ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 2 دسمبر، 2018

اعتبار کی مار


    
اعتبار کی مار
تحریر:ممتازملک ۔پیرس


ہم پردیسی بھی کیا مجبور لوگ ہوتے ہیں ۔ کہیں مٹی ہمارے دل کو باندھ لیتی ہے  اور کہیں رزق ہمارے پاوں جکڑے رکھتا ہے ۔ تمام عمر دو کشتیوں کے مسافر بن کر ڈوب جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں ہم  اور پھر بھی ہم سے ہی کہا جاتا ہے کہ خود تو عیش کر رہے ہو اور ہمیں نصحتیں کرتے ہو ۔ تم ہوتے کون ہو ہمارے معاملے میں بولنے والے ؟ تم نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے ؟
ملک سے باہر ہر انسان اپنے ملک کے حالات سے بھی باخبر رہنا چاہتا ہے اور اپنے بہن بھائیوں کی بھی خبر رکھنا چاہتا ہے ۔  حالانکہ یہ آگہی اور خبرگیری اسے صرف تکلیف ہی دیتی ہے۔ کبھی خوشی کی خبر سن کر اس میں نہ شامل ہو سکنے کی تکلیف اورکبھی  بری خبر سن کر اس میں کام نہ آ سکنے کی تکلیف ۔ سچ کہیں  بے خبری ہزار نعمت ہے ۔ 
بیرون ملک  رہنے والے لوگوں کے ہارٹ اٹیک ، برین ہیمرج  کا شکار ہونے والوں کی اکثریت انہیں لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر روز فون اور واٹس اپ پر رشتہ داروں سے رابطے میں جڑے رہتے  ہیں ۔ ہو کہیں اور رہا ہوتا ہے  اور اس کے برے اثرات سات سمندر پار اسی رابطے سے اس کے سننے والوں  کی صحت اور سوچ پر پڑ رہے ہوتے ہیں ۔ 
اس کی اور باریکی میں جائیں تو ہر انسان نے اپنے ملک میں جا کر جہاں رہنا ہوتا ہے اسی گھر کی ذمہ داری کسی بہن بھائی، یا کسی اور عزیز کو  دے رکھی ہوتی ہے ۔ اب اس عزیز پر  منحصر ہے کہ وہ کس کے بارے میں آپکو کیا خبریں پہنچا رہا ہے ۔ ۔ اکثر وہ خبری عزیز جو آپکے  تمام رابطوں کا منبع ہے خود تو ہر ایک سے مفاد  حاصل  کر رہا ہوتا ہے ۔ لیکن باہر بیٹھے شخص کو وہی اور اتنی ہی خبریں دے رہا ہوتا ہے ۔ جتنی اس کے اپنے مفاد میں ہوتی ہے یا جس پر وہ آپکو اپنی مرضی سے لٹو کی طرح گھما سکتا ہے ۔ 
اس  لیئے وہ جب چاہے آپکو کسی کے ساتھ بٹھا سکتا ہے اور جب چاہتا ہے آ پکو اس سے بدظن بھی کروا سکتا ہے ۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہم یہ ہی سیکھ پائے ہیں ۔ کہ آج کے زمانے میں اپنے رشتہ داروں کے علاوہ بھی دو چار اچھے ملنے والوں کے جو رشتہ دار نہ  ہوں بلکہ  اچھے دوست ہوں، کے رابطہ نمبر بھی ضرور اپنے پاس ہونے چاہئیں اور ان سے کبھی نہ کبھی رابطہ  بھی رہنا چاہیئے تاکہ آپ کو کسی معاملے میں دوسری  غیر جانبدارانہ رائے ملتی رہے ۔ اور کبھی بھی کوئی فیصلہ محض اپنے گارڈین کے کہنے  اور ماننے پر مت کیجیئے ۔ سب  کی سنیئے اور اس پر ٹھنڈے دل سے خوب غروخوض کرنے کے بعد بلکہ ممکن ہو تودوسری پارٹی سے براہ راست پہلے ذمہ دار کی موجودگی میں ہی بات کیجیئے ۔گمراہ ہونے سے بچیئے۔
کم سے کم  ٹیلیفونک  رابطے کیجیئے ۔ جہاں رہتے ہیں وہاں کے معاملات اور وہاں کے دوست احباب کو فوقیت دیجیئے جو اچھے برے وقت میں آپ کے اچھے ساتھی ہیں ۔ کیونکہ آپکی کسی مشکل اور دکھ سکھ میں وہی سب سے پہلے آپکے پاس پہنچیں گے ۔ سات سمندر پار سے  کوئی نہیں آئے گا۔ وہ سب پیچھے چھوڑ چکے ہیں جب  کوئی خاص موقع ہو تو سب کی خیر خبر لیجیئے ۔ آپکی صحت اور زندگی کے لیئے یہاں کی پریشانیاں اور بھاگ بھاگ ہی کافی ہے ۔ مزید پریشانیوں  کو جان بوجھ کر اپنے گلے کا ڈھول مت منائیں ۔ ان لوگوں کو کچھ ہو تو وہ اپنے ملک میں ہیں ان کے نئے اسباب پیدا ہوجائیں گے لیکن یہاں پردیس میں آپ ہی اپنے خاندان کا سہارا ہیں ۔ خدانخواستہ آپکو کچھ ہو گیا تو آپکا خاندان سنبھالنے والا اور کوئی نہیں ہے ۔ سو اپنی زندگی اور صحت کی قدر کیجیئے۔ آنکھوں سے اوجھل معاملات پر تڑپنے کے بجائے اپنی آنکھوں کے سامنے کے حالات پر غور کیجیئے ۔
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/