ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 دسمبر، 2018

ہر سال کی طرح ۔ سراب دنیا


 ہر سال کی طرح 
(کلام/ممتازملک۔پیرس )


آیا تھا دھوم دھام سے ہر سال کی طرح 
یہ سال بھی گزر گیا ہر سال کی طرح




باتیں بہت سی اب بھی ادھوری ہی رہ گئیں 
جوتھیں اہم وہ اب بھی ضروری ہی رہ گئیں 
پہچانے لوگ بھی کئی انجان ہو گئے
چپکے ہوئے تھے دل سے جو جنجال کی طرح

یہ سال بھی گزر گیا ہر سال کی طرح


اک ایک کرکے ہم نے نگینے گنوا دیئے
منزل کوجانے والے سفینے گنوا دیئے
ہے کل کی بات پہلا مہینہ شروع ہوا
اب آخری ہےسرکسی بےتال کی طرح 

یہ سال بھی گزر گیا ہر سال کی طرح


جیسے کہ اس سے پہلےکے پتھر کہیں گرے 
اب کے برس کا سنگ بھی جا کر وہیں گرے 
ممتاز پا سکا نہیں گہرائی وقت کی  
عمر حیات کے کسی پاتال کی طرح


یہ سال بھی گزر گیا ہر سال کی طرح 
۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ، 28 دسمبر، 2018

گھٹن


گھٹن
گھر چاہے کتنے بھی کشادہ ہوں سوچ اگر گھٹی ہوئی اور پست ہو تو وہ اس گھر کی فضا میں بھی گھٹن بن کر پھیل جاتی ہے،  جو نظر تو نہیں آتی لیکن انسان کا دم گھونٹ دیتی ہے ۔  
MumtazMalikParis.BlogSpot.com


منگل، 25 دسمبر، 2018

ہے کوئی میرے قائد جیسا۔۔۔/کالم



  ہے کوئی
 میرے قائد جیسا  ۔۔۔
    (تحریر: ممتازملک ۔ پیرس )




   مسلمان دنیا کی وہ خوش نصیب امت ہے  جس کے لیئے اللہ نے  دین پسند کیا تو سب سے بہترین ،
کتاب پیش کی تو آخری مکمل اور ہمیشہ رہنے والی، ان کے لیئے  خوراک  پسند کی تو صاف ستھری اور لذیذ، حلال اور پاکیزہ ، 
لباس پسند کیا تو بہترین مکمل اور ڈھکا ہوا تاکہ کوئی میلی نظر کیا سوچ بھی اسے چھو کر میلا  نہ کر سکے،نبی دیا تو ایسا کہ کائنات میں جس سے زیادہ بہترین کا تصور ہی نہیں رہا ۔  بحیثیت مسلمان ہمیں بھی  یہ سب کچھ ملا لیکن ہم پاکستانیوں پر اللہ نے ایک اور عظیم احسان فرما کر ہمیں مذید اپنے کرم سے نواز دیا وہ کیسے ؟
  ہمیں محمد علی جناح کی صورت میں دنیا کے
  سب سے بہترین رہنما اور انسان عطا فرما دیا ۔ جنہیں ہم قائد اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جیسا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذات و کردار میں ان کا کوئی  بڑے سے بڑا دشمن بھی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی  کبھی کوئی نقص نہیں نکال سکا ،اس  طرح قائد اعظم کے کردار ،افعال و اعمال میں سے آج تک ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی عیب نہیں نکال سکا۔ 
بظاہر انگریزی بولنے والے اور انگریزی لباس پہنے والے جناح نے اپنی عملی و گھریلو زندگی کے ایک ایک قدم   پر  اپنے عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا بھرپور  ثبوت پیش کیا ۔ چاہے  پھر وہ سولہ برس کی عمر میں علم حاصل کرنے کے لیئے دور دراز کا سفر اختیار کرنا ہو ،
یونیورسٹی کے انتخاب کے وقت اس کے دروازے پر کلمہ کندہ دیکھا ہو،
اپنی عبادات کی تشہیر نہ کرنا ہو ،
سچ بولنا ہو، سچی گواہی دینا ہو ، حق کے لیئے آواز بلند کرنا ہو ، ظالم ے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہو، قوم کی رہنمائی کرنا ہو ،یا انہیں ان  کی منزل تک پہنچانا ہو ۔۔۔
غرض کہ قائد کی زندگی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک بہترین عملی نمونہ تھی ۔ آج ان کی وفات کے ستر سال بعد بھی کوئی ان کا  انسانی اور اخلاقی کمزوری کا یا ہلکے  اور عامیانہ پن  کا ذرا سا بھی الزام نہیں لگا سکا۔ جس نے اس قوم کی انگلی آگ کے سمندر میں تھامی اور محض سات برس کے عرصے میں دنیا کے نقشے پر دنیا کا سب سے بڑا مسلمان آبادی والا ملک نمودار کر دیا ۔ سبز ہلالی پرچم نبی پاک کی محبت میں ایک اور نشانی دے گئے۔  
آج جس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا کر خود کو یا کسی دوسرے کو قائد اعظم کی برابری پر کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کرنے لگتا  ہے ۔ اس سے بڑی قائد کی کیا توہین ہو سکتی ہے ۔ 
اس ملک پاکستان کے روحانی و مذبی رہنما اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں یا سیاسی رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ہوں ۔۔دونوں ہی بے مثال ہیں، با کردار ہیں ، باحیا ہیں ، سچے ہیں،  ایماندار  ہیں ، دیانت دار ہیں ، بااخلاق ہیں، حسن اخلاق کا نمونہ ہیں ، مہذب ہیں ، عوام کا مال کھانے کے تصور سے بھی دور ہیں ۔
لیکن افسوس ہماری امت اور ہماری قوم دونوں ہی ان سے محبت کے دعوی تو بلندوبانگ کرتے ہیں لیکن عملی طور ہر انہیں دونوں کے نظریات و کردار کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیسے ؟ 
اوپر دی گئی ہر بات کا الٹ کر کے ۔۔۔۔
ان سے محبت کا ثبوت وقت ہم سے آج جتنی شدت سے مانگ رہا ہے شاید اس سے پہلے  اتنی شدت سے کبھی نہ مانگا ہو ۔۔
کھلا چیلنج ہے ہر شعبہ زندگی میں بلکہ بائیس کروڑ عوام میں سے بتائیں  ایک بھی انسان کلی طور  پر
ہے کوئی میرے قائد جیسا 
تو سامنے لائیں ۔۔۔۔ہم سمجھیں گے زندگی بیکار نہیں گئی ۔۔۔۔۔۔۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے وطن کا ۔۔۔۔ سراب دنیا


میرے وطن کا خیال رکھنا 
کلام/ممتازملک. پیرس

🌹میرا تو دن رات ہے وظیفہ ,میرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو
 یہ ایک ہی تو سوال رکھنا

🌹کسی کی امداد پر جیئیں نہ
کسی سے مانگیں مدد کبھی نہ
ہر ایک فرد وطن کے اندر 
کوئی نہ کوئی کمال رکھنا

🌹ہمارے وعدوں کا پاس رکھنا ہمارے لفظوں کا مان رکھنا
ہمارے دشمن کو زیر رکھنا
ہماری عظمت بحال رکھنا

🌹جو تیری رحمت سے نہ ہوخالی تیرے کرم سے قریب تر ہو
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو
 ہمارے سر پر وہ ڈھال رکھنا

🌹بہت ہوا ہے سفر دکھوں کا
 بہت سے صدمے اٹھا چکے ہیں 
ہمیں تو دنیا کے واسطے اب
محبتوں کی مثال رکھنا

🌹 وہ جن کے باعث جہان بھر میں
مذاق بنتے رہے ہمیشہ 
وہ سارے کِینے حسد دلوں کے
 وہ بغض دل سے نکال رکھنا

🌹اے آنے والی ہماری نسلو
 تم  اپنے اخلاق اور عمل سے 
جو ہم سے پورے نہ ہو سکے تھے
وہ خواب سارے سنبھال رکھنا

🌹وہ جسمیں ہم بڑھتے جائیں آگے
رکیں نہ ممتاز  آئیں آگے 
ہر اک زمانہ ہو وہ زمانہ
ہر ایک سال ایسا سال رکھنا

میرا تو دن رات ہے وظیفہ
میرے وطن کا خیال رکھنا 
    -------

پیر، 24 دسمبر، 2018

خصوصی دعائیہ تقریب



خصوصی دعائیہ تقریب 
رپورٹ: ممتازملک۔پیرس 



کل 24 دسمبر 2018ء بروز اتوار  فرانس میں پاکستانی  خواتین ممتاز ملک اور شمیم خان  کی 
تنظیمات "راہ ادب" اور "فم دو موند" کی جانب سے ایک خصوصی دعائیہ تقریب کا انعقاد محترمہ شمیم خان صاحبہ کی رہائشگاہ پر  کیا گیا ۔ 


جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام میں قران خوانی اور نعت خوانی کا اہتمام کیا گیا ۔ 
پروگرام میں 16 دسمبر  کے حوالے سے سقوط ڈھاکہ، آرمی پبلک اور باجوڑ سکولز اور ملک بھر کے شہداء کے لیئے خصوصی دعا کی گئی ۔ جب کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے حوالے سے ان کے درجات کی بلندی کے لیئے بھی خصوصی دعا کی گئی ۔

 پروگرام میں شمیم خان ، ممتاز ملک ، روحی بانو،مہتاب بیگم، سعدیہ بیگم ، صائمہ بابری، روما رضوان  اور بہت سی دوسری خواتین نے بھرپور شرکت کی۔ پروگرام کے اختام پر سبھی خواتین کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا اور  انکو پرتکلف عشائیہ دیا گیا ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 19 دسمبر، 2018

بچوں کو باخبر کریں



بچوں کو باخبر کریں 
ممتاز ملک . پیرس 

میں  سالوں سے یورپ میں رہتی ہوں. یہاں میں نے بہت کچھ سیکھا . اور یہاں آنے کے بعد باقاعدہ گھرداری کا آغاز کیا . یہاں پر بہت خود اعتماد اور دبنگ ہونے کےباوجود اپنے گھر کے خود سے ہی کچھ اصول بنا لیئے. جس میں کچھ یہ تھے . کہ 
1-   جب میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں تو کبھی کسی  اکیلے مرد کے لیئے  دروازہ نہیں کھولا جب تک ان کی بیگم ساتھ نہ ہوں .
2-    کسی نے آنا ہے اکیلے دوست عزیز ہیں تو  فون کر دیتے اور میرے شوہر گھر کے نزدیکی کیفے پر بیٹھ کر گپ شپ لگا کر چائے  کافی پلا کر رخصت کر دیتے . اور ان کی بیگم ہا بچے ساتھ ہوں تو اپنے گھر پر بلایا . عزت کی . خاطر کی .
3-   بچوں کو یہاں خود سکول لانا لیجانا ہوتا ہے . سکول ٹیچر کے ہاتھ میں بچے  کا ہاتھ دیکر آنا ہے اور چھٹی کے وقت گیٹ پر کلاس ٹیچر ہی بچے کو اس کی ماں کے حوالے کرتی ہیں . 
4-  ذرا بڑے ہوئے  سات آٹھ سال کے تو  بچے کو یہ بات ذہن نشیں کروادینا کہ کہ کوئی بھی آ کر آپ کو گیٹ پر کہے کہ تمہاری ماما یا پاپا آئے ہیں اور تمہیں بلا رہے  ہیں تو اس کو سختی سے رد کرو اور کہو میرے  ماما یا پاپا مجھے خود گیٹ سے لینے آئیں گے تو ہی ہم جائینگے آپ فکر مت کریں .
5-  گارڈئین کی آنکھوں کے سامنے گیٹ کے باہر  ہمارے آنے تک  کھڑے رہیں .
.   یہاں پر جب تک کوئی گھر کا بڑا ماں باپ یا بھائی یا 

بڑی بہن اٹھارہ سال سے اوپر کے ساتھ نہ ہوں تو انہیں اکیلے کھیل کے میدان میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے . تاکہ بچہ ان کی کی نگاہ میں رہے .
6- آج تک ہم نے کبھی کسی کے گھر میں خود ساتھ نہیں ہیں تو اپنے  بچے نہیں چھوڑے .
7- رات بارہ بجے چاہے دو بجے بھی واپس پہنچیں تو بھی اپنے ہی گھر آکر سوتے ہیں . 
8- آج تک میں  نے اپنے بچوں کو ماں یا باپ کی غیر موجودگی میں کسی قریبی سے قریبی لڑکے یا مرد کے لیئے بھی دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں دی ہے . چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا.  
یہاں تک کہ اگر چھوٹے تھے اور قاری صاحب بھی پڑھانے آئے تو انہیں  بند دروازے سے ہی کہہ دیا . سوری قاری صاحب ہمارے ماما پاپا ابھی گھر پر نہیں ہیں . وہ آئیں گے تو ہی دروازہ کھلے گا . 
اور قاری صاحب نے باہر ہی کھڑے ہو کر ہمیں فون کیا اور  ہمارا انتظار کیا . میں نے قاری صاحب کو بتا دیا کہ قاری صاحب میں اس پر آپ سے بلکل معذرت خواہ نہیں ہوں کیونکہ آپ اپنے وقت سے آگے پیچھے آنے کے عادی ہیں سو اگر ہم دونوں میاں بیوی میں سے کوئی نہیں ہے تو آپ کو انتظار کرنا پڑیگا . اور وہ مانے. دروازے کے باہر ہمارا انتظار کیا اور  ہمارے پہنچنے پر ہی ہماری آواز ہر بچوں نے ہمارے گھر کا دروازہ کھولا . جسے بعد میں قاری صاحب نے بھی مسکرا کر سراہا
ہر کام دوسرے کے لحاظ میں کرنے کا نہیں ہوتا . خاص طور پر جہاں معاملہ ہو اپنی یا کسی اور کی عزت اور جان بچانے یا  اس کی حفاظت کا . 
اب اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہ لیا جائے کہ بچوں کو قید کر لیا جائے اور اسے کسی سے ملنے کا قطعا کوئی موقع ہی نہ دیا جائے  انہیں ان کے دوستوں کے والدین اور خاندان کو جاننے کے بعد ملنے جلنے کی اجازت دیں .
 ان کی سالگرہ یا کوئی اچھے پروگرامز میں شرکت کا بھرپور موقع دیجیئے، سیر کے پروگرامز بنائیے ،
سب کچھ کریں . لیکن اپنے بچوں کو اپنی نگاہ کے سامنے رکھیں.
انہیں بتائیے کہ دوسروں کیساتھ کب کس حد تک نزدیک ہونا ہے اور کب کس حد پر آ کر خطرے کی بو محسوس  کرنی ہے .  
 اسے خطرہ محسوس ہونے پر اپنے بچاؤ کا طریقہ سکھائیں. 
شور مچانا ،کسی کو اپنی مدد کے لیئے پکارنا، 
 خود کو خطرے کی حدود سے باہر نکالنا،
 اپنے خاندان اور اچھے دوستوں اور پولیس کے نمبرز اور دو چار پتے  زبانی یاد ہونے چاہیئیں
 تاکہ اگر آپ کے پاس کبھی موبائل فون  موجود نہ بھی ہو تو آپ کسی بھی نزدیکی ممکنہ  فون یا موبائل سے اپنے پیاروں کیساتھ رابطہ کر سکیں   . 
اپنے بچے کو پرائیویٹ پارٹس اور گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے آگاہ کریں . اسے کسی کی بری  نگاہ کی  پہچان کروائیں . 
ویسے بھی ہم پاکستان جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ اصل میں تو یورپئین ماحول میں ہمارے پاکستانی رہتے ہیں . اس قدر آزادی بلکہ مادر پدر آذادی اب پاکستانی معاشرے میں ہو چکی ہے کہ انہیں اب ایسے کسی حادثے پر بلکل بھی حیران نہیں ہونا چاہیئے .
اللہ پاک ہماری عزتوں کے حفاظت فرمائے . آمین
                          ------------------

http://urdunetjpn.com/ur/2018/01/29/mumtaz-malik-from-paris-france-2/

منگل، 18 دسمبر، 2018

ماہ دسمبر ۔ سراب دنیا


ماہ دسمبر
(کلام/ممتازملک۔پیرس)




🌨دے خود احتسابی کا موقع برابر
وہ جاڑےکاموسم وہ ماہ دسمبر

جوچلتی رہیں سال بھرتھم گئی ہیں
جو بہتی رہیں سال بھرجم گئی ہیں
نہیں ہے کوئی ایک یہ غم کئی ہیں
میرے حوصلے آزمانے کے دم پر

🌨وہ جاڑے کا موسم وہ ماہ دسمبر


یہ یادوں کا بھی کیا غضب سلسلہ ہے  
بظاہر جدا ہیں مگر دل ملا ہے
جہاں پاوں رکھا وہیں گل کھلا ہے
جو خوش رنگ قصے سناتا ہے امبر 

🌨وہ جاڑے کا موسم وہ ماہ دسمبر


بہت فائدے ساتھ لاتا یہ موسم
کہ اشکوں کوکھل کربہاتا یہ موسم
جبھی شام لمبی بچھاتا یہ موسم
ہے سوچوں  پہ ممتاز قابض ستمگر
🌨وہ جاڑے کا موسم وہ ماہ دسمبر 
                    ۔۔۔۔۔۔۔                      

اتوار، 16 دسمبر، 2018

انٹرویو میگزین باب دعا





سوال نامہ
انٹرویو ثوبیہ خان


1۔ بابِ دعا : آپ کا نام اور آپ کا قلمی نام؟
# ممتازملک
2.باب دعا: تعلیم کہاں تک حاصل کی ؟
# بی اے پرائیویٹ 
3۔بابِ دعا: آپ کے لکھنے کی ابتدا کیسے اور کب ہو ئی ؟
# بچپن میں ہی جب سوچنا شروع کیا تو سمجھنا بھی شروع کیا ۔ اپنے دل کی بات پہلے صرف اپنے لیئے لکھنا ایک مشغلہ تھا جو وقت کے ساتھ جینے کا مقصد لگنے لگا ۔
4۔ بابِ دعا: کیا آپ کے خاندان میں کوئی شاعر یا ادیب ہے؟ ؟
شاید ہاں ۔ لیکن مجھے ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا علم نہیں ہے ۔
5۔ بابِ دعا: آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہوچکی ہیں؟
3 کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 2 شعری مجموعے بنام
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
2011 میں چھپی۔
2۔ میرے دل کا قلندر بولے
2014 میں چھپی۔
3۔ سچ تو یہ ہے (مجموعہ مضامین)
2016 میں چھپی۔
۔اور چوتھی کتاب طباعت کے مراحل میں ہے ۔
6۔ بابِ دعا : پسندیدہ شاعر کون ہے کس سے متاثر ہوئے ؟
محسن نقوی ، حبیب جالب، منیر نیازی، احمد فراز
7۔ بابِ دعا: زندگی کا فلسفہ
بتائیں ۔ آپکی کی نظر میں؟
زندگی درد کی کہانی ہے
وہ جو ہنس ہنس کے اب سنانی ہے
کتنے ابواب  کو چھپانا ہے 
اور کتنی ہے جو بتانی ہے
(ممتازملک )
8۔ بابِ دعا: معاشرہ کسے کہتے ہیں ؟
#انسانوں کا ایک ہجوم جسے کچھ اصول و ضوابط کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ کیا جائے ۔
9۔ بابِ دعا : آج کے دور میں شعراء بھی ہیں ادیب بھی ہیں کتابیں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن تہذیب کم ہوتی جارہی ہے کیوں ؟
کیونکہ اکثر جو لکھا اور  کہا جا رہا ہے وہ لکھنے اور کہنے  والے کے اپنے  کردار میں نظر نہیں آ رہا ۔
10۔ بابِ دعا: آج کل کے ملکی حالات پر آپ کیا کہنے چاہیں گے ؟
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔
11۔ بابِ دعا : دورِ عروج کے ادب اور زوال یافتہ معاشرے کے ادب میں کیا فرق ہے ؟
دور عروج کے ادب نے لوگوں کو زندگی کے مقاصد سے روشناس کیا ۔ اور دور زوال کے معاشرے کے  ادب نے لوگوں کو حقیقت سے دور مصنوعی دنیا کا باسی بنا دیا۔
12۔ بابِ دعا : آپ کے خیال میں اچھا ادب کیا ہے اور برا ادب کیا ہے ؟
# اچھا ادب مثبت رہنمائی کرتا ہے جبکہ برا ادب بھٹکاتا ہے، برباد کرتا ہے۔ بے چینی پیدا کرتا ہے ۔ 
13 بابِ دعا: پسندیدہ کتاب یا ناول کونسا ہے ؟
ہر کتاب ایک استاد ہے جو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے اس لیئے میں ہر کتاب کو پسند کرتی ہوں ۔
14۔ بابِ دعا: اردو زبان کا مستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟
# اردو کا مستقبل خود پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی زبان سے محبت کرنا شروع کریں گے تو اس کا مستقبل بہت روشن ہو گا ۔
15 بابِ دعا : فیس بک کی شاعری کو آپ کیسا دیکھتے ہیں اور فیس بُک کی وجہ سے کیا نقصان پہنچا ہے ادب کو اور کیا فائدہ ہے؟
# فیس بک پر ہر طرح کے لوگ اپنا ذوق سخن آزما رہے ہیں ۔ فیس بک ک طفیل ایڈیٹرز کی من مانیاں یا مجبوریاں اب ختم ہو چکی ہیں ۔ اب ہر انسان اپنا کام براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کر سکتا ہے ۔ اس سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے شوقیہ شاعر وقت کیساتھ خاموش ہو جاتے ہیں ۔ فضول بے مقصد شاعری خود بخود  رد ہو جاتی ہے ۔ کام وہی باقی رہیگا جس میں دم ہو گا ۔ ہاں لیکن کچھ بے شرم لوگ جو جبری شاعر  ہوتے ہیں وہ چوری کے دم پر اپنا نام بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس پر سائیبر کرائم کو مذید فعال ہونا پڑے گا اور ایک بار جو شاعری کسی کے نام سے پوسٹ ہو چکی ہو  اسے کسی اور کے نام سے قطعا پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہییے ۔ اس پر ماہرین کو فیس بک والوں کیساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔
مجموعی طور پر فیس بک نے لوگوں کو اپنے خیالات و نظریات کھل کر بیان  کرنے کی ہمت اور حوصلہ افزائی بخشی ہے ۔ اپنا اخلاق اور تہذیب دنیا کے سامنے پیش کرنا اب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
16۔ بابِ دعا :شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے شاعری کیا ہوتی ہے ؟
# شاعری کسی عام انسان پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔ پیغمبر پر اللہ کا پیغام وحی بن کر اترتا ہے تو شاعر پر شعر بن کر۔
ایسا نہ ہوتا تو ہر شخص شاعر ہوتا۔ 
17 بابِ دعا : کوئی ایسے لمحات یا دور جس کے آنے کی خواہش ہو ؟
میں اپنی  زندگی ہی میں اپنی تحریروں سے لوگوں کے منفی اذہان  اور رویوں کو مثبت رخ پر بدلتے دیکھنے کی خواہشمند ہوں ۔
18۔ بابِ دعا ادب کے فروغ کے حوالے سے  کیا تجاویز  دیں گے؟
# معاشرے کی برائیوں کو اجاگر کیجیئے اور برے رسوم و رواج  کے خاتمے کے لیئے جہاد سمجھ کر لکھیئے۔ اپنی تحریروں کو صدقہ جاریہ جانیئے ۔ 
19۔ بابِ دعا کمپیوٹر کے آنے سے ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
# سب سے برا اثر تو یہ پڑا کہ پہلے سو میں سے بیس لوگ کتاب خریدتے تھے اب دو خریدتے ہیں ۔ پڑھنے سے چڑ ہماری قوم کو پہلے بھی تھی اب تو وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ۔ ہر ایک اپنے آپ کو بنا پڑھے ہی علامہ سمجھتا ہے ۔
اور اچھا اثر یہ پڑا ہے کہ دنیا بھر کا علم آپ کی ایک کلک پر موجود یے ۔ اب یہ آپ پر منحصر یے کہ آپ اس علم سے مستفید ہونا  چاہتے ہیں یا نہیں ۔
20۔ بابِ دعا:  نوجوان نسل کے لئے کوئی پیغام ؟
# اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔ سو منہ کھولنے سے پہلے اپنے خاندان پر ایک  نظر ڈال لیا کریں ۔ اور یاد رکھیئے
باادب بانصیب بےادب بےنصیب
شکریہ
دعّاعلی

ہفتہ، 15 دسمبر، 2018

تعلیم قرضوں کا اجراء کیجیئے



تعلیمی قرضوں کا اجراء
تحریر/ممتازملک۔ پیرس



ہمارے ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ جس میں بنیادی تعلیمی نصاب ، تعلیمی زبان ، یکساں تعلیمی نصاب، ہنر مندانہ تعلیم، باقاعدہ بین الاقوامی للسانی کورسز، دینی تعلیم کو باقاعدہ سرکاری سکولز میں ضم کرنا شامل ہیں ۔ 

پاکستان میں  جہاں سکول جانے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد مختلف وجوہات کے سبب سکول سے باہر ہے تو وہیں کالج جانے والے بچوں کی تعداد بھی میٹرک پاس کرنے کے بعد آدھی کے قریب رہ جاتی ہے۔  اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ مالی معاونت کا نہ ہونا ہے۔ کالج جانے سے پہلے ہی ان پر گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔ وہ بچے یا طلباء و  طالبات جو کسی وجہ سے کالج کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز نہ سکے لیکن تعلیم حاصل کرنے کی لگن رکھتے ہیں  ان کے پاس کالج میں داخلے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے وہ پڑھنا چاہتے ہیں تو  پرائیویٹ امتحانات کی تیاری کر کے ہی امتحان دے سکتے ہیں ۔  اور پرائیویٹ طلبہ کے لیئے ریگولر طلبہ سے ذیادہ داخلہ فیس بھی وصول کی جاتی ہے اور دس میں سے آٹھ طباء کو کسی نہ کسی مضمون میں سیپلی ضرور ہی بھیجی جاتی ہے ۔ شاید ان کے ذہن میں پرائیویٹ امتحانات دینے والے کا تصور کسی فارغ مالدار کا ہوتا ہے ۔ جو شوقیہ پرائیویٹ امتحان دے رہا ہے ۔ جبکہ ان سے نوے فیصد زیادہ نالائق لیکن ریگولر ہونے کی وجہ سے طلباء کو پاس کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ کسی نہ کسی سکول یا کالج کا نام چسپاں ہوتا ہے ۔ اور یوں اس ادارے کی ساکھ داو پر لگی ہوتی ہے ۔ اس لیئے اسے پاس کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے ۔ جبکہ پرائیویٹ طلبہ جو کہیں  نوکری بھی کر رپے ہورے ہیں تو کہیں گھروں کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور وہ کتنی مشکلات سے داخلہ فیس بھرتے ہیں اس کا آج تک کبھی کسی حکومت یا تعلیمی پالیسیز بنانے والے کو رتی بھر احساس تک نہیں ہوا۔ کسی نے ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ 
دنیا بھر میں معاشی مسائل کو طلباء کی مجبوری نہیں بننے دیا جاتا ۔ اس کے لیئے انہیں خصوصی تعلیمی قرضوں کا اجراء کیا جاتا ہے جو وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ملازمت کرنے پر  انہیں اپنی  سہولت کے حساب سے اقساط میں ادائیگی کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ یوں وہ پڑھائی کے دوران زیادہ  لمبے وقفے سے بھی بچ جاتے ہیں اور  کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی ۔ 
ہماری حکومت کو طلباء کے لیئے صرف دو چار طلباء کو  وظائف دیکر  ہی مطمئن نہیں ہو جانا چایئے ۔ بلکہ تعلیمی  قرضوں کے اجراء پر سنجیگی سے قانون سازی بھی کرنی چاہیئے اور ان پر عملدرامد کو بھی یقینی بنایا جانا چایئے ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 11 دسمبر، 2018

تیرا کھاواں ۔۔ انتخاب

انتخاب



تیرا کھاواں میں تیرے گیت گاواں یارسول اللہ
تیرا میلاد میں کیوں نہ مناواں یارسول اللہ

حلیمہ کلی نوں دیکھے کدی سرکار نوں دیکھے
میں کیڑی سیج تیرے لئی سجاواں یا رسول اللہ

میں کج وی نئیں جے تیرے نال میری کوئی نسبت نئیں
میں سب کج ہاں جے میں تیرا سدا واں یارسول اللہ





جگاؤ پاگ میرے وی ابو ایوب دے وانگوں
مقدر اوس دا کیتھوں لیاواں یارسول اللہ

میرا وی دل تے چاؤندا اے تسی میرے وی گھر آؤ
میں کیڑے مان تھیں گھر وچ بلاواں یا رسول اللہ

مدینے آکے ایہو رات دن میری عبادت اے
تیرے روضے توں نہ اکھیاں ہٹاواں یارسول اللہ

اجل دے آون توں پہلاں جے تیری دید ہو جائے
میں ایسی موت توں قربان جاواں یا رسول اللہ 
۔۔۔۔۔۔

پیر، 3 دسمبر، 2018

پہلی سالگرہ باب دعا میگزین



پہلی سالگرہ مبارک باب دعا میگزین
تحریر:ممتازملک ۔پیرس 

ایک پڑھی لکھی باصلاحیت خاتون اگر کچھ کرنا چاہے تو اس کے لیئے گھر سے باہر نکلنا کوئی ضروری نہیں ہے وہ گھر بیٹھے بھی دنیا سے اپنے ہنر کا سکہ منوا سکتی ہے ۔ اس کا ثبوت مجھے دعا  علی سے رابطے کے بعد ہوا ۔ایک سال پہلے تک میں دعا علی کے نام سے واقف نہیں تھی میری کم علمی ۔ ایک روز مجھ سے واٹس اپ پر دعاعلی نے جب رابطہ کیا کہ وہ ایک ویب میگزین شروع کرنے جا رہی ہیں اور مجھے بھی اس میں شام ہونے کی دعوت سنا چاہتی ہیں ۔
 تو مجھے ان کا کام دیکھنے جاننے اور انہیں پڑھنے کا موقع ملا ۔ مجھے بیحد خوشی ہے کہ دعا علی  صرف باتوں کی حد تک کام کرنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ عملی میدان میں اپنی محنت اور ان تھک محنت سے اپنا مقام بنانے والوں میں شامل ہیں ۔ ایک سال کیسے گزرا  پتہ ہی نہیں چلا لیکن ہر ماہ کی چار تاریخ کو باب دعا کے نام سے ایک خوبصورت شمارہ ہمارے سامنے بلاتعطل کے آتا رہا 
 ایک خاتون خانہ ، اک ماں اور ایک بیوی کے فرائض خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے اس درجہ بہت سارے شمارے نکالنا کوئی مذاق نہیں ہے ۔ اور ہم میں سے ہر ایک کے بس کی بات ہی نہیں ہے ۔ دعا علی آپکو اور  باب دعا میگزین کے تمام قارئین کو باب دعا کی پہلی سالگرہ پر ڈھیروں مبارکباد ۔ خدا آپ کو مزید ترقی اور کامیابیوں سے نوازے ۔ آمین

اتوار، 2 دسمبر، 2018

اعتبار کی مار


    
اعتبار کی مار
تحریر:ممتازملک ۔پیرس


ہم پردیسی بھی کیا مجبور لوگ ہوتے ہیں ۔ کہیں مٹی ہمارے دل کو باندھ لیتی ہے  اور کہیں رزق ہمارے پاوں جکڑے رکھتا ہے ۔ تمام عمر دو کشتیوں کے مسافر بن کر ڈوب جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں ہم  اور پھر بھی ہم سے ہی کہا جاتا ہے کہ خود تو عیش کر رہے ہو اور ہمیں نصحتیں کرتے ہو ۔ تم ہوتے کون ہو ہمارے معاملے میں بولنے والے ؟ تم نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے ؟
ملک سے باہر ہر انسان اپنے ملک کے حالات سے بھی باخبر رہنا چاہتا ہے اور اپنے بہن بھائیوں کی بھی خبر رکھنا چاہتا ہے ۔  حالانکہ یہ آگہی اور خبرگیری اسے صرف تکلیف ہی دیتی ہے۔ کبھی خوشی کی خبر سن کر اس میں نہ شامل ہو سکنے کی تکلیف اورکبھی  بری خبر سن کر اس میں کام نہ آ سکنے کی تکلیف ۔ سچ کہیں  بے خبری ہزار نعمت ہے ۔ 
بیرون ملک  رہنے والے لوگوں کے ہارٹ اٹیک ، برین ہیمرج  کا شکار ہونے والوں کی اکثریت انہیں لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر روز فون اور واٹس اپ پر رشتہ داروں سے رابطے میں جڑے رہتے  ہیں ۔ ہو کہیں اور رہا ہوتا ہے  اور اس کے برے اثرات سات سمندر پار اسی رابطے سے اس کے سننے والوں  کی صحت اور سوچ پر پڑ رہے ہوتے ہیں ۔ 
اس کی اور باریکی میں جائیں تو ہر انسان نے اپنے ملک میں جا کر جہاں رہنا ہوتا ہے اسی گھر کی ذمہ داری کسی بہن بھائی، یا کسی اور عزیز کو  دے رکھی ہوتی ہے ۔ اب اس عزیز پر  منحصر ہے کہ وہ کس کے بارے میں آپکو کیا خبریں پہنچا رہا ہے ۔ ۔ اکثر وہ خبری عزیز جو آپکے  تمام رابطوں کا منبع ہے خود تو ہر ایک سے مفاد  حاصل  کر رہا ہوتا ہے ۔ لیکن باہر بیٹھے شخص کو وہی اور اتنی ہی خبریں دے رہا ہوتا ہے ۔ جتنی اس کے اپنے مفاد میں ہوتی ہے یا جس پر وہ آپکو اپنی مرضی سے لٹو کی طرح گھما سکتا ہے ۔ 
اس  لیئے وہ جب چاہے آپکو کسی کے ساتھ بٹھا سکتا ہے اور جب چاہتا ہے آ پکو اس سے بدظن بھی کروا سکتا ہے ۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہم یہ ہی سیکھ پائے ہیں ۔ کہ آج کے زمانے میں اپنے رشتہ داروں کے علاوہ بھی دو چار اچھے ملنے والوں کے جو رشتہ دار نہ  ہوں بلکہ  اچھے دوست ہوں، کے رابطہ نمبر بھی ضرور اپنے پاس ہونے چاہئیں اور ان سے کبھی نہ کبھی رابطہ  بھی رہنا چاہیئے تاکہ آپ کو کسی معاملے میں دوسری  غیر جانبدارانہ رائے ملتی رہے ۔ اور کبھی بھی کوئی فیصلہ محض اپنے گارڈین کے کہنے  اور ماننے پر مت کیجیئے ۔ سب  کی سنیئے اور اس پر ٹھنڈے دل سے خوب غروخوض کرنے کے بعد بلکہ ممکن ہو تودوسری پارٹی سے براہ راست پہلے ذمہ دار کی موجودگی میں ہی بات کیجیئے ۔گمراہ ہونے سے بچیئے۔
کم سے کم  ٹیلیفونک  رابطے کیجیئے ۔ جہاں رہتے ہیں وہاں کے معاملات اور وہاں کے دوست احباب کو فوقیت دیجیئے جو اچھے برے وقت میں آپ کے اچھے ساتھی ہیں ۔ کیونکہ آپکی کسی مشکل اور دکھ سکھ میں وہی سب سے پہلے آپکے پاس پہنچیں گے ۔ سات سمندر پار سے  کوئی نہیں آئے گا۔ وہ سب پیچھے چھوڑ چکے ہیں جب  کوئی خاص موقع ہو تو سب کی خیر خبر لیجیئے ۔ آپکی صحت اور زندگی کے لیئے یہاں کی پریشانیاں اور بھاگ بھاگ ہی کافی ہے ۔ مزید پریشانیوں  کو جان بوجھ کر اپنے گلے کا ڈھول مت منائیں ۔ ان لوگوں کو کچھ ہو تو وہ اپنے ملک میں ہیں ان کے نئے اسباب پیدا ہوجائیں گے لیکن یہاں پردیس میں آپ ہی اپنے خاندان کا سہارا ہیں ۔ خدانخواستہ آپکو کچھ ہو گیا تو آپکا خاندان سنبھالنے والا اور کوئی نہیں ہے ۔ سو اپنی زندگی اور صحت کی قدر کیجیئے۔ آنکھوں سے اوجھل معاملات پر تڑپنے کے بجائے اپنی آنکھوں کے سامنے کے حالات پر غور کیجیئے ۔
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/