ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 31 جنوری، 2016

● (23) عقائد کا کاروبار /کالم۔ سچ تو یہ ہے



(23) عقائد کا کاروبار 
تحریر:ممتازملک۔پیرس



آئے روز اخبارات جعلی عاملوں اور بابوں کی کارستانیوں اور شیطانیوں کی خبروں سے اٹے پڑے ہیں  ۔ یہ وہ گناہ ہیں جو لوگ اپنی رضاورغبت سے کیئے جا رہے ہیں ۔ جن کے اڈے  بنا کسی روک ٹوک کے گلی گلی کھلے ہیں ۔  مگر کسی مرکزی وزیر یا کسی بھی عالم دین یا مولانا نے ان خبروں کو نوٹس کرنا تو دور کی بات اسے کسی مذمتی بیان کے قابل بھی نہیں سمجھا ۔ ہماری قوم ہر روز لاکھوں روپے ان حرام کاموں اور ڈھکوسلوں پر خرچ کر رہی ہے  یا یہ کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ اجاڑ رہی ہے ۔ جبکہ اس سے بھی سوا یہ کہ کروڑوں کی عزتیں بھی اپنی مرضی سے نیلام اور پامال کروا رہی ہے ۔ کسقدر شرمناک بات ہے کہ کوئی بھی عورت اپنی ساس بہو نند یا بھابی کی طلاق یا موت کا پروانہ لینے کے لیئے کسی بھی نام نہاد عامل کے پاس جاتی ہے اور اس گندے کام کے عوض اپنے میاں کی خون پسینے کی کمائی تو لٹاتی ہی ہے اسکی گندی خواہشوں کو بھی پورا کرتی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے مخالف کو برباد کرنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے  ۔ شاید ان میں خود سے ایسی کوئی خوبی نہیں ہوتی جو اسے ان رشتوں سے منوا سکے ۔ جبھی تو وہ اس حد تک گر جاتی ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ان  جادو ٹونے اور تعویذ گنڈوں کے چکروں میں پڑنے والی خواتین اور حضرات کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ اور انہیں شرمندہ کرنے کی نظر سے دیکھا جائے ۔ تاکہ یہ لوگ اس قبیح فعل سےباز آ سکیں ۔ نہ کہ ان کو مظلوم بنا کر پیش کیا جائے ۔ کیوں کہ ان بابوں کے ڈیرے انہیں مردوزن نے آباد کر رکھے ہیں ۔ یہ ان ٹھکانوں پر اپنے پیروں پر چل کر جاتے ہیں کوئی اغوا ہو کر نہیں جاتے کہ ان کی مظلومیت کا رونا رویا جائے ۔  ایسے مردوں کو بھی شرم دلائی جانی چاہیئے جو اولاد نہ ہونے پر بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لیجانا تو برا خیال کرتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو کسی بدکردار اور  کریح   عامل کے پاس چھوڑ کر تنہائیاں مہیا  کرنا بہت نیک کام سمجھتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں ہماری اخلاقی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  جس بھی گلی محلے میں چلے جائیں کوئی نہ کوئی بابا اپنی خدمات لیئے موجود ہے جہاں باقاعدہ ٹوکن تقسیم کیئے جاتے ہیں ۔ گھنٹوں لائنوں میں لگ کر باری کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ فجر کی نمازپڑھنے کے لیئے  چاہے آنکھ نہ کھلے لیکن ایسے بابوں کے پاس جانے کے لیئے فجر کے وقت گھروں سے روانگی ضرور ہو جاتی ہے ۔ یہ سارے  ناجائز دھندے حکومتی کارندوں کی ناک کے نیچے جاری ہیں ۔ جسکا ایک ثبوت ان سب عاملین کے اخبارات میں آنے والے روز کے اشتہارات ہیں جہاں ہر روز سالوں کے کام منٹوں میں ، محبوب آپ کے قدموں میں ، دشمن کی تباہی ، لاٹری لگوائیں جیسے اعلانات سے بھرے پڑے ہیں ۔ کیا ہمارے ارباب اختیارات یہ سب اخبارات نہیں پڑھتے اگر پڑھتے ہیں تو ان پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا ۔ کیا ہر کام اسی وقت نوٹس میں لایا جائیگا جب لوگ جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئیں گے ۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ ان تمام کالے دھندوں میں ان لوگوں کو بھی خاموشی کی قیمت ادا کی جاتی ہے ۔ آخر کیا ہے جس کی پردہ داری ہے ۔  مذہب کا نام لیکر یہ لوگ مذہب ہی کو بدنام کر رہے ہیں  ۔ پیروں فقیروں کے چکر میں آنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے اصل پیر تو ان کے اپنے گھروں میں موجود ہیں جنہیں ان لوگوں نے کبھی عزت کرنا تو دور محبت سے بات کرنے کے قابل بھی نیہں سمجھا ۔ ہمارے اپنے ماں باپ سے بڑا دنیا میں کوئی پیر نہیں ہے۔ کبھی ان سے مسکرا کر بات تو کر کے دیکھیں ۔  کبھی ان کے ہاتھ پاؤں داب کر دیکھیں ۔ ان کے لیئے کوئی جوڑا بنا کر پہنائیں ۔ ان کی دوا دارو کا خیال رکھیں  ۔ یقین کریں ۔ دنیا میں ماں باپ کی خدمت کرنے والے کو کسی پیر فقیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس کے کام خدائے پاک کی مہربانی سے خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں ۔  ماں باپ کی عینک بنوانے کے لیئے یا دوا کے لیئے جن کی جیب سے ٹکا نہیں نکلتا وہ کس طرح ہزاروں روپے ان ناپاک بابوں کے آستانوں پر لٹا آتے ہیں ۔  شاید یہ بھی خدا کی جانب سے ہی کوئی سزا ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے والدین کو کونے میں ڈال دیتے ہیں انہیں ایسے ہی ناپاک رہنما مل جاتے ہیں جو ان کی زندگیوں کو بھی کچرے کا ڈبہ ہی بنا دیتے ہیں ۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کو ماں باپ کی خدمت کر کے موسی کے پڑوسی جیسا مرتبہ لینا ہے یا پھر  ماں پاب کا نافرمان بن کر ساری زندگی ان بدعمل لوگوں کے ہاتھوں برباد ہونا ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء 
●●●


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/