ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 23 مارچ، 2022

دیس پاکستان ہے / شاعری ۔ قومی شاعری



دیس پاکستان ہے 
کلام: (ممتازملک ۔پیرس)



سرحدوں پر آج بھی پہرے پہ ہیں وہ عاشقان
اس وطن کی آرزو میں دی تھی جن لوگوں نے جان
جی رہے ہیں جو انہیں احساس ہی شاید نہیں 
کاٹ کر پردیس آو تو سمجھ پاو گے مان
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔۔
کاش کہ خود احتسابی بھی میرا ایمان ہو
زندگی میں عشق کلمہ صرف پاکستان ہو
نوچتے ہیں کاٹتے ہیں روز اسکو بانٹتے ہیں
ظلمتوں سے یوں نکلتا ہے کہ جگ حیران ہو 
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔
پانیوں میں اسکے رکھی ہے شفا میرے لیئے
گرم ہو یا سرد ہو اسکی ہوا میرے لیئے
کیوں شکایت نہ کروں جب درد ہوتا ہے تجھے
کھل کے جب برسی ہے رحمت کی گھٹا میرے لیئے 
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔۔۔
پاک ہے جو سر پہ اپنے ایک سائیبان ہے
دشمنوں سے  کیوں ڈرے خود رب جو نگہبان ہے
ہم نے خود ممتاز رہنا ہے سبھی اقوام میں 
دوسروں کی بھی حفاظت اپنا تو ایمان ہے
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
●●●

منگل، 8 مارچ، 2022

* ♡ ● گالی نہیں ہوں/ اردو شاعری ۔ عورت۔ اور وہ چلا گیا


گالی نہیں ہوں 
کلام: 
  (ممتازملک ۔پیرس)

مجھے بھی نام سے تسلیم کیجیئے
میں عورت ہوں کوئی گالی نہیں ہوں 

تمہارے رنج وغم اپنے جگر میں پالتی ہوں 
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں 

تو ہنستا ہے تو تیرے ساتھ جی اٹھتی ہوں میں بھی
تیرے غم توڑتے ہیں شکتیوں والی نہیں ہوں 

نہیں ہوں میں کوئی ناپاک سی شے
میں جنت لیکے چلتی ہوں کوئی ڈالی نہیں ہوں 

تمہیں جس کوکھ میں رکھا ہے رب نے
میں کیا اس کوکھ کی پالی نہیں ہوں 

بہت ہی بولتی ہوں میں بتاوں کہ بھلا کیوں 
نہیں ہوں سازشی اور دل کی میں کالی نہیں ہوں 

تمہاری ماں ہوں بیٹی ہوں   بہن ہوں 
میں بیوی ہی تمہارے گھر کی کیا مالی نہیں ہوں 

ہر اک الزام میرے سر پہ دھر کر بھول بیٹھے
کسی کے ہاتھ کی بجتی ہوئی تالی نہیں ہوں

مجھے تم غور سے سوچو تو یہ محسوس ہو گا
تمہارے ساتھ ہر رشتے میں کیا ڈھالی نہیں ہوں 

ہزاروں آرزوں سے بھرا ممتاز دل ہے
میرے اندر جہاں آباد ہے خالی نہیں ہوں 
                ●●●۔                

اتوار، 6 مارچ، 2022

جبری شہید/کالم /

جبری شہید
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)

 ہم دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں اور ایسے جرنیل رکھتے ہیں جو دنیا سے نرالی خدمات سرانجام دیتے ہیں ۔ ہماری خفیہ ایجنسی  اس قدر شاندار ہے کہ ہر واردات اور دہشتگردی کا ہمارے جرنیلوں اور ان ایجنسیوں  کے شریر بہادروں کو مہینوں پہلے سے ہی اس کا  علم ہو چکا ہوتا ہے لیکن وہ اسے کنفرم کرنے کے لیئے لیئے ساری وارداتیں اور دہشتگردی ہونے دیتے ہیں کیونکہ ایک تو انہیں پتہ چلے کہ واقعی میں دہشتگردی والوں کے پاس بارود بھی اصلی ہے کہ نہیں دوسرا  ان کا کام اسے روکنا تھوڑی ہوتا ہے ان کا کام ہوتا ہے اس کے معلوم ہونے کی اس دہشت گردی اور واردات  کے بعد اطلاع دینا ۔ اب دنیا بھر میں اربوں کے اثاثوں کے بدلے اپنی جان تھوڑی داو پر لگا دینگے ۔ یہ کم ہے کہ پاکستان کو شہیدستان کا جبری درجہ دلوا چکے ہیں ۔ سارے ملک میں لاکھوں لاشیں گروا چکے ہیں  ہر گھر میں شہادت کا جبری جھنڈا بلند کروا چکے ہیں ۔ بھلا شہادت سے بڑا بھی کوئی مقام ہوتا ہے کیا؟ ۔ دنیا کی ہے کوئی فوج اور جرنیلی ٹولہ یا جاسوسی ادارہ جس نے اتنی بڑی بہادرانہ مثال پیش کی ہو۔ ۔گھر بیٹھے، نماز پڑھتے، بازار میں سودا سلف خریدتے، مزدوری کرتے، کسی کو ایسی شہادت کی ہوم سروس مہیا کی ہو۔ نہیں ناااا  آخر بنا کوئی جنگ جیتے" زرا اب کے ماریو" کہہ کر دنیا میں سب سے زیادہ اپنے باڈرز پر حملے کروانے کا عالمی ریکارڈ بنانا صرف ہمارے ہی ملک کے ہی جرنیلوں آور ایجنسیوں کو حاصل ہے ۔  سینہ تاںن کر ہم دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بہادری کی بڑکیں مارتے ہیں ۔ دشمن کواپنی ہی زمین پر رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں تو دشمن کے بجائے ہمارے ہی ان ہیروز کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں اور وہ جنگی قیدی یا جاسوس ہماری زمین پر دامادوں کی پی خاطر داری پانے لگتا ہے ۔ ہم اس کے آگے لملیٹ ہو کر منتیں کرتے ہیں کہ بھائی وکیل کر لے تجھے دولہا بنا کر باڈر پر چائے پراٹھے کھلا کر خود چھوڑ کر آئیں گے ۔ بس میرا بھائی کوئی وکیل کر لے۔ بھلے سے ہمارا دشمن ہمیں آئے روز معصوم شہریوں کہ لاشیں تحفے میں بھجواتا رہتا ہے لیکن وہ تو ہے ہی بزدل۔ بہادر تو ہم ہیں جو ان کے جاسوس اور دہشت گرد کو کنگھی پٹی کر کے ، وال شال وا کے، چنگے بچے بن کے " چھوڑ کر آتے ہیں ۔ ہمارے بچے وہ قتل کرتے ہیں بزدل کہیں کے،  بھئی ہم  تو بہادر ہیں ہمیں تو اپنے بزدل دشمن کے بچوں کو  پڑھانا ہے ہاں بس ۔ ہم تو اپنے عوام اور فوجی شہید کروانے کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں نا۔ ہمارے فوجی جہاں ہمارا دل کرے گا ہم انہیں بھی شہادت کا سرٹیفیکیٹ پکڑا دینگے ۔ اسے کسی بھی بلاوجہ کی کاروائی میں بے خبری میں شہادت دلوا دینگے۔ جرنیلی و ایجنسیز نے اپنے فوجی جوانوں کو میڈل بانٹ کر ہی تو اپنے لیئے کھربوں روپے کے غیرملکی خزانے بھرنے ہیں۔ جزیرے خریدنے ہیں  تاکہ شہادت کے بعد پاکستانی عوام و فوج کے بے خبر معصوم جبری شہید وہاں بے غم ہو کر گھوم پھر سکیں ۔ کیوں یہ دنیا بھر کے اور پاکستان بھر کے بڑے بڑے رقبات و محلات اسی نیک مقصد کے لیئے ہی تواپنے نام الاٹ کروائے گئے ہیں ۔ 
ہمارے سپہ سالاروں کو دولت سے قطعی  کوئی محبت نہیں ہے یہ تو بس جبری شہیدوں کو ان کے موت کے بعد ایک تفریح فراہم کرنے کے لیئے ان کے خدمت کا اعلی معیار ہے جو صرف اور صرف پاکستانی سپہ سالار اور جاسوس ایجنسی ہی سرانجام دے سکتے ہے ۔ دنیا کے کسی اور  جرنیلی ٹولے یا ایجنسی میں ہے ایسا دم خم؟؟؟؟؟
ہمارے جرنیل زندہ باد
ہماری ایجنسی پائندہ باد 👏👏👏
                  ●●●

اتوار، 27 فروری، 2022

♡ ● نکل ‏کر ‏دیکھا ‏/ ‏شاعری ‏

نکل کر دیکھا
کلام:
(ممتازملک ۔پیرس)


ہم نے جب خواب کے پہلو سے نکل کر دیکھا
زندہ رہنے کے لیئے سچ کو سنبھل کر دیکھا

ضبط تھا جس نے ہمیں ٹوٹنے جھکنے نہ دیا
اس نے الفاظ میں ہر زہر اگل کر دیکھا

بھوک مٹتی ہے فقط نان و جویں سے ورنہ
موت ہیں سارے جواہر جو  نگل کر دیکھا
 
درد کو چین نہ آنا تھا نہ آیا گرچہ
 ہم نے پہلو کو کئی بار بدل کر دیکھا

(پھول اصلی تھے مہک چھوڑ گئے  ہوں شاید 
اپنے ہاتھوں کو کئی بار مسل کر دیکھا)

کاش یہ خواب ہو اس آخری امید پہ تو
اس نے آنکھوں کو کئی بار مسل کر دیکھا 


کیوں تپش پاوں کی یہ سرد نہ ہونے پائی  
گو کہ مہندی کو کئی بار تھا مل کر دیکھا


صبح ہوتے ہی مقدر میں سیاہی ٹہری
رات بھر سارے چراغوں نے ہی جل کر دیکھا 

سارے حیلےجہاں دم توڑ گئے تھے ممتاز 
رب کو دیکھا ہے تو ازراہ توکل دیکھا 
●●●

ہفتہ، 19 فروری، 2022

● عورت خراب/ چھوٹی چھوٹی باتیں

       خراب عورت 

مرد خراب نہ ہو تو عورت راہ راست پر
 رہتی ہے اور 
عورت خراب نہ ہو تو پورا معاشرہ راہ راست پر رہتا ہے ۔ 
           (چھوٹی چھوٹی باتیں )
                 (ممتازملک.پیرس )
                       ●●●

جمعہ، 18 فروری، 2022

● خفیہ طاقت/ کالم

               خفیہ طاقت
          تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)

ہم وہ منافق لوگ ہیں جو بیرون ملک ہوں یا اندرون ملک اس بات پر تالیاں پیٹتے اور سر دھنتے ہیں کہ دیکھو دیکھو  ایک بس ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بن گیا ہے۔ترکھان کا بیٹا جرمنی کا صدر بن گیا ہے ۔ کل تک سڑک پر پانی کی بوتلیں بیچنے والا بچہ ترکی کا صدر بن گیا ہے ارے واہ واہ واہ 
ارے دیکھو تو کیسے ایک صفائی کرنے والا ایک ویٹر ایک نائی آ کر اپنے ہی مالک کیساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر ایک سا کھانا کھا رہا ہے ۔۔
دیکھا یہ ہوتی ہیں قومیں ۔۔۔یہ ہوتی ہے ترقی۔۔ اسے کہتے ہیں کامیابی کا فارمولا ۔
بس ہو گئی آج کی خوراک پوری۔ آئیے 
یہی فارمولے لاگو کیجیئے ہمارے پا ر سا پاکستانی معاشرے پر ۔۔
سنا آپ نے وہ کمیوں کا منڈا شہر سے کوئی بڑی ڈگری لیکر آیا ہے 
سنا آپ نے دھوبیوں کی بیٹی افسر لگ گئی ہے 
ارے دیکھو تو اب یہ کھسرا بھی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا ہے
لو جی مستری کا پتر اب اسکول جائیگا
ارے کام والی کی بیٹی بھی سکول جانے لگی تو ہمارے جھاڑو پونچھے کون کریگا؟
ہا ہائے مالش کرنے والی کی دائی کی بیٹی اب منسٹر لگ گئی ہے
لو جی نائی بھی اب وزیر بن گیا ہے ۔ توبہ توبہ کیسا زمانہ آ گیا ہے ۔ کمی کمین اب ہمارے برابر بیٹھیں گے؟ 
دروازے پر فقیر کو روٹی دینے ہے تو اس کے ہاتھ برتنوں کو نہ لگیں پتہ نہیں کہاں کہاں کے جراثیم لیکر گھوم رہا ہو گا ۔
بیٹا سکول میں خبردار جو اپنے سٹیٹس سے کم والے کیساتھ دوستی ووستی کی تو۔۔۔
میرے پیارے وطن پاکستان میں تجھ سے بہت محبت کرتی ہوں اسی لیئے تیرے اندر پڑنے والے یہ کیڑے چن چن کر تجھ میں سے نکالتی رہتی ہوں ۔ یہ خطرناک اور زہریلے کیڑے مجھے کئی بار کاٹ بھی لیتے ہیں لیکن میں بھی بڑی ڈھیٹ ہوں ۔ لمحے بھر کو رکتی ہوں سسسکتی ہوں اور پھر اسی کام میں لگ جاتی ہوں ۔ کیونکہ میں تالیاں پیٹ پیٹ کر دوسروں کے رویوں پر عش عش کرنے کی بجائے یہ سب اسلامی اور انسانی حقوق 22 کروڑ پاکستانی عوام کو بلا تفریق و تخصیص انہیں دلوانا چاہتی ہوں ۔ لیکن اس میں رکاوٹ کیا پے ؟ کون ہے؟ تو افسوس اس میں رکاوٹ کوئی دشمن قوت نہیں ہے ۔کوئی بیرونی ہاتھ نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں ہاتھ ہے ہماری اس گھٹیا سوچ کا، اس بازاری زبان کا اور گندے ذہن کا جو ہمیں قوموں کی فہرست میں نچلے ترین درجات پر فائز کر دیتے ہیں ۔ ہم 22 کروڑ لوگوں کا ریوڑ جب انسان بن کر سوچنے لگے گا تب ہم اوپر کے درجات میں قدم رکھ پائیں گے۔
اوپر کے درجات میں کوئی خلائی مخلوقات کے ممالک اور معاشرے نہیں ہیں یہ بھی ہم جیسے عام سے دو ہاتھ دو پاؤں دو آنکھیں دو کان ایک ناک اور ایک منہ رکھنے والے ہی انسان نامی مخلوق ہیں۔  یہ بھی یہی گندم یہی سبزی یہی اناج کھاتے ہیں ۔ تو فرق کیا ہے ۔ فرق ہے انکی سوچ کا ۔ان کے مقاصد کا ۔ انکے ذہنوں کے معیار کا ۔  جو ایک انسان کی طرح کام کرتے ہیں ۔ جنکا ایمان ہے کہ ہر سہولت سب کے لیئے ۔ ہر  موقع ہر ایک کے لیئے ۔ شرط ہے صرف اور صرف قابلیت میرٹ۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہمارا رب فرماتا ہے کہ تم میں سے کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے ۔ تم میں سے کوئی افضل ہے تو صرف اپنے توکل کی وجہ سے ۔ اور یہ توکل کیا ہے ؟ توکل ہے خدا سے ڈر کر اور محتاط روپوں کیساتھ زندگی گزارنا۔ جس میں نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ ہی کسی کو خود سے کمتر سمجھا جائے۔ جبکہ اس حساب سے تو ہم ایمان کی سیڑھی سے بھی نیچے اتر گئے۔ کیونکہ ہم نے کسی کو کمتر نہ جانا تو ہمارے حلق سے نوالہ کیسے نیچے اترے گا۔
 اور اس حساب سے  ہم تو ابھی انسان بننے کی شرائط پر ہی پورا نہیں اترتے ۔  بھلا ریوڑ کو ایسی باتوں سے کیا لینا دینا۔ لیکن اگر اسے انسانوں کی کامیابیاں دیکھنے کا شوق ہے تو اسے بھی انسان بننا پڑیگا ۔ 
اب یہ اس 22 کروڑ  افراد پر مشتمل ریوڑ کے ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ خود صرف اپنی سوچ کب بدلے گا۔ جب یہ بدلے کا تب پاکستان بدلے گا ۔ جب  اس کی سوچ پر سے منافقت کا جال یہ خود توڑے گا تو پاکستان آذاد ہو جائے گا ۔ 
پاکستان زندہ باد
                           ●●●
 

بدھ، 9 فروری، 2022

* ● ہتھیار اٹھایا میں نے/ اردو شاعری۔ عورت ۔ اور وہ چلا گیا


اٹھایا میں نے
کلام:
(ممتازملک ۔پیرس)

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار اٹھایا میں نے
 نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

بندشیں جتنی لگائی تھیں کڑے پہرے تھے
حشر تو پھر بھی ہے سرکار اٹھایا میں نے

اب ہے  امید بہت دور تلک جائیگا
جو قدم لگتا تھا دشوار اٹھایا میں نے 

مجھ سے خاموش کو حیرت سے تکا ہے اس نے
جب کوئی موضوع تکرار اٹھایا میں نے 

اس میں شامل ہے لہو میرا تو ایسے نہ جتا 
جیسے بازار سے شاہکار اٹھایا میں نے 

یہ میرا حق ہے اسے اپنی نہ توہین سمجھ
تیرے رشتے سے جو انکار اٹھایا میں نے

اس نے منہ ڈھانپ کے جانے کو غنیمت جانا
حشر ایسا سر بازار اٹھایا میں نے 

کیا ہوا رات شبستانوں میں معلوم ہوا
آج جب صبح کا اخبار اٹھایا میں نے

اتنے سلگے ہوئے ارمان ہیں چاروں جانب 
آرزووں کا اک انبار اٹھایا میں نے

مجھ پہ ممتاز ہوا ظلم وہ خاموش رہا
واسطے جس کے تھا سنسار اٹھایا میں نے
    ●●●

● موذن اور لکھاری/ چھوٹی چھوٹی باتیں



موذن کا کام ہے اذان دینا ، نماز پڑھانے کے لیئے لوگوں کو گھروں سے جبرا لیکر آنا نہیں ۔ اسی طرح لکھنے والے کا کام ہے نیک و بد کی رہنمائی کرنا ، جبرا کسی کو سمجھنے پر مجبور کرنا نہیں ۔
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک.پیرس)

■ ● میرا جی نہیں کردا/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا


جی نہیں کردا
کلام: (ممتازملک ۔پیرس)

اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں کردا
اوناں نوں ہن دان تے میرا جی نہیں کردا 

میرے ہمجولی تے سارے  شہر ہی چھڈ گئے
باج انہاں دے رکھ وی پینگاں والے وڈ گئے
ہن اوتھے پہچاندا مینوں کوئی وی نہیں
جائیے کیڑے مان تے میرا جی نہیں کردا
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں کردا ۔۔۔۔۔

اوچے اوچے گھر نیں گلیاں لک گئیاں نیں 
کھلے ویڑے سکڑے ندیاں سک گیئاں نیں
رب جانے کہ کون گوانڈی کس دا ہوئے
ہن بوہے کھڑکان تے میرا جی نہیں کردا 
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں کردا ۔۔۔۔

جھڑکیاں دیکے فیر وی سینے لا لیندے سی
ماپیاں دی ماراں کولوں وی بچا لیندے سی
پیڑھی اتے بیٹھے استانی جی ٹڑ گئے
ہن تے سبق سنان نوں میرا جی کردا
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں کردا ۔۔۔۔۔

تیرا سی اعتبار دا رشتہ میرے نال
توڑ دتا اعتبار تو وکھری کر لئی تال
بے بھروسہ جند اے  لنگی جاندی نہیں تے
ہن تیرا اکھوان تے میرا جی نہیں کردا 
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
جھوٹ فریب تے مکر اثاثہ بن گیا اوتھے
جیڑا لبھے لٹو  خلاصہ بن گیا اوتھے
نکے وڈے دی تفریق نہ لحاظ اکھاں وچ
ڈنگراں نوں سمجھان تے میرا جی نہیں کردا 
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ویکھ کے کوئی کہندا سی جد ماشاءاللہ 
لمبی ہوئے حیاتی خیری ان شاء اللہ 
حاسد دسدے ہر پاسے ممتاز کی کریئے
چنگے کپڑے پان تے میرا جی نہیں کردا 
اپنے دیس نوں جان تے میرا جی نہیں کردا ۔۔۔۔۔
               ●●●

ہفتہ، 29 جنوری، 2022

✔ خون اور دودھ ضرور بولتا ہے/ کالم۔ لوح غیر محفوظ


دودہ اور خون ضرور بولتا ہے
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

ہم فرانس میں رہتے ہیں جو دنیا کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن ہماری پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت  یہاں تک آ کر بھی نہ اپنے دماغ کا گند دھو پائے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے لوگوں سے کوئی اچھی بات سیکھنا چاہتے ہیں ۔ خصوصا خواتین کے حوالے سے یہاں کی چھوٹی اور گھٹیا ذہنیت نہ بدلنے کی تو گویا اکثر لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے ۔ یہ  ان لوگوں کے بارے قران پاک کی قسمیں اٹھا کر گواہیاں دیتے پائے جاتے ہیں جن سے نہ یہ کبھی زندگی بھر ملے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی حوالے سے ان کے روبرو آئے ہیں ۔ لیکن پھر بھی بقول انکے یہاں پر کام کرنے والی عورت بدکردار ہے اور ہر لکھاری عورت دو نمبر ہے۔ جس عورت کا فیس بک پر اکاونٹ ہے وہ بازاری عورت ہے ۔ جو سامنے کھڑی ہو کر جرات سے بات کرتی ہے وہ تو پیدائشی بے غیرت ہے ۔۔۔ یہ فتوے لگانے والے وہ مرد ہوتے ہیں جن کے گھروں کی نانیوں دادیوں اور ماوں  نے گھرں میں پردوں میں بیٹھے ہوئے گونگے بنے رہنے کے باوجود بھائیوں کے آپس میں سر پھڑوائے ۔ گریبان چاک کروائے۔ ایکدوسرے کی بیٹیوں کو طلاقیں دلوائیں ۔ جیتے جی دوسروں کی زندگیاں موت سے بھی بدتر کر دیں لیکن پھر بھی وہ شرفاء اور معززین کی فہرست میں شامل رہیں کیونکہ وہ یہ سب کرتی تھیں لیکن گھر کے اندر پردہ دار اور گونگی بیبیاں بن کر کیا کرتی تھیں ۔ انہیں کے سپوت آج یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر یہی فریضہ دوسری خواتین پر تہمتیں اور فتوے لگا کر سرانجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ سوچیں ماوں کے خون اور دودہ سے سفر کرتی ہوئی آپ کے دماغ تک پہنچتی ہیں ۔ سچ کہتے ہہں ایک اچھی ماں اور ایک بری ماں کی پہچان اس کے بیٹے کی کسی بھی عورت کے لیئے کی گئی گفتگو اور الفاظ کے چناو  سے چھلکتی ہے ۔ وہ بولتا ہے تو گویا اپنی ماں کے کردار اور گفتار کی پرتیں کھولتا ہے ۔ کسی بھی عورت پر گند اڑانے والا گندے تبصرے کرنے والے مرد کی اکثر اپنی جوانی اسی ملک میں رنگ رنگ کا پانی پی کر گزری ہوتی ہے جس کے لیئے ہر عورت ویسی ہی ہے جیسا وہ خود ہے ۔ اسی لیئےجب وہ کسی میدان عمل میں کام کرنے والی خاتون یا اپنا نام اور مقام بناتی ہوئی خاتون کو دیکھتا ہے تو فورا اپنی اصلیت دکھانے پر اتاولا ہو جاتا ہے ۔ پھر اس کا ساتھ دینے کے لیئے وہ نکمی اور بیکار عورتیں بھی اس کے ساتھ "راون کے سروں "کی طرح اس کے بیانیئے کو پھیلانے میں شیطانی کردار ادا کرنے کے لیئے پھیل جاتی ہیں ۔ یہاں وہ اپنے احساس کمتری کے تحت اپنی قبریں بھلا کر کام کرنے والی لکھنے لکھانے والی خواتین کی کردار کشی میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ اپنے گھروں میں ان شیطان خواتین کے ٹولے کبھی ون ڈش پارٹی کے نام سے اکٹھی ہوتی ہیں تو کبھی میلاد پاک کے نام پر باریاں رکھ کر یہ مشن سرانجام دینا ہوتا ہے ۔ یہاں اکھٹے ہو کر ایک ہی  میز پر کھانا کھانے کے بعد وہ اسی گھر سے نکلتے وقت غیبتیں اور الزام تراشی کرنا اور تو اور اکثر میزبان خاتون کی کردار کشی کرنا بھی کبھی نہیں بھولتیں ۔ پھر گھر پہنچ کر ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑے فون پر ایک دوسرے کی ذات پر اور کل کے پروگرام میں ملنے والیوں پر خوب مرچ مصالحے لگا کر خبریں گھڑی جائینگی ۔ اس کی بیٹی اس کے ساتھ بھگائی جائے گی ۔ اس کا بیٹا اس غیر مسلم کیساتھ رہتا ہے سنایا جائے گا ۔ اور پھر استغفار کی تسبیح پڑھنے اور دعاوں میں یاد رکھنے کی درخواست اور پھر " نماز کا وقت ہو گیاہے" کہہ کر فون رکھا جائیگا ۔  لیکن کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس طرح اللہ پاک نے عزت و ذلت کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور ان کی تسبیحیں، نمازیں، سجدے اور تلاوت قران کو ان کے منہ پر مارنے کا اعلان بھی کر دیا ۔ کیونکہ واقعی جو ہم نہیں جانتے وہ ہمارا رب جانتا ہے ۔ 
ایسے تمام خواتین و حضرات بیچارے ہوتے ہیں۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ نیکیاں تو وہ اپنی ان الزام تراشی و بہتان تراشی میں ویسے ہی اس کے نام کر چکے ہوتے ہیں دوسرا اپنا پردہ بھی اپنی ہی زبان سے کھول چکے ہوتے ہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنے گھروں میں دیکھا سنا وہ ہی انکی  زبان سے دوسری خواتین کے نام سے نکل گیا ۔ ابکی نشانی یہ  ہوتی ہے کہ نہ یہ سکون سے سو سکتے ہیں ۔ نہ یہ اپنی اولادوں کی جانب سے سکون پاتے ہیں ۔ نہ ہی انکے چہروں پر نور ہوتا ہے نہ ہی ان کے دلوں میں سکون ہوتا ہے۔ نہ انکے گھر میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی انکے رشتوں میں محبت اور عزت ہوتی ہے۔ 
 سو دنیا و آخرت دونوں جہانوں کی ذلتوں کا طوق اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں لٹکانے والوں کو بیچارہ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے ؟ جن کے سامنے آپکی لمبی زبانیں کھلتی ہیں وہ چاہے کسی بھی وجہ سے اس وقت یہ باتیں سن تو لینگے لیکن آپ کے بارے میں جو تبصرہ آپ کی پیٹھ پیچھے ہو گا وہ تو آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا ۔  سو خلاصہ یہ ہوا کہ جو آپ نہیں کر سکتے اس پر حسد کرنے کی بجائے اس پر دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھیں ۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں ہو سکتا ہے کہ آپ کے لہو میں اور سوچوں میں دوڑتی ہوئی اس گندگی کی کچھ صفائی ہو سکے اور آپ کی پرورش کرنے والیوں کی قبروں کا عذاب کچھ کم ہو سکے ۔ آمین
                  ●●●

جمعرات، 27 جنوری، 2022

ہم سب کا پاکستان بیٹھک/ رپورٹ

 
      "ہم سب کا پاکستان "بیٹھک
          رپورٹ: (ممتازملک ۔پیرس)













پیرس لاکورنیوو میں 25جنوری 2022ء بروز منگل رات 8 بجے ادارہ منہاج القران کے نوجوان  صدر بابر حسین اور پی ٹی آئی فرانس کے صدر ملک عابد صاحب نے ایک اہم کام کا بیڑا اٹھایا ۔  اور" ہم سب کا پاکستان" کے عنوان سے پیرس میں موجود مختلف نوعیت  کی  تنظیمات کی ایک اہم بیٹھک بلائی ۔ جس میں 32 تنظیمات کے صدور و نمائندگان نے شرکت کی ۔
 یہ اپنی نوعیت کی پہلی بیٹھک تھی جس میں بلاتخصیص خواتین و حضرات اور پسند ناپسند کے سبھی متحرک نمائندگان کو منہاج القران کے میڈیا سیل نے مخلصانہ انداز میں دعوت دی ۔  ان میں ادبی ، مذہبی، سیاسی، تفریحی ، کشمیری، کھیلوں کی، غرض کہ متنوع قسم کی تنظیمات کی نمائندگی نے ہمیں خوشگوار  حیرت میں ڈال دیا کہ پیرس میں اتنی ساری تنظیمات کہاں کہاں کیا کیا کام کر رہی ہیں ۔ یہ ہم سب کا ایکدوسرے سے پہلا باقاعدہ تعارف تھا ۔ دونوں کزن جماعتوں کے صدور بابر حسین اور ملک عابد نے مہمانوں کو ایک۔جھنڈے تلے متحد ہونے اور ہم سب کا پاکستان کے نعرے کیساتھ پاکستان کی نیک نامی اور کامیابی کے سفر کی دعوت دی جس میں کوئی جھنڈا اور کوئی  ذاتی نمود ونمائش آڑے نہ آنے پائے۔ اور خلوص دل کیساتھ دیار غیر میں اپنے اہم دنوں اور اہم مواقعوں کو ایکساتھ منا کر دنیا کو اپنی یکجہتی کا پیغام دیا جائے۔ سبھی تنظیمات کے صدور نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کہا اور وہ تنظیمات اور اہم دوست جو اس بیٹھک میں نہیں پہنچ سکے یا جن کو دعوت نہیں پہنچ پائی، انہیں بھی ان کے تحفظات دور کر کے آئندہ اس پلیٹ فارم پر لانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
اس بات کا اعلان بھی کیا گیا کہ ادارہ ہر طرح کی خدمات اور تنظیمات کے پروگراموں کے لیئے اپنی مدد کی یقین دہانی کراتا ہے ۔ ہم کسی بھی قسم کی مالی مدد اور چندوں کا مطالبہ بالکل نہیں کرہنگے۔  ہم سب کا پاکستان کے تحت صرف اور صرف پاکستانی بن کر اپنی سماجی خدمات سرانجام دینگے ۔   خواتین میں روحی بانو صدر پیپلز پارٹی ۔ ممتازملک صدر راہ ادب۔ شازملک صدر فرانس پاک رائیٹرز فورم ۔ نیناں خان نمائندہ کومل میک اپ  نے کمیونٹی کے نوجوانوں اور حضرات سے درخواست کی کہ اپنے رویئے کو اور سوچوں کو مثبت دائرے میں لائیے تاکہ ہماری خواتین جو قومی اور ادبی پروگرامز میں آنے سے جھجھکتی ہیں اور ہم اپنے گھروں میں اپنے آدھے وجود کو  عضو معطل کیطرح چھوڑ کر خود اپنی طاقت کو نصف کر لیتے ہیں اس کا سد باب کیا جا سکے ۔ اور ہر پلیٹ فارم سے خواتین کی عزت کا سبق بھی دیا جائے اور ان کی تربیت بھی کی جائے تاکہ ہماری محنتی اور باصلاحیت بیٹیاں اور خواتین اپنی کمیونٹی اور ملکوں فرانس اور پاکستان کے لیئے بلاجھجھک کھل کر اپنے خدمات سرانجام دے سکیں ۔ 
پروگرام بہت اہم نوعیت کا تھا ۔ عزائم بھی بہت بلند تھے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان عزائم کی تکمیل میں اپنی مدد سے نوازے آمین
پروگرام کے اختتام پر علامہ حسن میر قادری صاحب نے سب کی شرکت پر دلی شکریہ ادا کیا اور دعائے خیر و برکت کی۔   مہمانوں کو ایک پرتلف عشائیہ دیا گیا ۔ 
                   ●●●
 

بدھ، 26 جنوری، 2022

پہلا پنجابی مشاعرہ ۔ فرانس پاک رائیٹرز فورم/ رپورٹ

 فرانس پاک رائیٹرز فورم کا 
            
           پہلا پنجابی مشاعرہ 
         رپورٹ:( ممتازملک ۔پیرس)


  23 جنوری 2022ء بروز اتوار پیرس کے ایک مضافاتی ریسٹورنٹ میں میں معروف شاعرہ اور ناول نگار محترمہ شاز ملک صاحبہ نے اپنی ادبی  تنظیم "فرانس پاک رائٹرز فورم" کے تحت اپنے پہلے پنجابی مشاعرے کا انعقاد  کیا۔ خواتین کے لئے  پنجابی لک کا تھیم دیا گیا گیا جس نے اس پروگرام  میں رنگ بکھیر دیے ۔
نظامت کے فرائض شازملک اور طاہرہ سحر نے بخوبی سرانجام دیئے۔ مہمانان خصوصی میں شامل تھے عظمت نصیب گل، شاکر اکمل، منیر ملک ، ممتازملک اور سکھ ویر سنگھ۔۔  پروگرام کا آغاز قاری معظم کی خوبصورت تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ۔ جہاں پروگرام میں پیرس کے معروف شعراء کرام نے اپنی شاعری سے شرکاء کو محظوظ کیا  وہیں چھوٹے چھوٹے چٹکلوں نے محفل کو زعفران زار بنائے رکھا ۔ اس موقع پر  تنظیم "فرانس پاک رائیٹرز فورم " کے سرپرست اعلی جناب ملک سعید صاحب بھی شریک رہے ۔ جنہوں نے تمام شعراء کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور انہیں آئندہ بھی ایسے پروگراموں کے انعقاد کی ترغیب دی ۔ اور اس سلسلے میں سبھی ادبی تنظیمات کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پنجابی کلام سنانے والے شعراء میں معروف  نام یہ تھے ۔۔۔۔ عاشق حسین رندھاوی، آصف جاوید آصی، وقار ہاشمی، نبیلہ  آرزو ، عظمت نصیب گل، راجہ زعفران ، وقار بیگ، گلو کار و شاعر سکھ ویر سنگھ (نمائندہ پی ٹی سی پنجابی ٹی وی )، ممتازملک، شمیم خان صاحبہ  اور خود شاز ملک صاحبہ نے اپنے کلام سنا کر بھرپور داد سمیٹی۔ پروگرام  کی صدارت معروف شاعر جناب عاکف غنی صاحب  نے کی۔ ان کے کلام  کو بھی سب  نے بے حد سراہا اس کے علاوہ  پروگرام میں شریک معروف شاعرہ شمیم خان صاحبہ، شہلا رضوی ، نینا خان، ابوبکر گوندل، ملک منیر  اور سرپرست اعلی جناب ملک سعید صاحب  نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور تمام شعراء کو دل کھول کر داد دی ۔
پروگرام کی خاص بات معروف ناول نگار سرفراز بیگ  کی  پندرہ سالہ صاحبزادی پرنیا کا تعارف تھا جو انگلش اور فرانسیسی زبانوں میں شاعری کرتی ہیں اپنا ایک میوزک بینڈ بنا کر بہت حساس اور نوجوانوں سے متعلق  موضوعات پر شاعری اور گیت بنانے کی تیاری میں ہیں ۔ سب نے اس بچی کو نیک خواہشات اور دعاوں سے خوش آمدید کہا ۔  
 پروگرام کے اختتام پر ملک سعید صاحب اور انکی بیگم شاز ملک صاحبہ نے تمام  مہمانان گرامی اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔ میڈیا میں سے شاہزیب ، سلطان محمود، وقار ہاشمی کا شکریہ ادا کیا  اور
پرتکلف عشائیے سے مہمانوں کی تواضح کی ۔ 
                   ●●●

منگل، 25 جنوری، 2022

■ اتھرو سارے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا


اتھرو سارے
کلام:
(ممتازملک ۔پیرس)

خورے کدروں  آجاندے نے
اکھیاں دے وچ اتھرو سارے

مٹھیاں گلّاں کر کر ہر پل
توں وی کنے لوکی  مارے

اپنی جند تے جان تے ہارے 
ایہہ اپنا ایمان وی ہارے 

میرے بن نہیں چلنی دنیا
خوش فہمی اے اپنے بارے

او تے  ہو گئے سفنے کد دے
جیڑے چڑھ جاندے سی دارے 

خواباں دے محلاں دے باسی
دن وچ ویکھن غیبی تارے 

مان جنہاں تےآپ توں ود کے
ہن کدرے او سنگی سارے 

ممتاز توں فیدے چکن والے
ہن وی لک لک رون وچارے
●●●




جمعرات، 20 جنوری، 2022

■ ● کی پچھدے آو دل دا یار / پنجابی کلام۔ او جھلیا


کی پچھدے او دل دا یار
کلام:(ممتازملک۔پیرس)

دنیا دے نے رنگ ہزار 
کی پچھدے او دل دآ یآر 

ہر کوئی میرے دل نال کھیڈے
مطلب پا کے مارے ٹھیڈے 
ہور ٹٹے گا کنی وار 
کی پچھدے او دل دا یار 

چوٹھے دی کوئی ذات نہیں ہوندی 
ایس تو سچی بات نہیں ہوندی
ویچ  کے اپنا قول و قرار
کی پچھدے او دل دا یار 

کیویں نندراں پے جاندیاں نیں
ہس ہس گلاں کہہ جاندیاں نیں 
کھو کے ساڈا ہر اعتبار 
کی پچھدے او دل دا یار 

سارے دشمن رل جان تھائیں 
بچ جاویں تے بل جان تھائیں 
جے ممتاز توں اتریں پار
کی پچھدے او دل دا یار
              ●●●
              

اتوار، 16 جنوری، 2022

● برفیلی قبریں نااہل حکومت/کالم

       
       برفیلی قبریں نااہل حکومت
        تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)




مری حادثے پر سیاست نہ کی جائے۔۔۔ واقعی ۔۔بھول گئے کیا
کہ  یہ کام بھی اسی ہنڈسم اچھی انگریزی بولنے والے صاحب نے ہی قوم کو سکھایا یے کہ جو بھی غلط کام ہوتا ہے وہ حکومت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ آج لوگوں کو ورغلا ورغلا کر مری میں آو نظارے تمہارے منتظر ہیں ریکارڈ توڑ  دوخزانہ بھر دو گے ۔۔۔ کی میڈیا پر خبریں چلا چلا کر نااہل انتظامیہ اور انتظامات کی سچائی کیوں نہیں بتائی۔ 
کسی غیرت مند ملک کا حکمران ہوتا تو اپنی اس مجرمانہ غفلت پر خودکشی کر چکا ہوتا ۔ 
لیکن کہاں جناب یہ خوشی غیرت مند قوموں کے مقدر میں ہوتی ہے ۔
مطلب مٹی پاو 
لاشوں پر سیاست 
دھرنوں سے ملکی معیشت کی تباہی
خود کو صادق اور امین کہہ کر توہین رسول کرنا اور بھی بہت کچھ انہیں صاحب کی سوغاتیں ہیں ۔ انکے سکھائے ہوئے انکے آگے آئے تو یہ سیاست ہو گئی کل تک تو یہ انقلاب اور درس تبدیلی نہیں تھا 🤔 پچھلے دو سال لوگوں نے مری والوں کے رویے کے خلاف ایسا ہی احتجاج کر رکھا تھا جب خواتین کو وہاں ہراساں کیئے جانے اور لوگوں کی بدتمیزویوں کے واقعات عروج پر پہنچ گئے تھے ۔ لیکن حکومت نے میڈیا پر جعلی ایفیشنسی کے ڈھول بجا بجا کر لوگوں کو پھر وہاں جانے پر اکسایا۔ کیونکہ اصل میں ڈاکو راج برائے ہوٹلز،  ریسٹورنٹس ، ریسٹ ہاوسز کسی عام آدمی کے تو ہیں نہیں ۔ یہ کرپشن کے گڑھ صاحب اختیار لوگوں کی ہی ملکیت ہیں اور اس کا خسارہ حکومت کو کیسے منظور ہوسکتا ہے؟ آخر کو فی کمرہ ڈھائی سو روپے کا ٹیکس جو قومی خزانے میں بھرا جاتا ہے۔ لیکن بوقت ضرورت ہزاروں روپے فی کمرہ 50 سے 70 ہزار روپے تک  غلطی سے مری جیسے علاقے میں آنے والوں کی جیبوں سے نچوڑا جاتا ہے۔ 
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری نااہل حکومتوں کو اور  ہمیں اگلے حادثے کے انضرورت نہ پڑے کہ انفراسٹرکچر کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ پلوں اور سڑکوں سے ترقی نہیں ہوتی؟ میٹرو کی کیا ضرورت ہے؟ اور عمارتیں گلیاں نالیاں، نالے، نکاسی کے انتظام، کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کی ضرورت آخر ہے ہی کیوں ؟ مری میں ہزاروں لوگوں کی اموات وہاں انہیں چیزوں کے نہ ہونے اور مقامی لوگوں کی بے حسی اور موقع پرستی کے سبب ہوئی ۔ جسے بیس بائیس اموات کہہ کر اپنے قومی جرم کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کیا ایک سے ڈیڑھ لاکھ گاڑہوں میں ایک ایک فرد سوار تھا؟ 
پاکستانی سیاحوں کی اکثریت مڈل کلاس طبقے سے ہوتی ہے جو یا تو دوست یا فیملی مل کر کرائے کی گاڑی یا کسی کی مانگی ہوئی ادھار کی گاڑی میں ایسی سیر کا بندوبست کرتے ہیں اور اکثر پانچ سیٹوں پر سات آٹھ لوگ بھی ٹھس ٹھس کر بیٹھتے ہیں ۔ اس حساب سے ان گاڑیوں میں سوار افراد کی تعداد کتنے لاکھ ہوئی؟ پھر مری کے پیسے کے عاشق مہربان مقامیوں نے کیا ان لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں میں مفتے میں پناہ دیدی۔ ۔۔۔ مطلب ایسا نہیں ہوا تھا اسی لیئے مجبورا ان معصوم لوگوں ( جیب میں آنے جانے کے حساب کی گنتی کی رقم لیکر چلنے والوں) کو اپنی گاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اور سادہ سی حساب سے ہی سمجھ میں آ جائے گا کہ اموات سینکڑوں اور ہزاروں میں ہوئی ہونگی۔  یہی گاڑیاں انکی ٹھنڈی قبریں بن گئیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 
اب جو کہتے ہیں کہ حکومت خطرے سے الرٹ کر رہی تھی تو ان تاریخوں کی ٹوئیٹس اور خبریں سن پڑھ لیجیئے جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ 
حکومت الرٹ نہیں کر رہی تھی گاڑیاں گن گن کر بغلیں بجا رہی تھی۔ وہ کہانی کار نے خوب لکھا تھا کہ لفنگوں نے مشٹنڈے کے کہنے پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیئے تھے۔
                 ●●●

جمعرات، 13 جنوری، 2022

● پل جاتی ہیں/ شاعری


آرزوئیں معصوم ہیں 
(کلام: ممتازملک ۔پیرس)

خون جماتی سردی میں کر شل جاتی ہیں 
 بے گھر اور مفلوک نگاہیں کھل جاتی ہیں 

آتے جاتے لوگ رحم کھاتے ہیں مجھ پر
سانسیں چند سکوں میں میری ڈھل جاتی ہیں
 
اس نے کہا کیا لینا تیرا خوشیوں سے ہے
یہ تو شکم سیروں کو دے کر بل جاتی ہیں 

میں نے کہا نہ اس پہ اجارہ داری ہو گی 
آرزوئیں معصوم ہیں ہر جاء پل جاتی ہیں 

میرے بوسیدہ سے کمبل کی موری سے 
جھانکتی ہیں جو چاہتیں اکثر جل جاتی ہیں 

آنکھ میں پانی دل میرا صحراوں جیسا 
اس کا سمندر پی یہ سارا تھل جاتی ہیں 

روشنی کی ممتاز دعائیں کیا دیں انکو
اپنی کالک دوجے کے منہ مل جاتی ہیں 
                ●●●

منگل، 4 جنوری، 2022

● رپورٹ ۔ پاک فرانس رائیٹرز فورم کا قیام۔



رپورٹ :
(ممتازملک ۔پیرس)

معروف شاعرہ و ناول نگار محترمہ شازملک صاحبہ نے 2 جنوری 2022ء بروز اتوار اپنی ادبی تنظیم "  فرانس پاک انٹرنیشنل رائٹرز فورم "  کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا اور اس کے تحت پیرس کے ایک معروف ریسٹورنٹ میں  نہایت شاندار اردو و پنجابی مشاعرے کا انعقاد کیا ۔ جس میں پیرس میں موجود تقریبا تمام ادبی تنظیمات کے شعراءکرام کی نمائندگی موجود تھی ۔ پروگرام کی نظامت شاز ملک اور طاہرہ سحر نے بخوبی انجام دیئے۔ پروگرام کا باقاعدہ  آغاز آن دیسی ٹی وی اور نیوز33 کے سی وی او اور معروف پنجابی شاعر وقار ہاشمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ غزالہ یاسمین نے نعت رسول مقبول پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔ پروگرام کی صدارت معروف پنجابی شاعر جناب عظمت نصیب گل صاحب نے کی ۔ جبکہ مہمانان خصوصی میں راہ ادب کی صدر محترمہ ممتازملک ، پی ٹی سی پنجابی کے نمائندہ جناب ویر سنگھ صاحب، سماجی اور سیاسی رہنما محترمہ روحی بانو صاحبہ ، راجہ زعفران صاحب  اور بزم سخن کے صدر معروف شاعر جناب عاکف غنی صاحب شامل تھے۔ 
جبکہ شعراء کرام میں عظمت نصیب گل، ممتازملک، عاکف غنی ، عاشق حسین رندھاوی، آصف جاوید ،  وقار بیگ ، شازملک ، وقار ہاشمی، روحی بانو نبیلہ آرزو اور راجہ زعفران  نے اپنے خوبصورت کلام سنا کر  حاضرین سے داد سمیٹی ۔ جبکہ طاہرہ سحر صاحبہ کی پہلی شعری کوشش کو بھی حاضرین نے سراہا۔ 
پروگرام کا ماحول چھوٹے چھوٹے جملوں اور چٹکلوں سے بہت خوشگوار رہا ۔ فرانس پاک رائیٹرز فورم کے سرپرست اعلی ملک سعید صاحب کے لیئے نیک کلمات کا تبادلہ ہوآ ۔ پروگرام کے آخر میں شاز ملک صاحبہ جو کہ اس فورم کی بانی و صدر بھی ہیں نے اس فورم کے اغراض و مقاصد سے حاضر کو آگاہ کیا اور باقی ادبی تنظیمات کو بھی ساتھ لیکر چلنے کا عزم ظاہر کیا اور اپنی خدمات سے انہیں مستفید کرتے رہنے  کی یقین دہانی کروائی ۔ 
پروگرام کے آخر میں میڈیا کے دوستوں شبانہ چوہدری ، ناصرہ خان اور معروف فیشن ڈیزائینر نینا خان صاحبہ نے فورم کے لیئے نیک خواہشات و خیالات کا اظہار کیا ۔ جبکہ سلطان محمود، وقار ہاشمی نے آڈیو ویڈیو اور تصاویر بنانے میں اپنی خدمات پیش کیں ۔ پروگرام کے بعد مہمانوں کو لذید اور پرتکلف عشائیہ دیا گیا ۔  یوں ہنستے مسکراتے سال نو 2022ء کی مبارکباد اور دعاوں کے ساتھ ایک نئے عزم کے ساتھ مہمانان گرامی رخصت ہوئے ۔ 
                          ●●●









ہفتہ، 1 جنوری، 2022

● بھنانے ‏چلے ‏/ ‏شاعری ‏۔ ‏


بھنانے چلے

ہم نےجانا کہ ردی کے بھاو نہیں 
کیش جب زندگی کا بھنانے چلے

لوگ پاگل کہیں نہ تو پھر کیا کہیں 
غم کے طوفان میں مسکرانے چلے

ساری بستی کو آتش زدہ کر کے وہ
جگنووں کی طرح ٹمٹمانے چلے

اپنے اندر کی حالت سے ہیں باخبر
دیکھو کتنی ہے وقعت بتانے چلے

ایک اک کر کے گرنے لگے جو نقاب
اپنے چہرے کی خفت مٹانے چلے

قہقہے اسطرح کب اگے ہیں کہیں
سسکیاں ریت میں جو دبانے چلے

تیرا ممتاز گھڑیوں کا ہے کاروبار 
وقت کاہے کو اپنا گنوانے چلے
              ●●●              

اتوار، 19 دسمبر، 2021

گھر ‏میں ‏آ ‏گیا۔ ‏طرحی ‏غزل ‏نامکمل ‏


ادب نما کے زیر اہتمام مصرع طرح 
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا "
پر طرحی مشاعرہ چل رہا ہے 
 قوافی : لشکر محور منظر محشر  وغیرہ 
ردیف : میں آگیا

وہ خواب تھا جو سوچ کے محور میں آ گیا
اک روز  سامنے میرے منظر میں آ گیا 

پیچھا چھڑا کے جس سے جہاں سے گزر گئے
وہ ہی خدائی خوار تو محشر میں آ گیا 

اب ہار جانے کا ہمیں پختہ یقین ہے
وہ جان جاں حریف کے لشکر میں آ گیا 

پیکر میں آ گیا



جمعرات، 16 دسمبر، 2021

✔ ● بہاریوں کو سلام محبت ❤/ کالم۔ لوح غیر محفوظ






16 دسمبر 1971ء 
خون آشام تاریخ ۔۔۔کسی نے کیا ۔۔۔۔کسی نے بھگتا۔۔۔

سقوط ڈھاکا کے 50 سال مکمل ہوئے۔
مکتی باہنی کی بھارتی سازشوں کی کامیابی کے 50 سال
بنگلہ دیش میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور لاکھوں بہاریوں کی پاکستان سے محبت کے جرم میں لازوال قربانیوں کے 50 سال 
سر کٹائے۔۔۔۔سولی چڑھے۔۔۔۔ عزتیں لٹوائیں ۔۔۔ کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے مگر نعرہ ایک ہی رہا۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد
دنیا بھر میں آباد بہاریوں کو سلام محبت❤
پاکستان سے محبت کے معاملے  میں ہم آپ سے مقابلے میں صفر سے بھی نیچے کھڑے ہیں ۔ کاش اس محبت اور وفاداری کا ہزارواں حصہ بھی ہمیں نصیب ہو جاتا تو آج ہمارے نام نہاد کارٹون لیڈران ہماری غیرت و حمیت و معیشت سے فٹبال کبھی نہ کھیل رہے ہوتے ۔
1971 ء میں بھارتی سازشوں نے اپنی زرخرید جماعت مکنی باہنی کے ذریعے دنیا کی تاریخ کا  سب سے غلیظ کھیل کھیلا ۔ پاک فوج کے خلاف بنگالیوں کو سالہا سال تک بھڑکایا گیا ۔ رہی سہی کسر مغربی موجودہ پاکستان کے سیاسی پتلی تماشا کرنے والوں کی بیوقوفیوں اور  خود سری نے پوری کر دی۔ بزدل اور عیاش جرنیلوں نے فوج کی ضروریات کے بجائے نئی ٹیکنالوجیز اور فن حرب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے شراب و کباب عاشقیوں معشوقیوں پر ایسی توجہ دی کہ اس گھر پاکستان کا آدھا حصہ انکی شراب کے ریلے میں بہہ گیا اور گھنگھرووں کی چھنکار میں بنگالیوں کی مظلوم چیخیں دفن ہو گئیں ۔ ہائےےےےےے کیا ظلم ہوا ۔ 
جب نوے ہزار بہادر پاکستانی فوج نے اپنے جرنیلوں کی بےغیرتی اوربزدلی کی قیمت اپنے سر جھکا کر ہتھیار پھینک کر چکائی تھی۔ 
مکتی باہنی پاک فوج کی وردی میں مظلوم بنگالیوں کی عزتوں اور جانوں سے خون کی ہولی کھیلتی رہی اور گالی پاک فوج کے حصے میں لکھی گئی۔ بی بی سی ریڈیو کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے ساری دنیا کی رائے کو پاکستان کے خلاف خوب ہموار کیا ۔ بھارت کی پشت پناہی کی۔ اس کے جنگی جرائم پر مکاری کے پردے ڈالے ۔ اور ان کے نمائندگان کانوں میں روئی ٹھونس کر جانے کیسے سو بھی جاتے تھے؟ 
کیسے نیند آ جاتی ہو گی انہیں اس بے ضمیری میں ؟ لیکن قدرت کا کھیل دیکھیئے  ہر سچ کو ایک دن بے نقاب ہونا ہی ہوتا ہے۔ سو آج  یہ سچائیاں جان کر ہی تو آج بھی وہ بنگالی پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ اردو سے محبت کرتے ہیں ۔ ان کے گلے لگ کر سیاسی شعبدہ بازوں کے ضمیر کی موت کا پرسہ دیتے ہیں ۔ ایکدوسرے کی  ہر تکلیف پر یہ دونوں آج بھی دکھی ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت کو انکے دلوں سے نہ مکتی باہنی نکال پائی۔ نہ  بنگلہ دیشی حکومتوں کی بھارتی ایجنڈے کی پاسبانی نکال پائی۔ 
دل سے ایک ہی  آواز  دونوں جانب سے ابھرتی رہی۔۔۔
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم چالیس لاکھ افغانیوں کو انکی تمام تر بے وفائیوں سمیت اپنی زمین پر پناہ دے سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے 3 لاکھ بہاریوں کو پاکستان لا کر آباد کرنے کا وعدہ کبھی وفا نہیں کیا ۔ انکی لازوال محبت ہماری زمین پر اپنی جگہ نہیں پا سکی لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ تڑپ جگاتی رہی ہے۔ اب بھی اگر انہیں پاکستان کی زمین نے قبول نہ کیا تو انکے بہت سے آباء جو منوں مٹی تلے جا سوئے انکی دوسری نسل بھی ان اذیتوں کا شکار ہو کر ہماری وفا پر  سوالیہ نشان  نہ لگا جائیں ۔
               ●●●

ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن / کالم

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن
تحریر؛ ممتازملک ۔پیرس

ہر روز ٹی وی پر بیٹھے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین کا تماشا لگا رہتا ہے آج کل تماشے کا موضوع ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ووٹ کاسٹ ہونے کا حق تارکین وطن کو دیا جا رہا ہے ۔ سو اس کی مخالفت میں اپوزیشن اپنا بینڈ بجاتی ہے تو حکومت اپنا ڈھول پیٹتی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی کام کی اور مطلب کی بات پر کوئی مناسب نقطہ نظر پیش کر پایا ہو ۔ وہ بات جو مجھ جیسی   عام سی تعلیم و عقل رکھنے والی کو بھی سمجھ میں آ جاتی ہے وہ ان عالم فاضلین کی زبان پر کیوں نہیں آ رہی ۔ اس لیئے اپنی رائے اسی موضوع پر دینا مجھے ضروری لگا ۔ ہوسکتا ہے کسی کے دل میں خدا کا خوف بیدار ہو جائے اور کوئی صاحب اختیار اس پر غور فرمانے کی زحمت فرما لے۔ 
ویسے تو مشین کے ذریعے ووٹنگ تارکین وطن پاکستانی عوام کے لیئے استعمال ہونے جا رہی ہے ، یہ بہت اچھی بات ضرور ہوتی اس صورت میں جب سو فیصد  پاکستانی تعلیم یافتہ ہوتے ۔ اور اس مشین کے بلکہ اپنے ووٹ کے حق کو اہم سمجھتے اور اس کی افادیت سے آ گاہ ہوتے ۔ امریکہ میں ہو سکتا ہے کہ تارکین وطن کو یہ سہولت ملے تو اس کی افادیت زیادہ ہو وہ بھی تب جب ہمارے پاکستانی سفارت خانوں نے دھڑا دھڑا غیر پاکستانوں کو بھی پاکستانی شناختی کارڈز یا پاسپیورٹ دھوکے سے بے ایمانی سے نہ بیچے ہوتے ۔ کیا ہمارے سفارتخانوں میں ایسی چوریاں اور دو نمبر دستاویزات بنانے کے کیسز کبھی سامنے نہیں آئے؟ ۔ ایسے میں وہ بھارتی افغانی اور دوسری قومیتوں کے لوگ اس ووٹنگ کے حق کو پاکستان میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو لانے کی کوشش نپیں کرینگے؟ جبکہ ایسی دستاویزات میں اس بڑے پیمانے پر ہیرپھیر اور ڈاکہ زنی کی ہی اس مقصد سے جاتی ہے؟  دوسرا نقطہ ہمارے ہاں یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت جاہل یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ جیب میں ڈیڑھ ہزار یورو کا موبائل تو رکھتے ہیں لیکن بڑی شان سے محفل میں بتاتے ہیں کہ بھائی مجھے تو میسج کرنا بھی نہیں آتا ۔ ایسے افراد کو جب ووٹ کا حق دینا ہو تو پچھلے کچھ عرصے میں ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کی دھاندلیوں کو ہی مثال بنا لیجیئے ۔ جہاں اکثر ممالک میں بااختیار اور کھڑپینچ لوگوں کے  سوسو دو دوسو لوگوں کے کارڈرز سے بذات خود ووٹ کاسٹ کیا اورگنٹی پو گئی اس ووٹر کے کھاتے میں جس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ اس کا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کیا جا چکا ہے ۔ ایسے میں بائیس کروڑ وہ عوام جو براہ راست اپنے ملک کے حالات سے متاثر ہو رہے ہیں ان کے فیصلوں پر اس طرح سے واردات کرنا کیا ایک اورظلم عظیم نہیں ہو گا؟ محض کرسی سے چپکے رہنے کے لیئے اپنی مرضی کے قوانین بنوانا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو اختیارات دینا پھر نئے نئے شوشے بغیر کسی قومی ڈیبیٹ کے چھوڑ دینا آخر کب تک ۔۔۔ کب تک ہر حکمران سابقہ حکمران سے بڑا ڈاکو بننے کی روش کو برقرار رکھے گا؟ خدا کے لیئے اپنی عمروں کا ہی لحاظ کر لیجیئے ، اپنی کوئی عزت ہی بنا لیجیئے ۔کوئی دو چار اچھے کام اس ملک کے مفادات کے مطابق  کر کے ۔ اس کرسی پر آنے والے ہر شخص نے خود کو خدا سمجھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کی عزت اور معیشت سے کھیلنے والے کو نہ کبھی سکون حاصل ہو سکا اور نہ ہی عزت۔ وہ ہمیشہ عبرت کا نشان ہی بنے ہیں ۔ بزرگوں نے سچ ہی کہا تھا کہ بیٹا دولت تو کنجر بھی بہت کما لیتے ہیں لیکن عزت کمانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیئے وہ کماو جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور  جو اس دنیا سے جاتے وقت بھی تمہارے ساتھ ہی جا سکے۔
                   ●●●

پیر، 8 نومبر، 2021

عید میلادالنبی کی بڑی اور یادگار تقریب/ رپورٹ ۔ ممتازملک۔پیرس


عید میلادالنبی کی بڑی اور یادگار تقریب
تحریر:
      (ممتازملک پیرس)


7نومبر 2021ء بروز اتوار عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں فرانس میں مقیم معروف شاعرہ و ناول نگار محترمہ شازملک صاحبہ نے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا ۔ جس کی مہمان خصوصی فرانس میں قائم مقام سفیر پاکستان قاضی امجد عزیز کی اہلیہ محترمہ حمیرا قاضی صاحبہ تھیں  ۔
پروگام کا آغاز زویا عمر کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ حمد باری تعالی کی سعادت ندا عمر کو حاصل ہوئی ۔
پروگرام میں پیرس میں معروف خواتین  نعت خوانوں نے نعتیہ کلام سے سماں باندھ دیا ۔ پروگرام میں خواتین کی بہت بڑی تعداد میں شرکت نے پروگرام کو یادگار بنا دیا ۔ جس پر پروگرام کی آرگنائزر محترمہ روحی بانو صاحبہ کو مبارکباد پیش کی گئی۔ پروگرام میں شازملک صاحبہ نے اپنی ادبی ایسوسی ایشن کو "فرانس پاک رائٹرز ایسوسی ایشن " کے نام سے متعارف کروایا ۔ اور آئندہ اسی ایسوسی ایشن کے نام سے ہی ادبی پروگرامز کے انعقاد کا اعلان کیا ۔ جس میں خواتین ہی کے لیئے پروگرامز کروانے کو فوقیت دی جائیگی۔ پروگرام کی مہمان خصوصی حمیرا قاضی صاحبہ نے اپنے پیغام میں خواتین پر زور دیا کہ اسلام کو صرف ہمارے پروگراموں تک  ہی محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے   ہماری عملی زندگی میں بھی دکھائی دینا چاہیئے ۔ اور ایک اچھے انسان اور مسلمان کے طور پر ہماری تصویر ابھر کر سامنے آنی چاہیئے۔ پروگرام میں خواتین نعت خوانوں میں ستارہ ملک ۔ معروف شاعرہ و کالم نگار اور راہ ادب کی صدر محترمہ ممتازملک صاحبہ کے علاوہ جن خواتین نے نعتیہ کلام پیش کیا اور اظہار خیال کیا انکے نام ہیں سمیرا سسٹرز۔ اقصی۔ نیناخان ۔ ناصرہ خان۔ آصفہ ہاشمی ۔تنظیم  لے فام دو موند کی   شمیم خان صاحبہ ۔ شمیم ظہور ،  غزالہ یاسمین ۔ فردوس  ،  ثریا ارشد  ،     سعدیہ شاہ  ، ناہید  ،  آفرین ، شیمی ، اقرا  ، مہک اور غزالہ شامل تھیں۔ 
پروگرام کی آرگنائزر روحی بانو نے ملکی سلامتی خوشحالی اور کورونا وائرس سے نجات کے لیئے دعا خیر کی ۔
پروگرام کے اختتام پر سلام بحضور سرور کونین  سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا گیا ۔ 
ایس ایم ٹیکسٹائل کی جانب سے تمام مہماناں گرامی اور نعت خواں بچیوں اور خواتین میں دوپٹے تسبیحات اور جائے نماز تقسیم کیئے گئے ۔
یوں یہ پروقار اور ایمان افروز تقریب   فرانس پاک انٹرنیشنل رائیٹرز فورم کے سر پرست اعلی ملک محمد سعید کی جانب سے دیئے گئے شاندار عشایہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ 
                         ●●●

پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں 













                       ●●●



بدھ، 3 نومبر، 2021

● مسکراہٹیں بکھیرنے والے/ کالم

        مسکراہٹیں بکھیرنے والے
      تحریر:
                (ممتازملک ۔پیرس)



منور ظریف، رنگیلا، عمرشریف ‏، معین ‏اختر، امان ‏اللہ، ببو برال، مستانہ ، البیلا، شوکی خان اور ان جیسے بہت سے نامور کامیڈینز ۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ گھروں سے فاقہ مستیاں اور بدحالیاں دیکھ کر ہوش سنبھالنے والے بچپن سے گزرے۔ 
اکثر کو تو سکول کا منہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ان میں سے ہر ایک بچہ بھوک و افلاس کی گود سے اٹھ کر  نشئی تماشائی نہیں بنا چور اور لٹیرا نہیں بنا ۔ اپنے وقت کو بدلنے کے لیئے انہوں نے کوئی شارٹ کٹ نہیں اپنایا ۔ اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑ کر اس نے دکھی لوگوں کو مسکراہٹیں بانٹیں ۔ ان کی تو پوری زندگی ایک روشن مثال ہے ۔  حکومت سندھ نے عمر شریف کی تدفین انکی خواہس پر کی تو وہاں کی ایک سڑک کو بھی انکے نام سے منسوب کر دیا ۔ جس پر کچھ دل جلوں کو شدید اعتراض ہوا ۔ان سب سے سوال ہے کہ
ہمارے ہاں منافق معاشرے میں  تو لوگ سگے ماں باپ کے مسکراہٹ چھین کر جوان ہوتے ہیں وہاں عمر شرہف جیسے لوگ ہمیں پھر سے مسکرا کر زندگی میں آ گے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اس لیئے میں حکومتی فیصلہ کی تائید کرتی ہوں ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے  ۔ 
مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بچے کو بھانڈ میراثی بنانا پسند کرینگی؟ تو ان سب کو  میرا یہی  جواب ہے کہ
ایک دہشت گرد بننے سے ، سمگلر بننے سے، قاتل و زانی  بنبے سے،  چور اور ڈکیت بننے سے  کروڑہا بار اچھا ہے کہ انسان ایک ایسا بھانڈ میراثی ہی بن جائے۔ جو اس معیار پر شگفتگی کو لیجائے، جنہوں نے اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑے اور دنیا کے غموں کو ہلکا کرنے کے لیئےانہیں اپنی شگفتگی کا کندھا پیش کردیا۔
دنیا میں ان کی زبان جاننے والے اردو پنجابی ہندی بولنے اور سمجھنے والے ان کے اس خزانے سے ہمیشہ خوشیوں کے موتی چنتے رہینگے۔  اور اپنے غموں سے باہر نکلنے کے لیئے ان  کی زندگیوں کو روشن مثال بنا کر اپنے سامنے رکھیں گے ۔ آج ہی  کے کیا ہر دور میں جہاں ماں باپ کی جدائی یا وفات کا یا غربت کا بہانہ بنا کر اولادیں نشے تماشے اور بدکاریوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ جہاں جرائم کی دنیا کے یہ استاد بن کر ساری زندگی لوگوں کے  لیئے بدنامی اور عذاب بن جایا کرتے ہیں ۔ جہاں ان کی دہشت اور  بدنامیوں سے تنگ انکے اپنے بھی انکے نام کیساتھ اپنا نام جوڑنا پسند نہیں کرتے وہاں ان  ناموں کے مسکراتے چراغ ہمیشہ روشنی بکھیرتے رہی گے۔ جگنو بنکر راستہ دکھاتے ہیں گے ۔ کسی نے 4 سال کی عمر سے مزدوری کی ۔ کسی بے جوتے پالش کیئے۔ کسی نے اخبار بیچے۔ کسی نے بسوں میں میٹھی گولیاں بیچیں ۔ کبھی کام نہ ملا تو راتوں کو بھوکے پیٹ میٹھے سپنوں کے سہارے بسر کر لیا۔ لیکن خود کو کبھی کہیں گرنے نہیں دیا ۔چوریاں نہیں کیں ۔ کسی کی جیب نہیں کاٹی ۔ کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا ۔ کسی امیر آدمی کی بیٹی کو بہلا ہھسلا کر اسے گھر سے زیورات لانے کا کہہ کر اسے کسی کوٹھے پر  نہیں بیچا ۔ گھر داماد بنکر کسی کے مال مفت پر آرزوں کے مینار کھڑے نہیں کیئے ۔ بلکہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ پر توکل کیئے ہر محنت مشقت کے بعد اپنے شوق میں ہی اپنا رزق تلاش کرتے رہے اور یوں اللہ کو ان پر جب پیار آیا تو اس نے انہیں ان کی نیتوں اورمحبتوں کا ثمر چھپر پھاڑ کر دیا ۔ دنیا میں انہیں ان کے فن مزاح کا وہ مرتبہ عطا کیا کہ جس کا تصور کوئی بڑے سے بڑا اعلی تعلیم یافتہ مزاح نگار بھیں نہیں کر سکتا  ۔ یہ بچے جنہیں اسکول کا منہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا انہیں ان کے مطالعے اور لوگوں کو انکی حرکات و سکنات کو پڑھنے اور انہیں اپنے زہن میں اتارنے کی خوبی نے اوج ٹریا تک پہنچا دیا ۔اب جو بھی کوئی مزاح کے میدان میں آئے گا وہ ان سب سے ہی ان کے کام سے سیکھ کر ہی آئے تو آئے وگرنہ ان جیسا کام اب اور کسی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ کرم خاص خاص لوگوں ہر ہی ہوا کرتے ہیں ۔اور ایسے لوگ صدیوں ہی میں کہیں پیدا ہوا کرتے ہیں ۔بیمثال ۔ بہترین ۔ نایاب اور کامیاب  لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔
                       ●●●

جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

● کیوں اعتبار نہیں /کالم


کیوں اعتبار نہیں ؟
تحریر:(ممتازملک۔ پیرس)

کیا وجہ ہے آجکل کی اولاد اور خاص طور پر ٹین ایج بچے آخر اپنے والدین پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قول و فعل پر غور کیجیئے ۔ یاد کیجیئے کیا آپ اپنے بچوں سے وعدے کر کے انہیں توڑتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنی باتوں سے مکرتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں پر کسی بھی دوسرے کو خصوصا اپنے بھائی بہنوں کے بچوں کو ترجیح دیتے رہے ہیں ؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کی کوئی خوشی کا  یا کوئی خاص موقع کسی دوسرے کے لیئے ضائع  یا نظر انداز کیا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کی کوئی چیز اس کو بتائے بغیر اٹھا کر اپنے کسی دوست یا عزیز یا اسکے بچے کو دی ہے؟
یہ سب باتیں اور اس جیسی ہی دوسری مختلف باتیں جنہیں آپ شاید  معمولی سمجھ سکتے ہوں یا آپ کے لیئے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتی ہوں  لیکن ایک بچہ جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے  دنیا میں آیا ہے اس کا ہر منٹ اور ہر لمحہ صرف آپ پر انحصار کرتا ہے ۔ جس کے لیئے دنیا کی ہر بات ہر چیز  نئی ہے ۔ ہر کام اس کے لیئے پہلی بار ہو رہا ہے ۔ جس کی دنیا ہی صرف آپ ہیں۔ اس کے لیئے یہ سوالات اس نتیجے پر پہنچنے والا امتحانی پرچہ ہیں ۔ جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے لیئے قابل اعتبار ہیں یا نہیں ہیں ۔ آپ اسے اپنے محافظ محسوس ہونگے یا پھر غاصب۔ اس  کا نتیجہ بہرحال دو ہی صورتوں میں سامنے آیا ہے یا پاس یا فیل ۔ تیسری کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے ۔آپ کا والدین بننا ہی آپ کو اس امتحان گاہ میں بٹھانے کا آغاز ہوا کرتا ہے۔ یہ امتحان کم از کم 18 سال پر محیط ہونے جا رہا ہے ۔ اس وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیجیئے۔ یہ وقت آپ کے اور آپ کے بچے کے بیچ پل بننے جا رہا ہے ۔ اور آپ کبھی نہیں چاپیں گے کہ یہ  پل اتنا کمزور ہو کہ اس پر پاوں رکھتے ہوئے آپ کا دل دہلتا رہے کہ اب ٹوٹا کہ کب ٹوٹا۔ 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ آپ پر اعتبار کرے تو خود کو قابل اعتبار ثابت کیجیئے ۔ کیسے؟  وہ ایسے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں اس کے وجود کو اور اس بات کو تسلیم کیجیئے کہ اسکی اپنی ایک مکمل شخصیت، سوچ اور ذات ہے ۔ اس کی پرورش آپ کا فرض اور اس بچے کا آپ پر پہلا حق ہے ۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق اسے زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہوئے پروان چڑہایئے ۔ اس سے کبھی کوئی وعدہ اپنی ہمت سے بڑھ کر مت کیجیئے۔ اسے حفاظت دیجیئے لیکن اسے کاغذ کہ کشتی مت بنایئے جو پانی کے دھاروں میں ہی ملیامیٹ ہو جائے ۔ اسے سخت جان بنایئے یہ بات سمجھاتے ہوئے کہ میرے اس عمل سے تمہیں گزارنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے ۔  اپنی مالی حالت کو بچوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کیجیئے ۔ جو ہے اس میں خوش رہنا سکھایئے ۔ ان کی کوئی بھی بات راز یا چیز جو آپ کے پاس ہے اسے اس کی امانت سمجھ کر ایمانداری کیساتھ محفوظ رکھیئے۔  اس سے پوچھے بنا بلکہ اس کی رضامندی کے بنا اس کی کوئی چیز اس کے ہی کسی بہن بھائی کو بھی مت دیجیئے ۔ اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے بچوں کو بار بار اس کے سامنے رول ماڈل بنا کر اسکے سامنے پیش کرنے سے اجتناب برتیں کیونکہ آپ اصل میں ان کا وہی روپ دیکھ رہے ہیں جو وہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے آپ کا بچہ اس کے ہم عمر ہونے یا دوست ہونے کے سبب وہ اصلیت جانتا ہو جس کے بارے میں آپ سوچ بھی نہ سکتے ہوں ۔ اس لیئے آپ کا اسکے ساتھ اپنے بچے کا تقابل آپ کے بچے کے سامنے آپ کی ہی سمجھداری پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے اور وہ آپ کی صلاح لینا غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔ اس کی چیزیں اس کی مرضی کے بغیر کسی کو دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ آپ اس کی حفاظت کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ یہی وجوہات ہیں جس کے سبب اس عمر کے بچے اپنے والدین سے خائف رہتے ہیں یا پھر ان سے اپنے معاملات بانٹنا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر رشتے میں  خود پر اعتبار جیتنا پڑتا ہے اور خاص طور پر اپنے بچوں کا اعتبار جیتنا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔  
                  ●●●

جمعہ، 22 اکتوبر، 2021

نعت ۔ تاثیر ہوئی / اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم




تاثیر
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

    
یا نبی آپ ہی کے نام کی تاثیر ہوئی
ساری دنیا میں شناسائیء تحریر ہوئی

جس جگہ پاؤں بھی دھرنے کو نہ امکاں تھا کبھی
آپکے صدقے میں اس جاء میری جاگیر 
ہوئی

آپ نے کب میری کوئی بھی دعا رد کی ہے
مجھ سے ہی کوئی طلب کرنے میں تاخیر ہوئی 

مجھ کو ہی بات نہ کرنے کی ادا آتی تھی
یہ کرم ہے میری خاموشی بھی تقریر ہوئی

اڑ کے پڑ جائے جو سر میں کہے ممتاز سدا
خاک پاء آپ کی میرے لیئے توقیر ہوئی
     ......

پیر، 18 اکتوبر، 2021

● محور میں آ گیا/ شاعری


( مصرعہ طرح : 
دستک دیئے بغیر میرے گھر میں آ گیا )
        
وہ خواب تھا جو سوچ کے محور میں آ گیا
اک روز  سامنے میرے منظر میں آ گیا 

ہنس کر اسے جو دیکھا برابر میں آ گیا 
دستک دیئے بغیر میرے گھر میں آ گیا 

پیچھا چھڑا کے جس سے جہاں سے گزر گئے
وہ ہی خدائی خوار تو محشر میں آ گیا 

اب ہار جانے کا ہمیں پختہ یقین ہے
وہ جان جاں حریف کے لشکر میں آ گیا

آنکھیں چھلک پڑیں جو بہانہ ملا انہیں 
طوفان غم کا دل کے سمندر میں آگیا

کتنی سیاہیاں ہوئیں پوشیدہ  رات میں
آنچل میں اسکے شر نئے پیکر میں آ گیا 

ممتاز وہ  گناہ بڑا معتبر رہا
جو اہل اقتدار کے بستر میں آ گیا 
                ●●●
کلام
ممتازملک ۔پیرس

اتوار، 17 اکتوبر، 2021

ناشکری قوم کے صادق اور امین وزیر اعظم کا خطاب/کالم



ناشکری قوم کے صادق اور امین وزیر اعظم 😜 کا خطاب
تحریر:(ممتازملک۔پیرس)

تیل مہنگا آٹا دال چاول گھی چینی سب مہنگا ہے تو کیا ہوا اے ناقدری پاکستانی قوم تمہارا وزیر اعظم انگریزی تو اچھی بولتا ہے صرف 24 لاکھ روپے میں بمشکل یہ چھڑا چھانٹ گزارہ کرتا ہے اور ایک تم ہو کہ بیس 20 ہزار روپے مہینے کے کما کر گھر کے 8 ، 8 بندے عیش کرتے ہو  پھر بھی روتے رہتے ہو ۔ ارے بیوقوفو شکر کرو اتنا پارسا وزیر اعظم تمہیں ملا ہے ۔ جو پلے سے کھانا تک نہیں کھاتا صرف تمہارے غم میں ۔ صادق اورامین اتنا ہے کہ صرف 300 کنال کا گھر  لے رکھا ہے وہ بھی چاہتا تولندن اور امریکہ جا کر بکنگھم پیلس میں انہیں کے پلے کے رہ سکتا تھا ۔ سادہ اتنا ہے کہ اپنے ملازمین کے ہی کھانے اور کپڑوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے ۔ پھر بھی تم اس پر تنقید کرتے ہو۔ خود کبھی بجلی کا بل نہیں دیتا اور بنی گالہ میں مزارات کے دیوں کا تیل ڈال ڈال کر اسے روشن کرتا ہے  ۔ اور تم لوگوں کو تین سال میں صرف صرف 3سو گناہ زیادہ بل دینا پڑا ہے تو مرنے والے ہو جاتے ہو۔
ارے کیوں کرتے ہوں اتنی باں باں ں ں ں
یہ ملک ہے اس کے مسائل مجھے کرسی پربیٹھنے سے پہلے منہ زبانی رٹے ہوئے تھے اب تمہارے غم کھا کھا کر میری یادداشت ہی جواب دے چکی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔ خود بھی کبھی لتیں بائیں ( ہاتھ پاوں) ہلا لیا کرو سب کچھ میں کروں ۔ تو وزارت کون کریگا ۔۔۔۔۔
                 ●●●

جمعہ، 15 اکتوبر، 2021

شکیب اکرم کی یاد میں/ شاعری

بھارت کے معروف شاعر خورشید اکرم صاحب کے 23 سالہ بیٹے کی ناگہانی وفات پر منظوم مرثیہ
ممتازملک ۔پیرس فرانس سے
                ۔۔۔۔۔۔۔۔

شکیب اکرم تیرے جانے سے بیٹا
ہماری زندگی میں اک خلا پیدا ہوا ہے 

بہت ہی مختصر  تم نے گزاری 
جدائی تیری کتنی جانکاہ ہے

تیرا انداز سادہ سی طبیعت اور حیا کا
تجھے یادوں میں زندہ کر گیا ہے

کبھی اٹھی کسی کی جو نظر تمہاری جانب
سمجھ لیتا ضرورت مند کا جو مدعا ہے

تھی بے اعتنائی کتنی مال و زر سے
ضرورت سے زیادہ جو ملا وہ بانٹتا ہے

نہ تھی آرام دہ بستر کی چاہت
تیرے ہاتھوں چٹائی پر تیرا تکیہ رکھا ہے 

مجھ ممتاز  لگتا ہے کہ ہر اک ملنے والا 
تجھے ابا  سے تیرے کچھ زیادہ جانتا ہے

جدائی کو تیری خورشید سہہ گئے 
یہ بس نزہت جہاں کا حوصلہ ہے
                 ●●●

دعا علی کے نعتیہ انتخاب پر تبصرہ


یوں تو شاعری ودیعت خداوندی ہے 
 کوئی کتنا ہی ذہین ہو یا بہترین لفاظ لیکن جب تک اللہ پاک نہ چاہیں وہ ایک مصرعہ بھی ترتیب نہیں دے سکتا ۔ اس کے کئی منازل آگے جانے کے بعد شروع ہوتا ہے نعت گوئی کا سلسلہ ۔ 
نعت کہنا عام طور پر ہونے والی شاعری سے کئی لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ۔ دل جب حب رسول میں ڈوبتا ہے ۔ اللہ سے جب اسکے محبوب کی ثنا خوانی کی اجازت ملتی ہے تو۔م ہی نعت دلوں پر اترنے لگتی ہے۔ اس خوبصورت سلسلے کو دعا علی نے اپنے نعتیہ مجموعہ کلام میں عصر حاضر کےچیدہ چیدہ شعراء کرام کا کلام کو   یکجا کر کے ایک خوبصورت مجموعہ کلام میں پیش کیا ہے اور ہر رنگ کا پھول اسے ایک خوبصورت گلدستے کا روپ دے رہا ہے ۔ میں اپنی جانب سے دعا علی کو اس خوبصورت پیشکش اور حسین انتخاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔
 جو کئی سال سے انتھک ادب کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ بنا کسی صلے کی تمنا کے وہ اپنا سفر خوش اسلوبی سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ میری بہت سی دعائیں اس خوبصورت اور محنتی شاعرہ دوست کے لیئے 
)شاعرہ کالمنگار۔ نعت خواں و نعت گو )
ممتازملک
پیرس۔ فرانس 
Mumtazmalikparis.com

منگل، 28 ستمبر، 2021

مشتاق ‏دربھنگوی ‏کے ‏نام ‏قطع/ ‏گوش ‏برآواز ‏نام کی شعراء ‏کی ڈائیریکٹری ‏


گوش بر آواز میں  جگنو ادب کے بند ہیں
حضرت مشتاق سے اردو کے عاشق چند ہیں 
جیسے کوزے میں سمندر موجزن تو ہیں مگر
اس کے ساحل میں ہی رہنے کے نہیں  پابند ہیں
 قطعہ مشتاق در بھنگوی کے نام ان کی عالمی ڈکشنری برائے شعراء کرام گوش بر آواز کے نآم
(ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 5 ستمبر، 2021

بھنانے ‏چلے/ ‏شاعری ‏۔قطعہ



ہم نے جانا کہ ردی کے بھاو نہیں 
کیش جب زندگی کا بھنانے چلے

لوگ پاگل کہیں نہ تو پھر کیا کہیں 
غم کے طوفان میں مسکرانے چلے
               کلام:(ممتازملک۔پیرس)

ہفتہ، 21 اگست، 2021

یہ ‏کس ‏کا ‏پاکستان ‏ہے/کالم

یہ کس کا پاکستان ہے؟
تحریر: (ممتازملک۔پیرس)




ٹک ٹاک کے ذریعے خود کو بیچنے والی  وہ خاتون دنیا کی آخری غلیظ خاتون بھی ہوتی تو بھی کسی کو حق نہیں تھا کہ اس کیساتھ بدمعاشی کی جاتی ۔ ہاں اسے دیکھنے والے تماش بین فالوورز اسے ان فالو کر دیتے۔  فالوورز کا مطلب ہے پیسہ۔۔۔۔پیسے کی سزا ہی اس کے لیئے کافی تھی ۔ جس کے لیئے وہ یوں ذلیل ہورہی تھی۔
پولیس کمپلین کرتے جا کر اس خاتون  کے خلاف ۔ کہ یہ ماحول کو خراب کر رہی ہے ۔ 
تب ہم بھی آپکا ساتھ دیتے۔
ہر روز ریپ اور گینگ ریپ کا شکار ہونے والی  معصوم بچیاں اور پردے دار خواتین آپکی بات کو ثابت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ کیا اس لیئے کہ ہٹ دھرمی پاکستانیوں کا خاصہ ہے ؟
آخر آپ   کس  بات کو کس بات سے ملا کر اس کی حساسیت کو روند رہے ہیں ۔

     بھائی یہاں بات انسانی آذادی اور حقوق کی ہو رہی ہے ۔ جو اللہ نے ہم سب کو دے رکھے ہیں ۔
آدم کا بیٹا غیرت مند ہو تو اسے کوئی بڑی سے بڑی حسینہ بھی نہیں بھٹکا سکتی ۔ اور جب یہی آدم کا بیٹا بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو حور جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے کالی بدشکل جمعدارنی اور ہیجڑوں  پر بھی بے ایمان ہو جاتا ہے ۔
اس خاتون اور اس جیسیوں کو بنانے والے بھی تو یہ سارے ابن آدم ہی ہیں نا ۔ ان کے لاکھوں فالوورز کیا ان پر پیسہ لٹاتے انہیں فالو کرتے وقت دودھ پیتے بچے ہوتے ہیں کہ  وہ اس کی حرکتیں نہیں جانتے۔ 

اب تک کتنے لوگوں نے اس عورت یا ایسیوں کو ان فالو کیا ہے؟

کیا سچ نہیں ہے کہ آج بھی اپنے گھر میں بیٹھی حیادار لڑکیاں پڑھی لکھی ہونے کے باوجود شادیوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں ۔ جبکہ ایسی تماشا باز بازاری اور دو نمبر مدارنیں اس ملک کے مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہیں ۔ اوپر سے نیچے تک ہر بے شرم اور فیشناں پٹی بدکردار لڑکیوں نے مردوں کی مت مار رکھی ہے انکی محبوبائیں اور  بیویاں بن کر ان کے مال پر عیش کر رہی ہیں ۔ کون سی شریف لڑکی ہے جسے مرد بیوی بنا کر مالی تحفظ دیتا ہے؟ جبکہ ایسی بازاری عورتوں کے نام پلازے، بنگلے ، پلاٹس کرتے وقت اسکی غیرت کہاں تیل لینے چلی جاتی ہے ۔
آج کی عورت کو تباہ کرنے والا یہی ہمارے مردوں کا ٹھرکی رویہ اور آوارہ سوچ ہے ۔ جس نے انہیں بتایا کہ مرد ان کے کردار سے متاثر ہو کر انہیں نہیں اپنائے گا بلکہ انکی اداوں کی جادوگری انہیں کروڑ پتی بنا سکتی ہے ۔ سو اب بھگتیں ۔ طیش کیسا ۔ دل کڑھنا چاہیئے بھائی ۔ ہر ذمہ دار اور حساس انسان کا دل کڑھنا چاہیئے ۔ لیکن اس کی سرکوبی کے لیئے بھی عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ مرد ایسی عورتوں کو فالو کرنا ۔ عشق لڑانا چھوڑ دیں ۔ عورتوں کا مزاج خود بخود لائن پر آ جائے گا ۔ مرد شریف عورتوں کو پسند کرینگے عورتیں شرافت اپنا لینگی ۔ جب مرد غلاظت کو پسند کرینگے تو عورتیں غلاظت میں خوشی سے لتھڑ جائیں گی ۔ کیونکہ مرد کو اللہ نے قوام کیا ہے ۔

اپنے بیٹوں کی، اپنی سوچ بدل لیں۔ یہ سب سیدھی ہو جائینگی۔ ان شاء اللہ   

اس حادثے کی تفصیلی رپورٹ بھی منظر عآم پر لائی گئی ہے جو یقیناآپ سب کی نظر سے گزر چکی ہو گی ۔ نہیں گزری تو یو ٹیوب پر اسے ملاحظہ فرمائیں اوربتائیں کہ

اس رپورٹ کو پڑھ کر بھی آپکو سمجھ نہیں آئی کہ اس کے فالوورز ہی اصل میں کنجر مرد ہیں جنہوں نے اسے پیسے کا مزا دیا اور طوائف بنا دیا  ۔ کیونکہ انہیں مردوں نے شریف اور باحیا لڑکیوں کے لیئے عزت سے ملازمت کے دروازے بند کر دیئے ۔ نوکری کی تلاش میں جانے والی خواتین اگر اپنے تجربات بیان کرنے لگیں تو ان جعلی شرفاء کو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے۔ ان خواتین کو یہ گھٹیا طریقے سکھانے والے شرفاء جن کے جتھے سڑکوں پر کھڑے، گاڑیوں میں سفر کرتے ، منہ اور آنکھوں سے سے رال ٹپکاتے ہوئے آپکو اگر نظر نہیں آتے تو اپنی بینائی پر افسوس کیجیئے۔ کیونکہ جسے دکھائی نہیں دے رہا اسے سجھائی بھی کیا دیگا؟ اپنی آنکھوں ، سوچ اور کردار کے تحفظ کے بجائے کسی بھی عورت کو گالی دینا یقینا زیادہ آسان کام ہے ۔ سو 

ہم کہ ٹھرے سہل پسند اتنے مکافاتوں کے بعد

  سدھریں گے نہ جانے کتنے مکوں اور لاتوں کے بعد

(شاعر سے معذرت کیساتھ)

پھر بھی مرد بے قصور؟؟؟

کتنوں نے اس خاتون کو نیک پروین سمجھ کر جوائن کیا تھا؟

کتنوں نے اب اچاااااانک اس کی اصلیت جان کر اسے ان فالو کیا ہے؟

ہمارے ادبی اور علمی پروگرامزکی فالوونگ سینکڑوں تک میں نہیں ہوتی اور ایسی طوائفیں لاکھوں تک کیسے لیجاتی ہیں ؟

لیکن مرد اب بھی بے قصور 👏👏👏👏

یقینا سو فیصد مردوں کی بات نہیں کی جا رہی ۔ لیکن حقیقی شرفاء کی خاموشی نے ہی تو حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ ہم ہر روز اخلاقی زوال کی سیڑھیاں تیزی سے اتر رہے ہیں ۔ 

چلیں آپ  کا کوا سفید ہی ہے تو میں اسے سیاہ کیسے کہہ سکتی ہوں ۔ میں عام انسان ہوں عام سے گلی محلوں میں رہنے والی ۔ سالہا سالہا کے تجربات اور مشاہدات سے یہ بات اخذ کر چکی ہوں کہ  مادر پدر آذاد عورت مرد کی پیداوار ہے۔

 یہ طلب اور رسد کی کہانی ہے ۔ مرد جو چاہتا ہے عورت اسی رنگ میں ڈھل کر اسے ملتی ہے ۔ آپ اچھے تو آپ کے گھر کی ہر عورت اچھی ہونے پر مجبور ہو گی ۔ 

میرا پاکستان جہاں میں نے بچپن گزارا ۔ جوان ہوئی ۔ بیاہی گئی میرا وہ پاکستان گم چکا ہے۔ پلیز اسے ڈھونڈ دیں ۔

                     ●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/