پیرس میں گذشتہ ہفتے ہو ے والے خونی واقعات نے صدمے اور حیرت دونوں ہی سے ساری دنیا کو دوچار کر دیا . حیرت یہ کہ اتنے بڑے مضبوط اور محفوظ ملک میں یہ سب کر نے کا کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ؟ اور صدمہ اس بات کا کہ دنیا میں اب تک جہاں بھی ہمیں جانے کا موقع ملا ہے اور اس ملک فرانس کی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر محبت کرنے والی قانون پسند ،نفیس،،صفائی پسند اور دھیمے مزاج کی مددگاراور ہمدرد قوم آپ نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی. فرانس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو خصوصا بہت ہمدردیاں ملتی رہی ہیں . اور ان پر اعتماد بھی یورپ بھر میں سب سے زیادہ فرانس ہی میں کہا گیا ہے . یہ بات بہت ہی غور طلب ہے کہ جب بھی یورپ اور انگلینڈ میں مسلمانوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے یا ان کے رویئے میں نرمی آنے لگتی ہے تو ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے بلکہ کر دیا جاتا ہے کہ جس سے یہ اعتماد پھر سے چکنا چور ہو جاتا ہے . آخر یہ سب کون کرتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں جب انگلینڈ کے سابقہ وزیر اعظم کواپنے ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیئے یہ کہنا پڑا کہ عراق پر کاروائی اور دوسرے مسلم ممالک پر فوجی بدمعاشی کے لیئے اور مسلم قتل عام کے لیئے جھوٹ بولاگیا تھا.تو وہ کون سی طاقت ہے کہ جسے یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس بات کا اعتراف کر کے ان مظلوموں کے ذخموں پر مرہم رکھا جائے . مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرنے کے لیئے منظم صلیبی جنگ میں سب سے بڑا بدمعاش یقینا امریکہ ہی ہے اور امریکہ کو کون نچاتاہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہر گز نہیں ہے . مسلمانوں کے نام سے تیار کیئے گیئے اور مسلم ممالک میں یہ بیس پچیس پچیس سال پہلے سے پلانٹ کیئے گیئے امریکی اور یہودی جاسوسوں نے بڑی ہی لمبی اننگ کھیلتے ہوئے ہمیشہ اپنے اہداف پر حملے کیئے ہیں
.بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگاکہ دنیا بھر کے امن کو تناہ کرنے کا ذمےدار بہر صورت امریکہ ہی ہوتا ہے .... اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر صدیوں پہلےمجرموںکو ہیلا لا کر آباد کیا جاتا تھا . یعنی کل تک یہ مجرموں کے لیئے "سرزمین سزا" تھی اور رفتہ رفتہ انہی مجرموں کی آ ہوں اور سسکیوں سے اب یہ دنیا بھر کے لیئے" سرزمین بددعا" بن چکی ہے . امریکہ کی ترقی نما روشنی گویا جلتا ہوا سورج ہے . جو یہ نہ دیکھے اسے حرارت نہیں مل پاتی اور جو اسے غور سے دیکھ لے تو اندھا ہو جاتا ہے اور جو اسے چھو لے وہ جل کر بھسم ہو جاتا ہے . اسی کایہ کارنامہ ہے کہ دنیا بھر کا بد کردار،بدمعاش ،قاتل،بے دین اور نفسیاتی مریض ایک گروہ کی صورت اکٹھے کئے گئے اور ان سب کو برین واش کر کے دنیا بھر میں مسلمانوں کونشانہ بنانے انہیں قتل کرنے اور اکا دکا کاروائیاں یورپ انگلینڈ اور امریکہ میں کروا کر انہیں مسلمانوں کے سر تھوپنے کے منصوبے پر لگا دیا گیا. یوں مسلمانوں کے قتل عام کے لیئے ہر چار دن بعد ایک کہانی گھڑی جاتی ہے . جبکہ نہ تو طالبان کا تعلق کہیں سے بھی اسلام سے ہے نہ ہی انہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی داعش کے جانوروں کاکوئی تعلق کہیں بھی اسلام سے ہے کہ ان کا بھی نام مسلمان کی حد تک ہونے کے سوا اس دین کے ہزارویں حصے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. ورنہ ان کے نناوے فیصد مقتول اور مظلوم اور مشق ستم مسلمانوں ہی پر کیوں ہوتے.
لیکن ہمیں امید ہے کہ اس خوفناک واقعہ سے فرانس کے عوام کو جس طرح اپنے پیاروں کےجنازے اٹھانے اور انہیں تڑپتے ہوئے دیکھنے کا خوفناک تجربہ ہوا ہے اس کی روشنی میں انہیں مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کے لوگوں کی تکلیفوں اور اذیتوں اور قربانیوں کو سمجھنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہو گا . اللہ پاک فرانس کے لوگوں کے زخموں کو بھر دے . اور انہیں آئندہ ایسے حادثات سے اپنی امان میں رکھے . اور انہیں مسلمانوں کیساتھ ملکر دنیا سے دہشت اور بربریت کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے. کہ بے شک اللہ قرآن میں واضح فرماتا ہے کہ" اللہ زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. "
اور "جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا"
ہر روز جنازے ڈھو ڈھو کر پورا پاکستان یہ بات جو دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ایک مسلمان نام رکھنے سے کوئی مسلمان اور ہندو نام رکھنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا . صرف اس مذہب کو بدنام کرنے کا ایک سستا اور گھٹیا طریقہ ہے . ورنہ ان کا شکار ساری دنیا میں مرنے والے ہزاروں مسلمان کبھی نہ ہوتے. فرانسیسی عوام پاکستان کا درد اب اس لیئے بھی بہتر سمجھ سکیں گے کہ اس درد کی ایک لہر نے ان کے سینے پر بھی ایسا گھاو لگایا ہے جو بھر تو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے داغ چھوڑ جائے گا.
..............
1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
بدھ، 18 نومبر، 2015
زخم بھر جائیگا پر....
پیر، 16 نومبر، 2015
بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں
صرف دس پندرہ سال پیچھے کو جایئے .صبح چھ بجے اٹھنا . نماز پڑھنا سکول جانے کی تیاری کرنا ناشتہ کرنا آٹھ بجے ساڑھے آٹھ بجے سکول لگنا ایک.ڈیڑھ بجے سکول سے چھٹی گھر آکر منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھ کا بنا گرما گرم کھانا کھا کر ٹیوشن یا قرآن پڑھنے کو چلے جانا . چار بجے آ کر ٹی وی پر پسندیدہ کارٹون دیکھنا پھر ماں کے ساتھ کہیں آنا جانا یا ہاتھ بٹانا، ہوم ورک کرنا ،کھانا کھا کر نماز پڑھنا اور دس بجے تک سو جانا .
ماؤں کا صبح چھ بجے آٹھ کر نماز کے بعد ناشتے کی تیاری، سات بجھے انہیں کھلا پلا کر سکول بھیجنا، پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا،سالن چڑھا کر آٹا گوندھ لینا اور سارے برتن دھو کر، کچن کی صفائی کے بعد گھر بھر کی صفائی ستھرائی، دھلائی پوچھا کرتے ہوئے سالن بھی تیار ہوا . بچوں کے سکول سے آنے تک توے سے گرم گرم روٹی اتار کر ہاٹ پاٹ میں روٹی کے رومال میں لپیٹ کر رکھ دی گئی . بچوں کے آتے ہی انہیں کھانا کھلا کر مسجد یا ٹیوشن بھجوا کر ان کی چیزیں سمیٹیں ،برتن دھوئے اور لیجیئے جناب شام کے لیئے سالن موجود ہے تو بے فکری سے کہیں آنا جانا کیا، بازار کا چکر لگانا ہے تو وہ ہوا ،کبھی کسی کاسویٹر بنا جارہا ہے، کبھی برنیوں میں آچار ڈال کر انہیں دھوپ میں رکھا اور ہلایا جا رہا ہے . کہیں جام جیلی تیار ہو رہے ہیں ، کسی کے پاس بچے ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آ رہے ہیں . سارے کام رات کے کھانے کے وقت تک چلتے رہتے ہیں.
وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ اب توکسی کے پاس بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں ہے شاید .
اس بات کا خیال اس وقت آیا جب ایک جگہ بات کرتے ہوئے پہلے اور آج کے لوگوں کی زندگی اور طرز زندگی پر بات ہونے لگی . کہ کل تک جب بیٹی یا بیٹے کی شادی کا موقع ہوتا تھا تو سفید بالوں اور جھریوں کی آمد بھرے کھچڑی چہرے کا تصور ذہن میں آتا ہے . باپ کمر جھکا ہوا بزرگ سا آدمی اور نانی یا دادی تو اس بھی چار ہاتھ آگے دانت ٹوٹے جھکی ہوئی کمر، لاٹھی ٹیکتی ہوئی عورت، نانا دادا تو آخری درجے کی تکالیف اور بیماریوں کا مجموعہ .
لیکن آج بیٹے یا بیٹی کے بیاہ پر ایک اور نوجوان جوڑا اس دلہا دلہن سے زیادہ دلکش دکھائی دے گا معلوم ہو گا کہ یہ ہے اس دلہا یا دلہن کے اماں ،ابا..... گود میں بچہ اٹھا کوئی جوان عورت نظر آئے پوچھا آپ کا بچہ ہے جواب نہیں یہ میرا پوتا یا نواسی نواسہ ہے . حالانکہ پہلے وقتوں میں بچوں کی شادیاں بھی بہت جلد کر دی جاتی تھیں . بیٹی چودہ پندرہ کی عمر میں اور بیٹا بیس بائیس میں بیاہ دیتے اس حساب سے سال بھر میں گود میں بچے ہوئے. ..اپنی بیٹی بیاہتے ہوئے وہ لڑکی جو ماں تھی تیس سال کی ہوتی اور لڑکابھی پینتیس تک کا تو انہیں زیادہ جوان نظر آنا چاہیئے تھا . جبکہ آج کی لڑکیاں جو بائیس سے چوبیس کی عمر میں بیاہی ان پچھلی ماوں سے زیادہ حسین اور جوان دکھائی دیتی ہیں
یہ کیسا عجیب راز ہے . کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے لوگ جو زندگی سو سال میں جیا کرتے تھے وہ ہم آج کے تیز رفتار زمانے میں پچاس سال ہی میں جی چکے ہوتے ہیں اس لیئے جسمانی عمر تو پچاس سال ہی ہوتی ہے جو دکھتی بھی ہے لیکن نہ دیکھنے والے پچاس مزید سال اسی تیزی میں ہم جی چکے ہوتے ہیں . اور ہمارا دن ہمارا سورج چوبیس گھنٹے کا پھیر شاید بارہ گھنٹے میں ہی مکمل کر چکا ہوتا ہے . اسی لیئے زندگی تو سو سال کی جی لیتے ہیں لیکن بدن پچاس برس ہی دیکھ پاتا ہے . جبھی تو بوڑھا ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا......
..................
پیر، 2 نومبر، 2015
رنکل کماریاں کہاں جائیں ؟؟؟
جمعہ، 30 اکتوبر، 2015
بڑے بے آبرو ہو کر۔ کالم
ہفتہ، 24 اکتوبر، 2015
ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ
A HISTIRY OF DENISH LITRETURE
صدف مرزا کے قلم سے
ممتازملک ۔ پیرس
جس میں یہ ملاحظہ فرمایئے
Thomas Hansen Kingo 1634-1703
مقدر سب کا اپنا ہے (1681) ( 1694 - 1764)
زندوں کا جہاں یا زندوں کی سرزمین
1740 Den kedsom vinter gik sin gang
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Ewald, Johannes Da jeg var syg
Johannes Ewald 1743
"GULDHORNENE" 1802
طلائی سینگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Adam Gottlob
کشور حسین شاد باد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنمارک ، میرے اجداد کی سر زمیں
Danmark, mit Fædreland 1850 دلکش ہے ہماری ماں بولی
1859 Sophus Claussen سوفس کھلائوسن (1865-1931)
”Imperia” امپیریا 1909 Poul Henningsen 1894- 1967 1940
Halfdan Rasmussen
Bare en regnvejrsaften.
دنیاوی تحائف بیکار نظر آتے ہیں .
پیر، 12 اکتوبر، 2015
●(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک گھریلو معاملہ / کالم۔ سچ تو یہ ہے
گھریلو معاملہ
ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین اپنےہیگھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہوتی ہیں ۔ یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہیں دل میں ایک پرانی یاد کا درد اٹھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں شاید نویں یا دسویں جماعت کی طالبہ تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی کہ ہر ایک کا مسئلہ میرا ہی مسئلہ لگتا تھا ، حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج بھی تھی کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے ۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا عادی کر دیا تھا ۔ یہ انہی دنوں کی کربناک یاد ہے جب میں ایک قریبی جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھا کرتی تھی ۔ مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ، ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی ،اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں ، کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ، کیوں اس کی ٹانگ نہیں توڑتی. بےگناہ کیوں اتنا تشدّد برداشت کرتی ہیں ۔ کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی پتھر کی دیوار پر . خاص بات یہ کہ اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا ۔ کبھی اس بات پر پِیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی . دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا . رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ؟ تمہاری ماں مر گئی ہے کیا ؟ ہنس کیوں رہی ہو تمہاری ماں کا بیاہ ہےکیا؟کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا . افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے . گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا . گلاس پورا کیوں بھرا ۔ پانی ضائع کرتی ہو. یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینََا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتا ہے ۔ کوئی نارمل آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئے اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدّد کی رپوٹ بنا کر ہم نے اس وقت کے ایک ایسے ادارے کے نام بھجوا دی کہ جو ان دنوں ایسے معاملات پر ایکشن لینے کا مجاز تھا تاکہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے ۔ بڑے دنوں کے انتظار کے بعد آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ ''یہ ایک گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے ''یہ سن کر وہ وہ خاتون زاروزار روئی اور بولی'' بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں۔ کتابوں میں ہی ہوتی ہیں مجھ جیسی عام سے گھر کی عورت کو بچانے کے لیئے کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا۔ مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھول بڑھ جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں باپ اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے . میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے ."اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدّد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں . صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے ، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جارھا ہے ، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر لوگوں کو نچوڑا جاتا ہے ، تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی ہوتا ہے . آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا ؟ آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اس کی ادھ کُھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ" دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئ پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی خاتون کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا ". میرا سر جھک گیا اور بیساختہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی . .....●●● تحریر ۔ممتازملک مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے اشاعت: 2016ء ●●●
پیر، 5 اکتوبر، 2015
شکریہ برائے دفاع پاکستان
ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015
& نیل کٹر ۔ افسانچہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی
پہنچے ہوئے
منگل، 22 ستمبر، 2015
19ستمبر 2015 میلہ عید الاضحی
شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/
- ستمبر (1)
- اگست (12)
- جولائی (12)
- جون (5)
- مئی (3)
- اپریل (8)
- مارچ (11)
- فروری (105)
- جنوری (5)
- دسمبر (5)
- نومبر (5)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (8)
- جولائی (2)
- جون (3)
- مئی (9)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (4)
- دسمبر (5)
- نومبر (3)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (3)
- اگست (3)
- جولائی (3)
- جون (5)
- مئی (10)
- اپریل (4)
- مارچ (3)
- فروری (6)
- جنوری (9)
- دسمبر (3)
- نومبر (2)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (2)
- اگست (3)
- جولائی (7)
- مئی (1)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (12)
- دسمبر (11)
- نومبر (11)
- اکتوبر (13)
- ستمبر (11)
- اگست (16)
- جولائی (8)
- جون (8)
- مئی (11)
- اپریل (8)
- مارچ (19)
- فروری (19)
- جنوری (23)
- دسمبر (4)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (15)
- جون (4)
- مئی (15)
- اپریل (18)
- مارچ (88)
- فروری (15)
- جنوری (23)
- دسمبر (12)
- نومبر (8)
- اکتوبر (3)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (11)
- جون (1)
- مئی (3)
- اپریل (7)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (4)
- دسمبر (7)
- نومبر (12)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (14)
- جولائی (7)
- جون (11)
- مئی (22)
- اپریل (8)
- مارچ (33)
- فروری (10)
- جنوری (7)
- دسمبر (8)
- نومبر (11)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (11)
- اگست (8)
- جولائی (8)
- جون (10)
- مئی (5)
- اپریل (39)
- مارچ (2)
- فروری (11)
- جنوری (8)
- دسمبر (1)
- نومبر (3)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (5)
- جولائی (7)
- جون (6)
- مئی (5)
- اپریل (5)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (9)
- دسمبر (10)
- نومبر (7)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (2)
- جولائی (10)
- جون (10)
- مئی (6)
- اپریل (5)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (3)
- دسمبر (1)
- نومبر (2)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (3)
- اگست (64)
- جولائی (2)
- جون (1)
- مئی (5)
- اپریل (4)
- مارچ (4)
- فروری (3)
- جنوری (3)
- دسمبر (28)
- نومبر (11)
- اکتوبر (80)