معصوم بوجھ
گھر میں داخل ہوتے ہیں چھناکے کی آواز سے اس کا پارہ چڑھ گیا۔
تھکی ہوئی تو پہلے سے تھی۔ اب گھر پہنچتے ہیں قیمتی گلدان کے ٹوٹنے سے وہ اور غضبناک ہو گئی ۔
سہمی ہوئی سی دس سالہ مایا اپنے ساتھ چھ سال کی نورا کو لپٹائے کھڑی تھی ۔
ڈر کے مارے ان کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔
کیا کرنے آئی تھیں کچن میں تم دونوں ۔۔۔
وہ دھاڑی
مما وہ نورا کو بھوک لگی تھی تو میں کھانا بنانے کے لیئے کیبنٹ سے دال کا ڈبہ نکال رہی تھی ۔ ڈبہ میرے ہاتھ سے پھسل کر گر تو گلدان سے ٹکرایا تو وہ گر کر ۔۔۔۔
بکومت ۔۔
اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مایا کے معصوم سے چہرے پر رسید کر دیا ۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرے لیکن منہ سے آواز نہیں نکلی ۔ معصوم نورا بہن کیساتھ اور زور سے لپٹ گئی اس نے بہن کے سویٹر میں اپنا منہ چھپا لیا ۔
مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔
وہ خوف سے منمائے جا رہی تھی ۔
یہ آئے دن کی کہانی تھی ۔ لیکن اب راضیہ ان دونوں بچیوں سے جان چھڑانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی تھی ۔ جو اس کی زندگی کی نئی شروعات میں روڑا بن چکی تھیں ۔
ان کا باپ جمال تو تین سال پہلے ہی اسے طلاق دیکر روز نئی محبوبہ بغل میں لیئے گھوم رہا تھا اور دونوں بچیاں اس کے گلے ڈال گیا تھا ۔
یورپ کا ارمان لیئے اکثر ایشین جوان جب یہاں پہنچتے ہیں تو وہ اسے محنت کرنے کے بجائے عیاشی کا ٹھکانہ ہی سمجھ کر آتے ہیں ۔ لیکن حد تو تب ہو جاتی ہے جب اکثر تو بچے پیدا کرنے کے بعد بھی انکی ذمہ داریاں اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔
آج کافی دنوں کے بعد اس نے جمال کو فون کر کے بلایا اور دونوں میں خوب چلم چلی ہوئی ۔
راضیہ چلائی کہ
اٹھاو اپنے پلے اور لیجاو یہاں سے ۔ورنہ کچھ کر بیٹھوں گی میں ان کے ساتھ ۔۔
جمال نے کہا
مائی فٹ جو تمہارا جی چاہے کرو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔
یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلا گیا ۔
راضیہ اپنے حواس کھو چکی تھی نہ تو جمال ان بچوں کے لیئے اسے کوئی مالی مدد فراہم کر رہا تھا نہ اخلاقی طور پر اسکی ذمہ داری بانٹ رہا تھا ۔
یہ ہی سوچتے ہوئے اس نے دونوں بچیوں کو بیرحمی کیساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں پٹخا ۔
وہ رو رہی تھیں ، خوفزدہ تھیں ۔ اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں۔
لیکن وہ جیسے بہری اور بے حس ہو چکی تھی۔
شدید سردیوں کی شام تھی باہر بہت جلد اندھیرا ہو چکا تھا۔ ایک ہو کا سا عالم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ چکے تھے یا پھر ہوٹلز اور کلب میں مصروف تھے۔
راضیہ نے معلوم کر لیا تھا کہ آج کل جمال کہاں رہ رہا ہے۔
اس نے جمال کے دروازے پر کافی دیر گھنٹیاں بجائیں لیکن دوہرے شیشوں کی دیواروں اور کھڑکیوں میں کوئی آواز باہر سے نہیں جا رہی تھی اور اندر کا میوزک کا شور دروازے کی گھنٹی بھی نہیں سنا رہا تھا ۔
نشے میں دھت جمال اپنی دوست کیساتھ پارٹی میں مشغول تھا ۔ شراب کی بو سارے گھر میں رچی ہوئی تھی ۔
بالاخر راضیہ نے کافی دیر کی کوشش کے بعد جب جمال اپنا فون نہیں اٹھا رہا تھا اس نے کہا ۔
جہنم میں جاؤ
اس نے دونوں بچیوں کو گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا اور وہاں دروازے پر کھڑا کر دیا ۔
اور خود گاڑی تیزی سے موڑتی ہوئی نکل گئی
ایک لمحے کو بھی اسے ان بچیوں پر ترس نہیں آیا
کیا ہوس مامتا اور باپتا پر اس طرح بھی غالب آ سکتی ہے۔۔
آسمان بھی حیرت سے تک رہا تھا۔
ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے کہ کب دروازہ کھلے گا کب جمال ان بچیوں کو گھر کے اندر لیجائے گا۔
مایا کا معصوم دل حیران پریشان تھا ۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
اس نے کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد تھک کر اپنی بہن کو ڈور میٹ پر لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ وہ اسے پیار سے تھپک کر سلا رہی تھی ۔ لیکن خالی پیٹ والوں کو کمبخت نیند بھی کہاں نصیب ہوتی ہے ۔
آپی بھوک لگی ہے ۔ نورا نے اپنی منمناتی ہوئی آواز میں کہا۔
مایا نے بے بسی سے بہن کو دیکھا اور اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔
اس نے کئی بار دروازہ پیٹا لیکن جواب ندارد۔۔
سردی تھی کہ ہر پل لہو جمائے دے رہی تھی۔۔
ابھی پاپا آتے ہیں پھر ہم کھانا کھائیں گے ۔ شاید انکی ڈور بیل خراب ہے گڑیا ۔
اس نے بہن کو کیسے کیسے دلاسے دیئے۔
وہ چھوٹی سی بچی اپنی بہن کے لیئے وہ بن گئی جو اس کی ماں کو باپ کو بننا چاہیئے تھا۔
اور جانے کب دونوں ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے سو گئیں ۔ سردی کی خون جمانے والی لہر نے انہیں واقعی سلا دیا ۔
صبح گیارہ بجے نشہ ٹوٹنے پر جمال انگڑائیاں لیتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول کر نکلا
تو دروازے کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے دو سردی سے جمے معصوم مردہ وجود نیچے جا گرے۔۔۔۔۔
------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں