مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
ممتاز ملک ۔ پیرس
ممتاز ملک ۔ پیرس
آج کل مردوں میں بڑی ہی تیزی سے ایک مرض پھیلتا جارہا ہے پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہمارے آج کے آرٹیکل کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ ہم آپ کو اس مرض کی وجوہات، علامات اورعلاج اور ہاں حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کریں ۔ یعنی آج ہم آگاہی مہم پر ہیں ۔ کیا کہا، کس کی جانب سے ۔ کیا مطلب اب ہمیں کوئی کہے گا نہیں تو ہم کیا ساری عمر کسی مہم پر ہی نہ جائیں ۔ ہاں تو ہم اس مہم پر ہیں ، خود اپنی طرف سے ہی ۔
اس مرض کی وجوہات میں ریٹائرمنٹ سرفہرست ہے جبکہ بیکاری یا بیروزگاری بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ایک دو جگہ محلٓے مین مرمت کروانا بھی اسکی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اپنے آپ کو مُنٓے راجہ کہلانے کا شوق بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔ ایسے مریضوں کے محلٓہ داروں کو چاہیئے کہ انہیں مُنٓے راجہ ہی پکارا کریں تاکہ یہ اپنے تماشے دوسرے محلے میں کر کے اپنے محلے کی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔
اس مرض کی علامات یہ ہیں کہ مرد سب سے پہلے تانک جھانک میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اسے اپنے گھر کی عورت کے سوا دنیا کی ہر عورت مس ورلڈ لگنے لگتی ہے چاہے وہ کالی کلوٹی گندی مندی بدبدبودار جمعدارنی ہی کیوں نہ ہو ۔ موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی اپنی بےعزتی کا سامان پیداکرتا رہتا ہے کسی کو کیااپنے دشمنوں کو بھی یہ سامان پیدا کرنے کی تکلیف نہیں دیتا ۔ اس کام کے لیئے اسکی اپنی حرکتیں جو کافی ہوتی ہیں یعنی کہ موصوف خود کفیل ہوتے ہیں ۔
دوسرے مرحلے میں جناب کو ایک عدد فیس بُک اکاؤنٹ کی سوجھتی ہے ، یعنی ہری ہری سوجھتی ہے، تو جناب فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں تو اپنی عمر کا سال غائب کر کے اور ایک عدد پُرااااااااااااااااانی سی فوٹو کو نیا کر کے لگاتے ہیں اور جب بھی کسی خاتون کے خوبصورت سی پک نظر آئی لگے فورا اس کو ریکوئسٹ بھیجنے، اس کے بعد اس کا حدود اربعہ جاننے کے لیئے بے چین ہو جائیں گے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہی گھر میں بلکہ اپنے ہی بیڈ روم میں 25 سال سےساتھ رہنے والی خاتون( جو کہ بدنصیبی سے ان کی بیگم جانی جاتی ہیں )انہیں ان تک کا حدود اربعہ تک معلوم نہین ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہین کہ چراغ تلے اندھیرا ۔ یا پھر بیگم بغل میں اور ڈھنڈھورا فیس بُک میں ۔
تیسرے درجے میں یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ ہی مریض اس خاتون سے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں اس خاتون کو جسے فرینڈر بنانا چاہتے ہیں فٹ سے آنٹی کہہ دیتے ہیں ۔ خود کو کم سن ثابت کرنے کے لیئے ۔ اسے کہتے ہیں " چور کی داڑھی میں تنکا"۔
( ارے مریض برادر فیس بُک رشتہ داریاں بنانے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہاں لوگ اپنی پسند اور ناپسند کی تحریریں یا تصویریں ایک دوسرے کیساتھ بانٹتے یا بھیجتے ہیں ۔) لیکن ایسے مریض بیچاری فیس بُک کو بھی اپنے مُحلّے کا تھڑا ہی سمجھ کر ٹھرک جھاڑنے کا زریعہ بنا لیتے ہیں جوابا یا تو ذلیل ہوتے ہیں یا پھر بلاک ۔
مرض کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے خواتین سے ان کا سکائب پر بات کرنے کا اصرار ۔ جس میں یہ کُھل کر اپنی اوقات دکھانا چاہتے ہیں تو مذید شرمندہ کیئے جاتے ہیں ۔
اس مرض کو کہتے ہیں عمر چوری کا مرض جو کہ کبھی خواتین میں بکثرت پایا جاتا تھا ۔ لیکن اب مبارکاں مردوں میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے ۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج ۔ ایک مرتبہخواتین اور مردوں کی ایک مشترکہ ادبی نشست میں کسی خاتون نےشاعر مشرق جناب علّامہ اِقبال سے پوچھا کہ جناب خاتون کی جمع تو ہے خواتین ۔ تو مرد کی جمع کیا ہوئی ؟ تو علّامہ اِقبال نے برجُستہ جواب دیا کہ مرد کی جمع ہوئی مۤردُود ۔ یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ پڑا ۔ اس سچے لطیفے کی سمجھ ہمیں بھی بڑی دیر سے آئی ۔
ایسے مریض مرد سمجھتا ہے کہ فیس بُک شاید اسکے دل کا کوئی راز ہے جسے کوئییییییییییییی نہیں جان سکتا ۔
جبکہ اسکا علاج یہ ہے کہ اسے کوئی قابل بچہ یا دوست بیٹھ کر سمجھائے کہ بڑۓ ابّا ۔ یا انکل ماموں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیٹ کی دنیا اور خاص طور پر فیس بُک کی دنیا ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے دو فرشتے منکر نکیر ہمارے کندھوں پر قلم دوات دیکر بٹھا رکھے ہیں کہ ہماری ہر چٓوّل کو نوٹ کریں اسی طرح چند شریر ذہنوں نے فیس بُک بنا دیا تاکہ ہم اپنے کرتُوتوں کو اپنے ہی ہاتھوں اس میں ایڈ کرتے جائیں ۔ اور گندے گندے کمنٹس دیکر یا فیک نک سے آئی ڈیز بنا کر یا گندے واہیات ولگر لائیکز کر کے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اسے ڈیلیٹ کر دیا تو یہ بے نام و نشان ہو گیا یا ہم نے اسے پوشیدہ کر دیا تو اب یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ جی نہیں اس میں ہماری ہر کی ہوئی بات شاید ہم تو بھول جائیں لیکن برادر مریض یہ شیطانی جال ہمیں کبھی بھولنے نہیں دیتا ۔
لہذا یا تو نیٹ استعمال کرنا ہے تو اسکی تھوڑی سی سیکھ لیکر اسکا استعمال کریں اور تہذیب اور شائستگی سے بھی کبھی کبھی اپنی واقفیت کا اظہار کر دیا کریں اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آپ کو جھیلنے والے کی صحت پر بھی ۔ یا پھر جس حساب سے بابوں کے اور شوقین مردوں کی شکایتیں ہو رہی ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بہنوں کو گھروں مین لیپ ٹاب پر لکھ کر لگانا پڑے کہ اسے چھچھوروں اور بابوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
منجانب ۔ تحفظ بچیات و دفعانِ واہیاتیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔