ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 3 جنوری، 2020

● شفیق مراد۔ تبصرہ ۔ سراب دنیا




تبصرہ:     شفیق مراد۔ جرمنی

قلم کی امین

ادیب اور شاعر قلم کا امین ہوتا ہے جو اس بار امانت کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے اپنے مشاہدات و تجربات کو سپردِ قلم کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ پُلِ صراط سے گزرتا ہے ۔جب مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات ،احساس کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو وہ اشعار کا روپ دھارکر رنگ ونور کی شعاعیں بکھیرتے ہیں ۔ جو آنکھوں کو بینائی اور سوچ کو توانائی کے انمول خزانے عطاکرتی ہیں، تو گلستانِ حیات میں پھولوں کی نگہت اور کلیوں کی صباحت محسوس ہوتی ہے ۔
انقلاب کی سر زمین فرانس، خوشبوؤں اور محبتوں کے شہر فرانس میں مقیم ممتاز ملک کا قلم امانت کا حق ادا کرتے ہوئے، کبھی انقلاب کا جذبہ بیدار کرتا ہے تو کبھی وطن کی محبت کی مخملی چادر میں دیار غیر میں رہنے والے ہموطنوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کا قلم رشتوں کے اثبات ، وطن کی محبت، انسان دوستی اورامن و آشتی کا پیغام دیتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خون جگر سے گلستان حیات کی آبیاری کر کے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے اور علم و ادب کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ۔
ظلمتِ شب کو بہر طور تو ڈھلنا ہو گا 
اب  ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا 
وہ حکمت ودانائی کے موتیوں کو سیپ سے نکالنے کا ہنر جانتی ہے اور اسی میں اسکا پیغام پوشیدہ ہے ۔جو انسان کو اسکے اندر پوشیدہ خزانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کی نغمہ خواں دنیا کے باغ میں خوبصورتیاں اور مہکتے پھول دیکھنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ خارجی تاثرات اور داخلی کیفیات کو اشعار کی مالا میں پروتی ہے تو اس کے اشعار ملک اور رنگ ونسل کی حدود قیود سے آزاد نظر آتے ہیں ۔وہ انسان اور انسانیت کی بات کرتی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی خطہ ارضی سے ہو ۔ یہی چیز اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے ۔اس کی شاعری میں خوشی وانسباط کے شادیانے ہیں تو درد وغم کے تازیانے بھی ہیں ۔ اس کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں ،انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے جو اسے درد آشنا کرتی ہے تو وہ اسی درد کی دولت سے تریاق کشید کرتی ہے جو کبھی دوستانہ ہوتا ہے تو کبھی ناصحانہ اور کبھی ناقدانہ ،وہ کہتی ہیں 
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو 
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہئیے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور 
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہئیے 
انسانی مسائل کی نمائندہ شاعرہ کے ہاں غم کی آندھیوں میں امید کا روشن دیا ہے۔ جو کاروانِ حیات کے مسافروں کو نئے راستوں اور نئی منزلوں کی خبردیتا ہے ۔
ممتاز ملک، شاعری میں انسانی منفی رویوں کا برملا اظہار کرنا جانتی ہے ۔ایک سچے ،کھرے اورنڈر فنکار کی طرح جو بوجھ وہ قلم پر محسوس کرتی ہے۔ اسے صفحے پر اتار دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی کے حقائق کا گہرا احساس ملتا ہے وہ احساس کی دولت کو قوموں کی زندگی کا سبب قرار دیتی ہے اور اسے اجاگر کرنا نہ صرف اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔
دھڑکن کے بدلے سناٹے 
سوچ میں دقیانوسی جالے
یا
یہ الگ بات لہو میں تیرے دوڑے ہے جفا 
جا مری جان مری ساری وفائیں لے جا 

کسی بھی شاعر کی طرح ممتاز کا دل محبت کے جذبات سے خالی نہیں ۔ اسکی محبت خدائے عزو جل کی محبت سے شروع ہوتی ہے جو مدینے کی گلیوں کا طواف کرتے اور پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کی خاک کو چھوتے ہوئے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی محبت کی طرف رواں دواں ہے ۔
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی 
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
وہ حُسن و عمل کا سرورآگئے ہیں 
حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

ہجرت کا مضمون جس قدر درد ناک ہے انسانی تاریخ میں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہجرت کے نوحے بھی لکھے گئے اور ہجرت کو نئی منزلوں کی تلاش اور نئی دنیا کی دریافت کا نام بھی دیا گیا ہے ہے ۔ ممتاز ملک کو پیرس کی حسین وجمیل گلیاں ، فلک بوس عمارتیں ،حیات پرور نظارے اور سکون بخش سیر گاہیں اپنے وطن سے جدا نہ کر سکیں ۔وطن کی محبت اس کے انگ انگ میں سموئی ہوئی ہے اور اس کا دل وطن میں ہے اور وطن کے لئے دھڑکتا ہے جس کا ذکراس کی شاعری اور نثر پاروں میں جا بجا ملتا ہے ۔وہ یورپ کی پر تعیش زندگی کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے وطن کے گلی کوچے یاد آجاتے ہیں  تو بے اختیار سراپا التجا بن جاتی ہے اور یوں اظہار محبت کرتی ہے ۔
میرا تو دن رات ہے وظیفہ مرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو یہ ایک ہی تو سوال رکھنا 
جو تیری رحمت سے ہو نہ خالی ترے کرم سے قریب تر ہو 
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو ہمارے سر پہ وہ ڈھال رکھنا 

اس کی شاعری میں جہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے وہاں عالمی حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے وہ ظلم و بر بریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار تمام تر شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقصدیت سے بھر پور ہیں انسانوں کے غیر اخلاقی رویوں اور آداب معاشرت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس کا رویہ بعض اوقات سخت بھی ہو جاتا ہے ۔جو اس کے جذبوں کی صداقت پر دلالت کرتا ہے وہ ایسے رشتوں کو جومحبت ہمدردی اور دوستی کے جذبات سے عاری ہوں ، لاش کی مانند قرار دیتی ہیں ۔ یعنی چلتی پھرتی لاش۔
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو 
دوستی سرقلم ہے کیا کیجیئے
وہ رشتوں کے اثبات کی شاعرہ ہیں ۔اور انکا احترام کرنا جانتی ہیں ۔ایک طرف تو وہ بیٹی بن کر ماں کے لیے کہتی ہے
جنتوں کی کھلی فضا جیسی 
ماں مری مہرباں خدا جیسی 
تو دوسری جانب وہ ماں کے منصب پر فائز ہو کر اپنے بیٹے کو منظوم نصائح کرتی ہیں اس کی نظم ’’سنو بیٹے!میں تیری ماں ہوں ‘‘رشتوں کے تناظر میں ایک شاہکار ہے ۔
عام بول چال کے انداز میں الفاظ کو برتنے کا فن بخیر وخوبی جانتی ہے جذبوں کو اجاگر اور مثبت سوچ کو عام کرنا چاہتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ احساس کی دولت اور نیک جذبے انسانی زندگی اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا 
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے 
الغرض ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اشعار میں خیالات کی فراوانی، مشاہدات کی طغیانی ، کردار کی بلندی اور جذبوں کی طاقت پائی جاتی ہے ۔اس کے پانچویں مجموعۂ کلام ’’سراب دنیا‘‘ کی اشاعت پرمیری نیک تمنائیں اور میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
18مارچ 2019ء
                        ۔۔۔۔۔۔۔

● تبصرہ ۔ ایاز محمود ایاز ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


معروف شاعر اور آٹھ کتابوں کے مصنف جناب ایاز محمود ایاز  کا پیرس ، فرانس سے  تبصرہ 



دورِ صحابہ سے لے آج کے دور تک جہاں صحابہ کرام رض اور علما کرام نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا ،  وہیں اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کو ایمان کی تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول کے لیے نعت خوانی کو سب سے بہتر ذریعہ قرار دیا۔ 
 نعت گوئی کی ابتداء عربی زبان میں ہوئی ، سب سے پہلے قرآنِ کریم میں ہمیں حضورﷺ کی ہمہ جہت اور کامل شخصیت کا تعارف کرایا گیا۔ ربِّ کائنات نے پیارے نبیﷺ  کوجن جن الفاظ میں یاد فرمایا ہے ، ان پر غور کریں تو ہر لمحہ نعت و مدحت کے نئے باب کھلتے نظر آئیں گے، وما ارسلناک اِلّارحمۃً للعٰلمین، اِنک لعلیٰ خُلقٍ عظیم، خاتم النبیین ، بالمومنین رؤف رحیم ، داعیاً اِلی اللہ، صاحبِ مقامِ محمود ،سراجاً منیر، طٰہٰ، یٰس، شاہد، مبشر، مزمل، مصدق، معلمِ کتاب و حکمت، احمد، محمد اور حامد ، ۔۔۔۔۔خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے یہ تعارف پوری طرح نعت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ کلام ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔اپنے  نبی کریم ﷺ سے عشق ہے۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے حصے میں وہ سعادت آئی جو بڑے بڑے شعراء کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں نعت لکھی نہیں جاتی لکھوائی جاتی ہے جس پہ نبی کریمﷺ کی نظرِ خاص اور خصوصی کرم ہو وہ ہی نعت لکھ سکتا ہے۔ ممتاز ملک صاحبہ نے جہاں نبی کریم ﷺ سے اپنے عشق کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے  نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو بھی موضوع بنایا ممتاز ملک صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپکا یہ ہدیہ نعت آپ کی بخشش کا سبب ہو اور آپکی عقیدتوں کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح جاری رہے ۔ آمین                                                                 ایازمحمودایاز
                               پیرس ۔ فرانس

شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



پیرس میں مقیم معروف شاعرہ اور ایسوسی ایشن فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ 
محترمہ ممتازملک جو نامور شاعرہ  اور خوبصورت  لکھاری بھی ہیں، اور  بہت سی خوبیوں  کے ساتھ بہترین نعت خواں بھی ہیں ان کی کتاب  
"اے شہہ محترم ص "کے نام سے منظر عام پر آرہی ہے حضور صلی علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عقیدت مندانہ  نعتیں وہ  اپنی  بے حد خوبصورت آواز میں بھی  پیش  کر رہی  ہیں۔ 
پہلی بار کسی مجموعے میں حمدیہ کلام کو بھی اتنی ذیادہ اہمیت اور جگہ دی گئی ہے ۔ ورنہ ایک ادھ حمد باری تعالی کو  رسما ہی کسی بھی مجموعہ کلام میں پیش کیا جاتا ہے ۔ خصوصا نعتیہ مجموعوں میں حمدیہ کلام کی تعداد بھی ایک دو سے زیادہ کم ہی ہوتی ہے ۔ لیکن ممتاز ملک نے اس کمی کو محسوس بھی کیا ہے اور اسکی تلافی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ 
 اللہ کے فضل و کرم سے ان کا پیش کردہ  حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ بے حد خوبصورت ہے۔  دعائیں اور اہل بیت کے نام  ان کے کلام نے کتاب کو اور زیادہ منفرد بنا دیا ہے ۔  
دعاگو ہوں کہ ممتاز ملک کا یہ  مجموعہ کلام
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم " پڑھنے والوں کی بھرپور پذیرائی اور توجہ حاصل کر سکے ۔ آمین 
 بہت سی دعاوں کیساتھ
        شمیم خان 
       پیرس ، فرانس

● تبصرہ ۔ عاشق حسین رندھاوی ۔ اے شہہ محترم(صلی اللہ علیہ وسلم)



عاشق  حسین رندھاوی (سیالکوٹ) کا تبصرہ 

نعت گوئی اہلِ ایمان اور  مذہب اسلام سے وابستہ لوگوں کا ایک فکری اور دلی عقیدت نامہ اور اصناف سخن کا سب سے اعلیٰ اور پاکیزہ حصہ ہے ۔ مگر یہ جس قدر سعادت وخوش بختی بلکہ آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی دلیل ہے وہیں سب سے مشکل ،دشوار گزار اور بال سے زیادہ باریک راستہ ہے ۔ نعت کا موضوع جتنا اہم ،دل آویز اور شوق انگیز ہے اتنا ہی اس موضوع پر قلم اٹھانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ۔
خود شعر و ادب کی تخلیق کوئی کسبی چیز نہیں کہ جس کے مخصوص اوزان وبحور کو رٹ کر کچھ طبع آزمائی کرلی جائے ، بلکہ یہ ایک انعامِ الٰہی ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے بعض مخصوص بندوں ہی کو عطا کیا جاتا ہے۔ 
انہی چند لوگوں میں سے
  ایک ایسی شاعرہ کی نعت گوئی کے حوالے سے تجزیاتی گفتگو کا ارادہ ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں شاید بہت زیادہ معروف نہیں ہیں ۔ لیکن  اسے نعت کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور اس نے کچھ اس انداز سے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے دور کی بہت معروف اور پختہ شاعرہ بن کر سامنے آئیں گی ۔ ان کے اشعار سننے کے بعد میرا پہلا تاثر تھا کہ محترمہ نے اگر کچھ اور نہ بھی کہا ہوتا تو بھی یہ نعت انہیں ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی ۔ میں اپنی پیاری بہن محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری پر تجزیاتی گفتگو سے قبل ان کی لکھی نعت کےچند  اشعار پیش کرتا ہوں۔  
    دیارِ  نبی کا  ارادہ     کیا   ہے
   کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے

سجائیں گے صحنِ حرم آنسوؤں سے
 تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے

    وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
   انھیں سب بتائیں  اعادہ کیا ہے

ان اشعار میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے اپنا عقیدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور تخیل کا یہ عالم ہے کہ عام انسان بھی ان کے اشعار کو پڑھ کر مدینے کی گلیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل کو اور بھی پختہ اور بلند کرے  اور انکے
 نعتیہ مجموعہ کلام  
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم "کو بھرپور پذیرائی اور قبولیت عطا فرمائے ۔ 
آمین۔

معروف شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی  جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن روزگار کے سلسلے میں فرانس کے شہر پیرس میں مقم ہیں،  کے اس خوبصوت  تبصرے کے لیئے میں ان کی دلی ممنون ہوں ۔  اور انکی خوشحالی و درازیء عمر  کے لیئے دعا گو ہوں ۔ 
ممتازملک۔ پیرس 

● شاز ملک کا تبصرہ ۔ سراب دنیا

تبصرہ
شاز ملک
پیرس ۔فرانس

کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان 
پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سوچ کو پر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے 
اسکا قلم اسکی اعلی پرواز کا گواہ ہوتا ہے ۔۔  
محترمہ ممتاز ملک  صاحبہ کا قلم بھی انکی اعلی ذہنی سطح کا گواہ ہے
بحیثیت شاعرہ میں نے انکے احساسات و جذبات میں شدت کو محسوس کیا ہے 
اور وہ اشعار میں اپنا مدعا کہیں سادگی سے بیان کرتی نظر آتی ہیں اور کہیں 
تشبہات و استعارات سے مدد لیتے ہوۓ نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جزباتی کیفیات کو بیان کرتی ہیں 
میں نے انکے قلم کو حساسیت کے دائرے میں رہتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوۓ پایا ہے وہ اپنے گمان میں ماضی سے حال تک کا سفر  کرتے ہوۓ مستقبل کی  خوش گمانیوں پر بھرپور نکاہ رکھتی ہیں۔
ممتاز ملک  سچائی کے علم کو تھامے ہوۓ اپنا ادبی سفر طے کر رہی ہیں 
انکی سوچ کی اُڑان تخیلاتی نہیں بلکہ زمانے کے حقائق اور تلخی کو اجاگر کرتی ہے ۔۔ وہ سچائی کو بلا تامل لکھتی ہیں اور اس سوچ کو عوامی راۓ کے ساتھ منسلک کرنے میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ھے 
دل سے دُعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو سچائی کی روشنی سے منور رکھے 
اور وہ ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند اپپنے قلم کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہیں ۔۔آمین
شاز ملک فرانس

● ایاز محمود ایاز 7واں مجموعہ کلام ۔ مضمون

 

 

             ایاز محمود ایاز

 کے 7ویں مجموعہ کلام

 "مجھے تم ہار بیٹھو گے" 

 کی رونمائ پر مقالہ برائے 

(ممتازملک.پیرس) 

 

ایاز محمود ایاز محبتیں بانٹنے والا شاعر ہے ۔ اس کے کلام میں جگہ جگہ اس کے واردات قلبی کا اظہار ملتا ہے ۔

وہ محبتوں کا شاعر ہے ۔  محبتوں سے وابستہ اس کے صدمات، اس کی توقعات، اس کی تمنائیں سب آپ کو اس کے اشعار  میں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں ۔ ۔ ایاز محمود ایاز نے کم عمری ہی میں اپنے شعری سفر کو بڑی تیزی سے آگے بڑھایا ہے ۔ اتنی تیزی سے کہ ایک بار میں نے ہی اسے مذاقا  کہا کہ بیٹا جی سپیڈ ذرا کم کیجیئے ۔ نظر بھی لگ جایا کرتی ہے ۔ ماشاءاللہ آج ان کا یہ ساتواں مجموعہ کلام ہمیں دعوت سخن دے رہا ہے ۔ ایاز کے کلام میں سچائی بھی ہے اور پختگی بھی ۔

پیرس ہی کیا پورے فرانس میں پاکستانیوں کی ایک لاکھ دس ہزار کی آبادی میں ہم پندرہ سے بیس لکھاری اور شاعر ہیں ۔ جنہیں ایک پلیٹ فارم پر مل جل کر پروگرامز کرنے کا بہانہ فراہم کرنے کی جستجو کرنے والوں میں ایاز کا نام سرفہرست رہا ہے ۔

میں فرانس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کی صدر کے طور پر ایاز محمود ایاز کو دل کی گہرائیوں سے اس کے نئے مجموعہ کلام "مجھے تم ہار بیٹھو گے "پر مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہونگے کہ ہماری تنظیم 12 اپریل 2018 ء کو وجود میں آئی ۔ اور ہمیں بزم سخن کے پروگراموم میں ایاز کی دعوت پر شرکر کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے  ۔۔اور امید ہے کہ پیرس میں موجود تمام تنظیمات عملی طور پر ایک دوسرے کے پروگرامز میں نہ صرف شرکت کرتی رہینگی ۔ بلکہ ایکدوسرے کی تصنیفات اور کاوشوں کو بھی اپنی محبتوں سے نوازتے رہینگے ۔ اور اردو کی ترویج میں ہم سب کا یہ حصہ جو ہم شاعر اور لکھاری کتابیں لکھ کر چھپوا کر ڈالتے ہیں ۔ اس میں  ہمارے پاکستانی خواتین و حضرات کتاب خرید کر اپنا حصہ بھی ضرور ڈالیں گے ۔ یہ اس لیئے ضروری ہے ہماری اگلی نسل تک ہم اپنے زبان کے ورثے کو بحفاظت منتقل کر سکیں ۔ کیونکہ کتاب خریدی جائے گی تو ہی اگلی کتاب باآسانی چھپنے کے لیئے بھیجی جا سکتی ہے ۔

 

ایاز مجھے بالکل چھوٹے بھائیوں جیسا عزیز ہے ۔ ہم سب کی بہت عزت کرتا ہے ۔ ہمیں بھی اس پر مان ہے ۔ میں ہر قدم پر اس کی کامیابی کے لیئے دعا گو ہوں ۔ کہ اللہ پاک اسے آسمان ادب کی بھرپور بلندیاں چھونا نصیب فرمائے۔ آمین 

جمعرات، 2 جنوری، 2020

● (77) زمانہ ہو گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(77)   زمانہ ہو گیا 
   

زمانہ ہو گیا اس کو  ملے بھی
کھلا تھا زخم جو اسکو سلے بھی

کوئی رنجش نہ اسکی رکھ سکا دل
بظاہر تو کیئے اکثر گلے بھی
  
نہ کہہ پائے جو اپنا مدعا تھا 
اگرچہ لب یہ  کہنے کو  ہلے بھی

نہیں بھولے ہیں تیری بیوفائی
سبھی دیوانگی کے سلسلے بھی

ہمیشہ آنکھ اس کی نم رہی ہے 
تھے ضرب المثل جسکے حوصلے بھی
  
انہیں راہوں پہ ہے  اپنا بسیرا 
گزرتے ہیں جدھر سے قافلے بھی

لگن سچی ہو گر ممتاز تو پھر 
سمٹ جاتے ہیں اکثر فاصلے بھی

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
           ●●●                

● سراب دنیا ۔ ٹائیٹل کلام ۔ سراب دنیا


سراب دنیا 
(کلام/ممتازملک.پیرس) 



سراب دنیا 

یہ خواہشوں کا
ہے ایک گہرا کنواں کہ جسمیں
ہے لذتوں کا عذاب دنیا

ٹپک رہی ہے جو قطرہ قطرہ 
یہ آنسووں کی کتاب دنیا

سنائی نہ دے کسی کو ماتم
یہ قہقہوں کا نصاب دنیا 

ہے آنکھ والے کا صرف دھوکا 
اور ایک اندھے کا خواب دنیا 

کبھی یہ بیچے کبھی خریدے
بڑی ہے خانہ خراب دنیا

ہزار رنگوں میں جی کے آخر
سفید اوڑھا سراب دنیا

ہے بھول جانا ہی ریت اسکی
یہ دل جلوں کا عتاب دنیا

ذلیل ہوتے سب اسکی خاطر
نہیں ہے کار ثواب دنیا

کبھی مکمل نہ ہو سکا جو
یہ ایک ایسا ہے باب دنیا

انوکھا ممتاز بھید ہے یہ
سوال دنیا جواب دنیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●



●(61) درد کی شام/ شاعری ۔ سراب دنیا



(61) درد کی شام


درد کی شام گزرتی نہیں ہے کیا کیجئے 
سحر خوشی کی ٹہرتی نہیں ہے کیا کیجیئے

اب تو کوشش بھی تھک کے چور ہوئی
وقت کی زلف سنورتی نہیں ہے کیا کیجئے

کون سمجھائے کہ تحمل سے 
بات بنتی ہے بگڑتی نہیں ہے کیا کیجئے

جب نظر ہی میں دم نہیں باقی 
کوئی تصویر نکھرتی نہیں ہے کیا کیجئے 

ہم نے ممتاز بارہا چاہا 
دل سے ہی یاد اترتی نہیں ہے کیا کیجئے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

میرا چہرہ کتاب ۔ سراب دنیا ۔ اردو شاعری



میرا چہرہ کتاب 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 


وہ جو زیر عتاب ہے لوگو
اس پہ لازم عذاب ہے 

میرے لہجے پہ اعتبار  کرو
میرا چہرہ کتاب ہے لوگو

جو ہے بیخواب خواب دو اسکو
یہ تو کارِثواب ہے لوگو

ایک جھوٹا ہے اک منافق ہے
بہتریں انتخاب ہے لوگو

ایک میں اور ایک تُو ہو مگر
کچھ ادھورا سا خواب ہے لوگو

پشت پہ میری ایسی کی تیسی
ویسے حاضر جناب ہے لوگو

جن سے سیکھا انہیں کو لوٹایا
کچھ پہ میرا حساب ہے لوگو

جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
دائمی احتساب ہے لوگو

جو ہے ممتاز حاسد اوّل
اس کا خانہ خراب ہے لوگو
۔۔۔۔۔


مشکل ہے ۔ سراب دنیا



مشکل ہے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

☀️اتنی  وعدہ خلافیاں کی ہیں 
    اب تیرا اعتبار مشکل ہے

☀️پہلے زخموں کی ٹیس باقی ہے 
     اب کریں پھر سے پیار مشکل ہے


☀️دوسرے کے لیئے جو غم بوئے
      اس کو  آئے قرار مشکل ہے


☀️جو لکھا ہے نصیب میں اپنے 
      اسے سے راہ فرار مشکل ہے


☀️زندگی سے بڑی سزا کوئی 
      ماننا یہ ہی یار
مشکل ہے


☀️خود سے راہیں تلاش کرنی ہیں
      تجھ پہ اب انحصار مشکل ہے


☀️اشک شوئی کریگا وہ ممتاز
     دل کو یہ انتظار
 مشکل ہے
   ......  

بدھ، 1 جنوری، 2020

● شکیل عادل کا تبصرہ/ تبصرے



قلندر صفت شاعرہ
 ممتاز ملک 
تحریر: (شکیل عادل ۔ پشاور)


معاشرتی برائیوں کو اگر بیماریاں کہاجائے تو شاعر اورادیب ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ نت نئے اشعار اوران اشعار میں بیان کئے گئے مضامین کوا نکی بیخ کنی کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ طنز سے، ہلکے پھلکے مزاح سے ، غصے سے ، دکھ سے اور افسوس سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔اور ایسا اس لئے ہے کہ رب تعالےٰ نے انہیں یہ وصف دیا ہے کہ وہ چیزوں کو الگ زاویہِ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ اعلیٰ دماغ ہوتے ہیں اس لئے معاشرے کے باشعور لوگ ان کی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور معاشرہ سدھار کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے 
  ممتاز ملک ایک ادیبہ ، شاعرہ اورصحافی ہیں وہ نظم سے بھی ، اور نثر سے بھی ایک عرصے سے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ تمام ادیبوں اور شاعروں کی طرح وہ بھی نیکی کا پرچار کررہی ہیں ۔ اور برائی کی روک تھام کےلئے کوشاں ہیں ۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیاجائے تو یہ پیغمبرانہ کام ہے کیونکہ ہر پیغمبر نےبھی نیکی کا حکم دیا ہے اور برائی سے روکا ہے ۔ اردو کے شعراءمیں ناصر کاظمی ،احمد فراز ، محسن نقوی، پروین شاکر، اور قتیل شفائی میں ایک قدر یہ مشترک تھی کہ وہ عوامی سطح پر مقبول تھے کیونکہ ان کی شاعری سادگی سے مزیّن تھی اور اس میں عام فہم مضامین وارِد ہوتے تھے ۔ 
 ممتاز ملک نے بھی سادگی کو اپناہتھیار بنایا اور جہاد میں مصروف ہوگئیں۔ ممتاز ملک نے چھوٹے چھوٹے معاملات کو نہایت خوبصورتی سے شہہ سرخیوں میں بدل کر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ لوگوں نے اپنے رویّےاگر بدلے نہیں اور بدلنے کا سوچا ضرور ہے ۔ یعنی ممتاز ملک کی شاعری بلا واسطہ طورپر ضمیروں کو جھنجھوڑنے، آنکھوں کو کھولنے اور احساس کو جگانے کا کام کرتی ہے ۔
  ” میرے دل کا قلندر بولے“ممتاز ملک کا شعری مجموعہ کلام ہے جو نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس میں پابند نظمیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی۔ مگر تمام میں سادگی چھائی ہوئی ہے ، سادہ لفظ ، سادہ مضامین، سادہ باتیں، سادہ کلام ، تمام نے مل کر ایک سماں باندھ دیا ہے ۔ اور ممتاز ملک کی سچائی اورخلوص پر مہر ثبت کردی ہے ۔ 
 رشتوں کی ناقدری کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا کامل ادراک اس کو ہی ہوسکتا ہے جواس کا شکار رہا ہو یا وہ جسے ربِ کائنات نے احساس کی بے کراں سے دولت سے نوازا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس شاعرہ ممتاز ملک نے سب سے زیادہ دکھوں کو بیان کیا ہے اور رشتہ کی ناقدری سے بڑھ کر اور کیا دکھ ہوسکتا ہے ۔
 ” چار بیٹوں کی ماں“ ایک خوبصورت نظم ہے جو انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے اس میں سادگی اور پر کاری سے بتایا گیا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لئے خاص طورپر بیٹوں کے لئے تمام زندگی کیا کیا کرتی ہے ، اپنے من کو مار کر کیا کیا قربانیاں دیتی ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے بیٹوں کی خوشیوں کاخیال رکھتی ہے ۔ اور وہی بیٹے اس کی ناقدری کرکے اپنی دنیا وآخرت بگاڑ لیتے ہیں ۔اور نظم کا اختتامیہ تو اور بھی درد ناک ہے ۔ کہ چار بیٹوں کی ماں کا کفن چاروں بیٹوں کے چندہ کرنے سے آتا ہے ۔ 
” یارب یہ کیسے بیٹے ہیں“ اس نظم میں اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر بدیسی تہذیب کے زیر اثر والدین کی ناقدری کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آئینہ دکھایا گیا ہے ۔ ایسے بیٹوں کو جو والدین کے احسانات ، قربانیوں اور محبتوں کو بھلا کر دنیاوی جاہ و حشم اور دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ والدین  اور اپنے ذمہ فرائض کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔
”سنو ایسا نہیں کرتے“ ایک ناصحانہ نظم ہے جس میں ان چھوٹے چھوٹے جذبوں کو بیان کیا گیا ہے جن کی ہم پرواہ نہیں کرتے ان معمولی غلطیوں ، کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی طرف سے ہم آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ چھوٹی چھوٹی خامیاں انسان کی شخصیت کو داغدار کردیتی ہیں ۔ 
 ممتاز ملک ایک وطن پرست خاتون ہیں اوروطن کی محبت ان کی رگ رگ میں لہو کے ساتھ گردش میں ہے ۔ اپنی اس محبت کا اظہار وہ باقاعدہ اپنے اشعار میں کرتی ہیں وہ نہ صرف وطن کی ترقی و کامرانی کے لئے دعا گو رہتی ہیں بلکہ وطن کو درپیش مسائل اور ملک میں بڑھتی پھیلتی ہوئی برائیوں پر بھی قلم اٹھاتی ہیں ۔ 
”صلیبِ وقت“ میں وطن میں پھیلتی دہشت گردی اورر قتل وغارت کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنے وطن کو اس سے پاک کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ 
 ” ارفع کریم رندھاوا کے نام “ ایسی خوبصورت نظم ہے جو”میرے دل کا قلندر بولے“ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ 
” آﺅ کہ کچھ خواب بنیں“ خوشگوار امیدوں کی خوشبو سے بھری نظم ہے اس نظم میں شاعرہ نے اچھے دنوں کی آمد ، خوشیوں کے زمانوں اور نیک جذبوں کا اظہار خوبصورتی سے کیا ہے ۔
” آئینے “ ایک طنز ہے ، چوروں ، لٹیروں ، ڈاکوﺅں اور خود پسندوں پر خاص طورپر ان پر نفرین کی گئی ہے جو چاپلوسی کرنے سے پہلے مسکینی کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں ۔مسلمان ہونے کے باوجود مذہب سے دور ہیں اور برائیوں سے گردن تک ڈوبے ہیں ۔ 
 ” ایک جیب ایک پتھر“ ایک ایسی نظم ہے جس میں شعور کو جگایا گیا ہے کہ اٹھو اپنے حق کو پہچانو جو تمہارے حقوق غصب کررہا ہے اس کے سامنے ڈٹ جاﺅ اس کا پتھروں سے سواگت کرو پھولوں سے نہیں۔عزتوں کے لٹیروں کو ، جھوٹوں کو اور دھوکے بازوں کو ان کی اوقات یاد دلادو ۔
” بستی“ ایک خوبصورت نظم ہے جس میں آج کی محبت اورر کل کی پاکیزہ و سچی محبت کا موازنہ کیا گیا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روح کی محبت دیرپا ، پاکیزہ اور پر خلوص ہوتی ہے جبکہ جسمانی محبت عارضی و بے اعتباری۔
” میرے پیارے شہر کراچی“ روشنیوں کا شہر کراچی کئی دہائیاں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بہتے خون کی ندیوں میں ڈوبا رہا یہ نوحہ ہے اس وقت کا جب کراچی ماتمی لباس میں تھا اور شکر ہے کہ اب کسی حد تک ان رویوں اور عملوں میں بہت بہتری آئی ہے مگر شہر کراچی کا ایک سیاہ باب ہے۔  بہر حال تاریخ کا حصہ رہا ہے ۔ممتاز ملک کا ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعہ دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ ممتاز ملک نے ذاتی دکھ کو بیان کیا ہی نہیں تو دوسروں کے دکھ پر دکھی ہیں اور ہمیں ایسے حساس اور قیمتی لوگوں کی قدر ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ پذیرائی بھی کرنی چاہئے ۔
 ہم دعا گو ہیں کہ ممتازملک یونہی ہمیشہ چمکتی مہکتی رہیں اور اپنی تحاریر سے رنگِ ادب کو نکھارتی ہیں۔

● نبھاتے گزری ۔ سراب دنیا


              نبھاتے گزری 
              کلام:(ممتازملک ۔پیرس)


درد کی سیج پہ اشکوں کو سجاتے گزری 
کیا گزرنی تھی بھلا جبر نبھاتے گزری

یوں تو ارمان تھے اس دل میں گلستانوں کے 
خارزاروں پہ میرے پاوں بچاتے  گزری

وہ  جو ہر بار بچھاتے ہو محبت کہہ کر 
عمر ساری انہیں کانٹوں کو ہٹاتے گزری

کون کہتا ہے قرار آئے گا آتے آتے 
بیقراری کو دلاسے ہی دلاتے گزری

ہے قریب آپ کے جتنا کوئی اتنا ظالم
اپنے مطلب کے سوا جان چھڑاتے گزری

چھوڑ کراہم تعلق سبھی رشتے ناطے
بے سروپا سے نظریات بچاتے گزری

اپنی تقدیرکےمسکن میں کوئی در نہ ملا
دائرے میں ہمیں ہر چند گھماتے گزی

کوئی پہلونہیں ممتاز جلن سے محفوظ  
راکھ چنگاری کی امید اڑاتے گزری
    
●●●

ہم بھی بادشاہ ہوتے ۔ اردو شاعری ۔ سراب دنیا



         ہم بھی بادشاہ ہوتے
       (کلام/ممتازملک.پیرس)

   محبتوں میں کبھی ہم جو نہ تباہ ہوتے
دیار دل کے کہیں ہم بهی بادشاہ ہوتے

اگر نہ ذات کو اپنی نقاب پہناتے
نہ اس طرح سے یہاں راندہء درگاہ ہوتے

 اگر جو درد کی منزل سے کچھ سبق لیتے
 کسی بهی ٹوٹے ہوئے دل کی ایک آہ ہوتے

رقیب کو یہ بتائو کہ بن تمہارے بهی
ہاں ہوتے کچه بھی مگر ہوتے بے پناہ ہوتے

زہن کو پڑهتے نظر بین اس قدر ہوتے
دلوں کے پار اترنے کا راستہ ہوتے

نظر تمہارے تعاقب میں رائیگاں ٹہری
وگرنہ ہم بهی کہیں مرکز نگاہ ہوتے

عروج کا جو سفر ان کو راس آ نہ سکا
نہ پستیوں میں جو گرتے توانتہا ہوتے

قدم جو وقت کی آواز پہ اٹھتے ممتاز
زمانہ دیکھتا واللہ کیا سے کیا ہوتے 
............



یہ دل بنجر ۔ شاعری ۔ سراب دنیا


یہ دل بنجر

امیدوں کی دوڑ میں اکثر
اپنے آپ سے کھو جاتا ہے 

قطرہ قطرہ رستے رستے 
یہ دل بنجر ہو جاتاہے  


روتے روتے ہنس دیتا ہے 
ہنستے ہنستے رو جاتا ہے

میٹھے زہر جو عریاں ہوں تو
لہجہ خنجر ہو جاتا ہے

خوب ستمگر ہے یہ جوبن
گل پہ خار پرو جاتا ہے  

ہر فقرہ بےفکر ہے کتنا
لٹنے کا ڈر کھو جاتا ہے 

ہاتھ کے تکیئے پر سر رکھ کر
بے فکری سے سو جاتا ہے 

خوش کیسے ممتاز رہے جب
شک وہ دل میں بو جاتا ہے  
۔۔۔۔




● سونے کا انڈا دینے والی مرغی ، مہنگائی کا ملبہ/ کالم




سونے کا  انڈا دینے والی مرغی
مہنگائی کے ملبے میں دب گئی
تحریر: (ممتازملک.پیرس)


جنوبی ایشیاء کے ممالک خصوصا پاکستان  میں عوام کی سہولت کے نام سے کوئی آسانی دستیاب نہیں ہے ۔ جب بھی وہاں حکومت بدلتی ہے تو "خزانہ خالی ہے " کہہ کر عوام کی گردن کاٹنے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے ۔ 
بڑے ہی جوش و خروش کیساتھ دنیا بھر کے جھوٹ پر پچھلی حکومت کی بھرپور کردارکشی کی مہم چلائی جاتی ہے ۔ جو کبھی بھی ثابت نہیں کی جا سکتی ۔ اس مہم پر عوام کی کھال بیچ بیچ کر اربوں روپیہ خرچ کیا  جاتا ہے ۔ آنے والی نئی حکومت کے کل کے فکرے اور بھوکے ننگے ممبران کھا کھا کر دنبے طن جاتے ہیں ۔ دونوں ہاتھ لوٹ مار کی گنگا میں جی بھر کر دھوئے جاتے ہیں ۔ ہر وہ قانون سازی کی جاتی ہے جس سے صاحب اختیار ٹولے کو خوب خوب موج کروائی جا سکے ۔ ہر قانون ہر اس سیاستدان کے لیئے ہوتا ہے جو موجودہ حکومت میں شامل نہیں  ہوتا ۔ اور ہر وہ  سیاستدان نیک اور متقی قرار دیدیا جاتا ہے جو موجودہ حکومت کے پرنالے کے نیچے  پہنچ کر اشنان کر لے ۔ 
اسی کھینچا تانی میں جلوس نکلتا ہے ہماری عوام کا ۔ ہمارے ملک کا بھی سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے کہ ہر حکومت اور اس کا ہر نمائندہ پچھلی حکومت کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا ایسا تیہ پانچہ کرتا ہے جیسے اس پر لگا ہوا مال عوام کا نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اپنے گھر سے لائی تھی جسے برباد کر کے سابقہ حکومت یا اپوزیشن کو سزا دی جا رہی ہے ۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنے اللے تللوں کے لیئے اور اپنی انا کی پوجا کے لیئے ہر حد حد پار کر دیتی ہے ۔ حکومتوں کی اس خود پرستی میں عوام کی حالت بالکل دھوبی کے کتے کی سی کر دی جاتی ہے جو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا ۔ اس وقت پاکستان کی بات کریں تو مہنگائی کا وہ سونامی برپا کیا جا چکا ہے جسے دیکھ کر حکمران کا بیان سو فیصد سچ ثابت ہوا کہ میں ان کو رلاونگا ، میں ان کو تڑپاونگا ، میں ان کی چیخیں نکلواونگا۔ واقعی  ہماری حکومت نے یہ ہی  سب کیا لیکن وطن دشمنوں کیساتھ نہیں بلکہ اپنی ہی مظلوم عوام کیساتھ ۔ جہاں مڈل کلاس کا وجود ختم کرنے کی پوری پوری منصوبہ بندی عملی جامہ پہنے نظر آ رہی ہے ۔  بکرے کا گوشت کھانا تو پہلے بھی پاکستانیوں کی اکثریت کا خواب ہی رہی ہے اب تو وہاں گائے کا گوشت کھانا بھی خواب ہو چکا ہے ۔ اور تو اور سبزی کے بھاو آسمانوں سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی پھل کو دیکھ کر حسرت سے نگاہیں واپس پلٹ جاتی ہیں ۔ 
حکومت کسی کی بھی ہو ان سے ایک ہی درخواست ہے کہ آپ کی ساری عیاشی اور موج مستی بلکہ آپ کے وجود کا انحصار بھی اس عوام نامی سونے کا انڈا دینے والی مرغی پر ہے ۔ سو برائے مہربانی انڈے تبھی کھائے جا سکتے پیں جب اس مرغی کو اس کی ضرورت کے حساب سے دانہ دنکا ملتا رہے ۔  اور اسی دانے کو جب آپ اس تک پہنچنا ناممکن بنا دینگے تو نہ تو یہ مرغی رہے گی اور نہ ہی آپ کو کھانے کو اس کا سونے کا انڈا مل سکے گا ۔ اس لیئے براہ کرم عوام نام کی مرغی کو پوری حفاظت اور پوری خوراک کیساتھ زندہ رہنے دیجیئے ۔ اس کی دوا دارو کو اس پر آسان کیجیئے ۔آج ہمارے ملک میں  گھر کا ایک فرد اگر  بیمار ہو جائے تو سمجھ جائیے کہ اس بیچارے کا سارا خاندان اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے اور بھیک مانگنے کی حالت تک پہنچنے کو جا رہا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا بھی خود کو بیچنے جیسا ہو چکا ہے ۔ تعلیم کے نام پر صرف دو نمبر ڈگریاں ہیں جو یہ تعلیمی اداروں کے  دکاندار چلا رہے ہیں ۔ نہ تو اس کے طلبہ کے پاس کوئی دنیا کو دکھانے اور مقابلہ کرنے کا تعلیمی معیار ہے اور نہ ہی اخلاقی تربیت ۔ ایسے میں اگر کوئی طالبعلم کہیں  سے بھی نکل کر قومی یا بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بناتا یے تو یہ اس پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے جس پر وہ تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی ذاتی محنت سے کوئی پڑاو پار کر لیتا ہے ۔ ورنہ عام طالبعلم محض سال پر سال گزار رہا ہے اور کاغذ کی ردی کو اسناد کے نام پر جمع کر رہا ہے ۔ اتنی مہنگی تعلیم کے بعد بھی ردی ہی جمع کرنی ہے تو وہ وقت یاد کیجیئے جب ہر چیز گلیوں میں ریڑھیوں پر بکتی تھی اور سستی اور خالص تھی ۔ جب سرکاری سکولوں کے ایک ہی بینچ پر مزدور ، کرنل اور جاگیرداروں کے بچے پڑھا کرتے تھے اور بہترین علم مفت میں حاصل کیا جاتا تھا ۔ 
غور کیجیئے ہمارے ملک کی ہر اخلاقی گراوٹ پیسے کی ہوس اور اختیار کی لالچ میں دفن ہو گئی ہے ۔ اب بھی وقت ہے اس مہنگائی کے ملبے کے نیچے سے عوام نام کی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بچا کر نکال لیجیئے ۔ اس کے انڈے  یی اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ۔ سو اس اثاثے کی دیکھ بھال کے لیئے پہلا اور سب سے اہم قدم اٹھایئے اس کی خوراک میں سے مہنگائی کا زہر نکال دیجئے تاکہ یہ زندہ رہ سکے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔

اتوار، 15 دسمبر، 2019

کاروان حوا کی ادبی شام/ رپورٹ




کاروان حوا کی ادبی شام
(رپورٹ : ممتازملک)

13 دسمبر 2019ء بروز جمعتہ المبارک 
پشاور میں خواتین لکھاریوں کی معروف تنظیم کاروان حوا نے ایک  بھرپور ادبی نشست کا اہتمام کیا ۔ نشتر آباد پشاور میں عبادت ہاسپٹل کے حق بابا اڈیٹوریم کے خوبصورت ہال میں خواتین کی تنظیمات  شرکت گاہ ،  حورائزن  ، بلیو وینز اور نور ایجوکیشن ٹرسٹ نے پروگرام کو اپنے تعاون سےنوازا۔  پروگرام کی مہمان خصوصی اسلام آباد سے معروف ڈرامہ نگار ، افسانہ نگار اور شاعرہ فرحین چوہدری صاحبہ تھیں ۔ جبکہ مہمان اعزازی محترمہ ممتازملک صاحبہ تھیں ۔ جبکہ خالد مفتی صاحب کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔ تنظیم کی صدر معروف فنکارہ اور ایوارڈ یافتہ شاعرہ محترمہ بشری فرخ صاحبہ  ، جنرل سیکٹری محترمہ فرح اسد صاحبہ نے پروگرام کو خوبصورتی سے منظم کیا ۔
پروگرام کا آغاز نادیہ حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ،جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم  پیش کرنے کی سعادت تابندہ فرخ کو حاصل ہوئی ۔
 پروگرام کے پہلے حصے میں پیرس سے آئی معروف شاعرہ،د  کالم نگار، نعت خواں ، ٹی وی ہوسٹ ممتازملک کے شعری مجموعہ کلام اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ ) کی تقریب رونمائی پر مشتمل تھا ۔ جس میں شاہین آمین ،سلمی قادر اور عزیز اعجاز صاحب اور خالد مفتی صاحب  نے بھرپور انداز میں ممتاز ملک کے کام اورمجموعہ کلام پر روشنی ڈالی ۔ 
ممتازملک نے اپنے کام پر اتنے خوبصورت انداز میں بات کرنے پر سبھی معزز دوستوں کا دل سے شکریہ ادا کیا ۔ 
پروگرام کے دوسرے حصے میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے خواتین کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں خواتین نے اردو ، ہندی ، پشتو زبانوں میں شاعری کے زریعے معاشرے  کے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کیا ۔
خواتین و حضرات نے  شاعرات کے کلام کو بہت سراہا . شاعرات میں شامل تھیں  ثمینہ قادر ، غزالہ غزل،
شاہین امین ، روشن کلیم ، سلمی قادر، ممتازملک،  بشری فرخ اور فرح اسد شامل تھیں . 
پروگرام کے اختتام پر چائے اور لوازمات سے مہمانوں کی تواضح کی گئی. 
یوں ایک یادگار شام اپنے اختتام تک پہنچی . 
                    ......
                








منگل، 10 دسمبر، 2019

ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ/ کالم



         ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ
       (تحریر :ممتازملک. پیرس)



ہم نے اکثر لوگوں کو اپنی اولادوں سے یا ایکدوسرے سے یہ کہتے سنا ہے کہ بھئی ہم تو اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے ، نیک تھے ، مخلص تھے لیکن ہماری اولاد ایسی نہیں ہیں ۔ جانے کیوں؟ 
جبکہ بڑے کہہ گئے ہیں کہ جو بوو گے وہ کاٹو گے۔ ببول کے پیڑ پر آم تو نہیں لگ سکتے ۔ اسی طرح انسان اپنی جوانی میں جو اعمال انجام دیتا ہے اسے بڑھاپے میں انہیں کی جزا اور سزا اس کے ساتھ پیش آئے معاملات میں ملتی ہے ۔ گویا جوانی عمل کے لیئے ہے، تو بڑھاپا سامنے سے ملنے والے ردعمل کا زمانہ ہوتا ہے ۔ 
ہم جب ایسے لوگوں کے ماضی میں یا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی والدین سے کی ہوئی نافرمانیاں ،بہن بھائیوں سے کی ہوئی ذیادتیاں ، اور دوستوں سے کی ہوئی وعدہ خلافیاں ہی ہماری اولاد میں ان کے اخلاق و کردار کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم خود کو لاکھ فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن سچ کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے جو بیج جوانی میں بوئے تھے انہیں کا پھل جب پک کر تیار ہوجاتا ہے تو ہم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 
لیکن اس انکار سے ہم اپنی اولاد کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ 
کیا یہ نہیں کہ ہم تو بڑے نیک اور باکردار تھے لیکن ہماری اولاد نافرمان اور بےکردار پیدا ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اولاد اپنے ذہن میں اس بات پر یقین کر لے کہ  اچھا ہونے کا کیا فائدہ اس کے بدلے میں ہمیں سزا اور آزمائش ہی تو ملنی ہیں ۔ تو پھر چھوڑو نیک بننے کے چکر کو ۔ جو چاہے وہ کرو ۔ تو کیا اس پیغام سے ہم اپنےاور اپنی اولاد کے  ایمان کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ؟ 
جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی غلطیوں اور خطاوں کو تسلیم کریں اور اپنی اولادوں کو سمجھائیں کہ آج ہم اگر اپنی اولادوں سے پریشان ہیں یا مالی تنگی کا اور بے سکونی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ماضی میں ہماری اپنے والدین کو دی گئ پریشانیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہیں ۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جب بڑھاپے میں ہم میں گناہ کرنے کی، بدزبانی کرنے کی،  دھوکے دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو ہم سب ہی تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور  اللہ اللہ کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جوانی ہی میں (جب ہم میں جسمانی اور ذہنی طاقت بھی موجود ہوتی ہیں ، اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں ، آسودگی بھی ہوتی ہے )اس بات کا پختہ یقین کر لیں کہ ہمارے آج کے اعمال ہی ہمارے بڑھاپے کے نتائج ہونگے۔ جبھی تو اللہ پاک نے جوانی کی توبہ اور جوانی کہ عبادات کو افضل ترین قرار دیا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 4 دسمبر، 2019

ساتھی کے چناو میں اہم نکات / کالم


       ساتھی کے چناو میں اہم نکات
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


آج کل میڈیا کی چکا چوند نے لوگوں خصوصا نوجوانوں کی عقل پر پردے ڈال دیئے ہیں ۔ ہر جوان ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال ان چیزوں کے حصول میں برباد کرتے ہیں تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہیرے سمجھ کر پتھروں کے ڈھیر اکٹھے کرتے رہے ہیں ۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم محنت اور عقل و شعور کو طاق پر رکھتے ہوئے مشاورت سے دوری اختیار کرتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے من مانی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ "مشورہ دیوار سے بھی کیا ہو تو کبھی نہ کبھی کام آ جاتا ہے ۔ "
ایسے ہی غلط انتخاب کا شکار ہمارے نوجوان اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا ثبوت آج  کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بھی ہے ۔ شادی کے لیئے ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ چیزوں اور باتوں کا دھیان رکھنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیئے بیحد اہم ہے ۔ 
جیسا کہ آج کل میک اپ سے لپی تھپی اور اداوں سے لبریز لڑکیاں لڑکوں کو پاگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ انہیں اگر سمجھایا جائے کہ برخوددار لڑکی کی اصل شکل دیکھ لو اسے گھر سنبھالنے کا کوئی سلیقہ ہے کہ نہیں ، تو جواب آئیگا میں بیوی لا رہا ہوں کوئی کام والی ماسی نہیں ۔  کہو کہ  وہ کھانے پکانے کا کوئی شغف رکھتی ہیں تو شادی پر اتاولے جوان کا جواب آئے گا ، ارے بھئی میں بیوی لا رہا ہوں کوئی باورچن نہیں ۔
بیٹا سوچ لو لڑکی کے لچھن اچھے نہیں ہیں ، چھوڑیں اماں آپ تو ہر لڑکی میں کیڑے نکالتی رہتی ہیں۔ وہ ایسی نہیں ہے ۔۔۔۔
 اور جب شادی کے چار دن کا بخار اترتا ہے تو اسی جوان کو بیوی میں ماسی بھی چاہیئے ، باورچن بھی چاہیئے ، دھوبن بھی چاہیئے ، نرس بھی چاہیئے، گھر کی نگران بھی چاہیئے ۔ وفادار بھی چاہیئے ، باکردار بھی چاہیئے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے "جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" تو۔۔۔
اسی طرح لڑکیاں شادی کے بخار میں یہ سوچنا تک بھول جاتی ہیں کہ لڑکا کتنا پڑھا لکھا ہے ، کتنا ہنر مند ہے، کتنا کماتا ہے ، کتنا مہذب ہے،  کتنا باکردار ہے ،
اس وقت وہ بس یہ سوچتی ہیں کہ یہ مجھے جھونپڑی میں بھی بھی  رکھے گا تو میں رہ لونگی ، گھاس بھی کھلائے گا تو میں کھا لونگی ۔ بس اس کا پیار ہی میرے لیئے کافی ہے، کیونکہ اس وقت تک نہ انہوں نے جھونپڑی  دیکھی ہوتی ہے اور نہ ہی گھاس کھائی ہوتی ہے بس خواب فروش شاعروں کی جذبات بھڑکاتی بازاری شاعری پر سر دھن دھن کر خود کو ہوا کے دوش پر سوار کیا ہوتا ہے ۔  ابا کی کمائی پر عیش کر کے انہیں ہر بات کھیل اور مذاق لگتی ہے۔ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں جب خوابوں کے  آسمان سے حقیقت کی زمین پر گرائی جاتی ہیں تو دماغ ٹھکانے آتا ہے لیکن چہ معنی دارد ؟؟؟
بیشک عورت کا حسن اور سیرت دونوں ہی چیزیں بیحد اہم ہیں ۔ اگر اس میں اس کے سگھڑ پن اور خوش گفتاری کی خوبیاں بھی شامل ہو جائیں  تو سونے پر سہاگہ ہے وگرنہ خالی خولی حسن والیاں رلتی کھلتی اور تباہ ہوتے ہی دیکھی ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ
"روپ والی روئے اور مقدر والی کھائے"

عورت بدشکل بھی ہو تو مرد کیساتھ چل سکتی ہے ، کم پڑھی لکھی بھی چل جائے گی ، غریب بھی چل سکتی ہے ، پھوہڑ بھی شاید برداشت کر لی جائے۔ لیکن بدزبان اور بدکردار لڑکیاں چاہے جنت کی حور جیسی صورت بھی لے آئیں تب بھی چار ہی دن میں لات مار کر زندگی سے نکال دی جاتی ہیں ۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب مرد کا صبر ختم ہو جاتا ہے ۔ 
جبکہ مرد کمانے کیساتھ حفاظت کرنے اور عزت دینے والا ہو تو گویا عام سی شکل کا مرد بھی اپنی بیوی کا ہیرو ہو سکتا ہے  ۔ اور اگر وہ خوشگفتار اور مزاح بھی مزاج میں رکھتا ہو تو زندگی واقعی آسان ہو جاتی ہے ۔

لیکن شکی ، بدزبان ، نکھٹو اور بدکردار مرد کسی بھی لڑکی کی زندگی میں ایک بددعا کی طرح داخل ہوتا ہے اور اسکے زندگی کے سارے رنگ ، سارے ہنر چاٹ جاتا ہے۔ 
مرد اور عورت کو  اپنی زندگی کے ساتھی میں حقیقت پسندانہ خوبیوں اور خواص کو نظر میں رکھنا چاہیئے ۔ تاکہ ان کی زندگی کے ساتھی میں انہیں ایک بہترین دوست بھی میسر آ سکے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اتوار، 1 دسمبر، 2019

وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں/کالم



  وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں
     (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)
           
کیا ہی بدنصیبی ہے اس قوم کی کہ جہاں بیٹیاں محفوظ نہ رہیں ، مائیں ہر گھنٹے میں بیدردی سے قتل کر دی جائیں ، بہنیں جلا کر راکھ کر دی جائیں ۔ بچیاں پالنے ہی میں ریپ کر کر کے دفنا دی جائیں ۔ 
اور ان کے قاتل اور  بربادی کے ذمہ داران کو مدعی بنکر یا معافی نامے کی سطروں کے عوض سودے بازی کر کے چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے ہی چھوڑے جانے والے لوگ ہمارے ہاں اپنے ہی رشتوں کے لیئے،  پڑوسیوں کے لیئے، ملنے والوں کے لیئے ایک ٹائم بم کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اور ان کو یوں معاشرے میں چھوڑ دینا گویا اپنے آپ کو کسی خود کش بمبار کے حوالے کر دینے جیسا ہے جو کبھی بھی ، کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی جانیں کسی بھی بہانے لے سکتے ہیں ۔ ایسے افرادجو ایک بار قتل اور ذیادتی جیسے واقعات میں ملوث ہو چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ زندگی بھر کبھی بھی نہ تو قابل اعتبار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل ۔ 
نفسیاتی طور پر ہلے ہوئے یہ لوگ اپنے اندر کی شیطان کو راضی کرنے کے لیئے کسی نہ کسی کی عزت یا زندگی کی بلی دینے کو شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ 
ایسے میں جب نو سال کی بچی کو سنگسار کر کے مار ڈالا جائے ،
کہیں اپنی بیوی کے پیسے خرچ کر دینے والا باپ اس بات کو چھپانے کے لیئے اپنی ہی چھ سال کی مصوم بیٹی کو بلی کا بکرا بنا کر قتل کر دے ،صرف اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیئے۔۔۔
جہاں بہنوں کی جائیداد کے حصے ہڑپ کرنے کے لیئے اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے  بھائی ان کے مال پر عیش کرنے کے لیئے ان پر تہمتوں کے پہاڑ توڑ کر ان کے کردار کو قتل کر رہا ہو ، ان حالات میں 
پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر فوری نفاذ کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہو ۔ 
خدا کے سوا کون ہے جسے انسانی جان یا عزت کے لینے کا اختیار ہے ؟ تو یہ کام اپنے ہاتھوں میں لینے والے مجرمان کو خدائی قانون کے تحت بھی قتل کیا جانا چاہیئے اور انسانیت کے قانون کے تحت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جانا چاہیئے تاکہ اس معاشرے سے بے حسی اور  سنگدلی کی بیخ کنی کی جا سکے ۔ معاشرے کو محفوظ بنانا جن قانون دانوں اور منصفین کا ذمہ ہے انہیں آنکھیں کھولنے اور ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائیں جنہیں سالہا سالہا سے قانون اور دستور کی کتابوں میں  دفن کیا گیا ہے ۔ 
ان مردوں کو ذندہ کیجیئے اس دن سے پہلے کہ جس روز ہمارے مردے حساب کیلیئے ذندہ کر دیئے جائیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 18 نومبر، 2019

سینٹورس کی سیر/ رپورٹ



سینٹورس اسلام آباد
کی سیر
(تحریر:ممتازملک۔پیرس)
کئی دنوں سے سینٹورس کا نام سن سن کر اسے دیکھنے کا اشتیاق ہو چلا تھا لیکن بھلا ہو دھرنے والوں کا کہ اس طرف جانے والے میٹرو کی بندش  سے اور کبھی اپنے دوسرے پروگرامز کی مصروفیات کے سبب ہم جا نہ پائے ۔ لیکن 17 نومبر 2019ء بروز اتوار یہ شوق بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔
میٹرو سے ہی ہم سب پمس اسلام آباد  کے سٹاپ پر اس شاندار سی بلڈنگ کے سامنے اترے۔ باہر سے واقعی بلڈنگ بہت خوبصورت تھی ۔ لیکن اس کے سیکیورٹی انتظامات اور بھی اچھے تھے۔ یہ بالکل ایک بین الاقوامی سطح کا  کثیر المنزلہ شاپنگ مال ہے ۔ جس میں بہت سے انٹرنیشنل برانڈز بھی موجود ہیں ۔ کھانے پینے ، بوتیکس ، کراکری ، جیولری ،  بچوں کی تفریحات غرضیکہ ہر شے موجود ہے ۔ اکثر اشیاء کی قیمتیں یورو،  پاونڈز اور ڈالرز کے متبادل رکھی گئی ہیں جو کہ عام آدمی کی تو پہنچ سے باہر ہیں ۔ پھر بھی ہم 5، 6 ہزار روپے لٹا ہی آئے 🤔😜
مال اتنا بڑا ہے کہ ایک ہی دورے میں اس کی سیر ممکن ہی نہیں ہے اور شاپنگ وہ تو کئی دوروں میں بھی ناممکن 😜
پھر بھی مہذب سے ماحول میں سکون سے گھومنا بہت اچھا لگا ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ یہاں اکیلے نوجوانوں کا بنا کسی خاتون کے ساتھ  کے داخلہ منع ہے۔ جس کے سبب ٹھرکیوں اور ٹائم پاس لوگوں سے فیملیز محفوظ رہ کر شاپنگ کر سکتی ہیں ۔ ویسے  میرا بس چلے تو میں یہ حکم سبھی بازاروں پر لاگو کر دوں ۔ ماسوائے ان بازاروں کے جہاں مردانہ شاپنگ ہوتی ہے۔
ایک اور بات، جتنا بڑا مال ہے اتنے ہی یہاں سوٹڈ بوٹڈ خواتین و حضرات کے چور گروہ بھی گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا جب بھی کہیں جائیں تو چوروں اور جیب کتروں اور خود سے ٹکرا کر گزرنے والوں کو نوٹس کر کے "اپنے سامان کی آپ حفاظت" والا پیغام اپنے ذہن میں رکھیں ۔
ایک ہی منزل پر گھومتے ہوئے تھک گئے تو کرکرے اور کوک لیکر باہر نکلے اور خوبصورت فضاء میں سینٹورس کے باہر بنے بنچز پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ ایک پیاری سی بلی ہم سے خوامخواہ ہی مانوس ہو گئی ۔ اور ہمارے ساتھ ساتھ ہی ہمارے اردگرد گھومتی رہی ۔ اور  ہم اسے کرکرے پیش کریں تو موصوفہ کو پسند نہ آئے ۔ اس کی پسند کا ہمارے پاس کچھ تھا نہیں ۔ پیسوں سے اسے شغف نہ تھا ورنہ کہتے جا بہن کچھ پیسے لے اور جا کر کچھ کھا لے 😁
یوں خوب تھک کر اور پھر آنے کا سوچ  کر میٹرو سے واپسی کی راہ لی۔
ایسے مالز پاکستان سے باہر اور ہمارے ہاں یورپ میں تو عام ہیں لیکن پاکستان اور خصوصا راولپنڈی اور اسلام آباد میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔ جسے دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ بس ذرا سستا بھی ہو جائے تو کیا ہی بات ہے ۔
پیش ہیں چند تصاویر




بدھ، 13 نومبر، 2019

اعتدال پرملال / کالم



          اعتدال پرملال
    (تحریر:ممتازملک. پیرس)
       


اللہ حسین ہے اور وہ حسن کو پسند فرماتا ہے ۔ حسن کیا ہے ؟ حسن دیکھنے والے کی آنکھ کا ایک زاویہ ہے ، ذہن  کی کوئی اختراع ہے یا اعتدال اور توازن کا کوئی امتزاج ۔ تو یقینا یہ اعتدال و توازن کے میل کا ہی نام ہے ۔ اس کا ثبوت  اللہ کا اپنی مقدس کتاب میں بار بار اعتدال پر رہنے کا حکم ہے ۔ جب تک ہم نے اس حکم کی پاسداری کی ہماری زندگیوں میں سکون رہا ۔ جیسے ہی ہم اس حد کو پار کرتے ہیں، بے سکونی ، پریشانیاں اور جرائم ہماری زندگی میں ناگ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے بجلی کے سوئچ کا احتیاط اور حفاظتی طریقے سے سوئچ بورڈ میں لگایا  جانا اس کے کرنٹ کو بحفاظت ہمارے آلات کو کام میں لاتا ہے تو وہی سوئچ بورڑ  اگر ڈائریکٹ  انگلیوں سے یا بے احتیاطی سے چھو لیا جائے تو وہی کرنٹ منٹوں میں کسی بھی چیز کو جلا کر خاکستر کر دیگا ۔ 
سمندر جب تک اپنی حد کے اندر رہتا ہے ہماری زندگیوں کے لیئے نعمتیں پالتا ہے جوں ہی یہ   اپنی حدود سے باہر نکلتا ہے تو سونامی برپا کر دیتا ہے ۔ جو ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ ہی حال ہمارے رشتوں کا بھی ہے ۔ رشتے جب جائز حدود سے باہر جانے لگتے ہیں تو ذلت و تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
مشرقی معاشروں میں جہاں اب آذاد خیالی کا چلن اس قدر عام ہو چلا ہے کہ اکثر برائیوں کو بھی کہیں فیشن اور کہیں مجبوری سمجھ کر ،کہیں ضرورت اور کہیں جدت سمجھ کر قبولیت کی  سند عطا کی جا رہی ہے . ہمارے معاشرے میں جہاں ہم مذہب کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور نیکی کا زبانی پرچار بھی خوب زوروں پر ہوتا ہے وہاں اب حرمت کی بات کرنا یا اللہ تعالی کی بتائی ہوئی حدود کا ذکر کرنا بھی گویا اپنے گلے جنجال ڈالنے والی بات بن چکی ہے . پہلے جہاں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین و حضرات بے راہ روی اور ناجائز رشتوں کے عذاب میں مبتلا سمجھے جاتے تھے وہاں تو اب عام گھریلو خواتین  اپنے گھروں کے دروازوں میں شوہروں کے دوستوں اور ملاقاتیوں کو یوں بے دھڑک تن تنہا داخل کر رہی ہیں کہ ان کے کردار پر کوئی بھی دھبہ باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے . . پردہ تو چھوڑیئے اب تو گھروں میں ہی باقاعدہ قحبہ خانوں جیسا ماحول بنتا جا رہا ہے .
ملک میں ہڈ حرام اور کام چور مردوں کا بڑی تعداد میں  اضافہ ہو چکا ہے .
جو کہیں بہن بھائیوں کا مال نچوڑ کر اس پر عیش کر رہے ہیں تو کہیں اپنی بیوی و بیٹیوں کو پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا کر ملائی کھا رہے ہیں . ایسے لوگوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں ہے وہ مردوزن جو بنا کسی کاروبار یا روزگار کے بہترین پہننے کے مرض میں مبتلا ہیں ، بہترین ہوٹلوں اور کھانوں کے شوق میں مبتلا ہیں ، ہر دم بے مقصد و بیکار پائے جاتےہیں لیکن اس کے باوجود موج اڑا رہے ہیں
تو جان جائیے کہ یہ سب حرام کے راستوں سے حاصل کیا جا رہا ہے .
ان کی اولادیں انکی خوشی و رضا سے ہی گناہوں کے گٹر میں غوطے کھا رہی ہیں . ان میں اکثر کسی کے قتل اور ہنگامے کی خبر آتی ہے تو حیران مت ہوں یہ کسی غیرت کا شاخسانہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی جلن یا مال میں حصہ داری کے کم ملنے کا نتیجہ ہوتا ہے .  ان کے نزدیک عزت تو گھر کی مولی ہے اسے کسی بھی وقت اگایا جا سکتا ہے جبکہ پیسہ ان کا ایمان ہے وہ کہیں سے آئے، کسی بھی قیمت پر آئے بس اس کا راستہ کھلا رہنا چاہیئے.۔۔
اس لیئے ضروری ہے کہ زندگی کو اعتدال پر لائیے ورنہ یہ بس ملال ہی رہ جائے گی ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

لٹیرے معالج/کالم

     لٹیرے معالج 
(تحریر: ممتازملک.پیرس)
پاکستان میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے تو وہیں کئی ایسے پیشے بھی اس تباہی کا شکار ہو چکے ہیں جن کا مقصد خالصتا انسان کی فلاح و بہبود پر مبنی تھا ۔ جیسے کہ ایک  شعبہ طب یعنی مسیحائی ۔ ایک معالج اپنی تعلیم اور تربیت کے کئی مراحل میں انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی قسمیں  کھاتا ہے ۔ لیکن معالج یعنی ڈاکٹر بنتے ہی اس میں نجانے کہاں سے ایک قصاب کی روح  بیدار ہو جاتی ہے ۔ وہ ایک کاروباری کی طرح ایک بیمار کو اپنا گاہگ بنا لیتا ہے ۔ جس کی نظر صرف گاہگ کی جیب پر ہوتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پڑھائی کے خرچے کے بدلے لوگوں کی کھالیں اتار کر فروخت کرنا شروع کر دے ۔ تو دھوکے سے معصوم  اور لاچارلوگوں کو نام نہاد بیماریاں بتا بتا کر  انکے جگر ، گردے، آنکھیں اور جانے کیا کیا بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ مسیحا نما یہ قصاب اپنے سٹیٹس کو کے لیئے ، اپنے معیار زندگی کی بلندی کے جنون میں انسانوں کیساتھ قربانی کے دنبوں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ نہ انہیں تڑپتے ہوئی ماوں کے ہاتھوں دم توڑتے بچے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو جنتی ہوئی موت کی آغوش میں جاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ نہ اسے جوان لوگوں کے ہاتھوں ان کی زندگی کی ڈور چھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے نہ ہی بوڑھوں کی اذیت کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہ ہے تو بس ایک دکاندار ۔ مال دو تال لو ۔ 
منہ پھاڑ کر  بیماری پر مریض سے یوں لاکھوں روپے مانگے جاتے ہیں جیسے وہ مریض کا علاج نہیں کر رہے بلکہ کسی مشین کے پرزے خرید کر دے رہے ہیں جس کے ساتھ اسے بس ایک ہی بار میں تاحیات کی ضمانت مل جائے گی کہ اب وہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ یہ پرزہ ناکارہ ہو گا ۔ لاکھوں روپے کے تقاضے وہ لٹیرے ڈاکٹر تو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جو صبح کا وقت سرکاری ہسپتالوں میں دلاسے بانٹ کر حرام کی تنخواہ جیب میں ڈالتے ہیں تو شام کو ذاتی مطب یعنی پرائیویٹ کلینکس پر جا کر  مسکراہٹیں بانٹتے اور لاکھوں کا ٹیکہ لگا لگا کر شفا بانٹتے نظر آتے ہیں صرف مشاورت کا وقت لیکر  دو چار منٹ مریض سے ملنے کے عوض ہزاروں روپے فی کس وصول کیئے جاتے ہیں ۔ چاہے مریض کا علاج محض دس روپے والی ڈسپرین کی گولی ہی کیوں نہ لکھ کر دینی  ہو ۔ اپنے کاونٹر پر ایڈوانس میں ہزاروں روپے جمع کروا چکا ہوتا ہے ۔  ایسے میں سرکاری ہسپتال میں رلتے کھلتے غریب مریضوں کو بس دلاسوں کی خوراک دیکر ہسپتال کی راہداریوں میں دوڑا دوڑا کر موت کی میراتھن میں جبرا شامل رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا دم نہ نکل جائے ۔ صرف اس لیئے کہ سرکار کا خزانہ اپنے وزیروں سفیروں کو اندرون و  بیرون ملک علاج کے نام پر موج کروانے پر خرچ ہو جاتا ہے تو بیت المال سے علاج کے لیئے کارڈ بنوانا اور اس پر دوا وصول کرنے والے کو اس قدر ہتک آمیز نگاہوں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا معاشرتی طور پر  ایسا اشتہار لگایا جاتا ہے جیسے اس کی کم حلال  آمدنی اس کے لیئے ایک سنگین جرم بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب بیشمار حرام کی کمائی والوں کو اٹھ اٹھ کر سلام کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ان دکاندار کاروباری ڈاکٹروں کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معالجین کی کمائی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی مشاورت کی فیس کی حد مقرر کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی حاضری اور موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کمائی کی اندھی دوڑ میں انہیں انسانیت کا سپیڈ بریکر دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ 
ہمارے جیسے ممالک میں باقی عوام پر بھی عموما اور  ڈاکٹر پر  خصوصا ایک وقت میں ایک ہی گھر کی ملکیت رکھنے کی پابندی لگائی جائے۔ بے تحاشا دولت اکٹھی کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نصاب تعلیم میں قرآنی اسباق کے حقوق العباد کے حصوں کو بطور مضمون ہر بچے کو بچپن ہی سے پڑھایا جائے ۔ تاکہ کل یہ بچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائے تو جسم و جان کا سوداگر بن کر نہ جائے بلکہ ایک بہترین راہبر ، رہنما، ماہر ، اور معالج بنکر جائے۔ اسے معلوم ہی نہیں یقین بھی  ہو کہ زندگی ضرورت کے دائرے میں رہے تو عزت بھی دیتی ہے اور سکون بھی ۔ جب یہ تعیش کے بھنور میں داخل ہو جاتی ہے تو نہ اس میں ہوش رہتا ہے، نہ ہی قرار۔ دولت اتنی ہی کمائی اور اکٹھی کی جائے جو آپ کی زندگی کو عزت سے بسر کرنے کو کافی ہو۔ ورنہ لالچ کا منہ واقعی صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ اور یقینا ہر مریض کی طرح ہر معالج کو بھی ایکدن موت کا مزا ضرور چکھنا ہے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔)

منگل، 8 اکتوبر، 2019

شمع خالد صاحبہ سے ملاقات/رپورٹ




 شمع خالد صاحبہ کیساتھ ایک خوبصورت ملاقات ❤
رپورٹ:
(ممتازملک ۔راولپنڈی)





7 اکتوبر 2019ء بروز پیر
میں نے فون کیا میم کیا میں آج آپ سے مل سکتی ہوں ؟
پیاری سے مہربان سی بے تکلف سے آواز آئی ۔۔آ جاو آجاو جلدی سے ۔
اور میں اڑتی ہوئی شام 5 بجے ان کی خدمت میں حاضر تھی ۔ محبت سے تپاک سے گلے لگا کر ویسے ہی استقبال کیا جیسے کوئی ماں اپنی پردیسن بیٹی کا استقبال کرتی ہے ۔
جیسے میری اپنی ماں زندہ ہوتی تو یقینا  میرا  استقبال کرتی۔ 🙇‍♀️
بہت سی باتیں ہوئیں ۔ دکھ سکھ ہوئے۔ کچھ ماضی کے قصے کچھ حال کی خبریں
اورساتھ کیئے تحفے میرے لیئے اپنی پیاری سی خودنوشت 
"اوراق گم گشتہ"
سندھ کی بنی خصوصی اجرک 
خانہ خدا کے پاس سے آیا مسحور کن عطر
اور کیا چاہیئے کسی کو اپنے رب سے ❤❤❤
کچھ لمحے بیحد خالص اور بیحد اپنے ہوتے ہیں ۔ انہیں لمحوں میں سے ایک میری پیاری سی ماں جیسی دوست ، میری بچپن کی آئیڈیل معروف ریڈیو ٹی وی پروڈیوسر، ڈائریکٹر ، افسانہ نگار 
شمع خالد صاحبہ 
آپ کی محبتوں اور عنایتوں کا میرے پاس کوئی بدل نہیں ہے ۔ اللہ پاک آپ کو جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور میں آپکو آپکے اپنے پیروں  پر چلتا ہوا دیکھوں تو سمجھوں گی کوئی خاص گھڑی اللہ پاک کے ہاں باریاب ہو گئی ۔ 
بہت سا پیار 
(ممتازملک۔ راولپنڈی )
Thanks a lot Facebook  ❤

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2019

نمودونمائش کے چھچھورے انداز/کالم


نمود و نمائش کے چھچھورے انداز
   (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

پیسے کی نمودونمائش میں ہم پاکستانیوں اور ساوتھ ایشینز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کہیں ہم درختوں پر اپنے نام کھود کھود کر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ،  تو کہیں ہم ٹائلٹس میں بسوں کی سیٹوں پر،  جہاز کے آلات پر اپنے نام لکھ لکھ کر تاریخی شخصیات بننے کی جاہلانہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں ۔
قومی طور پر ہمیں اپنی مشہوری کے آسان ترین طریقوں پر عبور حاصل ہے ۔ کوئی ہمیں کچھ پڑھانے یا کچھ سکھانے کی کوشش کرے تو وہ شخص ہمیں اپنا دشمن اول دکھائی دینے لگتا یے ۔
ہمیں اس پر بھی ملکہ حاصل ہے کہ کوئی شخص محنت سے کوئی ہنر حاصل کرے یا کوئی چیز بنائے اور ہم اس بنی بنائی تیار چیز پر اپنے نام کا سٹیکر چپکا دیں ۔ نہ تو ہمارا ضمیر ہمیں ایسے کاموں میں ملامت کرتا ہے اور نہ ہی ہمیں اس پر کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔
کسی کی تحریر اپنے نام سے شائع کر کے ہم خود کو دانشور سمجھنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی شاعری اسی کے منہ پر دھڑلے سے اپنے نام سے سنانے پر بھی ہمیں کوئی شرم یاد نہیں رہتی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو جو چاہے جس کی چاہے ٹوپی اتار کر جس کے مرضی سر پر منڈھ دے ۔  جس کے نام سے جو چاہے پوسٹ لگا دے ۔ اور اگر وہ اصل صاحب تحریر  موجود ہے تو دیکھ دیکھ کر صلواتہ سناتا ہے اور اگر دنیا سے سدھار چکا ہے تو عالم ارواح میں بھی اسے پتنگے ہی لگ جاتے ہونگے ۔ لیکن جناب کسی چور کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی اس واردات سے کسی مالک پر کیا گزری۔ 
کہیں شادی بیاہ کے موقع پر اپنی چادر پھاڑ کر پاوں باہر نکال کر ناک اونچی کی جاتی ہے چاہے اس کے بعد پاوں ساری عمر چادر سے باہر ہی لٹکتے رہیں ۔ لیکن اس سے بہتر موقع دکھاوے کے لیئے اور لوگوں کے دل میں حسد و حسرت کے بیج  بونے کے لیئے اور کونسا ہو سکتا ہے ؟ 
سرکاری طور پر ہمارے دکھاوے کا یہ عالم ہے ہم بھیک مانگنے بھی دنیا بھر میں چارٹرڈ طیاروں میں گھومتے ہیں ۔ دنیا ہم پر ہنستی ہے تو ہنسے،  ہمیں دنیا کو ہی دکھانا ہے اور دنیا ہی کے ہنسنے سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھنا ۔ کمال کے لوگ ہیں ہم ۔ 
اپنی زندگی کو دکھاوے اور دو نمبری کی بھینٹ چڑھا کر مشکل  بھی کرتے ہیں اور اسی مشکل پر آہ و بقا کر کے دوسروں سے ہمدردی کی امید بھی لگاتے ہیں ۔ 
عقل۔سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ جانے وہ دن کب آئیگا جب ہم خود اپنی ذات میں اللہ کے دیئے ہوئے خوائص جواہر کو تلاش کرینگے اور  اسی کے بل بوتے پر خالصتا اپنی محنت اور رب کی رضا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی حیثیت اور مقام پر صبر و شکر بجا لائیں گے ۔
                       ۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/