ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 31 اکتوبر، 2012

● (11) ارفع کریم رندھاواکے نام/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(11) ارفع کریم رندھاوا
 کے نام


وطن کی بد نصیبی پر میرا دل خون روتا ہے
کوئی دن بھی نہیں جاتا نہ گوہر کوئی کھوتا ہے 

وطن کی شان تھی میرے وطن کا مان تھی میرے
تیرے جانے پہ اے ارفع میرا دل خون روتا ہے

ابھی تو تجھ کو میرے دیس کو آگے لیجانا تھا
انہیں گم راستوں کا ہر پتہ تو نے بتانا تھا

ابھی بابا کے اور میّا کے خوابوں کے دریچوں میں
تجھے ٹھنڈی ہوا کا بنکے جھونکا آنا جانا تھا

بڑی تیزی سے ساری منزلیں سر تو نے کر ڈالیں
تجھے معلوم تھا ارفع تجھے جلدی ہی جانا تھا

تیرے جیسی پری بیٹی بڑی قسمت سے ملتی ہے
تجھے   امید   کی   ناؤ   کو   لیکر    پار    جانا    تھا

تیرا بھی دل کیا اپنے ہی وطن والوں نے توڑا تھا
بڑی جلدی کی جانے میں کوئی لازم 
بہانہ تھا

                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

 

● (13) آئینہ / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(13) آئینہ



اِس آئینے میں ایک ہی منظر دکھائی دے
جو مجھ کو چاہیئے وہی منظر دکھائی دے

جو پی کے مجھ پہ ایسی خماری سوار ہو
پاؤں کے نیچے مجھ کو یہ امبر دکھائی دے

مِٹی منافقین کی ایسی گندھی ہے کہ
اپنا ہی آپ انکو تو دلبر دکھائی دے

پہلا قدم میں نقش کروں ہر جگہ پہ بعد
آقا دکھائی دے نہ ہی چاکر دکھائی دے

لوگوں کے سچ کو جھوٹ میں گر نہ بدل سکوں
مضمون کی وہ چوری میں ماہر دکھائی دے

جب تک نہ چاپلوسی کے سب بھید کُھل چکے
مِسکینیّت کا مجھ کو وہ پیکر دکھائی دے

اپنے قصیدے لکھنے سے فرصت نہیں جنہیں
ان کو کہاں سے اپنا ہی ہمسر دکھائی دے

خود کو ہی اپنی ذات کا کعبہ بنا لیا
تُو کہہ اسے مسلم مجھے کافر دکھائی دے

جس نے زباں کی نوک پہ رکھی ہیں مشعلیں
اس کے ہر اِک قدم پہ جلا گھر دکھائی دے

مہنگا پڑے گا تم کو یہ چنگاریوں کا کھیل
جی کر دکھائی دے نہ جو مر کر دکھائی دے

وہ بن سنور کے ایسے محرم میں ہیں نکلے
ممّتاز ماتمی نہ برابر دکھائی دے

                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●
 
 

● (17) شوق/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے








(17) شوق

جسموں کے شوق سلامت ہیں ، روحوں کی تھکن کا حال نہ پوچھ
مصروف  زمانہ لے  بیٹھا ، اب  ان کے چلن کا  حال  نہ پوچھ

گر زور سلامت ہے دل کا، زخموں کی کمی کوئی بھی نہیں
آنکھوں سے اگر پردہ نہ ہٹا، تو محروموں کی چال نہ پوچھ

نت روپ  سجاۓ جاتے ہیں، نِت بھید چھپاۓ جاتے ہیں
اے باخبری تیرے بھی کئی ،ہیں اور بڑے جنجال نہ  پوچھ

جو  بزم  سجایا  کرتے  تھے، وہ  بھیڑ  کا  حصّہ ہو   بیٹھے
اب لوگوں کا کیا کہتے ہو ، ہیں لوگ بڑے بے تال نہ پوچھ

لاکھ ان کے  خزانے  بھر  جائیں ، ممّتاز  مرادیں  بر  آئیں
قلّاش ہیں سارے سوچوں کے، ہیں زہنوں کے کنگال نہ پوچھ

                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●
 
 

منگل، 30 اکتوبر، 2012

● (16) میرے پیارےشہر کراچی/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(16)  میرے پیارےشہر کراچی


میں دیکھ رہی ہوں
تیرا چہرہ لہو لہو ہے
خوشیوں کو تو ڈھونڈ رہا ہے
خوشیاں تیرے پاس نہیں ہیں
انہیں خدا کیوں غرق نہ کر دے
تیری خوشیاں جن کو راس نہیں ہیں
جن بالوں میں چاندی چھلک گئ
جن باہوں میں اب زور نہیں
ظالم تو روز گراتا ہے
ان گودوں میں اِک لاش نئی
جن قدموں میں اب اپنے بل پر
چلنے کا بھی زور نہیں
ظالم تُو انہیں دوڑاتا ہے
اِک ایسے چکنے فرش پہ جس پر
اُن کا ہی خون بہایا ہے
اے بے حس ٹہر کے سوچ تو لے
تیری ماں بھی کسی دروازے پر
تیرا رستہ دیکھ رہی ہو گی
کیا آج تُو اس دروازے تک
اپنے قدموں پر پہنچے گا
اُمید و نا اُمیدی سے
نم آنکھیں پونچھ رہی ہو گی
کوئ مجھ کو بھی تو بتلاؤ
اُس شہر میں ایسا کیا ہے ہوا
کہ خون آشام سونامی میں
میرا شہر کراچی ڈوب گیاااااااااااااااا


                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●
 

● (9) صلیبِ وقت/ اردو شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(9) صلیبِ وقت  
      


میرے وطن کی فضائیں ہیں سوگوار بہت
قرار ڈھونڈ کے لاؤ ہیں بیقرار بہت

وطن کی گود میں کھیلے جواں کیسے کیسے
بنا کے کوئی بہانہ لی جاں جیسے تیسے
حساب ہو گا یہ کیسے عیاں ایسے ویسے
صلیبِ وقت اُٹھاؤ ہیں انتظار بہت
قرار ڈھونڈ کے لاؤ ہیں بیقرار بہت
میرے وطن کی فضائیں ہیں سوگوار بہت

وہ کون ہیں جوستاروں کودھول میں جھونکیں
گلوں کو نوچ کے اُن کو ببول میں جھونکیں
جو شاہ رگ پہ بٹھائی ہیں سینکڑوں جونکیں
خلاصی ان سے کراؤ ہیں دل فگار بہت
قرار ڈھونڈ کے لاؤ ہیں بیقرار بہت
میرے وطن کی فضائیں ہیں سوگوار بہت

مجھے نہیں ہے ضرورت اِن حکمرانوں کی
جنہوں نے کی میری حالت بیابانوں سی
کوئی تو لے گا خبر آ کے اِن شیطانوں کی
حساب آج چکاؤ ہیں بے مُہار بہت
قرار ڈھونڈ کے لاؤ ہیں بیقرار بہت
میرے وطن کی فضائیں ہیں سوگوار بہت 
                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●
 

بابا تیری باہیں/ شاعری ۔ سراب دنیا



بابا تیری باہیں


   بابا تیری باہوں کے سہارے پہ چلے ہم 
 لہجہ تیرا ہوتا تھا  میرے واسطے سرگم  

جس دن سے سمجھنے لگا دنیا کے مسائل
  اس دن سے تیری قدر  بلندی پہ ہے ہر دم

  دنیا جو میرا دل کبھی ٹھوکر میں پٹختی
  تُو سر پہ میرے ہاتھ کو رکھتا بڑا مدھم  

 اور مجھکو اٹھا کر تُو کھڑا کرتا برابر  
کہتا کہ زمانہ بڑا بے رحم ہے جانم

  ابا کے لیۓ  بڑھ کے کوئ تجھ سا نہیں ہے
  پر کیا کروں دکھلا نہیں سکتا میں اپنا غم

  جب باپ اپنے ذخم دکھانے لگے تم کو
   بیٹا ک بھی ہو سکتا نہیں دنیا میں سرگرم  

کونے میں کہیں جا کے میرے واسطے رویا
  پر سامنے میرے کبھی ہوتا نہ تھا برھم

  ممتاز جو طوفان  زمانے کے  چھپا کر
  بیٹے کے لیۓ باپ ہے اک عزم مصمم 

........................
 
 

● (15) بستی/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(15) بستی


(15) بستی 

کہاں پر آ گئے ہیں یا خدایا
یہ میرے خوابوں کی بستی نہیں 
تھی

نظر آتی ہے ہر نکڑ پہ مجھ کو
محبّت اس قدر سستی نہیں تھی

نہیں تھی اسقدر بے اعتباری
یہ دنیا پیار پر ہنستی نہیں تھی

وہاں پر تو کبھی دھوکے کی ناگن
خلوصِ دل کو یوں ڈستی نہیں تھی

چلو پھر سے بلندی کے سفر پر
جہاں سوچوں میں یہ پستی نہیں تھی

شکنجے کو محبت نام دیکر
ہوس ممّتاز یوں کستی نہیں تھی

                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●
 

● (14) ایک جیب ایک پتھر/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(14) ایک جیب ایک پتھر




پنڈال کیا بھرا تھا
جہاں بولتا مقرّر
پہرا بہت کڑا تھا
پہنچے جہاں گزر کر
مزدور بھی تھے اس میں
سرکاری بھی تھے چاکر
کچھ خود کشی کا سوچے
ٹہرے نہ اپنے گھر پر
خالی تھے پیٹ سب کے
ویران تھی نظر ہر
دل میں وہ سوچتا تھا
خود سے الجھ الجھ کر
ہم سب کی حالتوں کا
کس نے لکھا مقدّر
ٹکڑے میں اس کے کر دوں
مل جاۓ اِک دفعہ گر
کچھ سوچ کر نہ جانے
ہر جیب میں تھا پتھر
لمبی سی کار آکر
رُکتی ہے اِک جگہ پر
کالر کو ٹھیک کرتا
نکلا ہے اِک منسٹر
چہرے سے لگ رہا تھا
کوئ پرانا شاطر
صورت پہ لالیاں تھیں
لوگوں کا خون پی کر
اتنے میں آکے بولا
مائیک پہ ایک لیڈر
رونی شکل بنا کر
بولا میرے برادر
آواز ایک گونجی
مائیک کے پاس آکر
میرے بھائی اور بہنوں
ہم سب کا غم برابر
میں بھی شریک ہی ہوں
تم سب کے غم برابر
وعدہ ہوں تم سے کرتا
تم ووٹ دو مجھے گر
تم کو کھڑا کروں گا
میں اپنے قد برابر
تڑپے ہوۓ کلیجے
بھونچکے تھے یہ سن کر
پنڈال میں کسی کو
یاد آئ بہن چادر
 بچے کسی نے دیکھے
بھوکے گئے تھے جو مر
ماں باپ دیکھے جس نے
مرے ایڑیاں رگڑ کر
مائیں بھی یاد آئیں
لائن میں آٹے جا کر
آٹا تو مل سکا نہ
لاش آ گئی تھی گھر پر
سرکار کے کرم سے
غم بٹ رہا تھا گھر گھر
سوچا بے غیرتوں کو
دوں داد کیسے جی بھر
ہر ایک سوچتا تھا
کروں پہل میں تو کیوں کر
اتنے میں کر کے جرات
پھینکا کسی نے کنکر
ایسے میں اور ہوتا
پھر کیا بھلا وہاں پر
جرات ملی تو دیکھا
ہر اک کے ہاتھ پتھر
بارش جو پتھروں کی
ہونے لگی برابر
کوئی بچا سکا نہ
چاکر نہ فوج آ کر
ہوتا رہے گا یہ ہی
آؤ گے نہ سمجھ کر
خود کو ہمارا نوکر
کرسی پہ سمجھو آکر
پیروں میں لیڈروں کو
مارا جو آج دیکر
ٹھنڈا ہوا کلیجہ
اترے ہیں سر کے چکر
ہوتا رہے گا یہ ہی
ہوتا رہے گا یہ گر
پوری ہی قوم کا گر
اِک ساتھ گھومے میٹر
تبدیلیاں ہیں آتیں
بدلے ہیں پھر مقدر
یہ سوچ لو کہ پھر اب
کوئی دے سکے نہ چکّر
          ●●●                        
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

 

دل کی باتیں ۔ ممتازملک۔ پیرس

 دل کی باتیں


اِنسان بھی کیا چیز ہے۔جن سے بچھڑ کر ایک پل کا جینا بھی تصور میں نہیں لا سکتا۔اُن کے بچھڑ جانے کے بعد بھی ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی مہینوں ہی نہیں سالوں جیتا بھی ہے ۔ہنستا بھی ہے ۔کھاتا بھی ہے پیتا بھی ہے۔ایک سے ایک پل کا لطف بھی اٹھاتا ہے ۔اور بھولے سے کبھی دردناک کوئ پل یاد آجاۓ تو اپنے آپ کو سمجھا بجھا کر اپنے دل کو دلاسا بھی دے لیتا ہے ۔اپنی بے حسی تک کےجواز بھی پیش کر دیتا ہے ۔
وہ دل جن پر کبھی پاؤں رکھ کر گزرا ہو ان کو اپنی ہی جانب سے اپنی ہی وضاحتوں سے گناہ گار بھی ٹہرا لیتا ہے اپنے قصور دوسروں کے سر پر تھوپ کر بری الذمّہ بھی ہو جاتا ہے۔اپنے پسینے کو دوسروں کے خون سے مہنگا بھی ثابت کر دیتا ہے۔اور دوسرے کی آنکھ سے ٹپکے ہوۓ لہو سے اپنے آنسوؤں کو قیمتی بھی قرار دلوا لیتا ہے۔ کیوں کہ یہ اس کی خوشی کی بات ہوتی ہے یہ اس کے دل کی بستی ہوتی ہے جہاں وہ خود اپنے دل کی سلطنت کا راجہ ہوتا ہےایک ایسی سلطنت جہاں کا ہر قانون اس کی جنبشِ ابرو کا محتاج ہوتا ہے۔
جہاں اس کے اشارے پر ہی قہقہے بکھرتے ہیں اور اسی کے اشارے پر ماتم بپا ہوتا
ہے۔اپنی آنکھ کا شہتیر بھی کوئ معنی نہیں رکھتا تو دوسرے کی آنکھ کا بال بھی تلوار نظر آتا ہے۔
خدایا کیا معاملے ہیں ؟یہ کیا رسمیں ہیں یہ ؟ کیسے دلوں کے قانون ہیں یہ؟
کون سچا ہے ؟ کون جھوٹا ہے؟ کون باوفا ہے ؟اور کون بےوفا؟
اک تیری ذات ہے جو یہ بھید جانتی ہے ۔
ورنہ تو کوئ اصول اور ضابظہ بھی انسان کی فطرت کو حقیقتا
 واضح نہیں کر سکتا ۔کیا خوب سچ ہی کہا ہے کسی نے
دل کی بستی عجیب بستی ہے
لوٹنے والے کو ترستی ہے
 تحریر ؛ ممّتاز ملک۔پیرس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

● (5) یارب یہ کیسے بیٹے ہیں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(5) یارب یہ کیسے بیٹے ہیں


عشق جنہیں ہے اینٹوں سے
عشق جنہیں ہے گارے سے
پونچھ پسینہ پوچھیں نہ یہ
بوڑھے باپ بیچارے سے
تو کتنی راتوں جاگا ہے
تیرے ہاتھ میں کتنے چھالے ہیں
تیرا دامن کتنا بھیگا ہے
تیرے دل میں کتنے نالے ہیں
میرے لاڈ میں کہاں کہاں بھٹکا
تُو کب کب بھوکا سویا ہے
میری خاطر کتنی راتوں کو
تُو چپکے چپکے رویا ہے
میرے بدن کی زرا حرارت پر
تو کہاں کہاں لیجاتا تھا
کہاں آدھی آدھی راتوں کو
طبیب کی دھکّےکھاتا تھا
کوئی دیکھنے مجھ کو نہ آتا
تو اس کے گلے پڑ جاتا تھا
پر آج وہ بوڑھا باپ یہاں
بیمار ہوا لاچار ہوا
وہ آج کما نہیں سکتا
تو بوجھ ہوا ہے بھار ہوا
جیتے جی خدمت کر نہ سکے
جھولی میں اناج تو بھر نہ سکے
مرنے پر ہیں پکوان بٹے
مرمر کا مزار بنایا ہے
میرے دیس کا بیٹا ایسا نہ
یہ کون سے دیس سے آیا ہے
یہ میری تہذیب نہیں تھی
یہ کون سے دیس سے لایا ہے
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

 
 

● (12) آؤ نہ کچھ خواب بُنیں / نظم۔میرے دل کا قلندر بولے


(12) آؤ نہ کچھ خواب بُنیں
aao na koch khab bonein




آؤ نہ کچھ خواب بُنیں
اچھی سی آواز سنیں
aao na koch khab bonein
achchi c awaz sonein
منزل کا رستہ بتلائے
اُس دھرتی پر پاؤں دھریں
manzil ka rasta batlay
os dharti pr paon dhrein
مرضی کا اِک راگ الاپیں  
اُس پر اپنے سر کو دُھنیں
merzi ka ik rag alapein
os pr apny sr ko dhonein
بادل کا ہم فرش بنائیں
بُوندوں کی سرگم کو سُنیں
badal ka hum farsh banaein
bondon ki sergum ko sonein
چاند سے تھوڑی ٹھنڈک لوں
سورج سے تھوڑی گرمی لیں
chand sy thori thandak loon
soraj sy thori germi lein
تاروں کا ملبوس بنا کر
پھولوں کی چپّل پہنیں
taron ka malbos bana kr
pholoon ki chappal pehnein
ہوا کے سنگ میں کِکلی ڈالیں
اور پرندے کھو کھو کھیلیں
hawa k sang mein kikli dalein
aur parindy kho kho kheilein
آؤ نہ کچھ خواب بُنیں
اچھی سی آواز سنیں
aao na koch khab bonein
achchi c awaz sonein

                   ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
   ●●●

 

● (8) سنو ایسا نہیں کرتے/ نظم ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(8) سنو ایسا نہیں کرتے



سنو ایسا نہیں کرتے
جنہیں اپنا کبھی کہہ دیں
انہیں دھوکہ نہیں دیتے
کبھی جس دل میں رہتے ہیں
اسے لُوٹا نہیں کرتے
کبھی جو گُل کھلاۓ ہوں
انہیں مسلا نہیں کرتے
کوئی جو دل تمہیں دے دے
اسے توڑا نہیں کرتے
جہاں رشتوں کو جوڑیں تو
زرا سی بات پر آکر
انہیں  چھوڑ انہیں کرتے
کوئی جب پوچھ بیٹھے تو
سوالوں پر کبھی دامن کو
یوں جھٹکا نہیں کرتے
سمندر میں کسی کشتی کو لا کر
اسی سے کود کر دوڑا نہیں کرتے
کبھی طوفان آجائے توخود سے ہی
محبّت کرنے والوں کو
جانتےاور بوجھتے
چھوڑا نہیں کرتے
نظر آئے سفر میں راہ مشکل
راستےموڑا نہیں کرتے
کبھی بھی بول کر یوں جھوٹ
اِترایا نہیں کرتے
کبھی بھی دے کے دھوکہ من ہی من
وہ مسکایا نہیں کرتے
سیاست بازیوں سے
لوگوں کو
لڑوایا نہیں کرتے
جو اپنے قیمتی الفاظ کو
قصیدہ گوئی کی صورت
کبھی بیچا نہیں کرتے
جسے اچھا کہا ہو پھر اسی کو
اپنے مطلب کے لیئے
محض تسکین کی خاطر
برا نہیں کہتے
جو سچّے لوگ ہوتے ہیں
ضمیر کا سودا نہیں کرتے
جو اچھے لوگ ہوتے ہیں
کبھی ایسا نہیں کرتے
●●●
کلام :ممتازملک
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●


 

● [40] خواب/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


 [40] خواب

KHOWAB


کیوں خواب سے یوں اپنے جگایا گیا ہوں میں
kiyun khab se youn apne jgaya gaya hoon main
کیوں کر زمیں پہ لا کے گرایا گیا ہوں میں
kiun kr zamin pe la k giraya gaya hoon main
مجھ کو تخیلات کی دنیا میں لے چلو
mujh ko takhaulat ki dunya mein le chalo
کڑوی حقیقتو نہیں آیا گیا ہوں میں
karvi haqiqato nahi aaya gaya hoon main
پُرپیچ راستوں کا مسافر نہیں تھا میں
purpaich rastoon ka musafir nahi tha main
کس طرح اِس دیار میں لایا گیا ہوں میں
ks tarha is dyar mein laya gaya hoon main
منظر میری نظر کا بڑا دلنواز تھا
mnzer meri nazer ka bara dl nawaz tha
جس کو تباہ کر کے ستایا گیا ہوں میں
js ko tabah kr k staya gaya hoon main
دلکش سُروں کا میں تو نغمہ تھا دوستو
dilkash suroon ka main to naghma tha dosto
اب موت کے بھی ساز پہ گایا گیا ہوں میں
ab maut k bhi saaz pe gaya gya hoon main
سبزے کا مخمل اوڑہ کےلیٹا تھا بے خبر
sabze ka makhmal orh k leta tha be khaber
بارود کی دھمک سے اُٹھایا گیا ہوں میں
barood ki dhamak se othaya gaya hoon main
شفاف پانیوں کی طرح بہہ رہا تھا میں
shaffaf panion ki tarah beh raha tha main
نفرت کا جس میں زہر ملایا گیا ہوں میں
nafrat ka js mein zehr milaya gaya hoon main
اُونچی بلند چوٹی کھڑا تھا وقار سے
ounchi boland choti khara tha waqar se
ریشہ دوانیوں سے جھکایا گیا ہوں میں
resha dawaniyon se jhukaya gaya hoon main
مجھ کو سمندروں کی وسعت عزیز تھی
mujh ko smandaroon ki wossat aziz thi
کوزے میں اب بزور سمایا گیا ہوں میں
koze mein ab bazor samaya gaya hoon main
ہنسنے کو میرے نہ تھا بہانہ کوئی لازم
hansne ko mere na tha  bahana koi lazim
ممّتاز شدّتوں سے رُلایا گیا ہوں میں
Mumtaz  shiddatoon se rulaya gaya hoon main
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●


● [39] بھولے بسرے لوگ/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[39] بھولے بسرے لوگ

BHOLE BISRE LOGOON SE MILTE HAIN JA KR



بھولے بسرے لوگوں سے ملتے ہیں جا
 کر
bhole bisre logoon se milte hain ja kr
کچھ سن کر کچھ اُن کو اپنی آج سنا کر
kuch sun kr kuch onko  apni aj suna kr
کہاں کہاں پر بھٹکے اِتنے سال جئے
kahan kahan pr bhatke itne saal jiye
گھاٹ گھاٹ کا پانی کتنی بار پئے
ghat ghat ka pani kitni baar piye
کتنی بار لبوں کو اپنے آپ سیئے
kitni baar laboon ko apne aap siye
ماضی کے کُنڈوں کو تھوڑا سا کھٹکا کر
mazi k kundoon ko thora sa khatka kr
بھولے بسرے لوگوں سے ملتے ہیں جا کر
bhule bisre logoon se milte hain ja kr

زخموں کے کچھ حصّے مل کر آج اُدھیڑیں
zakhmoon k kuch hisse mil kr aaj odherein
سالوں بعد پرانے جھگڑےآج نبیڑیں
saloon baad purane jhagre aaj niberein
اِک دوجے سے سارے جھگڑےکھول بِکھیڑیں
ik duje se sare jhagre khool bikherein
اپنے ذہن کو یہ ساری باتیں سمجھا کر
apne zehn ko ye sari batein samjha kr
بھولے بسرے لوگوں سے ملتے ہیں جاکر
bhoole bisre logoon se milte hain ja kr

بات کرو تو ہوتی ہے ہر مشکل آساں
baat kro to hoti hai hr mushkil aasan
حل ہو جاۓ مشکل تو نہیں کوئی پریشاں
hal ho jaye mushkil to nahi koi parishan
ختم پریشانی تو دل پر زہن نگہباں
khatm pareshani to dl pr zehn nigehban
ذہن و دل سے اب ممّتاز یہ بوجھ ہٹا کر
zehn o dil sey ab MUMTAZ yeh bojh hata ker
بھولے بسرے لوگوں سے ملتے ہیں جا کر
bhoole bisre logoon se milte hain ja kr
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام 
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/