ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 18 اگست، 2013

● (3) میرے دل کا قلندر بولے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(3) میرے دل کا قلندر بولے

میرے دل کا قلندر بولے 
 تو سن لے ہولے ہولے
  کوئی  راھ دکھے مقصد کی 
 اس راھ پہ پھر تو ہو لے
  میرے دل کا ........

  نہ کر تُو نافرمانی اب 
 بن جآ تو اسکا جانی اب 
جانے  کس دم مُک جانی ہے
 دنیا سے تیری کہانی اب 
 کیوں بن مولے غم مولے
  میرے دل کا.....

 جو اپنے آپ کا عاشق ہے  
جو فاجر بھی ہے فاسق ہے
  بندوں پہ کرم کرنے والا 
 کیا جانے نہ وہ رازق ہے  
جو ساری  راہیں کھولے 
  میرے دل کا .....

یہ دنیا ہے اک کیچڑ 
 تُو چلنا اس میں بچ کر  
دامن نہ کہیں میلا ہو
  تر جاۓ گا اُس سے ڈر کر
  ہر ایک عمل جو تولے  
 میرے دل کا  .........
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

جمعہ، 16 اگست، 2013

◇ ● (4) چار بیٹوں کی ماں/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



(4) چار بیٹوں کی ما ں 




  چار بیٹوں کی ماں تھی وہ  مقدروں والی     لوگوں کی نظر میں قسمت والی 
  اپنے منہ کا نوالہ بھی وہ                    انکے منہ میں رکھ دیتی تھی   
 اپنے سوٹ میں پیوند ٹانکے              انکے پینٹ تو اعلی ہو 
   چھید دوپٹے میں ہے تو کیا              شرٹ تو انکی اعلی ہو
    انکے باپ سے چھپ کر بھی وہ          مٹھائیاں پیسے اور کھلونے
اپنی بھوک کو دھوکہ دیکر              ان کی جیب میں بھر دیتی تھی
    یہ ہی سوچ بدل نہ پاتی              پاؤں میں ٹوٹی چپل کو وہ  
 کچھ دن اور چلے گی یہ تو              بچوں کو جاگر تو لے دو 
  اپنے گلے کا ہار بھی بیچا            ہاتھ کی چوڑی ناک کی لونگ
  اور ماتھے کا جھومر بیچا           شادی کی وہ ایک نشانی
   ہاتھ کی انگوٹھی بھی بیچی          تاکہ انکو گھر مل جاۓ 
  کرایہ داری میں پڑ نہ جائیں             دنیا کے دھکے نہ کھائیں   
 اپنے شوق نچھاور کر کے     اکدن  آئینہ جو دیکھا
   کالے بال سفید ہوۓ تھے           چہرے پر جھریوں کا جالا
   خود میں ہنستی بستی لڑکی         دور کہیں گم کر بیٹھی تھی
   یہاں تو کوئی اور ہی عورت        آئینے میں آن کھڑی تھی  
         ہڈیوں سے آوازیں آئیں                اب مجھ میں کچھ زور نہیں ہے  
 آنکھیں بھی شکوہ کر بیٹھیں      مجھ  میں بھی وہ نور نہیں ہے
   گھر میں بہوئیں  لے آئی تھی          بیٹے انکو سونپ چکی تھی 
 سوچا کہ کچھ دیر یہاں پر          بیٹے کے سنگ ہنس بولوں گی  
 انکے بچے   گود میں لیکر     
    پیار بھرے بوسے میں لونگی
     لیکن اک دن اسنے دیکھا         بند لفافے لیکر بیٹا
   دھیرے سے چلتے ہوۓ  اپنے      کمرے میں پہنچا تو اسکی
 بیوی نے در بھیڑ لیا          
کھانے کی خوشبو سے اس دن 
 ماں نے اپنا پیٹ بھرا اور
 اپنے ہی آنسو پی کر  
اسنے اپنی پیاس بجھائی  
 کیوں کہ اسکے دو لقمے تھے
 بھاری اس پر
  جسکو اسنے خون پلایا 
بس وہ رات ہی آخری ٹہری 
 روتی آنکھیں ساکت ہو گئیں 
   ماں کی میت چارپائی پر
 پڑی ہوئی ہے  
 بیٹے بہوؤں کے دامن میں 
    گھس کران  سے پوچھ رہے ہیں
   کفن کا خرچہ کون کریگا    
  گھر  بانٹا گہنے بانٹے اور 
ساری  زمینیں بانٹیں 
 یارو   ایسا کرو کہ مل کے
  چاروں  کفن پہ چندا کر لو  
 اللہ بھی خوش ہو جاۓ گا  
 تو کتنی خوش قسمت ہے ماں 
 تیری خاطر 
ہم کو گھر سے باہر جا کر  
  چندہ مانگنا نہیں پڑے گا   
کیوں کہ تُو بیٹوں کی ماں تھی    
 بیٹوں کی ماؤں کا کفن تو 
   اکثر چندے کا ہوتا ہے
●●●
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●

● (75) جو چاہا تھا/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(75) جو چاہا تھا



جو چاہا تھا تو نے تجھے وہ ملا ہے 
طلب مال و زر کی نہیں تھی نظر کی 

جو قدرت سے لڑ  کر جہاں کو بسائے 
اسے قدر کیا ہو کسی چشمِ تر کی

ہوں جنکی تمنا میں افلاک رقصاں 
انہیں کیا ضرورت زمینوں پہ گھر کی 

میرا ایسا کوئی وسیلہ نہیں ہے
مجھے دے خبر جو تمہارے نگر کی

فقیروں کے دن رات سب سے جدا ہیں 
 نہیں فکر کرتے ہیں وہ عمر بھر کی

 ہمارا توکل ہماری ہے دولت
کبھی غم نہ کرنا ہماری گزر کی

جو اپنی خودی کو خودی دفن کر دے
اسے فکر کیا گمشدہ رہگزر کی

جنہیں کوئی بیچے یا کوئی خریدے
انہیں  کیا بتاتے ہو قیمت سفر کی 

سنبھالا نہیں جاتا تم سے یہ گھر بھی
چلے بات کرنے کہاں کاشغر کی  

جو کانٹوں سے ممّتاز دھرتی سجا دیں 
وہ کیسے کریں گے تمنا شجر کی 
●●●
 کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

● (74) اپنے حق کے لیئے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(74) اپنے حق کیلیئے




اپنے حق کیلیئے آواز اُٹھائی ہوتی
کاش یہ شرم کے پردے تو اتارے ہوتے 

زیست بنتی نہ کبھی جستجوۓ لاحاصل
پھر یہ ممکن تھا کہ طوفاں میں کنارے ہوتے

رات کی گود سے گر مانگ کے لاۓ ہوتے 
چاند تارے بھی تیرے دوش پہ وارے ہوتے

روشنی کم نہیں گھر میں تیر ے ہونے دیتے
کاش آنچل میں میرے اتنے ستارے ہوتے

آنکھ کے پانی کو شبنم کا سا عنواں دیکر
چند پھولوں کے ہی چہرے تو نکھارے ہوتے

دوسروں کیلیئے جو درد کا درماں بنتے
خود بھلا درد میں ممّتاز بیچارے ہوتے
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (50) کاریگری/ شاعری ۔ میرے دل۔کا قلندر بولے




(50) کاریگری


ہر کاریگری تیری ہوتی ہے بیمثال
کچھ رنگ چراتی ہوں کچھ لیتی ہوں اشکال

فطرت کے سبھی رنگوں کو آنکھوں میں سمو کر
جتنی ہو ضرورت اسے لیتی ہوں وہاں ڈھال

کس درجہ ہے بھرپور یہ قدرت کی صناعی
محدود میری عقل عطا تیری باکمال

ہر چیز اپنے اپنے مدارج میں ہے پابند
انسان ہی حیلوں سے چلے روز نئی چال

مشکل میں تیرے سامنے گردن کو جھکائے
آسانیوں میں جھکنا تصور بھی ہے محال

خواہش کا سفر اتنا بھی آسان نہیں ہے
باطن کا گلا گھونٹ کے کونے میں کسی ڈال

سویا ہے ضمیر اس لیئے دھیرے سے چلا کر
ممتاز اگر جاگا تو کر بیٹھے گا سوال
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (73) عبادت گاہ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


عبادت گاہ




یہ دل ہے عبادت گاہ صنم 
اس دل کو تُو بازار نہ کر

جو خلقت میں رُسوا کر دے
تُو مجھ سے ایسا پیار نہ کر

ہم تو ہیں خلوص کے شیدائی
یہ جذبوں کا بیوپار نہ کر

صدیوں میں بنائی ہے عزت
لمحوں میں اسے بیکار نہ کر

ہر ظلم وہ کرنا حق سمجھے 
اور مجھ سے کہے تکرار نہ کر 

سب دیکھوں اور خاموش رہوں 
مجھے ظلم میں حصّے دار نہ کر 

جو منزل سے بھٹکاتے ہوں 
رستے ایسے ہموار نہ کر

پہلے ہی کوئی ہم نیک نہیں 
تُو اور ہمیں گناہ گار نہ کر

یہاں ایک ہی پل کی خبر نہیں
نہ باندھ ارادے وار نہ کر

دل اپنی دُھن میں رہنے دے
برسوں پہلے تیار نہ کر

نہ اور تُو پردہ ڈال ان پر
تُو دشمن کو ہشیار نہ کر

کر بات نبھانے کے دم پر
کچّا پکّا اظہار نہ کر

پہلے ہی زیست آسان نہیں 
تُو اور اسکو دشوار نہ کر

کوئی نہ کسی کو جھیل سکے
ممّتاز کو رب لاچار نہ کر
●●●
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (72) نورِازل/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(72) نورِازل



      نورِازل سے نورِابد تک تیرے ساتھ کا وعدہ ہے
کتنے بھی رنگوں میں ڈھل کرحسن تو اسکا سادہ ہے

تیرے ایک اشارے پرکوئی عکس کرے کوئی رقص کرے
             فطرت کی ہر اِک شے میں تابعداری کا مادہ ہے

   جنکی خوشی میں خوش ہو کر ہر چیز فنا ہوجاتی ہے
کیوں میں نے اس پیار کو زہن پہ بوجھ کی طرح لادا ہے

اسکی تو ہر ایک عطا ہی کہیں پہ مجھ کو کم لگتی ہے 
       میری تھوڑی سی بھی شکرگزاری بہت ذیادہ ہے 

  ہر ٹکِ ٹکِ پر میرے ذہن کو سوچ کا وہ اِک موقع دے
کون ہے جس نے سورج چاند کو اِک مرکز پہ باندھا ہے

   نہیں ضرورت ہتھیاروں کی نہیں تمنّا یلغاروں کی    
توڑ سکے نہ پھر بھی مجھ کو یہ مضبوط اِرادہ ہے    


اِک ممتاز کے دم بھرنے سے نہ تُو کم نہ ذیادہ ہے
بس تیری تسبیح کروں میں خود سے میرا وعدہ ہے
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (70) گُل نہ مار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(70) گُل نہ مار


کانٹوں کا احتساب ہے پھولوں کا انتظار
یوں گل اُٹھا کے نہ تُو میرے زخمی دل پہ مار

گر آج ہیں نصیب سے راہیں جُدا جُدا
ممکن ہے کل یہ وقت نگاہوں کو کر دے چار 

کچھ تو لحاظ بات میں لہجے میں چھوڑیئے
اس سے ذیادہ جھیل نہ پائیگا دل بیمار

سوچوں کو انتخاب کا موقع تو دیجیئے
جس میں حقیقتوں کے مناظر ہیں بیشُمار

وابستہ تیری ذات سےغم پہلے کم نہ تھے
مجھ کوتیرے وجود سے ملتی ہےصرف ہار

انہونیوں نے راستے گھر کے بتا دیئے
ممتاز ہونیوں نے کبھی کا دِیا تھا مار

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●  

● (71) رختِ سفر /شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(71) رختِ سفر



چلو کہ رخت سفر ہے باندھا
 ہمارا بھی منتظر کوئی ہے
وہ جن کا اپنا کوئی نہیں ہے
 نہ سوچوانکا بھی گھر کوئی ہے 

جو رکھتے ہیں شوق خودنمائی
 جو اپنے پنجوں پہ قد بڑھائیں 
صدا دکھانے کو دے رہے ہیں
 بتاؤ اہل ہنر کوئی ہے 

طویل کتنی ہو رات کالی 
مگر یہ رکھنا یقین لازم
مثال پچھلی تمام راتیں
  ضروراسکی سحر کوئی ہے

جہاں یہ اپنا وجود کھو دے
 وہیں یہ بیخود دھمال ڈالے
یہ کون آ آ کے پوچھتا ہے
 فقیر کا بھی نگر کوئی ہے

نہ ڈگمگائیں قدم کہیں پر
 نہ ان میں کوئی بھی موڑ آئے
یہ رکھ کے ہاتھ اپنے دل پہ کہنا
 جہاں میں ایسی ڈگر کوئی ہے

خود اپنی آنکھوں سے دیکھکر بھی
 یہ پوچھتےہوکہ حال کیاہے
کوئی بتائے سوال کا اس
 کہیں پہ پیر اور سر کوئی ہے

جو بات کا در کھلا رہے تو
 فساد کا در بھڑا رہیگا
یہ ہی تھا ممتاز تم سے کہنا
 کہوشکایت اگر کوئی ہے  
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (69) ٹوٹے تارے / نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(69) ٹوٹے تارے



ٹوٹے ہوئے تارے کو دیکھو تو دُعا مانگو 
پھر سے نہ بچھڑ جائیں دنیا کے جھمیلے میں

کچھ فیصلے کرنے ہیں کچھ راز بھی کُھلنے ہیں  
لوگوں میں کہیں کیسے ملتے ہیں اکیلے میں 

دل نے جو صدا دی تو دل تک وہ پلٹ آئی
اِک گونج سی سنتے ہیں اتنے بھرے میلے میں 

کب ہم کو میسر تھی عزت یہ زمانے میں 
مصروف تھے جینے کی اِک رسم نبھانے میں 

پھر جیسے ندا آئی چُپ چاپ چلے آؤ
جو دل میں چھپایا ہے وہ حال سنا جاؤ

جنبش جو ہوئی لب کو دیکھا تو عجب عالم
مصروف واں  خلقت تھی کیا حال سنانے میں 

چُپ چاپ تکے ہم تو خاموش رہے ہم تو 
اپنا لگا ہلکا تھا اوروں کے سنے غم تو 

سر اپنا جھکا دیکھا تو عقل چلی آئی
نظریں یہ اٹھیں جس پل جٹ جاتی بتانے میں 

دل درد کا ساگر ہے اور آنکھ کا پیالہ ہے 
ہر لمحہ بھرا اسکو ہر لمحہ نکالا ہے 

تھوڑی سی تسلی بھی شاید نہ اسے بھائی 
مصروف رہی دنیا ساگر کو سکھانے میں 
●●●
کلام \مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (68) خود کو بڑا کر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(68) خود کو بڑا کر


محبوب ہیں جو اسکے کبھی ان میں جگہ پا 
لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر

جو کہ ہیں طلب گار جاہ و ہشم انہیں کہہ
ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر

بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی
بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر

ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے
ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 

ہاتھوں کو بنا کاسہ نہ آ نکھوں کو سوالی
نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر

ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا
دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر

جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا
مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر

●●●
کلام: مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (67) سچا ہی تو تنہا ہے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(67) سچا ہی تو تنہا ہے


سچا ہی تو تنہا ہے جھوٹے کے ہیں یار کئی 
پھر بھی اس سے ڈرتے ہیں کتنے ہیں لاچار بھئی

بے پیندے کے لوٹوں جیسا ان کا حال سدا رہتا ہے 
پھر بھی جون نہ بدلیں اپنی ذہنی ہیں بیمار کئی

جیسی ہیں بے وقت نمازیں ایسی ان کی توبہ ہے
راتوں کو بھی اٹھ اٹھ کر ہیں کتنے ٹکریں مار کئی

اک بات انہیں سمجھادے کوئی اک رستہ دکھلا دے کوئی
اک تنہا ہی ہے سچا ہے نہیں اسکے لیئے منجدھار بھئی

بس فرض ادا کرتے جاؤ یہ حکم ہے جسکا اسکے لیئے
ان لوگوں نے کیا دینا ہے ہر روز کریں تکرار نئی

یا بیٹھے گا یا بہہ جائیگا بس آگ کی لو کو کم کر دو
یہ جوش ابلتے شیر سا ہے نہ ان میں پھونکیں ماربھئی

  بدمست جوانی میں انکو کب ہوش ہے یہ ڈھل جائے گی    
  ممّتاز جو اچھی بات کرے یہ لے آئیں تلوار نئی    
         
  ●●●    
     کلام/مُمّتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
                  ●●●                                                                         

● (66) کائنات/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(66) کائنات



ساری کائنات تیرے حکم پر رواں دواں 
ہم یہ پوچھتے رہے کہ تُو کہاں ہے تُو کہاں 

حشر ہو گیا بپا مگر دلوں کا قُفل ہے
جو نہ کھل سکا کہ منتشر ہوا ہے یہ جہاں 

میری ہی گواہیاں میرے خلاف جائینگی
مجھ کو دِکھ رہا ہے اک گناہ بحرِ بیکراں 

کچھ نہیں ہے ہاتھ میں لٹ گیا ہے ہر سکوں 
طفل کی طرح نہ دے تُو مجھکو اب تسلّیاں 

آب خورے آنکھ کے بھرے بھی اور چھلک گئے
نہ تو اب وہ جام ہے نہ وہ لن ترانیاں 

جسکی جستجو میں اتنی دُور تک ہم آ گئے
وہ تو ہم سے آج بھی اسی طرح رہا نہاں 

ولولے وہ شوق اور صدق کی وہ منزلیں 
مُمّتاز کس طرح کرے گی دل کا حال اب بیاں 
●●●
کلام: مُمّتازملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (60) کیوں لگتا ہے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(60) کیوں لگتا ہے



مجھ کو ایسا کیوں لگتا ہے میرا آنا پہلی بار نہیں ہے 
اپنے سر جو لے بیٹھے ہیں پھولوں کا وہ ہار نہیں ہے 

کیسا گلہ اور کیسا شکوہ اپنے زخموں پر چُپ رہنا
خاموشی سے درد کا سہنا کیا یہ کارو کار نہیں ہے

ہر پل مجھ کو نئی تمّنا ہر پل خواہش شاباشی کی
اے دل مجھ کو سچ کہنا کہ کیا یہ کاروبار نہیں ہے

دنیا میں آنے سے پہلے کیا تم کو معلوم نہیں  تھا
یہ تو جگہ ہے صرف سزا کی کوئی کسی کا یار نہیں ہے

ایک دفعہ جب اس رستے پر چلنا عادت ہو جائے
منزل کو پا لینا پھر تو اتنا بھی دشوار نہیں ہے

عمل سے خالی ہے تو کیا ہے رِیت نرالی ہے تو کیا ہے 
تم اک اچھے قصّہ گو ہوہم کو تو انکار نہیں ہے 

ہاں اب ہم مصروف بہت ہیں لوگوں سے بھی کم ملتے ہیں 
تم  سے بھی نہ مل پائیں اب ایسی مارا مار نہیں ہے 

نہ کوئی رنجش ہے ان سے نہ کوئی مُمّتاز بھرم
اپنے بیچ میں سرٹکرانے کو کوئی  دیوار نہیں ہے

بدن کی تیری ساری چوٹیں خوش ہوں کہ اب دور ہوئیں 
لیکن اس سے ذیادہ خوش کہ روحانی بیمار نہیں ہے 
●●●
کلام:مُمّتازملک
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

● (65) گل چننا نہیں آیا/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(65) گل چننا نہیں آیا



  ہمارے راستے کچھ اسقدر بے نام بھی نہ تھے   
  چراغ راہ بننا تھا مگر بننا نہیں آیا 

  صدائیں دیں بہاروں نے کہ آ کر پھول لیجاؤ 
 مگر ہم بد نصیبوں کو وہ گل چننا نہیں آیا 

 ہماری خوش نصیبی ڈھونڈتی پھرتی تھی ہم کو اور 
   ہمیں اس خوش نصیبی کی صدا سننا نہیں آیا   

   بہت موقع ملا ہم کو کہ ٹوٹے پھر سے جڑ جائیں  
 مگر افسوس ادھڑا پھر ہمیں بُننا  نہیں آیا

  وہ ایسا راگ کہ دنیا بھی جس پر مست ہو جاۓ 
  ہمیں اس راگ پر اپنا یہ سر  دُھننا نہیں آیا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●  

حیثیت / اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



حیثیت
ممتازملک ۔ شاعرہ

ضرورت سے کبھی بھی حیثیت جانچا نہیں کرتے 
یہ پہلا ہےاُصول اِسکو کبھی آخر نہیں کرتے 

بہت سے لوگ جیتےجی بھی مرجاتےہیں دنیا میں
مگر کچھ لوگ مر کر بھی حقیقت میں نہیں مرتے 

منظم اور بےترتیب لوگوں کا تقابل کیا 
منظم لوگ ہی تو آزمائش سے نہیں ڈرتے

کبھی دیکھا کسی ریوڑکوچرواہے کی سنگت میں 
بھرا ہو پیٹ تو پھر وہ چراگاہیں نہیں چرتے

یونہی الزام در الزام کی خاطر کئی باتیں 
بنا چاہے بھی ہم اک دوسرے کے سر پہ ہیں دھرتے

پچھاڑے جو پہلواں کو وہ طاقتور نہیں ہوتا
ہے طاقتور جو اپنے غصے کے آگے نہیں ہرتے 

ارادے ٹوٹنے سے ہی خدا کو جان پاتے ہیں
وہ جن کے عِلم سے ممتازروشن ہیں دیئےکرتے

مجموعہ کلام / میرے دل کا قلندر بولے

،،،،،،،،،،،،،،

مجھے امید ہے




امید


مجھے امید ہے اک دن اندھیرے روٹھھ جائیں گے
 نئ صبح طلوع ہو گی سویرے مسکرائیں گے

   خراماں اور سبک رفتار ہواؤں کے تھپیڑے ہوں 
  نہ بنکر آندھیاں سر سے چھتوں کو یہ اڑائیں گے 

  چراغاں اب مزاروں کا مقدر ہی نہیں ہو گا  
 محلے اور گلی کوچے  بھی اک دن جھلملائیں گے 

   نئ اب کونپلیں پھوٹیں نۓ پتے اگیں گے اب   
  درختوں کے لبادے  بھی نیا جوبن دکھائیں گے

  نہ پانی کا کبھی لہجہ کہیں سیلاب سا ہو گا 
   بھری ندیاں چلیں گی اور دریا گنگنائیں گے  

ہمارا ہاتھ تو تھاما ہے قدرت نے فراغت سے  
  پسینہ لے کے ماتھے پر قدم آگے بڑھائیں گے   

 بہت ہی جلد  ایسی بھی کوئ صبح طلوع ہو گی 
  جہاں جا کر اندھیرے اب سدا کو منہ چھپائیں گے  

  زرا ہمت کرو مُمتاز کہ اُمید زندہ ہے
  ہمارے کھیت پھر اس شان سے ہی لہلہائیں گے
........................

● (62) اک چھت تلے/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے

             



              (62) اک چھت تلے
 

 اک چھت تلے رہتے ہوۓ پرواہ نہیں تھی
   گھر جب سے ہوۓ دور تو یاد آنے لگے ہیں

  پہلے جو تھے اک دوسرے کی شکل سے بیزار  
  آج اپنی ہی صورت سے وہ بیگانے لگے ہیں
   
  آۓ نظر اپنا کوئی شیرینیاں بانٹوں
   شدت سے یاد آکے جو تڑپانے لگے ہیں

   میں اپنی بیقراری کا نوحہ کہاں پڑھوں 
  قبروں پہ وہ چراغاں تو کروانے لگے ہیں

  میں روک نہ  پاؤں انہیں جاتے ہوۓ دیکھوں 
 ہاتھوں سے لمحے ریت جیسے جانے لگے ہیں

 اک شاخ کے پھولوں کو کچلتے ہوۓ دیکھا
  کیا میری طرح سب کو یہ دیوانے لگے ہیں

 مُمتاز جو ہونٹوں کو ہنسی دے نہیں پاۓ 
   غم ہنستی ہوئی آنکھوں میں چھلکانے لگے ہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

سربستہ راز ۔ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں  
  چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

    سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
   اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

   اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا  
 میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں  

 جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں 
  میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں 

   مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے 
  صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

   کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے  
  حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں   

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے 
  جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں  

 کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر 
 ہر اک رنگ میں میں تو بس مہمان رہی ہوں 

  روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا  
  ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں   
 
 اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
 دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں 


کلام / مُمّتازملک
مجموعہ کلام / میرے دل کا قلندر بولے



....................
 

زندگی کی زلف




زندگی کی زلف

تم زندگی کی زلف کو کتنے بھی پیچ دو
  سچی گواہیاں بھی سر عام بیچ دو 

   کر نہ سکو گے مجھ کو کبھی مبتلاۓ خوف
    چاہے کسی جگہ بھی میری کھال کھینچ دو   

 ہم کو اگر نصیب نہیں بارش مراد
 وادئ حیا کی خون جگر سے ہی  سینچ دو

  مقدور بھر جو میری اطاعت نہ ہو قبول 
  مٹھی میں میرا نامة اعمال بھینچ دو

  یا تو میری حیات کا مُمتاز ہو معیار  
 یا پھر میری حیات کا نقشہ ہی کھینچ دو

 کلام/  مُمتاز ملک 
..................

● (59) سرگزشت / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(59) سرگزشت



حیراں ہوں کائنات کی یہ کیسی سرگزشت ہے
  دوزخیں ہیں اسطرف تو اسطرف بہشت ہے 

  مسکرا کے سوچتے ہیں وہ بھی جانتا تھا یہ 
 الجھنوں کو پار کرنا ہی میری سرشت ہے  

 حوصلوں کو آزما کے جیت لوں بینائی تو  
   پھر دکھائی دیگی کہ کہاں میری نشست ہے 

   کیا کیا کیا نہ کیا کیوں کیا یہ کب کیا
   مُمتاز کیا شمار اسکا یہ بڑی فہرست ہے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●● 

● (57) گلے کا ہار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(57) گلے کا ہار

یہ نہ ہو جو آج کہہ بیٹھے ہیں آپ 
  معاملے  یہ کل گلے کا ہار ہوں 

  جان کتنی بھی چھڑانا چاہیۓ
   جان  لینے کے لیئے تیار ہوں 

 کچھ وضاحت کام پھر نہ آسکے 
  محنتیں ساری یونہی بیکار ہوں

   آپ کے لفظوں میں اس دم ہیں حلال 
  آپ کی خاطر یہ کل مردار ہوں  

 یوں نہ بڑھ چڑھ کر تقاضا کیجیئے
 گر دینے والے آپکے دلدار ہوں 

 ظلم میں حد سے نہ باہر جایئے
 کل کہیں خود آپ  نہ سنگسار ہوں 

  ہمکو بھی مُمتاز گر سہنا پڑے 
 ہم بھی ان حالات سے دوچار ہوں

●●●
  کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (56) فطری دھمال/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(56) فطری دھمال


ہر کوئی گھومتا ہے زمانے کی چال پر
شاید ہے محورقص وہ فطری دھمال پر 

  وہ کہہ رہا ہے خوبیاں اپنی تلاش کر 
  دوجے کو دیکھ اپنا نہ چہرہ گلال کر  

 بے پر کی اڑاتا ہے جو لفظوں کے کھیل میں 
  کوئی تجھے پرکھے ہے مصیبت میں ڈال کر 

  آئیگا کسی روز مجھے لینے سنا ہے  
اس دن کا انتظار کروں دل سنبھال کر 

  آئیگا وہ تو ساتھ مجھے لیکے جائے گا 
 تیار نہ اسکے لیئے حیلوں کے جال کر

   لمبی اڑان بھر کے بہت تھک گیا ٹہر
  تو اڑ چکا پر پُرزے بہت سے نکال کر 

 پُرکاریاں تیری جو کسی کام آسکیں  
 ممتاز انکو گدڑی میں رکھنا سنبھال کر
●●●
 کلام:ممتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●   

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/