ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 4 فروری، 2020

شادی سے فرار / کالم



            شادی سے فرار
        (تحریر:ممتازملک۔پیرس )

ہر زمانے میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل ، جن سے ہمیں بہرحال نبٹنا پڑتا ہے ۔ ایسے ہی آج بھی ہمیں بہت سے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ ان میں ایک مسئلہ وقت پر شادیوں کا بھی ہے ۔ درست وقت کونسا ہے؟ جب ایک نوجوان کو اپنا گھر بسا لینا چاہیئے تو ظاہر ہے اکثریت  کا جواب تقریبا یہی ہو گا کہ جب لڑکے اپنی تعلیم مکمل کر لیں اور برسر روزگار ہو جائیں ۔ بلکہ اب تو لڑکیوں کے لیئے بھی اسی اصول کو بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ اس اچھی سوچ اور آج کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ اچھے مواقع ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ خاص طور پر لڑکے وقت پر شادیوں کے لیئے رضامند نہیں ہوتے ؟ مائیں سالہا سال دنیا بھر کی لڑکیوں  کے گھروں میں جھانک جھانک کر انہیں مسترد کرتی ہیں یہ تو سنا ہی ہو گا لیکن لڑکے باآسانی شادی کے لیئے تیار کیوں نہیں ہو رہے ۔ انہیں ایسی کونسی مخلوق کی تلاش ہے جو انہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی فرصت بھی نہیں دیتی ۔ لنگور جیسی شکل کے لڑکے حور جیسی لڑکیوں میں نقص نکال نکال کر انہیں مسترد کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب کوئی یہ کہے کہ رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور اس کا وقت مقرر ہے تو یقینا یہ درست ہے لیکن یہ اسی طرح درست ہے جیسے موت کا وقت تو اللہ کے ہاں مقرر ہے تو پھر لوگ خودکشی کر کے کیوں مرتے ہیں؟  جبکہ اللہ نے ہی خودکشی حرام بھی قرار دے رکھی ہے ۔ تو اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات بھی آپ کی نیت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جنہیں گھر بسانا ہوتا ہے وہ دوچار لوگوں سے ملتے ہیں ، اور  ان میں سے کسی کو چن کر چند ماہ میں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں ۔ لیکن 
جو لڑکے چار چار، پانچ پانچ بار منگنیاں ،  نکاح  یا  شادیاں کر کے توڑ چکے ہوں ان کے بارے میں غور کیجیئے کہ ان کی مائیں بہنیں کس مزاج کی خواتین ہیں جو کسی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لانے کی نوبت نہیں آنے دے رہیں ؟ یا کہیں وہ لڑکا خود ہی شادی کے بندھن سے باغی تو نہیں ؟
کہیں وہ لڑکے ہم جنس پرست تو نہیں ؟ 
کیونکہ ایک نارمل لڑکا جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہو ،  برسر روزگار ہو ، مناسب کما رہا ہو ، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ جلد ہی وہ اپنا گھر بسا لے ۔ اپنی اولاد کو کھلائے، 
یہ ہی بات لڑکیوں میں بھی غور طلب ہے ۔ گو کہ اس کی شرح لڑکوں کے مقابل بہت کم ہے لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ کہ بدلتے زمانے کے عذابوں میں سے یہ بھی ایک عذاب ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے ۔  ان وجوہات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی ماہر سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیئے ۔ دین سے دوری اور مادر پدر آذاد طرز زندگی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ہی اپنے والدین سے اس حد تک قربت ہونی چاہیئے کہ وہ ان سے کھل کر اپنے مسائل پر بات اور جذبات کا اظہار کر سکیں ۔ اب یہ کرو اور یہ مت کرو کا زمانہ نہیں رہا ۔ شرم ، حیا ،جھجھک  اب تقریبا  قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے زندگی کی اہم باتوں پر والدین کو بھی  اپنی اولادوں کیساتھ سیدھے الفاظ میں اور کھل کر بات کرنی چاہیئے ۔ لڑکی کو اپنی ماں اور بہن کیساتھ  جبکہ لڑکے کو اپنے والد اور بھائی کیساتھ اپنے مسائل پر مشاورت کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور سچ پوچھیں تو بہن اور بھائی سے بھی زیادہ بھروسہ آپکو اپنے والدین پر ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ وہی آپکو ہمدردانہ مشورہ دے سکتے ہیں ۔ وقت پر شادیاں جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہیں وہیں  معاشرتی طور پر بھی آپ اپنی جوانی اور صحتمندی کے وقت میں ہی  اپنی اولاد کو اپنے سامنے جوان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے ہونے کے وقت کو دوستوں کے طرح پرلطف انداز میں جی سکتے ہیں ۔  اب اس عمر میں بچے گود میں لیکر گھومنے کا کیا فائدہ جب دیکھنے والے اسے آپ کا بچہ ماننے کے بجائے آپ کا نواسہ یا پوتا سمجھ رہے ہوں اور آپ کھسیانے انداز میں خود کو ان کے سامنے جوان ثابت کرنے کہ کوشش کر رہے ہوں ۔ آپ کے بچے آپ کے ہی بچے لگیں تو ہی اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/