ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 10 جولائی، 2015

چاند روشن جمکتا ستارہ رہے





چاند روشن جمکتا ستارہ رہے 
ممتازملک ۔ پیرس





21جون 2015 بروز اتوار ' آج پیرس میں ہونے والے جہازوں کی عالمی نمائش کا آخری دن تھا ۔ ہم سب کافی دنوں سے پرجوش تھے اس میں شرکت کرنے کے لیئے ۔ کام کے دنوں کے باعث ہم اتوار کو ہی جا سکتے تھے .اتنے لمبے دنوں کے روذے رکھے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد یہ نمائش دیکھنے یہاں آتی رہی اور آج بھی موجود تھی .(یاد رہے کہ فرانس میں آج کل روزے کا دورانیہ اٹھارہ گھنٹے ہے .فجر 4 بجے تا مغرب 10 بجے ) یہ وہ قابل فخر ہفتہ تھا جس میں تمام یورپی اورعرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے پہلی بار پاکستان کو دہشت گرد کے علاوہ بھی کچھ اور کہہ کر پکارا اور دکھایا ۔ ہمارے پہلے میڈ ان پاکستان جنگی جہاز " جے ایف تھنڈر 17 "کے ہی چرچے نہیں ہوئے بلکہ اس کے مشاق ہوابازوں کے بہترین اڑان اور ہواؤں سے فضاؤں سے کھیلنے کے فن کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ یہ پورا ہفتہ ہم تمام پاکستانیوں کے سر بھی فخر سے بلند رہے اور آنکھوں میں رب کائینات کے حضور شکر گزاری کی نمی بھی رہی ۔ پیرس میں اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کبھی بھی ٹکٹ خرید کر کسی نمائش میں نہیں گئے ہوں گے جتنے اس نمائش کے لیئے آئے ۔ پہلے دن سے آخری دن تک پاکستانیوں کی آمد نے انتطامیہ کو حیران کیئے رکھا ۔ آخری دن ہی نہیں بلکہ آخری منٹ تک یا یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ" تمبو قناتیں" سمیٹنے تک بڑی تعداد میں عوام خاص طور پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود رہی ۔ نمائش کے مین داخلی گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد نظریں سب سے پہلے پاکستانی سبز ہلالی پرچم کو تلاش کرنے لگیں ۔ ہمیں کہیں بھی پاکستانی پرچم نظر نہیں آیا اس کے لیئے ہم نے دائیں جانب کے تمام ائیر سٹالز چھان مارے پھر بائیں جانب ڈھونڈتے ڈھونتے ہمیں پرچموں کی قطار میں اپنا پاکستانی پرچم بھی لہراتا ہوا دکھائی دے ہی گیا ۔ مت پوچھیں کہ کتنی خوشی ہوئی ۔ اسی پرچم کے آگے تک پہنچتے ہوئے بس خوشی ہی خوشی تھی اور فخر ہی فخر تھا ہمارے چاک و چوبند فضائیہ کے ہر دلعزیز بلکہ یہاں ہیرو جیسی شہرت حاصل کرنے والے پائیلٹس مستعد کھڑے عوام کو بریف کر رہے تھے تو ٹیکنیکل سٹاف بھی بڑے جوش و خروش سے ہر ایک کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا ۔ ہر ایک کے ساتھ تصاویر بنوا رہا تھا ۔ نمائش میں ان کی کامیاب شرکت پر مبارکباد اور شاباشی وصول کر رہا تھا ۔ جو بلا شبہ ان کا حق بھی تھی ۔ پاکستانی ہوابازوں نے یہاں بھی دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھائی ۔ تمام دنیا کے میڈیا نے ان کی کارکردگی کو دنیا کے بہترین پائلٹس کہہ کر تسلیم کیا ۔ یہاں کے میڈیا میں سارا ہفتہ پاکستانی جہاں جے ایف تھنڈر17 کی تعریف و توصیف کی جاتی رہی ۔ خدا کرے کہ پاکستانی حکومتیں اس بات کا احساس کریں کہ بیرون ملک پاکستان اور پاکستانیہ تشخص کے لیئے ایسی نمائشوں میں شرکت کرنا اور اپنی بنائی ہوئی مصنوعات کو ہر حال میں بہترین کے درجے پر رکھنا ، اس کی آبرو میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا مورال بھی بلند کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔ اسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہیئے اور پاکستانی ٹیلنٹ اور مصنوعات کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے پیش کیا جانا چاہیئے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ پاکستان دنیا کے ہر اچھے مقابلے میں اسی طرح اول آتا رہے ۔ یہ پرچم یونہی لہراتا رہے اور اس کا چاند ستارہ ساری دنیا کو اپنی آب و تاب دکھاتا رہے ۔ آمین ۔ 
"‎پاک فضائیہ کے طیارے  جے ایف  تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"
Add caption




"‎پیرس میں 2015 جون کو منعقدہ فضائیہ میلے  کا آفس‎""‎پاک فضائیہ کے طیارے   جے ایف تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"

جمعرات، 9 جولائی، 2015

*** سبز گنبد کے محبوب سائے




سبز گنبد کے محبوب سائے
ممتازملک ۔ پیرس


سبز گنبد کے محبوب سائے
ہمکو آ کر بہت یاد آئے

یہ سمجھ کر بہت دیر روئے

جیسے جنت سے ہم لوٹ آئے

تیرا در ہے دلاسا ہمارا 

دکھ تو ہر اک سے ہم نےہیں پائے 

لاکھ کوئی ٹٹولے گا دل کو 

دل کی بِپتا وہیں جا سنائے 

گر یہ ممکن تھا ہم کر گزرتے 

سر کے بل آپ کہتے کہ آئے 

مجھکو پہلے بھی معلوم نہ تھا 
کون ادب کا قرینہ سکھائے 

 خود سے بھی اب نبھانا ہے مشکل

کوئی دنیا سے کیونکر نبھائے


کتنے سالوں سے میں منتظر ہوں 
اب تو ممتاز کو بھی بلائے

میں نے اختر سے بھی کہہ دیا ہے 
سال یہ تو مِلے بن نہ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


● زندگی اب تو مسکرانے دے ۔ سراب دنیا



زندگی اب تو مسکرانے دے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


جان جانی ہے اسکو جانے دے زندگی اب تو مسکرانے دے  دے نیا زخم پر توقف سے داغ پہلے کا تو مٹانے دے  وہ جو سودوزیاں سے ہیں غافل وقت کی راگنی سنانے دے  جن کو تھا بار و صل کو لمحہ ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے  اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئ بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے  اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے آرزو کا جہاں بسانے دے  وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے   بعد مدت کے ہاتھ آئ ہے آج ممتاز کو ستانے دے




زندگی اب تو مسکرانے دے
کلام:(ممتازملک۔پیرس)

جان جانی ہے اسکو جانے دے
زندگی اب تو مسکرانے دے

دے نیا زخم پر توقف سے
داغ پہلے کا تو مٹانے دے

 وہ جو سودوزیاں سے غافل ہیں
وقت کی راگنی سنانے دے

جن کو تھا بار وصل کا لمحہ
ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے
اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئی
بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے

اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے
آرزو کا جہاں بسانے دے

وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے
حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے 

منزلوں تک نہیں چراغ کوئی
شمع امید تو جلانے دے

بعد مدت کے ہاتھ آئی ہے
آج ممتاز کو ستانے دے
●●●

جمعہ، 3 جولائی، 2015

● (16) حاسدین میٹرو بس متوجہ/کالم۔سچ تو یہ ہے



 (16)حاسدین میٹرو بس متوجہ ہوں
   تحریر:ممتازملک۔پیرس



جب سے راولپنڈی میں میٹرو بس سروس کے منصوبے کا اعلان ہوا ہے سیاسی مخالفین نےاس منصوبے کی مخالفت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے. کسی بھی حکومت کے لیئے تنقید کرنے کا حق ہر دوسری جماعت کے کارکن کو ہوتا ہے لیکن اس تنقید کو برائے تنقید ہر گز نہیں ہونا چاہیئے. سیاسی مخالف ہونے کا بلکل یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم ان کے اچھے کام میں بھی عیب جوئی شروع  کر دیں . میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے .لیکن ایک لکھاری کی حیثیت سے ہمیشہ میرا یہ اصول رہا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت جو بھی اچھا کام کام  اسے سراہا جائے اور جو بھی جماعت ملکی مفاد کے خلاف کام کرے اس پر تنقید کی جائے ۔
مجھے حیرت ہے  پہلے تو راولپنڈی  میں کوئی کام کرتا ہی نہیں اور اگر کوئی  منصوبہ بن بھی جاتا ہے تو ہم لوگ اس میں اتنے عیب نکالتے ہیں کہ اگلا منصوبہ کوئی بنانے کا سوچے بھی نہ .ا گر کسی شہر کے عوام کو سفر کی کوئی بہتر سہولت میسر آ رہی ہے تو ہم سب کو کیا مسئلہ ہے؟ میرا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے آج تک پنڈی میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں ہوا تھا جس پر ہم پنڈی والے بھی کوئی راحت محسوس کرتے آج اگر ستر سال میں پہلی بار کوئی چیز بنی ہے تو خدارا  اسپر یوں حسد کے انگارے مت برسائیں . ہم جیسے راولپنڈی کے باسیوں کو شدید صدمہ ہوتا ہے . ستر سال میں پنڈی میں کوئی قابل ذکر حکومتی تعمیر نہیں ہوئی تو پاکستان بھر میں کسی پاکستانی کے پیٹ میں اس نا انصافی پر مروڑ نہیں اٹھا  لیکن آج کسی نے پنڈی پر بھی رحم کھا کر اسے کوئی سہولت بنا کر دے ہی دی ہے تو حاسدین راولپنڈی کے  دل کے دورے ختم نہیں ہو رہے . خاص طور پر فیس بک پر ہمارے کچھ انتہائی محترم برادران ہر وقت میٹرو میٹرو کا اختلافی راگ الاپتے نہیں تھکتے . ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان مسائل پر بات کریں جو عوام کو سہولت دینے والی نہیں ہیں ناکہ عوامی منصوبوں  کے مکمل ہونے پر تعریف نہیں کر سکے تو توپوں  کا رخ ادھر کر دیا . راولپنڈی کے باسی ہونے کی حیثیت سے میری آپ  سے درخواست ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے لیئے ہے اور ہمیں سہولت فراہم کرتا ہے لہذا اس پر بات کرنا یا اعتراض کرنا بھی اس شہر کے باسیوں کا حق ہے.  آپ لوگ خود کو ہلکان مت کریں۔ کچھ تو سمجھداری سے بات کریں۔ سب جانتے ہیں کہ بجلی ، پانی، ٹرانسپورٹ ہماری ہر روز کی ضرورت ہے. سارے ملک میں یہ سب ہونا چاہیئے لیکن جادو کی چھڑی کس نے گھمائی ہے آج تک. اس ایک سروس پر روزانہ لاکھوں لوگوں کو سفر کی باعزت اور بہترین سروس ملی ہے .اسکے بنانے میں روزگار ملا ہے اس کے چلانے کے لیئے عملے کے طور پر ، اس کی انتظامیہ کے طورپر لوگوں  کو روزگار ملاہے. شہر کی شکل بہتر ہوئی ہے .  جو منصوبہ جس بھی شہر کے لیئے بنتا ہے اس بات کا فیصلہ اس شہر کی عوام کریگی کہ یہ اس کے لیئے ضروری اور بہتر ہے یا نہیں .کیونکہ انہیں کا روز اس سے واسطہ پڑنا ہے . یہ سہولت ہر شہر میں ہونی چاہیئے. بجلی کے مصونوں کو بھی جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیئے. پانی کے منصوبے  بھی جلد مکمل کیئے جائیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ  ٹرانسپورٹ  یا سڑکوں کے بنا ملک چل سکتے ہیں . لہذا اپنے علاقے کے نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہی نہ کریں بلکہ انہیں وقت پر مکمل بھی کریں اور  جو منصوبہ پچھلی حکومت بنا گئی ہے انہیں بھی تحفظ دیں اور انہیں بھی اسی طرح عوامی فلاح کے لیئے استعمال میں لاتے رہیں . کیونکہ ان منصوبوں پر بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی خرچ ہوئی ہے کسی وزیر یا نمائندے کے ابا جی کا مال خرچ نہیں ہوا جسے اس کے جانے کے بعد بند کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا ہے .
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء 
●●●



                                         

ہفتہ، 27 جون، 2015

قومی رنگیلے




قومی رنگیلے 
ممتازملک ۔ پیرس







دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لی جاتے ہیں لیکن پاکستانی  قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں  ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھہ اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا  اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں  کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ......
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ  اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں  اعتراف کیئےیہ اعتراف گناہ 21دسمبر نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات  ہوں یا بنارس کیفے نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے 
کھلے بندوں پیش کیا  اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.آن فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں  ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ  بنیا بغل میں  چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان  کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا.  ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے . اور ہندوستان  کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں  نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو  اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں  کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہیں ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا  ٹھیکہ  ان 15 لآکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لآکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں .   کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ  کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز  میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت  ملک و قوم  کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں . کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا  اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار  کہ راتوں  رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ  ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ 
"یار جانے دو میرا بھائ نہیں " 
کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب  عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارے دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے" جھولے مایاں" کھلاتا ہے . کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں  ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ " جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے " .
                       ....................

جمعرات، 18 جون، 2015

رمضان دسترخوان / ممتازملک ۔ پیرس



رمضان دسترخوان 
ممتازملک ۔ پیرس


زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائ جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئ روز پہلے ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئ رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائ اور سنائ دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد ہے ۔.ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائ نوافل کی محافل کا.اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔

لیکن آیک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا.ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے  اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔

 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 

ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر مین بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیںاور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.

جمعرات، 11 جون، 2015

پاکستان میانمار نہیں ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس





 خبردار!
پاکستان میانمار نہیں
ممتازملک ۔ پیرس



 ہندوستان کے ساتھ چینی ،آلو ،پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کرنے والے سائیں وزیر اعظم پاکستان جاگیئے اور ہندو ٹیریرسٹ کو جواب دیجیئے کہ پاکستان میں ستر سال کے دوران ہونے والے جرائم کو دھڑلے سے قبول کرنے پر اب اسے قرار واقعی سزا کے لیئے بھی تیار ہو نا چاہیئے ۔ کل تک جب یہ ہی باتیں کوئی بھی پاکستانی کرتا تھا تو اسے محض الزام تراشی قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس بات  کو وقت نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اپنے موقف میں کس قدر سچے تھے ۔ لیکن ہندو دہشتگردی کو ہوا دینے والے امریکی اور یورپی کٹھ پتلیاں ہلانے والے اسے خطے کا مزید بڑا بدمعاش بنانے کے لیئے اس کی پیٹھ تھپکتے رہے ۔ افغانستان میں افغانیوں کو اپنے پراکسی وار کے ذریعے ٹٹّو بنانے کا خواب بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہی نہیں ثابت ہوا بلکہ پاک چائینہ راہداری کے منصوبے کے آغاز کی خبر بھی ہندو دہشتگروں پر بجلی بن کر گری ہے ۔ اس لیئے زخم چاٹتا ہوا  کل تک کے صرف ہندوستانی مسلمانون کے قاتل جانے جانے جانے والے ٹُن مردودی صاحب اب پاکستان میں بدترین قتل عام کا اعتراف ہی نہیں کر رہے بلکہ غصّے سے  منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بنگلہ دیش کے پاکستان سے توڑے جانے کی بھی کرتوت مان ہی نہیں رہے بلکہ سینہ پھلائے اس پر کسی تمغے کے بھی منتظر ہیں ۔ اور پاکستانی سیاستدان منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہنے کے موڈ میں ہیں تو اب عوام کو انہیں غیرت کی سوئیاں چُبھو چُبھو کر بیدار کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ انیس سو اڑتالیس میں برما کے مسلمانوں نے پاکستان سے محبت کا جو قصور کیا تھا ۔ کیا ہم ستّر سال بعد بھی بے غیرتی سے اس کا تماشہ ہی دیکھتے رہیں گے تو پھر ان لیڈروں کو بھی اعلانیہ سر منڈا کر ہندو چوٹی رکھ کے دھوتی باندھ کر تلک لگا ہی لینا چاہیئے ۔ کیوں کہ مسلمان ہونے کا فرض وہ ادا نہیں کر پا رہے اور مسلمان ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔امتحان دین میں پورا اترنے کا وقت ہے تو آگے بڑھ کر ہندو ٹیریرسٹ کو منہ توڑ جواب دیجیئے اور  اسے بتا دیجیئے کہ ہماری قوم نہ تو معمولی قوم ہے نہ ہماری افواج معمولی افواج ہیں اور نہ ہی ہمارا دین کسی بذدل کو مسلمان کہلانے کی اجازت دیتا ہے ۔ لوہے کا کلیجہ چاہیئے دین الہی کو اختیار کرنے کے لیئے ۔ تب کوئی مسلمان ہوا کرتا ہے ۔  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور وقتی مفادات کو ایک طرف پھینکتے ہوئے جواب دیجیئے میاں صاحبانِ ، کہ پاکستان کو میانمار سمجھنے کی بڑھک مارنے والو ایسا سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا ، ورنہہ تمہیں تمہاری ہی زمین پر چُن چُن کر بھی ماریں  گے اور گنتی کرنا بھی خوشی سے بھول جائیں گے ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس کے لیئے ہم صرف حکومت پاکستان کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ غیرت مند پاکستانی دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کے  پاس پرنٹ میڈیا ایک طاقتور ہتھیار کی طرح موجود ہے اور ہمیں ہندو اور بدھ ٹیرررسٹ کو بتانا ہے کہ ہم ہر ہتھیار چلانا جانتے ہیں چاہے وہ تلوار کا ہو یا پیار کا ۔ اور انشاءاللہ  بہت جلد ہندوستان کو اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ  کی قیمت بھی ُچکانی پڑے گی اور اس پر پر شدید ترین افسوس بھی کرنا ہی پڑے گا ۔  جاگ پاکستانی جاگ اور بتا دے کہ پاکستان میانمار نہیں ہے ۔ توڑ دینگے ہم ہر وہ ہاتھ جو پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھے گا ۔  چاہے اس کے لیئے ہمیں خود ہی کیوں نہ فنا ہو جانا پڑے ۔ 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 جون، 2015

حسین محفل / ممتازملک .پیرس



حسین محفل  
ممتازملک .پیرس






پیرس کے علاقے اوبر ویلئے کے خوبصورت ہال میں 7 جون 2015 کے روز پیرس کی تاریخ کا ایک بہت خوبصورت  اور یاد گار پروگرام  یہاں کی پیرس ادبی فورم کی جانب سے منعقد کیا گیا . جس میں پی پیرس  کی معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ کے  دوسرے شعری مجموعے "ہمیشہ تم کو چاہیں گے" کی تقریب پذیرائی اور ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا . جس میں کم از کم میرے پیرس میں اٹھارہ سالہ قیام میں سب سے زیادہ اور مستند اور معروف شعراء کا مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا ان سب شخصیات  کی تعریف اور تعارف دونوں ہی چند الفاظ میں کرنا ابھی ممکن نہیں .ان کا تذکرہ ہم بعد میں کریں گے . اس پروگرام کے صدر محفل ناروے سے آئے ہوئے  باکمال شاعر جناب جمشید مسرور صاحب تھے .جنہوں نے بہت خوبصورت الفاظ میں  ثمن شاہ کی کتاب اور شخصیت پر تبصرہ کیا . جرمنی سے ارم بتول  صاحبہ ،حافظ احمد اور توقیر عاطف  صاحب تشریف لائے تو انگلینڈ  کے مختلف شہروں سے مہ جبیں غزل انصاری . راحت زاہد .فرزانہ نیناں صاحبہ   اورنعیم حیدر صاحب جیسی خوبصورت  شخصیات  کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا . ہر شخصیت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے . سبھی نے ثمن شاہ صاحبہ کے کام کو بھرپور انداز میں سراہا اور اپنا اپنا کلام نھی پیش کیا .
میڈیا کی جانب سے وقت اور ، جیو نے اسے کور کیا جبکہ پریس فوٹو گرافرز کی بھی  بڑی تعداد موجود تھی . پروگرام کا آغاز ستارہ ملک صاحبہ کی نعت خوانی سے ہوا . مقامی شعراء میں جناں عاکف غنی ، ایاز محمود اہاز، روحی بانو ،شمیم خان صاحبہ، بخشی وقارہاشمی ،آصف اور مجھ ناچیز ممتاز ملک نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور ثمن شاہ صاحبہ کی کاوش کو سراہا اور ان کے لیئے نیک تمناؤں کا اظہارکیا. پروگرام کے آخر میں بہترین کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا . کھانے کے بعد ہندوستانی گائیک انور حسین کی گائیگی نے خوب رنگ جمایا. جبکہ عاکف غنی ،نعیم حیدر، غزل انصاری، اور ثمن شاہ نے بھی ترنم سے غزلیں گاکر کے محفل میں رنگ بھرا. مجموعی طور پر یہ ایک بہت ہی خوبصورت  محفل تھی جہاں ہر ایک کے مقام و مرتبے کا خیال رکھا گیا . ایک دوسرے سے نیک تمناؤں اور کتب کا تبادلہ ہوا. بہت ہی خوبصورت  اور یادگار تصویری سیشن ہوا .یوں ہنستے مسکراتے یہ پروگرام حسین یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہوئے اختتام پذیر ہوا.  ایسے پروگزامز میں شرکت سے ہم نہ صرف اپنے لسانی ورثے اردو زبان کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں  بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی اپنی زبان سے محبت کا درس دیتے ہیں 
جس درجے کے مہمان بلائے گئے تھے اس کے جساب سے پیرس والوں  کے احساس کی کمی بہت کھلی .  شرکاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے تھی .  لیکن جتنے بھی شرکاء موجود تھی وہ شعر کو سمجھنے اور داد دینے والے تھے. اس خوبصورت پروگرام کے انعقاد کے لیئے پیرس ادبی فورم کی ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے  .امید کرتے ہیں کہ آئیندہ بھی پیرس والوں  کے لیئے ایسے شاندار لکھاریوں کی محفل سجتی رہیگی .اور پیرس  والوں کو اس بات کا  زیادہ سے زیادہ شرکت کا شعور آتا جائے گا اور اگر اپنا ورثہ بچانا ہے تو انہیں یہ سمجھنا ہو گا  کہ ہر جگہ لنگر کھانے کی بجائے کہیں کہیں اپنے پلے سے کھا کر بھی پروگرام کا لطف لیا جانا چاہیئے . کہ اسی میں وقار بھی ہے اور عزت بھی .  ہم ثمن شاہ صاحبہ اور انکی ٹیم  کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ خوبصورت  پروگرام  ممکن ہوا.  ماشااللہ. 
                                                    ------------                     

جمعہ، 5 جون، 2015

اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ



اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ
ممتازملک ۔ پیرس




























ہم نے ہمیشہ سے ایک ہی بات سنی کہ بدھ بھگ شو بڑے بے ضرر لوگ ہوتے ہیں امن پسند ہوتے ہیں .نیک ہوتے ہی ہیں لیکن عملی طور پر جب ان بدھ بھگشووں کو سیکھنے کا موقع ملا تو صدمے سے زبان ہی گنگ ہو گئ. یہ ہے انکی امن پسندی کا عملی ثبوت کہ برما جیسا ملک  اپنے ہی ملک کے باسیوں کو صرف اس لیئے ذبح کیئے جا رہا ہےکہ وہ ان کی طرح چادر لپیٹ کر امن کی گنجی فاختہ بننے کا ڈرامہ نہیں کرتے .ان جیسے  انسانی  ذبح خانے نہیں چلاتے .جھوٹ کا شانتی کا جھوٹا راگ نہیں الاپتے اور نیکی کے دھوکے میں لوگوں کا قتل عام نہیں کرتے . ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں اور اپنے انداز میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں . دنیا بھر میں کتوں کی حفاظت کے لیئے تو تنظیمیں میدان میں ہیں 'بلیوں کے لیئے جائیدادیں وقف ہو رہی ہیں، گدھوں کو بچانے کے منصوبے تو موجود  ہیں ، لیکن اگر کچھ ان ہمدردوں کی دنیا میں ناپید ہے تو وہ ہے یہاں کسی مسلمان کے لیئے آواز اٹھانا یا اس کے لیئے حق کی بات کرنا. نام نہاد مہذب دنیا میں کیا ہی مسلمان اور کیا ہی غیر مسلم سبھی حقیقتا بے ضمیروں کی زندگی  گذار رہے ہیں . ورنہ غیر مسلموں نے تو انڈونیشا اور ملائیشیا میں ہونے والے مقامی جھگڑوں کو بہانہ بنا کر عیسائ ملک بنوا لیا ،لیکن مسلمان جہاں بکروں کی طرح کاٹے جارہے ہیں اس برما میں الگ مسلمان ملک کیا بنتا بلکہ ان مظلوموں کے لیئے کسی کے منہ سے کوئ صدائے احتجاج  تک بلند نہیں ہوئ . کہنے کو دنیا میں ساٹھ اسلامی ممالک آزاد ہیں لیکن عملی طور پر سب کے سب ان کتوں کے حقوق کے لیئے لڑنے والی تنظیموں  کے پیچھے دم ہلانے والے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں.  لعنت ہے ایسی آزادی پر جو آپ سے آپ کا اظہار کا حق چھین لے .سچ بولنے پر زبان تالو سے چپک جائے .یہ ہے اصل جہاد اور یہ ہیں اصل گنجے  دہشتگرد. یہ چیلنج ہے جہاد کے نام پر موت کا کھیل کھیلنے والوں کے لیئے کہ جاو اب اصل جہاد کا وقت ہے. ایسی کتے کی موت مارو ان برمی بدمعاشوں کو کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں .اور دھتکار ہے ان نام نہاد مسلم ممالک پر جنہوں نے اپنے ساحلوں پہ آئے مجبور بھائیوں عورتوں اور بچوں کو پناہ دینے کی بجائے بے غیرت کے ساتھ سمندر میں مرنے کے لیئے دھکیل دیا.کس منہ سے یہ کل خداکے سامنے پیش ہونگے اور اپنے لیئے رحم مانگیں گے کہ جن پر ان کو رحم کرنا تھا تب تو ان سے ہوا نہیں ..سلام ہے ترکی اور اور انکے غیرت مند صدر طیب اردگان پر کہ اس نے بے مثال انداز میں اپنا اسلامی امتحان پاس کیا .اور ان بدمعاشوں کو سبق سکھانے کا اعلان کیا .کہاں ہیں اب پاکستانی  حکمران جنہیں سعودیہ کی دوسرے مسلم ملک میں دخل اندازی پر بہت مروڑ اٹھ رہے تھے . فوج بھیجنے کے لیئے مرے جا رہے تھے لیکن اب جب اصل جہاد کا وقت آیا تو منہ سے احتجاجا بھی کچھ نہ پھوٹ سکے..کس کس حکمران نے قبر میں کتنے سانپ اور بچھو مزید اکھٹے کرنے ہیں اس دولت اور سونے چاندی کے.غیرت کھاو اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دو کہ برما کے مظلوم مسلمانوں کی آہیں قیامت تک تمہارے پیچھا نہیں چھوڑیں گی. تب کس منہ سے آقائے  دو جہاں سے اپنی شفاعت  کی بھیگ مانگو گے؟
                ..................

جمعرات، 4 جون، 2015

اعتراف جرم بزبان ہندوستان


اعتراف جرم بزبان ہندوستان 
ممتازملک ۔ پیرس



گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر دفاع کا یہ بیان پڑھکر ہنسی بھی آئ اور افسوس بھی ہوا . کہ ہم ہندوستانی مفادات کے لیئے دوسرے ملکوں میں بھی گھس کر پراکسی وار کریں گے .دوسرے لفظوں میں اس کو اعتراف جرم سمجھا جانا چاہیئے کہ اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھنے والے کا اتنا غیر زمہ دارانہ بیان کیسے ہو سکتا ہے . لیکن ہو سکتاہے جناب ہندوستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے. جو قوم لنگی پر ٹائ باندھ سکتی ہے وہ اور بھی بڑی شرلیاں چھوڑ سکتی ہے . حیران ہونے کی باری اب کے بار ہندوستان کی تھی جب ہمارے ہیرو جنرل راحیل شریف نے ایک مشترکہ دفاعی اجلاس میں یہ کہہ کر ہندوستان کی بینڈ بجائ کہ ہم نے بھی ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں .ہم اپنے ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کسی بھی ملک کو پاکستان میں پراکسی وار کی اجازت نہیں دینگے . دہشتگردوں کو چن چن کر مارا جائے گا . یہ بیان پڑھ کر کل ہندوستانی انتظامیہ میں کون کون نہیں سویا ہو گا یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن ہاں اتنا اعتبار اپنے ہیرو جنرل شریف پر اور اپنے بہادر افواج پر ضرور ہے کہ
" ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے "
رہی بات ہندوستانی  بڑھکوں کی تو یہ قوم ستر سال میں یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پاکستان ایک ملک ہے جو ایک سچی حقیقت ہے اسے تسلیم کر لینا ہی اس خطے کی ترقی کا راستہ  کھول سکتی ہے ."میں نہ مانوں" کی رٹ سے نہ تو دن  رات ہوتا ہے اور نہ ہی رات دن بنتی ہے. ہاں کہنے والے کی عقل پر شبہ ضرور  ہونے لگتاہے .دعائیں دیں  انگریزوں  کو جو پاکستان  کے سامنے ایک جعلی بدمعاش بنانے کے چکر میں ہندوستان  کو پیسے کا اور شاباشی کا جام پلا پلا کر مست کیئے جا رہے ہیں اور بے چاری ہندوستانی قوم کو چار شہروں کی ترقی کا لولی پاپ دیکر سارے ملک کے حالات سے بے خبری کا ٹیکہ لگاتی رہتی ہے. اس ملک سے کسی عقل کی بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ جس کے پاس ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی ایسا اہل آدمی نہ ہو جسے وہ اپنی وزرات  کی کرسی پر بٹھا سکتی . بے شمار معصوم جانوں کا قاتل دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے کارنامے سرانجام دلانے والا اور دہشت گردوں کا سب سے بڑاپشت پناہ مودی جیسا بدمعاش ( جو کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے اب تک کئ بار پھانسی ہو چکی ہوتی .یعنی جتنے جنم اتنی پھانسیاں )اور نااہل آدمی جس قوم کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہو اس قوم کے لیئے صرف دعا ہی  کی جا سکتی ہے. کہتے ہیں نا کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسا ہی انہیں حکمران عطا کر دیاجاتاہے تو پھر ہم کیا کہیں یہ بات تو سینہ ٹھوک کر ان کے اپنے وزیر دفاع نے کہہ دی کہ دوسرے ملکوں میں گھستے بھی ہیں اور دہشتگردوں کو پالتے بھی ہیں .اس سے ذیادہ ہم کچھ کہیں گے تو شاید بہت سوں کو اچھا نہ لگے .....
                                    ..............

ہفتہ، 30 مئی، 2015

● (4) زندہ قبریں/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے



(خاص تحریر ماؤوں کے دن کے حوالے سے)
گھریلو معاملہ؟ 
پرتشدد گھر/
 زندہ قبریں
ممتاز ملک .پیرس



        (4) (پرتشدد گھر) 
                 زندہ قبریں 


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا 
شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہی دل میں ایک پرانی یاد کا درد 
اٹھا۔ اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے۔ اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا . چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے. انہیں  دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے. کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں. لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی دیوار پر . خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی۔ دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا۔ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ، تیری ماں مر گئی ہے کیا؟ 
ہنس کیوں رہی ہو تیری ماں کا بیاہ ہے کیا؟ 
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟
یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ 
آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا ؟ 
افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے ؟ 
گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ 
گلاس پورا کیوں بھرا، پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ 
ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئی نارمل 
آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا . 
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئی اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے . اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک 
ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتا تھا .) 
بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس 
خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد 
آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک 
گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ 
خاتون زاروزار روئی اور بولی بیٹا میں نے کہاتھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، 
کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچانے کے لیئے 
کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ 
جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں ماپ 
اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے۔ میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں۔ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی تھا۔ آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ 
آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا 
کہ کوئی پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا . ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری 
آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ 
                          ●●●
          تحریر: ممتازملک.پیرس
      مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
                    اشاعت: 2016ء
                          ●●●


جمعرات، 21 مئی، 2015

شارٹ کٹ




شارٹ کٹ 
ممتازملک ۔ پیرس



ہر آدمی ہی جلدی میں ہے ۔ ہر انسان مصروف ہے ۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے ۔ لیکن کس چیز کے پیچھے ؟ ہر انسان کل بھی دو روٹی کھاتا تھا آج بھی دو روٹی ہی کھاتا ہے ۔ ہر انسان کے تن پر کل بھی تین کپڑے تھے آج بھی دو یا تین کپڑے ہی ایک وقت میں ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کو سونے کے لیئے کل بھی ایک بستر کی جگہ چاہیئے تھی اور آج بھی اتنی ہی جگہ چاہیئے ۔ ہر انسان کی قبر کل بھی دو گز کی تھی اور آج بھی دو گز ہی اس کا مقدر ہونا ہے ۔ کفن کا سائز بھی ایک ساتھا اور ہے ۔ پھر ایسی کون سی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیئے آج کا انسان ہر رشتے کو کاٹتا جا رہا ہے ، ہر حد کو پھلانگتا جا رہا ہے ، ہر دل کو کچلتا جا رہا ہے ، ہر حرمت کو پامال کرتا جا رہا ہے ۔ قیامت کی کیا یہ وہی گھڑی یا نشانی نہیں ہے ،جس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے وقت کا ہر  سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ دن جیسا گزر رہا ہے ۔ لیکن کسی سے پوچھا جائے تو اتنی مصروفیات میں بھی نہ کسی کے دل کو قرار نصیب ہے ،نہ ہی کوئی مالی سکون کی بات کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی شکر گزار ہے، ہر ایک شاکی ہے کسی نہ کسی بات پر ۔ کیا وجہ ہے ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم جن کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اصل میں ہم وہ ڈیزروو ہی نہیں کرتے ۔ اور جب ہم کسی اور کا حق اپنے نام کرنے جاتے ہیں تو بے سکونی تو مقدر بننا ہی ہے ۔ ہمارے پاس محنت کرنے کا تو وقت نہیں ہے لیکن ہمیں عہدہ بھی دوسرے محنت کرنے والے سے بڑا چاہیئے ۔ ہم دوڑ میں تیزی سے بھاگنا نہیں چاہتے لیکن گولڈ میڈل اپنے ہی گلے میں لٹکا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں کھانا بنانا تو سیکھنا نہیں ہے ،لیکن ہمیں دوسرے کی پکاۓ ہوئے پکوان کو اپنے ہی نام سے پیش کرنے کا شوق بھی بہت ہے ۔  گویا کہ ہر ایک مصروف تو ہے لیکن وہ محنت جو کر رہا ہے وہ کچھ سیکھنے کے بجائے شاید دوسرے سیکھے ہوؤں کا کام اپنے نام کرنے میں مصروف ہے ۔ کچھ لوگ محنت سے کچھ بنانے میں مصروف ہیں تو باقی اسی فیصد اس کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ لیکن یہ سمجھنے میں اور کتنی دیر لگے گی کہ  زندگی کسی بھی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہاں جو کچھ کرنا ہے اگروہ اصل ہو گا جبھی اس انعام بھی سکون کی صورت میں ملے گا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گندم بوئیں اور آم کی فصل کی امید کریں  ۔ امیدیں بھی جب تک حقیقت کے دائرے میں رہیں تبھی پوری ہونے کی امید بھی رہتی ہے ۔ جب یہ امیدیں حقیقت کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں تو پھر خواب بن جاتے ہیں اور خوابوں کا کیا ہے، ان کے نصیب میں تو ٹوٹنا لکھ ہی دیا گیا ہے ۔ محبتیں بھی اتنی ہی کی جانی چاہیئیں کہ جتنا اس کے ختم ہونے پر دکھ سہنے کا حوصلہ ہو، تبھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے ۔ شارٹ کٹ سے ملنے والی خوشی ہو یا کامیابی دونوں ہی شارٹ ہوتی ہیں ۔ زندگی میں پائیدار کامیابی اور خوشی کے لیئے بھرپور محنت اور نیت کی اچھائی دونوں ہی اہمیت رکھتی ہیں ۔ شارٹ کٹ کو اسی لیئے ہم چور دروازہ کہتے ہیں ۔ اور گھروں کے مالک چور دروازوں سے کبھی نہیں آیا کرتے ۔ سکون ہی تو دل کا مالک ہوتا ہے ۔ اور اس کا اصل داخلہ اصل دروازے ہی سے ہو سکتا ہے  ۔ مالک اور چور میں کوئی تو فرق ہونا ہی چاہیئے ۔ کہ نہیں ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 13 مئی، 2015

● پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔ ہیں جی !!!!!!!!!! / کالم





پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔
 ہیں جی !!!!!!!!!!
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس 



پاکستانی مردوں کو اچھا شوہر سمجھنے والی غیر ملکی خواتین کیساتھ ان مردوں کا رویہ اور اتنی اچھائیوں کی وجہ جاننے کا ہمیں بہت ہی خبط ہوا تو ہم نے اس پر ان تجربات سے گزری خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیئے تیار کرنے کی ٹھانی  ۔ 
میری ملاقات  کئ ایسی غیر ملکی خواتین  سے ہوتی رہتی ہے جو پاکستانی مردوں کو آئیڈیل شوہر سمجھنے کے بھرم میں مبتلا ہو تی ہیں .ہمیں بھی ان پر   ریسرچ   کر نے کا شوق چرایا خاص طور پر اس وقت جب ایک عرب ملک کی خاتون نے فرمایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے اور اب میری بہن جو پینتیس سال کی ہو کر بھی اس لیئے شادی نہیں کر رہی کیونکہ وہ بھی کسی پاکستانی  شوہر کی تلاش میں ہے .ہم نے جب ان کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں میں نے اور میری ایک یورپئین دوست نے پاکستانی مردوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان سے شادیاں کیں۔
میں پوچھا مثلا کیا خوبیاں دیکھیں ؟تو گویا ہوئیں کہ جیسے میرے میاں نے مجھے کبھی کسی سے ملنے سے نہیں روکا .ہمیں جتنی رقم درکار ہو آج تک دینے سے منع نہیں  کیا .ہمیں کبھی سسرالیوں کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا. یہاں اس کا کوئ عزیز آ بھی جائے تو کیٹرنگ آرڈر کر دیگا اور ہمیں کبھی ان کی خاطروں میں نہیں الجھاتا. ہفتے میں کئی بار اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتاہے .ہمیں اور ہمارے بچوں کو سال میں جب چاہیں چھٹیوں میں ہماری من چاہی جگہ پر بھیجتا ہے .میں جیسا چاہوں لباس پہنوں سلیولیس ہو یا منی سکرٹ اسے کوئ مسئلہ نہیں ہے .ہر خاص دن پر چاہے میری یا میرے بچوں کی یا شادی کی سالگرہ ہو یا عید تہوار نیا سال ہو یا ویلنٹائین کہے بنا ہمارے تحفے اور پروگرام ارینج کرتا ہے . بلا کے خوش لباس ہیں پاکستانی شوہر  . میں کہیں بھی کتنی بھی لمبی سیر کے لیئے جاؤں اس نے مجھے کبھی نہیں روکا ٹوکا. میرے لیئےاور بچوں کے لیئے دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے تحائف لائے بنا نہیں رہتا.............
میرے کانوں میں یہ سب سن کر جانے کس کس خیالی مندر کی گھنٹیاں بچتی رہیں اور آنکھوں میں ان تمام پاکستانی مظلوم خواتین کی صورتیں گھومتی رہیں .جنہیں ان کے پاکستانی  آئیڈیل شوہروں نے کھانے میں نمک کم اور زیادہ پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا .کبھی لڑکی پیدا کرنے پر قتل کر دیا یا طلاق دے دی کبھی اپنی امّاں کو خوش کرنے کے لیئے اس کی کھال کے جوتے بنائے. کبھی بھائ کی محبت میں پیٹ ڈالا .کہیں ساری ساری زندگی ان کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا روک دیا .کہیں دو وقت کی روٹی کے لیئے عورت کو ایک لونڈی سے بدتر حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا .اور میں سوچنے لگی یا اللہ ساری دنیا کو پاکستانی مردوں کا بلند اخلاق اور کردار نظر آ گیا . ہم پاکستانی عورتوں کو بھی ایسے ہی پاکستانی شوہر عطا فرما دے کہ جن کی کہانی ان غیر ملکی خواتین نے سنائی ہے . لیکن اس سے پہلے کہ میں چند ماہ بعد اگلی ملاقات پر ان میں سے ایک غیر ملکی خاتون سے یہ پوچھتی کہ اس برانڈ کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کس مارکیٹ سے ملتے ہیں اس خاتون نے چھوٹتے ہی اپنے گھر والوں کی خیریت بتاتے ہوئے خبر دی کہ اس کی اور اس کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کی طلاق ہو گئ ہے .
پوچھا کیوں؟ تو بولی اپنے ایک بھائ کو گھر لے آیا تھا اور بولا کہ یہ ایک ہفتہ میرے پاس رہیگا . اس کا خیال رکھنا .تو میں نے جھٹ کہا کہ میاں اسے کسی ہوٹل میں ٹہراؤ . بس اسی پر بات طول پکڑ گئ اور طلاق ہو گئی .  اب اسکا سارا کاروبار اور گھر پچاص فیصد میرے ہیں . ویسے پاکستانی مرد بڑے آئیڈیل شوہر ہوتے ہیں. میں دوسری شادی بھی کسی پاکستانی  سے ہی کرنے کا سوچ رہی ہوں . یہ بہت عیش کراتے ہیں آپ کی ایک یورپئین دوست کا شوہر بھی پاکستانی  ہے نا!
 ہم نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تو ہنس کر بولی ارے ہاں اس کا تو تین سال پہلے ہی طلاق ہو گیا تھا. اس نے تو پہلے ہی سارا بینک بیلنس اپنے نام کروا لیا تھا اب وہ کہیں نوکری کرتا ہے اور سنا ہے کوئ  پاکستانی مسکین سی لڑکی بیاہ کر لایا ہے . .. ..

اور میں  سوچتی رہ گئی کہ سولہ سال عیش کرانے کے باوجود جو عورتیں سولہ منٹ آپ کی خوشی کا کوئی کام نہیں کر سکتیں اور آپ ان کے آئیڈیل بننے کے لیئے ذلالت بھرا آئیڈیل بننے کو تیار ہو جاتے ہیں (کبھی ہو سکے تو جو مردانگی یہ اپنی پاکستانی بیویوں کو دکھاتے ہیں کبھی ایک بار ہی سہی ان بدیسی بیویوں کو بھی  دکھا کر تو دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے ) ان پاکستانی مردوں سے کوئ پوچھے کہ بھائ کبھی سولہ دن بھی اپنی پاکستانی بیوی کیساتھ انکی مرضی کے گزارے ہیں ۔ اگر گزارے ہوتے تووہ تاحشر تمہاری غلام ہو جاتی . اور انہیں دنوں کی دید میں تمہاری محبت کی یاد میں ہی تم سے شکوہ کیئے بنا ساری عمر گزار دیتی ۔ جبھی تو کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالے رنگ دا بادام ہوسی 
جیوندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعہ، 8 مئی، 2015

سولر انرجی ، وقت کی سب سے بڑی ضرورت / ممتازملک۔ پیرس



سولر انرجی
                        وقت کی سب سے بڑی ضرورت       
   ممتازملک۔ پیرس 





یورپ میں جب سورج نظر آتا ہے تو لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں ۔ گھومنے پھرنے کے پروگرام بننے لگتے ہیں ۔ نئی تازگی محسوس کی جانے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سال کے تقریبا دس ماہ تو بادل رہتے ہیں یا پھر بارش اور ٹھنڈ کا زمانہ رہتا ہے مشکل سے دو ماہ کا ہی عرصہ سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود آج کل جہاں دیکھیں، یورپ بھر میں سولر انرجی کو جذب کرنے کے لیئے سولر پلیٹس لگی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ حالانکہ یہاں پر پن چکی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ بہتر اور مفید ہے کیونکہ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور تقریبا ہر وقت اور ہر علاقے میں ہوا اچھی خاصی رفتار سے موجود رہتی ہے ۔ جبکہ سورج کی ساری حِدّت سولر پلیٹس میں جذب ہونے کے باعث یہاں اکثر ہی ہڈیاں ٹوٹنے کی شرح کسی بھی گرم ملک کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے کیونکہ خوراک میں یا فوڈ سپلیمنٹس میں اگر وٹامن ڈی کا استعمال باقاعدہ نہ کیا جائے تو ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ذرا ذرا سی چوٹ بھی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اس لیئے یہاں پر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
جبکہ ایشین ممالک میں جہاں سورج سال کے گیارہ ماہ خوب گرمی اور روشنی بکیھرتا ہے  اور گرمی کی شدت لوگوں کے لیئے سوہان روح بن کران کی  زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہو جاتی ہے ۔اکثر گرمیوں میں لوگوں کی اموات کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ان کی موت کی وجہ صرف گرمی کی شدت ہی ہوتی ہے ۔ غریبوں کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے ۔ انہیں تو کُھلے آسمان کے نیچے ہی نہ صرف مذدوری کرنی ہے، سودا بیچنا ہے اور سفر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کرنا ہے لہذا ان کی صحت بھی براہ راست گرمی کی شدت سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سورج کی تپش کو کم کیا جائے اس کے لیئے آپ سورج کا وولٹج تو کم نہیں کر سکتے ۔ایک ہی کام کر سکتے ہیں کہ سورج کی اس بھرپور نعمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے اور بہتر انداز میں استعمال میں لایا جائے ۔ تصویر کا دوسرا اور زیادہ خوفناک رُخ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر ایک تو برف پڑ ہی کم رہی ہے۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ سورج کی ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہونے والی تپش کی اضافت کو بھی جب تک استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پہاڑوں کی برف کو اور گلیشئیرز کو تیزی سے پگھلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ جبکہ یہ ہی گلیشئیرز ہمارے پانی کا منبع ہیں ۔ جس پر ہماری زندگیوں اور ہماری زراعت کا دارومدار ہے ۔ پانی کا یہ منبع ہی نہ رہیں تو ملک ریگستان بن جاتے ہیں ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے اور ہمماری تمام انڈسٹریز اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ان سب کا ایک ہی بہترین حل ہے کہ سورج کی توانائی کو بھرپور انداز میں سولر انرجی کے طور استعمال کیا جائے ۔اس کے لیئے حکومت کو بھی سولر پلیٹس اچھے معیار کی اور کم سے کم قیمت میں مہیا کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔ وہ نوجوان جو اسی شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے علم سے بھرپور استعفادہ حاصل کیا جائے۔

انہیں ان پلیٹس کو جدید اور مذید بہتر بنانے کے لیئے بھرپور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ہمیں سستی توانائی مہیا ہو سکے ۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان میں حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس کا رویہ ہر سولر انرجی کے لیئے کام کرنے والے ماہر کیساتھ حوصلہ شکن ہی کیوں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اس فیلڈ میں کام کی پیشکش کی تو حکومت وقت نے نخوت سے ناک سکیڑ لی ۔ ڈاکٹر ثمر مند  اور داکٹر قدیر کا آج سے بیس سال پہلے کا اخباری خوشخبری بیان"کہ اسی سال ہم قوم کو سولر انرجی اور سولر چولہوں کا تحفہ دینگے ۔" پڑھ کر ہم آج تک اسی انتظار میں رہے کہ آج آئے یہ سولر چولہے یا کل آئے ۔ لیکن   لیکن ہائے ! افسوس کہ پورے ملک کی معیشت کی اس توانائی کمیابی کے کارن اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن نہ آئی سولر انرجی اور نہ آئے سولر چولہے ۔ جانے  کس سوچ میں پاکستانی حکومتوں نے قوم کا یہ قیمتی وقت تباہ کر دیا ۔ ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے تمام حکومتیں اسی بات پر غورو فکر میں مدتیں پوری کرتی رہی ہیں کہ یہ جو ہے سورج ،اس پر ٹیکس کیسے لگائیں گے ۔ آخر جو ہے، ہم کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بھئی تم نے ٹیکس نہیں دیا لہذَا ہم جو ہے ،تمہارے گھر کا سورج کاٹ رہے ہیں ۔ آخر جو ہے ،حکومت کو کوئی فیدہ بھی ہونا چاہیئے سورج دینے کا ۔ جو ہے ، کیا خیال ہے ۔ ملک و قوم کے مفاد میں اس تاخیر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 4 مئی، 2015

اٹھو جہاں بدل دو۔ کالم



اٹھو جہاں بدل دو
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی       خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓ گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
  ۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/