ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 31 جنوری، 2016

علی بابا چالیس چور




علی بابا چالیس چور
ممتازملک ۔ پیرس




دیکھ لیا جناب دیکھ لیا آج اس بات کا بھی دل نے نظارہ کر لیا کہ حسین کب ، کہاں اور کیسے اکیلے کیۓ گۓ ہوں گے ۫ ، غضب خدا کا کل تک قوم کے غم میں غیظ و غضب سے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوۓ ، ایک دوسرے کا سر پھاڑتے ہوۓ ،کرسیاں چلاتے ہوۓ ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتے ہوۓ جنہیں ہم روز گھربیٹے ملاحظہ فرماتے رہے اور اپنے سگے رشتےداروں میں انہیں نام نہاد لیڈروں کے نام پر رشتے ناطے تک توڑکر بیٹھ گۓ ۔ انہیں پارٹیوں اور پارٹی لیڈروں کے عشق میں خود کو ہر لحاظ سے برباد اور بدنام اور تنہا کر لیا ان کے مگر مچھ کے آنسوؤں کو ہم نے اپنے لیۓ راہ نجات سمجھ لیا ۔ لیکن یہ کیا ہوا ایک آدمی کی جرأت نے دودن کے اندر ان کی حقیقتوں کو اس بے رحمی سے بے نقاب کر دیا کہ انہیں سے محبت کرنے والے بھی تڑپ کر رہ گۓ ۔ سب نے مل کر اپنے اپنے ڈاکو راج کے تحفظ کے لیۓ ایک علی بابا یااپنے بڑے ڈاکو کےپانچ سال کی تمام گندگیوں کو اپنے اپنے دامن میں چھپا کر یہ تک یاد رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ یہ گند نظروں سے تو چھپا لیں گے مگر اس کی بو کو کیسے اور کہاں چھپائیں گے ۔ اسے چھپانے کے چکر میں اپنے ہاتھ ہی نہیں دامن بھی گندے کر لیۓ ۔ کیا یارانہ ہے.
 میرا ایک شعر مجھے بڑی شدت سے اس موقع پر یاد آریا ہے کہ ۔۔
 ایکا کبھی اچھوں میں بھی اتنا نہیں دیکھا 
 جتنا یہ برے اپنے اصولوں کو نبھائیں
آج تمام خود کو فرشتہ ثابت کرنے والوں نے اپنے وسیع تر قومی مفاد میں قوم کی پیٹھ میں مشترکہ خنجر گھونپ دیا ۔ چالیس چوروں کے ٹولے نے اپنے الفاظ کے ہیر پھیر سے اس بات کا اعلان کر دیا کہ پاکستان میں سب اچھاہے ۔ دودہ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ سب کی عزت محفوظ ہے ۔ لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے ہیں ۔ یہاں سب لوگ اپنی اپنی بیویوں کے سوا ہر عورت کو ماں ۔ بہن اور بیٹی سمجھتے ہیں ۔ ۔ کوئ کسی سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتا قتل کا تو کوئ خواب میں بھی نہیں سوچتا ، رزق کی اتنی ارزانی ۔ اور فراوانی ہے کہ ڈاکٹروں نے کلینک اپنے باڈرز پر پڑوسی مما لک کی خدمت کے لیۓ شفٹ کر لیۓ ہیں ۔پاکستان میں لوگ چھینک بعد میں مارتے ہیں اور طبیب پہلے ہی فری سروس لے کر موجود ہوتا ہے ۔سنار اپنے دکانیں کھلے چھوڑ کر مٹر گشتی کو نکل جاتے ہیں ۔ ارے صاحب کیا کیا بتائیں ۔ یہ تارکین وطن تو گدھے ہیں انہیں کیا پتہ ان کے سامنے تو ہم ویسے ہی مزاقا کوئ نہ کوئ رونا جھوٹ موٹ کا رونے لگتے ہیں کیوں کہ ہمارے دادی جی کہا کرتی تھیں کہ اپنی خوشی کی خبریں کسی کو نہیں دیتے ورنہ نظر لگ جاتی ہے ۔ بس اسی لیۓ اتنی زیادہ ہریالی میں کبھی کبھی شوقیہ گھاس کھانے لگتے ہیں بھوک سے نہیں بلکہ ویسے ہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیۓ ۔ لہذا قوم کو بہت بہت مبارک ہو ہم سب چالیس چوروں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں آج اپنے ایکے کا اعلان کھل کے کر دیا ہے ۔ یہ جو چنددددددددددددددددد سرپھرے اکٹھے ہو کر اسلام آباد میں آگۓ ہیں انہوں نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا تھاتوبس اسلام آباد کی سیر کے شوق میں یہاں تک آپہنچے .
یہ سب اتنے مالدار ہیں کہ ان کو بڑا شوق تھا کہ دیکھیں تو ، سنا ہے دنیا میں لوگ سڑکوں پر بھی سوتے ہیں تو بس اسی تھرل کو پورا کرنے چلے آۓ ہیں لیکن فکر نہ کریں ۔ سب سڑکوں پر ان کے آنے سے پہلے کارپٹ بچھا دیۓ گۓ ہیں اور ان کے نیچے ہیٹنگ سسٹم بھی لگا گیا گیا ہے ۔آپ لوگ آرام سے گھر جائیں اور چادر اوڑھ کر سو جائیں ۔ علی باباچالیس چوروں کے راج میں
سسسسسسسسسسسب اچھا ہے .

                                                                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/