ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

● انٹرویو ممتازملک بائے رقیہ غزل کا تبصرہ / انٹرویو ۔ تبصرے



                                 /
اس لنک کو کلک کیجیئے /



8


  




اس بار کی’’ پرسنیلٹی آف دا ویک‘‘ اردو ادب کا ایک معروف روشن ستارہ ممتاز ملک ہے ۔آپ خود توپیرس میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان میں ہے۔حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی گرانقدر سیاسی اور سماجی تحریروں کے ذریعے پاکستانی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہیں ۔ادبی اور صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں اور فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں ۔بلاشبہ نسوانی جذبات کا اظہار پروین شاکر نے نمایاں طور پر بہت اچھا کیا ہے ۔ویسے بھی نسوانی جذبات کا اظہار ایک عورت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عملاً ان تجربات سے گزرتی ہے اس لیے کسی بھی عورت نے جب قلم اٹھایا تو عورت کی بے توقیری ، جذبوں کی پامالی ،مرد کی بے وفائی کے دکھ کو اپنا موضوع سخن بنایا ۔۔ جسے’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے درحقیقت یہ ادبی شعبدہ بازوں کے مفروضے ہیں کیونکہ مرد بھی اسی قسم کے حالات سے گزر سکتا ہے لیکن پھر بھی فی زمانہ عورت جن مراحل سے گزرتی ہے مرد ان کیفیات اور حالات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا ۔اسی لیے بانو قدسیہ نے لکھا تھا کہ محبت میں مرد مشرک ہے جبکہ عورت مواحد ہے ۔عورت ایک ہی خدا کو دل میں سجا کر تمام عمر اس کی پوجا کرتی ہے جبکہ مرد بے شمار چھوٹی چھوٹی مورتیوں کو پوجتا رہتاہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ عورت کی شاعری میں مرد کی بہ نسبت درد ،شکوے اور بے وفائی کے تذکرے زیادہ ملتے ہیں جسے اہل ادب’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام دیتے ہیں ممتاز ملک نے بھی انھی جذبات و احساسات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے ۔ ہاں ۔۔ مگریہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی میں اردو ادب میں جو مقام اور احترام مردوں کو حاصل تھا وہ عورتوں کو خال خال ہی ملا مگر اب ایسا نہیں ہے کیونکہ خواتین نے ہر میدان میں خود کو منوایا تو ادب میں بھی بہترین تخلیقات اور وقار کے ذریعے خود کو ثابت کیا ہے بلاشبہ اپنی پہچان بنانے میں خواتین کے لیے انٹرنیٹ بہت مددگار ثابت ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لکھاری سامنے آرہے ہیں اور ذاتی تعلقات کے بل بوتے پر معروف ہونے والے منظور نظر فنکار اوجھل ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے نئے لوگوں کی اچھی شہرت سے تنگ نظر لکھاری خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیںاور اکثر و بیشتر اپنی تنگ دلی اور پریشانی کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ نئے لوگوں کے عروج سے سہمے رہتے ہیں کہ یہ کہیں زیادہ عزت حاصل نہ کر لیں ۔بل گیٹس نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ :’’انٹرنیٹ ایک طلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے ‘‘۔بل گیٹس کی بات سچ ثابت ہوچکی ہے کہ آج ہر جگہ انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے ۔ سوشل میڈیا بہت حد تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پچھاڑ چکا ہے۔ جس سے بعض مفاد پرستوں کی بلیک میلنگ رک چکی ہے اور نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی ہوئی ہے ۔اس کا ثبوت گاہے بگاہے ملتا بھی رہتا ہے مگر ادبی طور پر بھی سوشل میڈیا نے لکھاریوں کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ممتاز ملک رہتی پیرس میں ہیں مگر ان کا کلام اور کالم ان کے پاکستان میں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ممتاز ملک کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی انکی فطرت کا حصہ ہے وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتی ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھا ئے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا اندازواقعی دلپذیر ہے ۔۔کیا خوب کہا ہے ! 
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں 
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 
ممتاز ملک کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتی ہیں ۔دو شعری مجموعوں کے بعد ـ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ کے نام سے مضامین اور کالموں کی کتاب بھی طبع ہو چکی ہے ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے ۔وہ اس خوبصورت پہچان پر ہماری مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ہماری نیک خواہشات اور دعائیں ان کی نذر ہیں۔ وہ سدا سلامت رہیں ۔آ پ کو ان سے کئے گئے سوال و جواب میں ان کی ذات اور کام سے مزید آگاہی حا صل ہوگی ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟ 
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر، لکھاری ، مصور سب پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب 2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور یقینی قدم تھا ۔ 

سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟ 
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟ 
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت عہدہ بطور جنرل سیکٹری مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے کہا کہ میں اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی اور اسکے 6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟ 
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم ۔جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجنے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 

سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟ 
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ سرپرستی کرنے والی یہاں کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے واحد شاعرہ (اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ فرانس کی واحد کالمنگار خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے 

سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟ 
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں روشنی کا مینارہ دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی زندگی کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ گنی جاونگی ۔ 

سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟ 
میرے پہلے شعری مجموعے کی ٹائٹل نظم مدت ہوئی عورت ہوئ بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر 
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوئی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں ؟ 
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔ لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔ 

سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟ 
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔ 

سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟ 
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 

سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟ 
میں سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 

سوال : اگر آپ کا کالم یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟ 
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔ 
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (شعری مجموعہ2011) 
2۔میرے دل کا قلندر بولے( شعری مجموعہ 2014) 
3۔سچ تو یہ ہے(مجموعہ مضامین2016) 
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔ 

سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ 
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہےگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔ 

سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جائے پیدائش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟ 
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اورعملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔ 
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 

سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔ 
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔ اچھا اچھا بولیے کریلے کے عرق کو جوس بولیے، لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہے ۔ 

سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟ 
سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔ 
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔ 




جمعہ، 8 مارچ، 2019

نعت ۔ یکسر بدل گئے

نعت پاک

یکسر بدل گئے 
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

آئے میرے نبی تو  عناصر  بدل گئے 
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے

ہربات پرجو دست و گریباں تھے وہ سبھی 
بیرحم تھےجو قابل زنداں تھے وہ سبھی
ایماں کی روشنی میں وہ آ کر سنبھل گئے
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے 


یہ آپ نے سکھایا کہ پابندی عہد کر 
انسان تو خدا سے امانت کو لے کے ڈر 
بدتر تھے جو وہ وقت سے بہتر نکل گئے
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے 

بنجر حیات تھی جو وہ گل پوش ہو گئی
مایوسی بے یقینی تھی روپوش ہو گئی
کوئی کسی سےکم نہ تھا کہکر عمل گئے 
حالات شرق و غرب کے یکسر بدل گئے

                     ۔۔۔۔۔۔۔     

نعت ۔ اے میرے دل



نعت 
اے میرے دل 
(کلام/ممتازملک.پیرس )



اے میرے دل تو مجھے چھوڑ کے آگے نہ نکل
راستے عشق کے ہیں تو ذرا محتاط سا چل

اتنا ناپاک کیا سارے زمانے نے تجھے 
 پاک ہونے کے لیئے  جسم   پہ  اس خاک کو مل 

لوگ کہتے ہیں تو رک دل میرا بولے کہ نہیں 
سخت وحشت ہے مدینے کی طرف  آج نکل 


خار پیارے ہیں نبی پاک کی گلیوں کے ہمیں 
پھول دنیا کے کسی طور نہیں ان کا بدل 


جب تعین میرے سرکار کریں منزل کا 
راہ میں چھوڑ دے دنیا کے یہ سب مال و محل 


جلد سرکار کے دربار  سے ائے گا بلاوہ ممتاز
اور کچھ دن ہیں نہ بیتابی سے اس طور مچل 
                   ۔۔۔۔۔۔





جمعرات، 7 مارچ، 2019

حمد ۔ جو لامحدود ہے/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


حمد

جو لامحدود ہے
(کلام/ممتازملک.پیرس)

کہاں گم وسعتوں میں تو کھڑ اہے
   جو لا محدود ہے میرا خدا ہے

   وہ نظروں  سے میری  باہر بھی ہے اور  
  وہ نظروں میں بھی لیکن بس رہا ہے  

کوئی رحمت پہ بھی خوش ہو نہ پائے
کوئی نعمت پہ بھی الجھا ہوا ہے 

کسے دیگا کسے محتاج رکھے 
یہ اسکا بھید ہے وہ جانتا ہے

 تجھے ضد لے گئی  طوفان میں اور  
 جو تھا عاجز حفاظت میں  کھڑا ہے

  تکبر خودسری دشمن خدا کی 
بھلا ممتاز بندہ کیوں اڑا ہے 
۔۔۔۔۔

نعت ۔ سدا صلی علی ہے / اے شہہ محترم


نعت 
سدا صلی علی ہے
(کلام۔ ممتازملک.پیرس)


نبی کا نام لیوا ہر جگہ ہے 
سدا صلی علی صلی  علی ہے

کمائی وہ جو میرے ساتھ جائے
بھلائی وہ جو میرے کام آئے 
 وگرنہ سب یہاں ماٹی ملا ہے 
سدا صلی علی صلی علی ہے

میری سچائی ہو آئینہ تیرا 
امانت اور دیانت جینا تیرا
اصولوں پر گواہی سلسلہ ہے
سدا صلی علی صلی علی ہے


پڑھی سیرت تو آنکھیں نم ہوئی ہیں 
بڑے کردار سے باہم ہوئی ہیں 
کمال ضبط کا عقدہ کھلا ہے 
سدا صلی علی صلی علی ہے 

                ۔۔۔۔۔۔                
اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم             


دعا ۔ میں بھی فرشتہ ہوتی ۔ اے شہہ محترم


دعا
میں بھی فرشتہ ہوتی
(کلام/ ممتازملک.پیرس) 



تیرا کیا جاتا اگر میں  بھی فرشتہ ہوتی
لے کے قرآن کسی کونے میں بیٹھی ہوتی

رات دن تیری عبادت میں بسر میں کرتی
تیرے ہر حکم کو بند آنکھوں میں مانا کرتی

تو جو کہتا کہ سحر ہے تو میں کہتی ہاں ہے 
تو جو کہتا کہ نہیں ہے تو میں سچ ہے کہتی

پاک ہوتی میں گناہوں سے عذابوں سے تیرے
اک تیرا نام میں لے لیکے خوشی سے جیتی

حاضری تیری ہی خدمت میں مقدر ہوتی
اور اسی چاکری پہ میں بڑی نازاں ہوتی

پھر میرا نام بھی ممتاز بھلے نہ ہوتا
غیر ممتاز ہی رہتی تیری ہو کر رہتی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو رقیہ غزل کا ممتازملک سے



https://youtu.be/wY
RZbb-Ibsk

پاکستان میں خواتین ماسٹرز کرنے کے بعد بھی چغلی کرتی ہیں
نامور شاعرہ و کالم نگار ممتاز ملک ںے حیران کن انکشاف کردیا۔
انکشافات سے بھرپور گفتگو پڑھیے آپکی بات ڈاٹ کام کے خصوصی سلسلہ "پرسنیلٹی آف دا ویک" میں
مکمل اور واضح پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں

https://www.apkibat.com/new.php?id=5529



نعت ۔ سرکار کے پاس


سرکار کے پاس
(کلام/ممتازملک.پیرس) 


ہم بڑی دور سے سرکار کے پاس آۓ ہیں 
بھیگا دامن یہ تیرے سامنے پھیلاۓ ہیں 

اپنے دامن میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں 
آسرا تیرا ہے قدموں میں چلے آۓ ہیں 

نہ جہاں خوش ہے نہ رب کو ہی کیا ہے راضی
جانے کیا ہو گا ہمارا بڑے گھبراۓ ہیں 

اس جہاں پار خدا جانے کریں گے کیسے 
پار دنیا کے پل صراط نہ کر پائے ہیں 

فیصلے اپنے فہم سے جو کیئے تھے ہم نے
آج انہی فیصلوں کی راکھ اڑا آۓ ہیں 

اپنے پہلو میں ہی آرام کا موقع دیدو
ہم بڑی دیر سے سرکار نہ سستاۓ ہیں

اس جہاں کی ہے مشقت بڑی ظالم آقا
آزمائش کے یہاں ساۓ ہی لہراۓ ہیں 

کون اپنا ہے یہاں کون پرایا آقا
چار سو ہم نے تو اغیار یہاں پاۓ ہیں 

ہم نے تو آنکھ اٹھا کر ہے جدھر بھی دیکھا
غم و اندوہ کے ممتاز یہاں ساۓ ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعت ۔ جو اپنا نام ہو جائے



نعت

جو اپنا نام ہو جائے
(کلام/ ممتازملک. پیرس)


کسی کے نام کے صدقے جو اپنا نام ہو جائے
غلاموں میں اگر آقا  ہمارا نام ہو جائے

وہ سب جو آپکو پیارے ہیں ,صدقہ ان کامل جائے 
    سنور  جائے مقدر اور ہمارا کام ہو جائے

اگر جو آپکی تعلیم پر ہوں ہم عمل پیرا  
 محبت جانثاری کا زمانہ عام ہو جائے

نہ دیکھیں ہم عزیمت گر,گناہوں سے مفرکر لیں 
ہر اک دشمن ہمارا کیوں نہ پھر ناکام ہو جائے

مدینے کی ہواوں میں معطر یاد یے ایسی
کہ جس پر وار کر خود کو بری الزام ہو جائے

محبت آپکے رستے سے مقصد زندگی کا ہو
تو حاصل پھر  وہی ہم کو  عروج و بام ہو جائے 

  جہاں میں امن کا پرچم ہمیشہ ہم نے لہرایا 
مسلمان کا یہ ہی ممتاز پھر  پیغام ہو جائے
                      ........



دعا ۔ سبحان تیری قدرت



     سبحان تیری قدرت
    (کلام/ممتازملک.پیرس)

یہ تیرتے سے بادل  نادیدہ سی ہوائیں 
سبحان تیری قدرت مولا تیرا کرم ہے 

اعمال کی سیاہی دل کو نہ سیاہ کر دے 
تو نے ہی رکھے پردے تو نے رکھی شرم ہے 

تنہا نہ چھوڑ دیگا مجھکو کسی گھڑی میں 
 تجھ پر یقین میرا تجھ پر میرا بھرم ہے 
دنیا بنانے میں جب اتنا خیال رکھا 
یہ سوچنا بجا ہے جنت تو محترم ہے 

ہر سانس پر اجازت تیری ہی دسترس میں 
تیرے نظر سے بچ کر رہتا کوئی حرم ہے 

زیادہ نصیب سے اور نہ وقت سے ہے پہلے
ممتاز کا عقیدہ یہ دین اور دھرم ہے
               ۔۔۔۔۔۔

دعا ۔ کتنا غم ہے مولا


کتنا غم ہے مولا
کلام /ممتازملک 


تیری دنیا میں کتنا غم ہے مولا
یہاں پر جو کرو وہ کم ہے مولا

نہیں تاثیر اب ان آنسوؤں میں 

بھلے سے آنکھ ہر اک نم ہے مولا

ہماری روح کتنی منتشر ہے

یہ ذہن و دل کہاں پیہم ہے مولا

ہزاروں آرزوئیں پل رہی ہیں 

مگر لگتا ہے جیسے کم ہے مولا

ہے بھاگم بھاگ جن خوشیوں کی خاطر

چھپا خوشیوں میں بھی ماتم ہے مولا

نئی امید پر دنیا ہے قائم

بھلے سے لو بڑی مدھم ہے مولا

سمیٹیں کرچیاں خوابوں کی پھربھی

خوشی ممتاز کی قائم ہے مولا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منقبت ۔ حسینیوں کا اظہار چاہیئے


منقبت

حسینیوں کا اظہار 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

اک بار نہیں ہم کو ہر اک بار چاہیئے
نااہل کے سر پہ سجی دستار چاہیئے


رب کے سوا کسی کا نہیں حق یہ جان لو
ہر وقت ہاں نہیں کبھی انکار چاہیئے


زینب نے برملا کیا دربار ظلم میں 
پھر سے حسینیوں کا وہ اظہار چاہیئے


جس پر کٹی تھی گردن شبیر دوستو
ہم کو ہمارے ہاں وہی افکار چاہیئے


پانی نہ پی سکا جو کبھی عمر بھر کہیں 
وہ باوفا  سا عابد بیمار چاہیئے


اہل یزید تم پہ کروڑوں ہوں لعنتیں
ہر روز تم پہ جو چلے تلوار چاہیئے


مجھکو میری غیرت کوجوجھنجھوڑکے رکھدے
ممتاز دن یہ اور کتنی بار چاہیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 2 مارچ، 2019

عقل کے اندھے متوجہ ہوں



سارے عقل کےاندھےمتوجہ ہوں:
                 (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)


جی جی آپ بھی ۔۔ آپ بھی میری طرح ہی عقل کے اندھے ہیں کوئی عقل کل تو ہیں نہیں ۔۔ ذرا بتائیے:
 آپ میں سے کون کون سا مسلمان( یا غیر مسلم بھی) ایسا ہے جو اپنی ماں یا باپ کا نام جوتے پر لکھنا پسند کرتا ہے ؟   وہ جوتے چاہے سونے یا ہیرے سے بنے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں،ان جوتے پر لکھنا پسند فرمائے گا ؟؟؟
کیوں سانپ سونگھ گیا پڑھ کر ؟؟؟
جب اپنے والدین کا نام ،جو دنیا میں ہمارے جیسی  گناہگار لوگوں سی زندگی گزار کر رخصت ہوئے ، ہم کسی جوتے پر لکھنا برداشت نہیں کر سکتے تو بتائیے : اس کائنات کو بنانے والی وجہ ، ہم سب کے مسلمان ہونے کی وجہ، ہماری بخشش و نجات کا ذریعہ ، اللہ کی محبوب ترین ہستی  اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہمارے والدین آل اولاد ، جان مال کے بخوشی قربان کر دینے کے جذبے کے بنا ہم مسلمان نہیں ہو سکتے ، اس نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کسی جوتے پر لکھ دیا جائے ،  اور تو اور وہ کلمہ مبارک جس میں اللہ اور رسول اللہ کے نام مبارک کو اللہ پاک نے یکجاء کر دیا، وہ تک عقیدت اور تبرک کے نام پر کس اہتمام سے جوتے پر منقش کروایا جا رہا ہے ۔ بیشمار شرک اور بدعت جو ہم کرتے ہیں وہ تو ہماری جہالت کے تمغے ہیں ہی، لیکن جوتا چاہے کسی کا بھی ہو ، اور کتنا بھی قیمتی ہو، ہوتا تو جوتا ہی ہے ۔ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے جوتے کو ہی نہیں اس جوتے کی خاک کو بھی اپنے سر پر رکھنا اور منہ پر ملنا بھی ضرور اعزاز سمجھ کر کر سکتے ہیں ۔ کہ یہ اپنی اپنی محبت کا انداز و اظہار ہے ۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دونوں جہانوں کے سردار کے نام کو جوتے پر لکھ کر ان کی عظمت کے گن گائیں ۔ خدا کی مار اس طرح کی محبت ایجاد کرنے والے پر اور ان سب کی عقل پر ماتم جو اس فیشن کو شان سے نبھاتے اور اس کے  درست ثابت کرنے کے لیئے دلیلیں گھڑتے پھرتے ہیں ۔ ۔ہم وہی مسمان ہیں جو ہر روز چیونٹی جیسے کپڑے کے ڈیزائن  میں ، روٹی کے جلے میں ، دنبے اور گائے کی کھال میں دال  سبزی اور فروٹ پر بنے ڈیزائن میں بھی لفظ اللہ اور محمد ص ع و کو پہچانتے اور اسے سنبھال کر فریم میں رکھ لیتے ہیں کہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔ ہم مسلم دشمن اور کفار کی بنی چیزوں ان کے پیمپر اور جوتے کے تلوں میں سے اللہ اور محمد ص ع و کا نام ڈھونڈ ڈھونڈ  کر اس کے بائیکاٹ کی مہم چلانے کو مرے جاتے ہیں اور  ان لوگوں کو سزا دلوانا چاپتے ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ لیکن  خود ہم دن رات ایمان کا ، اسلام کا ڈھول پیٹنے والے اس حد تک بے ادبی اور گناہ میں چلے گئے کہ اللہ اور  اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کے نام مبارک کو (کہ جن پر ہماری جانیں بھی قربان ہیں ) جوتے پر سجا بنا کے موتیوں سے جڑ کر سینہ چوڑا کر کے انہیں سے بخشش و نجات کی بھیک بھی مانگتے ہیں ۔ ارے عقل کے اندھو ۔۔۔آنکھیں کھولو اور استغفار کرو۔۔
شاید پروردگار ہمیں اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقے میں معاف فرما دے ۔ جس کا نام ہمارے دل پر، ہماری روح پر لکھا ہوا ہونا چاہیئے ، وہی نام ہم جوتے کے نقش بنا کر اسے گھروں بازاروں میں سجا سجا کر اس نبی کو کس قدر اذیت پہنچا رہے ہیں ۔ جس نےاپنے قیام میں اپنے سجدوں میں ، اپنی بھوک میں ، اپنے خوشی اور غم میں یہاں تک کہ  اپنی وفات و وصال  کی گھڑی میں بھی "یا اللہ میری امت  کو بخش دے" کی آہ و زاری کی ہو ۔۔کتنا تڑپاتے ہیں ہم اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب اس کے "اللہ ایک ہے "کے پیغام کی دھجیاں اڑاتے ہیں کسی بھی پیر ،بابے ، مولوی اور علامہ کے آگے سر جھکاتے ہیں سجدے کرتے ہیں ۔ اور کتنا تڑپتے ہونگے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا لایا ہوا قران ہم سب سے اونچی شیلف پر رکھ کر بھول جاتے ہیں اور اس کے پڑھنے کا ذمہ کسی مولوی اور عالم کو سونپ دیتے ہیں ۔۔
اور کتنا تڑپتے ہونگے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس گھڑی جب ہم ان کی عقیدت کا نعرہ لگا کر کسی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں اور اس دین مبین کو لانے والے کا نام اپنی رضا و رغبت سے اسی کا نام لیکر جوتے پر چپکا دیتے ہیں ۔ اور بڑی شان سے اسے اپنی دیواروں پر سجا دیتے ہیں ۔۔ بے دین اور برائے نام مسلمانوں اپنے اندر کا بت پرست اور ہندو کب مارو گے تم ۔😢
                      ۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 25 فروری، 2019

بے حیا والدین کے نام


        بے حیا والدین کے نام 
                       (تحریر/ممتازملک۔پیرس)





اللہ پاک نے بیٹی کو رحمت بنا کر ماں کی کوکھ اور پھر باپ کی گود میں ڈالا . جہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا وہ ظلم و ستم کی داستان تو اکثرسنائی دے جاتی ہے لیکن وہ گھرانے جہاں پر الٹرا  ماڈرن  ماں یا خود کو انگریزوں سے بڑا انگریز ثابت کرنے والا باپ گود کی بچی کے لیئے منی  اسکرٹ خریدتے ہیں . بغیر بازو اور ننگی کمر کے ملبوسات پہناتے ہیں . گود کی بچی  ہی کو کیا اکثر 10 ، 12 سال تک کی لڑکیوں کو بھی پاجامے پہنانا غیر ضروری سمجھتے ہیں انہیں نیکریں پہنائے گھماتے ہیں ۔ 
جون جولائی کے موسم میں جب لوگ  ہوا کو ترستے ہیں .  یہ ٹائٹ جینز اور چست مختصر شرٹس میں بیٹیوں  کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. پھر برائے نام کپڑوں اور دوپٹوں سے بے نیاز یہ لڑکیاں  ہر جگہ جا کر اپنی نسوانیت کا اشتہار لگاتی ہیں تو یہ والدین خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیئے اسے جائز ثابت کرنے کے لیئے   ایڑی چوٹی کا ذور بھی لگاتے ہیں . کبھی اسے اس کی مرضی قرار دیتے ہیں ،تو کبھی اسے اس کا حق قرار دینے میں زبان تھکاتے ہیں ، کہیں انہیں اپنا مذہب دکھائی دیتا ہے، نہ ہی اپنی معاشرت نظر آتی ہے ۔ جب ان لڑکیوں کیساتھ  کوئی شرمناک واقعہ پیش آ جاتا ہے تو پھر دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ لوگ برے ہیں ، معاشرہ گندہ ہے ۔
ایک بچے کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔اسے جس ڈھنگ میں وہ چاہتے ہیں ڈھالتے ہیں ۔ جب شروع سے ہی اسے پورے اور ڈھکے ہوئے کپڑوں کا عادی بنائیں گے تو  وہ کتنے بھی آزاد معاشرے میں چلے جائیں، اپنی عزت احترام اور پردے کا مکمل خیال رکھیں گے ۔ کیونکہ یہ  معمول کی بات ان کی عادت میں رچ بس چکی ہو گی ۔ لیکن جب شروع سے ہی اسے لباس کے نام پر دھجیاں پہننے کی عادت ڈالیں گے تو جوان ہو کر تو یہ دھجیاں بھی انہیں بوجھ ہی محسوس ہوں گی ۔ 
 عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے ۔ جب تک یہ چھپی رہتی ہے اپنی قیمت بڑھاتی ہے ۔ اور جیسے ہی بے حجاب ہو جاتی ہے تو کوڑیوں میں تل جاتی ہے ۔ 
کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹی تو انہیں  رحمت بنا کر دی گئی تھی اسے چلتی پھرتی گناہوں کی دکان کس نے بنا دیا . ؟
تو افسوس صد افسوس  ہزار بار دل کے انکار پر بھی دماغ سے ایک جواب آتا ہے کہ ان بچیوں کے بےحیا اور  بے شرم والدین نے ...
ہمارے سامنے فل سپیڈ میں گاڑی آ رہی ہو اور سگنل بھی گرین تو کیا ہم بے دھڑک سڑک پر چلنے یا سڑک پار کرنے لگیں گے ....نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یقینا حادثہ ہو جائیگا . ... تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یا جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہیں جو ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں.  ہم ٹریفک کے اصولوں کو جان جانے کے ڈر سے تو فالو کرتے ہیں  لیکن معاشرتی اور مذہبی اصولوں کو فالو نہیں کرتے عزت جانے کے ڈر سے بھی...
کیا ہم اپنے ہی مذہب سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ معاشرے میں اس  بغاوت کو اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ سمجھتے ہاں ...
ایسی صورت  میں معاشرے کی وہی بگڑی ہوئی اور بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے آج ہم سب نظر ملانے سے ہچکچا رہے ہیں .
کم لباسی میں آج ایسے مقابلے بازی شروع ہو چکی ہے جیسے کپڑے نہ ہوئے کوئی پنجرہ ہو گیا جس  سے رہائی آج کی عورت کا نصب العین بن چکا ہے یا کچھ والدین کی جانب سے اپنی بیٹیوں سے  محبت کا ثبوت ہی اپنی بیٹی کو کم لباسی کی اجازت  دینا ہے . 
پہلے آستین آدھے ہوئے پھر غائب ہی ہو گئے ،
پہلے گلے بڑے ہوئے، اب تو کندھے بھی کپڑوں سے آذاد ہو گئے، 
پہلے کمر کے نام پر پیٹ ننگے ہوئے پھر تو بلاوز ہی غائب ہو گئے اور کپڑوں کے نیچے پہنے جانے والے( زیر جامے) کپڑوں کے نام پر اوپر آ گئے ،
پہلے پشت سے گلے کم ہوئے پھر پوری پشت ہی غائب تو گئی ،
پاجامے پتلون بنکر ٹخنوں سے اونچے کیا ہوئے  دیکھنے میں وہ ایک لمبی نیکر ہی بن گئے ،
ایوارڈ شوز کے نام پر بے حیائی اور ننگے پن کا جو کنجر خانہ شروع ہوا ہے اس میں ان فنکاروں اور ان کے منتظمین کو ڈوب کر مر جانا چاہئیے جو ننگے  ہو کر اور ننگے کر  کے ایکدوسرے کو  دوسری زبان میں یوں سراہ رہے ہوتے ہیں جیسے اس نے پارسائی کا کوئی امتحان یا پل صراط کا سفر کامیابی سے پار کر لیا ہو ... شیطان کے یہ چیلے دن دہاڑے ہمارے سامنے محو رقص ہیں اور ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں. کیا مجبوری ہے ہماری یا ہماری حکومتوں کی؟
اگر آپ  کو چلتی گاڑیوں کے سامنے اپنی بیٹیوں کو کھڑا کرنے کا شوق ہے ہی تو خدارا  حادثات کا شکوہ مت کیجیئے.....
سننے والے بھی کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے ۔ کیوں کہ مرنے اور لٹنے والی بصد شوق تباہی کی گاڑی کے سامنے آئی تھی ۔ سو افسوس کیسا ۔  
انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ 
حفاظت چاہیئے تو مذہب اور معاشرت کے دائرے میں آجاو ۔۔ورنہ اپنی زبان بھی کاٹ کر پھینک دو ۔ تاکہ شکایت نہ کر سکو۔ 
                    ۔۔۔۔۔

اتوار، 24 فروری، 2019

# موتی کونکلنا ہو گا ۔۔ سراب دنیا




موتی کو نکلنا ہو گا 
(کلام/ممتاز ملک / پیرس) 

ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا
سو چکے ہیں جو سبھی خواب جگاو لوگو 
دل کو تعبیر کی خواہش پہ مچلنا  ہو گا

اب تو گر گر کے سنبھلنے کا روادار نہیں
ٹھوکروں سے تمہیں  ہر بار سنبھلنا ہو گا

اپنے اعصاب کو،  جذبات کو فولادی  کر
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا

اک زرا چوک نہ کر دے کہیں  برباد تجھے
وقت کی لے پہ تجھے، جھوم کے چلنا ہو گا

بن جا تو اہل ہنر ،خود پہ بھروسہ کر لے
ورنہ تجھ کو بھی، کھلونوں پہ بہلنا ہو گا

چھوڑ جائے نہ زمانہ تجھے آدھے رستے
بن کے براق تجھے آگے نکلنا ہو گا

جان لے تو جو ہے ممتاز ہے  منزل کوئی
آرزووں کو سردست  کچلنا  ہو گا
.......


http://www.tewarnews.com/एक-शायरा-एक-ग़ज़ल-20/






جمعرات، 21 فروری، 2019

آذاد پرندوں کی طرح/ شاعری


انسانیت
(کلام/ممتازملک۔پیرس)




آذاد پرندوں کی طرح گھوم رہی ہوں 
سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں 

پیسوں کے عوض کچھ نہیں بکتا ہے جہاں پر
کردار کی جب ہی تو میں  معصوم رہی ہوں 

انسانیت ہے نام میرا تجھکو پتہ کیا
دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں 

درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا
ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہی ہوں

روکا نہیں جب تک کسی ظالم کے ستم کو 
اس پل تلک میں خود بڑی مظلوم رہی ہوں 

ممتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی
شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہی ہوں 
۔۔۔۔۔۔

منگل، 19 فروری، 2019

ہے زندگی کا مقصد ۔۔۔



ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا 








ماشاءاللہ طارق جاوید صاحب اور فرح جاوید صاحبہ لاہور میں کرائے کے گھر میں مقیم،رکشہ چلا کر گزر بسر کرنے والے طارق جاوید صاحب ۔۔۔ 
  ایک ایسی جوڑی جس نے اپنے بے اولاد ہونے کے غم کو ان بچوں کو ہنر مند بنانے میں گم کر سیا جو اپنے والدین کے لیئے مالتو چیز اور بوجھ سے یادی اہمیت نہیں رکھتے تھے ۔ 
اس راتے مین نہ ان کے خالی ہاتھ رکاوٹ بنے نہ ہی ، اور نہ ہی خالی جیب ۔ 
کام آئی تو انکی نیت اور خلوص دل ۔ اور انہوں نے وہ کر دکھایا جو بہت سے کٹی پارٹیز ،نائٹ پارٹیز ، لنچ اور ڈنر پارٹیز کر کر کے، بلا ضرورت صرف ٹائم پاس کے لیئے شاپنگز کرنے والے ، اپنی بوریت دور کرنے کے نام پر ہر روز ہزاروں لاکھوں روپیہ اڑا کر بھی نہیں کر سکے نہ ہی کر سکتے ہیں ۔ جبکہ ان کے مقابل کرائے کے دو کمروں میں رہنے والے،  رکشہ چلانے والے طارق جاوید اور ان کی مخلص ہنرمند بیگم فرح طارق نے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں جیسی زندگی گزارنے والے بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم کیا اور اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہو گئی ۔ دیکھیئے آج وہ ہم سب کے کیئے قابل تقلید مثال بن گئے ہیں ۔ آئیے  ان نیکیوں میں ہم اپنا بھی حصہ ڈالیں ۔     
طارق جاوید صاحب اور فرح طارق صاحبہ 
میں آپ کو کھڑے ہو کر سلیوٹ پیش کرتی ہوں ۔ آپ کی عظمت کو میرا دلی سلام پیش کرتی ہوں ۔۔۔👏👏👏

      ۔۔۔


پیر، 18 فروری، 2019

خود ترسی ایک مرض ۔ کالم



    خودترسی
              ایک مرض        
                   (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)                     


ایک شدید ذہنی مرض جس میں مبتلا  انسان خود کو دنیا کا سب سے زیادہ مجبور اور قابل ترس انسان سمجھتا ہے ۔ یہ مرض  مرد و زن دونوں ہی میں پایا جاتا یے ۔ اس مریض کا مالی طور پر کوئی طبقہ نہیں ہوتا ۔ یہ کروڑ پتی ہو یا بھکاری ۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کے منہ پر بارہ ہی بجے رہتے ہیں ۔ 
خوشی کے مواقع پر بھی اسے اپنے رونے پیٹنے ، مرے ماروں ، اور غم و اندوہ کے واقعات سنانے کا موقع ڈھونڈنا خوب آتا ہے ۔ نہ یہ خوش ہوتا ہے نہ کسی کو ہوتا دیکھ سکتا ہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر غم کی لکیریں اتنی واضح چھپ جاتی ہیں ۔ کہ ان کا چہرہ دیکھتے ہی سامنے  والا انا للہ پڑھنے کا ذہن بنا لیتا ہے ۔ 
ان میں مختلف ذہن  اور سوچ کے کوگ شامل ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ اکثر شادی شدہ لوگ غیر شادی شدہ کوگوں کو دیکھ کر خود ہر ترس کھاتے پائے جاتے ہیں کہ ہک ہائے کیا آزاد زندگی جی رہے ہیں یہ اور ہم کس عذاب میں پڑ چکے ہیں ۔ جبکہ وہ کنوارے یہ۔سوچ کر خود ترسی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ واہ بھئی کیا ٹھاٹھ اور لاڈ ہیں ان کے ۔ جو چاہیں منوا لیتے ہیں دوسروں سے ۔۔مالک یہ سوچ کر خود پر ترس کھاتا ہے کہ ملازم ہونا کتنا اچھا ہے۔۔ کیا کرنا ہے کیا لانا ہے ،کیسے پورا کرنا ہے ہر ٹینشن سے آزاد مہینے بھر مقررہ گھنٹے کام کیا، بندھی ہوئی تنخواہ اٹھائی اور مزے کیئے ۔ جبکہ اسی مرض میں مبتلا ملازم سوچتا ہے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا، مالک کو دیکھو کتنا مال بناتا ہے ، کتنے لوگوں پر حکم چلاتا ہے ، کتنا خودمختار ہے ،کوئی کام نہیں کرتا ،سب ملازمین سے کرواتا ہے ۔ ۔۔
ایسے خود ترسوں کو سوئی چھبھ جانا کسی اور کو گولی لگ جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور بڑا سانحہ ہوتا ہے (اسکی نظر میں )۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اپنی اصل پریشانی کو بھی معمول خیال کرنے لگتا ہے ۔ لیکن ان کا یہ ڈرامہ ان کے ملنے والوں اور جاننے والوں کوجلد ہی ان سے متنفر اور بیزار کرنے کا ہی باعث بنتا ہے ۔ اور ایک روز یہ اپنے جھوٹے اور خودساختہ قصوں اور  اپنی خود ترسی کیساتھ اکیلے ہی  رہ جاتے ہیں ۔غور کیا جائے تو خود ترسی بھی ناشکری کی ہی ایک  شکل ہے ۔ یعنی اپنے حال سے دونوں ہی ناخوش رہتے ہیں خود ترس بھی اور ناشکرے بھی ۔
ایسے  لوگوں میں ہی سب سے زیادہ شرح ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہے ۔ یہ عادت اگر وقت پر قابو نہ کی جا سکے تو خدانخواستہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ 
 ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ کوئی ان کی اس عادت کی نشاندہی کروائے تو ناراض ہونے کے بجائے اپنی اس عادت پر غور کرے اور اپنے گھر باہر کسی اچھے دوست کو کہیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہی کسی اشارے  سے روکے ۔  اس کے علاوہ  ان کے لیئے بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات کے قید خانے سے بار نکل کر اللہ کی مخلوق پر نظر ڈالیں ۔ ان کی سنیں ۔ ان کے حالات میں ان چیزوں اور باتوں پر نظر دوڑائیں ۔ جو ان کے پاس نہیں ہیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو عطا کر رکھی ہیں ۔ چاہے وہ علم ہو ،رتبہ ہو، ، صحت ہو، گھر بار ہو، رشتے ناطے ہوں ، وقت ہو، رزق ہو، یا فرصت ہو۔۔جب دوسرے کی کمی سے اپنی عطاء کا موازنہ کرنے کی عادت ہو جائے گی ۔ تو شکر گزاری آپ کے مزاج کا ایک خوبصورت حصہ بن جائے گی۔ جس کی روشنی آپ کی روح کو ہی نہیں چہرے کو بھی روشن ،حسین اور مطئن  بنا دیگی ۔ 
                       ۔۔۔۔۔


  

اک عذاب ہے مولا ../ شاعری / سراب دنیا


اک عذاب ہے مولا 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

❤نفل جن کے جانے پر شکر کے پڑھے ہم نے
ان کا لوٹ کر آنا ایک عذاب ہے مولا

❤جس نے زخم بانٹے تھے بزم میں اسے پا کر
دیکھ کے یوں مسکانا اک عذاب ہے مولا

❤سینت  سینت رکھا تھا سامنے رقیبوں کے
ٹوٹ کر بکھر جانا اک عذاب ہے مولا


❤ہم نے جن چوراہوں پہ زندگی گنوائی تھی
پھر وہیں بھٹک جانا اک عذاب ہے مولا

❤جب ندی چڑھی ہو تو انتظار  واجب ہے 
باقیات سہہ پانا اک عذاب ہے مولا

دوستی ہو طوفاں سے جسکی ہر قدم اس کا 
آنسووں سے ڈر جانا اک عذاب ہے مولا
❤ساتھ جنکا ہو ممتاز زندگی کے جیساتو
ان سے ہی بچھڑ جانا اک عذاب ہے مولا 
                       ۔۔۔۔۔۔
سراب دنیا 

ہفتہ، 16 فروری، 2019

حد نگاہ ۔سراب دنیا





حد نگاہ
(کلام/ممتازملک۔پیرس)
         
یہاں سے سورج غروب ہوتا
 جو میں نے دیکھا 
وہاں سے لیکن 
اسی گھڑی میں 
طلوع صبح کی نوید 
اس نے مجھت سنائی
نہ میں غلط تھی 
نہ وہ غلط تھے
نہ کذب میرا 
نہ جھوٹ اسکا
بس اپنے اپنے تھے یہ مناظر
بس اپنے اپنے یہ  فاصلے تھے 
۔۔۔۔۔۔                     


جمعرات، 14 فروری، 2019

Justice 4 Uzma



            Justice 4 Uzma 😢


اپیل ہر درد دل رکھنے والے سے 
خدانخواستہ کہیں اگلی باری آپ کی بچی کی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ 

عظمی اور عظمی جیسی ہر بچی کو انصاف دلائیں ۔ کیونکہ ہم اس کے اس ظلم کے گواہ ہو چکے ہیں 😡
ان سب بدمعاش قاتل  عورتوں کو اسی علاج کی ضرورت ہے اور اپنے معاشرے میں انہیں کھلا چھوڑنا  انتہائی خوفناک ہو گا ۔ انہیں تاحیات پاگل خانے میں بجلی کے جھٹکوں کی سزا ہی ان کا علاج بھی ہے اور سزا بھی ۔۔۔خدا انہیں اور ان جیسے مجرمان کو ہوش و حواس میں رکھتے ہوئے برباد کر دے ۔آمین
(ممتاز ملک ۔پیرس)

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=561020837699460&id=315152592286287



اتوار، 10 فروری، 2019

ماں جو ڈائن بن گئی


           ماں جو ڈائن بن گئی 
                (تحریر/ممتازملک ۔پیرس) 
   
ایک پڑھا لکھا انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب اپنے ذہنی انتشار کا خاتمہ مثبت انداز میں  نہیں کر سکتا تو وہ جرائم کا راستہ اپنا لیتا ہے ۔ اور ہر مجرم کے پاس اپنے جرم کی کوئی نہ کوئی تاویل بھی ضرور ہوتی یے ۔ جس سے وہ اپنے دل کو کھوکھلی تسلیاں دیتا رہتا ہے ۔ کہ وہ درست ہے، وہ ٹھیک ہے، باقی سب غلط ہیں ۔ ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ پچھلے دنوں کراچی کے ساحل پر پیش آیا جہاں ایک ظالم عورت نے اپنی ہی اولاد کو دو سال کی معصوم بیٹی انعم کو اپنے ہاتھوں گلہ گھونٹ کر سمندر میں ڈبو کر مار ڈالا ۔ 
سنتے آئے ہیں کہ ڈائن بھی کلیجہ چباتے ہوئے سات گھر چھوڑ دیتی ہے ۔ لیکن یہ کیسی بدبخت عورت ہے جس نے ماں کے نام پر بھی کالک مل دی اور اپنا ہی کلیجہ نکال کر چبا ڈالا ۔ کوئی بھی اخلاقی، سماجی یا قانونی  شق اسے نہ تو تحفظ دے سکتی ہے اور نہ ہی اس کے جرم کی نوعیت  کی سنگینی کو کم کر سکتی ہے ۔ ۔ اپنی شادی شدہ زندگی کی کامیابی یا  ناکامی کو ان دونوں افراد کو برابر کا جھیلنا چاہیئے ۔  اس بدبخت باپ راشد کو، جو  اپنی بیوی کو عزت اور تحفظ نہ دے سکا ۔ اسے گھر کی چھت اور دو وقت کی روٹی تک نہ دے سکا ۔ اسے بھی برابر کی سزا ملنی چاہیئے ۔  اس عورت کو جو اپنے شوہر کیساتھ اپنی زندگی ابھی مطمن انداز میں سیٹل نہیں کر پا رہی تھی تو اس نے اس بچی کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ 
اگر کر ہی لیا  تو حالات اس قدر سنگین ہو گئے یا وہ اسقدر مجبور ہو گئی کہ اس بچی کو سنبھالنا اس کے لیئے ممکن نہیں رہا تو کیا اس شہر میں کسی اور بے اولاد کی جھولی میں یہ پھول نہیں ڈالا جا سکتا تھا؟ 
کیا کوئی اور ادارہ  یتیم لاوارث بچوں کا کفیل ہی اس کی کفالت کو موجود نہیں تھا ؟ 
کیا یہ پڑھی لکھی  عورت اس شہر میں  کسی کو نہیں جانتی تھی جو اسے کسی بھی معمولی سی ہی نوکری پر لگوا دیتا ۔ اور جب تک رہنے کا ٹھکانہ نہ ہوتا کسی دارالامان میں ہی اسے رہنے کو جگہ نہ مل پاتی ۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ ماں جو اللہ کی تشبیہہ میں جنم دینے والی اور پالنے والی قرار دی گئی ۔ جس کی گھٹی میں مامتا کے نام پر مہربانی ، قربانی ،ایثار گوندھ دیا گیا ہے وہ اس قدر سفاک ہو جائے کہ محض اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیئے اپنی ہی کوکھ اجاڑ لے ۔ اپنی اولاد کی قاتلہ بن جائے ۔۔۔ایسی سفاک عورت کو اس معاشرے میں کسی قیمت پر کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ 
ایسی عورت کو سرعام پھانسی ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ اگر یہ زندہ رہی  تو کس قدر خوفناک ڈائن ثابت ہو گی ۔ جو عورت اپنی کوکھ سے جنی اولاد کی نہ ہو سکی وہ اس معاشرے میں کسی بھی عہدے یا رشتے میں کس قدر خطرناک ہو گی ۔ یہ غیروں کیساتھ کیا کیا نہیں کرے گی ۔ اس عورت کو سر عام پھانسی کی سزا ملنی چاہیئے ۔  تاکہ آئندہ کے لیئے ایسے جرائم کا راستہ روکا جا سکے ۔ اس کے شوہر کو برابر کی سزا ہونی چاہیئے تاکہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی باپ اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہ  موڑ سکے ۔ مجرم مجرم ہوتا ہے اس کی نہ تو کوئی ذات ہوتی ہے ، نہ فرقہ ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی مذہب ہوتا ہے ، نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے، نہ اس کی کوئی نسل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس ہوتی ہے ۔ وہ صرف مجرم ہوتا ہے ۔ اور اس کی سزا میں صرف اس کے جرم کی نوعیت کو ہی مد نظر رکھا جانا چاہیئے ۔ تبھی انصاف کے تقاضے پورے کیئے جا سکتے ہیں ۔  
چپ مت رہیں اس بات پر آواز اٹھائیں ۔ اس سے پہلے کہ  کل کو یہ جرم معاشرےکا چلن بن جائے ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

                


ہفتہ، 9 فروری، 2019

● نتھ بنی نکیل / شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب



شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب
   نتھ بنی نکیل
(تحریر: ممتاز ملک. پیرس) 




کسی بھی لڑکی کی زندگی کا سب سے اہم وقت وہ ہوتا ہے جب وہ بڑی امیدوں اور مان کیساتھ کسی فرد کو اپنی زندگی کا ساتھی بنا کر اس کے سنگ آنکھوں میں حسین سپنے سجائے اپنی دنیا بسانے کے لئے روانہ ہوتی ہے.  شادی اس کے لیئے نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے.  وہ اپنے  لیئے ایک سکھی اور مطمئن گھرانے کا خواب لیکر اپنے بابل کی دہلیز سے پاؤں باہر نکالتی ہے.  سچ پوچھیں تو اس کے اس خوبصورت گھرانے کے سپنے  میں اس کے ساتھ صرف  اس کا ہمسفر اور اس کی اولاد ہوتی ہے.  جنہیں وہ ہر سکھ دینا چاہتی ہے.  وہ اس سے منسلک رشتوں سے عزت اور خلوص کا تعلق بنانا چاہتی ہے.  لیکن ایک دیوار کے فاصلے کیساتھ.  وہ اپنے گھر کو اپنی مرضی سے بنانا اور چلانا چاہتی ہے.  
لیکن یہ خواب اکثر  ذیادہ طویل نہیں ہو پاتا کہ شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی بہانے اسے چند گھنٹے قبل نچھاور  ہونے والے  سسرالیوں کی جانب سے پہلا دھچکا پہنچا کر چکنا چور کر دیا جاتا ہے.  جب  نامعلوم وجوہات پر دلہن کے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی ایک کا منہ شمال کی جانب ہوتا ہے اور ایک کا منہ جنوب ک جانب.  اسے گھر دکھانا تو کیا اس کا کمرہ دکھانے کو بھی کوئی بخوشی تیار نہیں ہوتا.  اور اگر کوئی یہ فریضہ انجام دے بھی دے.  تو کمرے میں دولہا صاحب  کا داخلہ ایک اور ڈرامے کیساتھ ہوتا ہے .  اپنی زندگی  کی پہلی  باضابطہ ملاقات میں وہ لڑکی جو اس امید پر ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے اپنی محبت کا اظہار کریگا، اسے اپنے ساتھ زندگی کے سفر میں ہر اچھے برے وقت میں ساتھ ہونے کا اعتبار دلائیگا،  اس کی حفاظت کا وعدہ کریگا,  اسے پریشانیوں میں حوصلہ بن کر ساتھ رہنے کا یقین دلائے گا,  اس کی خوشیوں کا ضامن بننے کی امید دلائے گا.... لیکن یہ کیا ؟  وہ تو اکثر گھونگھٹ اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کرتا اور  اس پہلی ملاقات میں اسے اس کے فرائض  کی ایک لمبییییییی فہرست سنانے لگا..
سنو میں آج جو کچھ ہوں اپنے والدین کی وجہ سے ہوں... انہوں نے میرے لیئے بڑی قربانیاں دی ہیں.  اب "تمہارا" فرض ہے کہ "تم "ان کا خیال رکھو.  ابّا جی صبح کی چائے چھ بجے پیتے ہیں اس کا خیال رکھنا انہیں ٹھنڈی چائے بالکل پسند نہیں ہے , امّی جی  نے زندگی میں بڑے دکھ اٹھائے ہیں  اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے امّی جی کو ناشتہ صبح آٹھ بجے تیار چاہیئے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے.. میری بہن نے میرے لیئے بہت کچھ کیا ہے اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے ان کی اجازت کے بنا  گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا.  تم بھی ان سے اجازت لیکر ہی ہر کام کرنا.  امّی جی کے سالن میں نمک کم اور ابّا جی کے کھانے میں مرچی کم ڈالنا.  میری بہن پر اس کے سسرال والوں نے بڑے ظلم کیئے ہیں تو وہ دل بہلانے کو مہینے میں اٹھائیس انتیس دن ہمارے پاس   گزار لیتی ہیں . بہت دکھی ہیں.  اس لیئے "تمہیں" ان کی ہر طرح سے دلجوئی کرنی ہے.  
اور ہاں میری دوسری بہن ابھی بچی ہے اس کا کسی بات میں دل نہیں دکھانا.  وہ تو اس گھر میں مہمان ہے اس  لئے  اسے خوامخواہ گھر کے جھمیلوں میں الجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی پچیس سال کی بھی نہیں ہے امّی جی کی بہت لاڈلی ہے. (بائیس سال کی دلہن صم بکم سن رہی ہے)   اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.  امّی جی کی جان ہے اس میں.   ہمارے کمرے میں کوئی بھی آئے جائے اس پر میں  کوئی بھی  بات نہیں سنوں گا .. اور ہاں  یہ ذیور صبح ولیمے کے بعد امّی جی کے پاس رکھوا دینا.  محفوظ رہینگے.  اور شادی پر پہلے ہی بہت خرچہ ہو گیا ہے.  میں تو بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہوں اب تم میری بیوی ہو اور تمہارا کام ہے کہ مجھے ان قرضوں سے خلاصی دلاؤ.  وہ ایسے  کہ پہلے تو تم میرا حق مہر معاف کر دو تاکہ میں آج سکون سے سو سکوں. جس روز سے یہ  منحوس حق مہر طے ہوا ہے مجھے تو مالیخولیا ہو گیا ہے.  پلیز میرا حق مہر معاف کر دو میری پریشانی دور کرنا تمہارا فرض ہے.. 
جی ہاں یہ ہوتی ہے مکالمے بازی دیسی دولہا کی پہلی رات اپنی دیسی دلہن سے . یا یوں کہیئے دولہا کا اپنی شادی کی رات دلہن سے پہلا خطاب ...
جس کا اختتام ہوتا ہے اس جملے پر کہ سنو مجھے میری بات پر آگے سے جواب , تکرار یا بحث بالکل پسند نہیں ہے.. اس بات کا خیال رکھنا  😮
جی ہاں واقعی ہر دس میں سے سات گھروں میں یہ ہی سین  فلمایا جاتا ہے.. کیونکہ 
ہمارے معاشرے میں لڑکی پورے خاندان کی نوکرانی کے طور پر جو لائی جاتی ہے ناک میں نتھ کو نکیل کی صورت ڈال کر ...
انسان سمجھ کر لائی جاتی تو اسے بات کرنے کا بھی حق ہوتا اور اختلاف پیش کرنے  کا بھی . 
یہ ہی وجہ ہے کہ جب وہ ان معاملات میں ناک تک آ جاتی ہے تو خود کو مطمئن کرنے کے لیئے چور دروازے  تلاش کرنے لگتی  ہے ..
کبھی تعویذ گنڈوں کی صورت..
کبھی  منہ ماری کی صورت،
کبھی جھوٹ بولنے کی صورت ،
اور کبھی بےوفائی کی صورت ،
جبکہ مرد کھڑا سوچتا رہتا ہے کہ 
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میرے گھر والوں کو جواب دیدیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میری بہن کو ناراض کر دیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے منہ پھلا لیا..
تم ہو ہی ناشکری عورت..
تمہیں کسی نعمت کی قدر ہی نہیں
لیکن یہ نہیں بتاتا کہ جو کچھ اس نے خود ساختہ طور پر نعمت قرار دیکر اس کے آگے پیش کر دیا ہے  وہ  اس کی شریک زندگی کے لیئے بھی نعمت ہے یا زحمت ہی زحمت ؟
وقت بدلتا ہے اور نظریات بھی  بدلتے ہیں لیکن اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے..
یہ سب چیزیں اس وقت اس کا نظریہ بدلتی ہیں جب اس کی اپنی بیٹی کے آگے یہ ساری نعمتیں  پیش کی جاتی ہیں اور وہ خود ہی اسے زحمتیں قرار دے دیتا ہے ...
یقین کیجئے ہمارے معاشرے میں بہت کچھ بدل سکتا ہے اگر صرف مرد اپنی شادی پر وہ سوچ اور احساس اپنا لے جو وہ بیس پچیس سال کے بعد اپنی بیٹی کی شادی کےموقع پر  اپناتا ہے..  اس بیس سال میں  جو حق تلفیاں وہ کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیوی بنا کر کر چکا تھا . وہ اس گناہ سے بھی بچ جاتا.  
(نوٹ:یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی)
                   ۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/