاکہ وہ بھی عزت سے ان خوشیوں میں شامل ہو سکیں .
جلدی کیجیئے......
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

جمعہ، 10 جولائی، 2015

چاند روشن جمکتا ستارہ رہے





چاند روشن جمکتا ستارہ رہے 
ممتازملک ۔ پیرس





21جون 2015 بروز اتوار ' آج پیرس میں ہونے والے جہازوں کی عالمی نمائش کا آخری دن تھا ۔ ہم سب کافی دنوں سے پرجوش تھے اس میں شرکت کرنے کے لیئے ۔ کام کے دنوں کے باعث ہم اتوار کو ہی جا سکتے تھے .اتنے لمبے دنوں کے روذے رکھے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد یہ نمائش دیکھنے یہاں آتی رہی اور آج بھی موجود تھی .(یاد رہے کہ فرانس میں آج کل روزے کا دورانیہ اٹھارہ گھنٹے ہے .فجر 4 بجے تا مغرب 10 بجے ) یہ وہ قابل فخر ہفتہ تھا جس میں تمام یورپی اورعرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے پہلی بار پاکستان کو دہشت گرد کے علاوہ بھی کچھ اور کہہ کر پکارا اور دکھایا ۔ ہمارے پہلے میڈ ان پاکستان جنگی جہاز " جے ایف تھنڈر 17 "کے ہی چرچے نہیں ہوئے بلکہ اس کے مشاق ہوابازوں کے بہترین اڑان اور ہواؤں سے فضاؤں سے کھیلنے کے فن کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ یہ پورا ہفتہ ہم تمام پاکستانیوں کے سر بھی فخر سے بلند رہے اور آنکھوں میں رب کائینات کے حضور شکر گزاری کی نمی بھی رہی ۔ پیرس میں اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کبھی بھی ٹکٹ خرید کر کسی نمائش میں نہیں گئے ہوں گے جتنے اس نمائش کے لیئے آئے ۔ پہلے دن سے آخری دن تک پاکستانیوں کی آمد نے انتطامیہ کو حیران کیئے رکھا ۔ آخری دن ہی نہیں بلکہ آخری منٹ تک یا یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ" تمبو قناتیں" سمیٹنے تک بڑی تعداد میں عوام خاص طور پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود رہی ۔ نمائش کے مین داخلی گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد نظریں سب سے پہلے پاکستانی سبز ہلالی پرچم کو تلاش کرنے لگیں ۔ ہمیں کہیں بھی پاکستانی پرچم نظر نہیں آیا اس کے لیئے ہم نے دائیں جانب کے تمام ائیر سٹالز چھان مارے پھر بائیں جانب ڈھونڈتے ڈھونتے ہمیں پرچموں کی قطار میں اپنا پاکستانی پرچم بھی لہراتا ہوا دکھائی دے ہی گیا ۔ مت پوچھیں کہ کتنی خوشی ہوئی ۔ اسی پرچم کے آگے تک پہنچتے ہوئے بس خوشی ہی خوشی تھی اور فخر ہی فخر تھا ہمارے چاک و چوبند فضائیہ کے ہر دلعزیز بلکہ یہاں ہیرو جیسی شہرت حاصل کرنے والے پائیلٹس مستعد کھڑے عوام کو بریف کر رہے تھے تو ٹیکنیکل سٹاف بھی بڑے جوش و خروش سے ہر ایک کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا ۔ ہر ایک کے ساتھ تصاویر بنوا رہا تھا ۔ نمائش میں ان کی کامیاب شرکت پر مبارکباد اور شاباشی وصول کر رہا تھا ۔ جو بلا شبہ ان کا حق بھی تھی ۔ پاکستانی ہوابازوں نے یہاں بھی دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھائی ۔ تمام دنیا کے میڈیا نے ان کی کارکردگی کو دنیا کے بہترین پائلٹس کہہ کر تسلیم کیا ۔ یہاں کے میڈیا میں سارا ہفتہ پاکستانی جہاں جے ایف تھنڈر17 کی تعریف و توصیف کی جاتی رہی ۔ خدا کرے کہ پاکستانی حکومتیں اس بات کا احساس کریں کہ بیرون ملک پاکستان اور پاکستانیہ تشخص کے لیئے ایسی نمائشوں میں شرکت کرنا اور اپنی بنائی ہوئی مصنوعات کو ہر حال میں بہترین کے درجے پر رکھنا ، اس کی آبرو میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا مورال بھی بلند کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔ اسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہیئے اور پاکستانی ٹیلنٹ اور مصنوعات کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے پیش کیا جانا چاہیئے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ پاکستان دنیا کے ہر اچھے مقابلے میں اسی طرح اول آتا رہے ۔ یہ پرچم یونہی لہراتا رہے اور اس کا چاند ستارہ ساری دنیا کو اپنی آب و تاب دکھاتا رہے ۔ آمین ۔ 
"‎پاک فضائیہ کے طیارے  جے ایف  تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"
Add caption




"‎پیرس میں 2015 جون کو منعقدہ فضائیہ میلے  کا آفس‎""‎پاک فضائیہ کے طیارے   جے ایف تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"

جمعرات، 9 جولائی، 2015

*** سبز گنبد کے محبوب سائے




سبز گنبد کے محبوب سائے
ممتازملک ۔ پیرس


سبز گنبد کے محبوب سائے
ہمکو آ کر بہت یاد آئے

یہ سمجھ کر بہت دیر روئے

جیسے جنت سے ہم لوٹ آئے

تیرا در ہے دلاسا ہمارا 

دکھ تو ہر اک سے ہم نےہیں پائے 

لاکھ کوئی ٹٹولے گا دل کو 

دل کی بِپتا وہیں جا سنائے 

گر یہ ممکن تھا ہم کر گزرتے 

سر کے بل آپ کہتے کہ آئے 

مجھکو پہلے بھی معلوم نہ تھا 
کون ادب کا قرینہ سکھائے 

 خود سے بھی اب نبھانا ہے مشکل

کوئی دنیا سے کیونکر نبھائے


کتنے سالوں سے میں منتظر ہوں 
اب تو ممتاز کو بھی بلائے

میں نے اختر سے بھی کہہ دیا ہے 
سال یہ تو مِلے بن نہ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


● زندگی اب تو مسکرانے دے ۔ سراب دنیا



زندگی اب تو مسکرانے دے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


جان جانی ہے اسکو جانے دے زندگی اب تو مسکرانے دے  دے نیا زخم پر توقف سے داغ پہلے کا تو مٹانے دے  وہ جو سودوزیاں سے ہیں غافل وقت کی راگنی سنانے دے  جن کو تھا بار و صل کو لمحہ ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے  اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئ بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے  اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے آرزو کا جہاں بسانے دے  وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے   بعد مدت کے ہاتھ آئ ہے آج ممتاز کو ستانے دے




زندگی اب تو مسکرانے دے
کلام:(ممتازملک۔پیرس)

جان جانی ہے اسکو جانے دے
زندگی اب تو مسکرانے دے

دے نیا زخم پر توقف سے
داغ پہلے کا تو مٹانے دے

 وہ جو سودوزیاں سے غافل ہیں
وقت کی راگنی سنانے دے

جن کو تھا بار وصل کا لمحہ
ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے
اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئی
بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے

اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے
آرزو کا جہاں بسانے دے

وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے
حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے 

منزلوں تک نہیں چراغ کوئی
شمع امید تو جلانے دے

بعد مدت کے ہاتھ آئی ہے
آج ممتاز کو ستانے دے
●●●

جمعہ، 3 جولائی، 2015

● (16) حاسدین میٹرو بس متوجہ/کالم۔سچ تو یہ ہے



 (16)حاسدین میٹرو بس متوجہ ہوں
   تحریر:ممتازملک۔پیرس



جب سے راولپنڈی میں میٹرو بس سروس کے منصوبے کا اعلان ہوا ہے سیاسی مخالفین نےاس منصوبے کی مخالفت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے. کسی بھی حکومت کے لیئے تنقید کرنے کا حق ہر دوسری جماعت کے کارکن کو ہوتا ہے لیکن اس تنقید کو برائے تنقید ہر گز نہیں ہونا چاہیئے. سیاسی مخالف ہونے کا بلکل یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم ان کے اچھے کام میں بھی عیب جوئی شروع  کر دیں . میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے .لیکن ایک لکھاری کی حیثیت سے ہمیشہ میرا یہ اصول رہا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت جو بھی اچھا کام کام  اسے سراہا جائے اور جو بھی جماعت ملکی مفاد کے خلاف کام کرے اس پر تنقید کی جائے ۔
مجھے حیرت ہے  پہلے تو راولپنڈی  میں کوئی کام کرتا ہی نہیں اور اگر کوئی  منصوبہ بن بھی جاتا ہے تو ہم لوگ اس میں اتنے عیب نکالتے ہیں کہ اگلا منصوبہ کوئی بنانے کا سوچے بھی نہ .ا گر کسی شہر کے عوام کو سفر کی کوئی بہتر سہولت میسر آ رہی ہے تو ہم سب کو کیا مسئلہ ہے؟ میرا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے آج تک پنڈی میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں ہوا تھا جس پر ہم پنڈی والے بھی کوئی راحت محسوس کرتے آج اگر ستر سال میں پہلی بار کوئی چیز بنی ہے تو خدارا  اسپر یوں حسد کے انگارے مت برسائیں . ہم جیسے راولپنڈی کے باسیوں کو شدید صدمہ ہوتا ہے . ستر سال میں پنڈی میں کوئی قابل ذکر حکومتی تعمیر نہیں ہوئی تو پاکستان بھر میں کسی پاکستانی کے پیٹ میں اس نا انصافی پر مروڑ نہیں اٹھا  لیکن آج کسی نے پنڈی پر بھی رحم کھا کر اسے کوئی سہولت بنا کر دے ہی دی ہے تو حاسدین راولپنڈی کے  دل کے دورے ختم نہیں ہو رہے . خاص طور پر فیس بک پر ہمارے کچھ انتہائی محترم برادران ہر وقت میٹرو میٹرو کا اختلافی راگ الاپتے نہیں تھکتے . ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان مسائل پر بات کریں جو عوام کو سہولت دینے والی نہیں ہیں ناکہ عوامی منصوبوں  کے مکمل ہونے پر تعریف نہیں کر سکے تو توپوں  کا رخ ادھر کر دیا . راولپنڈی کے باسی ہونے کی حیثیت سے میری آپ  سے درخواست ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے لیئے ہے اور ہمیں سہولت فراہم کرتا ہے لہذا اس پر بات کرنا یا اعتراض کرنا بھی اس شہر کے باسیوں کا حق ہے.  آپ لوگ خود کو ہلکان مت کریں۔ کچھ تو سمجھداری سے بات کریں۔ سب جانتے ہیں کہ بجلی ، پانی، ٹرانسپورٹ ہماری ہر روز کی ضرورت ہے. سارے ملک میں یہ سب ہونا چاہیئے لیکن جادو کی چھڑی کس نے گھمائی ہے آج تک. اس ایک سروس پر روزانہ لاکھوں لوگوں کو سفر کی باعزت اور بہترین سروس ملی ہے .اسکے بنانے میں روزگار ملا ہے اس کے چلانے کے لیئے عملے کے طور پر ، اس کی انتظامیہ کے طورپر لوگوں  کو روزگار ملاہے. شہر کی شکل بہتر ہوئی ہے .  جو منصوبہ جس بھی شہر کے لیئے بنتا ہے اس بات کا فیصلہ اس شہر کی عوام کریگی کہ یہ اس کے لیئے ضروری اور بہتر ہے یا نہیں .کیونکہ انہیں کا روز اس سے واسطہ پڑنا ہے . یہ سہولت ہر شہر میں ہونی چاہیئے. بجلی کے مصونوں کو بھی جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیئے. پانی کے منصوبے  بھی جلد مکمل کیئے جائیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ  ٹرانسپورٹ  یا سڑکوں کے بنا ملک چل سکتے ہیں . لہذا اپنے علاقے کے نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہی نہ کریں بلکہ انہیں وقت پر مکمل بھی کریں اور  جو منصوبہ پچھلی حکومت بنا گئی ہے انہیں بھی تحفظ دیں اور انہیں بھی اسی طرح عوامی فلاح کے لیئے استعمال میں لاتے رہیں . کیونکہ ان منصوبوں پر بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی خرچ ہوئی ہے کسی وزیر یا نمائندے کے ابا جی کا مال خرچ نہیں ہوا جسے اس کے جانے کے بعد بند کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا ہے .
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء 
●●●



                                         

ہفتہ، 27 جون، 2015

قومی رنگیلے




قومی رنگیلے 
ممتازملک ۔ پیرس







دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لی جاتے ہیں لیکن پاکستانی  قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں  ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھہ اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا  اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں  کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ......
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ  اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں  اعتراف کیئےیہ اعتراف گناہ 21دسمبر نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات  ہوں یا بنارس کیفے نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے 
کھلے بندوں پیش کیا  اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.آن فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں  ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ  بنیا بغل میں  چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان  کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا.  ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے . اور ہندوستان  کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں  نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو  اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں  کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہیں ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا  ٹھیکہ  ان 15 لآکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لآکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں .   کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ  کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز  میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت  ملک و قوم  کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں . کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا  اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار  کہ راتوں  رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ  ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ 
"یار جانے دو میرا بھائ نہیں " 
کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب  عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارے دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے" جھولے مایاں" کھلاتا ہے . کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں  ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ " جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے " .
                       ....................

جمعرات، 18 جون، 2015

رمضان دسترخوان / ممتازملک ۔ پیرس



رمضان دسترخوان 
ممتازملک ۔ پیرس


زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائ جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئ روز پہلے ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئ رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائ اور سنائ دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد ہے ۔.ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائ نوافل کی محافل کا.اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔

لیکن آیک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا.ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے  اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔

 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 

ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر مین بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیںاور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.

جمعرات، 11 جون، 2015

پاکستان میانمار نہیں ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس





 خبردار!
پاکستان میانمار نہیں
ممتازملک ۔ پیرس



 ہندوستان کے ساتھ چینی ،آلو ،پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کرنے والے سائیں وزیر اعظم پاکستان جاگیئے اور ہندو ٹیریرسٹ کو جواب دیجیئے کہ پاکستان میں ستر سال کے دوران ہونے والے جرائم کو دھڑلے سے قبول کرنے پر اب اسے قرار واقعی سزا کے لیئے بھی تیار ہو نا چاہیئے ۔ کل تک جب یہ ہی باتیں کوئی بھی پاکستانی کرتا تھا تو اسے محض الزام تراشی قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس بات  کو وقت نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اپنے موقف میں کس قدر سچے تھے ۔ لیکن ہندو دہشتگردی کو ہوا دینے والے امریکی اور یورپی کٹھ پتلیاں ہلانے والے اسے خطے کا مزید بڑا بدمعاش بنانے کے لیئے اس کی پیٹھ تھپکتے رہے ۔ افغانستان میں افغانیوں کو اپنے پراکسی وار کے ذریعے ٹٹّو بنانے کا خواب بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہی نہیں ثابت ہوا بلکہ پاک چائینہ راہداری کے منصوبے کے آغاز کی خبر بھی ہندو دہشتگروں پر بجلی بن کر گری ہے ۔ اس لیئے زخم چاٹتا ہوا  کل تک کے صرف ہندوستانی مسلمانون کے قاتل جانے جانے جانے والے ٹُن مردودی صاحب اب پاکستان میں بدترین قتل عام کا اعتراف ہی نہیں کر رہے بلکہ غصّے سے  منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بنگلہ دیش کے پاکستان سے توڑے جانے کی بھی کرتوت مان ہی نہیں رہے بلکہ سینہ پھلائے اس پر کسی تمغے کے بھی منتظر ہیں ۔ اور پاکستانی سیاستدان منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہنے کے موڈ میں ہیں تو اب عوام کو انہیں غیرت کی سوئیاں چُبھو چُبھو کر بیدار کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ انیس سو اڑتالیس میں برما کے مسلمانوں نے پاکستان سے محبت کا جو قصور کیا تھا ۔ کیا ہم ستّر سال بعد بھی بے غیرتی سے اس کا تماشہ ہی دیکھتے رہیں گے تو پھر ان لیڈروں کو بھی اعلانیہ سر منڈا کر ہندو چوٹی رکھ کے دھوتی باندھ کر تلک لگا ہی لینا چاہیئے ۔ کیوں کہ مسلمان ہونے کا فرض وہ ادا نہیں کر پا رہے اور مسلمان ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔امتحان دین میں پورا اترنے کا وقت ہے تو آگے بڑھ کر ہندو ٹیریرسٹ کو منہ توڑ جواب دیجیئے اور  اسے بتا دیجیئے کہ ہماری قوم نہ تو معمولی قوم ہے نہ ہماری افواج معمولی افواج ہیں اور نہ ہی ہمارا دین کسی بذدل کو مسلمان کہلانے کی اجازت دیتا ہے ۔ لوہے کا کلیجہ چاہیئے دین الہی کو اختیار کرنے کے لیئے ۔ تب کوئی مسلمان ہوا کرتا ہے ۔  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور وقتی مفادات کو ایک طرف پھینکتے ہوئے جواب دیجیئے میاں صاحبانِ ، کہ پاکستان کو میانمار سمجھنے کی بڑھک مارنے والو ایسا سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا ، ورنہہ تمہیں تمہاری ہی زمین پر چُن چُن کر بھی ماریں  گے اور گنتی کرنا بھی خوشی سے بھول جائیں گے ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس کے لیئے ہم صرف حکومت پاکستان کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ غیرت مند پاکستانی دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کے  پاس پرنٹ میڈیا ایک طاقتور ہتھیار کی طرح موجود ہے اور ہمیں ہندو اور بدھ ٹیرررسٹ کو بتانا ہے کہ ہم ہر ہتھیار چلانا جانتے ہیں چاہے وہ تلوار کا ہو یا پیار کا ۔ اور انشاءاللہ  بہت جلد ہندوستان کو اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ  کی قیمت بھی ُچکانی پڑے گی اور اس پر پر شدید ترین افسوس بھی کرنا ہی پڑے گا ۔  جاگ پاکستانی جاگ اور بتا دے کہ پاکستان میانمار نہیں ہے ۔ توڑ دینگے ہم ہر وہ ہاتھ جو پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھے گا ۔  چاہے اس کے لیئے ہمیں خود ہی کیوں نہ فنا ہو جانا پڑے ۔ 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 جون، 2015

حسین محفل / ممتازملک .پیرس



حسین محفل  
ممتازملک .پیرس






پیرس کے علاقے اوبر ویلئے کے خوبصورت ہال میں 7 جون 2015 کے روز پیرس کی تاریخ کا ایک بہت خوبصورت  اور یاد گار پروگرام  یہاں کی پیرس ادبی فورم کی جانب سے منعقد کیا گیا . جس میں پی پیرس  کی معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ کے  دوسرے شعری مجموعے "ہمیشہ تم کو چاہیں گے" کی تقریب پذیرائی اور ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا . جس میں کم از کم میرے پیرس میں اٹھارہ سالہ قیام میں سب سے زیادہ اور مستند اور معروف شعراء کا مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا ان سب شخصیات  کی تعریف اور تعارف دونوں ہی چند الفاظ میں کرنا ابھی ممکن نہیں .ان کا تذکرہ ہم بعد میں کریں گے . اس پروگرام کے صدر محفل ناروے سے آئے ہوئے  باکمال شاعر جناب جمشید مسرور صاحب تھے .جنہوں نے بہت خوبصورت الفاظ میں  ثمن شاہ کی کتاب اور شخصیت پر تبصرہ کیا . جرمنی سے ارم بتول  صاحبہ ،حافظ احمد اور توقیر عاطف  صاحب تشریف لائے تو انگلینڈ  کے مختلف شہروں سے مہ جبیں غزل انصاری . راحت زاہد .فرزانہ نیناں صاحبہ   اورنعیم حیدر صاحب جیسی خوبصورت  شخصیات  کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا . ہر شخصیت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے . سبھی نے ثمن شاہ صاحبہ کے کام کو بھرپور انداز میں سراہا اور اپنا اپنا کلام نھی پیش کیا .
میڈیا کی جانب سے وقت اور ، جیو نے اسے کور کیا جبکہ پریس فوٹو گرافرز کی بھی  بڑی تعداد موجود تھی . پروگرام کا آغاز ستارہ ملک صاحبہ کی نعت خوانی سے ہوا . مقامی شعراء میں جناں عاکف غنی ، ایاز محمود اہاز، روحی بانو ،شمیم خان صاحبہ، بخشی وقارہاشمی ،آصف اور مجھ ناچیز ممتاز ملک نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور ثمن شاہ صاحبہ کی کاوش کو سراہا اور ان کے لیئے نیک تمناؤں کا اظہارکیا. پروگرام کے آخر میں بہترین کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا . کھانے کے بعد ہندوستانی گائیک انور حسین کی گائیگی نے خوب رنگ جمایا. جبکہ عاکف غنی ،نعیم حیدر، غزل انصاری، اور ثمن شاہ نے بھی ترنم سے غزلیں گاکر کے محفل میں رنگ بھرا. مجموعی طور پر یہ ایک بہت ہی خوبصورت  محفل تھی جہاں ہر ایک کے مقام و مرتبے کا خیال رکھا گیا . ایک دوسرے سے نیک تمناؤں اور کتب کا تبادلہ ہوا. بہت ہی خوبصورت  اور یادگار تصویری سیشن ہوا .یوں ہنستے مسکراتے یہ پروگرام حسین یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہوئے اختتام پذیر ہوا.  ایسے پروگزامز میں شرکت سے ہم نہ صرف اپنے لسانی ورثے اردو زبان کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں  بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی اپنی زبان سے محبت کا درس دیتے ہیں 
جس درجے کے مہمان بلائے گئے تھے اس کے جساب سے پیرس والوں  کے احساس کی کمی بہت کھلی .  شرکاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے تھی .  لیکن جتنے بھی شرکاء موجود تھی وہ شعر کو سمجھنے اور داد دینے والے تھے. اس خوبصورت پروگرام کے انعقاد کے لیئے پیرس ادبی فورم کی ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے  .امید کرتے ہیں کہ آئیندہ بھی پیرس والوں  کے لیئے ایسے شاندار لکھاریوں کی محفل سجتی رہیگی .اور پیرس  والوں کو اس بات کا  زیادہ سے زیادہ شرکت کا شعور آتا جائے گا اور اگر اپنا ورثہ بچانا ہے تو انہیں یہ سمجھنا ہو گا  کہ ہر جگہ لنگر کھانے کی بجائے کہیں کہیں اپنے پلے سے کھا کر بھی پروگرام کا لطف لیا جانا چاہیئے . کہ اسی میں وقار بھی ہے اور عزت بھی .  ہم ثمن شاہ صاحبہ اور انکی ٹیم  کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ خوبصورت  پروگرام  ممکن ہوا.  ماشااللہ. 
                                                    ------------                     

جمعہ، 5 جون، 2015

اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ



اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ
ممتازملک ۔ پیرس




























ہم نے ہمیشہ سے ایک ہی بات سنی کہ بدھ بھگ شو بڑے بے ضرر لوگ ہوتے ہیں امن پسند ہوتے ہیں .نیک ہوتے ہی ہیں لیکن عملی طور پر جب ان بدھ بھگشووں کو سیکھنے کا موقع ملا تو صدمے سے زبان ہی گنگ ہو گئ. یہ ہے انکی امن پسندی کا عملی ثبوت کہ برما جیسا ملک  اپنے ہی ملک کے باسیوں کو صرف اس لیئے ذبح کیئے جا رہا ہےکہ وہ ان کی طرح چادر لپیٹ کر امن کی گنجی فاختہ بننے کا ڈرامہ نہیں کرتے .ان جیسے  انسانی  ذبح خانے نہیں چلاتے .جھوٹ کا شانتی کا جھوٹا راگ نہیں الاپتے اور نیکی کے دھوکے میں لوگوں کا قتل عام نہیں کرتے . ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں اور اپنے انداز میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں . دنیا بھر میں کتوں کی حفاظت کے لیئے تو تنظیمیں میدان میں ہیں 'بلیوں کے لیئے جائیدادیں وقف ہو رہی ہیں، گدھوں کو بچانے کے منصوبے تو موجود  ہیں ، لیکن اگر کچھ ان ہمدردوں کی دنیا میں ناپید ہے تو وہ ہے یہاں کسی مسلمان کے لیئے آواز اٹھانا یا اس کے لیئے حق کی بات کرنا. نام نہاد مہذب دنیا میں کیا ہی مسلمان اور کیا ہی غیر مسلم سبھی حقیقتا بے ضمیروں کی زندگی  گذار رہے ہیں . ورنہ غیر مسلموں نے تو انڈونیشا اور ملائیشیا میں ہونے والے مقامی جھگڑوں کو بہانہ بنا کر عیسائ ملک بنوا لیا ،لیکن مسلمان جہاں بکروں کی طرح کاٹے جارہے ہیں اس برما میں الگ مسلمان ملک کیا بنتا بلکہ ان مظلوموں کے لیئے کسی کے منہ سے کوئ صدائے احتجاج  تک بلند نہیں ہوئ . کہنے کو دنیا میں ساٹھ اسلامی ممالک آزاد ہیں لیکن عملی طور پر سب کے سب ان کتوں کے حقوق کے لیئے لڑنے والی تنظیموں  کے پیچھے دم ہلانے والے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں.  لعنت ہے ایسی آزادی پر جو آپ سے آپ کا اظہار کا حق چھین لے .سچ بولنے پر زبان تالو سے چپک جائے .یہ ہے اصل جہاد اور یہ ہیں اصل گنجے  دہشتگرد. یہ چیلنج ہے جہاد کے نام پر موت کا کھیل کھیلنے والوں کے لیئے کہ جاو اب اصل جہاد کا وقت ہے. ایسی کتے کی موت مارو ان برمی بدمعاشوں کو کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں .اور دھتکار ہے ان نام نہاد مسلم ممالک پر جنہوں نے اپنے ساحلوں پہ آئے مجبور بھائیوں عورتوں اور بچوں کو پناہ دینے کی بجائے بے غیرت کے ساتھ سمندر میں مرنے کے لیئے دھکیل دیا.کس منہ سے یہ کل خداکے سامنے پیش ہونگے اور اپنے لیئے رحم مانگیں گے کہ جن پر ان کو رحم کرنا تھا تب تو ان سے ہوا نہیں ..سلام ہے ترکی اور اور انکے غیرت مند صدر طیب اردگان پر کہ اس نے بے مثال انداز میں اپنا اسلامی امتحان پاس کیا .اور ان بدمعاشوں کو سبق سکھانے کا اعلان کیا .کہاں ہیں اب پاکستانی  حکمران جنہیں سعودیہ کی دوسرے مسلم ملک میں دخل اندازی پر بہت مروڑ اٹھ رہے تھے . فوج بھیجنے کے لیئے مرے جا رہے تھے لیکن اب جب اصل جہاد کا وقت آیا تو منہ سے احتجاجا بھی کچھ نہ پھوٹ سکے..کس کس حکمران نے قبر میں کتنے سانپ اور بچھو مزید اکھٹے کرنے ہیں اس دولت اور سونے چاندی کے.غیرت کھاو اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دو کہ برما کے مظلوم مسلمانوں کی آہیں قیامت تک تمہارے پیچھا نہیں چھوڑیں گی. تب کس منہ سے آقائے  دو جہاں سے اپنی شفاعت  کی بھیگ مانگو گے؟
                ..................

جمعرات، 4 جون، 2015

اعتراف جرم بزبان ہندوستان


اعتراف جرم بزبان ہندوستان 
ممتازملک ۔ پیرس



گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر دفاع کا یہ بیان پڑھکر ہنسی بھی آئ اور افسوس بھی ہوا . کہ ہم ہندوستانی مفادات کے لیئے دوسرے ملکوں میں بھی گھس کر پراکسی وار کریں گے .دوسرے لفظوں میں اس کو اعتراف جرم سمجھا جانا چاہیئے کہ اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھنے والے کا اتنا غیر زمہ دارانہ بیان کیسے ہو سکتا ہے . لیکن ہو سکتاہے جناب ہندوستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے. جو قوم لنگی پر ٹائ باندھ سکتی ہے وہ اور بھی بڑی شرلیاں چھوڑ سکتی ہے . حیران ہونے کی باری اب کے بار ہندوستان کی تھی جب ہمارے ہیرو جنرل راحیل شریف نے ایک مشترکہ دفاعی اجلاس میں یہ کہہ کر ہندوستان کی بینڈ بجائ کہ ہم نے بھی ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں .ہم اپنے ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کسی بھی ملک کو پاکستان میں پراکسی وار کی اجازت نہیں دینگے . دہشتگردوں کو چن چن کر مارا جائے گا . یہ بیان پڑھ کر کل ہندوستانی انتظامیہ میں کون کون نہیں سویا ہو گا یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن ہاں اتنا اعتبار اپنے ہیرو جنرل شریف پر اور اپنے بہادر افواج پر ضرور ہے کہ
" ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے "
رہی بات ہندوستانی  بڑھکوں کی تو یہ قوم ستر سال میں یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پاکستان ایک ملک ہے جو ایک سچی حقیقت ہے اسے تسلیم کر لینا ہی اس خطے کی ترقی کا راستہ  کھول سکتی ہے ."میں نہ مانوں" کی رٹ سے نہ تو دن  رات ہوتا ہے اور نہ ہی رات دن بنتی ہے. ہاں کہنے والے کی عقل پر شبہ ضرور  ہونے لگتاہے .دعائیں دیں  انگریزوں  کو جو پاکستان  کے سامنے ایک جعلی بدمعاش بنانے کے چکر میں ہندوستان  کو پیسے کا اور شاباشی کا جام پلا پلا کر مست کیئے جا رہے ہیں اور بے چاری ہندوستانی قوم کو چار شہروں کی ترقی کا لولی پاپ دیکر سارے ملک کے حالات سے بے خبری کا ٹیکہ لگاتی رہتی ہے. اس ملک سے کسی عقل کی بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ جس کے پاس ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی ایسا اہل آدمی نہ ہو جسے وہ اپنی وزرات  کی کرسی پر بٹھا سکتی . بے شمار معصوم جانوں کا قاتل دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے کارنامے سرانجام دلانے والا اور دہشت گردوں کا سب سے بڑاپشت پناہ مودی جیسا بدمعاش ( جو کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے اب تک کئ بار پھانسی ہو چکی ہوتی .یعنی جتنے جنم اتنی پھانسیاں )اور نااہل آدمی جس قوم کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہو اس قوم کے لیئے صرف دعا ہی  کی جا سکتی ہے. کہتے ہیں نا کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسا ہی انہیں حکمران عطا کر دیاجاتاہے تو پھر ہم کیا کہیں یہ بات تو سینہ ٹھوک کر ان کے اپنے وزیر دفاع نے کہہ دی کہ دوسرے ملکوں میں گھستے بھی ہیں اور دہشتگردوں کو پالتے بھی ہیں .اس سے ذیادہ ہم کچھ کہیں گے تو شاید بہت سوں کو اچھا نہ لگے .....
                                    ..............

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/