ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 31 جنوری، 2016

● (12) ٹھوکر /کالم۔ سچ تو یہ ہے




   (12)   ٹھوکر               
    تحریر: ممتازملک ۔ پیرس               
                                                 


ٹھوکر زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے. اس سے مفر ممکن نہیں. دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس نے کبهی ٹھوکر نہیں کهائ. زندگی ٹهوکروں میں لا لا  کر ہی  ایسے ایسے سبق سکھاتی ہے کہ جو مہان سے مہان استاد یا جابر سے جابر حکمران بهی نہیں سکها سکتا. بنا عمر و جنس کی تخصیص کے یہ انسان کو داناؤں یا نادانوں کی فہرست میں کهڑا کر دیتی ہے. ہم کئ بار سوچتے ہیں کہ ہم نے اس شخص سے دوستی کیوں کی ؟ اس شخص سے تعلق کیوں رکها؟ یا اس شخص سے کوئی رشتہ کیوں جوڑا ، لیکن پهر ایک ٹهوکر لگتی ہے۔ ہماری آہ نکلتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار پهر ہمارے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے . اور ہم سوچتے ہیں کہ کاشکہ سب کے ماتهے پر لکها ہوتا کہ  وہ کیسا انسان ہے . لیکن نہیں ۔ ایسا ہوتا تو دنیا کاہے کی امتحان گاہ ہوتی. سب کچه کائناتتوں کے رب نے بهید میں رکها . اسی لیئے تو انسان اس کائنات یا شاید سبهی کائیناتوں  کی سب سے مشکل پہیلی کا نام ہے. کبهی یہ ٹهوکر لگاتا ہے اور کبهی یہ ٹهوکر کهاتا ہے. بس یہ سمجه لیں کہ زندگی کا لب لباب ہے ایک ٹهوکر 
ٹھوکر زندگی کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہیں تو قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ہی جیسی ٹھوکر کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟
 مثال کے طور پر ایک حقیقت پیش کرتے ہیں یہ واقعہ تو ایک ہی جیسا ہے لیکن اس کا مختلف لوگوں پر ہونے والا ردعمل نوٹ کیجیئے گا ۔ 
ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا اس نے آکر اپنے باپ سے شکایت کی کہ ابو مجھے فلاں بچے نے مارا ہے ۔ باپ نے اسے پاس بٹھایا اور پوچھا کیوں مارا ہے پہلے پوری بات بتاؤ ۔ پوری بات سن کر اس کے باپ نے اسے نصیحت کی کہ بیٹا اگر وہ اچھا بچہ نہیں ہو تو آئندہ اس کے ساتھ مت کھیلنا اور اگر وہ اچھا بچہ ہے تو اس کی شکایت اس کی امی یا ابا سے کرنا ۔ بچہ مطمئن ہو گیا ۔ بات ختم
ایک دوسرے گھر میں یہ ہی شکایت بچے نے کی تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے ہی بچے کو بے تحاشا پیٹ ڈالا ، خوب گالیاں بکیں اس کی ماں کو اس کا ذمّہ دار قرار دیدیا جس نے اسے یہ ہی سکھایا ہے کہ لوگوں سے پٹ کر آئے۔ اس نے خود کیوں نہیں مارا اس لڑکے کو ؟ گویا اس باپ نے اپنے بیٹے کو یہ سبق دیدیا کہ آئندہ خود بھی فساد کا حصہ بننا ہے اور اگلے کو خوب سبق سکھانا ہے ۔ یہ سوچے بنا کہ اسکا انجام کیا ہو گا ۔
اب ایک تیسرے گھر میں یہ ہی شکایت ایک بچہ اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ کہ اسے کسی بچے نے مارا ہے ۔ تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے کمرے میں جا کر اپنا ریوالور نکالا اور تیزی سے اس دوسرے بچے کے گھر کے سامنے پہنچ کراس کے باپ کو انتہائی فحش القابات سے دروازے پر لات مار کر پکارا ۔ جیسے ہی وہ آدمی اپنے بیٹے سمیت باہر آیا اس نے بنا کچھ سوچے یہ کہتے ہوئے کہ"تیرے بیٹے کی یہ جرات کہ میرے بچے کو مارے" اس بچے پر فائر کر دیا ۔ اس بچے کو بچاتے ہوئے اس کے باپ پر بھی گولی چلا دی ، اس کے پیچھے گولی کی آواز سنکر بھاگتی ہوئی خاتون خانہ بھی نشانہ بن گئی اور تین لوگ قتل ہو گئے ۔ خود تو وہ شخص وقتی طور پر بھاگا لیکن پھر پکڑا گیا اور سزائے موت ہو گئی ۔ بیوی نے دوسری شادی کر لی ۔ سوتیلے باپ نے اسی بیٹے کو جس کی شکایت پر اتنا ہنگامہ برپا ہوا ، کو ایک یتیم خانے میں داخل کر دیا ۔ 
یہ تینوں واقعات ایک ہی جیسے تھے لیکن ان کا انجام ایک دوسرے سے بلکل الگ تھا ۔ کیوں کہ ان واقعات سے نبٹنے کا طریقہ سب کا جدا تھا ۔ لہذا نتیجہ بھی جدا نکلا ۔ یہ سارے واقعات جن کے ساتھ پیش آئے ان کی زندگی کی ایک ایک ٹھوکر تھے ۔ ایک نے اس ٹھوکر پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس سے اچھا سبق لیتے ہوئے بات کو مثبت پہلو سے جانچتے ہوئے اس کا اچھا نتیجہ نکالا اور مشکل سے بچ گئے ۔ دوسرے کیس میں باپ نے اپنے جنگلی پن سے معاملے کو سمیٹا اور بچے کے دل میں اسی جنگلی پن اور انتقام پسندی کا بیج بو دیا ۔ اور وہ بچہ مستقبل کا فسادی بن گیا ۔ جبکہ تیسرے گھر کے ہر فرد کو ہی نہیں دوسرے گھر کے  افراد کو بھی ایک چھوٹی سی  بات کی ہولناک قیمت چکانا پڑی اور دو ہنستے بستے گھر برباد ہو گئے ۔ ان تمام واقعات سے یہ ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک ہی جیسے ٹھوکر لگنے کے باوجود جو چیز آدمی کو ایک دوسرے سے مختلف نتائج دیتی ہے وہ ہے اس انسان کا ظرف ، اسکی معاملہ فہمی ، اس کا صبرو تحمل  اس کی قوت فیصلہ اور اسکی قوت برداشت ۔  انسان کو ہر معاملہ میں ان خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ لیکن ٹھوکر لگنے کے بعد پھر سے اٹھنے والا اور مذید آگے کی جانب ترقی کرنے والا انسان ہی اصل میں کامیاب انسان ہوتا ہے ۔ دنیا میں اسی کا نام رہتا ہے جو ٹھوکروں میں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہر ٹھوکر کو اپنی زندگی میں اعلی مقاصد کے لیئے ایک نئی سیکھ اور سیڑھی سمجھتا ہے جو  اس ٹھوکر کو اس کی سوچ کے بند دروازوں کو کھونے والی چابی بنا لیتا ہے ۔ وہی کامیابی کی منزل پر پہچ پاتا ہے ۔ 
          ●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
       ●●●
                                      

اتوار، 24 جنوری، 2016

سانحہ چارسدہ یونیورسٹی




سانحہ چارسدہ یونیورسٹی 
ممتازملک ۔ پیرس







ایک اور دلخراش واقعہ نے پاکستان کے تحفظ اور اس کے پرامن حالات پر ایک اور چوٹ لگائی .  نہ تو یہ کوئی بات نئی ہے اور نہ ہی ہمارا دشمن نیا یا چھپا ہوا ہے . یہ وہی دشمن ہے جن کے لیئے قائد اعظم کے یوم پیدائش کو نظر انداز کر کے ہمارے وزیراعظم صاحب خود کو فرش راہ کیئے  بچھے  چلے جا رہے تھے . اور نت نئے انداز سے اس دہشت گرد پڑوسی وزیراعظم کی دلپشوری میں دیوانے ہوئے جا رہے تھے . اور  ویسے بھی پاکستانی قوم کا وقار  کسی کے قدموں میں ڈالنا ہمارے وزراء کا پرانا شیوہ رہا ہے . لیکن اب تو حد ہی ہو چکی ہے .پڑوس سے کوئی بھی ڈگڈگی بجاتے ہوئے آتا ہے بندر کا تماشا دکھاتا ہے . اور ایک نئے وار کے لیئے جاسوسی کر کے چلا جاتا ہے . یہ ہی ہوا اب کی بار بھی پشاور کے نزدیک چارسدہ یونیورسٹی میں پشاور آرمی سکول کے واقعے کو دہرایا گیا . گو کہ الحمد اللہ گارڈز ،پولیس اور فوج کی بروقت آمد سے ہم بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بچ گئے . لیکن یہ سب اس سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتا تھا . ہر آدمی حیران ہے کہ کوئی لگاتار پاکستانی حدود میں موبائل  پر تخریبی گفتگو کر رہا ہے لیکن کسی سیٹلائیٹ سروس یا موبائل سروس والے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.  حالانکہ  اگر یہ لوگ چند مخصوص الفاظ بھی سسٹم میں شامل کر دیتے ہیں جو کہ ممنوعہ ہوں تو بھی سسٹم  آپ کو الرٹ کر دیتا ہے . یہ بات تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ فون اور موبائل میں  کئی قسم کے سیفٹی پوائنٹس ہوتے ہیں .  تو ہمارے ان فون کمپنیز میں کام کرنے والے کیسے ثم بکم گونگے بہرے بنے رہے . اس کا صاف مطلب ہے کہ فون سروس میں سے بھی اس واقعے میں کسی نہ کسی کی سنگت یا غفلت شامل رہی ہے . اس کی گرفت اب تک کیوں نہیں ہوئی ؟ 
کسی بھی عمارت میں ساٹھ کے قریب گارڈز کیا ایک ہی جانب بیٹھے پہرہ دے رہے تھے یا تاش کھیل رہے تھے یا گپ ہانک رہے تھے کہ انہیں پچھلی دیواروں سے اندر آنے والوں کی بروقت خبر نہ ہوئی؟
اور سب سے بڑا نقطہ یہ ہے کہ یہ سب پاگل کتے اخر کابل سے ڈائیریکٹ تو چارسدہ تک نہیں پہنچے جس مکان یا ہوٹل میں یہ ٹھہرے تھے ان کے مالکان کو زیادہ رقم کی ادائیگی بھی کی ہو گی . اور امید سے زیادہ ان کی مٹھی گرم کی گئی ہو گی . اور ان مالکان  کو یہ نہیں سوچنے کی زحمت گوارہ ہوئی کہ یہ اجنبی اس پر اتنا مہربان کیوں ہے ؟
ان سب لالچی ملک فروشوں کی سزا بھی اتنی عبرت ناک بنا دیں کہ آئندہ کوئی اپنا گھر یا کمرہ کرائے پر دیتے ہوئے اچھی طرح سے سوچے . ان سہولت کاروں کو انہیں کے محلوں میں سرعام پھانسی دی جائیں  اور ان کے گھروں کو بلڈوز کر دیا جائے . تاکہ دوسروں کے لیئے یہ عبرت بن سکیں . اور جس کسی این جی او یا وکیل کے پیٹ میں ان پاگل کتوں کے لیئے ہمدردی کا مروڑ اٹھے تو اسے بھی پھانسی پر لٹکا دینا چاہیئے. کیونکہ اس ملک کی بقاء سے بڑھ کر نہ تو کوئی رشتہ ہے ،نہ کوئی عہدہ ہے اور نہ ہی کوئی محکمہ. جب تک حکومت  پاکستان اور پاک آرمی دل کو پتھر کر کے بڑے اقدام نہیں اٹھائے گی ہمارے وذراء سے اس غیرت مندی کی توقع بھی عبث ہے. اگر راتوں رات اس ملک کی اسمبلیاں کھولی جا سکتی ہیں اور خزانے لوٹنے  نت نئے قوانین اور احکامات پر ٹھپے لگائے جا سکتے ہیں . ہر خزانے کے چور کو تحفظ  دیا جا سکتا ہے . تو اس ملک کی سلامتی کے فیصلوں پر مہر کیوں نہیں لگائی جا سکتی . قومی سلامتی کے تمام معاملات  ہمارے نااہل اور کاروباری حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے جن کا دماغ سوتے جاگتے قورمہ بریانی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا .اور ان سے ملک کے دفاع کی امید رکھنا بھی گویا بلی کو دودہ کی نگرانی پر بٹھانے والی بات ہے . اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی سلامتی کونسل کو فعال کیا جائے اور اس کے آخری فیصلے کا اختیار پاک آرمی کی کسی بھی غیر متنازعہ شخصیت کو بنایا آئے . کیونکہ جاہل عوامی اکثریت  کو  پڑھے لکھے باشعور درد دل رکھنے  والی اقلیت پر کسی طور فوقیت نہیں دی جا سکتی . یہ ہی وقت کی آواز بھی ہے اور ضرورت بھی.
                     ...............

بدھ، 16 دسمبر، 2015

ٹرننگ پوائنٹ

ایک سال  گزر گیا اس کالے دن کو جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انتہائی بے رحمی سے موت کا کھیل کھیلا گیا . خود کو بہادر سمجھنے والوں نے معصوم بچوں کو جس طرح چن چن کر اپنا نشانہ بنایا اسے دیکھ کر کیا سن کر ہی دشمنوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں . آج سب کے لیئے اس سانحے کا ایک سال مکمل ہو گیا . لیکن پوچھے کوئ  ان ماوں سے کہ آج ہی کے دن جب انہوں نے اپنے راج دلاروں کے سکول یونیفارم استری کیئے ہوں گے ان  کے بال سنوارنے ہوں گے ان کا ماتھے چوما ہو گا  . تو سچ میں اس قیامت کی آہٹ ان کے دلوں نے محسوس  نہیں کر لی تھی . کہ آنے والا عذاب پہلے سے اپنی چاپ سنا دیتا ہے . جب کئی بچوں نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہو گی . لیکن انہیں راج دلار  سے بہلا پھسلا کر کوئی وعدہ کر کے سکول جانے پر تیار کیا گیا ہو گا . سکول کے گیٹ سے گھر تک کے واپسی کے راستے میں کئی بار ماوں کا دل دھڑکا  ہو گا . باپوں نے کئی بار نہ جانے کیوں پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا . شاید جدائی کی گھڑی کا ان سے الگ ہونے کا دکھ انہیں بتائے بنا ہی اس درد کے لیئے تیار کر رہا تھا . گھر پر اپنے بچوں کی فرمائش پر کھانا بناتے ہوئے کتنی بار ہاتھ سے برتن چھوٹے ہوں گے کتنی بار دل دروازے کی جانب بلاوجہ ہی لپکا  ہو گا . کتنی بار بنا کچھ سمجھے رونے کو دل چاہا ہو گا . یہ معلوم ہوا کہ اس گھڑی میرے پیارے پر کیا گزر رہی تھی . کیسی بے رحمی سے اسے موت کی آغوش میں پہنچایا گیا ہو گا . تو ان کے حسین معصوم وجود خون کے لوتھڑوں میں تبدیل کر کے بڑے فخر سے اپنی   داڑھیوں پر ہاتھ پھیرا گیا ہو گا .  ایک دوسرے کو شاباش دی گئی ہو گی .  دنیا میں ہر قوم پر ایسا وقت آتا ہے جو اس کے لیئے آگے بڑھنے اور بڑے قدم اٹھانے کے لیئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے . دس سال سے پاکستانیوں کے اٹھتے لاشے اس حساب کے بے باک ہونے کے  منتظر تھے کہ کون سا لمحہ ان بدکار قاتلوں سے نقطہ آغاز بنے گا . اور وہ لمحہ ان معصوم بچوں نے اپنے لہو کی ندی پار کر کے اس قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مہیا کر ہی دیا . ہو گیا نقطہ آغاز . پھندہ  ہو گیا یہ ہی لہو ان ضمیر فروش قاتلوں  کی گردنوں پر. اور آغاز ہو گیا انہیں کتے کی طرح مار مار کر بے نشان کرنے کا اور اپنی سرحدوں کو ان درندوں  سے پاک کرنے کا . 1971 میں ہندوستان نے اسی روز پاکستان کے وجود  کو دولخت کرنے کا کارنامہ سرانجام  دیکرپاکستان کو ایٹمی  طاقت بننے کی راہ پر ڈال دیا تھا . تو 2014 میں ہندوستان نے ایک اور فاش غلطی کر دی . اس نے پشاور سکول کی دہشت گردی کی پشت پناہی کر کے پاکستان کو ایک اور بڑا قدم اٹھانے اور درندوں ، قاتلوں اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں نپٹنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیئے سوچنے پر مجبور کر دیا . اللہ کا کرم ہے  کہ اس سانحے کے ایک سال بعد پاکستان 2014 سے کہیں زیادہ مضبوط  بھی ہے اور محفوظ بھی .  ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ اپنی کرتوتوں پر  شرمندہ ہونا ہی پڑتا ہے اور ہونا ہی پڑے گاکہ اس قوم نے اپنی چوٹوں سے ہی مرہم بنانا سیکھا ہے . اور دنیا سن لے کہ ہر چوٹ کو ہم ٹرننگ پوائنٹ بنانا جانتے ہیں .

بدھ، 18 نومبر، 2015

زخم بھر جائیگا پر....

پیرس میں گذشتہ ہفتے ہو ے والے خونی واقعات نے صدمے اور حیرت دونوں ہی سے ساری دنیا کو دوچار کر دیا . حیرت یہ کہ اتنے بڑے مضبوط اور محفوظ ملک میں یہ سب کر نے کا کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ؟ اور صدمہ اس بات کا  کہ دنیا میں اب تک جہاں بھی ہمیں جانے کا موقع ملا ہے اور اس ملک فرانس کی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر محبت کرنے والی قانون پسند ،نفیس،،صفائی پسند اور دھیمے مزاج کی مددگاراور ہمدرد قوم آپ نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی. فرانس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو خصوصا بہت ہمدردیاں ملتی رہی ہیں . اور ان پر اعتماد بھی یورپ بھر میں  سب سے زیادہ فرانس ہی میں کہا گیا ہے . یہ بات  بہت ہی غور طلب ہے کہ جب بھی یورپ اور انگلینڈ میں مسلمانوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے یا ان کے رویئے میں نرمی آنے لگتی ہے تو ساتھ کوئی نہ کوئی  ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے بلکہ کر دیا جاتا ہے کہ جس سے یہ  اعتماد پھر سے چکنا چور ہو جاتا ہے . آخر یہ سب کون کرتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں  جب انگلینڈ کے سابقہ وزیر اعظم کواپنے   ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیئے یہ کہنا پڑا کہ  عراق پر کاروائی اور دوسرے مسلم ممالک پر فوجی بدمعاشی کے لیئے اور مسلم قتل عام کے لیئے جھوٹ بولاگیا تھا.تو وہ کون سی طاقت ہے  کہ جسے  یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس بات کا اعتراف کر کے ان مظلوموں کے ذخموں پر مرہم رکھا جائے . مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرنے کے لیئے منظم صلیبی جنگ میں سب سے بڑا  بدمعاش یقینا امریکہ ہی ہے اور امریکہ کو کون نچاتاہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہر گز نہیں ہے . مسلمانوں کے نام سے تیار کیئے گیئے اور مسلم ممالک میں یہ بیس پچیس پچیس سال پہلے سے پلانٹ کیئے گیئے امریکی اور یہودی جاسوسوں نے بڑی ہی لمبی اننگ کھیلتے ہوئے ہمیشہ اپنے اہداف پر حملے کیئے ہیں
.بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگاکہ دنیا بھر  کے امن کو تناہ کرنے کا ذمےدار  بہر  صورت امریکہ ہی ہوتا ہے .... اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر صدیوں پہلےمجرموںکو ہیلا لا کر آباد کیا جاتا تھا . یعنی کل تک یہ مجرموں کے لیئے "سرزمین سزا" تھی اور رفتہ رفتہ انہی مجرموں کی آ ہوں اور سسکیوں سے اب یہ دنیا بھر  کے لیئے" سرزمین بددعا" بن چکی ہے . امریکہ کی ترقی نما روشنی گویا جلتا ہوا سورج ہے . جو یہ نہ دیکھے اسے حرارت نہیں مل پاتی اور جو اسے غور سے دیکھ لے تو اندھا ہو جاتا ہے اور جو اسے چھو لے وہ جل کر بھسم ہو جاتا ہے . اسی کایہ کارنامہ ہے کہ دنیا بھر کا بد کردار،بدمعاش ،قاتل،بے دین اور نفسیاتی مریض ایک گروہ کی صورت اکٹھے کئے گئے اور ان سب کو برین واش کر کے دنیا بھر  میں مسلمانوں  کونشانہ بنانے انہیں قتل کرنے اور اکا دکا کاروائیاں یورپ انگلینڈ  اور امریکہ میں کروا کر انہیں مسلمانوں کے سر تھوپنے کے منصوبے پر لگا دیا گیا.  یوں مسلمانوں کے قتل عام کے لیئے ہر چار دن بعد ایک کہانی  گھڑی جاتی ہے . جبکہ  نہ تو طالبان کا تعلق کہیں  سے بھی اسلام سے ہے نہ ہی انہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے  اور نہ ہی داعش کے جانوروں کاکوئی تعلق کہیں بھی اسلام سے ہے کہ ان کا بھی نام مسلمان کی حد تک ہونے کے سوا اس دین کے ہزارویں حصے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. ورنہ ان کے نناوے فیصد مقتول اور مظلوم اور مشق  ستم مسلمانوں ہی پر کیوں ہوتے.
لیکن ہمیں امید ہے کہ اس خوفناک واقعہ سے فرانس کے عوام کو جس طرح اپنے پیاروں کےجنازے اٹھانے اور انہیں تڑپتے ہوئے دیکھنے کا خوفناک تجربہ ہوا ہے اس کی روشنی میں انہیں مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کے لوگوں کی تکلیفوں اور اذیتوں اور قربانیوں کو سمجھنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہو گا . اللہ پاک فرانس کے لوگوں کے زخموں کو بھر دے . اور انہیں آئندہ ایسے حادثات سے اپنی امان میں رکھے . اور انہیں مسلمانوں کیساتھ ملکر دنیا سے دہشت اور بربریت کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے. کہ بے شک اللہ قرآن میں واضح فرماتا ہے کہ" اللہ زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. "
اور "جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا"
ہر روز جنازے ڈھو ڈھو کر پورا پاکستان  یہ بات جو دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ایک مسلمان نام رکھنے سے کوئی مسلمان اور ہندو نام رکھنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا . صرف اس مذہب کو بدنام کرنے کا ایک سستا اور گھٹیا طریقہ ہے . ورنہ ان کا شکار ساری دنیا میں مرنے والے ہزاروں مسلمان کبھی نہ ہوتے. فرانسیسی عوام پاکستان کا درد اب اس لیئے بھی بہتر سمجھ سکیں گے کہ اس درد کی ایک لہر نے ان کے سینے پر بھی ایسا گھاو لگایا ہے جو بھر تو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے داغ چھوڑ جائے گا.
                    ..............

پیر، 16 نومبر، 2015

بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں

صرف دس  پندرہ سال پیچھے کو جایئے .صبح چھ بجے اٹھنا . نماز پڑھنا سکول جانے کی تیاری کرنا  ناشتہ کرنا آٹھ بجے ساڑھے آٹھ بجے سکول لگنا ایک.ڈیڑھ بجے سکول سے چھٹی گھر آکر منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھ کا بنا گرما گرم کھانا کھا کر ٹیوشن یا قرآن پڑھنے کو چلے جانا . چار بجے آ کر ٹی وی پر پسندیدہ کارٹون دیکھنا پھر ماں کے ساتھ کہیں آنا جانا یا ہاتھ بٹانا، ہوم ورک کرنا ،کھانا کھا کر نماز پڑھنا اور دس بجے تک سو جانا .
ماؤں  کا صبح چھ بجے آٹھ کر نماز کے بعد ناشتے کی تیاری،  سات بجھے انہیں کھلا پلا کر سکول بھیجنا، پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا،سالن چڑھا کر آٹا گوندھ لینا اور سارے برتن دھو کر، کچن کی صفائی کے بعد گھر بھر کی صفائی ستھرائی، دھلائی پوچھا کرتے ہوئے سالن بھی تیار ہوا . بچوں کے سکول سے آنے تک توے  سے گرم گرم روٹی اتار کر ہاٹ پاٹ میں روٹی کے رومال میں لپیٹ کر رکھ دی گئی . بچوں کے آتے ہی انہیں کھانا کھلا کر مسجد یا ٹیوشن بھجوا کر ان کی چیزیں سمیٹیں ،برتن دھوئے اور لیجیئے جناب شام کے لیئے سالن موجود ہے تو بے فکری سے کہیں آنا جانا کیا، بازار کا چکر لگانا ہے تو وہ ہوا ،کبھی کسی کاسویٹر بنا جارہا ہے، کبھی برنیوں  میں آچار ڈال کر انہیں دھوپ میں رکھا اور ہلایا جا رہا ہے . کہیں جام جیلی تیار ہو رہے ہیں ، کسی کے پاس بچے ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آ رہے ہیں . سارے کام رات کے کھانے کے وقت تک چلتے رہتے ہیں.
وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ اب توکسی کے پاس بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں ہے شاید  .
اس بات کا خیال اس وقت آیا جب ایک جگہ بات کرتے ہوئے پہلے اور آج کے لوگوں کی زندگی اور طرز زندگی پر بات ہونے لگی  . کہ کل تک جب بیٹی یا بیٹے کی شادی کا موقع ہوتا  تھا تو سفید بالوں اور جھریوں کی آمد بھرے کھچڑی  چہرے کا تصور ذہن میں آتا ہے . باپ کمر جھکا ہوا بزرگ سا آدمی  اور نانی یا دادی تو اس بھی چار ہاتھ آگے دانت  ٹوٹے جھکی ہوئی کمر، لاٹھی ٹیکتی ہوئی عورت، نانا دادا تو آخری درجے کی تکالیف اور بیماریوں کا مجموعہ .
لیکن آج بیٹے یا بیٹی کے بیاہ پر ایک اور نوجوان جوڑا اس دلہا دلہن سے زیادہ دلکش دکھائی دے گا معلوم ہو گا کہ یہ ہے اس دلہا یا دلہن کے اماں ،ابا..... گود میں بچہ اٹھا کوئی جوان عورت نظر آئے پوچھا آپ کا بچہ ہے جواب نہیں یہ میرا پوتا یا نواسی نواسہ ہے . حالانکہ پہلے وقتوں میں بچوں کی شادیاں بھی بہت جلد کر دی جاتی تھیں . بیٹی چودہ پندرہ کی عمر میں اور بیٹا بیس بائیس میں بیاہ دیتے اس حساب سے سال بھر میں گود میں بچے ہوئے. ..اپنی بیٹی بیاہتے ہوئے وہ لڑکی جو ماں تھی تیس سال کی ہوتی اور لڑکابھی پینتیس تک کا تو انہیں زیادہ جوان نظر آنا چاہیئے تھا . جبکہ آج کی لڑکیاں جو بائیس سے چوبیس کی عمر میں بیاہی ان پچھلی ماوں سے زیادہ حسین اور جوان دکھائی دیتی ہیں
یہ کیسا عجیب راز ہے . کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے لوگ جو زندگی سو سال میں جیا کرتے تھے وہ ہم آج کے تیز رفتار زمانے میں پچاس سال ہی میں جی چکے ہوتے ہیں اس لیئے جسمانی عمر تو پچاس سال ہی ہوتی ہے جو دکھتی بھی ہے لیکن نہ دیکھنے والے پچاس مزید سال اسی تیزی میں ہم جی چکے ہوتے ہیں . اور ہمارا دن ہمارا سورج چوبیس گھنٹے کا پھیر شاید بارہ گھنٹے میں ہی مکمل کر چکا ہوتا ہے . اسی لیئے زندگی  تو سو سال کی جی لیتے ہیں لیکن بدن پچاس برس ہی دیکھ پاتا ہے . جبھی تو بوڑھا ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا......
                ..................

پیر، 2 نومبر، 2015

رنکل کماریاں کہاں جائیں ؟؟؟





رنکل کماری کیس
ممتازملک ۔ پیرس




پاکستان کو انتہاء پسندوں اوراسلام کا نام لیکر اور کتنا برباد کیا جائے گا . اس سال  2015 کے ابتدائی مہینوں میں  اقلیتوں کے حوالے سے ہونے والا ایک اور شرمناک واقعہ ہمارا سر جھکا گیا اور حکومتی سطح پر انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں . جب رنکل کماری نامی انیس سالہ طالبہ کو سندھ کے  علاقے میرپور ماتھیلو کا بااثر آدمی نوید شاہ  اپنے غنڈوں  کیساتھ مل کر ڈراتا دھمکاتا ہے  اغوا کرتا ہے. اس لڑکی کے والد اور گھر والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور  لڑکی کومسلمان بنا کر اس سے نکاح کا ڈرامہ رچاتا ہے .  لڑکی نے عدالت میں رو رو کر دہائی دی کہ اسےدارالامان  نہیں جانا اور نہ ہی مسلمان ہونا ہے اس سے بہتر ہے کہ اسے مار ڈالا جائے.
کسقدر شرم کا مقام ہے ہمارے لیئے،
کیا جس گلی میں یہ لڑکی رہتی ہو گی وہاں اور کوئی مسلمان یا انسان نہیں رہتاہو گا ؟ کیا اس شہر میں ، قصبے میں، کسی کو اس لڑکی کے ساتھ ہونے والی  ملک بھر میں ایسی ہیرو گیری اور اصل میں غنڈہ گردی  کی خبر نہیں ہوئی ہو  گی؟ وہاں اور کوئی اس سے باخبر نہیں ہوتا ہو گا ؟ ان میں سے کتنوں نے اس پر اس  ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہو گی؟ کتنوں نے ایسی لڑکیوں اور ان کے مذہب کی حفاظت کے لیئے اپنا کردار ادا کیا ہو گا ؟
کیا ایسی  کسی بھی ہندو ، سکھ، عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم کے لیئے آواز اٹھانا بحیثیت مسلمان تو چھوڑیں بحیثیت انسان ہی اٹھانا ہم میں سے کسی کا فرض نہیں ہے ؟
گویا اس ملک کے قوانین اس قدر کمزور ہیں کہ ہر چار پیسے والا اسے اپنی لونڈی  بنا سکتا ہے. یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن اس کی روک تھام کے عملی اقدامات نہ کیئے گئے تو کوئی بھی ایسی واردات آخری نہیں ہو گی . اسلام اتنا مجبور دین  کب سے ہو گیا کہ اسے جبری مسلمان بھرتی کرنے کی ضرورت پڑ گئی ..ہمارہ دین تو وہ ہے کہ جس کے اپنی پہلی صلح اور پہلے مسلم اور کفار کے بیچ کے معاہدے میں یہ سب سے اہم شک بھی منظور کی تھی کہ ہمارا کوئی مسلمان کفار کے قبضے میں گیا تو وہ ہمیں اس کو واپس نہیں کرینگے ،جبکہ اگر کوئی کافر مسلمان ہوکے مسلمانوں کے پاس آگیا تو کفار کے مانگنے پر اسے انکے حوالے کر دیا جائیگا  .
یہ واقعہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات نے اسلام کی عظمت اور سربلندی میں اپنا  کردار ادا کیا .حالانکہ وہ لوگ  بہترین انسان بھی تھے  اور بہترین  مسلمان بھی تھے. لیکن انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ایمان میں کوئی ضد اور زبردستی نہیں .
یہ تو محبت کا سودا ہے جو انسان اپنی خوشی سے اور اپنی روح کی پکار پر کرتا ہے .
آج ہم پاکستان کو اسلام کو بدنام کر کے کس کی خدمت کر رہے ہیں ؟
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں باہر سے کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں . ہم خود ہی اپنی جہالت کے سبب اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں .
جس معاشرے میں لوگ قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے مذہب کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنا اہم سمجھ  لیتے ہیں ان معاشروں میں ایسے واقعات  نہ حیران کرتے  ہیں نہ پریشان . ہمارے ہاں کس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے . کون آیا ؟کیوں آیا ؟کس نے کیا کھایا؟ کیا پکایا؟ جیسے معاملات تو بے حد اہم ہو سکتے ہیں،کہ دیواروں سے کان جوڑ جوڑ کر اس کی سن گن لی جائے ، لیکن جہاں کسی غیر مسلم کی مدد کرنے یا اس پر ظلم ہونے کا سنتے ہیں تو گویا ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے . اور ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں . اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اس حدیث پاک کو بلکل فراموش کر دیتے ہیں کہ" جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کافر لڑکی کی پکار پر اسے بچاتے ہوئے اپنی چادر مبارک اس کے سر پر اوڑھا دی .  اور ایک آدمی نے کہا کہ  سرکار یہ تو کافر کی بیٹی ہے، تو رحمت اللعالمین نے فرمایا" بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے کافر کی ہی کیوں نہ ہو".
آج ہم معاشرے میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی عبادات اور زندگی گزارنے کے حق کو سلب کر کے نہ صرف اللہ کے گناہگار ہو رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں رسوا بھی ہو رہے ہیں اور اپنے ملک سے یہ مذہبی حسن بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں. مذہب  کے ٹھیکیداروں نے چاہے خود کبھی ایک دن میں بھی اپنے مذہبی  کیا انسانی فرائض بھی ادا نہ کیئے ہوں لیکن دوسروں سے گن پوائنٹ پر کلمہ پڑھوا کر جنت بٹورنے  کا شوق ہے کہ انہیں اپنے کالے کرتوت سفید کرنے پر اکساتا ہی رہتا ہے . کیا ہم نے مالی کرپشن کے بعد اب کردار کی کرپشن میں بھی اس دنیا کا ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کر لیا ہے؟؟؟
اتنا ہی شوق ہے کسی کو مسلمان کرنے کا تو اپنے عمل سے ایک اچھے مسلمان کی مثال بنا کر اسے اپنے کردار سے اتنا متاثر کریں کہ دوسرا انسان اس دین کو اپنانے کے لیئے کشاں  کشاں  چلا آئے. اور ہمارا دین ہی ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی مملکت میں رہنے والے غیر مسلموں کی جان ،مال اور عزت کی حفاظت کریں . یہاں تک.کہ وہ ہم سے خوف نہ کھائیں بلکہ ہماری موجودگی سے تحفظ محسوس کریں . تبھی ہم ایک اچھے مسلمان کہلا سکتے ہیں .

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

بڑے بے آبرو ہو کر۔ کالم


بڑے بے آبرو ہو کر
ممتازملک. پیرس


عمران خان نے دوسری بار بھی اپنے لیئے کسی مناسب خاتون کا انتخاب نہیں کیا . نہ انہیں اپنے خاندان کی عزت اور نام کا خیال رہا . نہ انہیں اس عورت کے کردار اور شہرت پر نظر ڈالنے کا ہوش رہا . دونوں بار مادر پھر آزاد اور بے کردار خواتین ہی زندگی میں شامل کیں . اب یہ تو ہونا ہی تھا . جس آدمی کو بارہ کروڑ پاکستانی خواتین میں سے ایک بھی خاتون اس قابل نہ لگی کہ وہ اس کے ساتھ زندگی عزت سے گزار سکتا ہے تو وہ کس منہ سے ہماری خواتین سے ووٹ مانگنے کے لیئے ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے . اور خواتین بھی کیا سوچ کر اس کی زندہ باد کرتی ہیں . یہ آج تک سمجھ سے باہر ہے .
کہنے والے یا شخصیت پرست ہم سے یہ بھی کہیں گے کہ جی آپ کو کیا یہ تو ان کا نجی معاملہ ہے . لیکن ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ جب بھی کوئی ملک کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے ہیرو کا درجہ دیتا ہے تو اس اعزاز کے بدلے میں  اس کی نجی آزادی بھی اس قوم کے نام ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی گفتار، کردار،اطوار  سب پھر اس کے ذاتی نہیں رہتے بلکہ اس ملک یا قوم کا مجموعی کردار  اسی کی ذات کے آئینے میں دیکھے اور جانچے جاتے ہیں . 
بقول عمران خان کے انہوں نے ایک پلے بوائے جیسی  جسے عام زبان  میں  بے دینی اور لوفری کی زندگی گزاری ہے . اور عیاشی کا کوئی کام نہیں چھوڑا . یہاں تک کہ ان کی والدہ ان کے سدھرنے اور کسی باکردار  پاکستانی لڑکی کو بہو بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا سے رخصت ہو گئیں . بہنوں کی رائے بھی ان کی نظر  میں ان کی زندگی کے کسی موڑ پر کبھی اہم نہیں رہی . جس کا ثبوت ان کی دوبار ایسی خواتین سے شادی کی صورت میں سامنے آیا جن کی پہچان صرف ان کا آزاد بلکہ بے حد آزاد کردار ،ان کے معاشقے  اور بے لباسی ہی رہا . وہ عمران خان جو پاکستان کے عوام کو ہر موقع پر اپنا احسان مند دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا ہو گیا . اسے کبھی اس ملک کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کا خیال نہیں آیا جو اس کے کہنے پر اسے اپنے لیئے امید کی کرن سمجھ کر اپنا مسیحا  تک بنانے کو اس لیئے تیار ہو گئے کہ ان کے پاس کوئی باکردار آدمی میدان میں تھا ہی نہیں .کیونکہ جو باکردار ہیں ان کی جیب عمران خان کی طرح نوٹوں سے بھری ہوئی نہیں ہیں . اس لیئے وہ اس میدان میں پاؤں رکھنے کا سوچنے کا بھی حق نہیں رکھتے . اور ہمارے معصوم نوجوان دن رات اس کی طرفداری میں لوگوں سے بدتمیزیاں کرتے ،سر پھاڑتے  اور  جھگڑتے  ہوئے اپنے آپ کو کس حد تک گرا لیتے ہیں کہ بس ہمارے لیڈر کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھائے . لیکن کیا کرے ان کے لیڈر کا کردار ہمیشہ "چن چڑھے کل عالم دیکھے " کے مصداق عیاں رہا ہے . اس سے یہ بات بار بار ثابت ہو جاتی ہے کہ عمران خان صرف خود سے محبت کرنے والا ایسا مغرور انسان ہے جس نے اپنے ساتھ سولہ سال جد و جہد کرنے والے ان مڈل کلاس کارکنان کو اس وقت لات مار کر کونے میں پھینک دیا کہ جب ان کی امیدوں کی کشتی پار لگنے ہی والی تھی .  سالوں کی محنت اس لیئے نہیں کی گئی تھی کہ دوسری جماعتوں کے آزمائے ہوئے ڈاکو اور لٹیرے اس جماعت کو اپنا نیا اڈا  بنا لیں . جو چلے ہوئے کارتوس اپنی جماعتوں میں پشتوں سے اس ملک کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے رہے اسے اس مغرور لیڈر نے عام آدمی کی سولہ سالہ شبانہ روز محنتوں سے ایمانداری سے بھری دودہ کی بالٹی میں  گندگی کی پوٹ کی طرح لا کر پھینک دیا اور اپنی عقل کے خوب ڈھول پیٹے کہ میں نے اس کو توڑ لیا اور اس کو موڑ لیا لیکن یہ نہ مانے کہ میں نے اپنے مخلص ترین کارکنان کو کام کا موقع آنے اور اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا وقت آتے ہی چھوڑ لیا بلکہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی .اور آزادی رائے کا ڈھنڈھورا پیٹنے  والے نے ہر اس آدمی کو چن چن کر نشانہ بنایا جس نے اس کے کسی فیصلے پر آواز اٹھائی یا احتجاج کیا. اب بھی وقت ہے عمران خان صاحب کہ اپنے غرور اور  تکبر کے زعم  سے باہر نکلیئے کہ اللہ کبھی کسی مغرور کو سزا دیئے بنا نہیں رہتا . اس ملک کا جوان اگر آپ کیساتھ کھڑا ہے تو اسے اپنی حرکتوں اور  پندرہ سالہ لونڈے جیسے کارناموں  سے مزید لوگوں سے بھڑنے اور شرمندہ ہونے پر مجبور مت کریں . آپ کی عمر کے لوگ نانا داد بنے اپنی نسلوں کو بھی سنبھالتے ہیں اور فیصلوں میں پختگی بھی دکھاتے ہیں . جبکہ آپ نے آج تک اپنی ہی ذات کے لیئے بھی کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا . آپ میں اتنی ہی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ اس ملک کی خواتین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں کہ جن کے مقابلے پر ننگی ناچنے والیاں اور ٹشو پیپر کی طرح بوائے فرینڈ بدلنے والیاں آپ کی اولین پسند بنی رہیں . اور آپ انہیں لا لا کر پاکستانی خواتین کا مذاق اڑاتے رہے ہیں  . اور دعوی یہ کہ ہم پاکستانی عورتوں اور بچوں کو انصاف دلائیں گے . افسوس صد افسوس کہ ہمیں اپ جیسے کردار اور گفتار کے آدمی کو بھی لیڈر کہنا پڑتاہے  جو اپنے گھر کابھی لیڈر نہ بن سکا جس میں اتنا حوصلہ نہیں کہ کہ اپنے گلچھڑوں کی قیمت ہی عوام کو بتا سکے کہ کون سا شوق  اسے کتنے میں پڑا .....  اور خاص طور پر یہ دو شوقین خواتین کا شوق انہیں کتنے میں۔۔۔۔
                ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2015

ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ





A HISTIRY OF DENISH LITRETURE
ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ
صدف مرزا کے قلم سے
700 صفحات پر مشتمل ایک تاریخی کتاب
ممتازملک ۔  پیرس


دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی خواتین گئیں ان میں سے سوائے انگلش بولنے والے 

ممالک کے ان خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بہت کم رہی ہے جنہوں نے ان ممالک میں

جا کر باقاعدہ وہاں کی زبانیں سیکھی ہوں ۔ یا وہاں باقاعدہ کوئی ملازمت اختیار کی 

ہو ۔ ماسوائے چند ایک خواتین کے ۔ انہی خواتین میں سے یہ تعداد اور بھی محدود 

ہو جاتی ہے جب ان کا تذکرہ علم و ادب کے حوالے سے کیا جائے ۔ بلکہ یہ کہنا بے 

جا نہ ہو گا کہ مردوں میں بھی یہ تعداد آٹے میں نمک ہی کے براہر ہے ۔ لیکن آج ہم 

خود کو بجاء طور پر بہت خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسی پاکستانی 

خاتون کے استقبال کا موقع مل رہا ہے جنہوں نے نہ صرف اردوزبان میں پاکستان 

اور جہاں جہاں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے کی ادبی دنیا میں بہت تیزی سے 

اپنی جگہ بنائی اور نام پیدا کیا .بلکہ ڈنمارک جیسے ملک میں ڈینش زبان میں نہ 

صرف مہارت حاصل کی بلکہ ڈینش اور اردو کے امتزاج سے ایک خوبصورت اور 

شاندار کتاب پر کام کیا اور اسے اس پایہ کی تخلیق بنانے کے لیئے اپنی زندگی کے 

سات سال صرف کیئے کہ جسے نہ صرف پاکستانی اور ڈنمارک کے ادبی حلقوں 

نے بھرپور پذہرائی بخشی بلکہ اسے ڈنمارک کی یونیورسٹی کے ادبی سیکشن میں 

پڑھائے جانے کے لیئے بھی بہترین کتاب قرار دیتے ہوئے اسے وہاں کے نصاب 

میں شامل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ 


یہ خاتون ہیں محترمہ صدف مرزا صاحبہ ۔ 

اب ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کسی بھی قاری کے لیئے بہت ہی مشکل ہے کہ 

یہ خاتون شاعرہ اچھی ہیں یا نثر نگار ۔ یہ مکالمہ اچھا لکھتی ہیں یا کہانی اچھی بنتی 

ہیں کیونکہ ان کی ہر تحریر شروع کرنے والے کو اختتام تک باندھے رکھنے کا ہنر 

جانتی ہے ۔ 

آج ہم جس شاندار کتاب کی پہلی بین االاقوامی تقریب رونمائی کے لیئے یہاں پیرس 

میں منتظر ہیں ۔ وہ کوئی عام سا موضوع اور سو پچاس صفحات پر مشتمل تخلیق 

نہیں ہے بلکہ سات سو صفحات پر مشتمل ایک بھرپور ضخیم کتاب ہے . جو 

ڈنمارک کی تاریخ کو مختلف حوالوں سے ستائیس حصوں میں بیان کرتی ہے ۔ اس 

کتاب میں پتھروں کے دور سے لیکر اب تک کی زبان کی ترقی کےسفر کا احوال 

بیان کیا جاتا ہے تو اس سے وابستہ ان تمام سماجی اور سیاسی حالات پر بھی نظر 

ڈالی جاتی ہے جو کہ اس سفر میں وقوع پذیر ہو رہے تھے ۔ اس کتاب میں وہ 

تاریخی حقائق بھی بڑے جامع انداز میں بیان کیئے گئے ہیں جو کہ یہاں کےہر دور 

میں ادب اور ادبی حالات پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں ۔ 

ہر ملک کی طرح ڈنمارک میں بھی وہاں کے پاسپورٹ کے لیئے وہاں کی زبان اور 

معاشرت سے آگاہی ایک بنیادی شرط ہے. تو یہ ضرورت بھی اس کتاب کے 

مطالعے سے بجا طور پر پوری ہوتی ہے . 

اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو نہ صرف ڈنمارک کے بلکہ پورے سکینڈے نیویا 

کے حالات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے .

یہاں ہم سکینڈے نیویا اور ڈنمارک کے اس زمانے میں جھانکتے ہیں جہاں وائی کنگز 

کے حالات بکھرے ہوئے ہیں تو کہیں دیو ملائی کہانیاں زندگیوں کا حصہ بنی ہوئی 

ہیں . کہیں توہم پرستی کی ایسی دنیا آباد ہے کہ کسی بھی عورت کو کوئی بھی اسکی 

کسی ہمت اور جرات کے جواب میں چڑیل قرار دلوا کر زندہ جلا سکتا تھا . ایک خاتوں کے لکھاری ہونے کا خیال یا شاعرہ ہونے کی صلاحیت بھی اس کا جرم قرار دے دی جاتی ہے. جہاں اس کی زندگی کو اس حد تک تنگ کر دیا جائے کہ وہ خود اپنی موت کو گلے لگا لے .

ڈینش بادشاہوں کے لیئے محلاتی سازشیں ہوں یا قید و بند اور جلاوطنی کی ڈراونی 

داستانیں یہ سب کچھ ایک شاعر کی نظر سے کیا منظر پیش کرتا ہے اور ایک 

شاعر کا قلم اس درد کو کیسے بیان کرتا ہے . یہ سب کچھ اور اس سے بھی کہیں 

زیادہ طلسم اس کتاب میں بند ملے گا . یہ کتاب آپ کو ایک پرانی دنیا کو نئے انداز 

میں دریافت کرنے کا موقع عطا کرتی ہے .

اس کتاب میں اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت 

تراجم بھی شامل کیئے گیئے ہیں جو ہمیں اس وقت کےزہنی معیار سے آگاہی بخشتے ہیں .
اس کتاب میں پچلھے پانچ سو سالوں میں ڈنمارک میں ہونے والے تمام شاہی ادوار کا بھرپور جائزہپیش کیا گیا ہے جو اپنے اپنے زمانوں میں ادبی کاموں پر اپنے اثرات چھوڑتے رہے ہیں۔ بادشاہوں کا یہ ہی زمانہ جب عالمی جنگوں کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو ادب کی دنیا کا انداز ایک اور رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ایک جانب لاکھوں کروڑوں لوگوں کی اموات کے نوحے سنائی دیتے ہیں تو ان گنت جدائیوں اور ناقابل یقین ملاپ کے قصے بھی نظر آتے ہیں ۔ کہیں یہ عالمی جنگیں ملکوں ملکوں تباہی کے آثار چھوڑتی اور سرحدوں کے ازسر نو تعین کی جانب انسانوں کو بڑھاتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہیں تو کہیں مختلف معاملات میں خواتین کی شمولیت کے احساس کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے مختلف تحریکوں کے آغاز کی نوید سناتی ہیں ۔ 
یہاں پر یورب بھر میں عموما اور ڈنمارک میں خصوصََا ان نسائی تحریکوں کا حوالہ دینا بھی انتہاتئ ضروری ہے جنہوں نے ٹھیک آج سے ایک صدی قبل ڈنمارک کی خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کو یقینی بنا کر ڈنمارک کی ترقی میں خواتین کے کردار  کے لیئے راستے کھولے بلکہ ان کی ہر شعبے میں شمولیت کی ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ کہ اس کے بعد خواتین کو اپنے حقوق کے لیئے ان کے تحفظ کے لیئے بے شمار راستے ملتے چلے گئے ۔ لیکن ان خواتین کی قربانیوں اور صدیوں کی جد جہد کو یہ ڈنمارک ہی نہیں بلکہ پورا یورب سلام پیش کرتا ہے ۔ کہ جس کی وجہ سے یہاں ایسے قوانین بنانے کی راہ ہموار ہوئی جس نے عورت اور بچوں کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ ان کی تعلیم اور زندگی کے ہر بنیادی حق کے حصول کے لیئے ہر قدم پر انکی پشت پناہی کی ۔ 
گویا سات سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب آپ کو ڈنمارک کے پچھلے پانچ سو سال کے ارتقائی سفر پر لیجاتی ہے ۔ جہاں ڈینش ادب آپ کو ہر رنگ کی حقیقت 
سے روشناس کراتے ہوئے تاریخ کے انمٹ نقوش آپ کے ذہن پر چھوڑتے ہوئے آپ 
کو سوچوں کے بھنور میں جُھلاتے ہوئے آج کے ڈینش اردو کے اس حسین سنگ مِیل پر لا کر حیران کھڑا کرتا ہے ۔
اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت تراجم بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہیں ۔
جس میں یہ ملاحظہ فرمایئے
Thomas Hansen Kingo 1634-1703
THOMAS KINGO
دنیا سے اکتاہٹ اورعقبی سے الفت 1634 - 1703
Hans Adolf Brorson
Hver har sin skæbne
مقدر سب کا اپنا ہے (1681) ( 1694 - 1764)

خوبصورت ترین گلاب مل گیا
ہینس ایڈولف Den yndigste Rose er funden 1732
"De levendes Land" (1824)
Nikolai Frederik Severin Grundtvig 1783 – 1872 
زندوں کا جہاں یا زندوں کی سرزمین

اکتا دینے والا زمستانی موسم رخصت ہو چکا ہے

Ambrosius Stub (1705-1758)
 1740 Den kedsom vinter gik sin gang
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Ewald, Johannes Da jeg var syg
’’ شاہ کرسچن بلند مستول کے پاس ایستادہ تها ""
جب میں علیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Johannes Ewald 1743

"GULDHORNENE" 1802
 طلائی سینگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 Adam Gottlob

کشور حسین شاد باد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ڈنمارک ، میرے اجداد کی سر زمیں
 Danmark, mit Fædreland 1850 دلکش ہے ہماری ماں بولی
 1859 Sophus Claussen سوفس کھلائوسن (1865-1931)
 ”Imperia” امپیریا 1909 Poul Henningsen 1894- 1967 1940
1915- 2004
ہمارے ہونٹوں پر مہریں لگائی جا سکتی ہیں اور ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاجوردی گلِ لالہ Den blå anemone

Kaj Munk 1943
Halfdan Rasmussen
Bare en regnvejrsaften.

1944
صرف موسمِ برسات کی ایک شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض کہ ہر نظم بے مثال ہے اور اپنے اندر ایک پورے دور کو سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے ۔ پاکستانی کی حیثیت سے آج ہم محترمہ صدف مرزا صاحبہ کے بے حد مشکور ہیں کہ جنہوں نے پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی بیٹیاں دنیا میں کہیں بھی موقع ملتے ہی اپنا ہنر منوانا اور اپنے پرچم کو سربلند کرنا خوب جانتی ہیں .
 محترمہ صدف مرزا صاحبہ ہم آپ کو پوری قوم  اور خصوصََا اہل پیرس کی جانب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آپ کی مزید ترقی کیلئے نیک خوایشات کا تحفہ آپ کی نظر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے آگے
دنیاوی تحائف بیکار نظر آتے ہیں .
پاکستان زندہ باد
پاکستانی بیٹیاں پائیندہ باد                               
                                       .....................
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/