ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/