ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 27 جولائی، 2020

بوڑھا کرتی ہیں / کوٹیشنز



بوڑھا اپکو عمر نہیں کرتی بلکہ اداسیاں کرتی ہیں
 اور اداسیاں 
انسانوں کی دین ہوا کرتی ہیں ۔ 
       (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
            (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 26 جولائی، 2020

قینچی / کوٹیشنز



جیسے ادھار محبت کی قینچی ہے 
بالکل اسی طرح انا کسی بھی رشتے کی قینچی ہے ۔ 
                (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                      (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 19 جولائی، 2020

صبر اور بے بسی کا فرق/ کوٹیشنز



     صبر اور بے بسی کا فرق

🌻صبر سکون دیتا ہے اور بے بسی بے سکون کر دیتی ہے ۔
🌷صبر میں چہرے روشن ہو جاتے ہیں اور بے بسی میں تاریک۔
🌹صبر میں حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور بے بسی میں حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔
 🍎اسی لیئے صبر کے انتظار  کا پھل اسی طرح میٹھا ہوتا ہے جیسے کچے پھل کے پکنے کا انتظار ۔
🤮 اور بےبسی کا پھل وہ انتظار ہے جس میں پھل پک پک کر سڑ جائے، زہر بن جائے۔ 
             (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                   (ممتازملک۔پیرس)

* ● کشید ‏کر/ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



       کشید کر
              (کلام: ممتاز ملک۔ پیرس)


❤راتوں سے وحشتوں کے وہ لمحے کشید کر 
خوابوں کے رکھ دیئے تھے جہاں سر برید کر 

 💛سونے کے واسطے زرا آنکھیں تو موندیئے
ہم نے اڑا دیئے ہیں سبھی غم خرید کر

💔 دنیا بدل رہی ہے میرے اے دروغ گو
       جدت پسند بن تو بہانے جدید کر

🖤 ​​سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 

💙رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر

💜 اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر

🧡دیوانے سے نہ ہوش کی امید کیجیئے
  بندہ گناہگار اسے برگزید کر

💖برسوں سے سن رہے ہیں یہ احوال درد کے 
ممتاز اب خوشی کی بھی آ کر نوید کر               
●●●



اتوار، 12 جولائی، 2020

کشید کر/ شاعری





   راتوں سے وحشتوں کے وہ لمحے کشید کر
خوابوں کے رکھ دیئے تھے جہاں سر برید کر

 سونے کے واسطے زرا  آنکھیں تو موندیئے
ہم نے اڑا دیئے ہیں سبھی غم خرید کر
                (ممتازملک۔پیرس )


پیر، 6 جولائی، 2020

● ڈپریشن ‏علامات ‏وعلاج/ کالم ‏



    ڈپریشن علامات و علاج
          (تحریر: ممتازملک.پیرس)


ڈپریشن کیا ہے ؟ مایوسی ، یاسیت، نآامیدی یہ ہی تو ہے 
بے بسی کا ایک خوفناک دورہ اور اگر  اسے ہر تکلیف اور بیماری کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ 
انسان جب خود کو تنہا مان لے ، ہارا ہوا تسلیم کر لے تو گویا اس نے زندگی کی جنگ میں ہتھیار پھینک دیئے۔ اب اسے جیت اور ہار سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ 
ان میں سے کسی بھی کیفیت کے شکار انسان پر کسی بھی بیماری کا حملہ بیحد آسان ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کا مدافعتی نظام یعنی ایمیونٹی سسٹم کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس پر معمولی سی بیماری کا حملہ بھی جان لیوا شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ 
وہ کسی اور کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اپنے آپ کو مٹانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ ایسا انسان خود کو ریزہ رہزہ ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خود کو ہواوں میں بکھرتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ اسے کبھی تنہا مت چھوڑیئے ۔ کیونکہ 
وہ باآسانی  خودکشی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے ناکارہ ترین وجود سمجھنے لگتا ہے ۔۔جس کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ جو ایک بوجھ ہے جسے دوسرے مجبورا ڈھو رہے ہیں ۔ 
اپنے اردگرد اپنے رشتوں اور دوستوں کے رویوں پر نظر رکھیئے۔ ایسے انسان کو جس میں اس کی ہلکی سی بھی جھلک محسوس ہو  اس کے دوست احباب اور عزیزوں پر اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے تنہا نہ چھوڑیں ۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں ۔ اسے یقین دلائیں کہ وہ ان سب کے لیئے اہم ہے ۔ آپ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی باتوں کو ، اسکے وجود کو اسکے ہونے اور نہ ہونے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ۔ 
اسے اس بات کا یقین دلائیں کہ ہر طرح کا وقت ہر انسان پر آتا ہے اور  وہ ان سب کو پار کر جاتا ہے ان کے لیئے جو اس کے لیئے اہم ہوتے ہیں ۔ 
وہ لوگ جو اپنے اندر ان علامات میں سے کوئی ہلکی سی علامت بھی محسوس کریں تو اسے معمولی سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔  سب سے پہلے کھلی فضا میں قدرتی ماحول میں سانس لینے کا اہتمام کریں ۔۔اللہ تعالی کا پیدا کیا ہوا سبزہ دیکھے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دے ۔ پریشان کن ماحول سے نکلے ۔ کچھ روز کے لیئے اللہ کی بنائی زمین کے سرسبز گوشے میں گزارے لیکن اپنے دماغ کو ہر  نفع نقصان کی پرواہ سے آذاد کر کے ۔  اپنے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائے 
 باوضو رہے ۔ پبجگانہ نمازوں کا اہتمام کرے ۔ اپنے مقدر پر یقین رکھے ۔ اور خود کو یاد دلائیں کہ ایک وہی ذات ہے جو ہم سے زیادہ ہمارے ارادے بھی جانتی ہے اور ہمیں پسندیدہ شے دے نہ دے لیکن جو دیتی ہے وہ ہی ہمارے لیئے سب سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ ہمارا مددگار ہونے کا نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے اور نہ ہی عمل۔ اور سب سے خاص بات کہ اتنا مہربان ہے کہ کبھی ہم سے جدا بھی نہیں ہوتا ۔ جبکہ دیکھیں تو ایک وقت میں ہمارا سایہ تک ہمارے ساتھ نہیں رہتا ۔ لیکن اللہ تو ہم سے کسی ایک پلک چھپکنے جیسے پل کے لیئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوتا ۔ ایسے بے مثال محبت کرنے والے کے ہوتے ہوئے اگر ہم مایوس ہو جائیں تو اس محبوب کی محبت کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ۔ وقتی طور پر ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مالی نقصان ہو گیا ، رشتے کھو دیئے ، کبھی کہیں عزت کم ہو گئی ، کہیں کوئی منصوبہ پورا نہ ہو سکا ، کسی امتحان میں فیل ہو گئے۔۔۔
لیکن اس کے بدلے ہمیں کن کن فوائد سے نوازہ گیا یا اس کے بدلے میں ہمیں کس کس مشکلات سے بچا لیا گیا یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جانا ہی ہمیں مایوس کر دیتا ہے ۔ جبھی تو مایوسی کو کفر کہا گیا کیونکہ یہ انسان کو ناشکرگزاری کی آخری منزل تک پہنچا دیتی ہے اور انسان اپنے محبوب رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی بھی گنواتا ہے اور آخرت بھی تباہ کر لیتا ہے ۔ 
اللہ کو اپنے دل کا حال سنائیے آدھی رات کے خاموش سجدوں میں ۔
آنسو بہائیے اپنے دل کا بوجھ اتاریئے اس مہربان کی چوکھٹ پر ۔  اس کی باتیں سنیئے اس کے کلام پاک کی تلاوت میں ۔ اور پا جائیے اپنے دل کا ابدی سکون ۔ 
                   ۔۔۔۔۔ 

جمعہ، 3 جولائی، 2020

● تمنا/ کوٹیشن


               تمنا

خود کو اس قابل کیجیئے
 کہ
 آپ لوگوں کی نہیں لوگ آپکی تمنا کریں۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
             (ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 2 جولائی، 2020

سچے ‏ساتھی ‏کی ‏تلاش/ کالم


           سچے ساتھی کی تلاش
                (تحریر: ممتازملک.پیرس) 

کچھ عرصہ پہلے تک یا دو تین دہائیوں پہلے تک ہمارے ہاں یہ رنگ برنگی دوستیاں،  مرد و زن کا دوستیوں کے نام پر بے حجابانہ میل ملاپ ، تنہائی میں کہیں بھی کسی کے بھی ساتھ منہ اٹھا کر ملنے چل دینا ۔۔۔ ان سب چیزوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ (جو نہ صرف اسلامی اصولوں  کے خلاف ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں کا بھی مذاق ہیں ۔)یہ سب بیماریاں اور رویئے ایلیٹ کلاس کے چونچلے اور بدنامیاں سمجھے جاتے تھے ۔ 
لیکن آج وقت نے ایسی کروٹ لی کہ اعتماد کے نام پر کچھ تو والدین نے اولادوں (خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں )کو کھلی چھوٹ دیدی کہ ان کے گھر آنے جانے کا کوئی وقت مخصوص نہ رہا اور وہ خود کو والدین کے سامنے جوابدہی سے مبرا سمجھنے لگے  تو وہیں ان کے باہر کے ماحول نے انہیں گھر میں  والدین پر حکم چلانے والا وہ آقا بنا دیا جس نے قیامت کی اس نشانی کو پورا کر دیا جس میں ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ 
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لونڈی اپنی مالکن کو جن نہ لے۔" ۔۔ 
مطلب اولادیں اپنے والدین کے ساتھ ملازموں والا برتاو کرنا شروع نہ کر دیں ۔ 
اسی بے مہار آذادی میں جب اپنے والدین کو ہم اپنا مخلص رازدار ہی نہیں سمجھتے ۔ نہ ہم انہیں عقل والوں میں شامل کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے نا کہ عقل کل تو ہم خود ہی ہو چکے ہوتے ہیں  لیکن جن والدین  کی ہم پیداوار ہیں  انہیں کو دنیا کے سب سے بیوقوف اور جاہل انسان سمجھنے لگتے ہیں اور یوں  سچے دوست کی تلاش کا ایک سراب نما سفر شروع ہو جاتا ہے جہاں  ہر نخلستان پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں یہ تو سراب تھا یا اس سے بھی اچھا کوئی اور ہو یا پھر یہ تو میرے معیار کا نہیں ۔ 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
"دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"
دوستیاں پالنے والا انسان کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ۔ وہ کسی نہ کسی جگہ کسی ایک کے پلڑے میں ناجائز طور پر جھک ہی جاتا ہے ۔ اس لیئے وہ اکثر ایماندار بھی نہیں رہتا ۔ سچا دوست ڈھونڈنے کے بجائے عزت کیساتھ اپنے لیئے زندگی کا ہمیشہ کا ساتھی چنیئے ۔ 
اپنے آپ کو ان دوستیوں کے عذاب سے نکالیئے ۔ سب کیساتھ اسی حد تک تعلق رکھیئے جس حد تک اس تعلق کی حقیقی جگہ ہے۔ 
اپنے لیئے کسی سچے ساتھی کی ضرورت ہے  تو عزت کیساتھ شادی کر لیجئے ۔ میاں بیوی کو اللہ پاک نے ایکدوسرے کا لباس قرار دیا ہے  ۔ کیونکہ ان میں سے کسی بھی ایک کا فائدہ دونوں کا فائدہ اور نقصان بھی دونوں کا برابر کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اور کوئی رشتہ وفادار نہیں ہو سکتا ۔ 
(چند ناکام لوگوں کو چھوڑ کر )
اکثر لوگوں کو پرانے افیئرز اور دوستیاں مستقبل میں ڈراونے خواب لگنے لگتے ہیں ۔ اس لیئے خود کو اس حد تک کبھی گرنے مت دیں کہ آئندہ آپکو پرانے رشتوں یا دوستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑے ۔ اور شرمساری اٹھانی پڑے ۔
رہ گئی بات پرانے لوگوں کی (جن سے آپ کے کبھی افیئرز  رہے تھے) انکے سامنے آنے پر ان سے کیسا رویہ رکھنے کی،  تو انہیں ہمیشہ اسی طرح ملیئے جیسے آپ سبھی عام لوگوں سے ملتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اگر آپ کے لیئے اب بدنامی کا باعث ہو سکتے ہیں تو آپ بھی انکے لیئے اتنے ہی زہریلے اور بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ لہذا دونوں جانب سے اپنی عزت اپنے ہاتھ ہی رہنی چاہیئے ۔ جس بات پر اللہ نے پردہ اور وقت نے مٹی ڈال دی ہے تو آپ بھی ان گڑھے مردوں کو خوامخواہ اکھاڑنے کی کوشش مت کریں ۔ 
جب آپ ان کے لیئے خاص نہیں رہے تو آپ انہیں اپنے دماغ پر کیوں مسلط رکھنا چاہتے ہیں ۔
پرانی غلطیوں اور بیوقوفیوں پر اللہ سے معافی طلب کیجیئے اور خود کو اللہ کے احکامات کی جانب متوجہ کیجیئے۔ وہی ہمیں بہترین راستہ دکھانے والا ہے ۔ وہی ہمارا سچا دوست ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 28 جون، 2020

انسانوں ‏کا ‏شر ‏/ کالم


              انسان کا شر
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
سب تعریف اللہ تعالٰی کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔
سے شروع ہونے والے کلام الہی کی آخری آیات 
الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾
جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ۔ 
مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿6﴾  
( خواہ )  وہ جن میں سے ہو یا 
انسان میں سے ۔
کو بغور پڑھیئے اور سمجھیئے تو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے ہمارا واسطہ پڑیگا ۔ ہمارے ذہنوں میں ہمارے ہی تراشیدہ بت چٹاخ سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائینگے۔ کہ وہ بات جو ہمارے پالنے والے نے ہمیں صدیوں پہلے سمجھا دی تھی وہ آج تک ہمارے کند ذہن میں راسخ کیوں نہ ہو سکی ۔ کلام پاک کی پہلی آیت ہمیں  سمجھاتی ہے کہ سارے عالمین کا رب ہی وہ واحد ہستی ہے ، وہ ذات پاک ہے، جس کی تعریف میں کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مستحق بھی ہے اور اس کے لائق بھی ۔ کیونکہ وہی تو ہے جو ہر شے کے پالنے پوسنے ، سے لیکر کیسے پالنے اور کس حال میں رکھنے تک کی طاقت بھی رکھتا ہے اور  اختیار بھی ۔ 
وہیں وہ اسی کلام پاک کے آخری حصے میں آخری دو آیات میں ہماری آنکھوں پر پڑا غفلت کا پردہ بھی چاک کر دیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ خود کو بچانے کی دعا کریں اس سے ، جو لوگوں کے دلوں میں وسوے ڈالتا ہے خواہ وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے۔۔
یعنی انسان ہی وہ مخلوق ہے جو شر اور وسوسہ پھیلانے میں جنات اور  شیطان کے بھی مقابل کھڑا ہو جاتا ہے ۔ 
سچ کہیں تو اس پر مذید غور کریں تو دنیا کے ہر قتل میں ، ہر برائی میں ، ہر لوٹ مار میں ، ہر شرمندگی میں ہمارے سب سے قریبی لوگوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور دس میں سے ہر نو معاملات میں یہ قریبی اپنے ہی عزیز اور رشتے دار ہی ہوتے ہیں ۔ جن کے خمیر میں آپکی کامیابیوں اور نیک نامیوں سے حسد اور شر شاید گوندھا گیا ہوتا ہے یا پھر  وہ اس شر پسندی کو اپنا حق سمجھتے ہیں یا وہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جہاں جہاں اور جب جب  آپ کی کھری راہ میں کوئی بھی کھوٹ ڈال سکیں یا آپ کی تباہی میں اپنا حصہ ڈال سکیں تبھی ان سے آپ کی قرابت داری ثابت ہو سکے گی ۔ اور وہ چین کا سانس لے سکیں گے کہ شکر ہے جو ہمارے پاس نہیں تھا وہ اس کے پاس بھی نہیں رہا ۔ 
 ورنہ باقی اکا دکا واقعات میں دوست یا انجان لوگ کسی وقتی فائدے کے لیئے ایسے گناہ اپنے سر پر لے تو لیتے ہیں لیکن اپنا چین سکون رخصت کر کے ۔ 
انسانوں کی اسی خصلت پر روشنی ڈالنا اسقدر ضروری تھا کہ اسی موضوع کے لیئے ایک پوری سورہ کو ہی "الناس" کا نام دیدیا گیا ۔ اس سے اس کی موضوع یعنی "لوگ " کی اہمیت کا اندازہ لگائیے ۔ انسان زندگی میں محنت کرتا ہے، جستجو کرتا ہے، کوشش کرتا ہے تو کسی نہ کسی مقام پر اسے اللہ کا کرم پہنچا ہی دینا ہے ۔ اور کسی کسی  کو تو بنا کسی محنت، بنا کسی جستجو اور بنا کسی کوشش کے بھی بہت کچھ عطا فرما دیتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں اس کے ارد گرد موجود اور اس سے جڑے ہوئے رشتوں کا امتحان بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ کہ وہ کیسے اس کی کامیابیوں یا خوشیوں کو ہضم کر پاتے ہیں ۔ لیکن وائے قسمت کہ ہزاروں لاکھوں میں سے کوئی ایک ادہ رشتے دار ہی ایسا نکلتا ہے جو اس امتحان میں کامیاب ہو سکے ۔ تو آئیے مل کر دعا کریں کہ اللہ پاک ہم سب کو ہمارے عزیزوں رشتے داروں کے شر سے محفوظ رکھے کیوں کہ یہ ٹھیکہ انہوں نے بڑے طمطراق سے اٹھا رکھا ہے ۔ اور اس شر سے بچنا زندگی کا سب سے بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑا دکھ بھی ۔۔۔۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 26 جون، 2020

◇ کتنا ‏مشکل ‏ہوتا ‏ہے/نظم ‏۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


کتنا مشکل ہوتا ہے


اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول چڑھانا 
کتنا مشکل ہوتا ہے 
بیٹھے بیٹھے لمحہ بھر میں ہیں سے انکو تھے کہہ جانا
کتنا مشکل ہوتا ہے 
کتنی باتیں دل میں رہ گئیں بعد میں خود کو یہ سمجھانا
کتنامشکل ہوتا ہے 
بوری بھرتے کب سوچا تھا کاندھے پر یہ کاش اٹھانا 
کتنا مشکل ہوتا ہے 
                       ●●●
            (کلام /ممتازملک.پیرس)

پیر، 22 جون، 2020

کرچی ‏خواب ‏/ شعر



         امیدوں کے بوجھ کے نیچے 
       دب کر  کرچی ہو گئے خواب 
            (کلام:ممتازملک ۔پیرس)

چائے ‏بنائی/ ‏شعر



         چائے



 کیا بتائیں کسقدر ہمکو تمہاری یاد آئی


اپنی خاطر ایک پیالی جب کبھی چائے بنائی ۔۔۔

پیر، 15 جون، 2020

● حیادار / کوٹیشنز

                حیادار

حیا بڑی ہی حیادار ہوتی ہے ۔
 جس کے اندر سے ایک بار رخصت ہو جائے وہاں اس کے  مرتے دم تک دوبارہ واپس نہیں لوٹتی ۔۔۔۔
چاہے
 پھر کوئی حج اور عمرے کرتا رہے اور چاہے زمزم سے روز غسل فرمانے لگے ۔ 
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ 
      چور  چوری سے جا سکتا 
        ہیرا پھیری سے کبھی نہیں ۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں )
               (ممتازملک.پیرس) 



پیر، 8 جون، 2020

بے راہ روی وجہ / کوٹیشنز





          بے راہ روی وجہ

بے راہ روی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی
بلکہ
بے راہ روی خود بہت ساری خرابیوں کی وجہ ہوتی ہے ۔
                 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                       (ممتازملک.پیرس)



اتوار، 7 جون، 2020

● ◇ جا میں نے تجھے آزاد کیا / نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا





جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔
                   آزاد کیا



جب میری محبت کی تیری
نظروں میں کوئی قیمت ہی نہیں
اظہار کا میرے  تیرے لیئے
معنی ہی نہیں وقعت ہی نہیں
جب میری حفاظت نے تجھ کو
اس درجہ ہے بیزار کیا
کہ تونے ہی میری چاہت کو
رسوا یوں سر بازار کیا
کیوں بے قدرے کے خاطر یوں
یہ وقت اپنا برباد کیا
جا میں نے تجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد کیا

موتی کے کھلائے تھے دانے
مخمل میں تجھے ملبوس کیا
پیروں میں تیرے یہ دل تھا میرا
کوئی  اشک تیرا گرنے نہ دیا
لے میں نے محبت کے اپنے
اس پنجرے کا در کھول دیا
اب تجھ کو اجازت ہے اس کی
پرواز جہاں کر بول دیا
جانے پہ تیرے سننا ہم نے
نہ شکوہ نہ فریاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔ آزاد کیا

اب پر تیرے کمزور نہیں
مجھ میں سننے کا زور نہیں
کہ قید کیا میں نے تجھ کو
یہ سنکر دل بیزار ہوا
احساس ہوا ہے شدت سے
غلطی تھی میری جو پیار ہوا
جو چاہے جہاں چاہے جاکر
تو اپنا بسیرا اب کر لے
بیکار ہی اپنے آپ کو یوں
چاہت میں تیری ناشاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا
          جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا

                          ●●●


جمعہ، 5 جون، 2020

شراکت رداری / کوٹیشنز




       شراکت داری 

اللہ کے حکم کے خلاف کسی رستے پر بلانے والے کی دوستی ایسی ہی ہے 
جیسے 
دوزخ میں شراکت داری
اور یہ شراکت آخرت تو تباہ کرتی ہی ہے لیکن دنیا کا سکون اور عزت بھی جلا کر خاک کر دیتی ہے۔
           (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                  (ممتازملک.پیرس)
                       ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 31 مئی، 2020

اصلی ‏جنت ‏کے ‏خیالی ‏راستے/ کالم


   اصلی جنت کے خیالی راستے
             تحریر:ممتازملک.پیرس)



ایک محفل دعا میں ایک خاتون نے اپنے محفل جمعہ میں نہ آنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں بھئی میں تو جمعے کی نماز کے بعد کسی خاص الخاص کے گھر بھی نہیں جاتی ، چاہے کوئی بھی، کتنا بھی ، ضروری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ پوچھا کیوں؟  تو بولیں کیونکہ میں اس روز اتنے اتنے ہزار بار فلاں فلاں وظیفہ پڑھتی ہوں اس سے ہفتے بھر میں کیئے ہوئے سارے گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے ۔۔۔ہم نے پوچھا کہ گناہ تو آپ نے اللہ کے حضور نہیں بندوں کے ساتھ کیئے تو اللہ پاک اپنے بندوں کے معاف کیئے بنا اگر وہ گناہ اتنی آسانی سے معاف فرما دیتا ہے تو پھر اپنے ہی کلام پاک میں بار بار حقوق العباد کی تکرار کیوں کرتا ہے ؟ کیا ضرورت ہے انسانوں کی، رشتوں کے حقوق کی بات کرنے کی، اسے ادا کرنے کے لیئے سخت تاکید کرنے کی؟ 
یہ صرف ایک واقعہ تھا مثال کے طور پر، ورنہ جہاں دیکھیں گھر، باہر ،سوشل میڈیا ہر جگہ پر ہر منٹ میں ایسے ایسے وظائف بانٹے جا رہے ہوتے ہیں کہ اس کے  عوض نعوذ باللہ نہ تو حقوق اللہ کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو کسی کھاتے میں گننے کی ۔ قتل کریں ، یتیموں کا مال کھائیں ، بیواؤں کی زندگی عذاب کر دیں ، دوسروں کی عزتیں پامال کر دیں ، چوری کریں ، ڈاکہ ڈالیں، جھوٹ بولیں  غرضیکہ کوئی بھی گناہ کر لیں ۔ اور بے فکر ہو جائیں۔ آپ کی معافی تلافی کے لیئے ایک ہزار ایک من گھڑت کہانیوں کے ساتھ وظائف کے نام پر بے فکری پیکچز موجود ہیں ۔ جنت تو آپ کے ہی انتظار میں تیار کی گئی تھی کہ کب آپ اپنے وظائف کے  زور پر اسے فتح کرتے ہیں ۔ کیونکہ اعمال کے زور پر اسے پانے کا دم خم تو اب کسی نام نہاد مسلمان میں شاید رہا نہیں ۔ تو آپ بھی اللہ کے ناموں کا ورد اس سے اپنی ذہنی طاقت میں اضافے ، اچھے نصیب کی دعا، اچھے اعمال کی توفیق طلب  کرنے کے بجائے یہ ہی سوچ کر،  کر رہے ہیں کہ اس کے زور پر سات خون آپ پر معاف ہو جائینگے تو آپکو اشد ضرورت ہے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کی اور ایک بار  قران پاک مکمل ترجمے اور تفسیر کیساتھ سمجھ کر پڑھنے کی، اسی طرح ، جسطرح ایک غیر مسلم اسلام میں داخل ہونے سے پہلے اسے سمجھتا ہے۔ اپنی زبان میں سمجھ کر اس پر یقین حاصل کر لیتا ہے تو پھر قران کو اسلام کا دروازہ سمجھ کر ، اس میں داخل ہو کر،  فلاح کا گھر یعنی اعمال سے حاصل کردہ جنت پا لیتا ہے ۔ اصل جنت جس میں اسے دنیا کا سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے اور آخرت کی فلاح بھی ۔ کبھی غور کیجیئے ۔ اس طرح سے مسلمان ہوئے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھیئے گا (جنہوں نے اسلام کسی سے نکاح کرنے کی غرض سے  اور نہ ہی کسی مالی مفاد میں  قبول کرنے کا ڈرامہ کیا ) اور سیکھیئے گا کہ سکون کیا ہوتا ہے ، کامیابی کسے کہتے ہیں اور مسلمان کیسا ہوتا ہے ۔ ہم جیسے تارکین وطن کم از کم اس لحاظ سے تو بیحد خوشنصیب سمجھتے ہیں خود کو ، کہ ہمیں ایسے پرسکوں نو مسلمان چہروں کو دیکھنے اور ان سے ملنے اور ان کی عملی زندگیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع  کبھی نہ کبھی مل ہی جاتا ہے ۔ 
کاش ہمارے ممالک  میں ہم پیدائشی مسلمانوں کے اندر بھی ہمیں ان نومسلموں جیسا  عملی اسلام دیکھنا نصیب ہو سکے ۔ جو وظائف کے زور پر اپنے لیئے جادوئی جنت حاصل کرنے کے لیئے اپنے دن اور اوقات مخصوص نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے اعمال سے اللہ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششیں پیش کر دیتے ہیں اور  اپنے کردہ ہی نہیں ناکردہ گناہوں پر بھی اپنے آنسو نچھاور کرتے ہیں ۔ کفارے ادا کرتے ہیں ، تلافیاں کرنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ۔ تو اللہ ان سے پیار کیوں نہ کرے ؟ اللہ اپنی اس مخلوق سے محبت کیوں نہ کرے جو اس کے احکامات بجا لاتی ہے ؟ اور اس سے محبت کرنے پر کہاں مجبور ہے کہ وہ نافرمانوں کو بنا اعمال صالح کے جنتوں میں داخل کر کے صالحین کی دل آزاری کرے ؟ جبکہ وہ خود فرماتا ہے کہ ان نافرمانوں کیلیئے دردناک عذاب ان کا منتظر ہے ۔ 
سو وظیفے بانٹ کر اور وظیفے پڑھنے میں جو دنوں اور گھنٹوں آپ نے خود کو پابند کرنا ہے یقین کیجیئے اس سے  بیسویں حصے کے وقت میں بھی اگر اسکے بندوں کی خیر اور بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لینگے تو آپکو اصلی جنت کے لیئے نقلی اسباب کبھی کھوجنے نہیں پڑیں گے ۔ اصل منزل تک پہنچنے کے لیئے اصل اور درست راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ خوابوں اور خیالی راستوں کے ذریعے حاصل ہونے والی جنت کا سفر آنکھ کھلتے ہیں ہوا ہو جاتا ہے۔  بالکل اسی طرح جسطرح خیالی پلاو سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہوائی قلعے میں رہا جا سکتا ہے ۔ 
 علماء کرام اور مولانا حضرات بھی اگر وظائف بانٹنےکے بجائے لوگوں  پر ان کے رشتوں اور انسانیت کے حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں ، فرائض اور اللہ تعالی کے ان سے متعلق  سچے احکامات پہنچانا شروع کر دیں ۔ اسے اپنے خطبات کا محور بنا لیں تو اس سے انکی عزتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا بلکہ لوگوں کو اپنے دین کی سمجھ بھی حاصل ہو سکے گی ۔ دین کو وظائف میں بانٹ کر لوگوں کو آپ اسی طرح سے اعمال صالح سے دور کر رہے ہیں جیسے ایک نشہ بیچنے والا، انسان کو عملی زندگی سے دور کر دیتا ہے ۔ خدارا خواب بیچنا بند کر دیجیئے ۔ اب اور کتنا تباہ ہونا رہ گیا ہے 😪😢
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 28 مئی، 2020

زانیوں سے ہمدردی / کوٹیشنز



   زانیوں سے ہمدردی

لعنت ہے ان سب لوگوں پر جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور زنا اور زانیوں کی وکالت بھی کرتے ہیں اور انہیں سزا دی جائے تو ان کے غم میں تڑپنے بھی لگتے ہیں ۔
                 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                       (ممتازملک.پیرس)
قران پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ
   

شادی ‏شدہ ‏مرد ہی کیوں ؟/ کالم



    شادی شدہ مرد ہی کیوں ؟
                         (تحریر:ممتازملک.پیرس)

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ہمارے معاشرے میں ہی نہیں دنیا بھر میں شوبز سے وابستہ خواتین کی اکثریت  جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ اور انہیں اپنے اس دھندے پر کوئی شرمساری بھی نہیں ہوتی ۔ کوئی ایک ادھ فیصد ہی خواتین ایسی ہونگی جو اس غلاظت خانے میں رہ کر بھی اس گندگی سے بچی ہوئی ہونگی ۔ فن کے نام پر عریانیت اور فحاشی کا یہ بازار کبھی ٹھنڈا نہیں پڑا ۔ اس پر یہ ہی خواتین اب  اس قدر طاقور ہو چکی ہیں کہ ماہ رمضان میں بھی کسی  اصل عالم دین کی جرات نہیں کہ وہ آکر ہمیں دین سکھائے بلکہ  اس کی بجائے  ہمیں باحیا اور باپردہ خواتین کی اداکاری کرتے ہوئے یہ ہی بے کردار خواتین اب اسلام سکھاتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں ۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ اسلام سارا سال پھیلاتی  اور عمل کرتی ہیں ۔ اس لیئے ان سے زیادہ مناسب  ان کے اینجٹس پروگرام بنانے والوں کو، میڈیا ہاوسز کو کوئی ملتا ہی نہیں ہے ۔۔ گزشتہ روز اسی طرح کی ایک باکمال اداکارہ کی بدکاری  سے تنگ ایک  خاتون نے اس وقت اسے اپنے ہی گھر میں گھس کر پھینٹی لگائی جس وقت وہ دنیا کو اعتکاف کا جھانسا دیکر اپنے ایک گاہگ کیساتھ داد عیش میں مصروف تھیں ۔  اور گھر کی مالک خاتون نے اس سے قبل کئی بار اسے اپنے شوہر سے دور رہنے کی وارننگ بھی دی ۔ لیکن موصوفہ اعتکاف کے بعد شراب اور کوکین کی دعوت اسی بے شرم آدمی کیساتھ اڑا رہی تھیں ۔ ایسے میں کسی بھی عورت کا ایسے شوہر اور اس کی رکھیل پر حملہ ہی کیا قتل کرنا بھی کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔ 
(کیا ایسی ہی خبر کسی شوہر کو ملے کہ تمہاری بیوی فلاں فلاں کیاتھ منہ کالا کرتی ہے ۔ اس کے ثبوت بھی ہوں اور تصدیق بھی تو کیا وہ اپنی بیوی کو ایسے میں رنگے ہاتھوں پکڑ کر پھولوں کی مالائیں پہنائے گا یا قتل کر دیگا ۔ یہاں تو اس کی بیوی نے ہاتھ پھر ہی ہلکا رکھا ہے ) ایسے شوہر کو جسے اپنی بیوی اور بچوں کی عزت کا خیال نہ ہو ، کیساتھ رہنا بھی اس کی  بیوی کی توہین ہے کیونکہ جسے ایک بار گناہ کا چسکا لگ جائے وہ کبھی سیدھے رستے اور شرافت کی زندگی میں واپس نہیں آ سکتا ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ پارسا اداکائیں پیسے کے لیئے کیا کیا کچھ کرنے کو تیار رہتی ہیں ۔ انہیں  اگر جوتے کھانا اور قتل ہونا پسند نہیں ہے تو انہیں ہر حال میں شادی شدہ مردوں کیساتھ منہ کالا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اور ایسی اداکاراؤں کو بھی حکومت عبرتناک سزائیں دے بلکہ انکے  شادی شدہ گاہگوں سمیت انہیں اسلامی سزا کے حساب سے سنگسار کیا جانا چاہیئے ۔ جو بچوں سے ان کے باپ چھین لیتی ہیں گویا ان کا بچپن ہی چھین لیتی ہیں ۔ ان کا مال دولت ہڑپ کر جاتی ہیں ۔ ان کی زندگی کا چین اور سکون غارت کر دیتی ہیں ۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ایک معاشرے کی اکائی ، ایک خاندان کا ہی ناس مار دیتی ہیں ۔  ایسے بدکار اور بیوفا شوہر کیساتھ رہنے سے بھی ہزار درجہ بہتر ہے کہ عورت کسی اچھے باحیا اور شریف مرد سے نکاح کرے ۔ کیونکہ جس میں حیا نہیں اس میں نہ تو غیرت ہوتی ہے اور نہ ہی وفا ۔ وہ دنیا میں بھی آپ کے لیئے سزا ہے اور آخرت میں بھی عذاب ۔ 
اگر ہمارے ہاں شادی کے رشتے کو بچانا اور زنا کی بیخ کنی کرنی ہے تو حکومت شادی شدہ بدکار مردوں کے خلاف ایک مضبوط اور موثر قانون بنائے تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر لگام ڈالی جا سکے ۔ یا پھر  شادی کیساتھ ہی مردوں  کی تمام جائیداد انکی بیوی بچوں کے نام ہو جانی چاہیئے کیوں کہ ایسی بے شرم بدکار عورتوں کا شکار صرف اور صرف بھری ہوئی جیب والے مرد ہوتے ہیں ۔ پھر  نہ تو  نو من تیل ہو گا اور نہ ہی پھر کوئی رادھا انکے آگے ناچے گی ۔ 
                        ۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 26 مئی، 2020

مسافر ‏جا ‏چکے ‏ہیں ‏/ کالم



     مسافر جا چکے ہیں
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)



زمین سے چند سیکنڈ کی دوری پر ، اپنے گھروں کے دروازے پر کھڑے پیاروں کی نگاہوں میں عمر بھر کا انتظار سونپ کر جانے والے جو اب کبھی واپس نہیں آئینگے ۔
کتنی بار دردو پاک کا ورد ہوا ہو گا ۔۔ کتنے استغفار گونجے ہونگے ۔۔
کتنی چیخیں بلند ہوئی ہونگی ۔۔
اور پھر سب کچھ ایک دھماکے کیساتھ خاموش ہو گیا ہو گا ۔ اللہ کو ان سب کا اپنے گھروں تک پہنچنا منظور نہ تھا ۔ یہ سفر ان سب کے لیئے سفر آخر ٹہرا ۔ زندگی کی ڈور بس یہیں تک تھی ۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ہم اپنی موت کی گھڑی سے بے خبر اپنی اپنی دوڑ میں انجام سے بےخبر دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ اور اچانک ہی زندگی کا میدان ختم ہو جاتا ہے اور موت کی کھائی ہمیں نگل لیتی ہے ۔ 
پی آئی اے دنیا کی وہ فضائی کمپنی ہے جس نے پہلے دنیا بھر کی کامیاب  ائیر لائنز کو بہترین عملے تیار کر کے دیئے ۔ اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ۔ پھر اس کامیاب ترین ائیر لائن کو اپنوں کی کرپشن کی دیمک لگ گئی ۔ جو اس کمپنی کی ایک ایک چیز اور خدمات کو بری طرح سے چاٹ گئی ۔ ہم نے اپنے کالمز میں پہلے بھی پی آئی اے کے پھٹے پرانے جہازوں اور اس کےعملے کی  بدترین "خدمات " کا بارہا ذکر کیا ہے جو کہ اس کے مسافروں کو ہر بار جھیلنا پڑتے ہیں۔ 
ہمارے پائیلٹس دنیا کے بہترین پائلٹس تھے اور ہیں ۔ جن میں سے اکثریت کے پاس باقاعدہ پائلٹس کی تربیت اور تعلیمی اسناد بھی نہیں ہوتیں ۔ ( یہ ہم نہیں کہتے کچھ عرصہ قبل شائع ہونیوالے ایک رپورٹ میں درج تھا)  
یہ جانے والے مسافر اور اس سے قبل جہاز کی تباہی میں شہید ہونے والے تمام مسافر وہی تھے ، جنہوں نے اپنے اسی پائلٹ کیساتھ پہلے بھی کئی بار سفر کیا ہو گا ۔ کئی بار پرسکون ہوائی سفر کیا ہو گا ۔ جہاز کے کامیابی سے زمین کو چھولینے پر شاباشی کے لیئے تالیاں بھی بجائی ہونگی۔ 
آج بھی اپنے گھروں سے پورے اعتماد کیساتھ اس جہاز کی ٹکٹ اپنے دستی بیگز میں رکھتے ہوئے  ایک بار مسکرا کر سوچا ہو گا کہ چلو ایک بار پھر آیت الکرسی پڑھتے ہوئے پی آئی ائے کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں دیکھو منزل پر سلامت گھر پہنچتے ہیں یا پھر اخبار کی سرخیوں پر سفر کرتے ہوئے پہنچتے ہیں ۔ اس کمپنی کا کوئی ملازم غریب نہیں ہے۔ لوڈر سے لیکر مینیجنگ ڈائیریکٹر تک ۔ سبھی دونوں ہاتھوں سے اس کمپنی کی بوغیاں نوچتے ہیں اور ہڈیاں چباتے ہیں  لیکن یہ کمپنی آج غریب ترین کی جا چکی ہے ۔ جس ہانڈی میں سے سالن پہلے ہی چرا لیا جائے تو وہ کبھی کسی کو پوری نہیں پڑتی ۔ یہ ہی حال پی آئی اے کی دیگ کیساتھ ہوا۔  دودھ کی دیگ تھی اور بلوں کو رکھوالی ۔ پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے میں ہوا کرتا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی  تحقیقات کے نام پر کچھ اور بلے دودھ کی رکھوالی پر بٹھائے جائینگے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ تحقیقاتی ڈرامہ رپورٹ کسی اندھیرے کنویں میں پھینک دی جائے گی ۔ جس بات کو لوگوں کے غضب سے نکالنا  ہو اس کی انکوائری کا اعلان کر دیجیئے ۔ عوام ٹھنڈے تو انکوائری بھی ٹھنڈی ۔۔
اس ائیر لائن پر ترس کھائیے ۔ کیا مشکل ہے ایماندار ارباب اختیارات کے لیئے کہ  اسے نوچنے کھسوٹنے والوں کے مال اسباب جائیدادیں ضبط کی جائیں  اور اس ائیر لائن کے نئے بہترین بیں الاقوامی میعار کے جہاز خریدے جائیں ۔ عملے کو  مسافروں کے ساتھ  پیش آنے کی باقاعدہ تربیت دی جائے ۔ غیر ضروری عملے کو فارغ کر کے ان مالی وسائل کو دوسرے ضروری اخراجات پر لگایا جائے۔ سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ۔ میرٹ پر بھرتیاں یقینی بنائی جائیں ۔  جانے والے تو واپس تو نہیں آئینگے ۔ لیکن آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیئے عملی اقدامات کیئے جائیں تاکہ عوام کا اعتماد اس ائیر لائن پر بحال ہو سکے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔



منگل، 19 مئی، 2020

● آگے ‏بڑھنے ‏کا ‏جنون / کوٹیشنز






آگے بڑھنے کا جنون

آگے بڑھنے کے جنون میں لوگ اکثر
کبھی کردار سے گر جاتے ہیں ،
کبھی گفتار سے گر جاتے ہیں ،
اور
کبھی نظروں سے ہی گر جاتے ہیں ۔۔
شاید انہوں نے سنا نہیں کہ 
نہ وقت سے پہلے کسی کو کچھ ملتا ہے۔۔۔ 
اور نہ نصیب سے زیادہ کوئی پا سکتا ہے ۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                         (ممتازملک.پیرس)



ہفتہ، 16 مئی، 2020

پیسہ سیلاب / کوٹیشنز


           پیسہ اور سیلاب

پیسہ وہ سیلاب  ہے جو آتے ہوئے ان چاہا گند بھی ساتھ لیکر آتا ہے
 اور 
جاتے جاتے سارے پاکیزہ رشتے بھی بہا کر ساتھ لیجاتا ہے ۔ 
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                               (ممتازملک.پیرس)


پیر، 11 مئی، 2020

مڑ ‏کر ‏مت ‏دیکھنا / کوٹیشنز



       مڑکر مت دیکھنا 

وقت بھی کیسا جلاد ہوتا ہے ہر لمحے کو ، ہر رشتے کو قلم کرتا چلا جاتا ہے ۔۔۔
یہ وہی آسیب زدہ غار ہے جس کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ
پیچھے مڑ کر مت دیکھنا 
ورنہ پتھر ہو جاو گے 
                    (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                                (ممتازملک.پیرس)

ی

اتوار، 10 مئی، 2020

& ہر ماں کے نام/ اردو شاعری ۔ ماں۔ اور وہ چلا گیا




            (ہر ماں کے نام)

ماں کے پیروں کے نیچے سے 
میں نے جب بھی خاک اٹھائی 
  ہر اک پل میں جنت پائی 

جس نے بھی یہ موقع پا کر 
ہاتھوں سے یہ خاک گنوائی 
 خواری کاٹی دھول اڑائی 

ماں کو گھر سے باہر کر کے
اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں
اپنے گھر میں قبر بنائی 

چاہےخوشی ہو یا پھر غم ہو
ہو مسکان یا آنکھ یہ نم ہو
ماں کی ہر دم یاد ہے آئی

وہ نہ ہوا ممتاز کسی کا 
ہو نہ سکا جو  اپنی ماں  کا 
کوئی نہیں اس سا ہرجائی

            (کلام: ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 9 مئی، 2020

امیدوں ‏کی ‏پھانسی / شاعری



ہم نے اپنے رشتوں کو 
           اکثر اپنے ہاتھوں سے 
             امیدوں کی پھانسی دی 😢
                                      (ممتازملک.پیرس)


جمعرات، 7 مئی، 2020

زمین ماں / کوٹیشنز




زمین ماں 
زمین وہ ماں ہے جو اپنی اولاد کے درد چھپاتے چھپاتے مر جاتی ہے۔۔
بنجر ہو جاتی ہے ۔۔۔
ریگزار بن جاتی ہے ۔۔۔
      😢😢😢
          (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                  (ممتازملک ۔پیرس)

جمعہ، 1 مئی، 2020

انتظار ۔۔۔ / کوٹیشنز


      انتظار ۔۔۔🤔

انتظار کرنے کی عادت ڈالیئے
کیونکہ 
 انتظار امید کی علامت ہے 🌱
اور
 امید زندگی کی ۔۔۔۔🌳
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک.پیرس)

پیر، 20 اپریل، 2020

بیڑیاں / شاعری


              بیڑیاں
       

پاؤں میں بیڑیاں میرے تو وزن دار نہ کر🌺
میں تو پہلے سے ہوں باغی مجھے بیزار نہ کر


🌺 دیکھ رکھےہیں ہراک رنگ کےناٹک میں نے
پیش اب سامنے میرے کوئی فنکار نہ کر


🌺مجھکو گم کردے طلسمات کی دنیا میں کہیں  
ظاہراً سامنے ایسا کوئی کردار نہ کر


🌺آنکھ میں رہنے دے کچھ دیر تو منظر اسکا
محنتیں برسوں کی لمحات میں بیکار نہ کر


🌺دوسرے کے کسی سورج سے متاثر ہو کر
اپنی سوچوں کے چراغوں پہ تو یلغار نہ کر

🌺قرض کے رنگ اترتے ہیں بڑی مشکل سے 
ایسے رنگین کبھی سادہ سے افکار نہ کر


🌺عادتوں میں میری شامل نہیں چاہت اتنی
اسطرح مجھ پہ عنایات کی بھرمار نہ کر


🌺درد خالق کے سوا تو نے کہا کیوں اس سے
وہ بھی مخلوق ہے مخلوق سے اظہار نہ کر


🌺میں نے ممتاز بہت بار یہ مِنّت کی ہے
حد سے زیادہ میری عزت میری سرکار نہ کر
         (کلام / ممتازملک. پیرس)p
                          ......

اتوار، 19 اپریل، 2020

حق چھین لیا ہے / شاعری




اس نے میری باتوں کا اثر اتنا لیا ہے 
سچ بولنے کا مجھ سے ہی حق چین لیا ہے

پوشیدہ ترازو میں تیرے ایسی کشش ہے
خود تولنے کا مجھ سے ہیحق چھین لیاہے
                (  کلام: ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 18 اپریل، 2020

● فرانس میں سفیر پاکستان تقابلی جائزہ/ کالم




فرانس میں
 سفیر پاکستان کا تقابلی جائزہ
    (تحریر:ممتازملک۔پیرس) 
 غالب اقبال صاحب/معین الحق صاحب 

تمام ممالک دنیا بھی میں اپنے ملک کی جانب سے ایک سفیر کی تقرری کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں پر موجود اپنی کمیونٹی اور اپنے ملکی  مفادات کا تحفظ کر سکے ۔ بدقسمتی سے  پاکستان کے سفارتخانوں  میں اکثر ایسے لوگوں کو بطور سفیر  تعینات کیا گیا ہے جن کو سفارتکاری کی الف ب سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی یا پھر ان کی اہلیت ہی اس عہدے کے مطابق نہیں تھی۔ اس صورتحال نے  ایک طرف تو تارکین وطن پاکستانیوں کو ہمیشہ ہی آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے ۔ اور دوسری جانب ملکی مفادات کو بھی داو پر لگائے رکھا ہے ۔ کیونکہ وہ نااہل سفارتکار کسی نہ کسی سیاسی بنیاد پر یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر افراد کے ملکی منظر نامے سے ہٹنے کا وقتی جواز ہی ہوا کرتے تھے ۔ کہ جاو کھاو پیو سیر سپاٹا کرو اور چھٹی مناو،  جیسا دورانیہ گزار کر پھر سے پاکستان  آ کر کھیل وہیں سے شروع کرو جہاں سے چھوڑا تھا ۔۔ اسی قسم کے معاملات ہمیں 1998ء سے فرانس آنے کے بعد 2012ء تک دیکھنے کو ملتے رہے ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں یاد تک نہیں کہ اس دور میں فرانس میں ہمارے سفیران کون کون سی عظیم ہستیاں رہی ہیں اور انہوں نے کون کون سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔ 
فرانس میں دو دہائیاں گزار کر ہمیں اپنے سفارت خانے کے حوالے سے اگر کسی پہلے سفیر کا نام یاد ہے تو وہ تھے جناب غالب اقبال صاحب (2013ء تا 2016ء)۔ جنہیں دیکھ سن کر ہمیں معلوم ہوا ، یہ احساس جاگا کہ ہم پاکستانی یہاں فرانس میں لاوارث نہیں ہیں ۔ ہماری آواز سننے والا بھی یہاں کوئی ہے ۔ دستاویزات  کی تیاری میں درپیش مسائل ہوں یا پھر اہم مواقع پر اپنی کمیونٹی کے سامنے آنا یا ان سے رابطہ کرنا بلاشبہ غالب اقبال صاحب اور ان کی ٹیم نے ہمیشہ ہی اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں انجام دیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام کیساتھ کیا جاتا ہے ۔ یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ عزت انہوں نے اپنے رویئے اور اپنی کارکردگی سے کمائی ہے ۔ 
ان کا اپنا ای میل ایڈریس پبلک کرنا ، ہر محفل میں کمیونٹی کو خود دعوت دینا اور اس بات پر اصرار کرنا  کہ میں آپ سے ایک کلک کی دوری پر ہوں ،  آپ کسی بھی وقت 24 گھنٹے،  ساتوں دن مجھے میل کر سکتے ہیں ۔ اپنے مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں ۔ اور نہ صرف کہنا بلکہ ہر میل کا ایک دو روز کے اندر جواب بھیجنا بھی انہیں کی خصوصیت رہا ہے ۔ جو انہیں ان سے پہلے فرانس آنے والے سفیران سے جدا پہچان دلاتا ہے ۔ اب اگر بات کریں ان کے بعد آنے والے سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب (2016ء تا اب تک جاری) کی تو بلاشبہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفیروں کے مقابلے میں فرانس میں متعین سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب نے جس طرح سے کرونا کرائیسس اور اس سے پہلے تارکین وطن کے دوسرے اہم مسائل پر اپنا کردار ادا کیا ہے بلاشبہ وہ لائق تحسین ہے ۔
بطور کالمنگار میرا کام قصیدہ گوئی کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن اس میں حوصلہ افزائی کا عنصر بہر حال موجود ہونا چاہیئے ۔ پاک فرانس معاہدے ہوں یا دستاویزی معاملات، پاک کمیونٹی کی شکایات پر متحرک ہونا ہو  یا ان کی مدد کرنا ، پاکستانیوں کے اموات اور ائیر لائنز کے مسائل ہوں ،
معین الحق صاحب نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ بہت سی باتوں اور عوامی رابطوں میں وہ غالب اقبال صاحب جیسا رویہ نہیں اپنا سکے شاید اس کی وجہ ان کے گرد موجود مخصوص ٹولے کی ذہنی سطح ہو ۔ جس نے انہیں عام پاکستانی کمیونٹی کے قریب ہی نہیں ہونے دیا ۔ نہ ہی انہیں عام لوگوں کے مسائل سے براہ راست واقف ہونے دیا ۔ کیونکہ آج تک ان کا ذاتی رابطہ میل بھی کسی کے پاس موجود نہیں ہے ۔ اس لیئے ان تک اپنے مسائل پہنچانا ہر ایک کے بس میں بالکل نہیں ہے ۔ اور تو اور مجھ جیسی لکھنے والی تک کے پاس ان کا ای میل اور رابطہ نمبر نہیں ہے ۔  جس سے انہیں کسی معاملے کی آگاہی براہ راست  پہنچائی جا سکے ۔ اس لیئے جو کچھ ان تک ان کے مخصوص ذرائع سے پہنچتا ہے اس پر ان کا رد عمل ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ۔ جو کہ کافی حد تک مثبت بھی ہوتا ہے ۔  ہم پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے سفیر پاکستان معین الحق صاحب کو ان کے اچھی کارکردگی پر مبارکبار پیش کرتے ہیں اور اس اچھی کارکرگی کو بہترین کارکردگی میں ڈھلتے ہوئے دیکھنے کے لیئے پر امید ہیں ۔ اس کے لیئے انہیں عام لوگوں کے قریب آنا ہو گا ۔ عام لوگوں کیساتھ ہر معاملے میں زیادہ موثر انداز میں  شامل کرنا ہو گا ۔ جو وہ کر سکتے ہیں تاکہ ان کا نام ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی غالب اقبال صاحب جیسے بہترین سفیروں کی فہرست میں زندہ رہے۔ 
          پاکستان زندہ باد  
         فرانس پائندہ باد                                      ۔۔۔۔
                   

ہفتہ، 11 اپریل، 2020

● عمر جیسا مسلمان ۔ شاعری ۔ پبلشڈ






دنیا میں تھا اللہ کی برہان ،کہاں ہے ؟
نہ جانےعمر(رض) جیسامسلمان،کہاں ہے؟

بھوکاتونہیں سویا میرےملک میں کوئی 
ہر لمحہ اسی پر ہو پریشان، کہاں ہے ؟

ہر ایک کےدر پہ گیاخادم کی سی صورت
جو پشت پہ لادے کھڑا سامان،کہاں ہے؟

جو رات کو بستر پہ کبھی سو نہیں پائے
بتلاو ایسا وقت کا سلطان، کہاں ہے؟ 

اسلام کی خاطر جسے اللہ سے مانگا 
آقا کی دعاوں کا وہ ارمان ،کہاں ہے ؟

ممتاز کسی طور دکھے موت سے پہلے 
کہہ پاوں عمر جیسا مسلمان ،کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

بےحیائی رفتہ رفتہ / کوٹیشن






عذاب بطفیل 
رفتہ رفتہ بےحیائی

بے حیائی یا بےغیرتی اچانک ہی ہم پر حملہ آور نہیں ہو جاتیں ،
بلکہ یہ آہستہ آہستہ ہم لوگوں کے ہی ذریعے کہیں فیشن ہے، کہیں رواج ہے ، کہیں ضرورت ہے  کہہ کر اپنی جگہ بنا لیتی ہیں ۔ اور کہیں تو یہ "ہمیں کیا " کی بیرحمانہ سوچ کے طفیل بھی ہماری زندگیوں میں داخل ہو جاتی  ہیں ۔ جس کی سزا ہمیں آخرت میں تو بھگتی ہی پڑیگی لیکن دنیا میں بھی اس کا خمیازہ ہمیں عذاب الہی کی مختلتف صورتوں میں  جھیلنا پڑتا ہے ۔ 
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 8 اپریل، 2020

ایک زندگی اور موت کا اختیار / چھوٹی چھوٹی باتیں



       ایک زندگی اور موت کا
                 اختیار 
ویسے تو زندگی اور موت کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی ہی کے پاس  ہے ۔
                     لیکن
 ایک چیز ہے جس کی موت اور زندگی کا اختیار اس نے انسان کو دے رکھا ہے اور وہ ہے 
                  امید 
چاہے تو اسے زندہ کر دیجیئے 
چاہے تو اسے مار دیجیئے 
                    ۔۔۔۔۔۔
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 1 اپریل، 2020

خیرات دینے والوں کی شامت / کالم


     خیرات دینے والوں کی شامت
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیئے تو آزمائش ہوتی ہی ہے جو لوگ اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ آزمائش ان لوگوں کے لیئے اور بھی بڑی ہو جاتی ہے جب آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو اور آپ اس آفت سے بھی محفوظ ہوں ۔ اللہ پاک نے جہاں اولاد کو آزمائش بنا کر انسان کی زندگی کا حصہ بنایا ہے تو وہیں اس کے مال کو بھی اس کے لیئے سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے ۔ ساری کائناتوں کا خالق ، کیا اپنی جناب سے کسی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا ؟ 
جس نے آپ کو دیا وہ آپ کے سامنے سائل بنا کر کھڑے انسان کو نہیں نواز سکتا تھا ؟ 
کیوں نہیں ۔ لیکن رزق  تو اللہ پاک نے انسان کی پیدائش سے سالوں قبل اسکے نصیب میں لکھ چھوڑا تھا ۔ جب اس نے اس مانگنے والے یا محتاج کے نصیب ہی میں رزق نہیں لکھا تو میں اپنے مال میں سے اسے کیوں دوں ؟ 
درست فرمایا ، نصیب تو واقعی لکھا جا چکا تھا ۔ اس کے  نصیب میں آسائشیں بھی لکھی جا چکی ہیں اور آزمائشیں بھی ۔ اس کے نصیب کی آزمائش یہ ہے کہ اسے آپ کے سامنے مجبور نگاہیں اور پھیلائے ہوئے دامن کیساتھ کھڑا ہونا پڑا اور آپ کی آزمائش یہ ہے کہ آپ اللہ کے عطا کیئے ہوئے مال و دولت میں سے اللہ کی مخلوق کے لیئے کتنا حصہ نکالتے ہیں ؟ وہ چاہتا تو اس مانگنے والے کی جگہ آپکو بھی کھڑا کر سکتا تھا اور دینے والے کی جگہ وہ محتاج کھڑا ہوتا ۔ لیکن جوابدہی کے امتحان میں  آج آپ کھڑے ہیں کہ آپ ان سائلین کے لیئے کیا کرتے ہیں ؟
لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایک قومی المیہ بھی تو ہے کہ 
دنیا بھر میں خیرات اور امداد کی رقوم ہر طرح کے ٹیکسز سے مبرا ہوتی ہیں اور ان آفات کے زمانوں میں اسی امداد کے  بہانے بہت سا کالا دھن عوام کی خدمت کے لیئے حکومتوں کو مددگار مل جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ زرا کسی کی مدد کے لیئے کچھ دیکر دیکھیں حکومت اور نیب کے نام پر بنے چودھری ان کی بوسونگھتے سونگھتے اس کی سات پشتوں کی کھال ادھیڑ دینگے اور انہیں اس بات پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا کہ بھائی تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو کسی کی مدد کرتا ۔ اس زمانے کی رسیدیں طلب کی جائیں گی جس زمانے میں ہمارے ہاں پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔  اور پھر ہم کہاں کہاں سے ثبوت اکٹھے کرتے پھریں کہ جناب یہ مال  میری محنت کا ہے یا جائز ہے ۔ زرا ماضی پر نظر ڈال کر دیکھیں حکومت چاہے کسی کی بھی رہی ہو لیکن ٹیکس پالیسیز اور اپنی دولت کو مکمل طور پر ظاہر کرنیوالے کے لیئے قوانین اس قدر مضحکہ خیز اور  ہتھک آمیز ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنا حق حلال کا مال بھی پورے کا پورا ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت آپ کو کشکول پکڑا کر سڑک پر کھڑا کر دیگی کہ بس یہ ہے اس کا انعام ۔ان ٹیکسز اور ڈیکلریشن  کے بدلے اسے کونسی سہولیات ملتی ہیں ؟ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں کم از کم ہماری نظر سے تو ابھی تک اہسا کوئی خوشنصیب نہیں گزرا ۔ ہم نے تو ایسا ایماندار بیچارہ بھی دیکھا ہے جس نے اپنی ہر چیز پچھلے سال ڈکلیئر کروائی ،  پانچ لاکھ روپے کا سالانہ انکم ٹیکس  پوری ایمانداری سے ادا کیا ۔ چند ہی ماہ میں اس کے کام کے حالات اچھے نہ رہے تو اپنے بچے کی بیماری پر سرکاری ہسپتال میں گیا تو اس بچے کو  ایک ڈسپرین کو گولی تک فری میں  دینے سے انکار کردیا گیا یہ کہہ کر کر کہ جناب آپ تو ٹیکس پیئر ہیں آپ کو کوئی دوا اور سروس فری میں نہیں دی جا سکتی ۔ اب بیچارہ پچھلے سال کے ٹیکس کی ادائیگی کا جرمانہ تل تل کر مقروض ہو ہو کر بھر رہا ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی رقم ڈکلیئر ادا کر آیا ۔ اس کے بدلے اس پر ہر آسانی کے دروازے بند ہو گئے کیونکہ اسے ٹیکس پیئر کا نمبر جاری نہیں ہوا بلکہ شاید مجرم نمبر جاری ہو چکا ہے ۔ 
یہ ہی حال کسی بھی شخص کے کہیں پر خیرات کرنے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کا بھی ہے ۔ جس قوم میں زلزلہ زدگان اور سیلابی متاثرین کے لیئے آئے ہوئے خیراتی کمبل اور اشیاء تک سوٹوں  والوں اور بوٹوں والوں کے گھروں سے برامد ہوتے ہوں، جہاں ہر صاحب اختیار یتیموں اور بیواوں کا مال کھانے کے لیئے اپنی ہی بیویوں اور بچوں کو یتیم اور بیوہ لکھوا کر کھانے کا رواج ہو ، جہاں بیت المال اور اوقاف کے مال پر دین فروشوں کی بدبخت اولادیں عیش کرتی ہوں ، دور نہ جائیں 
ابھی تازہ واردات زیادہ پرانی بات تو نہیں جب اربوں روپے قوم سے ڈیم کے نام پر اکٹھے کرنے والوں نے اسے مال مفت دل بیرحم کی طرح اڑایا ہو ، وہاں آج اگر خدا کا عذاب نہیں آئیگا تو کیا ہو گا ۔ دنیا بھر میں یہ آزمائش ہے لیکن پاکستانیوں پر یہ واقعی خدا کا عذاب ہے ان کے اعمال کے سبب۔ اور یہ بھی دیکھ لیجیئے گا کہ جس قوم کی اشرافیہ  کروڑوں کے گھر میں رہ کر چھ چھ ماسیاں اور ملازم رکھتی ہے لیکن آفت کے دنوں میں انہیں نوکریوں سے نکال کر بیروزگار کر کے سڑک پر  بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اسی لعنتی  اشرافیہ کے لیئے یہ خیراتی وینٹیلیٹرز  بھی استعمال کیئے جائینگے ۔ عام آدمی کو مرتے مر جائے لیکن اسے ان وینٹیلیٹرز کی سہولت کبھی نہیں پہنچائی جائیگی ۔  بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی امداد میں ملے   ٹیسٹ مشینز کو چغتائی لیب جیسی جگہوں پر نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔آج عوام سے پھر سے بھیک مانگنے والوں سے پوچھا جائے کہ پچھلا مال کدھر ہے ؟ 
پچھلی اپوزیشن کے ایک عالمی غبارہ لیڈر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جب قوم پر بے اندازہ ٹیکس لگیں ، ملک میں مہنگائی ہو  ، عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے ۔۔۔۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔



شکوے


             شکوے

انکو میرے وجود سے شکوے تھے اسقدر
ہرلمحہ میری روح کو مضروب کر دیا 

دنیا جہاں کی خوبیاں اس میں سمٹ گئیں 
ہر  عیب میری ذات سے  منسوب کر دیا
 (ممتازملک.پیرس)

منگل، 31 مارچ، 2020

معافی کس سے؟ چھوٹی چھوٹی باتیں

     

           معافی کس سے ؟


یہ ہی اتنے دن سے لوگوں کے دماغ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں میں کہ اللہ سے معافی اللہ کے حقوق کی مانگ سکتے ہو۔۔
بندے کے حقوق تو طوق بن کر لٹک رہے ہیں تمہاری گردنوں پر انہیں ادا کرو تاکہ تمہاری گردنیں آزاد ہو سکیں ۔

        (چھوٹی چھوٹی باتیں)

          (ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 28 مارچ، 2020

خدا نے سن لی میری / اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


 (کشمیر اور کشمیریوں کی آواز)
   خدا نےسن لی میری
      کلام:ممتازملک. پیرس)


خدا نے سن لی میری عرش کو ہلا ہی دیا 
ہوں کس عذاب میں  دنیا کو یہ بتا ہی دیا 

میری ردائیں چھنی سامنے تمہارے ہی 
ردائیں چھیننے والوں کا منہ چھپا ہی دیا 

ہمیں  جو روکتے تھےسجدوں اور عبادت سے
انہیں کو گھٹنوں پہ  تو نے بھی   رب جھکا  ہی دیا 

ہمارے گھر کے اندھیروں سے لاتعلق تھے 
انہیں چراغ  جلانے کا پھر مزا بھی دیا 

ہماری بیٹیاں لٹتی رہیں جہاں والو
خدا کا خوف نہ اس نے تمہیں دلا ہی دیا 

ہماری بھوک تماشا تھی اک مذاق تھی اور 
تمہیں تو بھوک کی لذت سے آشنا ہی کیا 

ہمارے سامنے جاں دی ہمارے پیاروں نے 
تمہیں دواؤں کے ہوتے ہوئے رلا ہی دیا

اب اس سے بڑھکے تعارف  ستم شعار کا کیا
جو زخم دیتا ہے اور دیکے مسکرا بھی دیا

نہیں ہے مجھ سے تو غافل یقین تھا مجھکو
اگرچہ دل نے دعاوں کو ورغلا ہی دیا 

روہنگیا ہو یا کشمیر شام ہو کہ فلسطین 
خدا تو سب کا ہے ممتاز یہ دکھا ہی دیا 
                     ۔۔۔۔۔۔۔




خدا یاد آ گیا/ فوٹو شعر



               خدا یاد آ گیا 


● عاجزی کمزوری نہیں/ کوٹیشنز



            عاجزی کمزوری نہیں 


لوگ عاجزی کو کمزوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ تو وہ طاقت ہے جو آپکو اپنی ہمت سے کہیں  زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیتی ہے ۔ 🙇‍♂️
بالکل  ایک چیونٹی کی طرح جو اپنی وزن سے سینکڑوں گنا زیادہ کا بوجھ اٹھا لیتی ہے ۔ 💕💖

(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک.پیرس)
۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 24 مارچ، 2020

معاف کر دے یا خدا / شاعری


معآف کر دے یا خدا 
 (ممتازملک.پیرس)

موت کا شکاری جیسے
 گھات میں ہے لگ چکا 
لے گیا اڑا کے جو بھی 
ہاتھ اسکے لگ چکا
خواب ہیں سمٹ گئے 
ٹکڑیوں میں بٹ گئے
ہر امید  چھپ گئی
 ہر ترقی رک گئی
بے آواز چیخ سے 
 دل ہر اک سہم گیا 
خوف کی رکاوٹوں سے
وقت چرخہ تھم گیا 
روک دے تو قہر کو 
کر آباد شہر کو
دل کو اپنی یاد سے 
اے خدا آباد کر 
شر کی قید میں ہے یہ
 تو اسے آذاد کر
یا الہی رحم فرما
معاف کر دے ہر خطا
آخری گھڑی میں بھی ہے 
ہم کو تیرا آسرا 
تجھ کو زیب دے غرور 
ہم کو عاجزی عطا 
تیرے ہر غضب سے بھاری 
ہے تیرا رحم سدا 
بھولتا نہیں ہے تو 
تو نے ہی ہمیں کہا
تجھ کو آج اپنے اس 
قول سچ  کا واسطہ 
معاف کر دے ہمکو مولا 
تو ہماری ہر خطا
واسطہء مصطفے(ص ع و ) 
واسطہء شیر خدا (رض)
واسطہء سیدہ (رض)
واسطہء کربلآ (رض)
 واسطہء انبیاء (ع س)
واسطہء اصحاب کا (رض)
پڑھ لیا صلی علی 
صلی علی صلی علی   
               ۔۔۔۔۔






پیر، 23 مارچ، 2020

کشمیر کی آواز/ فوٹو شعر


             کشمیر کی آواز 


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/