ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 29 جنوری، 2022

✔ خون اور دودھ ضرور بولتا ہے/ کالم۔ لوح غیر محفوظ


دودہ اور خون ضرور بولتا ہے
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

ہم فرانس میں رہتے ہیں جو دنیا کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن ہماری پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت  یہاں تک آ کر بھی نہ اپنے دماغ کا گند دھو پائے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے لوگوں سے کوئی اچھی بات سیکھنا چاہتے ہیں ۔ خصوصا خواتین کے حوالے سے یہاں کی چھوٹی اور گھٹیا ذہنیت نہ بدلنے کی تو گویا اکثر لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے ۔ یہ  ان لوگوں کے بارے قران پاک کی قسمیں اٹھا کر گواہیاں دیتے پائے جاتے ہیں جن سے نہ یہ کبھی زندگی بھر ملے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی حوالے سے ان کے روبرو آئے ہیں ۔ لیکن پھر بھی بقول انکے یہاں پر کام کرنے والی عورت بدکردار ہے اور ہر لکھاری عورت دو نمبر ہے۔ جس عورت کا فیس بک پر اکاونٹ ہے وہ بازاری عورت ہے ۔ جو سامنے کھڑی ہو کر جرات سے بات کرتی ہے وہ تو پیدائشی بے غیرت ہے ۔۔۔ یہ فتوے لگانے والے وہ مرد ہوتے ہیں جن کے گھروں کی نانیوں دادیوں اور ماوں  نے گھرں میں پردوں میں بیٹھے ہوئے گونگے بنے رہنے کے باوجود بھائیوں کے آپس میں سر پھڑوائے ۔ گریبان چاک کروائے۔ ایکدوسرے کی بیٹیوں کو طلاقیں دلوائیں ۔ جیتے جی دوسروں کی زندگیاں موت سے بھی بدتر کر دیں لیکن پھر بھی وہ شرفاء اور معززین کی فہرست میں شامل رہیں کیونکہ وہ یہ سب کرتی تھیں لیکن گھر کے اندر پردہ دار اور گونگی بیبیاں بن کر کیا کرتی تھیں ۔ انہیں کے سپوت آج یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر یہی فریضہ دوسری خواتین پر تہمتیں اور فتوے لگا کر سرانجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ سوچیں ماوں کے خون اور دودہ سے سفر کرتی ہوئی آپ کے دماغ تک پہنچتی ہیں ۔ سچ کہتے ہہں ایک اچھی ماں اور ایک بری ماں کی پہچان اس کے بیٹے کی کسی بھی عورت کے لیئے کی گئی گفتگو اور الفاظ کے چناو  سے چھلکتی ہے ۔ وہ بولتا ہے تو گویا اپنی ماں کے کردار اور گفتار کی پرتیں کھولتا ہے ۔ کسی بھی عورت پر گند اڑانے والا گندے تبصرے کرنے والے مرد کی اکثر اپنی جوانی اسی ملک میں رنگ رنگ کا پانی پی کر گزری ہوتی ہے جس کے لیئے ہر عورت ویسی ہی ہے جیسا وہ خود ہے ۔ اسی لیئےجب وہ کسی میدان عمل میں کام کرنے والی خاتون یا اپنا نام اور مقام بناتی ہوئی خاتون کو دیکھتا ہے تو فورا اپنی اصلیت دکھانے پر اتاولا ہو جاتا ہے ۔ پھر اس کا ساتھ دینے کے لیئے وہ نکمی اور بیکار عورتیں بھی اس کے ساتھ "راون کے سروں "کی طرح اس کے بیانیئے کو پھیلانے میں شیطانی کردار ادا کرنے کے لیئے پھیل جاتی ہیں ۔ یہاں وہ اپنے احساس کمتری کے تحت اپنی قبریں بھلا کر کام کرنے والی لکھنے لکھانے والی خواتین کی کردار کشی میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ اپنے گھروں میں ان شیطان خواتین کے ٹولے کبھی ون ڈش پارٹی کے نام سے اکٹھی ہوتی ہیں تو کبھی میلاد پاک کے نام پر باریاں رکھ کر یہ مشن سرانجام دینا ہوتا ہے ۔ یہاں اکھٹے ہو کر ایک ہی  میز پر کھانا کھانے کے بعد وہ اسی گھر سے نکلتے وقت غیبتیں اور الزام تراشی کرنا اور تو اور اکثر میزبان خاتون کی کردار کشی کرنا بھی کبھی نہیں بھولتیں ۔ پھر گھر پہنچ کر ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑے فون پر ایک دوسرے کی ذات پر اور کل کے پروگرام میں ملنے والیوں پر خوب مرچ مصالحے لگا کر خبریں گھڑی جائینگی ۔ اس کی بیٹی اس کے ساتھ بھگائی جائے گی ۔ اس کا بیٹا اس غیر مسلم کیساتھ رہتا ہے سنایا جائے گا ۔ اور پھر استغفار کی تسبیح پڑھنے اور دعاوں میں یاد رکھنے کی درخواست اور پھر " نماز کا وقت ہو گیاہے" کہہ کر فون رکھا جائیگا ۔  لیکن کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس طرح اللہ پاک نے عزت و ذلت کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور ان کی تسبیحیں، نمازیں، سجدے اور تلاوت قران کو ان کے منہ پر مارنے کا اعلان بھی کر دیا ۔ کیونکہ واقعی جو ہم نہیں جانتے وہ ہمارا رب جانتا ہے ۔ 
ایسے تمام خواتین و حضرات بیچارے ہوتے ہیں۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ نیکیاں تو وہ اپنی ان الزام تراشی و بہتان تراشی میں ویسے ہی اس کے نام کر چکے ہوتے ہیں دوسرا اپنا پردہ بھی اپنی ہی زبان سے کھول چکے ہوتے ہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنے گھروں میں دیکھا سنا وہ ہی انکی  زبان سے دوسری خواتین کے نام سے نکل گیا ۔ ابکی نشانی یہ  ہوتی ہے کہ نہ یہ سکون سے سو سکتے ہیں ۔ نہ یہ اپنی اولادوں کی جانب سے سکون پاتے ہیں ۔ نہ ہی انکے چہروں پر نور ہوتا ہے نہ ہی ان کے دلوں میں سکون ہوتا ہے۔ نہ انکے گھر میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی انکے رشتوں میں محبت اور عزت ہوتی ہے۔ 
 سو دنیا و آخرت دونوں جہانوں کی ذلتوں کا طوق اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں لٹکانے والوں کو بیچارہ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے ؟ جن کے سامنے آپکی لمبی زبانیں کھلتی ہیں وہ چاہے کسی بھی وجہ سے اس وقت یہ باتیں سن تو لینگے لیکن آپ کے بارے میں جو تبصرہ آپ کی پیٹھ پیچھے ہو گا وہ تو آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا ۔  سو خلاصہ یہ ہوا کہ جو آپ نہیں کر سکتے اس پر حسد کرنے کی بجائے اس پر دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھیں ۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں ہو سکتا ہے کہ آپ کے لہو میں اور سوچوں میں دوڑتی ہوئی اس گندگی کی کچھ صفائی ہو سکے اور آپ کی پرورش کرنے والیوں کی قبروں کا عذاب کچھ کم ہو سکے ۔ آمین
                  ●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/