ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 17 فروری، 2020

علی یاسر روٹھ گیا


علی یاسر روٹھ گیا 

علی یاسر نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ انسان تھا بلکہ بہت ہی مہذب ، منکسرالمزاج ، مہربان اور ملنسار انسان تھا ۔ اس سے میری ملاقاتیں زیادہ تو نہیں ہوئیں ۔  اسلام آباد اور راولپنڈی میں تین یا چار  ادبی پروگرامز  میں اس سے ملنا ہوا ۔ بہت ہی عزت دینے والا انسان تھا ۔ بہت اہم موضوعات پر ان کی تحریریں سامنے آ رہی تھیں  ۔ فیس بک پر انکی آخری پوسٹ 16 فروری 2020ء ان کی ذہنی کیفیات کو کھل کر بیان کر رہی ہے کہ 
ہے آج بھی مصروف گماں کچھ نہیں بدلا 
اے شہر غلط فہم یہاں کچھ نہیں بدلا
چہروں کے بدلنے کی روایت ہی نہیں ہے 
بینائی ہوئی روبہ زیاں کچھ نہیں بدلا
ایک بہت ہی پیارا اور مخلص انسان بہت جلد دنیا سے روٹھ گیا ۔ ایک اچھی دنیا کو چن لیا اس نے ۔ 
ایک دم سے بھریا میلہ چھوڑ کر یوں چلدینا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ علی یاسر جہاں رہو اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہو ۔ آمین
  ( ممتازملک.پیرس)

عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن




عقل عمر سے نہیں ،
                    تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربےسے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
 (چھوٹی چھوٹی باتیں )(ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن



عقل عمر سے نہیں
                  تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
        (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

مردوں کے پانچ عیب / کوٹیشن

 

      مردوں کے پانچ عیب 

1- اکثر اپنی کمائی چھپانا😲
2-اپنی بیوی کوکمتراوربیوقوف ثابتکرنا😩
3-اکثرلمبی لمبی چھوڑنا. 👣👅
4- اکثر بدزبانی  کو اپنا حق سمجھنا..🙊
5- اکثرمنافقت کرنا.میرا کچھ تیرا کچھ 🙉
6-اکثر شکی  ہوتے ہیں .🙈
7-اکثراحساس برتری کا شکار ہوتے ہیں 💂
8-اپنی بات کو حرف آخرسمجھتےہیں💪
9-اکثرشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں💃
10-اکثرانکا دل انکے دماغ پرحاوی رہتاہے.❤❤❤👣
او تیری ی ی ی😥 یہ تو پانچ سے بھی زیادہ ہو گئے.گویا مرد اس معاملے میں بھی خواتین سے جیت گئے.🙌
(چھوٹی چھوٹی باتیں)(ممتازملک پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com


سچ اور لات / کوٹیشن


   سچ اور لات

سچ اور لات کا چولی دامن کا ساتھ ہے
ادھر سچ بولا 😥
ادھر لات پڑی 😁😁😁😁💃
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
 




مرد کی زبان / کوٹیشن



   مرد کی زبان

مرد کی زبان وہ خار دار جھاڑی ہے جس میں پارسا سے پارسا عورت کا دوپٹہ لمحوں میں تار تار ہو جاتا ہے .
   (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

اللہ کی سنت / کوٹیشن




    
      اللہ کی سنت


اللہ پاک کی سنت ہے کہ اللہ انسان کو وہ نہیں دیتا جو اسے پسند ہوتا ہے بلکہ وہ دیتا ہے جو اس کے لیئے بہتر ہوتا ہے. اور ہر باضمیر لکھاری اسی سنت کو نبھانے کےکوشش کرتا ہے. اسے اپنی ڈگڈگی کا بندر مت سمجھیں .
    (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

الفاظ کے زخم / کوٹیشن



الفاظ کے زخم


الفاظ کے زخم معذرت کے مرہم سے ہی مندمل ہوتے ہیں
اور
 تلافی کی پٹی سے شفا پاتے پیں .
  (چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.blogsp
ot.com 





دل اور دھرتی

ہفتہ، 15 فروری، 2020

اردو پڑھو

اردو پڑھو

ہمارے وزیراعظم عمران خان کو اس بات کیلیئے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا کہ انہوں نےاپنی قوم کویہ یقین دلا دیا کہ بیٹا انگریزی بولنے سے بندہ پڑھا لکھا نہیں ہوجاتا 😂😂

اس لیئے اپنی قومی زبان اردو  بولنے اور پڑھنے کی عادت ڈالو کیونکہ عزت اور کامیابی اپنی زبان میں علم حاصل کرنے سے ملتی ہے نہ کہ دوسرے کی زبان کے رٹے لگانے سے ۔۔۔🤔

  (چھوٹی چھوٹی باتیں)                         (ممتازملک.پیرس)  


■● سلام ۔ سلام بھیجا ہے ۔ اے شہہ محترم



سلام بھیجا ہے
(کلام/ممتازملک.پیرس)

میں نے آقا سلام بھیجا ہے  
حال دل کا تمام بھیجا ہے

کس طرح اس کا شکر کر پاؤں
جس نے خیرالانام بھیجا ہے
  
رحمت العالمیں بنا جس نے
رحمتوں کا پیام  بھیجا   ہے

معاف کر کے خطاؤں کو میری 
چاہتوں کا انعام بھیجا ہے

پھر بلایا ہے اپنی محفل میں
پھر سے بخشش کا جام بھیجا ہے

ان کی امت میں کر دیا پیدا
دے کے اعلی مقام بھیجا ہے

رب اعلی کا دلنشین لہجہ
اپنا دلکش کلام بھیجا ہے

میرے آقا کا دین ہے ممتاز
اک مکمل نظام بھیجا ہے
●●●
۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



جمعہ، 14 فروری، 2020

قبض اور شکایتیں / چھوٹی چھوٹی باتیں


   قبض اور شکایتیں 
   
انسان کی قبض اور شکایتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں جب تک نکل نہ جائیں آرام نہیں آتا ۔۔۔۔😖😖😖
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 13 فروری، 2020

سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ/ کالم


  سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ
        (تحریر: ممتازملک.پیرس) 


ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کے لیئے گھروں کی  الاٹمنٹ  کا سلسلہ بہت پرانا ہے ۔تقریبا سبھی سرکاری محکمے اپنے ملازمین کو ان کے سکیل کے حساب سے رہائشی کوارٹرز الاٹ کرتے ہیں ۔ اکثر ایسے کواٹرز کا زمینی حساب لگایا جائے تو یہ  ایکڑوں کے حساب سے بنتی ہے ۔ یہ سب  سنگل گھر زمین پر دو یا تین ڈبہ ٹائب کمروں کی شکل میں بنے ہوتے ہیں ۔ ان کواٹرز کا غیر معیاری طرز تعمیر اور اس میں رہنے والے لوگوں کا غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہونا انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ صرف ارباب اختیار کی نااہلی یا پھر ان زمینوں پر قبضے کی جانب ہی ایک واضح اشارہ ہے ۔   اب جبکہ شہروں میں  آبادی کے سونامی سے  زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔  وہاں پر کھربوں روپے کی یہ زمین نہ صرف ملک بھر کے شہروں میں بلکہ وفاقی دارلحکومت  اسلام آباد میں بھی سرکاری کوارٹرز کے نام پر چند ہزار لوگوں کے تصرف  میں ہیں  ۔ آج جبکہ فلیٹ سسٹم کے تحت ان بے ڈھنگے اور بے طریقہ بنے ہوئے مکانات کی جگہ  تین چار کمروں کا ان سے بہتر اچھے نقشے کیساتھ بنا ہوا گھر انہیں سرکاری خزانے پربوجھ کم کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے تو پھر ہزاروں ایکڑز پر مشتمل ان زمینوں کو فارغ کیوں نہیں کروایا جاتا ؟  پچاس کوارٹرز جس زمین پر جھگیوں کی طرح پھیلا کر بنائے گئے ہیں جس میں  دو سے تین سو لوگ ایک برا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، بہت زیادہ زمین گھیر کر بیٹھے ہیں ،  اس کی جگہ  اگر اسی زمین کی آدھی جگہ پر شاندار سی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی جائے جس میں تمام جدید سہولیات بمعہ لفٹ کے دیدی جائیں اور بقایا زمین پر ایک خوبصورت سا پارک ، سکول ، کالج اور مسجد اسی عمارت کے لوگوں کے لیئے بنا دیا جائے تو یہ کس قدر صحت بخش منصوبہ ہو گا ۔  اس میں اس عمارت میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیئے مین گیٹ لگنے سے ان کی (خصوصا خواتین اور بچوں کی ) حفاظت بھی بہت بہتر ہو جائیگی ۔ حکومت پاکستان کو اپنے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کے لیئے ایک الگ سے وزارت کا اہتمام کرنا چاہیئے  تاکہ ان سے متعلق رہائش ، پنشن ، بیماری ، ان کے بچوں کی تعلیم ،شادیاں اور ایسے ہی تمام مسائل پر باقاعدہ تحقیقات آسان ہو سکیں اور ہر حقدار کو اس کا جائز حق درست انداز میں اور درست وقت پر مل سکے ۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ملازمین اپنے ان ذاتی مسائل سے بے فکر بھی ہو سکیں گے اور زیادہ سکون اور  ایمانداری کیساتھ اپنے تمام پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر پائیں گے ۔ ان میں ان تمام مسائل کے باعث پیدا ہونے والی لالچ کو روکنے میں مدد ملے گی اور کرپشن اور رشوت کی لت کو کم کیا جا سکے گا ۔  اور جو بعد بھی کرپشن میں ملوث  ہوئے  انہیں بلا چون و چرا پھانسی دیدی جانی چاہیئے ۔ 
 ملک کی ہزاروں ایکڑ زمین واگزار کروائی جا سکے گی ۔ صفائی کے معیار میں بہتری آئے گی ۔ خواتین اور بچوں کیخلاف جرائم میں بھی کسی حد تک کمی آئیگی ۔ 
 صحت کا معیار بھی بلند ہو گا ۔ اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گا ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 12 فروری، 2020

طویل سفر

قطعہ

طویل اتنا لگا ہمکو زندگی کا سفر 
وگرنہ لوگ جوانمرگ یاد کرتے رہے

ہمیں تو سانس بھی فرصت کی مل نہیں پائی
جبھی تو ہر گھڑی ہم سوورگ یاد کرتے رہے ۔۔۔
 
 ( کلام:ممتازملک.پیرس)

جمعہ، 7 فروری، 2020

مظلوم بننے کا خبط

مظلوم بننے کا خبط

ہمارے ہاں کی عورتوں کو مظلوم بننے کا بڑا خبط سوار ہوتا ہے ۔ کاش وہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا بھی حوصلہ کر لیں کہ ان کی کون کون سے حرکتیں ہیں جو ان کی سب سے بڑی تعداد کو جہنم کے گڑھے تک پہنچانے کا سبب بننے جا رہی ہیں ۔
    (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 5 فروری، 2020

قاتل عورتیں اور کشمیر/ کالم۔ خواتین


       قاتل عورتیں اور کشمیر
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)

دکان پر کھڑے ہو کر جو خواتین انڈین کپڑے ،  جوتے، جیولری ، مصالحے اور بہت کچھ خریدتے وقت، بھارتی فلمیں دیکھتے وقت ،  بھارتی مصنوعات پر اپنا پرس اور کریڈٹ کارڈ خالی کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل کشمیر اور ہندوستانی ہر مسلمان کے قتل میں برابر کی حصہ دار ہیں ۔ یہ وہی عورتیں ہیں جو ان معصوم شہیدوں کے قتل کے لیئے بارود خرید کر دیتی ہیں ، میزائل اور بم بنا کر دیتی ہیں ، بدکار بھاری فوجیوں کی کھیپ وہاں پہنچاتی ہیں  ، معصوم کشمیری عورتوں کا ریپ کرواتی ہیں ، ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے انکی ماوں بہنوں کو بے آبرو کرواتی ہیں ، انہیں یتیم و یسیر کرواتی ہیں ، ان کے گھروں کو آگ لگواتی ہیں ، ان کی آزادی کی ہر صبح کو بے نور کرتی ہیں، ہر روز  ان کی منزل کو ان سے دور کرتی ہیں ۔ یہ خود کو پاکستانی کہنے والی دردمند عورتیں جو چاہیں تو ایک ہی مہینے میں بھارت کو بنا ایک گالی دیئے بھی دھول چٹا سکتی ہیں اسے برباد کر سکتی ہیں  صرف اپنی خود پسندی اور بے حسی کو لگام ڈال کر ، اپنے پرس اور کریڈٹ  کارڈ سے بھارتی چیزوں کی ، فلموں کی، سٹج شوز کی ٹکٹوں کی خریداری کا بائیکاٹ کر کے ۔۔ صرف انکی مصنوعات کو رد کر کے۔
کیونکہ اج لڑائی بندوقوں سے نہیں جہتی جاتی ۔ بلکہ نوٹوں سے ھیتی جاتی ہے ۔ نوٹ ہی وہ ایندھن ہیں جو ہم بھارت کو دی دیکر کشمیریوں کے لہو کی دریا بہا رہے ہیں ۔ گھر بیٹھے یہ لڑائی لڑی بھی جا سکتی ہے اور جیتی بھی جا سکتی ہے ۔ کتنا آسان اور چھوٹا سا کام ہے ۔ لیکن کتنی پاکستانی اور آذاد کشمیر کی  عورتیں کشمیریوں  
کے قتل عام میں اپنا حصہ اپنی جیب سے ڈالنے سے باز آئینگی ؟
مجھے تو نہیں لگتا کہ میری اس تحریر سے ان میں سے کسی کو بھی غیرت آئے گی ۔ اور غیرت کوئی بازار سے ملنے والی چیز بھی نہیں ہے کہ میں ان قاتل عورتوں کو خرید کر تحفے میں بھیج سکوں۔۔ تو پھر مجھے اور مجھ جیسی بے چین روحوں کو  کیا کرنا چاہیئے ؟  
میں نے ان سب چیزوں کے بائیکاٹ کے لیئے ہر موقع پر لکھ کر، بول کر ،یہاں تک کہ خود عملی طور پر کر کے آواز اٹھائی ہے ۔۔میں سالہال سے کوئی بھارتی مصنوعات استعمال نہیں کرتی ۔ کوئی دکاندار مجھے بھارتی چیز آفر کرے تو میں اس سے بحث کرتی ہوں، احتجاج کرتی ہوں کہ بھائی اپنی چیزوں کو پروموٹ کرو لیکن وہ فرمائینگے باجی کیا کریں اسی کی ڈیمانڈ ہے ۔ جبکہ انکی کوئی چیز نہ ہماری مصنوعات سے اچھی ہوتی ہیں نہ ہی پائیدار ۔ اور ڈیمانڈ ہوگی کن کی جانب سے ہے ۔ انہیں سو کالڈ پڑھی لکھی خواتین کی جانب سے ۔  یہ ہی  یورپ ، امریکہ ، انگلینڈ،  اور پاکستان میں مقیم عام سے لیکر   بہت سے بڑے بڑے نام اور عہدوں والیاں  ۔۔۔ جب بھارتی دوروں پر جاتی رہی ہیں ان کی سب سے پہلے رال ٹپکتی ہے ہائے بنارسی ساڑھیاں ، ہائے اللہ شالز ، ہائے اللہ یہ ، ہائے اللہ وہ ۔۔۔
اور انکی آوازیں سنیں تو یہاں  کشمیریوں کو رونے والوں  میں بھی سب سے بلند ہونگی ۔ 
ہم منافق لوگ جہاں بھی پٹے ہیں اپنی منافقت کے ہاتھوں ہی پٹے ہیں  ۔  
اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں کشمیریوں کے قتل عام اور آبروریزی میں حصہ دار ہونے سے بچائے۔ ۔۔۔  آمین
                         ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 4 فروری، 2020

شادی سے فرار / کالم



            شادی سے فرار
        (تحریر:ممتازملک۔پیرس )

ہر زمانے میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل ، جن سے ہمیں بہرحال نبٹنا پڑتا ہے ۔ ایسے ہی آج بھی ہمیں بہت سے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ ان میں ایک مسئلہ وقت پر شادیوں کا بھی ہے ۔ درست وقت کونسا ہے؟ جب ایک نوجوان کو اپنا گھر بسا لینا چاہیئے تو ظاہر ہے اکثریت  کا جواب تقریبا یہی ہو گا کہ جب لڑکے اپنی تعلیم مکمل کر لیں اور برسر روزگار ہو جائیں ۔ بلکہ اب تو لڑکیوں کے لیئے بھی اسی اصول کو بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ اس اچھی سوچ اور آج کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ اچھے مواقع ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ خاص طور پر لڑکے وقت پر شادیوں کے لیئے رضامند نہیں ہوتے ؟ مائیں سالہا سال دنیا بھر کی لڑکیوں  کے گھروں میں جھانک جھانک کر انہیں مسترد کرتی ہیں یہ تو سنا ہی ہو گا لیکن لڑکے باآسانی شادی کے لیئے تیار کیوں نہیں ہو رہے ۔ انہیں ایسی کونسی مخلوق کی تلاش ہے جو انہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی فرصت بھی نہیں دیتی ۔ لنگور جیسی شکل کے لڑکے حور جیسی لڑکیوں میں نقص نکال نکال کر انہیں مسترد کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب کوئی یہ کہے کہ رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور اس کا وقت مقرر ہے تو یقینا یہ درست ہے لیکن یہ اسی طرح درست ہے جیسے موت کا وقت تو اللہ کے ہاں مقرر ہے تو پھر لوگ خودکشی کر کے کیوں مرتے ہیں؟  جبکہ اللہ نے ہی خودکشی حرام بھی قرار دے رکھی ہے ۔ تو اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات بھی آپ کی نیت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جنہیں گھر بسانا ہوتا ہے وہ دوچار لوگوں سے ملتے ہیں ، اور  ان میں سے کسی کو چن کر چند ماہ میں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں ۔ لیکن 
جو لڑکے چار چار، پانچ پانچ بار منگنیاں ،  نکاح  یا  شادیاں کر کے توڑ چکے ہوں ان کے بارے میں غور کیجیئے کہ ان کی مائیں بہنیں کس مزاج کی خواتین ہیں جو کسی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لانے کی نوبت نہیں آنے دے رہیں ؟ یا کہیں وہ لڑکا خود ہی شادی کے بندھن سے باغی تو نہیں ؟
کہیں وہ لڑکے ہم جنس پرست تو نہیں ؟ 
کیونکہ ایک نارمل لڑکا جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہو ،  برسر روزگار ہو ، مناسب کما رہا ہو ، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ جلد ہی وہ اپنا گھر بسا لے ۔ اپنی اولاد کو کھلائے، 
یہ ہی بات لڑکیوں میں بھی غور طلب ہے ۔ گو کہ اس کی شرح لڑکوں کے مقابل بہت کم ہے لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ کہ بدلتے زمانے کے عذابوں میں سے یہ بھی ایک عذاب ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے ۔  ان وجوہات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی ماہر سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیئے ۔ دین سے دوری اور مادر پدر آذاد طرز زندگی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ہی اپنے والدین سے اس حد تک قربت ہونی چاہیئے کہ وہ ان سے کھل کر اپنے مسائل پر بات اور جذبات کا اظہار کر سکیں ۔ اب یہ کرو اور یہ مت کرو کا زمانہ نہیں رہا ۔ شرم ، حیا ،جھجھک  اب تقریبا  قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے زندگی کی اہم باتوں پر والدین کو بھی  اپنی اولادوں کیساتھ سیدھے الفاظ میں اور کھل کر بات کرنی چاہیئے ۔ لڑکی کو اپنی ماں اور بہن کیساتھ  جبکہ لڑکے کو اپنے والد اور بھائی کیساتھ اپنے مسائل پر مشاورت کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور سچ پوچھیں تو بہن اور بھائی سے بھی زیادہ بھروسہ آپکو اپنے والدین پر ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ وہی آپکو ہمدردانہ مشورہ دے سکتے ہیں ۔ وقت پر شادیاں جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہیں وہیں  معاشرتی طور پر بھی آپ اپنی جوانی اور صحتمندی کے وقت میں ہی  اپنی اولاد کو اپنے سامنے جوان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے ہونے کے وقت کو دوستوں کے طرح پرلطف انداز میں جی سکتے ہیں ۔  اب اس عمر میں بچے گود میں لیکر گھومنے کا کیا فائدہ جب دیکھنے والے اسے آپ کا بچہ ماننے کے بجائے آپ کا نواسہ یا پوتا سمجھ رہے ہوں اور آپ کھسیانے انداز میں خود کو ان کے سامنے جوان ثابت کرنے کہ کوشش کر رہے ہوں ۔ آپ کے بچے آپ کے ہی بچے لگیں تو ہی اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 2 فروری، 2020

کردار کا فیصلہ/ کوٹیشن




   کردار کا فیصلہ
کوئی بھی رشتہ جب اپنے مفادات کی کسوٹی پر آپ کے کردار کو طے کرنے لگے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی حصے میں کینسر پھیل جائے اور اس کا علاج اس حصے کو کاٹ کر پھینکنے  کے سوا اور کچھ نہیں ۔ شروع میں درد تو ہو گا لیکن یہ سوچ کر قرار آ جائیگا کہ ناقی جسم کو تو بچا لیا گیا ہے ۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک.پیرس)




رشتے کو دیمک / کوٹیشن


       رشتے کو دیمک

جب آپ کے کردار کا فیصلہ آپ سے وابستہ مفادات سے کیا جانے لگے تو جان لینا کہ آپکے رشتے کو دیمک لگ چکی ہے ۔ 
          (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 (ممتازملک.پیرس)

منگل، 28 جنوری، 2020

● شاپنگ ایک عالمگیر مرض / کالم




        (شاپنگ ایک عالمگیر مرض)
           (تحریر: ممتازملک.پیرس)



  ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (141)(سورہ۔6۔ الاانعام )
فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
 بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسی طرح۔۔۔
اس قدر کنجوس مت بنو کہ ہاتھ اپنے گریبان سے باندھ لو اور اس قدر شاہ خرچ مت بنو کہ برباد ہو جاو ۔ جی ہاں یہ بھی اللہ پاک کی جانب سے نازل کی جانے والی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا لیکن ہاں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زبان سے اکثر ایک جملہ تواتر سے سنائی  دیتا رہیگا کہ " اللہ جانے ہمارے حالات کب بدلیں گے؟"
آج سے بہت زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ٹی وی کی ہماری زندگیوں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، ہم لوگوں کے گھروں سے مہینے میں ایک ادھ بار ہی بازار جایا جاتا تھا اور ضرورت کی وہ تمام اشیاء جو پورے مہینے نوٹ کر لی گئیں یا یاد کروائی گئیں  مخصوص  دکانوں سے خرید کر  اپنے گھر کی راہ لی جاتی ۔ اس سامان میں گھر کے راشن کے ساتھ کوئی کپڑا لتہ ضروری ہوتا یا کوئی سوئی سلائی کا سامان چاہیئے ہوتا تو وہ بھی آ جاتا۔ کیونکہ اس وقت تک گھر کی خواتین کو بلکہ حضرات کو بھی وہ کئی امراض لاحق نہیں ہوئے تھے  جو آج ہماری معاشرت کو لاحق ہو چکے ہیں ۔ ٹی وی کے آنے کے بعد تو اشتہارات کہ بھرمار اور اکسا اکسا کر، ترسا ترسا کر سامان بیچنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ الامان اور الحفیظ ۔ 
اس پر بھلا ہو انٹر نیٹ کا اور موبائل کی آمد کا، کہ مردوزن نے اسے اپنا ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ زندگی کا ہر رنگ اس کے سامنے پھیکا پڑ گیا ، ہر رشتہ اس کے آگے کمزور کر دیا گیا ۔ یقین نہ آئے تو کسی  کا بھی چلیئے اپنے کسی بچے سے ہی اس کے ہاتھ کا موبائل تو لیکر دکھا دیں ۔ وہ ایسا سیخ پا ہو گا کہ اپنے ماں باپ چھوڑنے کو تیار ہو جائیگا لیکن فون چھوڑنے کو تیار ہر گز نہیں ہو گا۔ 
 ہم موبائل یا انٹر نیٹ کے مخالف بھی ہر گز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بیجا اور بے مقصد استعمال کو نہ صرف صحت کے اصول سے غلط سمجھتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر اس کا منفی اثر  توڑنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس انٹر نیٹ پر ہماری جان کو لگی ہوئی فضول خرچی کے مرض کو اور زیادہ بے قابو کر دیا ہے ۔ اس پر کھلے نیٹ شاپنگ کے نام سے اب جو چیز فوٹو میں دکھ گئی بس اس کا خریدنا ایسا ہی ہے جیسے انگلیوں میں خارش ہو اور اسے کھجا لیا جائے۔ 
چیز گھر پہنچتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا  کچرا منگوا لیا ہے ؟ بھئی اس کی کیا ضرورت تھی؟ سیل کے نام پر پھر جو رکا ہوا فیشن سے آوٹ ہوا مال بیچا جاتا ہے اس کی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں خصوصا خواتین ایکدوسرے کا سر منہ توڑ کے ایکدوسرے کے گریبان پھاڑ کر ان پر ایسھ جھپٹتی ہیں جیسے دنیا میں یہ ہی جوڑا ، جوتا یا زیور انکی زندگی کی آخری خواہش اور  گارنٹی ہے یہ انہیں نہ ملا تو دنیا میں آنے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ یی انہیں کو دیدیں  ورنہ سمجھ لیں کہ ابھی ان کا دم نکلا کہ نکلا ۔۔۔
چاہے ان کے گھر مین کتنا ہی ضروری کام اس پیسے سے ہونا باقی ہو ، کسی بیمار عزیز کی دوا دارو ضروری ہو ، شوہر کوئی ضروری بل جمع کروانے کے لیئے دوستوں سے ادھا مانگ رہا ہو،  رشوت لے رہا ہو ، کوئی اور ناجائز زریعہ ڈھونڈ رہا ہو لیکن نہیں خاتون کو اپنا وہی تعیش پورا کرنا ہے تو کرنا ہے،  ضروریات جائیں بھاڑ میں ۔۔ کہیں مردوں کو ہر سال موبائل ، ٹی وی یا اور ایسی چیزوں کے جدید  ماڈلز لینے کا مرض لاحق ہو گیا یے ، کسی کو مہنگے برانڈ کے سگریٹ ،سگار ، یا کوئی اور لت لگ گئی ہے  تو وہ ساری کمائی اس پر اڑانا فخر سمجھتا ہے چاہے گھر میں  دال روٹی کے لالے پڑے ہوں ۔ ان تمام لوگوں کو مرض خریداری لاحق ہوتا ہے ۔شاپنگ کا نشہ جو انسان کو اکیلے نہیں اس کے پورے خاندان سمیت لے ڈوبتا ہے ۔ سوچیئے اور غور کیجیئے آپ نے اپنے گھر میں کتنا سامان خرید خرید کر ٹھونس رکھا ہے جو بعد میں ضائع ہو گیا ، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ، وہ آپ کے استعمال کے لیئے تھا ہی نہیں  ، اس کے خریدنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ، اس پیسے کو جمع کر کے کوئی بچت اکاونٹ کھولا جا سکتا تھا ۔ جس پر آپکو ماہانہ آمدنی ہو سکتی تھی یا اسے فکس کروا کے کل کو کوئی گھر خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی کاروبار کیا جا سکتا تھا ۔ بچوں کی تعلیم اور  شادیوں میں کام میں لایا جا سکتا تھا ۔ اپنے حالات کو نہ بدلنے میں آپ خود زمہ دار ہیں کیونکہ کمانا جتنا مشکل ہے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، لیکن یہ ہی مشکل کام ایک بار کرنے کی عادت پڑ جائے تو حالات بدل دیتی ہے ۔  ہر وقت حالات کا رونا  رونے کے بجائے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ڈالیئے ۔ اس سے انسان نہ تو کسی کا مقروض ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شاپنگ کا مرض ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے ،  فضول خرچ اللہ کی نظر میں بھی شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان کے بھائی کو سکون کیسے مل سکتا ہے ۔
                      ۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 27 جنوری، 2020

اک چپ سو سکھ / کوٹیشنز

     اک چپ سو سکھ 

تلخیاں بڑھنے پر بدزبانی سے بہتر ہے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ اس عرصے میں اپنا احتساب کیجیئے۔ یہ خاموشی دلوں کو نرم کرتی ہے اور ناشکری اور دل شکنی کے تمام میل دھو دیتی ہے ۔
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 24 جنوری، 2020

● بے تاج شہزادہ / کالم




             بے تاج شہزادہ 
      (تحریر:ممتازملک.پیرس)


ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اب تک یہ دنیا چل رہی ہے یا قائم ہے ۔ پھر ہمارے ذہن میں ہمیشہ  ہی اللہ والوں کا خیال آتا ہے یا ان لوگوں کا جو دنیا سے الگ کسی گوشے میں بیٹھے ہر چیز سے لاتعلق زندگی سجدوں میں گزار دیتے ہیں ۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہونگے شاید اتنے ہی جتنے انگلیوں پر گنے جا سکیں ۔ اور پھر جس زندگی سے اللہ کی مخلوق کا کوئی بھلا نہ ہو وہ چاہے سجدے میں گزار دی جائے یا کسی میکدے میں ، کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر فرق نہ پڑتا تو اللہ نے اپنے حقوق سے پہلے ہم پر اپنی مخلوق کا ، اپنے انسانوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی  کا حکم نہ دیا ہوتا ۔۔ دنیا ایک مقناطیسی کشش رکھنے والی جادونگری ہے اور اس میں آج تو کامیابی کا  ایک ہی منتر ہے اور وہ  ہے  پیسہ ۔ کتنا ؟ اسکی کوئی حد نہیں ہے ۔ 


لیکن قارون جیسے لوگوں کے انجام نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اگر ضرورت میں رہے تو وہ تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور اگر تعیش میں چلی جائے تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ ۔۔
پیسے کے عشق میں جہاں آج کی دنیا میں ہم اپنے رشتے بیچ رہے ہیں ، اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں ، اپنی محبتوں کو سولی چڑھا ریے ہیں اور خدا کو یہ کہہ کر چیلنج کر رہے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھی جائیگی ۔۔۔۔
وہیں اسی آج کی دنیا میں سب سے مقبول اور پسندیدہ برطانوی  شاہی خاندان  ، کہ جس میں شامل ہونے کے لیئے ہی نہیں ، صرف ان سے ملنے  اور دیکھنے کے لیئے بھی  لوگ مرے جاتے ہیں ، جہاں پر ایک تھی شہزادی ڈیانا ، جس نے عام سے گھر سے اٹھ کر شہزادی کا مرتبہ حاصل کیا ، اور پھر اس تاج کو ٹھکرا کر انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر یہ سبق دیا کہ لوگ تاج کے نہیں بلکہ تاج اچھے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ، اسی شہزادی ڈیانا کے بیٹے ہیری نے عام سی صورت والی ، طلاق یافتہ ، خود سے تین برس بڑی عورت میگھن مارکل سے شادی کر کے  محبت اور انسانیت کی ایک خوبصورت مثال پیش کی، تو محض تین سال میں ہی اس بیوی  میگھن کیساتھ مل کر دنیا کے لیئے ایک مثالی فیصلہ کر لیا کہ نہیں جینا محنت کشوں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے مال پر ، کہ وہ کمائیں اور ہم شاہی محلوں میں بیٹھ کر ان کے مال پر عیش کریں ۔۔ واللہ آج کی دنیا میں جب بھائی بھائی کے یتیم بچوں اور اسکی بیوہ کے سر پر سے گھر کی چھت چھین لیتا ہے اور اف نہیں کرتا ، بہنوں کے مال پر نگرانی کے بہانے ڈاکے ڈالتا ہے اور شرمسار نہیں ہوتا ، باپ کی چھت بیوہ ماں کے انگوٹھے  دھوکے سے لگوا کے باہر باہر ہی اسے بیچ کر بھاگ جاتا ہے اور اسے غیرت نہیں آتی کہ اس کی ماں سڑک پر کھڑی بھیک مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور ہو گئی ہے ،اسے شرم سے موت نہ آئی ، اسی آج کی دنیا میں شہزادہ ہیری اور اس کی بیوی میگھن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم پر محل میں رہنے کے دوران جو چوبیس لاکھ پاونڈز خرچ ہوئے ہیں وہ سب ہم قرض سمجھ کر تھوڑے تھوڑے کر کے خزانے کو واپس لوٹائیں گے کہ اب ہم اپنے ضمیر پر مذید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک ایک سکے کے لیئے محنت کرنے والی عوام کے مال پر عیش کریں، اس کے بجائے ہم ان کے جیسے ہی گھر میں رہیں گے ان جیسی ہی محنت کرینگے ، ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کریں گے اور اسی عام آدمی کیساتھ ، ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاریں گے ۔ 
بطور مسلمان یہ سبق ہمیں ہمارا  دین سکھاتا ہے لیکن افسوس اس کا عملی ثبوت ہر بار ہمیں کوئی غیر مسلم ہی کیوں پیش کرتا ہے ۔ ہیری اور میگھن نے آج کے انسانوں کو وہ پیغام دیا ہے جو ہمارے نبیوں اورولیوں نے ، جب سے دنیا بنی ہے ہمیشہ ہمیں دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے ہر ایک نہ ہیری بننے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ہی میگھن بننے کی خواہش  ۔ آج بھی ان کے اس اقدام پر ہزاروں لاکھوں جوان انہیں احمق بھی قرار دے رہے ہونگے اور بیوقوف بھی ۔ ان کی تعریف میں لفاظی کرنے والوں کو بھی ان کی تقلید کرنے کا کہیں گے تو کبھی اس پر آمادہ نہیں ہونگے کیونکہ ان کی بنیاد میں ہر رشتے اور احساس سے اوپر پیسے کا عشق ہی سوار ہے ۔ وہ اس سکون کو ، اس بلندی کو  کبھی محسوس نہیں کر سکتے جو ہیری اور میگھن نے پا لیا ہے  ۔ اب ان کے سروں کو تاج کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب وہ انسانیت کے تخت پر براجمان ہو چکے ہیں ۔ 
یہ وہی لوگ ہیں جن کے وجہ سے آج بھی انسانیت پر اعتبار اور اس کا بھرم قائم ہے ۔ یا شاید ان لوگوں میں سے     کہ جن کی وجہ سے اللہ پاک نے اس دنیا کو ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ ہاں وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سبب انسانیت پر اعتبار ابھی سلامت ہے ۔ 
ویلڈن ہیری اور میگھن ۔
 آپ دونوں کو میرا سلام ۔
 اور 
ایک عام آدمی کی دنیا میں
                            خوش آمدید 
                     ۔۔۔۔۔


جمعہ، 10 جنوری، 2020

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن/ کالم


حکومت پاکستان متوجہ ہو ۔۔۔

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن 
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)
 
دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے کے باجود مکمل قانونی، معاشی اور معاشرتی تحفظ اور عزت فراہم کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بھی انہیں اپنے ملک کے لیئے ذر مبادلہ  بھیجنے کی صورت میں عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پہلے تو ہر حکومت چیخ چیخ کر رو رو کر  تارکین وطن کو مجبور کرتی ہے کہ آو ہماری اپنی ایئر لائن میں سفر کرو تاکہ ہمیں ایئر لائن چلانے کے لیئے پیسہ مل سکیں ، 
اچھا جی کر لیا سفر ، نتیجہ پھٹے پرانے ناقص اورناقابل اعتبار جہازوں میں سفر بھی کر لیا۔ یہ سوچ کر کہ زندگی رہی تو پہنچ ہی جائیں گے ، آیت الکرسی اور درود پاک کا ورد کرتے کرتے سفر بھی مکمل کر ہی لیا ، اب ایئر پورٹ پر اپنی جھنڈ منڈوانے کو تیار ہو جائیں۔ جو بھی افسر جس موڈ میں بیٹھا ہو گا وہ آپکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریگا ۔ آپ کتنے سال کے بعد اپنے ملک کا سفر کر رہے ہیں ؟ آپ کو کیا کیا سامان یا الیکٹرانکس  ڈیوٹی فری میں لیجانے کی اجازت ہے؟ اس کی کوئی واضح ہدایات متروک ہیں ۔ 
اپنے ملک میں کاروبار کرو ۔۔۔ 
اچھا جی ساری جمع پونجی لا کر وطن کی محبت میں یہاں لگا دی ۔۔
۔ لیکن یہ کیا کاروبار تو بعد میں شروع ہو گا پہلے اس کے پرمٹ اور اجازت نامے جاری کرنے والے ایک ایک افسر سے لیکر منشی تک کو بھتہ اور رشوت بانٹیئے تب ہی آپ کی فائل کو پہیئے لگیں گے ۔ نہیں تو  یاد رکھیں بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا ۔  کسی طرح سے یہ معاملہ بھی نپٹ گیا تو کاروبار  شروع کرنے کیساتھ ہی آپ پر ایسے ایسے اور اتنے اتنے ٹیکسز کی بھرمار ہو جائیگی کہ آپکو لگے گا آپ اس ملک میں کاروبار کرنے نہیں آئے شاید کوئی جرم کرنے آئے تھے جس کی آپکو بھرپور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس سے بھی نکل گئے تو کاروبار  کے لیئے جن ملازمین اور سٹاف کی ضرورت ہو گی وہ کتنا ایماندار ، سچا اور مددگار ہے اس کی گارنٹی کون دیگا ؟  جس پر بھی رتی بھر بھروسہ کرینگے وہ آپ کی پیٹھ پر لات مارنے کے لیئے سوچنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریگا ۔  
اپنے ملک میں گھر خریدو ۔۔۔
چلو جی گھر بھی خرید لیا ۔۔۔ اب آپ مستقل تو پاکستان میں سارے خاندان کو لیکر منتقل نہیں ہو سکتے ۔ سو واپس بھی جانا ہے ، اب گھر کا کیا کریں ؟ گھر کرائے پر دیدیں تو معلوم ہو گا کہ گھر کے کرائے دار ہی گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ، کرایہ خون تھکوا تھکوا کر ہزار فساد کے بعد بھی وقت پر نہیں مل رہا ۔ اور خالی کروائیں تو گھر کو خوب تباہ کر کے جانا انکا پہلا  کام ہوگا۔ اب قانونی طور پر آپ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت اور توڑ پھوڑ کا کلیم کس پر اور کیسے کال کریں گے ؟ غلطی سے عدالت میں چلے گئے تو سالہا سال تک پیشیاں ہی بھگتتے رہیں ۔ 
اگر گھر کسی رشتے دار کی نگرانی میں دیدیا ہے  تو  آپکے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی  وہ اس گھر کا مالک بننے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیگا ۔  سارے رشتے ، اعتبار ، لحاظ ایک ہی قبر میں دفن کرنا اس کا پہلا کام ہو گا ۔ آپ کی جائیداد بھی گئی، مال بھی گیا ، اعتبار بھی گیا ،  اور تو اور وہ رشتہ  بھی گیا ۔ 
تارکین وطن کے لیئے پاکستان میں نہ تو کوئی قانونی تحفظ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیادی  حفاظت ۔ 
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت  ہے کہ تارکین  وطن کے لیئے خصوصی اور فوری عملدرامد کرنے والے  قوانین  بنائے جائیں ۔ ان کے لیئے الگ سے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے تارکین وطن کورٹس کا نام دیا جائے ۔ جس میں تارکین وطن کی اپنے ملک میں وراثت ،  کاروباری اشتراک ، جائیدادوں ، کرایہ داریوں کے مسائل  پر خصوصی اور فوری قانونی امداد فراہم کی جائے جس کا فیصلہ ہونے تک کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک کا ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ کا قیام ایک وقت میں ان کے لیئے ممکن نہیں ہوتا  ۔ اورجسے وہ پیروی کی ذمہ داری دیتے وہ کتنا مخلص ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ گھروں اور جائیدادوں  پر دی جانے والی فل اٹارنی  (مختار نامہ عام ) کو فی الفور یا تو ختم کیا جائے یا اس  پر مالکانہ اختیارات کو بلاک کیا جائے ۔ کیونکہ اکثر گھروں،  جائیدادوں  اور  کاروبار پر انہیں  عام مختار ناموں کی صورت ہی قبضے ہو رہے ہیں ۔ مجسٹریٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی اٹارنی پر اس کے مالک کی غیر موجودگی میں ملکیت کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ۔ تارکین وطن کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو محض ایک مختارنامہ عام کے سٹامپ پر  ایسے قبضہ گیروں اور حرام خوروں  پر (جو کہ اکثر انکے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ) شکنجہ کسا جانا چاہیئے ۔ جو ایک قانونی آسانی کو اپنے ہی رشتہ داروں کو لوٹنے کے لیئے عذاب بنا دیتے ہیں ۔
ان نکات پر  فوری غور کیا جانا چاہیئے ۔ کیونکہ انہیں مسائل کی وجہ سے تارکین وطن اب پاکستان میں کہیں بھی پیسہ لگانے سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔ انہیں قانونی  تحفظ فراہم کیجیئے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 7 جنوری، 2020

صدام ساگر /تبصرہ


کالم نویس صدام ساگر کا تبصرہ برائے  نعتیہ مجموعہ کلام
 اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)


3

پیر، 6 جنوری، 2020

سعید الرحمن ۔ منشاء قاضی ۔ شمیم۔خان ۔ ادریس تونسوی / رائے


آراء 

صوابی یونیورسٹی  کے پی کے،  کے ہونہار طالبعلم ، شعبہ اردو سے سعید الرحمن کی رائے  12 دسمبر 2020ء کے پروگرام کے بعد 


سینئیر صحافی اورمعروف تجزیہ کار جناب منشاء قاضی لاہور سے فرماتے ہیں ۔۔



پیرس سے معروف شاعرہ شمیم خان صاحبہ اور
لاہور سے ایڈیٹر ادریس تونسوی کی رائے ۔۔۔








ناصرنظیر/ رائے



سوشل ایکٹیوسٹ ناصر نظیر کی رائے 
2 جنوری 2020ء



واہ باکمال شخصیت کیلئے کمال کی تحریر 
ممتاز ملک صاحبہ اتنی پیاری شخصیت ھےجوایک باراسےسنےجس کسی کوانکی ملاقات کاشرف حاصل ھوجائے یقین مانواسی کےدل میں محل بناتی ھے پچھلے کئی سالوں سےمیڈم کوسوشل میڈیا پرفالوکررہاتھا پشاور میں سٹوڈنٹس کیلئے منعقدہ تقریب میں بذریعہ مسینجر دعوت نامہ بیجھا رات کوپنڈی سےپشاورآئی دورانِ تقریر سماعت سےمحروم صوبائی سکواش چمپئن قومی بیٹی جو کہ سامنے بیٹھی تھی کاذکرکرتےھوئے ہال میں موجود شرکاء کوابدیدہ کیا اس دن سےلیکرآج تک تمام دوست جب بھی ملتے ہیں یاکسی سےفون پربات ھوتی ھےتوسب سےپہلےمیڈم کاپوچھتےہیں اورساتھ میں یہ وعدہ بھی لینےکی کوشش کرتےہیں کہ اس نفیس ملنسار اوررہبرمیڈم کواگلے سال ھونیوالےتقریب میں ضرور بلانا
                   ......




جمعہ، 3 جنوری، 2020

● شفیق مراد۔ تبصرہ ۔ سراب دنیا




تبصرہ:     شفیق مراد۔ جرمنی

قلم کی امین

ادیب اور شاعر قلم کا امین ہوتا ہے جو اس بار امانت کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے اپنے مشاہدات و تجربات کو سپردِ قلم کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ پُلِ صراط سے گزرتا ہے ۔جب مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات ،احساس کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو وہ اشعار کا روپ دھارکر رنگ ونور کی شعاعیں بکھیرتے ہیں ۔ جو آنکھوں کو بینائی اور سوچ کو توانائی کے انمول خزانے عطاکرتی ہیں، تو گلستانِ حیات میں پھولوں کی نگہت اور کلیوں کی صباحت محسوس ہوتی ہے ۔
انقلاب کی سر زمین فرانس، خوشبوؤں اور محبتوں کے شہر فرانس میں مقیم ممتاز ملک کا قلم امانت کا حق ادا کرتے ہوئے، کبھی انقلاب کا جذبہ بیدار کرتا ہے تو کبھی وطن کی محبت کی مخملی چادر میں دیار غیر میں رہنے والے ہموطنوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کا قلم رشتوں کے اثبات ، وطن کی محبت، انسان دوستی اورامن و آشتی کا پیغام دیتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خون جگر سے گلستان حیات کی آبیاری کر کے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے اور علم و ادب کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ۔
ظلمتِ شب کو بہر طور تو ڈھلنا ہو گا 
اب  ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا 
وہ حکمت ودانائی کے موتیوں کو سیپ سے نکالنے کا ہنر جانتی ہے اور اسی میں اسکا پیغام پوشیدہ ہے ۔جو انسان کو اسکے اندر پوشیدہ خزانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کی نغمہ خواں دنیا کے باغ میں خوبصورتیاں اور مہکتے پھول دیکھنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ خارجی تاثرات اور داخلی کیفیات کو اشعار کی مالا میں پروتی ہے تو اس کے اشعار ملک اور رنگ ونسل کی حدود قیود سے آزاد نظر آتے ہیں ۔وہ انسان اور انسانیت کی بات کرتی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی خطہ ارضی سے ہو ۔ یہی چیز اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے ۔اس کی شاعری میں خوشی وانسباط کے شادیانے ہیں تو درد وغم کے تازیانے بھی ہیں ۔ اس کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں ،انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے جو اسے درد آشنا کرتی ہے تو وہ اسی درد کی دولت سے تریاق کشید کرتی ہے جو کبھی دوستانہ ہوتا ہے تو کبھی ناصحانہ اور کبھی ناقدانہ ،وہ کہتی ہیں 
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو 
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہئیے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور 
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہئیے 
انسانی مسائل کی نمائندہ شاعرہ کے ہاں غم کی آندھیوں میں امید کا روشن دیا ہے۔ جو کاروانِ حیات کے مسافروں کو نئے راستوں اور نئی منزلوں کی خبردیتا ہے ۔
ممتاز ملک، شاعری میں انسانی منفی رویوں کا برملا اظہار کرنا جانتی ہے ۔ایک سچے ،کھرے اورنڈر فنکار کی طرح جو بوجھ وہ قلم پر محسوس کرتی ہے۔ اسے صفحے پر اتار دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی کے حقائق کا گہرا احساس ملتا ہے وہ احساس کی دولت کو قوموں کی زندگی کا سبب قرار دیتی ہے اور اسے اجاگر کرنا نہ صرف اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔
دھڑکن کے بدلے سناٹے 
سوچ میں دقیانوسی جالے
یا
یہ الگ بات لہو میں تیرے دوڑے ہے جفا 
جا مری جان مری ساری وفائیں لے جا 

کسی بھی شاعر کی طرح ممتاز کا دل محبت کے جذبات سے خالی نہیں ۔ اسکی محبت خدائے عزو جل کی محبت سے شروع ہوتی ہے جو مدینے کی گلیوں کا طواف کرتے اور پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کی خاک کو چھوتے ہوئے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی محبت کی طرف رواں دواں ہے ۔
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی 
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
وہ حُسن و عمل کا سرورآگئے ہیں 
حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

ہجرت کا مضمون جس قدر درد ناک ہے انسانی تاریخ میں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہجرت کے نوحے بھی لکھے گئے اور ہجرت کو نئی منزلوں کی تلاش اور نئی دنیا کی دریافت کا نام بھی دیا گیا ہے ہے ۔ ممتاز ملک کو پیرس کی حسین وجمیل گلیاں ، فلک بوس عمارتیں ،حیات پرور نظارے اور سکون بخش سیر گاہیں اپنے وطن سے جدا نہ کر سکیں ۔وطن کی محبت اس کے انگ انگ میں سموئی ہوئی ہے اور اس کا دل وطن میں ہے اور وطن کے لئے دھڑکتا ہے جس کا ذکراس کی شاعری اور نثر پاروں میں جا بجا ملتا ہے ۔وہ یورپ کی پر تعیش زندگی کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے وطن کے گلی کوچے یاد آجاتے ہیں  تو بے اختیار سراپا التجا بن جاتی ہے اور یوں اظہار محبت کرتی ہے ۔
میرا تو دن رات ہے وظیفہ مرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو یہ ایک ہی تو سوال رکھنا 
جو تیری رحمت سے ہو نہ خالی ترے کرم سے قریب تر ہو 
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو ہمارے سر پہ وہ ڈھال رکھنا 

اس کی شاعری میں جہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے وہاں عالمی حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے وہ ظلم و بر بریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار تمام تر شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقصدیت سے بھر پور ہیں انسانوں کے غیر اخلاقی رویوں اور آداب معاشرت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس کا رویہ بعض اوقات سخت بھی ہو جاتا ہے ۔جو اس کے جذبوں کی صداقت پر دلالت کرتا ہے وہ ایسے رشتوں کو جومحبت ہمدردی اور دوستی کے جذبات سے عاری ہوں ، لاش کی مانند قرار دیتی ہیں ۔ یعنی چلتی پھرتی لاش۔
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو 
دوستی سرقلم ہے کیا کیجیئے
وہ رشتوں کے اثبات کی شاعرہ ہیں ۔اور انکا احترام کرنا جانتی ہیں ۔ایک طرف تو وہ بیٹی بن کر ماں کے لیے کہتی ہے
جنتوں کی کھلی فضا جیسی 
ماں مری مہرباں خدا جیسی 
تو دوسری جانب وہ ماں کے منصب پر فائز ہو کر اپنے بیٹے کو منظوم نصائح کرتی ہیں اس کی نظم ’’سنو بیٹے!میں تیری ماں ہوں ‘‘رشتوں کے تناظر میں ایک شاہکار ہے ۔
عام بول چال کے انداز میں الفاظ کو برتنے کا فن بخیر وخوبی جانتی ہے جذبوں کو اجاگر اور مثبت سوچ کو عام کرنا چاہتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ احساس کی دولت اور نیک جذبے انسانی زندگی اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا 
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے 
الغرض ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اشعار میں خیالات کی فراوانی، مشاہدات کی طغیانی ، کردار کی بلندی اور جذبوں کی طاقت پائی جاتی ہے ۔اس کے پانچویں مجموعۂ کلام ’’سراب دنیا‘‘ کی اشاعت پرمیری نیک تمنائیں اور میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
18مارچ 2019ء
                        ۔۔۔۔۔۔۔

● تبصرہ ۔ ایاز محمود ایاز ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


معروف شاعر اور آٹھ کتابوں کے مصنف جناب ایاز محمود ایاز  کا پیرس ، فرانس سے  تبصرہ 



دورِ صحابہ سے لے آج کے دور تک جہاں صحابہ کرام رض اور علما کرام نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا ،  وہیں اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کو ایمان کی تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول کے لیے نعت خوانی کو سب سے بہتر ذریعہ قرار دیا۔ 
 نعت گوئی کی ابتداء عربی زبان میں ہوئی ، سب سے پہلے قرآنِ کریم میں ہمیں حضورﷺ کی ہمہ جہت اور کامل شخصیت کا تعارف کرایا گیا۔ ربِّ کائنات نے پیارے نبیﷺ  کوجن جن الفاظ میں یاد فرمایا ہے ، ان پر غور کریں تو ہر لمحہ نعت و مدحت کے نئے باب کھلتے نظر آئیں گے، وما ارسلناک اِلّارحمۃً للعٰلمین، اِنک لعلیٰ خُلقٍ عظیم، خاتم النبیین ، بالمومنین رؤف رحیم ، داعیاً اِلی اللہ، صاحبِ مقامِ محمود ،سراجاً منیر، طٰہٰ، یٰس، شاہد، مبشر، مزمل، مصدق، معلمِ کتاب و حکمت، احمد، محمد اور حامد ، ۔۔۔۔۔خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے یہ تعارف پوری طرح نعت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ کلام ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔اپنے  نبی کریم ﷺ سے عشق ہے۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے حصے میں وہ سعادت آئی جو بڑے بڑے شعراء کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں نعت لکھی نہیں جاتی لکھوائی جاتی ہے جس پہ نبی کریمﷺ کی نظرِ خاص اور خصوصی کرم ہو وہ ہی نعت لکھ سکتا ہے۔ ممتاز ملک صاحبہ نے جہاں نبی کریم ﷺ سے اپنے عشق کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے  نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو بھی موضوع بنایا ممتاز ملک صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپکا یہ ہدیہ نعت آپ کی بخشش کا سبب ہو اور آپکی عقیدتوں کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح جاری رہے ۔ آمین                                                                 ایازمحمودایاز
                               پیرس ۔ فرانس

شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



پیرس میں مقیم معروف شاعرہ اور ایسوسی ایشن فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ 
محترمہ ممتازملک جو نامور شاعرہ  اور خوبصورت  لکھاری بھی ہیں، اور  بہت سی خوبیوں  کے ساتھ بہترین نعت خواں بھی ہیں ان کی کتاب  
"اے شہہ محترم ص "کے نام سے منظر عام پر آرہی ہے حضور صلی علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عقیدت مندانہ  نعتیں وہ  اپنی  بے حد خوبصورت آواز میں بھی  پیش  کر رہی  ہیں۔ 
پہلی بار کسی مجموعے میں حمدیہ کلام کو بھی اتنی ذیادہ اہمیت اور جگہ دی گئی ہے ۔ ورنہ ایک ادھ حمد باری تعالی کو  رسما ہی کسی بھی مجموعہ کلام میں پیش کیا جاتا ہے ۔ خصوصا نعتیہ مجموعوں میں حمدیہ کلام کی تعداد بھی ایک دو سے زیادہ کم ہی ہوتی ہے ۔ لیکن ممتاز ملک نے اس کمی کو محسوس بھی کیا ہے اور اسکی تلافی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ 
 اللہ کے فضل و کرم سے ان کا پیش کردہ  حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ بے حد خوبصورت ہے۔  دعائیں اور اہل بیت کے نام  ان کے کلام نے کتاب کو اور زیادہ منفرد بنا دیا ہے ۔  
دعاگو ہوں کہ ممتاز ملک کا یہ  مجموعہ کلام
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم " پڑھنے والوں کی بھرپور پذیرائی اور توجہ حاصل کر سکے ۔ آمین 
 بہت سی دعاوں کیساتھ
        شمیم خان 
       پیرس ، فرانس

● تبصرہ ۔ عاشق حسین رندھاوی ۔ اے شہہ محترم(صلی اللہ علیہ وسلم)



عاشق  حسین رندھاوی (سیالکوٹ) کا تبصرہ 

نعت گوئی اہلِ ایمان اور  مذہب اسلام سے وابستہ لوگوں کا ایک فکری اور دلی عقیدت نامہ اور اصناف سخن کا سب سے اعلیٰ اور پاکیزہ حصہ ہے ۔ مگر یہ جس قدر سعادت وخوش بختی بلکہ آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی دلیل ہے وہیں سب سے مشکل ،دشوار گزار اور بال سے زیادہ باریک راستہ ہے ۔ نعت کا موضوع جتنا اہم ،دل آویز اور شوق انگیز ہے اتنا ہی اس موضوع پر قلم اٹھانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ۔
خود شعر و ادب کی تخلیق کوئی کسبی چیز نہیں کہ جس کے مخصوص اوزان وبحور کو رٹ کر کچھ طبع آزمائی کرلی جائے ، بلکہ یہ ایک انعامِ الٰہی ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے بعض مخصوص بندوں ہی کو عطا کیا جاتا ہے۔ 
انہی چند لوگوں میں سے
  ایک ایسی شاعرہ کی نعت گوئی کے حوالے سے تجزیاتی گفتگو کا ارادہ ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں شاید بہت زیادہ معروف نہیں ہیں ۔ لیکن  اسے نعت کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور اس نے کچھ اس انداز سے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے دور کی بہت معروف اور پختہ شاعرہ بن کر سامنے آئیں گی ۔ ان کے اشعار سننے کے بعد میرا پہلا تاثر تھا کہ محترمہ نے اگر کچھ اور نہ بھی کہا ہوتا تو بھی یہ نعت انہیں ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی ۔ میں اپنی پیاری بہن محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری پر تجزیاتی گفتگو سے قبل ان کی لکھی نعت کےچند  اشعار پیش کرتا ہوں۔  
    دیارِ  نبی کا  ارادہ     کیا   ہے
   کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے

سجائیں گے صحنِ حرم آنسوؤں سے
 تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے

    وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
   انھیں سب بتائیں  اعادہ کیا ہے

ان اشعار میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے اپنا عقیدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور تخیل کا یہ عالم ہے کہ عام انسان بھی ان کے اشعار کو پڑھ کر مدینے کی گلیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل کو اور بھی پختہ اور بلند کرے  اور انکے
 نعتیہ مجموعہ کلام  
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم "کو بھرپور پذیرائی اور قبولیت عطا فرمائے ۔ 
آمین۔

معروف شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی  جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن روزگار کے سلسلے میں فرانس کے شہر پیرس میں مقم ہیں،  کے اس خوبصوت  تبصرے کے لیئے میں ان کی دلی ممنون ہوں ۔  اور انکی خوشحالی و درازیء عمر  کے لیئے دعا گو ہوں ۔ 
ممتازملک۔ پیرس 

● شاز ملک کا تبصرہ ۔ سراب دنیا

تبصرہ
شاز ملک
پیرس ۔فرانس

کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان 
پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سوچ کو پر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے 
اسکا قلم اسکی اعلی پرواز کا گواہ ہوتا ہے ۔۔  
محترمہ ممتاز ملک  صاحبہ کا قلم بھی انکی اعلی ذہنی سطح کا گواہ ہے
بحیثیت شاعرہ میں نے انکے احساسات و جذبات میں شدت کو محسوس کیا ہے 
اور وہ اشعار میں اپنا مدعا کہیں سادگی سے بیان کرتی نظر آتی ہیں اور کہیں 
تشبہات و استعارات سے مدد لیتے ہوۓ نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جزباتی کیفیات کو بیان کرتی ہیں 
میں نے انکے قلم کو حساسیت کے دائرے میں رہتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوۓ پایا ہے وہ اپنے گمان میں ماضی سے حال تک کا سفر  کرتے ہوۓ مستقبل کی  خوش گمانیوں پر بھرپور نکاہ رکھتی ہیں۔
ممتاز ملک  سچائی کے علم کو تھامے ہوۓ اپنا ادبی سفر طے کر رہی ہیں 
انکی سوچ کی اُڑان تخیلاتی نہیں بلکہ زمانے کے حقائق اور تلخی کو اجاگر کرتی ہے ۔۔ وہ سچائی کو بلا تامل لکھتی ہیں اور اس سوچ کو عوامی راۓ کے ساتھ منسلک کرنے میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ھے 
دل سے دُعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو سچائی کی روشنی سے منور رکھے 
اور وہ ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند اپپنے قلم کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہیں ۔۔آمین
شاز ملک فرانس

● ایاز محمود ایاز 7واں مجموعہ کلام ۔ مضمون

 

 

             ایاز محمود ایاز

 کے 7ویں مجموعہ کلام

 "مجھے تم ہار بیٹھو گے" 

 کی رونمائ پر مقالہ برائے 

(ممتازملک.پیرس) 

 

ایاز محمود ایاز محبتیں بانٹنے والا شاعر ہے ۔ اس کے کلام میں جگہ جگہ اس کے واردات قلبی کا اظہار ملتا ہے ۔

وہ محبتوں کا شاعر ہے ۔  محبتوں سے وابستہ اس کے صدمات، اس کی توقعات، اس کی تمنائیں سب آپ کو اس کے اشعار  میں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں ۔ ۔ ایاز محمود ایاز نے کم عمری ہی میں اپنے شعری سفر کو بڑی تیزی سے آگے بڑھایا ہے ۔ اتنی تیزی سے کہ ایک بار میں نے ہی اسے مذاقا  کہا کہ بیٹا جی سپیڈ ذرا کم کیجیئے ۔ نظر بھی لگ جایا کرتی ہے ۔ ماشاءاللہ آج ان کا یہ ساتواں مجموعہ کلام ہمیں دعوت سخن دے رہا ہے ۔ ایاز کے کلام میں سچائی بھی ہے اور پختگی بھی ۔

پیرس ہی کیا پورے فرانس میں پاکستانیوں کی ایک لاکھ دس ہزار کی آبادی میں ہم پندرہ سے بیس لکھاری اور شاعر ہیں ۔ جنہیں ایک پلیٹ فارم پر مل جل کر پروگرامز کرنے کا بہانہ فراہم کرنے کی جستجو کرنے والوں میں ایاز کا نام سرفہرست رہا ہے ۔

میں فرانس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کی صدر کے طور پر ایاز محمود ایاز کو دل کی گہرائیوں سے اس کے نئے مجموعہ کلام "مجھے تم ہار بیٹھو گے "پر مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہونگے کہ ہماری تنظیم 12 اپریل 2018 ء کو وجود میں آئی ۔ اور ہمیں بزم سخن کے پروگراموم میں ایاز کی دعوت پر شرکر کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے  ۔۔اور امید ہے کہ پیرس میں موجود تمام تنظیمات عملی طور پر ایک دوسرے کے پروگرامز میں نہ صرف شرکت کرتی رہینگی ۔ بلکہ ایکدوسرے کی تصنیفات اور کاوشوں کو بھی اپنی محبتوں سے نوازتے رہینگے ۔ اور اردو کی ترویج میں ہم سب کا یہ حصہ جو ہم شاعر اور لکھاری کتابیں لکھ کر چھپوا کر ڈالتے ہیں ۔ اس میں  ہمارے پاکستانی خواتین و حضرات کتاب خرید کر اپنا حصہ بھی ضرور ڈالیں گے ۔ یہ اس لیئے ضروری ہے ہماری اگلی نسل تک ہم اپنے زبان کے ورثے کو بحفاظت منتقل کر سکیں ۔ کیونکہ کتاب خریدی جائے گی تو ہی اگلی کتاب باآسانی چھپنے کے لیئے بھیجی جا سکتی ہے ۔

 

ایاز مجھے بالکل چھوٹے بھائیوں جیسا عزیز ہے ۔ ہم سب کی بہت عزت کرتا ہے ۔ ہمیں بھی اس پر مان ہے ۔ میں ہر قدم پر اس کی کامیابی کے لیئے دعا گو ہوں ۔ کہ اللہ پاک اسے آسمان ادب کی بھرپور بلندیاں چھونا نصیب فرمائے۔ آمین 

جمعرات، 2 جنوری، 2020

● (77) زمانہ ہو گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(77)   زمانہ ہو گیا 
   

زمانہ ہو گیا اس کو  ملے بھی
کھلا تھا زخم جو اسکو سلے بھی

کوئی رنجش نہ اسکی رکھ سکا دل
بظاہر تو کیئے اکثر گلے بھی
  
نہ کہہ پائے جو اپنا مدعا تھا 
اگرچہ لب یہ  کہنے کو  ہلے بھی

نہیں بھولے ہیں تیری بیوفائی
سبھی دیوانگی کے سلسلے بھی

ہمیشہ آنکھ اس کی نم رہی ہے 
تھے ضرب المثل جسکے حوصلے بھی
  
انہیں راہوں پہ ہے  اپنا بسیرا 
گزرتے ہیں جدھر سے قافلے بھی

لگن سچی ہو گر ممتاز تو پھر 
سمٹ جاتے ہیں اکثر فاصلے بھی

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
           ●●●                

● سراب دنیا ۔ ٹائیٹل کلام ۔ سراب دنیا


سراب دنیا 
(کلام/ممتازملک.پیرس) 



سراب دنیا 

یہ خواہشوں کا
ہے ایک گہرا کنواں کہ جسمیں
ہے لذتوں کا عذاب دنیا

ٹپک رہی ہے جو قطرہ قطرہ 
یہ آنسووں کی کتاب دنیا

سنائی نہ دے کسی کو ماتم
یہ قہقہوں کا نصاب دنیا 

ہے آنکھ والے کا صرف دھوکا 
اور ایک اندھے کا خواب دنیا 

کبھی یہ بیچے کبھی خریدے
بڑی ہے خانہ خراب دنیا

ہزار رنگوں میں جی کے آخر
سفید اوڑھا سراب دنیا

ہے بھول جانا ہی ریت اسکی
یہ دل جلوں کا عتاب دنیا

ذلیل ہوتے سب اسکی خاطر
نہیں ہے کار ثواب دنیا

کبھی مکمل نہ ہو سکا جو
یہ ایک ایسا ہے باب دنیا

انوکھا ممتاز بھید ہے یہ
سوال دنیا جواب دنیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●



●(61) درد کی شام/ شاعری ۔ سراب دنیا



(61) درد کی شام


درد کی شام گزرتی نہیں ہے کیا کیجئے 
سحر خوشی کی ٹہرتی نہیں ہے کیا کیجیئے

اب تو کوشش بھی تھک کے چور ہوئی
وقت کی زلف سنورتی نہیں ہے کیا کیجئے

کون سمجھائے کہ تحمل سے 
بات بنتی ہے بگڑتی نہیں ہے کیا کیجئے

جب نظر ہی میں دم نہیں باقی 
کوئی تصویر نکھرتی نہیں ہے کیا کیجئے 

ہم نے ممتاز بارہا چاہا 
دل سے ہی یاد اترتی نہیں ہے کیا کیجئے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

میرا چہرہ کتاب ۔ سراب دنیا



میرا چہرہ کتاب 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 


وہ جو زیر عتاب ہے لوگو
اس پہ لازم عذاب ہے 

میرے لہجے پہ اعتبار  کرو
میرا چہرہ کتاب ہے لوگو



جو ہے بیخواب خواب دو اسکو
یہ تو کارِثواب ہے لوگو



ایک جھوٹا ہے اک منافق ہے
بہتریں انتخاب ہے لوگو



ایک میں اور ایک تُو ہو مگر
کچھ ادھورا سا خواب ہے لوگو



پشت پہ میری ایسی کی تیسی
ویسے حاضر جناب ہے لوگو



جن سے سیکھا انہیں کو لوٹایا
کچھ پہ میرا حساب ہے لوگو



جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
دائمی احتساب ہے لوگو



جو ہے ممتاز حاسد اوّل
اس کا خانہ خراب ہے لوگو

۔۔۔۔۔


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/