ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 29 مارچ، 2016

مذہبی جنونیت ناقابل قبول / کالم


     مذہبی جنونیت ناقابل قبول 
       ( تحریر:ممتازملک. پیرس)




یہ سچی بات ہے کہ ہر انسان ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا . اس کا ایک ثبوت سابقہ گلوکار اور موجودہ نعت خواں جنید جمشید نے بارہا اپنے غیر محتاط انداز بیاں سے دیا ہے . کہ بات کرتے ہوئے انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کس ہستی کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟
  کیا انداز تخاطب برت رہے ہیں ؟
اور کس کے سامنے موجود ہیں ؟
لوگوں نے ہی انہیں ڈھیل دے دیکر مولوی صاحب بنا دیا جبکہ حد ادب کاکبھی مطالبہ ہی نہیں کیا گیا . تو انہیں بھی اپنی باتوں کو ڈرامہ بنانے کے لیئے آیات اور احادیث و واقعات کو آوازیں بنا بنا کر ایک عام آدمی کی کہانی بنانے کی بھونڈی کوششوں نے بے حد شرمناک حرکت تک گرا دیا  . اس واقعے کی روشی میں ان پر تاحیات منبر پر بیٹھنے اور درس دینے کی پابندی لگنی چاہیئے . اور ہم بھی جنید جمشید کی اس بھونڈی ڈرامہ بازی پر ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں .
لیکن اس کے مقابل کسی بھی شخص کو سر عام روک کر اس کی اہانت  کرنا اور اس پر حملہ کرنا کیا کسی قوم کے اعلی کردار کا آئینہ دار ہو سکتا ہے . کسی صورت نہیں کہ ہمارا دین ہمیں صبر تحمل اور بردباری کا درس  دیتا ہے . جبکہ یہ حرکتیں نیم ملا خطرہ ایمان کی نشاندہی کر رہی ہیں .  دنیا بھر میں ان  نیم ملاوں  کے شر پسند شاگردوں نے پاکسان کو بدنام کر رکھا ہے . ان پر گرفت کرنا  بے حد ضروری ہے.  ورنہ یہاں کسی کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہیگی  . ہم.اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایسا کرنے اور کرانے والوں اور انہیں اکسانے والوں کی مرمت کرنے کا بھرپور مطالبہ کرتے ہیں . یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہ  سب کرنے والے را کے ایجنٹس ہیں جو پاکسان میں بدامنی پھیلانے اور دنیا بھر میں ایک منتشر قوم کی شبیہہ پیش کرنے کے لیئے ایسے ٹٹووں کو خرید کر انہیں دین کی آڑ میں استعمال کر رہی ہے جب کہ ان کا دین کی د سے بھی کوئی واستہ نہیں ہے . اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب ہم مولوی صاحبان اور علماء کرام میں اصل.اور نقل کی پہچان کر سکیں . اس کا فی زمانہ سب سے بڑا مددگار ہر ایک مولوی صاحب اور عالم کی ڈی این اے رپورٹ بنوائی جائے . جو ان کی ذات اور نسل کی صحیح پہچان با سکتی ہے 
کہ یہ لوگ واقعی پاکستانی اور مسلمان ہیں یا نہیں ...
اور اگر نہیں  تو ان کو سر عام پھانسی دی جائے جنہوں نے ہمارے دین کا مذاق بنانے کی نا پاک جسارت کی . 
  ہر انسان آذاد پیدا کیا گیا ہے اور اللہ اسے ایک الگ دل اور دماغ دیکر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر  انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے . رب کائینات نے یہ حق کسی انسان کو نہیں دیا کہ وہ دوسرے انسان کی سوچ پر مسلط  ہونے کی کوشش کرے اگر ایسا ہوتا تو صدیوں کی تبلیغ کرنے کی کسی پیغمبر کو کوئی ضرورت نہ تھی . اللہ پاک انہیں خود سے مجبور کر دیتا کہ مخلوق اس کے تابع آ جائے . جب کہ ایسا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی کو اختیار نہیں دیا گیا . اور ہر انسان کو اپنی سوچ اور فکر میں آذاد رکھا گیا ہے . تو آج کیا ایسا نرالا ہو رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی ملک میں کہ کبھی ہم غیر مسلموں کو ذبردستی ڈنڈے کے زور پر مسلمان کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسلمانوں کو بھی ہماری مرضی کے خلاف بات کرنے پر کہیں کافر تو کہیں مرتد کہہ کر کبھی سر راہ انکی عزت اچھالنے اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرتے پھرتے ہیں . ہر انسان اپنی رائے رکھنے میں خواہ وہ.کسی بھی موضوع پر ہو مکمل آذاد ہے . ہم صرف اپنے اچھے اخلاق اور اپنے اچھے کردار سے اسے اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں .ڈنڈا  ہاتھ میں.لیکر اسے قتل تو کر سکتے ہیں مرعوب نہیں ......
                   ..  . . ... .....

جمعہ، 11 مارچ، 2016

اپنے بچوں کا بچپن بچائیں


اپنے بچوں کا بچپن بچائیں
کل تک ہم لوگ سنا کرتے تھے کہ لڑکیوں کی عزت بہت نازک ہے اس کی حفاظت کریں . لڑکیاں گھر  سے اکیلی نہ جائیں . دیر تک گھر سے باہر نہ رہیں . لڑکیاں یہ نہ کریں وہ نہ کریں . زیادہ دوست نہ بنائیں وغیرہ وغیرہ لیکن کیا آج آپ جانتے ہیں کہ لڑکیاں  ہی نہیں لڑکے بھی اتنے ہی زیادہ غیر محفوظ  ہوتے ہیں.  ان کی بھی عزت ہوتی ہے. ان کا بچپن بھی اتنا  ہی معصوم اور اہم ہوتا ہے جتنا کہ کسی بھی لڑکی کا . والدین نے اپنی آسانی یا مجبوری کی بنا پر کہیں بچوں کو گھروں میں ملازمین کے حوالے کر دیا . تو کہیں گھر میں آئے ٹیوٹر اور مولوی صاحب کے حوالے کر دیا  .  اور اس کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ بس ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا . بچہ اگر کسی کی شکایت کرتا ہے یا ایک جگہ جانے ،کسی سے ملنے یا کسی کے پاس بیٹھنے یا پڑھنے سے انکار کرتا ہے تو اسے بچوں کا روز کا بہانہ یا معمول سمجھ کر خود  کو اور اپنے بچے کی جان اور عزت کو خطرے میں مت ڈالیں . ایسی صورت میں بچے کو مارپیٹ کر زور زبردستی سے سکول ،ٹیوشن سینٹر یا کسی اور جگہ جانے پر مجبور مت کریں .  بلکہ اس کی بات پر کان دھریں  اور اس کی شکایت کی تحقیق کریں . اسے اکیلے کسی کے پاس مت چھوڑیں .  چاہے وہ آپ کا اپنا گھر ہی کیوں نہ ہو . یا جس کے پاس چھوڑ رہے ہیں وہ آپ کا سگا بھائی یا بہن کیوں نہ ہو . بچے کے بدکنے کو اپنے لیئے خطرے کی گھنٹی سمجھیں . اپنے گھریلو ملازمین اور ڈرائیوروں پر کبھی اندھا اعتبار مت کریں . بلکہ بچوں کو سکول لیجانے یا لانے کی ذمہ داری خاتون خانہ کو خود ادا کرنی چاہیئے یا بصورت دیگر باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول میں نہ صرف لائے لیجائے بلکہ انہیں سکول کے اندر جانے تک وہاں رکے . ان کی سکول رپورٹس میں ہونے والی ان کی اچھی بری کارکردگی پر نظر رکھیں اور اساتذہ کو بھی چاہیئے کہ بچوں کے رویئے اور پڑھائی کے معمول میں آنے والی ہر تبدیلی سے نہ صرف خود باخبر رہے بلکہ ان کے والدین کو بھی باقاعدہ اس سے خبردار کرتے رہیں .اور ہر مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور  ان کی ملاقات بچوں کے والدین سے ہوتی رہیں چاہیئے. یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے .انہیں ایسے شیطانوں سے بچانے کے لیئے آپ کی تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی باخبری آپ کو آنے والے کسی بھی  طوفان سے بچا سکتی ہے .خاص طور پر  کمرے کا دروازہ بند کروانے والے استاد کی خبر لیں . بچے کی پڑھائی کے دوران اس کے کمرے میں وقتا فوقتا جھانکتے رہیں اور اس کمرے کے ہی ایک کونے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں . اکثر گھروں میں بچوں کے دوست آ جائیں تو والدین انہیں ان کے بیڈ روم میں بھیج دیتے ہیں جہاں ایک بیماری ٹی وی کی صورت بھی موجود ہوتی ہے . بچوں کو کبھی کسے بڑے کی موجودگی کے بغیر اکھٹے ہونے کا موقع مت دیں . بچے کی عمر سے زیادہ عمر کے دوست بنانے کی اجازت مت دیں .  اس کے دوستوں کی آمد پر انہیں بیڈ رومز میں جانے کی یا ہاتھ میں یا بیگز لے کر جانے کی کبھی اجازت مت دیں . بچوں کو کسی ذمہ دار بڑے کی موجودگی کے بغیر کبھی بھی ٹی وی دیکھنے کے لیئے اکھٹے ہونے کی اجازت مت دیں . ٹی وی کو بیڈ رومز میں کبھی مت رکھیں . ایسی خواتین پر بھی خصوصی نظر رکھیں جن سے آپ کا بچہ گھبراتا یا کتراتا ہے . یاد رکھیں بچپن میں ملے ہوئے صدمات یا دکھ ساری عمر بھلائے نہیں جا سکتے . اس لیئے ان کے معصوم بچپن کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ دای ہے . اور آپ اس بات کے لیئے خدا کو جواب دہ ہیں . اپنے کنبے اور گھر کا سائز اتنا ہی رکھیں جس میں آپ فردا فردا سب کا خیال رکھ سکیں . اس کی ہر خوشی اور پریشانی کے احساس سے باخبر رہ سکیں . اور اس کی ضروریات کو پورا کر سکیں .ورنہ کئی بار بچے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی لالچ میں اپنی معصومیت اور اپنا بچپن قربان کر بیٹھتے ہیں . اور کئی بار گھر جانے کس لالچ میں اتنے بڑے بنا لیئے جاتے ہیں کہ خود بھی ہر روز اپنے ہی گھر کا بھی پورا چکر نہیں لگایا جا سکتا . کیا فائدہ ایسے گھر کا کہ اس میں رہنے والے چار افراد بھی روز ایک دوسرے کا احوال نہ جان سکیں . اور تحفظ اور آسائش دینے کے فوبیا میں انجانے میں  ہمارے بچے ہمارے ہی ہاتھوں اپنا بچپن اپنی معصومیت کہیں کھو بیٹھے.....

اتوار، 28 فروری، 2016

سنت رسول یا زن مریدی





سنّتِ رسول ﷺ
 یا زن مریدی
ممتازملک ۔ پیرس






مولانا فضل الرحمن جا کر اپنا دین پھر 
سے پڑھ کر آئیں کہ جسے لیکر آنے والے نبی پاک صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو  بہترین شوہر بن کر دکھایا اور اپنی ساری زندگی میں کسی ایک بیوی پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا  اور ان بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ سے پھٹے ہوئے کپڑے سیئے  . بکریوں کا دودھ دوہتے تھے .  گھر میں جھاڑو لگاتے تھے . اور یہاں تک فرمائے تھے کہ " تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں سب سے اچھا ہے "
کہیں فرمایا "بیوی کے منہ میں محبت سے رکھا ہوا نوالہ بھی تمہارے لیئے صدقہ جاریہ ہے"
آج کے ہندووں سے متاثر مولانا ہمیں بتاتے ہیں کہ عورت گھر کے مردوں سے پہلے کھانا کھائے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے پوچھے بنا چھینک  مارے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے اپنے لیئے خرچ مانگے تو جہنمی ہے اور جانے سانس بھی مرد سے پوچھے بنا لے تو کافر ہے . مولانا صاحب کسی بھی عورت کو  آپ کے راج میں  اپنی مرضی کا کوئی اختیار ہی حاصل نہیں ہے تو جایئے جا کر اسلام کا مطالعہ کیجیئے اور اپنا تجدید دین کیجیئے کہیں جہنم کی بکنگ آپ ہی کے نام پر نہ ہو چکی ہو . ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو جتنے حقوق ہمیں دیئے ہیں آپ جیسا بخیل  آدمی اس کا ہزارواں حصہ بھی ہمیمں دینے پر تیار نہیں ہے تو اسے یہ مذہب ہی چھوڑ دینا چاہیئے اور اپنی پسند کا وہ مذہب چن لیجیئے جو آپ کے اندر چھپے ہوئے بھیڑیے کو سکون فراہم کرے . کیونکہ نہ تو آپ جیسے بیمار سوچ والوں کو بدکار اور زانی مردوں کی سزائے موت کے لیئے آواز اٹھانے کی توفیق ہوئی ہے کبھی، نہ آپ اور آپ جیسوں کو بچوں کو ذبح کرنے والوں اور انکے   معصوم جسموں اور عزتوں  کو تار تار کرنے والے جانوروں کے خلاف کوئی جلسہ جلوس کرنے کی کبھی توفیق ہوئی ہے . کیا کبھی چولہے پھٹنے  سے قتل کی جانے والی کسی عورت کے قاتل کی سزائے موت مانگنے کی توفیق ہوئی ہے ؟ 
کیا کبھی تیزاب سے جھلسی عورت کے مجرم کو پھانسی لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے آپ نے ؟ کیا کبھی کاری کاری کھیلنے والے، عورتوں کو قتل کرنے والے بہانہ باز قاتل مردوں کو آپ نے سزائیں دلوائی ہیں .
نہیں کبھی نہیں . 
کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہوتے یہ سب کچھ ہو سکتا تھا ؟ 
نہیں 
تو یہ ہی فرق ہے نبی سے محبت کرنے والوں میں اور محبت کا ڈرامہ کرنے والوں میں . 
آپ جیسا آدمی اپنی کرسی کے لیئے اور اپنے حلوے  کے لیئے اپنا دین بیچ دے تو کیا حیرت ہے  کہ ہماری ستر سال کی تاریخ میں آپ نے  اس کے سوا اور کیا بھی کیا ہے. 
آج کچھ غیرت مند اور باضمیر لوگوں کی وجہ سے عورتوں  اور بچوں کو کوئی تحفظ ملنے کی کوئی امید ایک نئے قانون کے تحت ہو رہی ہے تو آپ کے پیٹ میں خوب مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں . 
لیکن آپ پر توہین رسالت کا قانون لاگو ہونا چاہیئے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیویوں سے جو رویہ رکھا آپ نے اسے نعوذ بااللہ، نعوذبااللہ، نعوذ بااللہ زن مریدی کانام دے دیا . لعنت ہے ایسا سوچنے والوں پر کہ جنہیں سنت رسول  کو ایسا نام دیتے ہوئے رتّی  بھرشرم نہ آئی . ایک بات یاد رکھیں اور آئندہ اس لفظ زن مرید  کو اپنی ڈکشنری سے پھاڑ کر پھینک دیں . کہ بیوی سے حسن سلوک شوہر پر بیوی کا اللہ کی جانب سے ملا ہوا حق ہے اور ہر مرد کا فرض ہے کہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے کہ وہ اپنے نبی کی سنت پوری کرتا ہے . اور سنت میں بیاہ کرنا تو قبول ہے تو ایک قدم اور آگے آیئے اور اسی بیاہی ہوئی بیوی سے انسانوں والا سلوک کر کے اس کے دل میں اپنی عزت پیدا کریں بجائے اس کے کہ اس کے ذہن میں آپ کے ہونے سے خوف اور بے عزتی کا احساس پیدا ہو . اللہ پاک ہمیں مکمل ایمان عطا فرمائے.آمین 

                                       ..................

جمعرات، 25 فروری، 2016

بول مگر سوچ کر


بول مگر سوچ کر
ممتازملک ۔ پیرس


کچھ باتیں کچھ کام اگر مناسب وقت پر ہی منہ سے نکالے جائیں تو ہی بہتر ہوتے ہیں . لیکن ہمارا عمومی رویہ یہ ہی ہے کہ کام کرنے یا ہونے سے پہلے ہی اس کا اتنا ڈھنڈھورا پیٹ لیا جاتا ہے کہ وہ ہونے والا کام بھی اکثر نہیں ہو پاتا . اور ہمیں نا حق شرمندہ ہونا پڑتا ہے . حالانکہ ہم جھوٹ نہیں بول رہے تھے. لیکن جھوٹے کہلائے جاتے ہیں . اس لیئے تھوڑی سی احتیاط اور  اپنے دانتوں کے نیچے تھوڑی دیر کے لیئے اپنی زبان دبا لی جائے تو سوچیں ہم کتنی مشکلوں  سے بچ سکتے ہیں. زبان کا سوچ سمجھ کر استعمال ویسے بھی سمجھداری اور بردباری  کی نشانی ہے . خوشی ہو یا پریشانی جو لوگ اپنی زبان ہی نہیں سنبھال سکتے وہ کسی کے ساتھ اپنے معاملات کو کیسے سنبھال سکتے ہیں . انسان کی حکمت اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے . انسان کا جیسے ہی منہ کھلتا ہے اس کا خاندان بھی سب کے سامنے کھل جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی زبان کھلتی ہے اس شخص کی قابلیت، علم،اوقات،کردار سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے . جیسے ایک انجن پر گاڑی کی حالت کا انحصار ہوتا ہے. اسی طرح گویا انسان کے پورے احوال ظاہری اور پوشیدہ کا بھید اور کنٹرول  اس کی زبان میں ہے.
ایک بار ایک شخص بہت قیمتی لباس اور تیاری کے ساتھ کر وفر سے سقراط کے سامنے آ بیٹھا اور کچھ دیر اسے اپنے رعب میں لانے کے لیئے ادائیں دکھاتا رہا تو سقراط نے اسے دیکھ کر تاریخی جملہ کہا کہ
" جناب اب کچھ بولیئے تاکہ میں آپ کی قابلیت  کا اندازہ لگا سکوں."
یہ بات اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لباس اور طمطراق انسان کی اصلیت کے آئینہ دار کبھی نہیں ہو  سکتے.  بلکہ اس کی شناخت اس کی زبان اور اس کی گفتگو سے ہی ہوتی ہے . اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جیسے ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے آداب گفتگو پر اثراندازہوتے ہیں . اس لیئے جب گھر میں کسی کی گفتگو کا انداز بدلنے لگے تو اس کی صحبت پر ضرور نظر ڈالیں کہ وہ شخص کن لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے، کیسے پروگرامز دیکھ رہا ہے ، کن مصروفیات میں وقت گزار رہا ہے اور کیسا مواد پڑھ رہا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں مل کر ہی ایک انسان کی گفتگو اور کردار کی تعمیر کرتی ہیں . 
کاموں کے مکمل ہونے کا انتظار کیجیئے ۔ ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ
                        '' چن چڑھے کُل عالم ویکھے ''
 یعنی جب چاند نکلتا ہے تو ساری دنیا دیکھتی ہے ۔
جو عزت اور اعتماد آپ کو کام کو مکمل کسی کے سامنے پیش کرنے میں محسوس ہو گا وہ ادھورے کام یا ہونے والے کام کے بارے میں بات کر کے کبھی محسوس نہیں ہوگا۔
 لیکن اس کے برعکس کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی رائے یا رد عمل ظاہر کرنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ تب تک اس بات اور عمل کی افادیت ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور منیر نیازی جیسا صوفی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں 
ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں 
 لہذا بات ضرور کیجیئے اور موقع پر کیجیئے - بے موقع بات کہنا بھی بے وقت کی نمازوں جیسا ہی ہے ۔ کہ وہ ادا تو ہو جاتی ہیں لیکن وقت پر پڑھی ہوئی نماز جیسا مقام کبھی حاصل نہیں کر پاتیں ۔ 
یا پھر  بقول شیخ سعدی کے
" انسان کو بولنا سیکھنے میں تو ایک سال لگتا ہے لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا ہے یہ سیکھنے میں ساری عمر گزر جاتی ہے ". 
اور انسان کو یہ سیکھنے میں بھی زمانہ لگ جاتا کہ کہ کہاں کہاں خاموش رہنا ہے . 
کیونکہ خاموشی بھی کئی بھید کھل کر حالات کو آپ کے سامنے لانے کا موقع فراہم کرتی ہے.کئی جھگڑوں سے بچاتی ہے . خاص طور پر نئی جگہ پر،نئے لوگوں میں، نئے حالات میں سب سے بہتر مشورہ کسی کے لیئے بھی یہ ہی ہو سکتا ہے کہ بولیں کم اور سنیں زیادہ . کہ چند روز کی یہ خاموشی یا کم گوئی آپ کو آنے والے حالات کو سمجھنے کے بہترین ہنر عطا کریگی. آزمائش شرط ہے.

                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر . ایک شعر




یادش بخیر ایک شعر
ممتازملک. پیرس




آج ایک وال پرایک شعر کسی نے پوسٹ کیا  .
ویسے تو پوسٹ کرنے والے نے شعر کی حسب توفیق ہڈیاں ٹانگیں خوب توڑی تھیں لیکن اصل شعر بھی دھم سے ہمارے ذہن میں آن پہنچا
" اے رفیق زندگی اے مسافر الوداع
زندگی میں پھر ملیں گے جب کبھی موقع ملا"
یہ پچھلی صدی کی بات ہے .
ہمارے سکول کی اس روز گرمی کی چھٹیاں ہونے جا رہی تھیں .ہمارے ہائی سکول میں نویں جماعت کے دن تھے . اس روز سکول کا گرمی کی چھٹیوں سے پہلے کا آخری دن تھا  . 
ہماری شرارتی کلاس کی موج مستیاں عروج پر تھیں . سب چھٹیوں کے لیئے اپنے اپنے پروگرام ذوروشورسے بیان کر رہی تھیں .
کوئی بلیک بورڈ پر کسی ٹیچر کا کارٹون بنا رہی تھی ، تو کوئی اپنی کاپیاں کتابیں الماری سے نکالنے میں خوشی خوشی مصروف تھیں ،
کچھ اتنے دن کی جدائی پر اظہار  اداسی کر رہی تھیں اور ایک" میں" جسے یہ سوچ کر موت پڑ رہی تھی
کہ" لو جی ہن سارے گھر دا کم مینوں کرنا پے گا "ہائے ہائے کیا بتائیں ہمارا دل کیسے صدمے سے دوچار تھا . یہ نہیں کہ ہم کوئی کام چور ہستی تھے. لیکن اس لیئے کہ ہماری اماں حضور بلکل ہی ہاتھ پاوں چھوڑ کر ہمیں نیک پروین بننے کے تمام سنہری مواقع فراہم کرنے کے موڈ میں آ جاتی تھیں . 
یہ ہی سب سوچتے ہم نے بھی یہ ہی شعر بلیک بورڈ پر یہ دیکھے بنا جڑ دیا کہ اسکے عین نیچے ہماری پرنسیپل کا کارٹون بنا ہوا ہے .
شو مئی قسمت ہماری کلاس فیلوز نے سکول کے آخری پریڈ میں جو ہا ہا کار مچارکھی تھی اسے سن کر ہماری محترمہ پرنسپل مسز نذیر کی اچانک آمد ایسے ہی ہوئی جیسے کسی نے ہمیں بھنگ بیچتے ہوئے پکڑ لیا ہو . 
کیونکہ ہماری ساری کلاس کیا پورے سکول کی مشترکہ  حکیمانہ رائے تھی کہ عزرائیل کو تو اللہ پاک بھیجتے ہیں جان لینے کو لیکن ہم  (اپنی طرف سے معصوم )بچوں کی جان لینے کو مسز نذیر کو باقاعدہ تنخواہ ہی نہیں اس کے بعد پینشن بھی منظور کروا کر بھیجا گیا ہے . وہ نہ صرف بڑی دبنگ خاتون تھیں بلکہ اللہ نے انہیں گرجدار آواز اور فل والیم سے خوب نوازہ تھا. سکول کے ایک کونے سے ان کی دھاڑ  گونجتی تھی کہ 
"کیا ہو رہا ہے "
اس کے بعد گویا کسی کے چراغوں میں روشنی  کیا تیل ہی نہیں رہتا تھا.
پورا سکول اس آواز کے بعد گونگوں کے سکول کا منظر پیش کیا کرتا تھا .ڈسپلن کے معاملے میں شاید وہ اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر مرغا بنا دیتیں تو بھی ہمیں کوئی حیرت نہ ہوتی .
ہمارے ہوشربا شور شرابے میں ہمیں خبر بھی نہ ہوئی اور سناٹا اس وقت طاری ہوا جب باقاعدہ ایک آواز آئی 
"کدھر کو جا رہے ہیں تمہارے ڈولے"
لو جی اس دن پتہ چلا کہ
ڈولی چڑھدیاں ماریاں کیوں ہیر چیکاں ں ں ں ں ں 
شاید اس کا ڈولی کے دروازے  میں ہاتھ آ گیا تھا یا اس کی بھی پرنسپل نے چھاپا مار دیا تھا.  
کلاس ساری صم بکم
"کس نے لکھا ہے یہ بلیک بورڈ پر "
انہوں نے ہماری سانولی سلونی باریک سی مانیٹر ثمینہ سے پوچھا وہ بیچاری تھر تھر کانپتی کبھی مجھے دیکھے کبھی پرنسپل کو . کیونکہ ادھر کنویں ادھر کھائی کے مصداق مار اسے دونوں طرف سے پڑنی تھی . حالانکہ ہمارا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہواتھا لیکن اللہ کے فضل سے اپن کا رعب بڑا تھا .
آخر کار پرنسیپل کی پھٹکار  کے بعد اس نے کھائ  میں کودنے  کا فیصلہ کر لیا. یعنی ہمیں بلی چڑھا دیا. اب پرنسپل نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا جیسے کسی سبزی خور کو گوشت بلکہ گدھے کا گوشت کھاتے پکڑ لیا جائے . کیوں کہ اس سے پہلے ہماری معصوم صورت کی وجہ سے ہمارا ریکارڈ نہایت معصومانہ تھا . اس روز انہیں معلوم ہوا کہ
ہیں ںںں
"ممتازملک بھی شرارتی بچہ ہے"
بس جی ان کے آرڈر پر میں بڑی مجرم اور دو دوسری چھوٹی مجرمات ان کے آفس کے باہر انتظار میں کھڑی کر دی گئیں . 
بنا کچھ کہے بنا کچھ بتائے،
اب پانچ منٹ میں سکول کی بیل بجی سارا سکول رخصت ہو رہا تھا اور ہم اپنی پیشی کے انتظار میں سوکھ رہے تھے ہماری جونیئر کلاسز کی کچھ لڑکیوں نے گزرتے ہوئے پوچھا بھی کہ
" آپی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں" ؟
تو ہم نے بھی کھسیانی ہو کر انہیں مرعوب کرنے کو کہا ہمیں پرنسپل صاحبہ سے ضروری کام ہےانہوں نے بلوایا ہے آپ جاو جاو شاباش.  
لیکن دل کا حال تو ہم ہی جانتے تھے . کہ ہمارے گھر کا رستہ  پندرہ منٹ کا ہے تو سولہویں منٹ میں اماں کا برقعہ ان کے سر پر ہو گا اور وہ ہماری تلاش کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی  . پھر حسب توفیق ہماری اتنی دھوم مچائیں گی کہ کیا ہی آج کل کے دھوم مچا دے گانے نے مچائی ہو گی.
ہم پرنسپل کے بلاوے کے انتظار میں تھے سکول کی تقریبا ساری لڑکیوں کے جانے سے پہلے ہمیں بلا ہی لیا گیا ہمیں " بڑی شرارتی" کا اعزاز دیتے ہوئے انہوں  نے ایک تاریخی ایگریمنٹ پر ہم سے سائن لیئے. جس پر ہمارے ہی مبارک  ہاتھوں سے لکھا تھا.
"آئندہ ہم کبھی ایسی شرارت نہیں کریں گے "
انہوں نے جب اپنی گھومنے والی کرسی کا رخ دیوار کی جانب کیا تو ہمیں پورا یقین ہے وہ خوب ذور سے ہنسی ہوں گی. 
لیکن ہمیں وہ ہنسی سننے کا ہوش کہاں تھا
ہم نے کودتے پھاندتے اپنی کلاس روم سے بیگ اٹھائے اور گھر کی جانب سرپٹ  دوڑ لگا دی .  
اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری سپیڈ نے اماں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ہمیں گھر پہنچا دیا . اور ہم مزید امّاں کی نظر میں خوار بلکہ رسوا ہونے سے بچ گئے . ورنہ جو ہوتا کم تھا.
                               
      ..................


جمعہ، 12 فروری، 2016

کندھے یا پیڑھے




کندھے یا پیڑھے
ممتازملک .پیرس






بچپن میں اپنی ماں سے ایک کہانی سنی تھی کہ
ایک گاوں میں ایک بڑا امیر اور متکبر شخص رہا کرتا تھا .گاوں والوں کی کسی خوشی غمی میں اپنے گھر سے کسی کو بھی شامل ہونے نہیں بھیجتا  تھا . ہاں موت والے گھر  میں ایک پیڑھا بھجوا دیتا . کہ یہ اس کی جانب سے شرکت کا اعلان ہوتا . کافی سال یہ سلسلہ چلا . پھر ایک روز اس کے ہاں بھی کسی کی موت ہو گئی. اس نے جب میت تیار کروا کر اس کی آخری  رسومات کے لیئے اپنے گھر کے باہر دالان میں جھانکا تو لوگوں کی جگہ پیڑھوں کاڈھیر لگا پایا . 
نوکر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے .
 تو نوکر نے جواب دیا سرکار
" یہ دنیا کا دستور ہے کہ جیساکوئی کسی کے ساتھ کرتا ہے ویسا ہی اس کیساتھ بھی کیا جاتا ہے . آپ نے جو سب کو بھیجا وہ سب نے آپ کو لوٹا دیا ہے . آپ کے گھر کی ڈولی اور جنازہ یہ ہی پیڑھے  اٹھائیں گے . اگر آپ نے کندھے بھیجے ہوتے تو آج کندھے بھی مل جاتے''.
...........

بدھ، 10 فروری، 2016

ملاقات



پاکستان سے واپسی پر 6مارچ 2016 ایسوایشن فم دی موند  کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ شمیم خان . حق باہو وویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ اور دیگر خواتین سے ایک.خصوص ملاقات کا اہتمام کیا گیا .




منگل، 9 فروری، 2016

پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ 7 جون 2015



 پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ
7 جون 2015


















پیر، 8 فروری، 2016

بڑے لوگ چھوٹے دل

کیا آپ کا اشارہ میری جانب ہے سر . میری تو ان کے ساتھ کوئی تصونہیں ہے ہاں ان کی آخری ملاقاتوں میں سے میرے ساتھ ہونے والی بھی وہ ملاقات شامل تھی . میرا تو ان سے ملنا ہی میرے لیئے ایک اعزاز کی بات تھی .  آپ لوگ بھی تو اپنے ابتدائی دنوں میں کسی کو کام کے حوالے سے پسند کرتے ہوں گے . ان سے ملنا چاہتے ہوں گے . ان کو دیکھنا چاہتے ہونگے تو اس کا ذکر بھی اس وقت کے میسر ذرائع سے کرتے ہوں گے . اس میں کیا عیب ہے . یہ آج کا زمانہ ہے یہاں آج کے انداز میں ہم سب اپنی خوشی کا تجسس کا اظہار کرتے ہیں . کیا یہ بڑی بات ہے؟؟کیا ساری دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا؟؟

بہت شکریہ.  لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ جانے والا کوئی ایسا ویسا ہو تو کوئی کیا ذکر کریگا لیکن اگر جانے والا اتنا بڑا اپنے کام کا ماہر ہو تو ہر ایک اس کے نام سے کسی بھی حوالے سے جوڑنا چاہے گا . یہ انسانی فطرت ہے جناب . ہاں جو لوگ اس میں جھوٹ کا تڑکہ لگاتے ہیں . انہیں شرم آنی چاہیئے.

میری کیا جرات ہے جناب کہ میں آپ کی بات کو رد کروں . میں تو ایک.عام فطری رجحان کا ذکر کر رہی ہوں
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن تصویر  کا دوسرا رخ آپ.کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہی ہوں . معذرت کیساتھ . جو لوگ جھوٹ ملاتے ہیں وہ قابل لعنت ہیں . جانے والا خود تو اپنی سچائی بیان نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں رہنے والا اس پر جھوٹ باندھ کر اس کی روح کو تکلیف پہنچانے کا موجب  ضرور بن رہا ہوتا ہے . اللہ ہمیں معاف فرمائے.

تو   بے حد احترام اور معذرت کیساتھ جن لوگوں کے جانے پر کوئی نہیں بولتا تو بھی آپ جیسے لوگ ہی فرمائے ہیں کہ دیکھو کیسا بے ضمیر معاشرہ ہے .
دوسری جانب نئے لکھنے والے یا بقول آپ کے" لالچی رائیٹرز " اگر یہ کہیں کہ آپ جیسے لوگ تعزیت کرنے والوں کی آڑ لیکر   نئے آنے والوں سے اپنا حسد اور بغض نکال رہے ہیں یا جانے والوں کا نام لیکر اپنے نمبر بنا رہے ہیں . تو اس میں کیا جھوٹ ہو گا ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں جو آدمی کسی مقام  پر خاص طور پر لکھاری کسی مقام پر پہنچ جائے تو وہ چاہتا ہے بس اب اس رستے کی طرف آنے والے ہر آدمی کو بے عزت کر کے رکھ دو کیونکہ آخری طرم خان وہی تھا جو پیدا ہو گیا . اس قدر تکبر اور اس قدر خود پسندی کی کوئی مثال میں نے اور دنیا میں کہیم نہیں دیکھی. خود کو خدا سمجھنے سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ رائٹرز خود کو اچھا انسان بھی ثابت کریں اور آنے والوں کو رہنمائی کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں . ورنہ وقت تو انہیں آگے لے ہی آئے گا .
بہت بہت شکریہ  ان چند بڑے دل والے سینئیرز کا کہ سچ میں اگر آپ جیسے چند لوگ اس میدان میں ہمیشہ نہ ہوں تو  ہر شخص اس میدان میں پہلا اور آخری ہی ہوتا . کسی کو اپنا پہلا دن یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی اسی طرح ایک روز نیا تھا .  بقول.ان لوگوں کے بونے تھے.کسی نے ان کی رہنمائی کی تو وہ اس کے لیئے راہبر ہو کر اچھے لفظوں میں جی گیا لیکن  جس نے اس کا راستہ روکا وہ یہ بھول گیا کہ راستے خدا بناتا ہے کسی انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ یا اس کا نام کسی کے لیئے راستہ بنے . جب تک کہ رب کائینات نے کامیابی یا نام اس کے مقدر میں لکھ نہ دیا ہو. یہ تو اللہ کی جانب سے ہمارے لیئے بہانے ہوتے ہیں .

جمعرات، 4 فروری، 2016

پرانا پاپی


پرانا پاپی 
ممتازملک ۔ پیرس




ملک بھر میں ہونے والے قتل عام اور چن چن کے اس ملک سے قیمتی ترین لوگوں کو قتل کرنے والے دوسرے کئی گینگز  کی طرح لیاری گینگ کا عذاب بھی کچھ کم تباہی پھیلانے کا سبب نہیں رہا . اسی کے سرغنہ عزیز بلوچ نے اپنی گرفتاری کا یقین ہونے پر ایسا مکارانہ  کھیل کھیلا ہے کہ جس سے اس کیس کو اور اس کے مجرم ہونے کو جہاں تک ہو سکے اس قدر کمزور اور مشکوک  کر دیا جائے کہ ہر سیاسی آدمی اپنی عزت بچانے کے لیئے اسے چھڑانے اور اپنا دامن بچانے کی فکر کرنے لگے . پیپلز پارٹی کا یہ پرانا کارندہ ایک ایسا اجرتی  قاتل ہے جو باقاعدہ گروہ بنا کر معصوم شہریوں کو  خود بھی لوٹتا رہا ہے اور سالہا سال تک ان سیاسی نمائندوں کو بھی پالتا  رہا ہے . پھر طریقہ واردات کسی کا قتل ہو ،کھالوں  کی لوٹ ہو ، صدقے فطرانے  کے نام  پر جگا ٹیکس ہو یا یا پھر اغواء برائے تاوان ،گو ہر طریقے سے اس نے اپنے مشن جاری رکھے . اس پر اس  نے ہر ہر موقع پر ہر نامی گرامی  شخصیت کیساتھ  اپنی تصاویر بھی ان کے جانے انجانے میں یوں بنا کر انہیں ایسے ایسے مواقع پر پیش کیا کہ ہر آدمی ہی مشکوک ہو جائے اور ہماری عدالتیں جو  پہلے ہی لولے لنگڑے فیصلے کرنے اور ایسے مجرموں کو آذاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں انہیں مذید عذر در عرض دے دیئے جائیں . کیونکہ ہماری عدالتیں سائیکل چور اور گاڑی کے چالان والوں کو تو سالہا سال لٹکا سکتی ہیں . لیکن قاتل چاہے ریمنڈ ڈیوس ہو ،شاہ ذیب ، یا کسی بھی نام سے ہو. اسی عدالت کی ناک کے نیچے سے وکٹری بناتا ہوا اس کی حرمت پر منہ چڑھاتا ہوا گزر جائے گا . کاش یہ رہائی ہماری عدالتوں میں معصوموں کے لیئے اتنی آسان ہوتی . لیکن یہ آسانی اور شکوک کے فائدے میسر بھی ہیں تو ایسے قاتلوں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو . 
اس شخص نے نہ صرف ہر نامور شخصیت کیساتھ تصاویر بنائیں ان میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں سیاستدان ہوں یا کھلاڑی،  صحافی ہوں یا  میڈیا والے . اس کے وار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے. 
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف انکوائری میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ کس شخص کیساتھ کس حد تک اور کس حوالے سے رابطے میں تھا ۔ وہ کون لوگ تھے. جو اس کے ایک ایک جرم پر پولیس سٹیشن فون کر کر کے اسے اور اس کے کارندوں کو نہ صرف چھڑایا  کرتے تھے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں اور پناہ گاہیں بھی فراہم کیا کرتے تھے ۔ 
یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے جس کا دماغ ایک وقت میں کہاں کہاں  کس کس کو ٹپکاتا تھا، کبھی اڑاتا  تھا اور کبھی غائب کرواتا تھا ، جس کی ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کی جان اور مال ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہی  سیاسی کارندے اور انکے خاص گلو بٹ رہے ہیں  . ان کا ہر طبقے کے لوگوں میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر سیلفی بنوانا یا تصویر بنوانا کوئی بڑی بات نہیں . ہمارے ساتھ دائیں بائیں جانے کون کون ہمیں اپنے کیمرے میں قید کر رہا ہے. یہ ہم نہیں جان سکتے . لیکن ہاں جو لوگ ان کے ساتھ  ان کے گھروں میں بیٹھے  ہیں، ان کے ہاں دعوتوں اور شادی بیاہ میں شریک ہوتے رہے ہیں. تو ہاں دال  میں کالا کیا کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں ؟؟؟؟؟؟
                  ----------

عجب میں ہوں ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


عجب میں ہوں

عجب میں ہوں پاگل عجب میں نرالی
کیئے اپنے کام اور پھر گھر کی راہ لی

نہ کوئی غرض رکھی بازیگروں سے
ہمیں جیت پایا نہ کوئی کمالی

یہ موقع پرستوں کی رسمیں پرانی
کہ ہر راہ کے بدلے نئی ایک راہ لی

بھلائی کی چاہت کسی کو نہیں تھی
برائی نے آ کےجو گدّی سنبھالی

مجھے دینے والوں نےعزت جودی تھی
ہاں جتنا ہوا میں نے قیمت چکا لی

 ہمیں دوسروں کے لیئے اپنا ایماں 
بدلنا نہ آیا توجہ ہٹا لی

گندھی اپنی مٹی میں ایسی وفا تھی
نہ در در پہ جا کے  بنے ہیں سوالی

تعزُ تذلُ لکھا جا چکا ہے
بہت ہے جو ممّتاز عزت کما لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 2 فروری، 2016

اردو ادب کے انتظار حسین



اردو ادب کے   انتظار حسین 
ممتازملک ۔ پیرس


مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک



دنیائے ادب کے معروف لکھاری نے آج اس دنیا کو الوداع کہہ دیا . لیکن ہمیں اپنے علم و ادب کا بہت بڑا اثاثہ دیکر  رخصت ہوئے . انتظار حسین صاحب کو کچھ نہ کچھ پڑھ تو ضرور رکھاتھا . لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ ان سے آخری بار ملنے والوں میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل ہو گا . 
اوریئنٹل کالج برائے خواتین لاہور میں اپنےچند روز قبل ہونے والی 17جنوری 2016 کی اردو کانفرنس کے موقع پر جہاں اور بہت سی نایاب ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا وہیں جناب انےظار حسین صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا . موصوف نہ صرف بے حد اچھے لکھاری رہے ہیں بلکہ بے حد اچھے اور نفیس اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے نفیس انسان بھی تھے ..جس کا ثبوت انہوں نے آخری دم تک دیا . اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ اس کانفرنس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہر ایک کے ساتھ خوشدلی سے بات چیت کرتے ہنسی مذاق کرتے اور تصاویر بنوانے رہے . مجھے وہاں ان کے رخصت ہوتے وقت یہ آخری تصاویر بنانے کا موقع ملا .  انہیں اردو ادب ہمیشہ فخر سے یاد رکھے گا.

مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک






مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 1 فروری، 2016

ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے






ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس



See original image
ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلکچوئیل یا کسی بھی شعبے  سے ہو .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ جوان و  بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کر غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں .خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپاتلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل اور مغرور کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف یورپ  کی خاتون ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکیوں کا سالہا سال لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ، زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .آج کی ادبی دنیا بھی اہسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے الفاظ کاغذ پر بس واہ واہ کی سیاہی ہی بکھیرتے ہیں ان کی زندگی عمل کے یکسر خالی ہے ۔
ایسے لوگوں  کی شکلیں دیکھنے کے بعد ان کے کرتوتوں پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی . جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب  کے نام پر ٹھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ خبیث اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی.جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 31 جنوری، 2016

بابائی وباء ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے


بابائی وباء
(تحریر:ممتازملک. پیرس) 




ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
تو وہ اٹھلا کے بولی
ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
ایک تو ان کی ان کم 
دوسرے ان کے دن کم
سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 
بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
 ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
       
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
              ..................


● بہتان کیا ہوتا ہے ؟/ کالم



بہتان کیا ہوتا ہے ؟
ممتازملک ۔ پیرس


 عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اس میں نہیں ہے بہتان ہوتا ہے ۔ جی ہاں یہ بات درست ہے لیکن اس کی ایک اور وضاحت بھی بے حد ضروری ہے کہ صرف کسی کے بارے میں ایسی بات جس سے اس کی عزت کم ہوتی ہو کہہ دینا  صرف بہتان ہی نہیں ہے بلکہ اس کے کئی مضمرات بھی ہیں ۔ ایک تو یہ بات اس میں ہے نہیں یہ گناہ اور، اس سے بھی بڑا گناہ یہ کہ ہم اس کے کردار پر کیچڑ اچھال کر اسے لوگوں کی نظر میں اس گناہ کے ذریعے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ۔  بلکہ کسی بھی ایسی شخصیت پر جسے آپ کبھی ایسا خاص ملے نہیں ہیں یا جسے آپ صرف زبانی ہی یاکسی کے ساتھ ہوئے تذکرے میں جانتے ہیں یا کسی کی تحریر کے حوالے سے ہی اس کو تھوڑا بہت جانتے ہیں لیکن ذاتی جان پہچان نہیں ہے خاص طور پر اگر وہ ایک خاتون ہے تو اور بھی ذیادہ احتیاط لاذم ہے تبصرے میں ، لیکن ہم لوگ اسی کی ذات پر کوئی بھی فیصلہ کن تبصرہ بڑے آرام سے فرما دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ہم بہتان تراشی جیسا گناہ کبیرہ انجام دے چکے ہیں ۔ اب اسی بات کو ایک اور انداز میں دیکھیئے۔ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےایک موقع پرایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی بات پر گواہی کے سوال پر پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے رشتہ دار ہو؟ اس نے کہا نہیں ، کیا تم اس کے پڑوسی ہو ؟ کہا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس کا اور تمہارا کبھی کوئی لین دین ہوا ہے؟ کہا گیا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس نے کبھی تم سے کوئی وعدہ کیا ہے؟ کہا گیا نہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا، کہ تمہاری اس شخص کے بارے میں گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ کیوں کہ جب تمہارا اس شخص سے ان معاملات  کوئی تعلق ہی نہیں رہا، تو تم کیسے کہہ سکتے ہو، کہ وہ کیسا آدمی ہے ؟ ،، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایسے آدمی کی گواہی ہی اللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں  نہیں مانی جاتی تو گویا اس نے ایسے شخص کے بارے میں جو کہا وہ کمزور علمی پر یا اندازے پر مشتمل ہے۔ تو اس کی بات بھی بہتان تراشی ہی میں شمار کی جائے گی ، کیوں کہ اس میں عملی پہچان کا کوئی کردار ہے ہی نہیں ۔ اس بات پر غور کریں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی صورت اس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ جہاں ہمہمیں کسی بھی ملنے والے کی چار لوگوں میں عزت نظر آتی ہے جھٹ سے ہمیں حسد کا کیڑا کاٹتا ہے اور ہم اس پر طرح طرح کے بہتان لگا کر اسے ان لوگوں میں ذلیل کرنے کی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔  سب سے خاص بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی بلکل انجان بھی نہیں ہوتے ۔ بلکہ اکثر آپ کی دوستی کا دم بھرنے والے ہی ہوتے ہیں ۔ مثلا پاکستان  کے بارے میں ہم بیرون ملک مقیم لوگ کوئی بات کریں تو فورا ہمیں کہا جایئگا کہ جی لیجیئے پیرس کے محلوں میں رہنے والے ہماری جھونپڑیوں کی فکر کرتے ہیں ۔( جبکہ  پاکستان پر  مصیبت آئی ہو تو بڑھ چڑھکر ہماری غیرتوں کو للکارا جا رہا ہوتا ہے ۔ حبُ الوطنی کا جوش دلایا جاتا ہے ۔)اب انہیں یہ کون بتائے کہ ہم اپنا لہو نچوڑ نچوڑ کر پاکستان کے دیئے میں روشنی رکھنے کے لیئے نوٹوں کی صورت تیل اپنا تیل نکال کر بھیجیتے ہیں۔ان نوٹوں کے بنا تو روٹی بھی نہیں آتی ، دوا بھی نہیں آتی ، اور تو اور اب تو انہی نوٹوں کے بنا کوئی سلام کا جواب بھی نہیں دیتا ۔ اور کتنے لوگوں نے پاکستانیوں کے محل دیکھے ہیں ۔ پاکستان کے دو کمروں میں بیٹھے بھی آپ کو نوکرانیوں کی موج حاصل ہے جبکہ یورپ یا امریکہ میں آپ جان مار مار کر گھر لے بھی لیں تو بھی نوکر  رکھنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔ کیا یہ باتیں بھی بنا کسی ثبوت کے بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر بہتان لگانے والا اپنے کسی مذموم مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے۔ لیکن  کیا واپسی کا جو سفر اللہ کی جانب موت کی صورت مقرر ہے ۔ اس جگہ کی سزا کا بھی کوئی تصور اس نے کیا ہے کہ نہیں ؟ ہمیں چاہیئے کہ ان باتوں کو بھی اپنے دھیان میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت ہی چھوٹا سمجھ کربہت بڑا گناہ کرجاتےہیں۔۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جس شخص کو جتنا ان معاملات میں جانتے ہیں ان کے بارے میں صرف اور صرف اتنی ہی رائے دی جائے کیوں کہ شرک اور بہتان تراشی بشکل گناہ کبیرہ کی جو سزا دنیا اور آخرت میں مقرر ہے اس کا احساس ہی ہمیں ہو جائے تو ہم نہ سو سکیں، نہ کھا سکیں، نہ ہی خوف خدا سے سر کو سجدے سے اٹھا سکیں،  کیوں کہ یہ خوف ہی مار ڈالنے کے لیئے کافی ہے ۔  اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/