ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 17 مارچ، 2020

ایسی پردہ پوشی بھی جرم ہے جناب / کالم


ایسی پردہ پوشی بھی 
جرم ہے جناب 
(تحریر:ممتاز ملک. پیرس)


زینب کا قاتل پکڑا گیا...
اتنے دن سے جو  ہم تڑپ تڑپ کر صاحب اختیار کو متوجہ کر رہے تھے کہ یہ گندا آدمی  زینب کے اس کے خاندان کے ہی ارد گرد موجود ہے . یہ زانی یہ قاتل  جو مذہبی ادارے کا فعال رکن ہونے کا ڈرامہ سالہا سال سے بخوبی نبھا رہا ہے . آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہے 
آپ کے ساتھ محافل درود و  نعت  سجا رہا ہے،
ادارے کے کھڑپینچوں میں شامل ہے ،
طاہر القادری صاحب کی عقیدت میں تیسری صف میں گوڈے گوڈے ان کے  عشق میں غرق خود کو ظاہر کر رہا ہے .  وہی اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی عزتوں کو بڑے وحشی پنے  کیساتھ نہ صرف پامال کر رہا تھا بلکہ  ٹشو پیپر کی طرح  انہیں توڑ مروڑ کر کچرے کے ڈھیر پر  پہنچا رہا تھا ...
ادارہ منہاج القرآن کے لئے وقت آ چکا ہے کہ جناب علامہ طاہرالقادری صاحب اب اس بات  کو سمجھ جائیں کہ یورپ میں اسلام پھیلانے سے پہلے آپ کو پاکستان میں اسلام پھیلانے کی اشد ضرورت ہے .
آپ ایک بہترین عالم دین ہیں اور اس حیثیت  میں آپ اللہ کو زیادہ جوابدہ ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں ایسے جرائم کی روک تھام اور ایسے بدکار پیدا نہ ہونے کے لئے کیا اقدامات کئے . کیا وہاں آپ خدا کو یہ جواز دیکر بخش دیئے جائیں گے کہ پردوردگار میں تو فل پروٹوکول لئے یورپ کے ٹھنڈے موسم میں لمبی لمبی گاڑیوں کے قافلے میں اسلام پھیلانے میں مصروف تھا . مجھے تو میرے گرد ہالہ کئے ہوئے ٹولے نے کبھی اپنے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیا .....
علامہ صاحب  وقت آ گیا ہے کہ مجھ جیسے ادارہ منہاج القرآن میں سولہ سال کام کرنے والے جب بھی آپ کی انتظامیہ کی کسی کرتوت پر سوال اٹھاتے تھے تو راندہ درگاہ کر دئیے جاتے ہیں .
آپ سے زیادہ آپ کے کھڑپینچوں  اور اس ادارے سے وابستہ راتوں رات امیر ہونے والوں ،
اس ادارے میں کام کرنے والوں کے تباہ اور بے راہ روی  کا  شکار ہونے والی اولادوں...
مغرور اور بدتمیز  مردوزن کی خبر لیجئے  جو سچ بولنے اور سوال اٹھانے والوں کے خلاف باقاعدہ گروپ بنا کر اس کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کر دیتے ہیں . جو جھوٹ منافقت میں سب سے اعلی  درجات پر فائز ہیں . سو سے زیادہ ممالک میں یہ تنظیم اگر ایسے ہی کارکنان پیدا کر رہی ہے . جو آپ کے نام کے ترانے گائے ،
آپ کے نام کی قوالیاں گا گا کر ، آپ کے پیروں  میں لیٹ لیٹ کر آپ کو سجدے کریں .. آپ کی فوٹو گھر گھر لگا کر  آپ سے وفاداری کا ثبوت پیش کریں ...
آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے پروٹوکول کے لئے ہر وقت لائن حاضر رہیں 
تو معذرت کیساتھ. ..آپ کو خود ابھی اپنی تربیت کی شدید ضرورت ہے .
میں بھی کبھی آپ کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی لیکن آج اپنی اس سوچ پر خود ہی افسوس کرتی ہوں۔
برائے مہربانی اپنی منجھی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرئیے ۔ ِ جو طرز زندگی آپ کا ہے وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا کبھی نہیں تھا .  ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  تک ہر ایک کی رسائی تھی جبکہ آپ تک کسی کا ملاقات کرنا تو چھوڑئیے اپنا پیغام پہنچانا بھی خواب و خیال ہے . 
کبھی پبلک سے ملاقات کی آپ نے ?
کبھی عام لوگوں میں کسی عام سی ریڑھی پر یا دکان پر کھانا کھایا آپ نے ؟
جو آپ کے گروپ کا حصہ بنا کیا صرف وہی مسلمان ہے ، جس نے اعتراض کیا اس کی عزت اچھالنے کا سرٹیفیکیٹ بھی آپ نے ہی جاری کیا ہے کیا ؟
میں جانتی ہوں میری اس تحریر پر ادارہ  منہاج القرآن کے سارے کھڑپینچوں نے  اپنے بدزبان لوگوں کو مجھ پر کیچڑ اچھالنے کے محاز پر لگا دینا  ہے ..
لیکن میں انہیں پھر بھی ان کے گریبانوں میں جھانکنے کا مشورہ دونگی ۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ اس ادارے کے  مغرور اور بدتمیز اراکین کو کسی کے بھی مشورہ  سے شدید پرہیز ہے . اگر ایسا نہ ہوتا تو ان بیس سالوں میں مخلص ، سچے،  ایماندار اور باصلاحیت اراکین کو گھر نہ بھیج دیا جاتا ...ان کی اس طرح سے تذلیل کی مہم چلائی جاتی ہے کہ وہ ادارہ منہاج القرآن کا نام سنتے ہی کانوں کو  ہاتھ نہ لگاتے .. ..
لیکن  جا کر اپنے گھروں میں جھانکئیے  کہ آپ کے گھروں میں کتنا سکون ہے ؟ آپ کی اولادوں نے یہاں سے کتنی اخلاقی تربیت حاصل کی ہے ؟
انہیں بڑوں چھوٹوں سے بات کرنے کی کتنی تمیز آ چکی ہے ؟
کتنا دین سیکھا  ؟
یہاں پر نعت خوانوں کا کردار کتنا نیک ہے ؟
عہدیداران کی اپنی  شہرت کیسی ہے ؟
معلوم کیجئے : کتنے عمران  یہاں کتنے زینبوں پر بھیڑئیے جیسی  غلیظ نظریں  گاڑے بیٹھے ہیں . اور خود کو پکڑے  جانے پر ذہنی مریض  ثابت کرنے  کی کوشش  نہ تو اس کے جرم کو کم کر سکتی ہے نہ  ہی اسے  معصوم ثابت کر سکتی ہیں۔
خدا کے لئیے پردہ پوشی کے کھیل  اب ختم کیجئے ...
یا اس کی لئیے آپ کے کارکنان کو اپنے اپنے گھر میں کسی نہ کسی  زینب کے لٹنے کا  اور اس کے قتل ہونے کا انتظار کرنا پڑیگا؟؟؟؟؟
                     ۔۔۔۔۔۔

● سلام ، صدر ذی مقام


             صدر ذی مقام
              (کلام/ممتازملک.پیرس)



امید کے دانوں پہ پڑھوں  میں نبی کا نام
اللہ کے حبیب کا اعلی بہت مقام

کہتا ہے رب تعالی مدثر و  مزمل 
خیرالعلی بھی کہہ کے کبھی کر دیا  کلام 

اے فخر ذی مقام  بشیر و نذیر   ہیں 
دیتے ہیں جو خوشی کی خبر ، ڈر کا بھی پیام 

لاکھوں درود آپ پہ لاکھوں پڑھوں سلام 
اے والی کونین  میرے صدر ذی مقام 

بخشش ہماری آپ کی چاہت سے منسلک 
 واجب ہے ہم پہ آپکا دل  جاں سے  احترم 
  
بانی محفل و سبھی حاضر ہیں جو غلام 
آل نبی پہ پیش  کروڑوں کریں سلام 

جھکتا ہے جب بھی آپ کے دربار میں یہ سر 
ممتاز رب بھی موڑتا ہے کر کے انتظام 
السلام السلام السلام السلام 
السلام السلام السلام السلام 
(مجموعہ کلام /اے شہہ محترم 
صلی اللہ علیہ وسلم )
                    ●●●

حاضر ہوئے ہیں خاکسار/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


    حاضر ہوئے ہیں خاکسار

آپ کے دربار میں حاضر ہوئے ہم خاکسار
لب پہ ہے صلی علی تسبیح درودوں کے ہیں ہار

آرزو یہ  ہے دعائے بے کساں بھی ہو قبول
ہو اگر پھر سے نصیب ایسی ہی محفل اگلی بار

دل کا ہر احوال ہے مد نظر سرکار جی
منہ سے کہنے کا نہیں یارہ اے شاہ ذی وقار

آپ سے بڑھکر کوئی رکھتا ہے پردہ عیب کا
سوچ کر یہ ہی چلے آئے ہیں ہم سب جانثار

آپ وہ شمع دکھائے جو مقام آگہی
سوچ کر ممتاز آئے ہیں یہاں  پروانہ وار

      الصلوۃ والسلام الصلوۃ السلام
     الصلوۃ والسلام الصلوۃ والسلام






● تعارف/ نعت ریسرچ سینٹر یوکے



السلام علیکم و رحمتہ اللہ 

تمام یوکے اور یورپ کےاحباب سے گزارش ہے کہ اپنی ایک عدد نعت اور اپنا مختصر تعارف عنایت فرما دیں تاکہ اسے " نعت ریسرچ سینٹر یوکے " کے ایک سلسلہ " نعت ، شاعر اور تعارف" میں پیج پر شئیر کیا جائے آپ تمام معزز و مکرم احباب کی بہت مہربانی ہوگی ۔ 
آپ کو یہ تمام معلومات یونی کوڈ میں ٹائپ کرکے بھیجنی ہوں گی اور یاد رہے اپنا نعتیہ کلام بھی یونی کوڈ میں ہی بھیجیے اور تصویری صورت میں نہ بھیجا جائے ۔ اگر آپ اپنی تصویر بھیجنا چاہتے ہیں تو ضرور ساتھ میں ارسال کر دیں۔
بہت شکریہ!

مختصر تعارف:

نام 
قلمی نام
شہر
تعلیم
پیشہ
کتاب
ادبی سرگرمیاں
ادبی خدمات
اسناد

سمیعہ ناز اقبال
وائس چئیر آف "نعت ریسرچ سینٹر یوکے"

                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مختصر تعارف:

نام : ممتازملک 
قلمی نام : ممتازملک 
شہر : پیرس ۔ فرانس
تعلیم : برائے نام
پیشہ : خاتون خانہ۔ قلم کار ۔ افسانہ نگار، شاعرہ ، نعت خواں، ٹی وی ہوسٹ ، سوشل ورکر، مختصر تدریس، کوٹیشنز رائیٹر۔
کتاب : 5 کتب
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)شاعری 
2۔ میرے دل کا قلندر بولے 
 (2014ء) شاعری
3۔ سچ تو یہ ہے 
(2016ء ) منتخب متفرق مضامین 
4۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم (2019ء) نعتیہ مجموعہ کلام 
5۔ سراب دنیا 
 (2020ء) شاعری 
ادبی سرگرمیاں : صدر برائے پہلی پاکستانی ادبی نسائی تنظیم "راہ ادب" 
ادبی خدمات و اسناد : 
1۔دھن چوراسی ایوارڈ برائے 
چکوال پریس کلب۔ چکوال  
2۔ دیار خان فاونڈیشن ایوارڈ 
3۔حرا فاونڈیشن کینیڈا 
ٹونی ٹی وی 
4 ۔ کاروان حوا اعزازی شیلڈ
پشاور حق بابا آڈیٹوریم 
5۔ عاشق حسین رندھاوی سند و ایوارڈ و سرٹیفیکیٹ
بزم صدائے وطن ۔  پیرس 
                           ●●●


اتوار، 15 مارچ، 2020

کرو " نہ " / کالم


                 کرو " نہ"
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ب

کرو نہ ۔۔۔ کا مطلب ہمارے نزدیک تو یہ ہے کہ ہر اس کام سے کرو"  نہ" جس سے رب کائنات نے روک رکھا ہے ۔ 
اللہ کی شان دیکھیئے کل تک جس دنیا مین مسلمان عورت کے نقاب کھینچے جا رہے تھے ۔ اس کے حجاب پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے ، اس کے پورے لباس پربھپتیاں کسی جا رہی تھیں ، مسلمانوں کے انداز زندگی پر تمسخر اڑایا جاتا تھا اسی دنیا میں آج ایک چھوٹے سے  جرثومے "کرونا" نے موت کا ایسا خوف بھر دیا ہے کہ جن عیاشیوں کو وہ زندگی کا مزا قرار دیا کرتے تھے اسی دنیا میں چمی جپھی پپی سب کچھ بند ، ننگ پنا بند ۔ 
جہاں مسلمان عورت کے نامحرم سے  ہاتھ نہ ملانے کو جہالت قرار دیا جاتا تھا وہیں کا میڈیا اب چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں ، بوس و کنار سے پرہیز کریں اور دوسرے سے مصافحہ تک نہ کریں ۔چہرہ ڈھانپ کر رکھیں ۔۔۔ اللہ تیری شان ۔۔۔
دین اسلام پر آوازے کسنے والوں کی اپنی مادر پدر بے لگام طرز زندگی کو خدا کا خوف تو نہ بدل سکا لیکن موت کے خوف  نے کیسی لگام ڈالی ہے ۔۔ اسلام  ایک طرز ذندگی ہے ایک نظام حیات ہے ۔ جس میں کچھ بھی ہے تو بس خیر ہی خیر ہے ' بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ دنیا کی ہر پاکیزہ چیز کو اللہ نے اپنے مسلمانوں کے لیئے حلال کہہ کر چن لیا ۔ پھر چاہے وہ پیدائش کا مرحلہ ہو یا موت کے بعد کا  واپسی کا سفر ۔ حلال خوشبودار اور لذیز پکوان ہوں یا خوبصورت ترین ستر پوش ملبوسات ہوں، اور بتایا کہ جو لباس آپ کے جسم کی پردہ پوشی نہیں کرتا وہ لباس ہی نہیں کہلا سکتا ۔ رشتوں کا حسن ہو کہ جس میں ایکدوسرے کے ساتھ حفاظت ،توقیر اور محبت کیساتھ باندھ دیا گیا ہے یا تعلقات کی نوعیت اور اس کا دائرہ ہو جو یہاں تک آپکو سکھاتا ہے کہ ایک نامحرم مرد و زن  سے بات کرتے ہوئے آپ کے تاثرات اور آواز کی رینج کتنی ہو کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی جانب سے کسی بدگمانی یا خوش گمانی میں نہ پڑ سکیں اور یوں کسی  برائی کی راہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکیں ۔ 
آج دنیا بھر کا غیر مسلم میڈیا چیخ چیخ کر اپنی جانیں بچانے کے لیئے خود کو اسلام ہی کے مطابق ملبوس ہونے کا سبق دے رہا ہے ۔ پورے کپڑے پہنو ، ایکدوسرے کیساتھ  ناجائز جسمانی تعلقات سے بچو ، ہر ایک سے چپکنے سے پرہیز کرو۔ جہاں جہاں قران پاک کی بیحرمتی جیسے واقعات ہوئے ان ممالک میں اسی قران پاک کے مطالعے  کو تجویز کیا جا رہا ہے۔ کیوں ؟   تاکہ تم فلاح پا جاو  ۔ پھر یہ فلاح مسلمانوں نے کیوں نہیں پائی؟ پائی تھی تب  تک جب تک وہ اسلام کے اس ضابطہ حیات پر عمل کرتے رہے پھر جیسے جیسے وہ اس کلام الہی سے دور ہوتے چلے گئے فلاح اور خیر بھی ان کی زندگیوں سے رخصت ہوتی چلی گئی ۔ آج دنیا بھر میں مسلم زوال کا سبب یہی تو ہے کہ مسلمان ہی آج مسلمان نہ رہا ۔ اس نے اپنے آپ کو فلاح کے بدلے دنیا خرید کر آسودہ کرنے کی کوشش کی ۔ گویا اس نے ہیرے دیکر کوئلے خرید لیئے ۔ اسی سبب آج اس کا منہ بھی کالا ہو گیا اور دل بھی ۔۔۔
کرونا وائرس تیرا شکریہ تو نے لوگوں کو اللہ کا پیغام پھر سے سننے اور سمجھنے کے لیئے مجبور کر دیا ہے ۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جس سے جو چاہے کروا سکتا ہے ۔ پھر وہ نظر نہ آنیوالا کرونا ہی کیوں نہ ہو۔ اسے بھی اس دنیا کے باسیوں کی بقا اور فلاح کے لیئے حرکت میں آنا ہی پڑا ۔ غلیظ اور مردار خوراکیں ، فیشن اور جدت کے نام پر ننگ دھڑنگ جسم ، آذادی کے نام پر  کھلی جسم فروشی ، ترقی کے نام پر  اعلانیہ ضمیر فروشی ، رشتوں کے نام پر جہاں رات ہوئی وہیں اسی کیساتھ  سو جاو کا دھندہ  ، کہیں ہم جنسی کی آگ لگی ہوئی ہے اور قانون فطرت کا مذاق اڑایا جا ریا ہے اسے قانونی تحفظ دینے کے نام پر  اللہ سے ٹکر لی جا رہی ہے ۔۔اللہ کے غضب کو بار بار آواز ہی تو دیتا ہے ۔ پھر ہم اللہ کے لیئے باز نہیں آتے بلکہ موت کے ڈر سے چار روزہ پرہیز شروع کر دیتے ہیں ۔۔
دنیا بھر میں باحیا مسلمان عورت اور مرد  کو  یہ بےضمیر لوگ جبرا بے لباس کرتے ہیں  تو وہاں ان کے مرد و زن شیطان کی پیروی میں اپنے ہی ہاتھوں  خوشی سے بے لباس ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں یہ اپنے نفس کی تسکین کے لیئے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹواتے ہیں وہیں ان کے ممالک میں اپنے ہی اعمال کے سبب کوئی نہ کوئی ایڈز ، ایبولا ،  کرونا لاشیں بچھاتا چلا جاتا ہے ۔ ہے نا کمال کی بات ۔۔ تو بس جان لیجیئے کہ ایک اللہ ہی ہے جو کن کہہ کر کائناتیں تخلیق فرماتا ہے ۔ 
پانی کی بوند سے پورا انسان تخلیق کرتا ہے ، کالی بھینس میں سے  گھاس پھونس کھلا کر بھی سفید و شیریں دودہ پیدا کرواتا ہے ،  زمین کا سینہ پھاڑ کر ہمارے لیئے رزق پیدا فرماتا ہے ، پانی سے بادل بناتا ہے اور پھر اسے جہاں چاہے گھماتا ہوا لیجاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے وہاں برسا کر جل تھل کرتا بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے ۔ 
اور پوچھتا ہے کہ بتاو 
"پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاو گے "
    (سورہ الرحمن: 55/16) 
                    ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 13 مارچ، 2020

جدائی نے ڈس لیا / تصویری شعر



آنکھوں کو جب امید رسائی نے کس لیا 
پھر یوں ہوا کہ ہم کو جدائی نے ڈس لیا 😢
         (کلام:ممتازملک.پیرس )


پیر، 9 مارچ، 2020

یادیں / کوٹیشن



یادیں

انسان کی زندگی کا حاصل وصول یہ یادیں ہی تو ہیں ۔
 یادیں نہ ہوں یا یاد رکھنے کا عمل روک دیا جائے تو ہر صلاحیت صفر پر چلی جائے گی جیسے ریکارڈ کی سوئی کسی ایک ہی لفظ پر اٹک جائے ۔
 ہم ہر پل ایک ہی بات کرتے رہیں
کون ہو تم ؟؟؟
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
 (ممتازملک.پیرس )

ہفتہ، 7 مارچ، 2020

اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو / کالم


    اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو؟
      (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



کھلے بال ، ننگے سر ، ننگے بازو، ننگے پیٹ، ننگی کمر، ہائی وے جیسے گلے،  ننگی ٹانگیں ،  ٹھسے ہوئے تنگ کپڑے اور ان سے بھی جھانکتے زیر جامے ۔۔لعنت ہے ایسی عورتوں پر اور اس کو دیکھنے والے اسکے وارث مردوں پر بھی ۔۔۔
واقعی ایک عورت چار مردوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گی ، اس کا باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا ۔یہ پیکج ہے اللہ کا دیا ہوا ، یعنی ایک عورت حیادار اور پورے ستر میں آ گئی باکردار رہی  تو انہیں چار مردوں کو جنت میں بھی اپنے ساتھ لیکر جائے گی ۔
اور کیا کیا ننگا کرنا چاہتی ہیں یہ بد کار ذہنیت کی حامل فاحشائیں ۔ 
کوئی یہ کہے کہ نائٹ کلب میں جانے والی عورتیں اور مرد شریف باحیا اور با کردار ہوتے ہیں تواس پر یا تو زوردار قہقہہ لگایا جا سکتا یے یا اس کی عقل پر ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ان حیوانوں کے خلاف یہ طوائفیں کیوں نہیں نکلیں ؟ ان کی حفاظت میں کیوں نہیں کارڈز اٹھائے  ؟
 جو معصوم بچیوں  کی آبروئیں برباد کر کے انہیں موت کی نیند سلا رہے ہیں  یا ان عورتوں کو جو  کہ رشتے سے انکار کا اپنا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں  اور اپنی زندگی کے شادی ، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق لینا چاہتی ہیں  یا اپنے باپ اور شوہر کی جائیداد سے اپنا جائز حق وصول کرنا چاہتی ہیں، لیکن قتل کر دی جاتی ہیں یا تیزاب گردی کا شکار بنا لی جاتی ہیں ۔ ان کے لیئے یہ موم بتی مافیا اور یہ فاحشائیں کیونکر سڑکوں پر آئینگی کیونکہ وہ سب ان کی طرح  بے لگام اور بے مہار زندگی کی تمنا نہیں رکھتیں بلکہ اپنی عزت ، جان اورمال کے تحفظ کے جائز حقوق کی حصول کی جنگ میں خود کو قربان کر دیتی ہیں ۔  سڑکوں پر امڈتی ہوئی مٹھی بھر زر خرید  غیر ملکی ایجنڈوں پر ناچتی ہوئی عورتیں جو باحیا اور محنت کش عورتوں کے خاندان تباہ کرنے والی مہم   اصل میں  یہ جنگ تو بے حیائی کی اڈوں کی اشتہاری مہم ، جس میں کسی شریف عورت کی نہ تو آواز شامل ہے اور نہ ہی وہ ان کے ارادوں میں  کسی طور سے شمولیت گوارہ کرتی پے ۔  
انہیں کپڑوں سے آذادی چاہیئے، 
باپ بھائی شوہر کے رشتوں سے آذادی چاہییے، ہر عورت ان کی پیروی میں طوائف بن جائے یہ ہے ان کا ایجنڈا اور بس۔
دنیا میں کہاں  کیا ہو رہا ہے یہ ہمارا سر درد  نہیں ہے ۔ ہمارا سردرد ہمارے ملک پر اثرانداز ہونے والی حقیقتیں ہیں ۔ چاہےوہ ہمارے مذہب پر حملہ ہو یا ہماری ثقافت پر ہمیں قبول نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ یی چیزیں آپکو دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز  و منفرد کرتی ہیں ۔ مگر ٹہریئے یہاں تو بات ہمارے مذہب اور خدا کے حکم سے جا ٹکرائی ہے اس کا علاج اب لازم ہے ۔ 
پاکستان کا لفظی مطلب ہی ہمیں اس کی اساس سمجھا دینے کے لیئے کافی ہے یعنی پاک ستان مطلب  پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ۔اس کا مطلب کہیں بھی کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا گیا لیکن اس کی معنویت اسے ہر مذہب کے انسان کے رہنے کا ٹھکانہ بناتی ہے ۔شرط صرف ہے تو اس کی پاکیزگی کی ہے ۔ اور یہ ہی پاکیزگی اس کے کردار سے جھلکتی ہے اور کردار کا پہلا آئینہ اس کا لباس ہو گا ۔ جو اس کے بارے میں دیکھنے والے کی پہلی رائے قائم کرتا ہے ۔ جو یہ فرماتے ہیں کہ دل پاک ہونا چاہیئے لباس سے کیا فرق پڑتا ہے تو انہیں یہ اطلاع بہم پہنچا دی جائے کہ دل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ہم انسان جو دیکھتے ہیں  اسی پر اپنی رائے بنانے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ لہذا اپنے لباس کو مکمل اورحیادار رکھنا ہی انسان کی شرافت کا پہلا اعلانیہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے کردار کی عظمت کو جانچا جائے گا کہ وہ اپنے رشتوں سے کتنا مخلص ہے ؟  اور اگر وہ ان رشتوں ہی سے بیزار ہے ، اپنے لباس سے  ہی تنگ ہے تو اسے وہیں جا کر آباد ہو جانا چاہیئے جہاں سب ان چیزوں سے بیزار لوگوں کا ٹھکانہ ہے  ۔ 
ایسے بےمہار مرد و زن اگر کسی رشتے کے قابو میں آنے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں اٹھا کر یا اپنے ملک کی سرحد سے باہر پھینک دیا جائے یا  پھر اس جہان سے ہی رخصت کردیا جائے  
مردوں سے بیزار عورتوں کا ایک شہر بھی بسایا جا سکتا ہے جہآں کا رخ کوئی بھی مرد کرنا اپنے لیئے حرام کر لے ۔ چار ہی دنوں میں ان عورتوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔ کہ اللہ نے ہر جنس کی اپنی جگہ اور ضرورت رکھی ہے اور جو ان کے خلاف جا کر غیر فطری تقاضے کرتے ہیں وہ برباد ہی ہوا کرتے ہیں ۔ پاکیزگی اور ناپاکی کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے ۔  شہد خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو اسے  گندے چمچ میں بھر کر اپنے منہ میں رکھنے کی کوشش کوئی نہیں کرے گا ۔ اسی طرح ایک وقت میں انسان یا تو پاک ہوتا ہے یا غلیظ ۔ گویا وہ ناپاک لباس میں ہو یا کردار میں ، کچرہ ہی بن جاتا ہے انہیں گھروں سے باہر ہی پھینکنا بنتا ہے ۔ 
 کیوں کچرا گھروں میں نہیں رکھا جاتا اس کا مقدر صرف کوڑے دان ہی ہوتا ہے ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 5 مارچ، 2020

● ہائے بیچارہ مرد/ کالم


             ہاۓ بیچارہ مرد
             (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

ہم سب خواتین کی مظلومیت کا رونا تو خوب روتے ہیں ۔ان کے لیۓ کبھی نہ کبھی آواز بھی اُٹھا لیتے ہیں خواتین بھی آنسو بہا کر اپنے دل کا غبار نکال لیتی ہیں ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی دھیان دیا ہے کہ ہماری دنیا میں اس غریب مرد پر کیا گزرتی ہے ۔ یہ غریب تو پیدا ہی یہ سوچ کر کیا جاتا ہے کہ آتے ہی [ اس دور میں جب کہ انسان کااکیلے اپنا ہی بوجھ اٹھانا بھی پہاڑ اٹھانے جتنا لگتا ہے ] اپنے سے پہلے پیدا کی گئ چھ سات بہنوں کا جہیز اکٹھا کرے گا ، ماں باپ کو حج کرواۓ گا ۔ ۔بہنوں کے سسرال پالے گا ۔ ایک ملازم کی طرح ان کی ابرو کے ایک ایک اشارے پر رقص کرے گا ۔ کسی بات پر کبھی اعتراض کرے گا توفورا دودہ کی بتیس دھاروں کی بلیک میلنگ بھرے گا ۔ بہنو ں کے آگے بندر کی طرح ناچے گا کوئ بہن اگر بدکردار نکل آۓ تو اس کی خاطر کسی کو قتل کر کے جیل بھی جانا پڑے تو جاۓ گا ۔ اور قتل نہ کیا تو قتل ہو کر اپنی محبت کا یقین دلاۓ گا ۔ اول تو یہ کبھی شادی ہی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو کسی ایسی لڑکی سے جس میں سارے جہاں کی خوبیاں ہوں مگر ہمارے سامنے نوکرانی بن کر رہنا پسند کرے ۔ ہمارا ھی جوٹھا کھاۓ اور ہمارا ہی گاۓ ۔
مرد بیچارہ ماں کی جانب جاۓ گا تو بیوی سے کھری کھری سنے گا ۔ اور اگر بیوی کی جانب جاۓ گا تو ماں کی گالیاں مقدر ۔اپنے ہی بچوں کو اس ڈر سے اپنی گود میں لیکر کھلم کھلا پیار نہیں کر سکتا کہ بہن کو پتنگے لگ جائیں گے ماں ڈنڈا لیکر ذلیل کرے گی کہ ہاۓ ہاۓ بے شرم ماں بہنوں کو دکھاتا ہے کہ تو بھی بچوں والا ہے ۔ ان سب سے نپٹ لے تو کئ بار بیوی ہی اپنی چادر پھاڑ کر پاؤں ایسے باہر نکال لینا چاہتی ہے کہ اس کی نمود و نمائش کے لیۓ مرد بیچارہ مقروض ہو کر چاہے خون ہی تھوکنے لگے ۔ شوہر نے بیوی کو مارا یہ تو سب مانتے ہیں لیکن کیا شوہر جو اپنی بیویوں کے ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی تشدد کا شکار بھی ہوتے ہیں ۔ اس تمام ظلم وستم کا کبھی کہیں کوئ تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔ شاید اس لیۓ کہ اس سے مرد اپنی عزت کو کم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ لیکن کیوں ؟ ظلم کہیں پر بھی ہو کسی پر بھی ہو ۔ اسے ہر صورت بے نقاب کیا جانا چاہیۓ ۔ابھی پچھلے ہی دنوں ایک پاکستانی خاتون نے اپنی ماں کا غلام نہ بننے پر اپنے شوہر کو دانتوں سے کاٹ کر بری طرح ذخمی کر دیا ۔ جب کہ اس خاتون کا پہلا شوہر اپنی شادی کے ایک ماہ کے اندر ہی اسے طلاق دے کر بھاگ گیا تھا ۔اور یہ سب جانتے ہوۓ اس خاتون کو ایک بیٹی سمیت قبول کرنے کا اس مظلوم شخص نے حوصلہ کیا ۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہمارے ارد گردبکھری پڑی ہیں ۔ مردوں کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کرنے والی بیویوں کا نہ صرف سوشل بائیکاٹ کیا جانا چاہیۓ بلکہ انہیں بغیر کسی رُورعایت کے پولیس کے حوالے بھی کیا جانا چاہیۓ ۔ کیوں کہ یہ ہی سزا ہم ایسا کرنے والے مردوں کے لیۓ بھی تجویز کرتے ہیں ۔ تاکہ باقی ایسی خواتین کو بھی عبرت حاصل ہو ۔ مرد کو بھی کسی بھی رشتے میں گدھا نہ سمجھا جاۓ بلکہ وہ بھی ایک دھڑتا ہوا دل رکھنے والا گوشت پوست کا انسان سمجھا جاۓ ۔ اس کے دل پر لگنے والی چوٹ پر بھی مرہم رکھا جانا چاہیۓ ۔ ماں کو بھی چاہیۓ کہ بیٹے کو ایک نعمت سمجھے نہ کہ لاٹری کا کوئ ٹکٹ ۔ بہنیں بھی بھائ کو ایک شفیق سایہ سمجھیں نہ کہ ایک ملازم اور ڈاکو ۔ اور بیویوں کو بھی بتائیں کہ پیاری بہنو اور بیٹیو یہ مرد شوہر کے روپ میں آپ کے سر کی چادر ہیں جو آپ کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں آپ کو زمانے کے سردو گرم اور بری نظروں سے بچاتے ہیں ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے اچھی عورت وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اسے دیکھے تو خوشی محسوس کرے ۔ اور یہ بھی کہ شوہر کی نافرمان عورت کی کبھی بخشش نہیں ہو گی ۔ خدا کرے کہ ھم دنیا سے زیادہ خدا کا ہی خوف کر لیں ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 2 مارچ، 2020

یادگار مشاعرہ / رپورٹ




              یادگار مشاعرہ 
        (رپورٹ :ممتازملک ۔ پیرس)

گزشتہ روز  یکم مارچ 
2020ء  بروز اتوار  پیرس کے نواحی علاقے سارسل کے ہال میں پاکستانی خواتین کی فرانس ، پیرس میں موجود پہلی ادبی تنظم راہ ادب کے زہر اہتمام ایک خوبصورت مشاعرے  کا اہتمام کیا گیا جس میں فرانس کی تقریبا سبھی ادبی تنظیمات  بزم اہل سخن ،بزم صدائے وطن اورراہ ادب کے شعراء کرام نے بھرپور حصہ لیا ۔

پروگرام کی صدارت معروف پنجابی شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض راہ ادب کی جانب سے متاز ملک اور روحی بانو نے ادا کیئے ۔  پروگرام کا آغاز معروف  نوجوان قاری معظم   کی پرسوز آواز میں تلاوت کلام پاک اورحمد باری تعالی سے ہوا ۔ ساری محفل نے نہایت عقیدت و احترام کیساتھ انہیں سنا اور داد دی ۔ جبکہ نعت رسول مقبول پیش کرنے کی سعادت  معروف شاعر عاکف غن کو حاصل ہوئی ۔ ۔ شعراء کام نے اردو اور پنجابی کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں بھی اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین سے بھرپور داد سمیٹی ۔  یوں  یہ پروگرام کافی حد تک اردو ک ساتھ پنجابی مشاعرے کی صورت  اختیار کر گیا 
 اور تقریبا سبھی شعراء کرام نے اردو کیساتھ ساتھ پنجابی کلام میں بھی کمال دکھایا ۔ 
جن شعراء کرام  نے اپنے کلام  سے نوازہ ان کے نام ہیں  ،عاکف غنی ، نبیلہ آرزو، آصف جاوید آسی ، مقبول الہی شاکر ، ممتاز احمد ممتاز ، راجہ زعفران ، سیدحمزہ شاہ ، کبیر احمد،   جبکہ راہ ادب کی جانب سے ممتاز ملک ، روحی بانواور شمیم خان صاحبہ نے اپنے خوبصورت کلام سے پذیرائی پائی ۔  معروف ناول نگار ، شاعرہ اور افسانہ نگار محترمہ شاز ملک صاحبہ نے بھی خصوصی شرکت فرمائی اور اپنے پنجابی اور اردو کلام سے بھرپور دادسمیٹی ۔ پروگرام کے اختتام پر  راہ ادب کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ کہ فرانس اور  دنیا بھر میں موجود مخیر پاکستانیوں کا یہ قومی فریضہ ہے کہ اپنی کمائی  کا ایک برائے نام حصہ ہی سہی لیکن اپنی زبان اپنے کلچر اوراپنے ادب کے لیئے ضرور وقف کریں ۔ آپ اپنی زبان کے لیئے ریڈیو ، ٹی وی  چینلز بنان  والے ساتھیوں کی بے غرض مدد کریں تاکہ کل کو ان کا نام ان کی اولادیں ان کےجانے کے بعد بھی فخر سے لے سکیں کہ انہوں نے اپنی زندگی سیاست اور ریسٹورنٹ کے کاروبار میں پیسے سے پیسہ بنانے کے علاوہ بھی کسی نیک مقصد میں خرچ کیا ہے۔  جو ان کہ نسلوں کو اپنے  آبائی ملک  کیساتھ جوڑے رکھنے میں پل کا کردار ادا کریگا ۔ کل کو اگر اس خالی جگہ کو کسی بھارتی یا یہودی لابی نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو آپ کے پاس اپنا سر پیٹنے کی بھی مہلت نہیں رہیگی ۔ کیونکہ جو پیسہ لگاتا ہے وہ اپنا ایجنڈا بھی پورا کرواتا ہے ۔ پروگرام  کے آخری حصے میں معروف نوجوان  شاعر اور آن دیسی ٹی وی کے سی ای او  وقار ہاشمی نے اپنی تیار کردہ مختصر دورانیئے کی  فلم پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ۔  اور دوستوں سے اس سلسلے میں ساتھ دینے کی استدعا  بھی کی ۔ جبکہ ممتاز ملک نے آن دیسی ٹی وی کے لیئے پروگرام کے نئے  سلسلے کے آغاز کا اعلان بھی کیا جس میں کلام شاعر بزبان شاعر کے عنوان سے  ہر بار  ایک شاعر کو اس کے حالات زندگی سنانے اور ان کے منتخب کلام سننے کے لیئے دعوت دی جائے گی ۔ 
یوں یہ تقریب بہت سے اہم پیغامات کیساتھ  اختتام پذیر ہوئی ۔ مہمانوں کی تواضح چائے مشروبات اور  دیگر لوازمات سے کی گئی۔ 
پروگرام کے انعقاد میں تعاون کیا تھا معروف تنظیم "لے فم دو موند " اور "بھائی بھائی سویٹس" اور "آن دیسی ٹی وی"  نے ۔ جس کے لیئے راہ ادب کی صدر محترمہ ممتاز ملک نے ان سب کا دلی شکریہ ادا کیا ۔ ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 17 فروری، 2020

علی یاسر روٹھ گیا


علی یاسر روٹھ گیا 

علی یاسر نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ انسان تھا بلکہ بہت ہی مہذب ، منکسرالمزاج ، مہربان اور ملنسار انسان تھا ۔ اس سے میری ملاقاتیں زیادہ تو نہیں ہوئیں ۔  اسلام آباد اور راولپنڈی میں تین یا چار  ادبی پروگرامز  میں اس سے ملنا ہوا ۔ بہت ہی عزت دینے والا انسان تھا ۔ بہت اہم موضوعات پر ان کی تحریریں سامنے آ رہی تھیں  ۔ فیس بک پر انکی آخری پوسٹ 16 فروری 2020ء ان کی ذہنی کیفیات کو کھل کر بیان کر رہی ہے کہ 
ہے آج بھی مصروف گماں کچھ نہیں بدلا 
اے شہر غلط فہم یہاں کچھ نہیں بدلا
چہروں کے بدلنے کی روایت ہی نہیں ہے 
بینائی ہوئی روبہ زیاں کچھ نہیں بدلا
ایک بہت ہی پیارا اور مخلص انسان بہت جلد دنیا سے روٹھ گیا ۔ ایک اچھی دنیا کو چن لیا اس نے ۔ 
ایک دم سے بھریا میلہ چھوڑ کر یوں چلدینا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ علی یاسر جہاں رہو اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہو ۔ آمین
  ( ممتازملک.پیرس)

عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن




عقل عمر سے نہیں ،
                    تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربےسے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
 (چھوٹی چھوٹی باتیں )(ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن



عقل عمر سے نہیں
                  تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
        (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

مردوں کے پانچ عیب / کوٹیشن

 

      مردوں کے پانچ عیب 

1- اکثر اپنی کمائی چھپانا😲
2-اپنی بیوی کوکمتراوربیوقوف ثابتکرنا😩
3-اکثرلمبی لمبی چھوڑنا. 👣👅
4- اکثر بدزبانی  کو اپنا حق سمجھنا..🙊
5- اکثرمنافقت کرنا.میرا کچھ تیرا کچھ 🙉
6-اکثر شکی  ہوتے ہیں .🙈
7-اکثراحساس برتری کا شکار ہوتے ہیں 💂
8-اپنی بات کو حرف آخرسمجھتےہیں💪
9-اکثرشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں💃
10-اکثرانکا دل انکے دماغ پرحاوی رہتاہے.❤❤❤👣
او تیری ی ی ی😥 یہ تو پانچ سے بھی زیادہ ہو گئے.گویا مرد اس معاملے میں بھی خواتین سے جیت گئے.🙌
(چھوٹی چھوٹی باتیں)(ممتازملک پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com


سچ اور لات / کوٹیشن


   سچ اور لات

سچ اور لات کا چولی دامن کا ساتھ ہے
ادھر سچ بولا 😥
ادھر لات پڑی 😁😁😁😁💃
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
 




مرد کی زبان / کوٹیشن



   مرد کی زبان

مرد کی زبان وہ خار دار جھاڑی ہے جس میں پارسا سے پارسا عورت کا دوپٹہ لمحوں میں تار تار ہو جاتا ہے .
   (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

اللہ کی سنت / کوٹیشن




    
      اللہ کی سنت


اللہ پاک کی سنت ہے کہ اللہ انسان کو وہ نہیں دیتا جو اسے پسند ہوتا ہے بلکہ وہ دیتا ہے جو اس کے لیئے بہتر ہوتا ہے. اور ہر باضمیر لکھاری اسی سنت کو نبھانے کےکوشش کرتا ہے. اسے اپنی ڈگڈگی کا بندر مت سمجھیں .
    (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

الفاظ کے زخم / کوٹیشن



الفاظ کے زخم


الفاظ کے زخم معذرت کے مرہم سے ہی مندمل ہوتے ہیں
اور
 تلافی کی پٹی سے شفا پاتے پیں .
  (چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.blogsp
ot.com 





دل اور دھرتی

ہفتہ، 15 فروری، 2020

اردو پڑھو

اردو پڑھو

ہمارے وزیراعظم عمران خان کو اس بات کیلیئے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا کہ انہوں نےاپنی قوم کویہ یقین دلا دیا کہ بیٹا انگریزی بولنے سے بندہ پڑھا لکھا نہیں ہوجاتا 😂😂

اس لیئے اپنی قومی زبان اردو  بولنے اور پڑھنے کی عادت ڈالو کیونکہ عزت اور کامیابی اپنی زبان میں علم حاصل کرنے سے ملتی ہے نہ کہ دوسرے کی زبان کے رٹے لگانے سے ۔۔۔🤔

  (چھوٹی چھوٹی باتیں)                         (ممتازملک.پیرس)  


■● سلام ۔ سلام بھیجا ہے ۔ اے شہہ محترم



سلام بھیجا ہے
(کلام/ممتازملک.پیرس)

میں نے آقا سلام بھیجا ہے  
حال دل کا تمام بھیجا ہے

کس طرح اس کا شکر کر پاؤں
جس نے خیرالانام بھیجا ہے
  
رحمت العالمیں بنا جس نے
رحمتوں کا پیام  بھیجا   ہے

معاف کر کے خطاؤں کو میری 
چاہتوں کا انعام بھیجا ہے

پھر بلایا ہے اپنی محفل میں
پھر سے بخشش کا جام بھیجا ہے

ان کی امت میں کر دیا پیدا
دے کے اعلی مقام بھیجا ہے

رب اعلی کا دلنشین لہجہ
اپنا دلکش کلام بھیجا ہے

میرے آقا کا دین ہے ممتاز
اک مکمل نظام بھیجا ہے
●●●
۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



جمعہ، 14 فروری، 2020

قبض اور شکایتیں / چھوٹی چھوٹی باتیں


   قبض اور شکایتیں 
   
انسان کی قبض اور شکایتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں جب تک نکل نہ جائیں آرام نہیں آتا ۔۔۔۔😖😖😖
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 13 فروری، 2020

سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ/ کالم


  سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ
        (تحریر: ممتازملک.پیرس) 


ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کے لیئے گھروں کی  الاٹمنٹ  کا سلسلہ بہت پرانا ہے ۔تقریبا سبھی سرکاری محکمے اپنے ملازمین کو ان کے سکیل کے حساب سے رہائشی کوارٹرز الاٹ کرتے ہیں ۔ اکثر ایسے کواٹرز کا زمینی حساب لگایا جائے تو یہ  ایکڑوں کے حساب سے بنتی ہے ۔ یہ سب  سنگل گھر زمین پر دو یا تین ڈبہ ٹائب کمروں کی شکل میں بنے ہوتے ہیں ۔ ان کواٹرز کا غیر معیاری طرز تعمیر اور اس میں رہنے والے لوگوں کا غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہونا انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ صرف ارباب اختیار کی نااہلی یا پھر ان زمینوں پر قبضے کی جانب ہی ایک واضح اشارہ ہے ۔   اب جبکہ شہروں میں  آبادی کے سونامی سے  زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔  وہاں پر کھربوں روپے کی یہ زمین نہ صرف ملک بھر کے شہروں میں بلکہ وفاقی دارلحکومت  اسلام آباد میں بھی سرکاری کوارٹرز کے نام پر چند ہزار لوگوں کے تصرف  میں ہیں  ۔ آج جبکہ فلیٹ سسٹم کے تحت ان بے ڈھنگے اور بے طریقہ بنے ہوئے مکانات کی جگہ  تین چار کمروں کا ان سے بہتر اچھے نقشے کیساتھ بنا ہوا گھر انہیں سرکاری خزانے پربوجھ کم کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے تو پھر ہزاروں ایکڑز پر مشتمل ان زمینوں کو فارغ کیوں نہیں کروایا جاتا ؟  پچاس کوارٹرز جس زمین پر جھگیوں کی طرح پھیلا کر بنائے گئے ہیں جس میں  دو سے تین سو لوگ ایک برا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، بہت زیادہ زمین گھیر کر بیٹھے ہیں ،  اس کی جگہ  اگر اسی زمین کی آدھی جگہ پر شاندار سی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی جائے جس میں تمام جدید سہولیات بمعہ لفٹ کے دیدی جائیں اور بقایا زمین پر ایک خوبصورت سا پارک ، سکول ، کالج اور مسجد اسی عمارت کے لوگوں کے لیئے بنا دیا جائے تو یہ کس قدر صحت بخش منصوبہ ہو گا ۔  اس میں اس عمارت میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیئے مین گیٹ لگنے سے ان کی (خصوصا خواتین اور بچوں کی ) حفاظت بھی بہت بہتر ہو جائیگی ۔ حکومت پاکستان کو اپنے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کے لیئے ایک الگ سے وزارت کا اہتمام کرنا چاہیئے  تاکہ ان سے متعلق رہائش ، پنشن ، بیماری ، ان کے بچوں کی تعلیم ،شادیاں اور ایسے ہی تمام مسائل پر باقاعدہ تحقیقات آسان ہو سکیں اور ہر حقدار کو اس کا جائز حق درست انداز میں اور درست وقت پر مل سکے ۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ملازمین اپنے ان ذاتی مسائل سے بے فکر بھی ہو سکیں گے اور زیادہ سکون اور  ایمانداری کیساتھ اپنے تمام پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر پائیں گے ۔ ان میں ان تمام مسائل کے باعث پیدا ہونے والی لالچ کو روکنے میں مدد ملے گی اور کرپشن اور رشوت کی لت کو کم کیا جا سکے گا ۔  اور جو بعد بھی کرپشن میں ملوث  ہوئے  انہیں بلا چون و چرا پھانسی دیدی جانی چاہیئے ۔ 
 ملک کی ہزاروں ایکڑ زمین واگزار کروائی جا سکے گی ۔ صفائی کے معیار میں بہتری آئے گی ۔ خواتین اور بچوں کیخلاف جرائم میں بھی کسی حد تک کمی آئیگی ۔ 
 صحت کا معیار بھی بلند ہو گا ۔ اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گا ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 12 فروری، 2020

طویل سفر

قطعہ

طویل اتنا لگا ہمکو زندگی کا سفر 
وگرنہ لوگ جوانمرگ یاد کرتے رہے

ہمیں تو سانس بھی فرصت کی مل نہیں پائی
جبھی تو ہر گھڑی ہم سوورگ یاد کرتے رہے ۔۔۔
 
 ( کلام:ممتازملک.پیرس)

جمعہ، 7 فروری، 2020

مظلوم بننے کا خبط

مظلوم بننے کا خبط

ہمارے ہاں کی عورتوں کو مظلوم بننے کا بڑا خبط سوار ہوتا ہے ۔ کاش وہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا بھی حوصلہ کر لیں کہ ان کی کون کون سے حرکتیں ہیں جو ان کی سب سے بڑی تعداد کو جہنم کے گڑھے تک پہنچانے کا سبب بننے جا رہی ہیں ۔
    (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 5 فروری، 2020

قاتل عورتیں اور کشمیر/ کالم۔ خواتین


       قاتل عورتیں اور کشمیر
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)

دکان پر کھڑے ہو کر جو خواتین انڈین کپڑے ،  جوتے، جیولری ، مصالحے اور بہت کچھ خریدتے وقت، بھارتی فلمیں دیکھتے وقت ،  بھارتی مصنوعات پر اپنا پرس اور کریڈٹ کارڈ خالی کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل کشمیر اور ہندوستانی ہر مسلمان کے قتل میں برابر کی حصہ دار ہیں ۔ یہ وہی عورتیں ہیں جو ان معصوم شہیدوں کے قتل کے لیئے بارود خرید کر دیتی ہیں ، میزائل اور بم بنا کر دیتی ہیں ، بدکار بھاری فوجیوں کی کھیپ وہاں پہنچاتی ہیں  ، معصوم کشمیری عورتوں کا ریپ کرواتی ہیں ، ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے انکی ماوں بہنوں کو بے آبرو کرواتی ہیں ، انہیں یتیم و یسیر کرواتی ہیں ، ان کے گھروں کو آگ لگواتی ہیں ، ان کی آزادی کی ہر صبح کو بے نور کرتی ہیں، ہر روز  ان کی منزل کو ان سے دور کرتی ہیں ۔ یہ خود کو پاکستانی کہنے والی دردمند عورتیں جو چاہیں تو ایک ہی مہینے میں بھارت کو بنا ایک گالی دیئے بھی دھول چٹا سکتی ہیں اسے برباد کر سکتی ہیں  صرف اپنی خود پسندی اور بے حسی کو لگام ڈال کر ، اپنے پرس اور کریڈٹ  کارڈ سے بھارتی چیزوں کی ، فلموں کی، سٹج شوز کی ٹکٹوں کی خریداری کا بائیکاٹ کر کے ۔۔ صرف انکی مصنوعات کو رد کر کے۔
کیونکہ اج لڑائی بندوقوں سے نہیں جہتی جاتی ۔ بلکہ نوٹوں سے ھیتی جاتی ہے ۔ نوٹ ہی وہ ایندھن ہیں جو ہم بھارت کو دی دیکر کشمیریوں کے لہو کی دریا بہا رہے ہیں ۔ گھر بیٹھے یہ لڑائی لڑی بھی جا سکتی ہے اور جیتی بھی جا سکتی ہے ۔ کتنا آسان اور چھوٹا سا کام ہے ۔ لیکن کتنی پاکستانی اور آذاد کشمیر کی  عورتیں کشمیریوں  
کے قتل عام میں اپنا حصہ اپنی جیب سے ڈالنے سے باز آئینگی ؟
مجھے تو نہیں لگتا کہ میری اس تحریر سے ان میں سے کسی کو بھی غیرت آئے گی ۔ اور غیرت کوئی بازار سے ملنے والی چیز بھی نہیں ہے کہ میں ان قاتل عورتوں کو خرید کر تحفے میں بھیج سکوں۔۔ تو پھر مجھے اور مجھ جیسی بے چین روحوں کو  کیا کرنا چاہیئے ؟  
میں نے ان سب چیزوں کے بائیکاٹ کے لیئے ہر موقع پر لکھ کر، بول کر ،یہاں تک کہ خود عملی طور پر کر کے آواز اٹھائی ہے ۔۔میں سالہال سے کوئی بھارتی مصنوعات استعمال نہیں کرتی ۔ کوئی دکاندار مجھے بھارتی چیز آفر کرے تو میں اس سے بحث کرتی ہوں، احتجاج کرتی ہوں کہ بھائی اپنی چیزوں کو پروموٹ کرو لیکن وہ فرمائینگے باجی کیا کریں اسی کی ڈیمانڈ ہے ۔ جبکہ انکی کوئی چیز نہ ہماری مصنوعات سے اچھی ہوتی ہیں نہ ہی پائیدار ۔ اور ڈیمانڈ ہوگی کن کی جانب سے ہے ۔ انہیں سو کالڈ پڑھی لکھی خواتین کی جانب سے ۔  یہ ہی  یورپ ، امریکہ ، انگلینڈ،  اور پاکستان میں مقیم عام سے لیکر   بہت سے بڑے بڑے نام اور عہدوں والیاں  ۔۔۔ جب بھارتی دوروں پر جاتی رہی ہیں ان کی سب سے پہلے رال ٹپکتی ہے ہائے بنارسی ساڑھیاں ، ہائے اللہ شالز ، ہائے اللہ یہ ، ہائے اللہ وہ ۔۔۔
اور انکی آوازیں سنیں تو یہاں  کشمیریوں کو رونے والوں  میں بھی سب سے بلند ہونگی ۔ 
ہم منافق لوگ جہاں بھی پٹے ہیں اپنی منافقت کے ہاتھوں ہی پٹے ہیں  ۔  
اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں کشمیریوں کے قتل عام اور آبروریزی میں حصہ دار ہونے سے بچائے۔ ۔۔۔  آمین
                         ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 4 فروری، 2020

شادی سے فرار / کالم



            شادی سے فرار
        (تحریر:ممتازملک۔پیرس )

ہر زمانے میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل ، جن سے ہمیں بہرحال نبٹنا پڑتا ہے ۔ ایسے ہی آج بھی ہمیں بہت سے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ ان میں ایک مسئلہ وقت پر شادیوں کا بھی ہے ۔ درست وقت کونسا ہے؟ جب ایک نوجوان کو اپنا گھر بسا لینا چاہیئے تو ظاہر ہے اکثریت  کا جواب تقریبا یہی ہو گا کہ جب لڑکے اپنی تعلیم مکمل کر لیں اور برسر روزگار ہو جائیں ۔ بلکہ اب تو لڑکیوں کے لیئے بھی اسی اصول کو بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ اس اچھی سوچ اور آج کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ اچھے مواقع ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ خاص طور پر لڑکے وقت پر شادیوں کے لیئے رضامند نہیں ہوتے ؟ مائیں سالہا سال دنیا بھر کی لڑکیوں  کے گھروں میں جھانک جھانک کر انہیں مسترد کرتی ہیں یہ تو سنا ہی ہو گا لیکن لڑکے باآسانی شادی کے لیئے تیار کیوں نہیں ہو رہے ۔ انہیں ایسی کونسی مخلوق کی تلاش ہے جو انہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی فرصت بھی نہیں دیتی ۔ لنگور جیسی شکل کے لڑکے حور جیسی لڑکیوں میں نقص نکال نکال کر انہیں مسترد کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب کوئی یہ کہے کہ رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور اس کا وقت مقرر ہے تو یقینا یہ درست ہے لیکن یہ اسی طرح درست ہے جیسے موت کا وقت تو اللہ کے ہاں مقرر ہے تو پھر لوگ خودکشی کر کے کیوں مرتے ہیں؟  جبکہ اللہ نے ہی خودکشی حرام بھی قرار دے رکھی ہے ۔ تو اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات بھی آپ کی نیت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جنہیں گھر بسانا ہوتا ہے وہ دوچار لوگوں سے ملتے ہیں ، اور  ان میں سے کسی کو چن کر چند ماہ میں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں ۔ لیکن 
جو لڑکے چار چار، پانچ پانچ بار منگنیاں ،  نکاح  یا  شادیاں کر کے توڑ چکے ہوں ان کے بارے میں غور کیجیئے کہ ان کی مائیں بہنیں کس مزاج کی خواتین ہیں جو کسی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لانے کی نوبت نہیں آنے دے رہیں ؟ یا کہیں وہ لڑکا خود ہی شادی کے بندھن سے باغی تو نہیں ؟
کہیں وہ لڑکے ہم جنس پرست تو نہیں ؟ 
کیونکہ ایک نارمل لڑکا جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہو ،  برسر روزگار ہو ، مناسب کما رہا ہو ، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ جلد ہی وہ اپنا گھر بسا لے ۔ اپنی اولاد کو کھلائے، 
یہ ہی بات لڑکیوں میں بھی غور طلب ہے ۔ گو کہ اس کی شرح لڑکوں کے مقابل بہت کم ہے لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ کہ بدلتے زمانے کے عذابوں میں سے یہ بھی ایک عذاب ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے ۔  ان وجوہات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی ماہر سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیئے ۔ دین سے دوری اور مادر پدر آذاد طرز زندگی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ہی اپنے والدین سے اس حد تک قربت ہونی چاہیئے کہ وہ ان سے کھل کر اپنے مسائل پر بات اور جذبات کا اظہار کر سکیں ۔ اب یہ کرو اور یہ مت کرو کا زمانہ نہیں رہا ۔ شرم ، حیا ،جھجھک  اب تقریبا  قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے زندگی کی اہم باتوں پر والدین کو بھی  اپنی اولادوں کیساتھ سیدھے الفاظ میں اور کھل کر بات کرنی چاہیئے ۔ لڑکی کو اپنی ماں اور بہن کیساتھ  جبکہ لڑکے کو اپنے والد اور بھائی کیساتھ اپنے مسائل پر مشاورت کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور سچ پوچھیں تو بہن اور بھائی سے بھی زیادہ بھروسہ آپکو اپنے والدین پر ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ وہی آپکو ہمدردانہ مشورہ دے سکتے ہیں ۔ وقت پر شادیاں جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہیں وہیں  معاشرتی طور پر بھی آپ اپنی جوانی اور صحتمندی کے وقت میں ہی  اپنی اولاد کو اپنے سامنے جوان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے ہونے کے وقت کو دوستوں کے طرح پرلطف انداز میں جی سکتے ہیں ۔  اب اس عمر میں بچے گود میں لیکر گھومنے کا کیا فائدہ جب دیکھنے والے اسے آپ کا بچہ ماننے کے بجائے آپ کا نواسہ یا پوتا سمجھ رہے ہوں اور آپ کھسیانے انداز میں خود کو ان کے سامنے جوان ثابت کرنے کہ کوشش کر رہے ہوں ۔ آپ کے بچے آپ کے ہی بچے لگیں تو ہی اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 2 فروری، 2020

کردار کا فیصلہ/ کوٹیشن




   کردار کا فیصلہ
کوئی بھی رشتہ جب اپنے مفادات کی کسوٹی پر آپ کے کردار کو طے کرنے لگے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی حصے میں کینسر پھیل جائے اور اس کا علاج اس حصے کو کاٹ کر پھینکنے  کے سوا اور کچھ نہیں ۔ شروع میں درد تو ہو گا لیکن یہ سوچ کر قرار آ جائیگا کہ ناقی جسم کو تو بچا لیا گیا ہے ۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک.پیرس)




رشتے کو دیمک / کوٹیشن


       رشتے کو دیمک

جب آپ کے کردار کا فیصلہ آپ سے وابستہ مفادات سے کیا جانے لگے تو جان لینا کہ آپکے رشتے کو دیمک لگ چکی ہے ۔ 
          (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 (ممتازملک.پیرس)

منگل، 28 جنوری، 2020

● شاپنگ ایک عالمگیر مرض / کالم




        (شاپنگ ایک عالمگیر مرض)
           (تحریر: ممتازملک.پیرس)



  ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (141)(سورہ۔6۔ الاانعام )
فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
 بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسی طرح۔۔۔
اس قدر کنجوس مت بنو کہ ہاتھ اپنے گریبان سے باندھ لو اور اس قدر شاہ خرچ مت بنو کہ برباد ہو جاو ۔ جی ہاں یہ بھی اللہ پاک کی جانب سے نازل کی جانے والی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا لیکن ہاں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زبان سے اکثر ایک جملہ تواتر سے سنائی  دیتا رہیگا کہ " اللہ جانے ہمارے حالات کب بدلیں گے؟"
آج سے بہت زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ٹی وی کی ہماری زندگیوں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، ہم لوگوں کے گھروں سے مہینے میں ایک ادھ بار ہی بازار جایا جاتا تھا اور ضرورت کی وہ تمام اشیاء جو پورے مہینے نوٹ کر لی گئیں یا یاد کروائی گئیں  مخصوص  دکانوں سے خرید کر  اپنے گھر کی راہ لی جاتی ۔ اس سامان میں گھر کے راشن کے ساتھ کوئی کپڑا لتہ ضروری ہوتا یا کوئی سوئی سلائی کا سامان چاہیئے ہوتا تو وہ بھی آ جاتا۔ کیونکہ اس وقت تک گھر کی خواتین کو بلکہ حضرات کو بھی وہ کئی امراض لاحق نہیں ہوئے تھے  جو آج ہماری معاشرت کو لاحق ہو چکے ہیں ۔ ٹی وی کے آنے کے بعد تو اشتہارات کہ بھرمار اور اکسا اکسا کر، ترسا ترسا کر سامان بیچنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ الامان اور الحفیظ ۔ 
اس پر بھلا ہو انٹر نیٹ کا اور موبائل کی آمد کا، کہ مردوزن نے اسے اپنا ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ زندگی کا ہر رنگ اس کے سامنے پھیکا پڑ گیا ، ہر رشتہ اس کے آگے کمزور کر دیا گیا ۔ یقین نہ آئے تو کسی  کا بھی چلیئے اپنے کسی بچے سے ہی اس کے ہاتھ کا موبائل تو لیکر دکھا دیں ۔ وہ ایسا سیخ پا ہو گا کہ اپنے ماں باپ چھوڑنے کو تیار ہو جائیگا لیکن فون چھوڑنے کو تیار ہر گز نہیں ہو گا۔ 
 ہم موبائل یا انٹر نیٹ کے مخالف بھی ہر گز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بیجا اور بے مقصد استعمال کو نہ صرف صحت کے اصول سے غلط سمجھتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر اس کا منفی اثر  توڑنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس انٹر نیٹ پر ہماری جان کو لگی ہوئی فضول خرچی کے مرض کو اور زیادہ بے قابو کر دیا ہے ۔ اس پر کھلے نیٹ شاپنگ کے نام سے اب جو چیز فوٹو میں دکھ گئی بس اس کا خریدنا ایسا ہی ہے جیسے انگلیوں میں خارش ہو اور اسے کھجا لیا جائے۔ 
چیز گھر پہنچتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا  کچرا منگوا لیا ہے ؟ بھئی اس کی کیا ضرورت تھی؟ سیل کے نام پر پھر جو رکا ہوا فیشن سے آوٹ ہوا مال بیچا جاتا ہے اس کی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں خصوصا خواتین ایکدوسرے کا سر منہ توڑ کے ایکدوسرے کے گریبان پھاڑ کر ان پر ایسھ جھپٹتی ہیں جیسے دنیا میں یہ ہی جوڑا ، جوتا یا زیور انکی زندگی کی آخری خواہش اور  گارنٹی ہے یہ انہیں نہ ملا تو دنیا میں آنے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ یی انہیں کو دیدیں  ورنہ سمجھ لیں کہ ابھی ان کا دم نکلا کہ نکلا ۔۔۔
چاہے ان کے گھر مین کتنا ہی ضروری کام اس پیسے سے ہونا باقی ہو ، کسی بیمار عزیز کی دوا دارو ضروری ہو ، شوہر کوئی ضروری بل جمع کروانے کے لیئے دوستوں سے ادھا مانگ رہا ہو،  رشوت لے رہا ہو ، کوئی اور ناجائز زریعہ ڈھونڈ رہا ہو لیکن نہیں خاتون کو اپنا وہی تعیش پورا کرنا ہے تو کرنا ہے،  ضروریات جائیں بھاڑ میں ۔۔ کہیں مردوں کو ہر سال موبائل ، ٹی وی یا اور ایسی چیزوں کے جدید  ماڈلز لینے کا مرض لاحق ہو گیا یے ، کسی کو مہنگے برانڈ کے سگریٹ ،سگار ، یا کوئی اور لت لگ گئی ہے  تو وہ ساری کمائی اس پر اڑانا فخر سمجھتا ہے چاہے گھر میں  دال روٹی کے لالے پڑے ہوں ۔ ان تمام لوگوں کو مرض خریداری لاحق ہوتا ہے ۔شاپنگ کا نشہ جو انسان کو اکیلے نہیں اس کے پورے خاندان سمیت لے ڈوبتا ہے ۔ سوچیئے اور غور کیجیئے آپ نے اپنے گھر میں کتنا سامان خرید خرید کر ٹھونس رکھا ہے جو بعد میں ضائع ہو گیا ، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ، وہ آپ کے استعمال کے لیئے تھا ہی نہیں  ، اس کے خریدنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ، اس پیسے کو جمع کر کے کوئی بچت اکاونٹ کھولا جا سکتا تھا ۔ جس پر آپکو ماہانہ آمدنی ہو سکتی تھی یا اسے فکس کروا کے کل کو کوئی گھر خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی کاروبار کیا جا سکتا تھا ۔ بچوں کی تعلیم اور  شادیوں میں کام میں لایا جا سکتا تھا ۔ اپنے حالات کو نہ بدلنے میں آپ خود زمہ دار ہیں کیونکہ کمانا جتنا مشکل ہے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، لیکن یہ ہی مشکل کام ایک بار کرنے کی عادت پڑ جائے تو حالات بدل دیتی ہے ۔  ہر وقت حالات کا رونا  رونے کے بجائے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ڈالیئے ۔ اس سے انسان نہ تو کسی کا مقروض ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شاپنگ کا مرض ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے ،  فضول خرچ اللہ کی نظر میں بھی شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان کے بھائی کو سکون کیسے مل سکتا ہے ۔
                      ۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 27 جنوری، 2020

اک چپ سو سکھ / کوٹیشنز

     اک چپ سو سکھ 

تلخیاں بڑھنے پر بدزبانی سے بہتر ہے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ اس عرصے میں اپنا احتساب کیجیئے۔ یہ خاموشی دلوں کو نرم کرتی ہے اور ناشکری اور دل شکنی کے تمام میل دھو دیتی ہے ۔
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 24 جنوری، 2020

● بے تاج شہزادہ / کالم




             بے تاج شہزادہ 
      (تحریر:ممتازملک.پیرس)


ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اب تک یہ دنیا چل رہی ہے یا قائم ہے ۔ پھر ہمارے ذہن میں ہمیشہ  ہی اللہ والوں کا خیال آتا ہے یا ان لوگوں کا جو دنیا سے الگ کسی گوشے میں بیٹھے ہر چیز سے لاتعلق زندگی سجدوں میں گزار دیتے ہیں ۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہونگے شاید اتنے ہی جتنے انگلیوں پر گنے جا سکیں ۔ اور پھر جس زندگی سے اللہ کی مخلوق کا کوئی بھلا نہ ہو وہ چاہے سجدے میں گزار دی جائے یا کسی میکدے میں ، کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر فرق نہ پڑتا تو اللہ نے اپنے حقوق سے پہلے ہم پر اپنی مخلوق کا ، اپنے انسانوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی  کا حکم نہ دیا ہوتا ۔۔ دنیا ایک مقناطیسی کشش رکھنے والی جادونگری ہے اور اس میں آج تو کامیابی کا  ایک ہی منتر ہے اور وہ  ہے  پیسہ ۔ کتنا ؟ اسکی کوئی حد نہیں ہے ۔ 


لیکن قارون جیسے لوگوں کے انجام نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اگر ضرورت میں رہے تو وہ تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور اگر تعیش میں چلی جائے تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ ۔۔
پیسے کے عشق میں جہاں آج کی دنیا میں ہم اپنے رشتے بیچ رہے ہیں ، اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں ، اپنی محبتوں کو سولی چڑھا ریے ہیں اور خدا کو یہ کہہ کر چیلنج کر رہے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھی جائیگی ۔۔۔۔
وہیں اسی آج کی دنیا میں سب سے مقبول اور پسندیدہ برطانوی  شاہی خاندان  ، کہ جس میں شامل ہونے کے لیئے ہی نہیں ، صرف ان سے ملنے  اور دیکھنے کے لیئے بھی  لوگ مرے جاتے ہیں ، جہاں پر ایک تھی شہزادی ڈیانا ، جس نے عام سے گھر سے اٹھ کر شہزادی کا مرتبہ حاصل کیا ، اور پھر اس تاج کو ٹھکرا کر انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر یہ سبق دیا کہ لوگ تاج کے نہیں بلکہ تاج اچھے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ، اسی شہزادی ڈیانا کے بیٹے ہیری نے عام سی صورت والی ، طلاق یافتہ ، خود سے تین برس بڑی عورت میگھن مارکل سے شادی کر کے  محبت اور انسانیت کی ایک خوبصورت مثال پیش کی، تو محض تین سال میں ہی اس بیوی  میگھن کیساتھ مل کر دنیا کے لیئے ایک مثالی فیصلہ کر لیا کہ نہیں جینا محنت کشوں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے مال پر ، کہ وہ کمائیں اور ہم شاہی محلوں میں بیٹھ کر ان کے مال پر عیش کریں ۔۔ واللہ آج کی دنیا میں جب بھائی بھائی کے یتیم بچوں اور اسکی بیوہ کے سر پر سے گھر کی چھت چھین لیتا ہے اور اف نہیں کرتا ، بہنوں کے مال پر نگرانی کے بہانے ڈاکے ڈالتا ہے اور شرمسار نہیں ہوتا ، باپ کی چھت بیوہ ماں کے انگوٹھے  دھوکے سے لگوا کے باہر باہر ہی اسے بیچ کر بھاگ جاتا ہے اور اسے غیرت نہیں آتی کہ اس کی ماں سڑک پر کھڑی بھیک مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور ہو گئی ہے ،اسے شرم سے موت نہ آئی ، اسی آج کی دنیا میں شہزادہ ہیری اور اس کی بیوی میگھن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم پر محل میں رہنے کے دوران جو چوبیس لاکھ پاونڈز خرچ ہوئے ہیں وہ سب ہم قرض سمجھ کر تھوڑے تھوڑے کر کے خزانے کو واپس لوٹائیں گے کہ اب ہم اپنے ضمیر پر مذید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک ایک سکے کے لیئے محنت کرنے والی عوام کے مال پر عیش کریں، اس کے بجائے ہم ان کے جیسے ہی گھر میں رہیں گے ان جیسی ہی محنت کرینگے ، ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کریں گے اور اسی عام آدمی کیساتھ ، ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاریں گے ۔ 
بطور مسلمان یہ سبق ہمیں ہمارا  دین سکھاتا ہے لیکن افسوس اس کا عملی ثبوت ہر بار ہمیں کوئی غیر مسلم ہی کیوں پیش کرتا ہے ۔ ہیری اور میگھن نے آج کے انسانوں کو وہ پیغام دیا ہے جو ہمارے نبیوں اورولیوں نے ، جب سے دنیا بنی ہے ہمیشہ ہمیں دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے ہر ایک نہ ہیری بننے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ہی میگھن بننے کی خواہش  ۔ آج بھی ان کے اس اقدام پر ہزاروں لاکھوں جوان انہیں احمق بھی قرار دے رہے ہونگے اور بیوقوف بھی ۔ ان کی تعریف میں لفاظی کرنے والوں کو بھی ان کی تقلید کرنے کا کہیں گے تو کبھی اس پر آمادہ نہیں ہونگے کیونکہ ان کی بنیاد میں ہر رشتے اور احساس سے اوپر پیسے کا عشق ہی سوار ہے ۔ وہ اس سکون کو ، اس بلندی کو  کبھی محسوس نہیں کر سکتے جو ہیری اور میگھن نے پا لیا ہے  ۔ اب ان کے سروں کو تاج کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب وہ انسانیت کے تخت پر براجمان ہو چکے ہیں ۔ 
یہ وہی لوگ ہیں جن کے وجہ سے آج بھی انسانیت پر اعتبار اور اس کا بھرم قائم ہے ۔ یا شاید ان لوگوں میں سے     کہ جن کی وجہ سے اللہ پاک نے اس دنیا کو ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ ہاں وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سبب انسانیت پر اعتبار ابھی سلامت ہے ۔ 
ویلڈن ہیری اور میگھن ۔
 آپ دونوں کو میرا سلام ۔
 اور 
ایک عام آدمی کی دنیا میں
                            خوش آمدید 
                     ۔۔۔۔۔


جمعہ، 10 جنوری، 2020

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن/ کالم


حکومت پاکستان متوجہ ہو ۔۔۔

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن 
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)
 
دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے کے باجود مکمل قانونی، معاشی اور معاشرتی تحفظ اور عزت فراہم کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بھی انہیں اپنے ملک کے لیئے ذر مبادلہ  بھیجنے کی صورت میں عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پہلے تو ہر حکومت چیخ چیخ کر رو رو کر  تارکین وطن کو مجبور کرتی ہے کہ آو ہماری اپنی ایئر لائن میں سفر کرو تاکہ ہمیں ایئر لائن چلانے کے لیئے پیسہ مل سکیں ، 
اچھا جی کر لیا سفر ، نتیجہ پھٹے پرانے ناقص اورناقابل اعتبار جہازوں میں سفر بھی کر لیا۔ یہ سوچ کر کہ زندگی رہی تو پہنچ ہی جائیں گے ، آیت الکرسی اور درود پاک کا ورد کرتے کرتے سفر بھی مکمل کر ہی لیا ، اب ایئر پورٹ پر اپنی جھنڈ منڈوانے کو تیار ہو جائیں۔ جو بھی افسر جس موڈ میں بیٹھا ہو گا وہ آپکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریگا ۔ آپ کتنے سال کے بعد اپنے ملک کا سفر کر رہے ہیں ؟ آپ کو کیا کیا سامان یا الیکٹرانکس  ڈیوٹی فری میں لیجانے کی اجازت ہے؟ اس کی کوئی واضح ہدایات متروک ہیں ۔ 
اپنے ملک میں کاروبار کرو ۔۔۔ 
اچھا جی ساری جمع پونجی لا کر وطن کی محبت میں یہاں لگا دی ۔۔
۔ لیکن یہ کیا کاروبار تو بعد میں شروع ہو گا پہلے اس کے پرمٹ اور اجازت نامے جاری کرنے والے ایک ایک افسر سے لیکر منشی تک کو بھتہ اور رشوت بانٹیئے تب ہی آپ کی فائل کو پہیئے لگیں گے ۔ نہیں تو  یاد رکھیں بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا ۔  کسی طرح سے یہ معاملہ بھی نپٹ گیا تو کاروبار  شروع کرنے کیساتھ ہی آپ پر ایسے ایسے اور اتنے اتنے ٹیکسز کی بھرمار ہو جائیگی کہ آپکو لگے گا آپ اس ملک میں کاروبار کرنے نہیں آئے شاید کوئی جرم کرنے آئے تھے جس کی آپکو بھرپور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس سے بھی نکل گئے تو کاروبار  کے لیئے جن ملازمین اور سٹاف کی ضرورت ہو گی وہ کتنا ایماندار ، سچا اور مددگار ہے اس کی گارنٹی کون دیگا ؟  جس پر بھی رتی بھر بھروسہ کرینگے وہ آپ کی پیٹھ پر لات مارنے کے لیئے سوچنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریگا ۔  
اپنے ملک میں گھر خریدو ۔۔۔
چلو جی گھر بھی خرید لیا ۔۔۔ اب آپ مستقل تو پاکستان میں سارے خاندان کو لیکر منتقل نہیں ہو سکتے ۔ سو واپس بھی جانا ہے ، اب گھر کا کیا کریں ؟ گھر کرائے پر دیدیں تو معلوم ہو گا کہ گھر کے کرائے دار ہی گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ، کرایہ خون تھکوا تھکوا کر ہزار فساد کے بعد بھی وقت پر نہیں مل رہا ۔ اور خالی کروائیں تو گھر کو خوب تباہ کر کے جانا انکا پہلا  کام ہوگا۔ اب قانونی طور پر آپ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت اور توڑ پھوڑ کا کلیم کس پر اور کیسے کال کریں گے ؟ غلطی سے عدالت میں چلے گئے تو سالہا سال تک پیشیاں ہی بھگتتے رہیں ۔ 
اگر گھر کسی رشتے دار کی نگرانی میں دیدیا ہے  تو  آپکے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی  وہ اس گھر کا مالک بننے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیگا ۔  سارے رشتے ، اعتبار ، لحاظ ایک ہی قبر میں دفن کرنا اس کا پہلا کام ہو گا ۔ آپ کی جائیداد بھی گئی، مال بھی گیا ، اعتبار بھی گیا ،  اور تو اور وہ رشتہ  بھی گیا ۔ 
تارکین وطن کے لیئے پاکستان میں نہ تو کوئی قانونی تحفظ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیادی  حفاظت ۔ 
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت  ہے کہ تارکین  وطن کے لیئے خصوصی اور فوری عملدرامد کرنے والے  قوانین  بنائے جائیں ۔ ان کے لیئے الگ سے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے تارکین وطن کورٹس کا نام دیا جائے ۔ جس میں تارکین وطن کی اپنے ملک میں وراثت ،  کاروباری اشتراک ، جائیدادوں ، کرایہ داریوں کے مسائل  پر خصوصی اور فوری قانونی امداد فراہم کی جائے جس کا فیصلہ ہونے تک کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک کا ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ کا قیام ایک وقت میں ان کے لیئے ممکن نہیں ہوتا  ۔ اورجسے وہ پیروی کی ذمہ داری دیتے وہ کتنا مخلص ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ گھروں اور جائیدادوں  پر دی جانے والی فل اٹارنی  (مختار نامہ عام ) کو فی الفور یا تو ختم کیا جائے یا اس  پر مالکانہ اختیارات کو بلاک کیا جائے ۔ کیونکہ اکثر گھروں،  جائیدادوں  اور  کاروبار پر انہیں  عام مختار ناموں کی صورت ہی قبضے ہو رہے ہیں ۔ مجسٹریٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی اٹارنی پر اس کے مالک کی غیر موجودگی میں ملکیت کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ۔ تارکین وطن کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو محض ایک مختارنامہ عام کے سٹامپ پر  ایسے قبضہ گیروں اور حرام خوروں  پر (جو کہ اکثر انکے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ) شکنجہ کسا جانا چاہیئے ۔ جو ایک قانونی آسانی کو اپنے ہی رشتہ داروں کو لوٹنے کے لیئے عذاب بنا دیتے ہیں ۔
ان نکات پر  فوری غور کیا جانا چاہیئے ۔ کیونکہ انہیں مسائل کی وجہ سے تارکین وطن اب پاکستان میں کہیں بھی پیسہ لگانے سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔ انہیں قانونی  تحفظ فراہم کیجیئے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 7 جنوری، 2020

صدام ساگر /تبصرہ


کالم نویس صدام ساگر کا تبصرہ برائے  نعتیہ مجموعہ کلام
 اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)


3

پیر، 6 جنوری، 2020

سعید الرحمن ۔ منشاء قاضی ۔ شمیم۔خان ۔ ادریس تونسوی / رائے


آراء 

صوابی یونیورسٹی  کے پی کے،  کے ہونہار طالبعلم ، شعبہ اردو سے سعید الرحمن کی رائے  12 دسمبر 2020ء کے پروگرام کے بعد 


سینئیر صحافی اورمعروف تجزیہ کار جناب منشاء قاضی لاہور سے فرماتے ہیں ۔۔



پیرس سے معروف شاعرہ شمیم خان صاحبہ اور
لاہور سے ایڈیٹر ادریس تونسوی کی رائے ۔۔۔








ناصرنظیر/ رائے



سوشل ایکٹیوسٹ ناصر نظیر کی رائے 
2 جنوری 2020ء



واہ باکمال شخصیت کیلئے کمال کی تحریر 
ممتاز ملک صاحبہ اتنی پیاری شخصیت ھےجوایک باراسےسنےجس کسی کوانکی ملاقات کاشرف حاصل ھوجائے یقین مانواسی کےدل میں محل بناتی ھے پچھلے کئی سالوں سےمیڈم کوسوشل میڈیا پرفالوکررہاتھا پشاور میں سٹوڈنٹس کیلئے منعقدہ تقریب میں بذریعہ مسینجر دعوت نامہ بیجھا رات کوپنڈی سےپشاورآئی دورانِ تقریر سماعت سےمحروم صوبائی سکواش چمپئن قومی بیٹی جو کہ سامنے بیٹھی تھی کاذکرکرتےھوئے ہال میں موجود شرکاء کوابدیدہ کیا اس دن سےلیکرآج تک تمام دوست جب بھی ملتے ہیں یاکسی سےفون پربات ھوتی ھےتوسب سےپہلےمیڈم کاپوچھتےہیں اورساتھ میں یہ وعدہ بھی لینےکی کوشش کرتےہیں کہ اس نفیس ملنسار اوررہبرمیڈم کواگلے سال ھونیوالےتقریب میں ضرور بلانا
                   ......




شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/