ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 1 جنوری، 2020

● شکیل عادل کا تبصرہ/ تبصرے



قلندر صفت شاعرہ
 ممتاز ملک 
تحریر: (شکیل عادل ۔ پشاور)


معاشرتی برائیوں کو اگر بیماریاں کہاجائے تو شاعر اورادیب ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ نت نئے اشعار اوران اشعار میں بیان کئے گئے مضامین کوا نکی بیخ کنی کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ طنز سے، ہلکے پھلکے مزاح سے ، غصے سے ، دکھ سے اور افسوس سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔اور ایسا اس لئے ہے کہ رب تعالےٰ نے انہیں یہ وصف دیا ہے کہ وہ چیزوں کو الگ زاویہِ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ اعلیٰ دماغ ہوتے ہیں اس لئے معاشرے کے باشعور لوگ ان کی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور معاشرہ سدھار کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے 
  ممتاز ملک ایک ادیبہ ، شاعرہ اورصحافی ہیں وہ نظم سے بھی ، اور نثر سے بھی ایک عرصے سے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ تمام ادیبوں اور شاعروں کی طرح وہ بھی نیکی کا پرچار کررہی ہیں ۔ اور برائی کی روک تھام کےلئے کوشاں ہیں ۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیاجائے تو یہ پیغمبرانہ کام ہے کیونکہ ہر پیغمبر نےبھی نیکی کا حکم دیا ہے اور برائی سے روکا ہے ۔ اردو کے شعراءمیں ناصر کاظمی ،احمد فراز ، محسن نقوی، پروین شاکر، اور قتیل شفائی میں ایک قدر یہ مشترک تھی کہ وہ عوامی سطح پر مقبول تھے کیونکہ ان کی شاعری سادگی سے مزیّن تھی اور اس میں عام فہم مضامین وارِد ہوتے تھے ۔ 
 ممتاز ملک نے بھی سادگی کو اپناہتھیار بنایا اور جہاد میں مصروف ہوگئیں۔ ممتاز ملک نے چھوٹے چھوٹے معاملات کو نہایت خوبصورتی سے شہہ سرخیوں میں بدل کر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ لوگوں نے اپنے رویّےاگر بدلے نہیں اور بدلنے کا سوچا ضرور ہے ۔ یعنی ممتاز ملک کی شاعری بلا واسطہ طورپر ضمیروں کو جھنجھوڑنے، آنکھوں کو کھولنے اور احساس کو جگانے کا کام کرتی ہے ۔
  ” میرے دل کا قلندر بولے“ممتاز ملک کا شعری مجموعہ کلام ہے جو نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس میں پابند نظمیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی۔ مگر تمام میں سادگی چھائی ہوئی ہے ، سادہ لفظ ، سادہ مضامین، سادہ باتیں، سادہ کلام ، تمام نے مل کر ایک سماں باندھ دیا ہے ۔ اور ممتاز ملک کی سچائی اورخلوص پر مہر ثبت کردی ہے ۔ 
 رشتوں کی ناقدری کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا کامل ادراک اس کو ہی ہوسکتا ہے جواس کا شکار رہا ہو یا وہ جسے ربِ کائنات نے احساس کی بے کراں سے دولت سے نوازا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس شاعرہ ممتاز ملک نے سب سے زیادہ دکھوں کو بیان کیا ہے اور رشتہ کی ناقدری سے بڑھ کر اور کیا دکھ ہوسکتا ہے ۔
 ” چار بیٹوں کی ماں“ ایک خوبصورت نظم ہے جو انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے اس میں سادگی اور پر کاری سے بتایا گیا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لئے خاص طورپر بیٹوں کے لئے تمام زندگی کیا کیا کرتی ہے ، اپنے من کو مار کر کیا کیا قربانیاں دیتی ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے بیٹوں کی خوشیوں کاخیال رکھتی ہے ۔ اور وہی بیٹے اس کی ناقدری کرکے اپنی دنیا وآخرت بگاڑ لیتے ہیں ۔اور نظم کا اختتامیہ تو اور بھی درد ناک ہے ۔ کہ چار بیٹوں کی ماں کا کفن چاروں بیٹوں کے چندہ کرنے سے آتا ہے ۔ 
” یارب یہ کیسے بیٹے ہیں“ اس نظم میں اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر بدیسی تہذیب کے زیر اثر والدین کی ناقدری کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آئینہ دکھایا گیا ہے ۔ ایسے بیٹوں کو جو والدین کے احسانات ، قربانیوں اور محبتوں کو بھلا کر دنیاوی جاہ و حشم اور دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ والدین  اور اپنے ذمہ فرائض کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔
”سنو ایسا نہیں کرتے“ ایک ناصحانہ نظم ہے جس میں ان چھوٹے چھوٹے جذبوں کو بیان کیا گیا ہے جن کی ہم پرواہ نہیں کرتے ان معمولی غلطیوں ، کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی طرف سے ہم آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ چھوٹی چھوٹی خامیاں انسان کی شخصیت کو داغدار کردیتی ہیں ۔ 
 ممتاز ملک ایک وطن پرست خاتون ہیں اوروطن کی محبت ان کی رگ رگ میں لہو کے ساتھ گردش میں ہے ۔ اپنی اس محبت کا اظہار وہ باقاعدہ اپنے اشعار میں کرتی ہیں وہ نہ صرف وطن کی ترقی و کامرانی کے لئے دعا گو رہتی ہیں بلکہ وطن کو درپیش مسائل اور ملک میں بڑھتی پھیلتی ہوئی برائیوں پر بھی قلم اٹھاتی ہیں ۔ 
”صلیبِ وقت“ میں وطن میں پھیلتی دہشت گردی اورر قتل وغارت کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنے وطن کو اس سے پاک کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ 
 ” ارفع کریم رندھاوا کے نام “ ایسی خوبصورت نظم ہے جو”میرے دل کا قلندر بولے“ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ 
” آﺅ کہ کچھ خواب بنیں“ خوشگوار امیدوں کی خوشبو سے بھری نظم ہے اس نظم میں شاعرہ نے اچھے دنوں کی آمد ، خوشیوں کے زمانوں اور نیک جذبوں کا اظہار خوبصورتی سے کیا ہے ۔
” آئینے “ ایک طنز ہے ، چوروں ، لٹیروں ، ڈاکوﺅں اور خود پسندوں پر خاص طورپر ان پر نفرین کی گئی ہے جو چاپلوسی کرنے سے پہلے مسکینی کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں ۔مسلمان ہونے کے باوجود مذہب سے دور ہیں اور برائیوں سے گردن تک ڈوبے ہیں ۔ 
 ” ایک جیب ایک پتھر“ ایک ایسی نظم ہے جس میں شعور کو جگایا گیا ہے کہ اٹھو اپنے حق کو پہچانو جو تمہارے حقوق غصب کررہا ہے اس کے سامنے ڈٹ جاﺅ اس کا پتھروں سے سواگت کرو پھولوں سے نہیں۔عزتوں کے لٹیروں کو ، جھوٹوں کو اور دھوکے بازوں کو ان کی اوقات یاد دلادو ۔
” بستی“ ایک خوبصورت نظم ہے جس میں آج کی محبت اورر کل کی پاکیزہ و سچی محبت کا موازنہ کیا گیا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روح کی محبت دیرپا ، پاکیزہ اور پر خلوص ہوتی ہے جبکہ جسمانی محبت عارضی و بے اعتباری۔
” میرے پیارے شہر کراچی“ روشنیوں کا شہر کراچی کئی دہائیاں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بہتے خون کی ندیوں میں ڈوبا رہا یہ نوحہ ہے اس وقت کا جب کراچی ماتمی لباس میں تھا اور شکر ہے کہ اب کسی حد تک ان رویوں اور عملوں میں بہت بہتری آئی ہے مگر شہر کراچی کا ایک سیاہ باب ہے۔  بہر حال تاریخ کا حصہ رہا ہے ۔ممتاز ملک کا ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعہ دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ ممتاز ملک نے ذاتی دکھ کو بیان کیا ہی نہیں تو دوسروں کے دکھ پر دکھی ہیں اور ہمیں ایسے حساس اور قیمتی لوگوں کی قدر ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ پذیرائی بھی کرنی چاہئے ۔
 ہم دعا گو ہیں کہ ممتازملک یونہی ہمیشہ چمکتی مہکتی رہیں اور اپنی تحاریر سے رنگِ ادب کو نکھارتی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/