ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

بڑے بے آبرو ہو کر۔ کالم


بڑے بے آبرو ہو کر
ممتازملک. پیرس


عمران خان نے دوسری بار بھی اپنے لیئے کسی مناسب خاتون کا انتخاب نہیں کیا . نہ انہیں اپنے خاندان کی عزت اور نام کا خیال رہا . نہ انہیں اس عورت کے کردار اور شہرت پر نظر ڈالنے کا ہوش رہا . دونوں بار مادر پھر آزاد اور بے کردار خواتین ہی زندگی میں شامل کیں . اب یہ تو ہونا ہی تھا . جس آدمی کو بارہ کروڑ پاکستانی خواتین میں سے ایک بھی خاتون اس قابل نہ لگی کہ وہ اس کے ساتھ زندگی عزت سے گزار سکتا ہے تو وہ کس منہ سے ہماری خواتین سے ووٹ مانگنے کے لیئے ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے . اور خواتین بھی کیا سوچ کر اس کی زندہ باد کرتی ہیں . یہ آج تک سمجھ سے باہر ہے .
کہنے والے یا شخصیت پرست ہم سے یہ بھی کہیں گے کہ جی آپ کو کیا یہ تو ان کا نجی معاملہ ہے . لیکن ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ جب بھی کوئی ملک کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے ہیرو کا درجہ دیتا ہے تو اس اعزاز کے بدلے میں  اس کی نجی آزادی بھی اس قوم کے نام ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی گفتار، کردار،اطوار  سب پھر اس کے ذاتی نہیں رہتے بلکہ اس ملک یا قوم کا مجموعی کردار  اسی کی ذات کے آئینے میں دیکھے اور جانچے جاتے ہیں . 
بقول عمران خان کے انہوں نے ایک پلے بوائے جیسی  جسے عام زبان  میں  بے دینی اور لوفری کی زندگی گزاری ہے . اور عیاشی کا کوئی کام نہیں چھوڑا . یہاں تک کہ ان کی والدہ ان کے سدھرنے اور کسی باکردار  پاکستانی لڑکی کو بہو بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا سے رخصت ہو گئیں . بہنوں کی رائے بھی ان کی نظر  میں ان کی زندگی کے کسی موڑ پر کبھی اہم نہیں رہی . جس کا ثبوت ان کی دوبار ایسی خواتین سے شادی کی صورت میں سامنے آیا جن کی پہچان صرف ان کا آزاد بلکہ بے حد آزاد کردار ،ان کے معاشقے  اور بے لباسی ہی رہا . وہ عمران خان جو پاکستان کے عوام کو ہر موقع پر اپنا احسان مند دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا ہو گیا . اسے کبھی اس ملک کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کا خیال نہیں آیا جو اس کے کہنے پر اسے اپنے لیئے امید کی کرن سمجھ کر اپنا مسیحا  تک بنانے کو اس لیئے تیار ہو گئے کہ ان کے پاس کوئی باکردار آدمی میدان میں تھا ہی نہیں .کیونکہ جو باکردار ہیں ان کی جیب عمران خان کی طرح نوٹوں سے بھری ہوئی نہیں ہیں . اس لیئے وہ اس میدان میں پاؤں رکھنے کا سوچنے کا بھی حق نہیں رکھتے . اور ہمارے معصوم نوجوان دن رات اس کی طرفداری میں لوگوں سے بدتمیزیاں کرتے ،سر پھاڑتے  اور  جھگڑتے  ہوئے اپنے آپ کو کس حد تک گرا لیتے ہیں کہ بس ہمارے لیڈر کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھائے . لیکن کیا کرے ان کے لیڈر کا کردار ہمیشہ "چن چڑھے کل عالم دیکھے " کے مصداق عیاں رہا ہے . اس سے یہ بات بار بار ثابت ہو جاتی ہے کہ عمران خان صرف خود سے محبت کرنے والا ایسا مغرور انسان ہے جس نے اپنے ساتھ سولہ سال جد و جہد کرنے والے ان مڈل کلاس کارکنان کو اس وقت لات مار کر کونے میں پھینک دیا کہ جب ان کی امیدوں کی کشتی پار لگنے ہی والی تھی .  سالوں کی محنت اس لیئے نہیں کی گئی تھی کہ دوسری جماعتوں کے آزمائے ہوئے ڈاکو اور لٹیرے اس جماعت کو اپنا نیا اڈا  بنا لیں . جو چلے ہوئے کارتوس اپنی جماعتوں میں پشتوں سے اس ملک کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے رہے اسے اس مغرور لیڈر نے عام آدمی کی سولہ سالہ شبانہ روز محنتوں سے ایمانداری سے بھری دودہ کی بالٹی میں  گندگی کی پوٹ کی طرح لا کر پھینک دیا اور اپنی عقل کے خوب ڈھول پیٹے کہ میں نے اس کو توڑ لیا اور اس کو موڑ لیا لیکن یہ نہ مانے کہ میں نے اپنے مخلص ترین کارکنان کو کام کا موقع آنے اور اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا وقت آتے ہی چھوڑ لیا بلکہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی .اور آزادی رائے کا ڈھنڈھورا پیٹنے  والے نے ہر اس آدمی کو چن چن کر نشانہ بنایا جس نے اس کے کسی فیصلے پر آواز اٹھائی یا احتجاج کیا. اب بھی وقت ہے عمران خان صاحب کہ اپنے غرور اور  تکبر کے زعم  سے باہر نکلیئے کہ اللہ کبھی کسی مغرور کو سزا دیئے بنا نہیں رہتا . اس ملک کا جوان اگر آپ کیساتھ کھڑا ہے تو اسے اپنی حرکتوں اور  پندرہ سالہ لونڈے جیسے کارناموں  سے مزید لوگوں سے بھڑنے اور شرمندہ ہونے پر مجبور مت کریں . آپ کی عمر کے لوگ نانا داد بنے اپنی نسلوں کو بھی سنبھالتے ہیں اور فیصلوں میں پختگی بھی دکھاتے ہیں . جبکہ آپ نے آج تک اپنی ہی ذات کے لیئے بھی کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا . آپ میں اتنی ہی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ اس ملک کی خواتین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں کہ جن کے مقابلے پر ننگی ناچنے والیاں اور ٹشو پیپر کی طرح بوائے فرینڈ بدلنے والیاں آپ کی اولین پسند بنی رہیں . اور آپ انہیں لا لا کر پاکستانی خواتین کا مذاق اڑاتے رہے ہیں  . اور دعوی یہ کہ ہم پاکستانی عورتوں اور بچوں کو انصاف دلائیں گے . افسوس صد افسوس کہ ہمیں اپ جیسے کردار اور گفتار کے آدمی کو بھی لیڈر کہنا پڑتاہے  جو اپنے گھر کابھی لیڈر نہ بن سکا جس میں اتنا حوصلہ نہیں کہ کہ اپنے گلچھڑوں کی قیمت ہی عوام کو بتا سکے کہ کون سا شوق  اسے کتنے میں پڑا .....  اور خاص طور پر یہ دو شوقین خواتین کا شوق انہیں کتنے میں۔۔۔۔
                ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/