ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 29 جولائی، 2019

نکاح نامے کیساتھ کچھ اور بھی/ کالم



نکاح نامے کیساتھ کچھ اور بھی 
                   (تحریر: ممتازملک.پیرس)

سنا ہے ایک نئے حکم کے تحت حکومت نے شادی کے لیئے شناختی کارڈ کی شرط، اٹھارہ سال کی عمر کو لازمی قرار دے دیا ہے ۔ میں حکومت کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتی ہوں ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غلط ہے اور اس سے  بے راہ روی کو فروغ ملے گا ۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بےراہ روی کو فروغ تو ہمارے ہاں کے اکثر شادی شدہ اور رنگین مزاج بوڑھوں نے ویسے ہی دے رکھا ہے ۔ بچوں کی یہ ٹین ایج ان کی پڑھائی اور مستقبل کے لیئے کوئی ہنر سیکھنے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی عمر ہوتی ہے ۔ سو طرح کے جذباتی مدوجزر کا دور ہوتا ہے یہ۔جس میں نوجوان پل پل نئے سوچ کے تجربات سے گزرتے ہیں اور ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں ۔ جب وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کے لائق بھی نہیں ہوتے ، یہاں تک کہ تمیز سے بات کربے اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے بھی نالاں ہوتے ہیں  تو ایسے میں لڑکے پر ایک جیتی جاگتی لڑکی مطلب ضروریات کی پوٹ کو لاد دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ 
اور لڑکی پر ایک پورے کنبے اور اپنے بھی بچوں کی پیدائش و پرورش کا بوجھ لادنا کہاں کی سمجھداری ہے؟
 اب اگر کوئی پھر سے پہلے زمانے کی مثالیں دینے لگے تو یاد رکھیئے ہر زمانہ پہلے زمانے سے مختلف ہوتا ہے ۔ اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ، اس کی اپنی سوچ اور طرز زندگی ہوتا ہے ۔ 
پہلے زمانے میں  وہ طرز زندگی تھا جو آج ہے ؟
وہ خوراک اور پکوان تھے جو آج ہیں ؟
وہ پہناوے تھے جو آج ہیں ؟
ان چیزیوں کا کوئی تصور تھاجو آج لازمی سمجھی جاتی ہیں ؟(جیسے کہ  ہنی مون ، نیٹ ، کمپیوٹرز ،LED , موبائل ، ککنک رینج ۔۔۔)
پہلے سال بھر میں ہر شخص کے تین جوڑے کپڑے،  ایک جوڑا جوتے، اور پیٹ بھر گندم دال، چاول، گڑ ، گندم گودام میں موجود ہے تو بندہ بادشاہ ہوا کرتا تھا ۔ 
ائک ہی کمرے میں پچیس بندے سو جاتے تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ نہ محرم تھا نہ نامحرم۔
لیکن آج تو ان چیزوں پر گزارے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ زندگی کے تقاضے بدلے ہیں ، سوچ بدلی ہے ، تو انداز بھی بدلنا ہو گا ۔ 
تتلیاں پکڑنے کی عمر ، خواب دیکھنے کی عمر  ، شرارتیں کرنے کی عمر ، کھل کر ہنسنے کی عمر کو بچوں اور کنبے کی پرورش کے چولہے میں مت جھونکیئے خدارا۔
وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے ہوئے ان جوڑوں پر ترس کھائیے، جو پینتیس سال کی عمر تک پہ پہنچتے پہنچتے  سر سفید ، کمر ٹیڑھی کروا چکے ہوتے ہیں ، دس بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں ۔ اپنی عمر سے بیس سال بڑے لگنے لگتے ہیں ۔ 
رہی بات بے راہ روی کی تو اس کے لیئے عمر کی کوئی شرط عائد نہیں ہوتی ۔ انسان باکردار ہو اس کی اخلاقی و دینی تربیت اچھی ہو ، تو وہ ٹین ایج جیسی آزمائشی عمر میں بھی پارسائی اختیار کر سکتا ہے ، اور اگر انسا بدکردار ہو تو ستر برس کی عمر میں بھی ایک پاوں قبر میں اور ایک پاوں بدکرداری کے کیلے کے چھلکے پر ہی رکھے گا ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ  18 سال کی عمر کے بجائے لڑکی کی عمر شادی کے لیئے  کم از کم بیس بائیس سال ضرور ہونی چاہیئے خاص طور پر ہمارے ایشین معاشروں میں جہاں شادی کے روز شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس سے چالیس سال پختہ کار خاتون کی سی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں ایسے میں وہ معصوم بچی جس کی نہ ابھی تعلیم مکمل ہوئی ہے ، نہ اسے کوئی ہنر آتا ہے ، نہ اسے گھر بار سنبھالنے کی سمجھ ہوتی ہے بیچاری رل کھل جاتی ہے ۔
 لڑکے کی عمر بھی کم از کم 26 ، 27 سال ہونی چاہیئے تاکہ وہ شادی کو کوئی کھیل نہ سمجھے بلکہ پڑھ لکھ کر ، باہنر ہو کر اپنے پاوں پر کھڑا ہو اور اپنی بیوی کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی اٹھا سکتا ہو ۔ ہم اس سے کم سنی کی شادیوں کو انتہائی تکلیف دہ سمجھتے ہیں ۔
 ہم حکومت کی اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں  بلکہ مذید یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آوارگی اور بدکردار پیروں اور بابوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب نکاح نامے کیساتھ لڑکے اور لڑکی کا اس کے والدین کیساتھ DNA رپورٹ اور بڑی بیماریوں اور اپاہج اولاد کی پیدائش کی  آزمائش سے بچنے کے لیئے میڈیکل رپورٹ بھی ضرور نتھی کی جائے ۔ تاکہ ان پیچیدہ اور عمر بھر کا روگ بن جانے والے معاملات سےحتی المقدور بچا جا سکے۔ 
                ۔۔۔۔۔۔۔


ہفتہ، 27 جولائی، 2019

جلدی کھلنا/ چھوٹی چھوٹی باتیں


کھلنا رلنا



جو جتنی جلدی کھلتا ہے 
وہ اتنی جلدی رلتا ہے 
               (چھوٹی چھوٹی باتیں)
             (تحریر:ممتازملک.پیرس)

بدھ، 24 جولائی، 2019

سوچیئے زرا دور تک /کالم


          سوچیئے زرا دور تک
                     (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

ے
دنیا کے حسین ممالک کا نام لیا جائے تو بلا شبہ پاکستان کا شمار ان ابتدائی ایک درجن ممالک میں کیا جا سکتا ہے  جنہیں پروردگار نے بہترین لینڈ سکیپ سے نواز  رکھا ہے ۔ کھلے میدان ہوں یا چٹیل پہاڑ ، ریگزار ہوں یا گلزار وادیاں ، دریا ہوں یا سمندر، برف پوش وادیاں ہوں یا نمکین اور خزانوں سے پر پہاڑ ۔ موسم دیکھیں تو کونسا موسم ہے جو قدرت نے اس حسین ملک کو عطا نہیں کر رکھا ۔ لوگوں کو دیکھیں تو بلا کی خوبصورتی اور ذہانت سے مالامال قوم ۔ پھر بھی ہم کرپشن میں، جھوٹ میں ، منافقت میں ،جرائم میں کیوں گنے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنی کردار سازی پر خصوصی توجہ دیں ۔ ہمارا آئیڈیل مذہب میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے کہ جس کی کسی بھی میدان میں اس سے اچھی مثال موجود ہی نہیں ہے تو ایک محنتی انسان اور رہنما کے طور پر بہترین انسان کی صورت محمد علی جناح قائد اعظم کی صورت ہمارے سامنے ہے جن کی وفات کو بھی ستر برس سے زائد گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ان کے مخالفین ان کے کردار و گفتار میں کبھی کوئی غلطی نہ نکال سکے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اپنی اچھی مثالوں کو چھوڑ کر بری عادتوں کو  اپنی زندگی  میں شامل کر لیا ہے ؟ 
محض چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات کی خاطر ہم اپنے اعتبار اور ایمان دونوں کو کرچی کرچی کروا لیتے ہیں ۔ کہیں بھی جائیں اور وہاں سے گندگی چھوڑے بنا واپس آنا ہمیں مشکل لگتا ہے ۔ ہر ایک کو ہماری چھوڑی ہوئی گندگی ہی سے کیوں یہ یاد رہے کہ ہاں یہاں سے کوئی پاکستانی گزرا ہے۔ اس کے لیئے ہماری نفاست اور شائستگی بھی تو ہمارا تعارف بن سکتی ہے ۔  
ہم آہستہ اور تمیز سے بولنے ، سچ بولنے ، ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں  شکریہ ادا کرنے ، ہر معمولی سی بات  پر  بھی "معاف کیجیئے گا" کہنے کو اپنی عادت اور  اپنے بچوں کی گھٹی میں  ڈال لیں تو کیا ہی بات ہے ۔ ہم عورتوں کی بچوں کی عزت اور حفاظت کو خود پر اسی طرح فرض کر لیں جیسے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد اعظم کا طرز عمل تھا تو کون ہے جو ہمیں پاک ستان بننے سے روک سکے، ہم نے پاکستان  تو بہتر برس قبل ہی حاصل کر لیا تھا لیکن اسے پاک لوگوں کی سرزمین بنانے میں اور کتنے سال درکار ہیں ؟
ہمارے اس دنیا سے جانے کے وقت کیا ہم اس پاکسان سے بہتر پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہونگے جو ہمیں ہماری پیدائش پر ملا تھا ؟
پاکستان صرف نعروں سے زندہ باد نہیں ہو سکتا بلکہ اسے اپنے عمل سے زندہ باد کیجیئے۔ 
اس ملک سے پیار کیجیئے ۔ اس کی قدر کیجیئے ۔ کیونکہ بےقدروں کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ 
                         پاکستان زندہ باد
                      ۔۔۔۔   


  

پیر، 22 جولائی، 2019

المدثر کفالت عشائیہ۔ رپورٹ


رپورٹ:
(ممتازملک.پیرس )

شام 21 جولائی 2019ء پیرس کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں المدثر ٹرسٹ کھاریاں کی جانب معذور اور یتیم بچوں کی کفالت کے حوالے سے ایک فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں مقامی مخیر حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ پروگرام کی نظامت ملک منیر صاحب نے کی اور  پروگرام کا آغاز حافظ معظم کی آواز میں خوبصورت تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ۔  جبکہ خصوصی  نظامت انگلینڈ سے تشریف لائے معروف ٹی وی اینکر جناب مظہر بخاری صاحب نے کی ۔  المدثر ٹرسٹ کے بانی جناب مدثر حسین شاہ صاحب نے بہت جامع انداز  میں  حاضرین کو اپنے اس ٹرسٹ کی بیس سالہ روداد اور اس سفر کی کہانی سنائی۔ جو کہ انتہائی متاثر کن تھی ۔ پروگرام مہمانوں کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا ۔ جبکہ اپنے گھر سےخواتین کو ساتھ نہ لانا ہمارے پاکستانی بھائیوں کا پرانا احساس شرمندگی ہے ۔ جس کے سبب نہ وہ ادبی محافل کو اور نہ ہی چیرٹی پروگرامز کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ ان  کے گھروں سے خواتین ان میں شرکت فرمائیں ۔ ویسے افسوس کا مقام ہے کہ  یہ انہیں ساری رات شادی بیاہ میں ، میلوں میں فیشن شوز میں ، موسیقی کے کنسرٹس میں ، بازاروں میں  سارا دن گھومنے کی اجازت تو  خوشی دے سکتے ہیں لیکن ادبی محافل اور خیراتی پروگرام ان کے لیئے شجر ممنوعہ ہیں ۔ ہم بیس سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اپنی گھریلو  خواتین کے حوالے سے اپنی عقل پر لگایا ہوا یہ ڈھکن کب کھولتے ہیں ۔ پروگرام میں معروف قوال شہباز ، فیاض اور ہمنواوں نے خوب رنگ جمایا ۔ پروگرام کے اختتام پر عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں








بدھ، 17 جولائی، 2019

گھریلو سازشیں / کالم کہانیاں


گھریلو سازشیں 
   تحریر:(ممتازملک.پیرس )



مشترکہ گھروں میں نئی بہو کے آتے ہی کچھ چالاک دماغ اپنے اپنے گھریلو سیاسی کھیل کا آغاز کر دیتے ہیں ۔ جیسے کہ ایک گھر میں چار بھائی رہتے ہیں ۔ ان میں کوئی سیدھا سادھا ہوتا ہے تو کوئی مکار، کوئی محنتی ہوتا ہے اور کوئی کام چور ۔ اکثر لوگوں کی زبانی سننے میں آتا ہے کہ بہو نے گھر آتے ہی بھائیوں میں دراڑ ڈالدی۔ یا پھر گھر میں گھر کے کاموں کو لیکر ہنگامہ آرائی کا آغاز ہو گیا ہے ۔ کوئی بھی لڑکی شادی کے بعد گھونگھٹ اٹھاتے ہی نہ تو بدتمیز ہوتی ہے، نہ کام چور ۔ کیونکہ اسے اس گھر میں خود کو کارآمد اور سگھڑ ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ سب کے دل میں اپنی جگہ بنانی ہوتی ہے ۔
گھر  کے کام سبھی گھر کے لوگوں کو مل جل کر کرنا ہوتے ہیں ۔ ایک نے کھانا بنایا تو دوسرے نے برتن دھو دیئے ، صفائی کر دی۔ ایک نے کپڑے دھوئے تو کسی نے کپڑے استری کر دیئے تب تک تو گھر کا انتظام بہترین انداز میں چلتا رہتا ہے ۔ 
ایسے میں وہ چالباز بھائی جو دوسروں کے سر پر اپنا رعب جمانا چاہتا ہے وہ اپنی بیوی کو کام چوری اور زبان دراز ی کے گر سکھاتا ہے ۔ وہ اپنی بیوی کو نہ صرف مہارانی بنانا چاہتا ہے بلکہ دوسرے بھائیوں کے مال پر بھی نظریں گاڑ کر بیٹھا ہوتا ہے ۔ اس کی اکثر توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ساری بھاوجوں کو اپنی بیوی کی باندیاں بنا کر رکھے ۔ جبکہ دوسری بھاوجیں اس بات پر کڑھنا شروع کر دیتی ہیں کہ ہم سب کا رشتہ ایک سا ہے تو یہ نوابزادی کون ہوتی ہے ہمیں اپنی ملازمہ بنانے والی ۔ یوں کم گو اور شریف یا بزدل بھائی جب اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خود آواز نہیں اٹھاتا تو بیوی خود اپنے خلاف ہونے والی زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کر دیتی ہے ۔ جس پر سازشی یا بدمعاش بھائی بجائے اپنی حرکتیں درست کرنے کے اور معذرت کرنے کے اپنے بھائی بھابی کیساتھ فساد کا اور بدزبانی کا آغاز کر دیتا ہے ۔ یوں گھروں میں فساد،  بٹوارے ، اور رشتوں کی  کھینچا تانی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ 
اگر گھروں کے بیٹے اپنے بیویوں کو بھڑکانے اور دوسروں کو دبانے کا سبق دینے کے بجائے سب کو اپنی مرضی سے  بانٹ کر کام کرنے کا موقع دیں اور گھر کی بہووں کو سمجھا دیں کہ یہ گھر سب بہووں کا برابر کا ہے اور اس کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی سب پر برابر کی عائد ہوتی ہے ۔ اور کوئی کسی پر پردھان بننے کی کوشش نہ کرے ۔ اور آپس میں بہوئیں مل کر کام کا دن طے کر لیں ۔ تو یقین جانیں کسی بھی گھر میں بدنظمی اور ناچاقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
ایسے میں اگر گھر میں نندیں بھی موجود ہیں تو انہیں بھی ان کاموں میں برابر کی شراکت داری دی جائے اور انہیں مہمان یا بچیاں کہہ کر بھاوجوں پر مسلط کرنے کی کوشش ہر گز مت کیجیئے ۔  کیوں کہ یاد رکھیں مہمان ایک دو دن کے لیئے آکر ٹہرنے والے کو کہا جاتا ہے ۔ مستقل سب کے سر پر سوار ہونے والے کو یا روز روز آ دھمکنے والے کو نہیں ۔ 
وقتی طور پر اگر آپ کسی کو خوش کرنے کے لیئے ایسی بہنوں کی طرفداری کر بھی لیں تو اس سے ایک۔تو وہ بہنیں نکمی اور کام چور بن کر اپنے سسرال میں آپ کی  ناک کٹوائیں گی دوسرا  ان رشتوں ( نند بھاوج ) کے بیچ جو کڑواہٹ پیدا ہو جائے گی وہ تاحیات کسی طور پر جانے والی نہیں ہو گی ۔ بہنوں کو اپنی بیویوں کے معاملات میں دخل دینے سے باز رکھیں ۔ کیونکہ شادی شدہ بہن یا بھائیوں کی زندگی میں ان کے ساتھی کے معاملات میں آپ کی دخل اندازی اسے اگر وقتی طور پر نقصان پہنچا بھی دے تو آپ ہمیشہ کے لیئے اپنے ہی بہن یا بھائی کی نظر سے بھی گر جائینگے بلکہ خدا کے حضور بھی میاں بیوی میں  جدائی ڈالنے والے شیطان کے چیلوں میں شمار کیئے جائینگے ۔ جس کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ اورنہیں ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔پ

پیر، 15 جولائی، 2019

مشاعرہ اہل۔سخن/ رپورٹس


رپورٹ:
(ممتازملک.پیرس)
ادبی تنظیم بزم اہل سخن کے زہر اہتمام  14 جولائی 2019ء بروز اتوار پیرس کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں کینیڈا سے تشریف لائی ہوئی ایک پختہ لہجے کی نوآموز شاعرہ محترمہ شمیلہ شاد صاحبہ کے اعزار میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں ادبی تمظیمات پنجابی ادبی سنگت اور راہ ادب نے بھی بھرپور شرکت کی ۔ مقامی شعراء نے اپنے کلام سے شرکاء سے داد سمیٹی، جبکہ شمیلہ شاد صاحبہ  جو  کئی سال سے کینیڈا میں بطور ماہر نفسیات بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہی ہیں،  نے حال ہی میں اپنا کلام منظر عام پر لانے کا ارادہ کیا اور اپنا کلام اہل ذوق کے سامنے پیش کیا ۔ جسے خوب سراہا گیا ۔ مقامی شعراء میں عاکف غنی، ایاز محمود ایاز ، نبیلہ آرزو ، آصف محمود آسی ، شازملک،  ممتازملک، عظمت نصیب گل، نے اپنے کلام سے شرکاء کو محظوظ کیا ۔
 بزم اہل سخن کے سرپرست اعلی جناب نعمت اللہ شیخ صاحب نے شرکاء کو فیض احمد فیض کا منتخب کلام سنایا اور ان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ پروگرام کے آخر میں مہمانوں کے لیئے پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں ۔۔








   



سنت کی اوٹ، فرائض سے فرار/ کالم


  سنت کی اوٹ،
               فرائض سے فرار
                  (تحریر:ممتازملک.پیرس)



بیشک اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے اپنی پیغمبروں اور رسولوں کے سلسلے کو مکمل کر دیا ۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پاکیزگی ، سچائی ، امانت داری،  ایمانداری،  ایفائے عہد یعنی وعدہ نبھانے کے ساتھ ہر اس خوبی کی عملی تفسیر ہے جس کا کسی بھی بہترین انسان سے اللہ پاک کا تقاضا ہے ۔ اللہ پاک نے انسان کو جو بھی احکامات پیارے نبی و رسول کے ذریعے انسانیت تک بھیجیے ان سب پر عمل کرنے کی پہلی ذمہ داری اپنی نبی اور رسول پر ہی ڈالی ۔ تاکہ عام انسان ان احکامات سے بچنے کے لیئے حلیے نہ تراشے ۔ اور اس کے لیئے اس نے اپنے پیغمبروں کو انسانی جسم اور انسانی ضروریات کیساتھ بھیجا۔ وہ چاہتا تو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیئے فرشتوں کو زمین پر اتار کر ہم سب پر مسلط کر دیتا ۔ اور ہم  انکے احکامات ماننے پر مجبور ہوتے۔ اس وقت ہمارے دل و دماغ میں خود کو غلام اور بے بس سمجھے کا خیال رہتا۔ ظاہر ہے نہ فرشتوں کو بھوک لگتی ہے ، اور نہ ہی ان کے جذبات ہوتے ہیں ۔وہ تو اللہ کے ہر حکم پر صرف جی جناب ہی کہتے ہیں ۔ گناہ کا فرشتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تو وہ ہمیں کوئی حکم خود پر گزار کر، محسوس کر کے کیسے بتا سکتے تھے ۔ کیونکہ وہ انسانی جذبات، ضروریات ،اور خواہشات سے پاک ہوتے ہیں ۔ اسی لیئے اللہ پاک نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے انسانوں پر انسانی وجود میں ہی نبی اور رسول اتارے ۔  اور ان کے ذریعے انسانوں کو بتایا کہ اس کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جسے عام انسان باسہولت بجا نہ لا سکے ۔
آج کے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں میں اللہ تعالی کے احکامات سے راہ فرار اختیار کرنے کے بڑے بڑے حیلے بہانے اختیار کیئے ہیں ۔ لیکن خود سے ماننا بھی نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات سے روگردانی کر رہا ہے ۔ تو اپنے ضمیر اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیئے  نیکی کا کوئی سرٹیفیکیٹ بھی اپنے چہرے پر چپکانا چاہتا ہے۔ جس کے لیئے اس نے اللہ کے وہ احکامات جو ہمارے ایمان اور حساب کتاب کی بنیاد بنائے گئے ہیں۔ جن کے بنا بخشش ہی ممکن نہیں ہے ، کے بجائے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کی نقل کو احکام الہی کی جگہ لا کر  رکھ دیا ۔ 
  اللہ کے نبی کا کردار  (جس کے لیئے اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جو قران ہے وہ رسول اللہ کا اخلاق و کردار ہے اور جو رسول اللہ کا اخلاق و کردار ہے وہی قرآن ہے۔) کا ان کی نظر میں کوئی مقام ہونے کے بجائے جہاں سنو نبی پاک کے حلیئے کی نقل پر شور مچایا جاتا ہے ۔ جب سوال کرو کہ کیا اللہ کے احکامات کی مکمل پیروی کرتے ہو تو بجائے جواب دینے کے آپ پر کفر کے فتوی لگانے لگائے گا۔ آپ کو مارنے دوڑے گا ۔ یعنی اپنی بدکرداریوں پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے حلیئے کی نقل کا پردہ ڈال دیگا۔ گویا وہ فرائض سے بھاگ کر سنت کی آوٹ میں چھپنا چاہتا ہے ۔
جبکہ  سنت تک پہنچنے کے قابل ہونے کے لیئے پہلے فرائض کا پل صراط پار کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لائق ہوا جاتا ہے ۔
روز حشر فرائض کے سوالات کیئے جائینگے۔ سنت کی باری بعد میں آئے گی ۔ فرائض پر ہی جنت اور جہنم کے فیصلے ہونگے۔ جب سنت ادا ہوئی تو مذید اچھا اور ادا نہ ہو پائی تو اس پر کوئی سزا قرآن پاک میں کہیں نہیں سنائی گئی۔
دیکھیئے تو خود مسلمانوں نے ہی سنت کا تماشا بنا کے رکھ دیا ہے۔  کیا حق ہے کسی چور اچکے بدکار ، اغوا کار، ڈاکو ، راشی ، جھوٹے ، بے نمازی ، والدین کے نافرمان ، اپنی اولاد اور بیوی کے حقوق سے متنفر و بے فکر ، بہن بھائیوں کا جانی دشمن، لچے ،تلنگے  ، زانی کو میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اپنی غلیظ صورت پر چپکانے کی ۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ریش مبارک کوئی فیشن نہیں ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے اور ان کا کردار (یعنی قرآنی احکامات کی پیروی ) ہونے کی پہچان اور اعلان ہے ۔ ورنہ محض توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔
کم از کم میں بطور ماں اپنے بیٹے کو اس وقت تک داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دونگی جب تک اس کے دل میں خدا خوفی پیدا نہ ہو جائے ۔ وہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والا اور اپنے  فرائض احسن انداز میں ادا کرنے والا نہ ہو جائے۔
کیونکہ یہ فرائض ادا کرنے ، حقوق العباد ادا کرنے والے سے محبت کرنے والے رب  کی اپنی محبوب ترین ہستی کے چہرے کی رونق کا معاملہ ہے کوئی مذاق نہیں ۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔

● بٹ گئی ۔ سراب دنیا


  بٹ گئی
(کلام/ممتازملک ۔ پیرس)

رونا ہے احترام کا سچ تو ہے یہ مگر
عزت بڑوں کی آج مکانوں میں بٹ گئی

بیٹی سبھی کی سانجھی ہوا کرتی تھی کبھی
غیرت گلی کی ساری دکانوں میں بٹ گئی

جس کا کبھی جوانوں میں چرچا تھاہاں وہی
مردانگی بھی آج زنانوں میں بٹ گئی

قیمت بٹورے عقل کے والی چلے گئے
بےچینیوں کی بھینٹ دیوانوں میں بٹ گئی

 قربانیاں غریب کے حصے میں رہ گئیں 
دولت شہر کی ساری سیانوں میں بٹ گئی

ممتاز منصفوں کے نہ احوال پوچھیئے
انصاف کی دلیل بیانوں میں بٹ گئی 
                    ●●●                   


جمعرات، 11 جولائی، 2019

ہم کو بھی مدینے میں بلائیں ۔ نعت/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


                       نعت 

        ہم کو بھی مدینے میں بلائیں 
                (کلام/ممتازملک.پیرس)


ہم آپکے دربار میں کچھ نعتیں سنائیں  
سرکارجی ہم کو بھی مدینے میں بلائیں 

باندھے ہوئے بیٹھے ہیں دل زار کا ساماں
مل جائے اگر اذن تو حاضر ہوں غلاماں
ہم جیسے مسافر کو بھی منزل پہ لیجائیں 
سرکار جی ہم کو بھی مدینے میں بلائیں 

بن ویزا ملاقات کا دستور نہیں ہے 
لیکن یہ جدائی ہمیں منظور نہیں ہے 
ہوتی ہے کبھی جیب بھی خالی کیا بتائیں
سرکار جی ہم کو بھی مدینے میں بلائیں 

گھر بار کی فکریں ہمیں ہلنے نہیں دیتیں 
رشتوں کی حقیقت بھی سنبھلنے نہیں دیتیں 
اولادوں کو سنت بھرا پروان چڑہائیں 
سرکار جی ہم کو بھی مدینے میں بلائیں


اس بزم میں بیٹھے ہوئے ہر فرد کی سن لیں
اور بانی محفل کی دعاوں کوبھی سن لیں
ممتاز کبھی سامنے آ کر بھی سنائیں
سرکارجی ہم کو بھی مدینے میں بلائیں 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

رزق اور بھوک/چھوٹی چھوٹی باتیں


رزق اور بھوک

کسی کے پاس رزق نہیں اور کسی کے پاس بھوک تیری ۔۔۔
تیری حکمتیں ہیں یارب
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک.پیرس)

منافقوں کا ہجوم/ چھوٹی چھوٹی باتیں



منافقوں کا ہجوم


منافقوں کے ہجوم سے سچ کی تنہائی ہزار درجہ بہتر ہے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

اتوار، 7 جولائی، 2019

اسمبلیوں میں فیشن پریڈ ۔ کالم



   اسمبلیوں میں فیشن پریڈ 
                       (تحریر:ممتازملک.پیرس)


اسمبلی کی کاروائی کی جھلکیاں دیکھتے ہوئے بار بار یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ
خواتین اراکین اسمبلیاں کی تیاریاں
قیمتی سے قیمتی ملبوسات ، برانڈڈ گاگلز ،  لاکھوں کے دستی بیگز اٹھائے کروڑوں کی گاڑیوں میں ملازمین  کے جھرمٹ میں چلتی ہوئی یہ خواتین کس لحاظ سے پسے ہوئے عوام اور طبقات کی نمائندہ تسلیم کی جا سکتی ہیں ؟ 
 انکی فیشن پریڈ دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک غریب ملک کی اسمبلیوں میں بھوکے فقرے لوگوں کا ووٹ لیکر آئی ہیں یا نامعلوم پردوں میں کسی کے سر پر سوار ہو کر نام نہاد عوام کی نمائندگی کرنے آئی ہیں ۔ ہو سکے تو پڑوسی ملک بھارت کی اس بات سے سیکھیئے جہاں بڑی سے بڑے ہیروئن بھی اگر اسمبلی میں منتخب ہو کر پہنچے تو اس نے بھی سستی ترین ساڑھیاں اور قمیض شلوار کا انتخاب کیا ۔ جہاں انہیں عورت ہوتے ہوئے  اندراگاندھی یہ سمجھا کر گئی کہ اسمبلی میں جن لوگوں کے ووٹ سے آئے ہو ان کی نمائندگی تمہارے حلیئے اور لباس سے بھی ظاہر ہونی چاہیئے ۔ تاکہ وہ تمہیں اپنے جیسا اور اپنے مسائل و خواہشات سے آگاہ تصور کریں ۔  سو وہ سستے ترین اور سادہ ترین ملبوسات میں اسمبلی میں اور عوامی مقامات پر نظر  آتی ہیں ۔ جبکہ ہماری اسمبلی یا سینٹ میں آتی خواتین کو دیکھ کر لگتا ہے یا تو یہ رشتہ لینے جا رہی ہیں یا پھر اپنا رشتہ دینے جا رہی ہیں ۔ اندر عوامی مسائل پر بحث نہیں  ہونے  جارہی بلکہ کسی فیشن شو میں انکی ماڈلنگ کا انتظام کیا گیا ہے ۔ یا اپنی امارت اور بناو سنگھار سے دوسرے کو پچھاڑنے کی تیاری ہے ۔ یا پھر معذرت کیساتھ وہاں پر مردوں کو رجھانے کا کوئی  مقابلہ ہونے جا رہا یے ۔ 
کس قدر شرم کی بات ہے کہ جس ملک میں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے اور اسمبلیوں میں یہ نمائندہ خواتین ایسٹ انڈیا کی میموں کی منظر کشی کر رہی ہیں ۔ 
یہ کون سے ملک سے آتی ہیں اور یہ کیا کر رہی ہیں پاکستان میں  ؟ ان کے حلیئے اور انداز نزاکت سے تو ہمیں یہ محسوس ہوتا یے جیسے ابھی تالی بجا بجا کر حکم دینگی کہ اسے مار ڈالو ،اسے اٹھا لو ، چلو ہمارے جوتے صاف کرو ، چلو ہمیں پنکھا جھلو ۔۔۔
جن خواتین کو دیکھ کر آپ کو ایسی باتیں محسوس ہوتی ہوں ان سے کسی بھی بات کی ہمدردی کی اور انسانیت کی کسی خدمت کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے ۔ 
پراٹھے کھانے والے کو کیا معلوم بھوک سے انتڑیوں میں بل کیسا ہوتا ہے ؟ 
بطور پاکستانی عام انسان کے ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر ایک کو انصاف ملے، تحفظ ملے ، خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا خاتمہ  ہو سکے ۔ اسی لیئے اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بھیجی جاتی ہے کہ جو مسائل ہمارے بھائی ، مرد حضرات نہیں سمجھ سکتے وہ یہ خواتین سمجھیں گی اور اس پر بہتر انداز میں آواز اٹھا سکیں گی ۔ اور اس پر زیادہ بہتر قانون سازی کروا سکیں گی  اور ان پر عملدرآمد ہو سکے گا ۔ لیکن افسوس ہر گزرتے دن کیساتھ  خواتین اراکین اسمبلیان کی جن  کارکردگیوں میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہوا ہے وہ ہے کرپشن ، اقربا پروری ، تکبر ،  میک اپ ، فیشن ۔۔۔
کارکردگی ان کی صفر سے بھی نیچے کوئی ہندسہ ہوتا تو وہی قرار پاتی ۔ 
جوں جوں اسمبلیوں میں فیشن کی ماری خواتین کا اضافہ ہوتا گیا توں توں ملک میں عورتوں اور بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کہ تعداد بھی ہوشربا ہوتی چلی گئی ۔ انہیں کون بتائے گا کہ ان کا اسمبلی میں پہنچنے یا پہنچانے کا کیا مقصد ہے ۔ خدارا یوں تو سارے ملک  میں خواتین کی بے لگام بے پردگی پر لگام ڈالیئے ۔ اور ملک بھر میں خواتین  کو عموما اور اسمبلیوں میں خصوصا ایک ڈھیلا ڈھالا لبادہ جیسے جبہ یا گاون اور سر پر کوئی رومال یا سادہ دوپٹہ لیکر آنے کا پابند کیا جائے ۔ وہ اپنے گھر میں کیا پہنتی ہیں اور کیا نہیں،  یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ یہ کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ لیکن جہاں یہ معاملہ کسی پر اثر انداز ہونے لگے وہاں اس پر دھیان دینا بیحد ضروری ہے کیونکہ خواتین کے پہناوے اور بناو سنگھار سے ہی کسی ملک کی اقدار  اور شرافت کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین اراکین اسمبلیاں  شادی بیاہ کے اور ماڈلز کے ملبوسات زیب تن کر کے پیش نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات اور دفاتر میں نظر آتی ہیں ۔ ہر لباس اور ہر بناو سنگھار کا اپنا اپنا موقع اظہار ہوتا ہے ۔ وہ وہیں پر اچھے لگتے ہیں ۔ کہیں اور اسے برتیں گے تو صرف مذاق ہی کا نشانہ بنیں گے۔ اس لیئے تمام سیاسی خواتین سے خصوصی گزارش ہے کہ اپنے حلیئے اور میک اپ میں سے چھچھورپنے کی نفی کیجیئے ۔ باوقار انداز میں اپنے کام کے مقامات پر پہنچیئے تاکہ دیکھے والے مرد بھی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوں ۔ اپنے آپ کو لال پیلی چھمک چھلو بنا کر تماشا مت بنائیں ۔ یہ  آپ کا ذاتی معاملہ ہر گز نہیں ہے آپ ہماری نمائندگی کرتی ہیں اس لیئے  یہ ہمارے مجموعی قومی وقار کا سوال ہے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتیں تو جا کر اپنے گھر بیٹھیئے یا فلموں میں اپنے نازوانداز کی نمائش کیجیئے ۔ 
                          ●●●

جمعہ، 5 جولائی، 2019

اذیت میں لذت؟ کالم


          اذیت میں لذت ؟
                       (ممتازملک۔پیرس)



مجھے یاد یے جب ہم خط لکھا کرتے تھے اور اس کے جانے میں مہینہ بھر لگ جایا کرتا تھا ، پھر فوری جواب بھی بھیجا جاتا تو تب بھی ایک مہینہ اور لگ جاتا ۔ اور دو  ڈھائی ماہ بعد کہیں اپنی کہی بات پر دوسرے کا جواب ان ترسی ہوئی منتظر آنکھوں کو ملا کرتا تو دل بڑی شدت سےخواہش کیا کرتا تھا کہ کاش کوئی ایسا طریقہ ہو کہ نام لو اور اس کی آواز سن لو ، سوال کا فورا جواب پالو ، دیکھنا چاہا تو پلک چھپکتے میں دوسرے کا دیدار کر لیا جائے ۔۔۔
فون کال بھی باقاعدہ بک کروائی جاتی تھی مجھے یاد یے 96ء میں 96 روپے فی منٹ کی کال فرانس کے لیئے تو میں بھی اپنے شوہر کے لیئے  بک کروایا کرتی یا گورنمنٹ پی سی او پر کافی انتظار کے بعد میں جلدی جلدی اپنی بات پہلے سننے کا کہتی کہ جس کام کے لیئے فون کیا ہے وہ بھول نہ جائے اور پیسے ختم نہ ہو جائیں ۔۔
اف خدایا کیا ترسا ہوا دور تھا وہ ، اور پھر خدا نے ہماری خواہش پوری کر دی ۔ ہماری دعائیں رنگ لے آئیں اور ہمیں انٹر نیٹ مل گیا موبائل مل گیا ، واٹس اپ نے تو گویا ہر مراد ہی پوری کر دی ،
اور آج ہم جیسے ماضی پرست بیٹھے ہق ہائے کا نعرہ لگا کر اپنی طرف سے بڑی رومانوی یاد کے طور پر اس لمحہ لمحہ سسکتے دور کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں کہ ہائے ہائے کیا دور تھا وہ خطوں کا لکھنا اور وہ جواب کے انتظار کی لذت۔۔۔۔ہائیں لذت؟؟؟ ارے بھائی یہ عذاب ناک انتظار اور اس کی تڑپ اور بیقراری لذت کب سے ہو گئی ۔ اور جس کے لیئے یہ لذت یے وہ یقینا کوئی ذہنی طور ہر ہلا ہوا ہی ہو سکتا ہے ۔ 
اللہ تعالی نے ہمیں ہر روز گزرے کل سے زیادہ آسانیاں عطا فرمائیں ہیں ۔ آسائشیں عطا فرمائیں ہیں ۔ اسے اپنی ناشکریوں کی نظر مت کیجیئے ۔ آج کے وقت میں شکرگزاری کیساتھ جینا سیکھیئے ۔
بھوکے ننگے ، ترسے ہوئے، تکلیفدہ زمانوں کو یاد کر کے اپنی آج کی خوشیوں پر پانی مت پھیریئے۔ آج کی آسانیوں اور آسائشوں کے بنا گزرے وقت کی تکلیفوں کو سچائی کیساتھ محسوس کر کے یاد کریں گے تو آپ کو آج کے دور کی آسانیاں قدر کی نگاہ سے دکھائی دینگی ۔
بلکہ یہ سوچ کر تو شکر گزاری اور بھی بڑھ جانی چاہیئے کہ اگر اس وقت یہ سہولت ہوتی جب ہمارے وہ پیارے  اس دنیا میں موجود تھے (جن سے ہم نے دوریوں کے عذاب سہے) تو کتنا اچھا ہوتا ۔ کہتے تھے کہ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے تو اب سماعت اور سماعت سے بڑھ کر بصارت یعنی آڈیو اور ویڈیو نے تو سمجھیئے ہماری دوریوں کا تصور ہی مٹا کر رکھ دیا ہے ۔ اٹھانوے فیصد ملاقات نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔  دو فیصد کسر رہ گئی ہے تو سامنے والے کو چھونے کی یا کسی چیز کو سونگھنے کی ، تو کیا بعید کہ بہت جلد چھونے اور سونگھنے کا عمل بھی اس میں شامل کر دیا جائے ۔  
آج سے پچاس سال  سے پرانے کسی بھی شخص کو اچانک آج کے وقت میں لے آئیں تو یقینا یہ وقت اور آج کی دنیا اس کے ہوش اڑانے والی جادو نگری  سے کم نہیں ہو گی ۔ بلکہ کئی آج کے دور میں موجود لوگوں کے لیئے بھی آج ہی دنیا کسی جادو نگری سے کم ہر گز نہیں ہے ۔ کچھ تو وہ ہیں جس کے وسائل یا پہنچ ان نئی ایجادات یا سہولیات تک نہیں ہے لیکن کئی ایسے بھی ہیں جن  کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ ہی تعلیم کی ، ان چیزوں تک ان کی رسائی کوئی مسئلہ ہے نہ ہی حصول لیکن اس کے باوجود آج بھی ایسے لوگ نت نئی ایجادات خرید تو لیتے ہیں صرف دوسرے کے سامنے اس کی نمائش اور اپنی بڑائی دکھانے کے لیئے لیکن وہ اس چیز کے استعمال کرنے کے طریقے بالکل بھی نہیں جانتے ۔ اس سے وہ اس وقت کی ان ایجادات کے فوائد سے محروم ہی رہتے ہیں ۔ سو جب بھی کوئی جدید تیکنیکی  چیز  خریدیں تو تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر پہلے یا بعد از خرید اس آلے کے استعمال کو ضرور جانیئے۔ کچھ سیکھنے یا جاننے میں کبھی بھی شرمائیے مت ۔ کیونکہ شرمانے والا خود کو ان فوائد اور معلومات سے محروم کر رہا ہوتا ہے ۔ 
گزرے زمانے کی محرومیوں پر ٹھنڈی آہیں بھرنے کے بجائے آج کے موجودہ لمحے کی سہولتوں پر مسکرا کر شکرگزار ہونا ہی خوبی ہے ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔



چوھدری

میری ذاتی رائے ہے کہ یہ اصل لفظ کبھی جوتھری  رہا ہو گا جو بگڑتے بگڑتے چوھدری ہو گیا ۔
ذرا غور کیجیئے زمیندار جو زمیں جوتنے کے لیئے جسے دیا کرتے تھے اسے جوت + ری =  جوتری
جوتنا+ کرنا +آواز میں ذور ڈالنے کے لیئے ھ ڈال دیا تو بن گیا =جوتھری
لیں غلط العام ہوتے ہوئے یہ چوھدری ہو گیا جو شاید آغاز میں بطور گالی کے کسی کو طنزا کہا گیا ہو ۔
لغت ممتازیہ

پیر، 1 جولائی، 2019

حاضر جوابی نہیں بھانڈ پن ۔ کالم



   حاضرجوابی نہیں بھانڈپن
                         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

یہ سچ ہے کہ  ہمارے ہاں قومی مزاج میں بھانڈ پنا سرایت کر چکا ہے ۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ مذاق اور تذلیل میں کب حد فاضل قائم کرنا ہوتی ہے ۔
ہمیں معلوم ہی نہیں کہ مذاق کس سے کیا جا سکتا یے اور کس سے نہیں ۔  
کچھ روز قبل ایک ٹریولر پیج ہر کسی صاحب نے پوچھا کہ کم سے کم خرچ میں وہ کہیں جانا چاہیں تو کہاں کہاں جا سکتے ہیں ؟ اگر یہ سادہ سا سوال دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کے کسی پیج پر ہوتا ہے تو وہاں وہ جواب میں اسے کومنٹ بکس میں ہی ایسے تمام مقامات کی تفصیلات اور اخراجات کا حوالہ فراہم کرتا ۔ یا اسے ان بکس میں اس کا جواب دیکھنے کی ہدایت کرتا ۔ لیکن اس سادہ سے سوال کے جواب میں ہمارے بڑے سے بڑے نام نہاد  تعلیم  یافتہ سے لیکر عام سے پرائمری پاس نے بھی خوب مسخرہ پن دکھانے کی کوشش کی ۔ کسی نے اسے تانگے پر جانے کا مشورہ دیا ، تو کسی نے اسے محلے کی سیر تجویز کی ۔ کسی نے اسے بسوں میں ریوڑیاں، ٹافیاں ، منجن بیچتے بیچتے پہنچنے کا مشورہ دیا تو کسی نے اپنی اوقات کے مطابق کوئی اور فضول ترین بات کی ۔ جسے پڑھ کر ہر ذی شعور انسان کو سخت افسوس بھی ہوا اور شرمندگی بھی ۔ ان سارے کومنٹس میں کسی کی ڈگری تھی یا وہ پرائمری پاس تھا سب کے سب کا ذہنی معیار ایک سا ہی نظر آیا ۔ 
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سوال اس پیج کے ایڈمن سے معلومات کے حصول کے لیئے کیا گیا ہے تو باقی اراکین کو اس میں اپنا زہنی پٹارہ کھولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
کیا جسے آپ اپنے ذہنی معیار کے گھٹیا مذاق سے نواز رہے ہیں آپ اسے ذاتی طور پر جانتے ہیں ؟
اگر جانتے بھی ہیں یا وہ آپ کا قریبی بے تکلف ترین دوست بھی ہے تو کیا آپ اس کی مالی حیثیت کا مذاق یوں عوامی سطح پر اڑا کر اپنی دوستی کا کوئی حق ادا کر رہے ہیں ؟
یا پھر وہ آپ سے کئی لحاظ میں ہزار گنا بہتر ہے اور آپ اسے ان گھٹیا جوابات کے ذریعہ کمتر ثابت کر کے اپنی چھوٹے ذہن کی چھوٹی اور گھٹیا سوچ کو کوئی تسکین پہنچانا چاہتے ہیں ۔ 
اور پھر ایک سیدھی سے بات ایک پبلک پلیٹ فارم پر اگر آپ کا اپنا کوئی قریبی اور بے تکلف دوست بھی پوچھ رہا ہے تو اس کا پوری سنجیدگی اور سمجھداری سے جواب دیجیئے ۔ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہر انسان کی جیب ایک جتنی نہیں ہوتی لیکن دل تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔
میں نے اور مجھ جیسے اربوں لوگ ہمیشہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کب کہاں کم قیمت پر کوئی اچھی چیز یا پیکج مل سکتا ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ تو اس میں شرم کی کیا بات ہے ۔ بچت کرنا اور اپنی جیب کے مطابق رہ رہنمائی لیکر  کوئی کام کرنا بہت سمجھداری کی بات ہے ۔ ناکہ جیب میں چونی بھی اپنی کمائی کی نہ ہو اور ہم باپ اور بھائی کی مال پر جا کر لوگوں میں "پھڑیں" مارتے پھریں ور نوٹوں کو آگ لگا کر خود کو مال دار ثابت کرنے کی واہیات حرکتیں کرتے رہیں ۔ پہلے اپنی محنت سے چار پیسے کما کر دیکھیئے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ  اسے خرچ کرنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔ 
 ہم لوگ اس فرق سے بالکل ہی نابلد ہو چکے ہیں کہ مذاق کیا ہوتا ہے اور جگت کیا ہوتی ہے اور حاضر جوابی کسے کہتے ہیں ۔ حاضر جوابی ایک بہت بڑی خوبی ہوتی ہے جبکہ بات سمجھ میں آئے نہ آئے منہ کھول کر کوئی بھی بات سامنے والے پر پھینک دینا بدتمیزی ، منہ پھٹ ہونا اور بدزبانی تو ہو سکتا ہے حاضر جوابی نہیں ۔ حاضر جوابی کا مطلب ہے کہ آپ کے سامنے کوئی بھی بات ہو تو آپ کا ذہن اس قدر متوجہ اور قابل ہو کہ اس بات سے متعلق درست جواب یا رائے فوری طور پر سامنے پیش کر سکیں ۔ جبکہ اوپر دیئے گئے جوابات حاضر جوابی تو کسی بھی لحاظ سے نہیں کہلا سکتے ۔ ہاں بیہودگی ، بداخلاقی ، بدتمیزی اور تکبر کے پہلے پائیدان پر ضرور موجود ہوں گی ۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ان جوابات سے پوچھنے والے کو کس قدر شرمندگی اور دکھ ہوا ہو گا ۔ اور ہم نے اپنی نیکیوں میں کون سا اضافہ کر لیا، ہاں البتہ گناہوں کے بورے بھر بھر کر اپنے کندھوں پر ضرور باندھ لیئے ۔ 
یاد رکھیئے ہمارے الفاظ ہمارے منہ میں اسی طرح سے بھرے ہوئے ہیں جس طرح پستول میں گولیاں بھری ہوتی ہیں ۔ اور اس پستول کا استعمال اتنا تکلیف دہ نہ بھی ہو کہ اس کا زخم تو بھر ہی جائے گا یا زخمی ایک ہی بار میں  مر جائے گا ، لیکن منہ سے نکلی گولی روح تک کو چھیدنے کے لیئے کافی ہوتی ہے ۔ 
کاش ہم زبان چلانے سے پہلے دماغ چلا لیا کریں تو یوں کسی کی دلآزاری کا گناہ ہمارے اچھے  اعمال کے تھیلوں میں سوراخ نہ کرتا ۔
                     ------

اتوار، 30 جون، 2019

سمجھ جائے






کاش ایسا بھی کوئی وقت آئے
میں کہوں اور تو سمجھ جائے
زندگی زلف میری بن جائے
انگلیوں  سے تیری سلجھ جائے
            (کلام/ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 26 جون، 2019

● تو کون میں کون ۔ کالم


              تو کون میں کون
               (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


دیکھو مٹی میں نہیں کھیلنا ، اسے منہ نہیں لگانا ، یہ ہمارے سٹیٹس کا نہیں ہے ، وہ ہمارے سٹینڈرڈ کا نہیں ہے ، دوسرے کو  اگنور کرنا، سیکھو،
اپنے لیول کے لوگوں سے تعلقات بڑھایا کرو، یہ چھوٹے لوگ ہیں ، بڑے لوگوں میں پی آر او بناو،
جی ہاں یہ ہی ہے ہمارے آج کی آدھی تیتر اور آدھی بٹیر ماوں کی اپنے بچوں کو دی ہوئی تربیت ۔
اور آج ہمارے معاشرے میں انسانیت کی جو تذلیل ہے ، خود غرضی کا جو طوفان ہے ،
یہ سب کچھ ہماری ماوں کی ناکام تربیت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت اس کے پہلے پانچ سال میں ہی مکمل ہو جاتی ہے ۔
 آج جب مائیں اپنے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو دینی اور اخلاقی سبق اور تربیت نہیں دے سکتیں تو انہوں نے حیوان ہی بننا ہے انسان نہیں ۔ جو آج ہمارے معاشرے میں دندناتے نظر آ رہے ہیں ۔  آج ہمارا بچہ ان پانچ سالوں میں نادان ماوں اور حکومتی سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر بابا بلیک شیپ اور ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کے رٹتے رٹتے  ہی میں وہ سنہرا ترین وقت گنوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں کسی ملک کے بچے پر یہ لسانی ظلم نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں  بچوں کو سہنا پڑتا ہے۔
پہلے مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے بچہ کسی نہ کسی کی نظر میں رہتا تھا تو اسے سکھانا سمجھانا بھی کئی لوگوں کی ذمہ داری میں آ جاتا تھا ۔ گو کہ وہاں بھی کسی کے لاڈلے بننے اور کسی کو نشانے پر رکھ لینے والی ناانصافیوں کے سبب مشترکہ خاندانی نظام کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ۔ کیونکہ وہاں بھی ناانصافیوں کے سبب اور شریف النفس انسان کو قربانی کا دنبہ بنا لینے کی عادتوں کے طفیل اسی کے بچے سب سے زیادہ محرومیوں کا شکار کر دیئے جاتے تھے ۔ اس لیئے اپنے خاندان یعنی اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری ہر انسان کو خود ہی اپنے سر لینے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ جس کے سبب آج جب علیحدہ خاندان (سیپرٹ فیملی) کا رواج ہے ۔ اور مہنگائی اور نت نئی ایجادات کے سبب بچے پالنا ہاتھی پالنے کے برابر ہو چکا ہے ، تو عافیت اسی میں ہے کہ یہ ہاتھی جتنے کم ہوں اتنا ہی بہتر ہے یعنی کہ  بچوں کی تعداد کم ہی رکھیں تو ہی عافیت ہو سکتی ہے ، اور ہر بچے میں کم از کم 3 سال کا وقفہ ہی ہمیں ان کی تربیت کا بہترین وقت فراہم کر سکتا ہے ۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے فساد اور طعنے تشنع سے بچیں ۔ گھر میں عورت کو گالم گلوچ اور مارپیٹ بچے کو یہ ہی کچھ کرنے پر اکساتی ہے ۔
اگر باپ ہی اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورت کی اور خصوصا اپنی بیوی اور اپنے بچے کی ماں کی ہی عزت اور حفاظت نہیں کریگا تو اس کی اولاد یہ عزت کا سبق کہاں سے جا کر سیکھے گی ؟
 ماں گھر میں اور باپ باہر کے لیئے بچے کو تیار کرتا یے  ۔ جیسے بیٹا کسی سے بدتمیزی نہیں کرنی ۔ بلا ضرورت  اونچی آواز میں بات کرنا بد تہذیبی ہے ، گالی نہیں دینی ۔ لڑنا بری بات ہے ۔ سلام میں پہل کرو ۔ کسی سے کچھ لیکر نہیں کھانا ۔ ٹوہ میں رہنا بری بات یے ، کسی کے بھی گھر یا کمرے میں دستک دیئے بنا اور اجازت لیئے بنا داخل ہونا بری بات ہے ، دروازے پر دستک دیکر دروازے کے اس رخ پر کھڑے ہو جس پر دروازہ کھلنے کی صورت میں فورا تمہاری نظر اس گھر کے اندر نہ جائے ، شریفانہ اور پسندیدہ عمل ہے ،
فضول باتوں سے کسی کا وقت برباد مت کرو، جو بات کرنی ہو پہلے اس کا مضمون اپنے ذہن میں بنا کر رکھو تاکہ کم وقت میں واضح بات سامنے والے سے کی جا سکے ۔
 بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز نہ اٹھانا، نہ استعمال کرنا ۔ کسی کو راستہ دینا ، ہاتھ سے چھو کر مذاق مت کرنا ، کلاس میں ایکدوسرے کی اچھی بات اور کام میں  مدد کرنا، اپنے ساتھ نماز اور دیگر محافل میں لیکر جانا ، انہیں محفل کے آداب سکھانا ، کھانا کھانے کے آداب سکھانا ، کوئی لباس پہن کر اسے کیسے لیکر چلنا ہے ،  ۔۔۔ایسی بہت سے باتیں۔
جبکہ دوسری جانب ایسی ماوں اور ان کے ہاتھوں پروان چڑھے لوگوں کی بھی کمی نہیں یے جو مذہبی حلیئے اور عبادت پر تکبر اور اپنے اوپر  جنت کی واجبیت کے یقین پر ساری دنیا کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں اور  وہ اسے ساری دنیا پر اپنا احسان گردانتے ہیں ۔ اپنی نمازوں روزوں اور حج و عمرہ کو اپنے معاشرے پر مہر بانی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کس بات کا فائدہ صرف ہمارا ہے اور کس بات سے ہم اپنے معاشرے کو اپنے مفید ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ہم لوگوں کو  یہ بات پہلے نمبر پر رکھنی ہو گی کہ بھائی میری نماز ، روزہ ، مذہب خالصتا میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے اس سے سامنے والے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہے ۔ مجھے حقوق العباد  (لوگوں کی حقوق) پر اپنے اعمال درست کرنے ہیں کیوں کہ اس پر میری دنیا کا بھی انحصار ہے اور آخرت کی بخشش کا بھی ۔ میں نے کتنی نمازیں پڑھیں، کتنے روزے رکھے، سے زیادہ اس بات پر بخشش کا انحصار ہو گا کہ ہم نے اپنے والدین ، بہن بھائیوں، شوہر ، بیوی، پڑوسیوں کے حقوق ادا کیئے ۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ کسی بیوہ کو اسے کے پیروں پر کھڑا کیا ، کسی کا جھگڑا ختم کرایا  ۔۔۔اور ایسے ہی کام اصل میں ہمارے اعمال ہیں ۔
جن کا نہ صرف پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے بلکہ اللہ پاک نے اس کی بابت ہم پر بھاری ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ کاروباری معاملات ہوں تو صبر تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں ہے ۔ محلے داری اور پاس پڑوس کا معاملہ ہو ہم لوگوں میں رواداری اور لحاظ نام کو بھی نہیں رہا ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ زمانہ وہ نہیں رہا ۔ زمانہ تو وہی ہے اپنے گریبان میں جھانکیئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ وہ نہیں رہے ۔ جیسے ہم سے پہلے لوگ ہوا کرتے تھے ۔ آج خود غرضی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ بھائی بھائی کو اور بہن بہن کو لوٹنے سے پہلے ایک لمحے کو بھی سوچنا پسند نہیں کرتے ۔ 
ہر ایک کی پہلی سوچ یہ ہی ہوتی ہے کہ موقع غنیمت جانو لوٹ لو ، اٹھا لو فائدہ اور جب کچھ نہ بچے تو آنکھیں ماتھے پر نہیں اب تو پیٹھ پر سجا لو کہ بھائی تو کون میں کون ۔۔
مادہ پرستی اور خود غرضی ہمارے اپنے من چاہے وہ عیوب ہیں جو ہم نے خوشی خوشی اپنے اعصاب پر سوار کیئے ہیں ۔ جب تک ہم انہیں اپنے کندھوں سے نہیں اتاریں گے ہماری منزل کا سفر نہ سہل ہو گا نہ مکمل۔ نہ دنیا میں نہ آخرت میں  ۔۔۔۔۔۔۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 25 جون، 2019

اچھی یا بری باتیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




اکثر با تیں بری نہیں ہوتیں لیکن ان باتوں میں الفاظ کا چناو انہیں اچھے اور برے کی سند دلوا دیتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 19 جون، 2019

اپنے عیب۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




دنیا میں اپنے عیب اور دوسرے کی خوبی کا اعتراف سب سے مشکل کام ہوتا ہے ۔ لیکن جو ایسا کر جاتا ہے وہی اچھا انسان ہوتا ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 31 مئی، 2019

ذوق نبی ۔ نعت ۔ سراب دنیا


نعت 
             ذوق نبی ص

حضور کے ذوق کے مطابق جو نعت ہوتی تو بات ہوتی
  غلام آقا ہی نام ہوتا  یہی ہماری جو ذات ہوتی تو بات ہوتی 

انہیں کے قدموں میں دن گزرتا کمال ہوتا 
جوانکےجیسےہی رات ہوتی تو بات ہوتی

ہمارا بھی ذکر سن کے سرکار مسکراتے 
وہی مقدس حیات ہوتی تو بات ہوتی 

 ہمارا ہر دن نبی کی سنت  بسر جو ہوتا 
ہماری ہر شب برات ہوتی تو بات ہوتی

اگر میسر ہو انکے احکام پر عمل تو
ہمارے تابع یقین کی کائنات ہوتی تو بات ہوتی 

حضور کے راستے پہ ممتاز ہمیں بھی بخشش نصیب ہوتی
ہمیں جو تقوی نصیب ہوتاحصول راہ  نجات ہوتی تو بات ہوتی 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 23 مئی، 2019

بھنبھوڑ دو عورت کو ۔ کالم




        بھبھوڑ دو عورت کو 
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)





کبھی دن کے اجالے میں مردانگی کا اشتہار فرشتے مار ڈالتا ہے تو کبھی رات کے اندھیرے میں اس پر کسی بھی کام سے ، چاہے مجبوری سے۔ہی گھر سے  نکلنے پر اس کی آبروریزی کے لیئے جواز ڈھونڈتا ہے ۔ ہمارے مردوں  میں  وہ کون سا  کیڑا ہے جو کسی بھی عورت کو کسی بھی عمر میں یا یوں کہہ لیں گود سے گور تک دیکھ کر کتے کی طرح بھنبھوڑنے پر اکساتا ہے ۔ پھر اس رذیل کام کے بعد وہ نیک ، پرہیز گار ، محنتی ،ذمہ دار ،بیٹا ، بھائی ، شوہر ،  باپ بن کر اپنے گھر بھی پہنچتا ہے ۔ سب کو اپنی پارسائی کو سراہنے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نیکی کا بھاشن بھی دیتا ہے ۔ قران کی آیات و تراجم شئیر کرتا ہے تو کہیں احادیث کے نمونے لگا لگا کر دنیا کو اپنے نیکی کے اشتہار بھی بانٹتا ہے ۔ 
لیکن اس کے کردار کا اصل دیکھنا  ہو تو اسکے سامنے  کوئی عورت لا کر کھڑی کر دو ۔ تھوڑا اختیار دیدو ۔ بس پھر دیکھیئے اس کے اندر کا شیطان پارسائی کی بوری پھاڑ کر کیسے سامنے آتا ہے ۔ 
روز ایک نئے نام سے پرانی کہانی میرے اسلامی جمہوریہ میں دہرائی جاتی ہے ۔ کل کے دن میں ملک کے جڑواں شہروں میں دارلحکومت کے اندر  اپنے ہی گھر کے سامنے سے اٹھائی ہوئی دس سال کی فرشتے کی عزت کا ماتم کریں یا راولپنڈی میں بائیس سال کی نوجوان لڑکی کا پولیس گردوں کے ہاتھوں گینگ ریپ پر ان کا نوحہ پڑہیں ۔۔یا ہم ان ٹھرکیوں کے سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بے شرمانہ کومنٹس پر ان پر تھوکیں جو کم از کم مرد تو نہیں کہلا سکتے ۔ کہ جن کے ہوتے ہوئے اس ملک میں کوئی بچہ کوئی عورت نہ اپنی عزت محفوظ سمجھتا ہے نہ ہی اپنی جان ۔۔لیکن وہ یہاں کومنٹس میں اپنا غلیظ چہرے کی کالک عورت پر پوت کر خود کو صاف ستھرا ظاہر کر رہے ہیں ۔ 
جس کے ہاتھ جس عمر کی عورت لگے وہ اسے  اپنے پانچ منٹ کے مزے کے لیئے ہر دین، دھرم ، عزت ، حیا ، خدا کا خوف سے سے پلہ جھاڑ کر تباہ و برباد کر کے دم لیتا ہے ۔ کیا پاکستانی مردوں کی اکثریت دنیا بھر میں  جنسی امراض کی سب سے زیادہ شکار ہے ۔ یا ذہنی امراض کا، نفسیاتی مسائل کا حل ان جانوروں نے عورتوں کو بھنبھوڑنے میں تلاش رکھا ہے ۔  کیا ان کی ماوں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ سب عورتیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ان کی اپنی ماں ہے یا بہن ہے ۔ یا انہیں یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ ہر وہ چیز جس پر کسی انسان کی نظر پڑتی ہے اس کی ملکیت نہیں ہوتی،  نہ ہی وہ اس کے زیر تصرف آ جاتی ہے ۔ تمہارے استعمال میں تمہارے نام جاری ہونے والی کوئی چیز یا رشتہ ہی ہو گا اور بس ۔ باقیوں پر رال ٹپکانے سے پہلے اپنے مذہب اور معاشرتی تقاضوں کو اپنی آنکھوں پر باندھ کر رکھو ۔ 
لعنت ہے اس معاشرے پر کہ جس کے مرد اپنے ہاں عورتوں اور بچوں کی جان اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ جو اپنے اندر کا کیڑا نہیں مار سکتے ۔ یہ خود کو کس منہ سے مرد کہتے ہیں ۔ 
انکے لیئے عملی سزاوں کا اطلاق کروانے کے لیئے ہمیں کس ملک کی عدالت سے رابطہ کرنا پڑیگا ۔ یا پھر ہم براہ راست اپنی عزت اور جان کی حفاظت کے لیئے اقوام متحدہ سے کاروائی کرنے کی درخواست کریں ۔ 
ہمیں بتائیں ہمارے ہاں کے غیرتمند کہلانے والے مردوں نے اس معاملے میں اپنے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی  ہیں  ۔ کیا ان کی اپنی داڑھی میں تنکے کی بجائے  جھاڑ ہے پورا ،جو انہیں زبان کھولنے نہیں دیتا ۔ حکومت پاکستان کیا اس سلسلے میں کسی اور ملک کے دباو کا انتظار کر رہی ہے ؟ 
ہمارے معاشرے میں ہندوستانی فلموں کے زہریلے اثرات تیزی سے گھل رہے ہیں ۔ ہمیں ان کے رخ پر بہنے کے بجائے اپنے میڈیا کو مثبت انداز فکر کی جانب راغب کرنا ہو گا ۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ عورت اور بچہ جس معاشرے میں محفوظ نہیں وہاں صرف مردوں کو رنڈی خانے ہی ملیں گے ۔
اس مرد کے گھر کی عورت اس کے آگے  اور اس کے گھر کی عورت اس کے آگے ۔۔کیونکہ یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔
چاہے وہ دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ۔
 آباد گھروں کو بھول جائیں پھر
                       ۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2019

فرشتے کو۔بھی مار ڈالا ۔ کالم



        فرشتے کو بھی مار ڈالا
                     (تحریر:ممتازملک.پیرس )


اسلام جمہوریہ پاکستان کے قلب میں ،سب سے محفوظ شہر میں ، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ، شیطان کو قید کیئے جانے کے باجود ایک فرشتے کی موت ہو گئی۔۔۔۔ کیسے؟؟؟
جیسے اس ملک میں ہر بچی اور عورت اغوا کی جاتی ہے ، برباد کی جاتی ہے اور مار دی جاتی ہے ۔۔ 
اپنی جان و عزت کی حفاظت  کے لیئے عورتوں اور بچوں کو مل کر ایک منظم اور بھرپور تحریک چلانی ہو گی ۔ جہاں سے پارلیمنٹ تین دن میں  اس قانون کو بنائے اور عدلیہ اسے  فوری نافذ کرے۔ کہ ایسے کسی بھی واقعے میں تین دن کے اندر پولیس اصل مجرم کو پکڑے اور عدالت تین دن میں اسے سزائے موت دے اور 7ویں روز اس مجرم یا وکٹم کے گھر کے سامنے یا اس کے محلے میں اسے سرعام پھانسی دی جائے اور کم از کم سات روز تک یہ لاش وہاں عبرت کے لیئے لٹکی رہے ۔ اس کے بعد اسے کسی کھڈے میں بنا کفن دفن کے پھینک کر مٹی کو بلڈوز کر دیا جائے ۔ 
صرف چار سزائیں ایسی دیکر دیکھ لیں اس ملک کے مرد اپنے ناڑے کے ساتھ اپنا نفس باندھ لینگے لیکن کسی بچی کیا عورت کیا،  کسی ہیجڑے  پر بھی نظر بد  نہیں ڈالیں گے ۔ 
                ۔۔۔۔۔۔

اللہ کے کام اسی کے سپرد۔ کالم

          


        اللہ کے کام اسی کے سپرد
              (تحریر:ممتازملک.پیرس)



آج جسے دیکھو کسی نہ کسی پریشانی کو، غم کو کمبل کی طرح اوڑھے گھوم رہا ہے ۔ چہرے کی ایک ایک لکیر میں اس کی غم فکر ، پریشانی گندھی ہوئی ہے ۔ گزرتی عمر کیساتھ یہ نقوش مذید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ 
ہم سب جب اس دنیا میں آئے تھے تو اپنا مقدر ، اپنی تقدیر،  جس میں ہمارے حصے کی زندگی ،موت کی گھڑی ، ہمارے حصے کا رزق ، نکاح کا وقت اور ساتھ ، اپنے حصے کی ہر خوشی اور غم لکھوا کر لائے تھے ۔ ایک حسین معصوم اور نرم و نازک سے وجود کیساتھ ۔ 
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے چالاکیاں سیکھیں ، مکاریاں اپنائیں ، مفاد سمیٹے ، نفرتیں بڑھائیں ، محبتیں بھگائیں ، اس ساری دوڑ میں ہم اپنی معصومیت ، سچائی ، اللہ پر اپنے یقین کو کہیں دور گنوا آئے ، پھر آئینہ ہمیں دیکھ کر رو دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ ارے تم کون ہو ، وہ معصوم سا حسین وجود کہاں گیا میں تمہیں نہیں جانتا ۔۔۔ایسا کیوں نہ ہو ۔
بڑھاپا نہ تو کوئی طعنہ ہے ، نہ کوئی برائی ۔ بلکہ یہ تجربات و مشاہدات کے خزانے کا نام ہے ۔  ہاں اب یہ حسین ہو گا یا بدصورت ۔ اس کا انحصار ہم سب کے کردار و اعمال پر بھی یے اور ہمارے دل و دماغ میں پلتی سوچوں کی پاکیزگی اور غلاظت پر بھی ۔ اور اللہ پاک نے یہ کام ہمارے ہاتھ میں دے رکھا ہے کہ ہم جوانی میں ہی نہیں بلکہ عمر بھر کتنی مثبت ذندگی گزارتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیئے کتنے مثبت انداز فکر عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ 
غم اور پریشانیاں  اس زندگی کا حصہ ہیں ان کا مقابلہ کیجیئے ، انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیئے لیکن انہیں اپنے ماتھے پر لکھ کر کہ " میں پریشان ہوں" یا "میں دکھی ہوں" کا اشتہار بنا کر مت چپکائیں ۔ 
میرے ایک بہت پیارے قاری بیٹے  سعید الرحمن سے بات ہو رہی تھی ۔ اس نے پوچھا آپی جی آپ بوڑھی کیوں نہیں ہوئیں اور کیسے نہیں ہوئیں ؟ کئی لوگ تو چالیس کی عمر میں بھرہور بوڑھے لگنے لگتے ہیں ..
تو میں نے اسے بتایا کہ بیٹا 
انسان جب اللہ کے کام اپنے سر لے لیتا ہے تو بیس سال کی عمر  میں بھی بوڑھا ہو جاتا ہے ۔ 
اور جب وہ اللہ کے کام اسی کو سونپ کر صرف اپنے حصے کا کام کرنے میں راضی برضا ہو جائے تو سو سال کی عمر میں بھی  وہ اطمینان اس کے چہرے پر آ جاتا ہے ۔ آزمودہ ٹپ دے رہی ہوں ۔ 
میری شکل نے بھی بڑے روپ بدلے اسی تلاش  میں ۔۔
اور اب جب یہ بات سمجھ آ گئی ہے تو بس اپنی حصے کی کوششیں کرتی ہوں جو میرا فرض ہے نتیجے کی فکر اور ذمہ میرے سوہنے رب کا ہے ۔ 
اور یقین مانو بیٹا
 وہ آپ کی سوچ سے بھی بڑھ کر آپ کو عطا کرتا ہے ۔💝
وہ بڑی عقیدت سے بولا
 ہمیشہ جب بھی گفت و شنید ہوٸی ہے آپ سے کچھ نہ کچھ سیکھ کے گیا ہوں ۔۔۔اور آج تو آپ نہ دو لفظوں میں میرے سامنے فلسفہ حیات رکھ لیا ۔۔۔۔
میں ہمیشہ آپ کے کردار و گفتار سے متاثر رہا ہوں۔
میں نے کہا بیٹا
یہ آپ کی اچھی تربیت اور سعادت مندی ہے جو آپ کو سیکھنے کے لیئے، سننے اور سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ 
ورنہ یہاں قد نکالتے ہی سب سے پہلے جن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتے ہیں انہیں کو جھٹکتے اور توہین کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جبھی سبھی کچھ ہو کر بھی نہ انہیں دل کا سکون ملتا ہے نہ ہی چہرے کی رونق ۔۔۔۔
              با ادب بانصیب
              بے ادب بے نصیب
                         ۔۔۔۔۔۔۔

P

اتوار، 19 مئی، 2019

ہم نہیں سدھریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



            ہم نہیں سدھریں گے



کم و بیش پچاس سال پرانی  صبیحہ ، سنتوش کی پاکستانی فلم کا مکالمہ 
     ہماری اوقات بیان کرتا ہے
"نماز میرا فرض ہےاور
   چوری میرا پیشہ"
یعنی ہم آج بھی نہیں سدھرے🤔🤔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ہفتہ، 18 مئی، 2019

فرانس میں رمضان۔۔ کالم


   فرانس میں رمضان بمقابلہ پاکستان
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)




پاکستان میں کچھ سال پہلے رمضان المبارک گزارنے کا موقع ملا ۔ وہاں کے لوگوں کے معمولات میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت کے پاس بازار کی دوڑیں،  درزیوں کے چکر ، ہوٹلوں ،دکانوں سے سحریاں افطاریاں خریدنے کی لائنوں میں ہی گھنٹوں گزارنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ چاند رات زندگی میں ایک بار ہی غلطی سے گئی تھی تو کانوں کو ہاتھ لگا کر رات کے 3 بجے گھر پہنچ پائے ، وہ زندگی کی پہلی اور آخری چاند رات تھی  ۔
اس قدر بھیڑ کہ مجھے محسوس ہوا ہوا میں سے آکسیجن ختم ہو چکی ہے ۔ راہ میں ایک ایک قدم اٹھانا دشوار تھا ۔ عورتوں کے بازاروں میں دنیا بھر کا لوفر لفنگا ، بھونڈی باز، جیب کترے اور جیب کتریاں ، اٹھائی گھیرے لوگوں کے ساتھ چپکے جا رہے تھے ۔ میں ایک جگہ رک گئی لیکن واپس جانے کا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا ۔ لوگوں کا ایک سونامی تھا ۔ ایک خریدار تھا تو سو اچکے اور جیب کترے،  اور ٹھرکی ۔ اس روز آنکھوں دیکھے منظر نامے کے بعد ایک بات کا تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ  میرے نزدیک چاند رات بازاروں کے چکر لگانے والوں سے زیادہ بیوقوف،  اور بے شرم کوئی نہیں ہو سکتا ۔
آخر سال کے تین سو پینتیس دنوں میں  ان لوگوں خصوصا عورتوں  کو خریداری کیوں یاد نہیں آتی ؟
اگر بات سستے کی ہے تو سال بھر کی یہ ایسی واحد رات ہے کہ اس میں سب کچھ مفت مل رہا ہے کیا ؟
تیس روز تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنی طرف سے بیت پارسائی کمانے کے بعد یوں نامحرموں کے ساتھ چپک چپک کر دھکے کھانے کے بعد کسی خوشی اور جنت کی تلاش ہوتی ہے ۔ جبکہ ان لوگوں کی اکثریت فجر کی نماز کیا عید کی نماز سے بھی غافل ہو چکی ہوتی یے ۔ یہ ہی سوچ اور دیکھ کر 
دوبارہ گرمی کی چھٹیوں میں کتنے سال رمضان آنے کے باوجود ہم  نے پاکستان میں رمضان گزارنے سے توبہ کر لی ۔
پاکستان کے اکثر دو نمبر یا برائے نام مسلمانوں کی زبان میں ہم ایک غیر مسلم ملک یا کافر ملک میں رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے تصورات کے مطابق ہر مرد و زن شراب کی بوتل ہاتھ میں لیئے نائٹ کلبوں میں پڑا ہوا ہے اور جس مرد کا جو دل چاہے وہ عورت اس کی جھولی میں پڑی ہوتی ہے ۔ یورپ کا طعنہ دینے والے یہ ہی لوگ ساری عمر اسی یورپ میں آنے کے لیئے ویزے کی لائنوں میں اور خواہشوں کے سراب میں گزار دیتے ہیں ۔ پھر بھی یورپ میں رہنے والے عزیزوں کو طعنہ دیتے ہیں مادر پر آذادی کا ۔ بنا اپنے ناک کے نیچے نظر دوڑائے ۔ 
باقی یورپ کی طرح فرانس میں بھی
 الحمداللہ ہر چیز کا نظام الاوقات یعنی ٹائم ٹیبل  ہے ۔ یہاں ہم چاند راتوں کے انتظار میں اپنی شرم حیا تار تار کروانے بازاروں کے دھکے نہیں کھاتے ۔ اگر کہیں چاند رات کا اہتمام کسی ہال میں کوئی تنظیم کر بھی دے تو یہ خالصتا خواتین کا پروگرام ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مرد کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اول  تو دو تین ماہ پہلے ہی سینے خریدنے کا کام مکمل ہوتا ہے ۔ آرام سے قرآن پڑھا جاتا ہے ۔ روزے میں رابطے کم کر کے غیبت ، چغلی ، جھوٹ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رات بھر اپنے اپنے  گھروں میں اور مساجد میں  عبادت ہوتی ہے ۔ خواتین گھر میں اپنے ہاتھ سے سحر و افطار تیار کرتی ہیں۔
جبکہ ملازمت کرنے والی خواتین بدستور اپنے کاموں پر بھی جاتی ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا روزہ بھی رکھتی ہیں ۔ پھر بھی شوہروں کو سحر اور افطار میں ہوٹلوں پر 3 ،3 گھنٹے کھڑے ہونے کو نہیں بھیجتیں ۔ یہاں کے مرد اور خاص طور پر شادی شدہ مرد پاکستان کے مقابلے میں بیسیوں غموں سے آذاد ہیں ۔ وہ بھی ان خاص مواقع پر۔ جس کے لیئے انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ 
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان جو کام چھپ کر اپنے اور اللہ کے بیچ رکھ کر کرنے چاہیئیں وہ ہم نمائش گاہ میں لے آئے ہیں ۔
جیسے
عبادات کرنا ، نماز، روزہ، زکوات ، کسی کی مدد کرنا ۔۔۔۔
 اور جن کاموں کو اعلانیہ کرنا چاہیئے انہیں پردے میں چھپا دیا ہے ۔ ۔۔جیسے کسی کی تعریف کرنا ہمت بندھانا،  سچ بولنا ، گواہی دینا ، معافی مانگنا ، برے کو برا کہنا ، حق کا ساتھ دینا ۔۔۔۔۔
پاکستان میں اسلام کے نام پر جتنا بڑا تماشا کیا جاتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں ایسا ہوتا ہو ۔ پاکستان میں مسلمانوں کو پھر سے اپنے تجدید ایمان کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے آپ کو پاکستان گئے بھی بہت عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس بار جائیں تو یہ سب باتیں سامنے رکھ کر ان کا جائزہ لیجیئے گا ۔ ۔۔
                       ۔۔۔۔۔


جمعہ، 17 مئی، 2019

ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری ۔ کالم



ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری 
                    (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائی جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا ۔ روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئی روز قبل ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئی رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائی اور سنائی دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد آمد ہے ۔.
ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائی، نوافل کی محافل کا اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔
لیکن ایک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟ تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی دعوت افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں دعوت افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے۔   اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے،  پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔
 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 
ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر میں بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیں اور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں ہیں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

بدھ، 15 مئی، 2019

بابائی وباء ۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




  1. بابائی وباء
    (تحریر:ممتازملک. پیرس) 




    ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
    کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
    تو وہ اٹھلا کے بولی
    ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
    ایک تو ان کی ان کم 
    دوسرے ان کے دن کم

    سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 

    بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
    تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
    یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
    سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
     ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
         
    MumtazMalikParis.BlogSpot.com
                          ........


Loading

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/