ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

نعت ۔ حضور آ گئے ہیں


حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں، حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں 
حضور آ گئےہیں،حضور آ گئے ہیں

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں،حضور آگئے ہیں

،،،،،،،،،،،،،،،،

پیر، 22 ستمبر، 2014

لنگوٹیئے یار/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



لنگوٹیئے یار
ممتازملک ۔ پیرس

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گلی محلے میں کھیل کود کر شرارتیں کرتے ہنستے روتے ،ساتھ بڑے ہونے والے بچے سب کے سب الگ الگ سوچ اور صلاحیتیں لیکر بڑے ہوتے ہیں ۔ اس مین کچھ تو مالی حالات کا اثر ہوتا ہے ۔ اور کچھ میں انکے گھریلو سوچ اور ذہنیت بہت اثر انداز نظر آتی ہے ۔ کوئی بچہ تمام تر مالی وسائل اور سہولتیں ہوتے ہوئے بھی کوئی خاطر خواہ تعلیمی قابلیت نہیں دکھا سکتا تو کچھ بچے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ذندگی کے شدید تھپیڑوں میں بھی اپنا قد اور مقام وہاں تک لیجاتے ہیں کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی انکے مخالفوں کو بھی ان کی جانب دیکھنے کے لیئے سر اٹھانا ہی پڑتا ہے ۔ ایک ہی گلے محلے کے بچے جن میں کوئی ایم اے ، ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کرتا ہے ۔تو کوئی اسمبلی میں قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اسی گلی کی نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہے ،تو کوئی اسی گلی کے ہوٹل میں میز صاف کرتا ہے اور کل کے ہمجولیوں کو چائے پیش کرتا ہے ۔ کوئی موٹر سائیکل کی مرمت کرتا نظر ہے ۔ تو کوئی میجر صاحب بن کر ملک قوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھا تا ہے ۔                                                             
کتنی عجیب بات ہے ایک ہی زمین ، ایک سی خوراک ، ایک سی آب وہوا ، لیکن نتیجہ کسقدر مختلف ۔ اسے پرورش کا فرق کہیں ، اس بچے کا نصیب کہیں یا خدا کی شان ، سب سچ ہے ۔ لیکن سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین جس سے جو کام کروانا چاہے کروا ہی لیتا ہے ۔ چیونٹی سے ہاتھی کومروانا بھی یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ اپنے سوا کسی کی بھی بڑائی پسند نہیں کرتا ۔ لیکن انسان کے جھکنے اور عاجز ہو جانے سے کسقدر محبت رکھتا ہے ۔ کہ اسے ان سب کے عوض کس کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے ۔ کہ وہ انسان خوداپنی اونچائی پر حیران کھڑادیکھتا رہ جاتا ہے ۔ بے عقل اور کم ذات اپنے مراتب کے بعد اپنے انداز و اعمال سے اپنے بدذات اور متکبر ہونے کا اعلان کرتا  گردن اکڑاتا فرعون بنتا نظر آتا ہے ۔ تو عقل وشعور والا ، بانصیب عاجز ہو کر اپنی گردن مالک کے حضور زمین سے جوڑتا اور شکر کے الفاظ اور انداز ڈھونڈتا نظر آتا ہے ۔                  
بچپن کے یہ ساتھی جن میں کچھ تو آگے نکل جانے والوں سے بے انتہاء محبت اور فخر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو انہیں ان کی ماضی کی محرومیوں کے آئینے میں چھوٹا دکھانے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے ہیں ۔ ہم تو اسے حسد ہی کہیں گے ۔ ان کی کم ظرفی کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں بھری محفل میں ان کے کسی بچپن کے کسی نام یا عرفیت ( جسے ہم چھیڑ بھی کہہ سکتے  ہیں )سے  پکار کر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کبھی چُن چُن کر انکی ایسی شرارتیں یا باتیں لوگوں کی موجودگی میں سنانے لگیں گے جن سے انکی محفل میں سُبکی ہو ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مرتبے پر پہنچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر انسان وہیں کسی سے ملنے کی خواہش کریگا جہاں اسے اپنی عزت محسوس ہو ۔ بلکہ اکثر ان لوگوں کو گیٹ پر سے ''صاحب گھر پر نہیں ہیں'' کہہ کر بھی ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی محفل میں یا ٹی وی پر اپنے کسی بچپن کا ساتھی نظر آئے تو بڑی نخوت سے ناکام دوست ساتھ بیٹھے کو یہ جملہ ضرور کہے گا کہ '' ارے یہ تو فلاں فلاں کا بیٹا ہے میرا لنگوٹیا یار تھا  اسے تو میں کبھی منہ بھی نہیں لگاتا تھا ، اسکے پاس تو فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ،یا اس کے توجوتے بھی پھٹے ہوئے ہوتے تھے  وغیرہ وغیرہ  آج پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے ''۔ کہہ کر خود کو اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو خدا نے اس کی پہنچ سے بھی دور کر دیا اور خود انکے حِصّے میں کیا آیا لنگوٹئے یار کے نام پر چند بوگس جملے ،اور کلیجے سے نکلتی ٹھنڈی آہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

کپڑےذیور اورمیک اپ / ممتازملک ۔ پیرس



کپڑے زیور اور میک اپ
ممتازملک۔ پیرس

”کپڑے زیور اور میک اپ“ یہ وہ پٹیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں مردوں نے خواتین کی آنکھوں پر بڑے چاؤ سے باندھ دی ہیں ـ اس لئے نہیں کہ وہ اِن سے محبت بہت کرتے ہیں ( کاش ایسا ہی ہوتا ) بلکہ ان خواتین کا سارا دھیان اِن کی زندگی کی ساری ترجیحات کپڑے زیور اور میک اپ کو بنا دیا گیا ہے ـ
اِن کی علم سے محبت٬ خداداد صلاحیتوں اور انکی پیشہ وارانہ مہارت کو اِن چیزوں کے نیچے دفن کر دیا گیا ہے ـ جِس ملک کی 52 فیصد آبادی کو اِن امراض میں مبتلا کر کے ترقی کا خواب دیکھا جائے تو ہمیں تو ایسا ہی لگتا ہے ٌجیسے کسی گنجے کو جیب میں کنگھی رکھنے کا شوق ہو جائے ـ

اور تو اور ہمارے ٹی وی نے بھی اِن چیزوں کو جنون بنانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ـ کبھی مارننگ شوز کی صورت ،تو کبھی نیوز ریڈرز کے بناؤ سنگھار کو ابھار کر، تو کبھی ڈراموں میں جانے کس کس ملک کا فیشن ٹھونس کر، اور رہی سہی کسر فیشن شوزکے خصوصی پروگرامز اِس طرح پیش کر کے جیسے ہمارے مذہب اور تہذیب کا بہت ہی خاص حصہ ہے ـ اور اگر ہم نے انہیں نہ اپنایا تو خدا جانے کیا قیامت آجائے گی ـ

مہنگے ہوں یا سستے ،کپڑے زیور اور میک اپ، جتنی سہولت سے اِن خواتین کو مہیا کر دیا جاتا ہے ـ یا اِن میں اِن چیزوں کی دیوانگی بڑہانے پر محنت کی جاتی ہےـ کیا ہی اچھا ہو کہ اس بڑہاوے کو خواتین میں کتابوں سے محبت ،تعلیمی مدارج میں بلندی اور کسی بھی شعبہ میں مہارت حاصل کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے استعمال کیا جاتا تو آج حالات کتنے اچھے ہوتے کیونکہ علم جس کے اندر داخل ہوتا ہے یہ کپڑوں زیور میک اپ کا عشق اُس کے اندر سے ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے ـ اُس کے اندر مَثبت اندازفکر پیدا ہوتا ہے ـ اپنے خاندان معاشرے کے لئے کچھ اچھا کرنے کی سوچ اُسے تمام فضول مشغلوں سے دور کر دیتی ہے ـ
علم سے اُن میں سادگی پیدا ہوگی اور یہی سادگی ہمارے معاشرے میں مردوں کے مالی اور ذہنی دباؤ کو کم کرے گا اور گھروں میں یہی بات سچی محبت پیدا کرنے کی وجہ بنے گی ـ دنیا کے جس بھی ترقی یافتہ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوموں کی کامیابیاں تعلیم کو مردوں اور عورتوں میں عام کر کے انہیں کتابوں سے ،الفاظ سے، محبت سکھا کر انہیں بِلا تفریق ہر پیشے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ دے کر ہی حاصل کی گئی ہے ـ اور ذرا سی حقیقت پسندی آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ سب سے زیادہ شر اور فساد گھر میں بیٹھی بے علم ،خالی ذہن اور بے مقصد زندگی گزارنے والی عورت ہی پھیلا رہی ہے ـ اس کو اپنیخُدا داد ذہنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقعہ جب تک نہیں 
دیا جائے گا تب تک ترقی کا خواب دیکھنے والوں کو ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں
 کہ بھائ
” نہ نو من تیل ہوگا نہ ہی رادھا ناچے گی٬٬

...........................


جمعہ، 29 اگست، 2014

پیشہ سیاست/ کالم



پیشہ سیاست
ممتازملک ۔ پیرس

پاکستان کے حالات اس وقت تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہین ۔ جی ہاں آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ جی یہ توع ہ جب سے پیدا ہوئے ہین تب سے ہی سن رہے ہین ۔ لیکن تب یہ حالات ناذک موڑ پہ تھے تو آج فیصلے کی گھڑیوں میں داخل ہو چکے ہیں ۔ 2013 میں علامہ طاہرالقادری صاحب کے دھرنے سے شروع ہونے والا سفر آج ان کی تمام پیشن گوئیوں کو صحیح ثابت کرتا ہوا ایک سال بعد لوگوں کو یہ سوچنے پر آخر مجبور کر ہی گیا کہ ایک عام آدمی جس کے پاس  دولت ( حرام یا حلال جیسی بھی ہو ) کا جادوئی چراغ ہو یا اثر رسوخ کا ڈنڈا تو وہ اپنی تو کیا  جسکی چاہے بھینس کھول سکتا ہے ۔ قانون بھی اسی کے گھر کی لونڈی ہے اور انصاف بھی اسی کے باپ کی جاگیر ہے ۔ 
پاکستان میں سیاست کبھی ایک مقصد نہیں رہا بلکہ جس نے بھی سیاست کی تجارت بنا کر کی ۔
 سچ ہی تو کہا گیا ہے کہ
''میرے وطن میں سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ''
یہ وہ بد نصیب ملک ہے کہ جہاں خانوں ، جاگیر داروں ۔ وڈیروں لٹیروں نے اپنے مزارعوں  کے دائرے کو بڑا کر کے اسے عوام کا نام دیدیا ۔ اور اپنی پنچائیتوں کو ہی اسمبلی کی شکل دے دی ۔  اندر خانے وہی گل خوب کُھل کھیل کر کھلائے گئے جوان کا طرء امتیاز ہمیشہ ہی رہا تھا ۔ دیکھتے دیکھتے 67 سال بیت گئے عوام اور ملک بھکاری ہو گیا خزانے کو اقرباء پروری کا کیڑا لگ گیا اور اس کیڑے کو پالنے والے کل کے کنگلے آج کے نام نہاد اشرافیہ بن گئے ۔  ملک غریب اور ملک کے کرسی برانڈ خادمین امیر ترین ہوتے گئے ۔اب ہماری بیچاری خدا سے دور ، قانون شکن ، وعدہ شکن ، دوسروں کی عزتوں کی دھجیاں اڑا کر خوش ہونے والی عوام ، یتیمون بیواؤں کا حق کھانے کے شوقین عوام ،   تہمتیں لگانا جن کا پسندیدہ مشغلہ ہے، کسی اچھے آدمی کو ووٹ محض یہ سوچ کر نہیں دیتے کہ کہیں انہیں اچھا نہ بننا پڑ جائے ۔ آج جب کوئی ان کے لیئے آواز اٹھانے کے لیئے میدان میں آ بھی جائے تو یہ سوچ کر اسکا ساتھ دینے کے لیئے گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ نہ تو انہیں اپنے نفس پر قابو ہے نہ ہی اپنے کردار پر بھروسہ ۔ یعنی کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ
  '' اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے 
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ''
لیکن ہم ہیں امید پسند لہذا امید کرتے ہیں کہ اتنی تباہی کے بعد جب ہمارے پاس کھونے کو بھی اب کچھ نہیں رہا تو ہم خدا کا نام لیکر ایک نئی شروعات ضرور کریں گے ۔ اور خود کوخدا کی بتائی ہوئے ہدایت کے مطابق  بدلنے کی کوشش بھی ضرور کرینگے اور آئندہ کے لیئے کسی بھی تاجر کو اپنے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں دیں گے کیوں کہ سیاست ایک فل ٹائم جاب ہے اسے اب پارٹ ٹائم دھندا نہیں بننے دیں گے  ۔ بس یہ ہی ایک صورت ہے کہ خدا ہمیں معاف کر دے ۔ اور ہم بھی اپنے تعارف میں کہ آپ کا پیشہ کیا ہے ؟ کسی کو یہ کہنے کہ اجازت نہ دیں ،جی پیشہ سیاست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جمعہ، 15 اگست، 2014

یادگار لمحات ۔ ممتازملک ۔پیرس



یادگار لمحات
ممتازملک۔ پیرس


13 اگست 2014 کی شام پیرس کی لکھاری خواتین کے لیئے کئی لحاظ سے یادگار لمحات لیئے ہوئے آئی ۔ پہلی خوشی تو یہ تھی کہ گزشتہ سال جس شاہ بانو میر اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ جسے دیوانے کا خواب کہا گیا تھا ، جس میں تین خواتین نمایاں تھیں ، ماشااللہ ترقی کرتا ہوا  اپنا ایک سال مکمل کر گیا ۔ اس ایک سال میں جہاں اس اکیڈمی کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کی حوصلہ افزائی میں اس ٹیم میں ہماری لکھاری بہنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ وہیں ان کے کام کو بھی مختلف پلیٹ فارمز پر سامنے آنے کا موقع ملا ۔ کل تک جہاں پیرس میں شاہ بانو میر ، ممتاز ملک اور وقار النساء خالد صاحبہ پاکستانی اور کمیونٹی مسائل پر قلم سنبھالے ہوئے تھیں وہیں آج اس قافلے میں انیلہ احمد ، نگہت سلطانہ سہیل ، اور اسماء ذاکر علی بھی مضبوط سوچ اور تحریر کیساتھ اس کا حصہ بن چکی ہیں ۔ یہ اضافہ اللہ کا وہ کرم ہے کہ جو ما شااللہ ہماری سوچ سے بہت ذیادہ ہے ۔ بیشک اللہ پاک ہر انسان کو اس کی نیت کا پھل ضرور عطا کرتا ہے ۔ کل تک جو لوگ ہمیں تحریروں سے سب کو خوش رکھنے کا مشورہ یہ سوچ کر دیتے تھے کہ چار دن کی زندگی ہے اس میں کیوں سچ لکھ لکھ کر اپنی مخالف پیدا کرتی ہیں ۔ سب کی تعریف کیا کریں تاکہ آپ بھی خوش اور دوسرے بھی خوش ۔ انہیں اللہ پاک نے سال بھر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ قول عملی شکل میں دکھا دیا کہ '' جو سب سے متفق ہوتا ہے وہ منافق ہوتا ہے '' ہمارہ گروپ کسی کی بھی چاپلوسی نہ کر کے سب کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ 
'' ارادے جن کے پُختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو 
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ''
پیرس میں اردو کا پہلا پرنٹ میگزین  '' در مکنون '' شائع کر کے اس ٹیم نے ایک تاریخی سنگ میل عبورکر لیا ۔ اب اس ٹیم نے اس شمارے کی دوسری اشاعت کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ جس میں اب تین نہیں بلکہ چھ خواتین قلمکارانشااللہ  معاشرتی برائیوں سے پردہ اٹھاتی نظر آئیں گی۔ ان خواتین کے نام اور مختصرتعارف ان لوگوں کے لیئے پیش کیا جا رہا ہے جو اسے ایک  فرضی گروپ کا نام دیکر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ یہ کوئی ایک ہی خاتون نہیں  ہیں جو مختلف ناموں سے لکھ رہی ہیں ۔  بلکہ ہمارے قارئین ان کی تحریروں کا تنوع دیکھ بھی چکے ہیں اور سراہ بھی چکے ہیں ۔ 
شاہ بانو میر
گوجرانوالہ کے ایک صحافی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انٹر نیٹ پر انکی آٹھ کتابیں اور بیشمار آرٹیکلز اور تجزئے موجود ہیں ۔ پیرس میں اردو کے پہلے پرنٹ میگزین '' در مکنون ''  اور شاہ بانو میر اکیڈمی کی بانی ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ بہترین مقرر، نعت خواں اور پروگرامز کی نظامت کرتی ہیں ۔ دو شعری مجموعوں بنام '' مدت ہوئی عورت ہوئے '' اور '' میرے دل کا قلندر بولے '' کی خالق ہیں جبکہ تیسرا مجموعہ لانے کی تیاری میں ہیں ۔ انکے جراتمندانہ کالمزاور بے دھڑک  انداز بیاں انکی شناخت ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقارالنساء خالد
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے کافی عرصہ تک وابستہ رہی ہیں۔ میگزین '' در مکنون '' کی مدیر اعلی ہیں ۔ بہت اچھی افسانہ نویس اور کالم نگار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
انیلہ احمد
لاہور کی رہنے والی ہیں ۔ پاکستان کے مسائل پر خاص نظر رکھنے والی ہمدرد شخصیت ہیں ۔ اپنے کالمز کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرتی ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگہت سلطانہ سہیل
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے وابستہ رہی ہیں ۔ طنزو مزاح انکا خاص شعبہ ہے ۔ جس کی جھلک انکے کالمز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ ہلکے پھلکے لہجے میں سخت بات کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماءذاکر علی
اسلام آباد کی رہنے والی ہیں ۔ شعبہ تعلیم سے وابستگی رہی ہے ۔ دینی موضوعات پر لکھنا پسند کرتی ہیں ۔ ان کے کالمز میں بھی دینی رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس دن کی کی دوسری خوشی تھی فرانس میں تعینات سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کی جانب سے شاہ بانو میر صاحبہ کے نام وہ دعوت نامہ جس میں انہیں ہماری ٹیم سمیت 14 اگست 2014 کی تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی ۔ بہت بہت شکریہ جناب سفیر پاکستان کیوں کہ فرانس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی ایمبیسیڈر کی جانب سے کسی جینوئن لکھنے والے اور وہ بھی خاتون کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں باقاعدہ دعوت نامہ انکی ٹیم سمیت دیا گیا ہو۔ 14اگست 2014 کو جیسے پاکستانی ایمبیسی میں شاہ بانو میر صاحبہ کی خدبات کو سراہا گیا ۔ اس سے ہماری پوری ٹیم  کو ایک نئی توانائی ملی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والے ''در مکنون ''کے شمارے کے لیئے ہمیں پاکستانی ایمبیسی کی جانب سے رہنمائی اور معلوماتی تعاون حاصل رہے گی تاکہ ہم پاکستانی حقیقی لکھاری خواتین  دیار غیر میں پاکستانی مسائل سے متعلق آگہی پیدا کر سکیں ۔ اور انکے حل میں اپنی سوچ اور خدمات کی روشنی پہچا سکیں ۔
میرے سامنے جو کتاب ہے وہ بکھر گئی ہے ورق ورق
مجھے اپنے اصل نصاب میں اسے جوڑنا ہے سبق سبق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جمعہ، 25 جولائی، 2014

سوالنامہ جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے/ ممتازملک۔ پیرس


سوالنامہ
 جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے
ممتازملک۔ پیرس

کون ہے جس نے ہم سب کی دعاؤں کو عرش پر پہنچنے سے روک رکھا ہے ۔ کون ہے جو ہمارے اور خدا کی سماعتوں کے بیچ دیوار بن گیا ہے ؟ کون ہے جو میرے حصے کا سکون مجھ تک پہنچنے نہیں دے رہا ؟خدا سے ذیادہ طاقتور تو کوئی بھی شے ہو ہی نہیں سکتی ۔ پھر کچھ تو ایسا ہے جو ہماری دعاؤں کو ، صداؤں کو ، آرزوؤں کو رب خالق تک پہنچنے سے روک رہا ہے تو گویا اس روکنے والے کو بھی رب کائینات نے اتنی قوت دے ہی رکھی ہے جبھی تو ایسا ممکن ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں یا اللہ ہم تو نمازین بھی پڑھ رہے ہیں ، صدقے بھی دے رہے ہیں ، مسجدیں بھی بنوا رہے ہیں ، ہر سال حج کر کر کے  بھی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ، ہر دوسرے مہینے عمرے پر بھی دوڑے دوڑے جا رہے ہیں ، پھر بھی ہم بے سکون کیوں ہیں ، اولادیں نافرمان کیوں ہیں ،  راتوں کو نیند کیوں نہیں آتی ، دل سے بے چینی کیوں نہیں جاتی ۔ اس کے حصول کے لیئے ہم کیا کریں ؟
 کوئی مشکل نہیں ہے اس کا جواب  ۔ اسکا اور اس جیسےہزاروں سوالوں کا جواب ۔ بس ہمارے ذہن کا منصف ہونا ضروری ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں ۔ ایک ہی  دن میں آپ کو اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔ کیا ہم نے اپنے ملاذم کے ساتھ آج کوئی نااصافی تو نہیں کر دی ، کیا آج کسی نے مجھ سے کچھ رقم اپنے علاج کے لیئے مانگی اور میں نے اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جانے دو یہ تو اس کا روز کا کام ہے ( حالانکہ میری تجوری میں اس وقت بے مصرف لاکھوں روپے رکھے تھے ۔)  کیا ہم نے آج گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو گاڑی کو ہاتھ لگانے پر گالی تو نہیں دی ۔ کیا میں آج کسی کو محض میرے لیئے کھڑا نہ ہونے پر بے عزت تو نہیں کر دیا ۔ کیا ہم نے آج کسی پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا ۔ کیا  ہم نے آج کسی بھکاری کو جھڑک تو نہیں دیا ۔ ( حالانکہ اس کی جگہ میں بھی ہو سکتا تھا ۔ ) کیا ہم نے آج کسی کی عزت پر میلی نظر تو نہیں ڈالی ۔ کیا ہم نے آج کسی کی عزت اپنے کسی قول فعل یا عمل سے تو تار تار نہیں کردی  ۔  کیا میں کسی کے گھر ، کمرے یا  آفس مین بلا اجازت تو داخل نہیں ہو گیا ؟ کیا آج مجھے جہاں جہاں سچ بولنا چاہیئے تھا وہاں وہاں سچ بولا؟  کیا آج میرے سامنے کسی کے ساتھ ذیادتی ہو رہی تھی تو میں نے ہو جانے دی یا اسے روکنے کی کوئی کوشش کی ؟ کیا مین نے کر نے کی ہمت کے باوجود کسی ظالم کے ہاتھ توڑے یا روکے ؟کیا آج مجھے جس جس کو ادائیگی کرنی تھی اسے وقت مقررہ اور مقام پر ادائیگی کی ۔ جس سے جہاں ملنے کا وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ؟ کیا میں نے حیثیت کے باوجود آج کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ۔ کیا میں نے آج جانتے ہوئے بھی ہوتے ہوئے بھی کسے غریب طالبعلم کا داخلہ یا فیس جمع کرائی ؟ کیا جانتے ہوئے بھی یا کسی کے مانگنے کے باوجود کسی مریض کو کوئی دوا لا کے یا منگوا کے دی ؟ کیا میں نے کبھی سارا دن بور ہونے کے باوجود کسی ہسپتال میں کسی مریض کی عیادت کی ۔ کیا ہم نے زندگی میں کبھی کسی اولڈ ہوم کا دورہ کیا ہے ۔ کیا ہم نے اپنے زندگی میں کبھی کسی یتیم خانے کا دورہ کیا ہے یا اسکے لیئے یتیم ہونا ضروری ہے ؟ کیا ہم نے کسی یتم یسیر کے سر پر مدد کا ہاتھ رکھا ۔ کیا بے شمار مال و دولت  ہوتے ہوئے بھی پوری زندگی میں کسی ایک بھی طالبعلم کی پڑھائی کا خرچہ اٹھایا ۔ ؟ کیا ساری عمر میں کسی ایک بیوہ کے گھر کا خرچ اس کے بچوں کے بڑے ہونے تک اٹھایا؟کیا کسی ایک بھی غریب لڑکی کا گھر بسانے میں بغیر بتائے اور بغیر کوئی فائدہ اتھائےاس کی مالی مدد کی ؟ کیا کسی نوکری کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے کسی ایک بھی انسان کو نوکری دلوائی ۔ کیا کبھی ایک بھی انسان کو پوری زندگی میں کوئی ٹیکنیکل ٹریننگ دلا کر اسے بسر روزگار ہونے میں اس کی مدد کی ؟ کیا آج آپ کی کسی حرکت سے کسی ضرورت مند کا دل تو نہیں ٹوٹ گیا ؟ کیا آج آپ کے دروازے سے کوئی کوئی ضرورت مند سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ تو نہیں لوٹ گیا ؟کیا کوئی آپ کے گھر میں ان گنت نعمتوں کی موجودگی کے باوجود آپکے در سے بھوکا یا پیاسا تو نہیں لوٹ گیا ؟ کیا آپ کی الماریوں میں کپڑوں کے ٹُھسّے ہونے کے باوجود کوئی پھٹے ہوئے کپڑوں میں تو نہیں لوٹ گیا ؟َ کیا کوئی کتابوں کے نہ ہونے پر آپ کے سامنے تعلیم سے محروم تو نہیں رہ گیا ۔ اگر میں نے یا آپ نے اس میں سے کوئی بھی حرکت کی ہے تو جان جائیئے کہ اسی کی آہ ہے، اسی کی ہائے ہے، اسی کی بدعا ہے جو ہماری دعاؤں کا راستہ روکے کھڑی ہے ۔ ہمت کیجیئے اج ہی اپنےاس گناہ یا حق تلفی یا غلطی کی تلافی کر کے اس دیوار کو توڑ دیجیئے جو ہماری دعاؤں کو عرش تک اور سمیع اللہ تک پہنچنے سے روک رہی ہے ۔ اللہ اپنے آگے کیئے ہوئے سجدوں کی کمی بیشی تو معاف کر سکتا ہے ۔ لیکن کسی انسان پر کیا ہواظلم ، زیادتی اور اسکا مارا ہوا حق کبھی معاف نہیں کرتا ۔  یاد رکھیں مظلوم کی بدعا اور آہ عرش کو ہلا دیتی ہے ۔ اور ہلتے ہوئے عرش کو ٹہرانے کے لیئے دوسروں کے بجائے اپنے گناہ اور عیب تلاش کیجیئے تاکہ ابھی زندہ ہوتے ہوئے ہم اس کی تلافی کر سکیں ۔ ورنہ آنکھیں بند  تو
 منہ بند، ہاتھ بند ، پاؤں بند ،اور عمل موقوففففففف !
 ایک ہی آواز
 اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمد عبد ورسولُہ 
چلو بھئی سیدھے ہو جاؤ ۔ 
حساب کا وقت شروع ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

جمعرات، 24 جولائی، 2014

گھروں سے باہر نکلو ۔ سراب دنیا




گھروں سے باہر نکلو
ممتازملک۔پیرس



بھول کے ہر تہوارگھروں سے باہر نکلو
کروظلم سےآنکھیں چار گھروں سےباہرنکلو

مسلم کُش ہاتھوں کو توڑو آگے بڑھکر
بنکر اک للکار گھروں سے باہر نکلو

بدر کے جیسے دہلا دو پھر انکے سینے
بن جاؤ تلوار گھروں سے باہر نکلو

عیاشی کاعادی کرکےطاقت دینی زائل کرکے
ذہن کیا بیمار گھروں سے باہر نکلو

ہر جانب سے تم پر گھیرا تنگ ہوا ہے 
توڑ دو استعمار گھروں سے باہر نکلو

سب سےبہترامت ہوتم رب سوھنے کی
کر کےاستغفار گھروں سے باہر نکلکو 

ثابت کر دنیا پر ورنہ مٹ جاؤ گے
نہیں ہو تم لاچار گھروں سے باہر نکلو

سمجھو کہ قرآن تمہیں سمجھاتا کیا ہے
عملی ہو پرچار گھروں سے باہر نکلو

کب تک بے شرمی سے جینا چاہو گے تم
ممتاز کرو اک وار گھروں سے باہر نکلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 21 جولائی، 2014

شاہ بانو میر / ممتاز ملک آپکو نورالقرآن میں آنا مبارک ہو



20/07/2014
کیا کہوں ؟

شاہ بانو میر 

ممتاز ملک آپکو نورالقرآن میں آنا مبارک ہو 

کچھ لوگ اپنے علم ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ سب میں نمایاں رہتے ہیں ـ بھیڑ چال کی اس مصنوعی دنیا میں عارضی شہرت سے ہٹ کر اصل کامیاب شہرت محنت کر کے جو لوگ نام بناتے ان معتبر ناموں میں ایک اہم ترین نام ممتاز ملک کا ہےـ 22 فروری کو جب ان کی دوسرا شاعری کا مجموعہ منظر عام پے آیا تو اسکی تقریب رونمائی میں نظامت کے فرائض مجھے سونپے گئے ـ اس پروگرام پے جب تفصیلی لکھا تو ایک خاتون نے مجھے پوچھا کہ آپ ایک خاتون ہو کے کسی دوسری خاتون کی اتنے کھلے دل سے کیسے تعریف کر لیتی ہیں ـ ان کو جواب دیا کہ یہ اس خاتون کی اہلیت ہے جس نے اتنی زیادہ تعریف کروائی ـ ورنہ تو یہاں لکھنے کیلیۓ مواد کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہےـ 
آج ممتاز کیلیۓ میں کچھ الگ کہنا چاہتی ہوں ـ پرانے لوگ جانتے ہیں نئے پڑہنے والوں کیلیۓ یہ نئی خبر ہوگی کہ اس در نایاب کو میں کھینچ کھانچ کر باہر لائی ان کی تحریر کو اصرار کر کے شائع کروایا ـ اور آج یہ اکیلی کئی لکھاریوں پے بھاری ہیں ـ ایک خواہش تھی ممتاز کیلیۓ 
ان کا بولنا بات کرنا سمجھانا قدرت نے فیاضی سے الفاظ عطا کئے ہیں پھر حسنِ ادائیگی کمال کی ہے ـ سوچتی تھی کہ اگر یہ "" نورالقرآن "" میں ایڈمشن لے لیں تو ان کے پاس جو 14 سالہ دینی ادارے کا تجربہ ہے اس میں چار چاند لگ جائیں گے ـ پہلے عشقِ مصطفیٰ تھا اب رعب الہیٰ کی آگاہی بھی لازم ہے تا کہ توازن برقرار رہے ـ 
ممتاز نے مجھے کچھ ماہ پہلے ایک بات کہی کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا ہے جس میں وہ میرے ہمراہ دشوار گزار راستے آسانی سے عبور کرتی ہوئی کامیاب ہوگئی ہیں ـ 
یہ مشکل راستہ یقینی طور پے قرآن پاک کا راستہ ہے جو انسان کو نئی زندگی نیا شعور عطا کرتا ہے کہ وہ بدل کے رہ جاتا ہے ـ مگر یہ سچ ہے ـ کہ اس پے استقامت سب کے بس کا روگ نہیں ـ ممتاز بہت مشکل زندگی میں مسکراہٹ بکھیرنے کی عادی ہے ـ انشاءاللہ یہاں بھی کامیاب رہیں گی ـ 
ہر روز صبح 11 بجے نورالقرآن کی لائیو کلاس لندن سے ہوتی ہے جو 3 بجے سہ پہر تک جاری رہتی ہے ـ 23 پارا شروع ہوچکا ہے ـ کئی روز سے ایک نام مجھے چونکا رہا تھا جب ہماری اٹینڈنس ہوتی ہے تو ایک نام ممتاز ملک کا سنتی تھی ـ روح کھچتی تھی کہ ہو نہ ہو ہماری ممتاز ہے آج کنفرم ہوگیا ـ وہی ہیں 
ممتاز آپ کو اتنی ڈہیر ساری مبارک باد پیرس کی تما
م خواتین کی جانب سے جو وہاں موجود ہیں ـ آج سب کو مطلع کروں گی ـ سب آپ کی آمد کے منتظر تھے ـ اللہ پاک
 آپکا یہاں آنا ہم سب کیلیۓ مبارک ثابت ہو کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ کی آمد کا مقصد ایک اچھی خطیبہ کا آنا ہے ـ اللہ پاک آپکو بہت کامیابی عطا کرے اور آپ کے شعور میں مزید اضافہ کرے آمین 
نور القرآن کی تمام ٹیم کی جانب سے آپ کو مبارک


اسرائیل کی ساری ماؤں۔ سراب دنیا


اسرائیل کی ساری ماؤں
کلام/ممتازملک۔پیرس 



اسرائیل کی ساری ماؤں
مجھکوآج اک بات بتاؤ
عورت ہونا کیا ہوتا ہے 

 عورت جب پیدا ہوتی ہے
تب سے ہی وہ ماں ہوتی ہے 
ماں کیا تیرا میرا جانے
یہ کب کوئی منطق مانے 

ماں تو سب کی ماں ہوتی ہے
جس میں سبکی جاں ہوتی ہے

جسکے دل میں نرمی نہ ہو
اوراحساس کی گرمی نہ ہو
جو اوروں کا درد نہ جانے
دھوپ میں نہ کوئی سایہ تانے

وہ تو عورت بھی نہیں ہوتی
تم کہتی ہو ماں ہوتی ہے

ماں کب خون کے تحفے بانٹے
گالوں پر بچوں کے چانٹے
وہ کب یہ برداشت کرے کہ
ماں کی یوں توہین کہیں ہو

جس دھرتی پر ماں رہتی ہو 
بچہ کوئی یوں مر جائے
ننھا منا ہنستا جسم جو
لمحوں ہی میں لوتھڑ جائے 
ماں کی ہےتوہین غضب کی

ایسی بھی کیا ماں ہوتی ہے
ایسی نہ کوئی ماں ہوتی ہے

بنجر ہیں سب سخت زمینیں 
سوکھ گئے ہیں انکے سینے
کوکھ سے انکے غم اگتا ہے
زہریلے ہوتے ہیں نگینے

سوئی ہوئی ممتا  کو جگاؤ
دنیا کویہ آج دکھاؤ
ماں تو ہے رحمت کی صورت
بے قیمت نہ اسکو بناؤ


ماں تو بس اک ماں ہوتی ہے 
اسکی ٹھنڈی چھاں ہوتی ہے

اسکا کوئی دین دھرم ہو
یا پھر اسکا کوئی کرم ہو
مامتا اسکا مذہب ہے اور 
گھٹی میں اسکی جو شرم ہو 

ایسی پاگل ماں ہوتی ہے 
ہاں ایسی ہی ماں ہوتی ہے

تم خود کو عورت کہتی ہو
لاشوں کے اوپر ہنستی ہو
اور لاشوں پر محل بنا کر
تم کیسے اس میں بستی ہو

تم کو زمیں سے عشق ہے لیکن 
انسانوں سے ڈر لگتا ہے
ہٹلر پر تہمت دھرتے ہو
اسکا چھوٹا شر لگتا ہے

اسرائیل کی ساری ماؤں 
دنیا کو ممتاز  بتاؤ
دیکھوایسی ماں ہوتی ہے 
جو کہ سب کی ماں ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔







اتوار، 20 جولائی، 2014

● (9) بہو ڈھونڈ نے کی آڑ میں /کالم۔ سچ تو یہ ہے


(9) بہو ڈھونڈ نے کی آڑ میں 
               تحریر:ممتازملک۔ پیرس


بیٹے کے لیئے بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں پاکستان میں تو لڑکے والوں کا دعوتیں اڑانا  آٹھ آٹھ  اور دس دس سال تک شادی کے نام پر بیٹوں اور بھائیوں کو اُ لّو بنا کر ان کی کمائی لپیٹنا ماؤں  بہنوں کی اکثریت کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ  پسندیدہ مشغلہ تھا ہی ۔  لیکن اب یہ وباء پاکستان کے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے آئ ہوئی ان پڑھ  اور جاہل خواتین  نے یہاں یورپ میں بھی پہنچا دی ہے ۔ اور تو اور اپنی یہاں پیدا ہونے والی بیٹیوں کو بھی ورثہ میں ایسی حرکتیں دینا شروع کر دی ہیں   ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لڑکے خوش شکل بھی ہیں ، بسر روزگار بھی ہیں ، شریف بھی ہیں، لیکن ایسی ماں بہنوں کے ہاتھوں 35 ، 35 سال کی عمر کا ہونے پر بھی بن بیاہے بیٹھے ہیں ۔  نتیجہ  انہی خواتین کرداروں  کی وجہ سے ہی نکاح مشکل اور زنا آسان ہوتا جا رہا ہے ۔ گھر گھر جا کر پروٹوکول لینا ، دعوت اڑانا اور آخر میں دوسروں کی بیٹی میں کوئی نہ کوئی عیب نکال کے منظر سے غائب ہو جانا ۔ کیا ہی فارغ اور بیکار نہیں ہوتی ہیں ایسی خواتین  ۔ ان خواتین کے پاس شاید  وقت گزاری کی اور کوئی بھی مثبت صورت نہیں ہوتی جبھی تو وہ ایسی گناہ گارانہ سرگرمی  میں ملوّث پائی جاتی ہیں ایک تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کی شادی ہو گئی تو یہ دعوت نوازیاں ختم ہو جائیں گی۔ بیٹے کی کمائی بھی ہاتھ سے جائے گی ،  اور گھر میں ایک نئے فرد کو بھی برداشت کرنا پڑے گا ۔ لہذا اس شادی کو جتنا لٹکایا جا سکتا ہے لٹکا دیا جائے ۔ ہاں جب بھائی بیٹا آنکھیں دکھانے یا اپنا فیصلہ خود کرنے کی ٹھان لے تو پھر مجبورََا شادی کر دیں گے کہ کوئی چارہ جو نہیں اس کے سوا  ۔  اسی تصویر کا ایک اور بھیانک پہلو لیجیئے یا تو مادر  پدر آزاد لڑکی کو لیکر آئیں گے کہ جن کے گھر کا ماحول کافی آزاد ہے تو اسے حجاب اور برقعہ پہنانے کی کوشش شرع ہو جائے گی یا پھر حجاب نقاب والی لڑکی کو لا کے اس کا حجاب اتار کر ماڈرن بنانے کی کوشش شروع ہو جائے گی ۔ یہ بھی ایسی ہی ماں بہنوں  کی لڑکے کے دل سے اس کی نئی بیوی کو اتارنے ہی کی ایک کوشش ہوتی ہے اور اسی کھینچا تانی میں کئی بار نکاح کا یہ مقدس رشتہ  کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس لئے سب سے بہتر ہے کہ آپ کو لڑکی بھی ایسے گھر سے بیاہ کر لانی چاہیئے جس کے گھر کا ماحول آپ کے گھر کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے تاکہ آنے والی لڑکی کو بھی ماحول کے بدلاؤ سے کوئی پریشانی نہ ہو ۔ اور یہ کون نہیں جانتا کہ اللہ کے نزدیک تمام حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ حلال کام طلاق کا ہے ۔ یہ ہی نہیں یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ میاں بیوی کے بیچ میں اختلافات پیدا کرنے والے کو بھی شیطان کا بھائی کہا گیا ہے اور ہمارے گھروں میں یہ کام لڑکوں کے ماں بہنیں یا کوئی بھائی کا مال چاٹنے والا مفت خورہ بھائی  بڑے ہی خوبی سے انجام دے  رہے ہیں ۔  پہلی بات تو لڑکوں کو یہ دھیان میں رکھنی چاہیئے کہ اگر تو وہ جراءت رکھتا ہے کہ بیاہ کر آنے والی نئی بیوی کو اس کے جائز حقوق دینے کے لیئے سب کو ہینڈل کر سکتا ہے تب تو وہ اپنی مرضی اس  رشتے میں شامل کرے ورنہ اسکے لیئے بہتر یہ ہی ہے کہ وہ اپنی ماں بہن کو ہی ان کی مرضی کی لڑکی لانے دے ورنہ جس گھر میں وہ حق کی بات اپنے لیئے ہی نہیں کر سکتا وہاں کسی اور کی بیٹی لا کر اسکی مٹی پلید کرنے کا گناہ اپنے سر لینے  کا کیا فائدہ۔ دنیا میں بھی بے سکونی اور آخرت میں بھی بیوی اور اسکے بعد بچوں کی حق تلفی کی وجھ بنتا ہے  ۔  ہمارے ہاں ویسے بھی شادی لڑکی اور لڑکے کی نہیں ہوتی  بلکہ ان دونوں کی ماؤں کی ہوتی ہے ۔  تو یاد رکھیں اگر آپ کو اپنی شادی کو کامیاب اور پرسکون بنانا ہے تو ایسی جگہ شادی کریں جہاں لڑکے کی ماں اور لڑکی کی ماں  کی آپس میں دوستی ہو یا ایک دوسری کی عزت کرتی ہوں  کیونکہ اگر ان دونوں کی دوستی نہیں ہے تو یہ ہی دونوں خواتین  بچوں کی شادی کو برباد کرنے کی سب سے بڑی  وجہ بن جاتی ہیں   ۔ ایسی ماؤں کو تو یہ  یاد رکھنا چاہیئے کہ اپنی بیوی کی منہ میں شوہر کی جانب سے محبت سے رکھا ہوا ایک لقمہ بھی دنیا بھر کے نیکی کے کاموں پہ خرچ کیئے ہوئے کاموں میں سب سے بہتر کہا گیا ہے ۔ ایسی تمام ماؤں بہنوں سے گزارش ہے کہ  نہ تو اپنا وقت برباد کریں نہ ہی دوسروں کی دل آزاری کی وجہ بنیں ۔ اور ویسے بھی ہماری تہذیب تو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب کسی کا نمک کھا لو تو اس کا بہت ہی لحاظ بھی رکھو ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ کسی کی بچی کو کسی تیسری جگہ ہی دیکھ لیا جائے اور لڑکے کو بھی دکھا دیا جائے جب اچھی لگے تو ہی اس کے گھر کا دورہ کیا جائے اور کبھی بھی کسی کو کھانے کے تردّد میں ڈالنے کی بجائے 3 بجے سے 6 بجے کے وقت  تک ہی جایا جائے چائے کیساتھ کوئی ہلکے پھلکے ایک دو لوازمات رکھے جائیں  پہلی ملاقات میں اپنا تعارف کروائیں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ لیں ۔ دوسری ملاقات کیلیئے لڑکے والے لڑکی والوں کو اپنے گھر مدعو کریں لڑکی بھی ماں باپ کیساتھ جائے اور لڑکے کا گھر بار دیکھے آخر کو اسے اپنی ساری ذندگی اس گھر میں اس گھر کے لوگوں کیساتھ گزارنی ہے ۔ جب دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے سے انسیّت لگے تو تیسری ملاقات میں رشتے کی بات بڑھائی جائے اور ہاں ڈنر کی میز پر صرف اور صرف تب ہی جایا یا لیجایا جائے جب دونوں گھرانے رشتے کی بات طے کر لیں ۔ اور منگنی پر پیسہ اور وقت ضائع کرنے کی بجائے اسی پیسے کو نکاح  پر خرچ کیا جائے  کیوں کہ منگنی کی کوئی بھی شرعی حیثت نہیں ہے ، جب کہ نکاح بھی صرف اپنے گھر والوں کی موجودگی یا  مذید دو تیں قریبی دوستوں  کی موجودگی میں ہی منعقد کر کے ایک ساتھ دونوں گھرانے کھانا کسی بھی جگہ کھانے کا اہتمام کریں ۔ کتنا آسان ہے یہ سب مگر کس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے ۔ پیاری ماؤں بہنوں کو چاہیئے کہ اپنے بھائی اور بیٹے سے اپنی محبت کو بھی وہ سانس لینے کی جگہ فراہم کریں اس کی شادی کو جلد اور آسان بنا کے منعقد کرنے کا اہتمام کریں اور اس کی شادی شدہ زندگی میں اپنی دخل اندازی کے شوق  کو روک کر رکھیں۔ شادی شدہ بہن یا بھائی کو اسی صورت میں کوئی مشورہ دیں جب اسے آپ سے کوئی مشورہ چاہیئے ۔ جبھی آپ کی عزت اور محبت آنے والی بہو یا بھابی  کے دل میں بھی پیداہو گی اور  یہ ہی بات آپ کے بھائ، بیٹے کی خوشی کا باعث بنے گی اور آپ کی عزت بھی بھائ اور بیٹے کی نظر میں زیادہ ہو گی ۔ نہیں تو پھر وہی ہو گا کہ عجب محبت کی غضب کہانی ۔ کیا آپ کو زندگی کی اس بے سکونی میں مزہ آتا ہے ۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پہلی فرصت میں کسی ماہر نفسیات سے اپنا معائینہ کروائیں ۔
 اللہ پاک ہمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

                      ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2019ء
                       ●●●

اُمّتِ مُسلِمہ کی غیرتِ مرحوم / ممتازملک۔ پیرس



اُمّتِ مُسلِمہ کی غیرتِ مرحوم
ممتازملک۔ پیرس


تمام مسلم اُمّہ اس وقت جس بے غیرتی اور بے حسی کا شکار نظر آ رہی ہے اس پر صرف کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے ۔ انہی یہودیوں اور یورپیز یہودی نواز  لابیز نے پہلے دنیا بھر کے نفسیاتی  اور خطرناک ترین درندوں کو پنجروں سے نکال کر انہیں اسلامی نام دیکے طالبان نامی دہشت گرد جماعت بنائی۔ان کے ذریعے پہلے انہیں افغانستان میں اپنی قصابی دکھانے کی اجازت دی گئی ۔ پھر منہ لگے خون کا نشہ پورا کرنے کے لیئے انہیں پاکستان میں دھکیل دیا گیا۔ جبکہ ان میں نہ کوئی مسلمان ہے نہ ہی کسی مسلمان ملک سے انکا کوئی تعلق ہے ۔  پاکستان میں انہیں خوب خون پلایا گیا۔ جب یہاں دیکھا گیا کہ فوج اب ان کی اصلیّت جاننے لگی ہے یا ان کے لیئے عملی اقدامات کے لیئے کمر باندھ رہی ہے ۔ تو ان جانوروں کے آقاؤں نے انہیں کے باقی قصائی ٹولے کو نیا نام داعش کا دیکر انہیں عراق ، شام اور ملحقہ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے شکار کے لیئے بھیج دیا ۔ جہاں وہ کھل کھیل رہے ہیں اور ہرخطرناک ہتھیار انہیں آسانی سے مہیا کر دیا گیا ہے ۔  کوئی زرا سی عقل رکھنے والا بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگریہ قصائی گروپ مسلمان ہے تو آج تک اس نے کوئی شراب خانہ کیوں تباہ نہیں کیا ۔ کوئی نائیٹ کلب کیوں نہیں اڑایا ۔       کوئی جوے کا اڈا کیوں ملیا میٹ نہیں کیا ۔     انہوں نے آج تک کوئی چرچ کیوں نہیں تباہ کیا کسی غیر مسلم ملک میں کیوں تباہی نہیں پھیلائی ۔ کیا انہیں سارا جہاد مسلمانوں کے خلاف کرنا ہے ہاں کیوں کہ یہ ایک یہودی جہاد ہے ۔ اسکا مسلم جہاد سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔ جبکہ مسجدوں ، سکولوں ، مزارات اور مقدس مقامات کو اڑانے والے نہتے لوگوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرنے والے مسلمان تو کیا کسی بھی اینگل سے انسان بھی نہیں ہو سکتے ۔  کیا ان کے کسی بھی انداز سے ، حلیئے سے یا مقاصد سے یہ لوگ نارمل انسان لگتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اپنے آپ کو تعلیم سے کیا دور کیا۔ بلکہ عقل و خرد سے ہی بیگانہ کر لیا ہے ۔ آج کے ہر مسلمان کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر اسے دنیا میں اپنی عزت بحال کرنا ہے تو ہر قیمت پر چاہے خود کو بیچ کر ہی سہی اپنی اولاد کا پڑھانا ہو گا ۔ تبھی انہیں آج کی دنیا میں جینے کا حق ملے گا ۔ یہ ہی نہیں اپنے دین کو بچانے کے لیئے بھی انہیں علم ہی کا سہارا لینا ہو گا ۔آج اسرائیل جیسا بالشت بھر کا ملک کون سی گیدڑ سنگھی رکھتا ہے کہ ہر ملک کے اندر اس کے جاسوسوں کا جال ہے۔ ہر ملک میں اعلی سطح پر اس کی دخل اندازی ہے۔ ہر جگہ دنیا میں وہ اپنی مرضی چلا رہاہے ۔ اس گیدڑ سنگھی کو علم کے علاوہ مکاری کہا جاتا ہے ۔ سازشی پن کہا جاتا ہے ۔ جس کی بنیاد یہ بات ہے کہ پانچ ہزار لوگ کسی عالمی دفتر کے باہر کھڑے ہو کر مظاہرہ کریں اس سے کہیں بہتر ہے کہ پانچ لوگ اس دفتر کے اندر بیٹھ کے ہونے والے تمام فیصلوں پر اثرانداز ہوں ۔ یہودی سازش کا معیار دیکھیں کہ اس نے تمام مسلمان ممالک میں زرخرید میرجعفراورمیرصادق خریدے۔ انہیں نوٹو ں کے زور پر ووٹوں کے ڈرامے سے لا کر اس ملک پر مسلط کیا اور پھر اس ملک کی قسمت  کے فیصلے اپنی مرضی سے کروا کر اسے اپنا زہنی غلام بنا لیا ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت فلسطین کے علاقہ غزہ پرہونے والے حالیہ حملے اور بمباری ہے ۔  دنیا کے کسی بھی  مسلم ملک کے حکمران نے ان کے خلاف کہیں کوئی آواز اٹھائی ؟ نہیں ۔ کیوں کہ آواز بھی کسی غیرت مند کی سنی جاتی ہے جنہیں ہڈیاں ڈالی جاتی ہیں ان کی آواز بھی کتے کے بھونکنے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ دوسری جانب اس کا اگلا مکار عمل دیکھیں کہ یہودی حکومتوں سے باہر جتنی بھی یہودی آبادی ہے اسے اس بات پر تیار کیا کہ جگہ جگہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرو اور بتاؤ کہ تمہیں اسرائیلی حملوں پر اعتراض ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمان تو ویسے ہی جہالت کے ہاتھوں الو کے پٹھے بنے ہی ہوئے ہیں ۔ تو وہ تمہیں اپنا ہمدرد سمجھ کر ایک تو تمہیں اپنی ہر پلاننگ میں شامل کریں گے۔ دوسرا تم تمام یہودی مسلمانوں کے کسی بھی جوابی حملے سے بھی بچے رہو گے ۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم اور گٹلیوں کے دام ۔ سعودی عرب کی حیثیت بھی سوائے امریکی دلال کے اور کچھ نہیں رہی ۔ حج اور عمرے کے نام پر ذائرین سے وہ جو کچھ نچوڑتا ہے  اس میں تیل کہ کمائی شامل کر کے اس کے جبڑوں میں ہاتھ ڈال کر امریکہ اس سے نکال لیتا ہے ۔ لہذااگرکوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ سعودی انہیں کسی مشکل سے نکالیں گے۔ تو بھول جائیں۔ بلکہ اب بے شرمی کا وہ وقت آتا نظر آ ریا ہے۔ جب بڑے بڑے حرم بنانے کے یہ عیاش شوقین اپنی حفاظت کے لیئے بھی پاکستان کو آواز دینے والے ہیں ۔ اس وقت کے لیئے علم کا ہتھیار تیار کر لیں کہ اس سے بڑا کوئی ہتھیا رآپکوایمان اور پہچان کی یہ جنگ نہیں جِتا سکتا ۔ اللہ ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 13 جولائی، 2014

غزہ کی پکار ۔ سراب دنیا




غزہ کی پکار

کلام/ممتازملک۔پیرس 



غزہ کی گلیوں میں جاکر ،وہاں کٹتے 
بدن دیکھو
اجڑتا کسطرح سے ہے ، بھرا کوئی چمن دیکھو

شرائط اپنی ہوں تو ، زندگی جینا بھی عزت ہے
سروں پہ باندھ کےاپنے، بھی غیرت کا کفن دیکھو

وہ جن رستوں نے زینب اور، سکینہ پر قہر ڈھائے
یہاں معصوم بچوں کے ، ہیں چھلنی بانگپن دیکھو


حسین آؤ کہ ہر اک سمت ، ہے اک کربلا برپا
چلے آؤ یہاں صدمے سے  آنکھوں کی جلن دیکھو

ذرا نوحے سنو، شام غریباں کی اداسی کے
کبھی کفار کے ظالم ، نظاموں کا ملن دیکھو

جہاں پر عظمتیں لٹتی ہیں ، ہاتھوں ہی محافظ کے
خدا کے فیصلے دیکھو ، زمانے کا چلن دیکھو

چلو ممتاز سر گھٹنوں میں دیکر ، اشک برساؤ
اصولوں کو مٹا کر، موت بھی توبہ شکن دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 6 جولائی، 2014

نعت ۔ جستجو کیا ہے


جستجو کیا ہے
کلام /ممتازملک

میں تجھکوکیسے بتاؤں کہ جستجوکیا ہے
 نبی کےہونٹو ں سےِنکلی وہ گفتگو کیا ہے 

سنوارہ جس نے مقدر بدل دیئے رشتے 
بتایا آپ نے ہمکو کہ آبرو کیا ہے 

لہو لہو تھے قدم آپ کے رہِ طائف
دیا دعا کے سوا کچھ نہ سُرخرو کیا ہے

جدھرجدھر سےوہ گزرے گلی مہکتی گئی
 پسینہ آپکا ہنس کے کہے خوشبو کیا ہے 

تبسم آپ کا موتی پرو گیا جس دم
میں چاندنی سےبھی پوچھوں کہ خوبرو کیا ہے 

زمانے بھر میں اڑائی ہے خاک ہم نے بہت
گلی میں  آپکی جانا کہ آرزو کیا ہے

سکون آپکا اُسواء مزاج ہے ٹھنڈک
اب اس سے آگے توممتاز کُو بکُو کیا ہے
.......

ہفتہ، 5 جولائی، 2014

● (5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے


(5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار
تحریر: ممتازملک۔پیرس



(5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار
تحریر: ممتازملک۔پیرس


اسلام دین فطرت ہے اسکا کوئی بھی قاعدہ یا اُصول ایسا نہیں ہے ۔ جسے ہم  انسانی زندگی کے متضاد قرار دے سکیں۔ یہ اور بات ہےکہ ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ  اور کڑوا کڑوا تُھوتُھو کرنے کے عادی ہیں ۔ ہر وہ بات جو ہمیں اپنے آپ کو کہیں روکنے کا کہتی ہے ۔ ہماری شیطانی طبیعتوں  پر بہت گراں گزرتی ہے لیکن ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ہر وہ شخص جو  پاکیزہ فطرت ہے، جو آنکھ میں حیا رکھتا ہے ،جو دل میں خدا کا خوف اور اسکی ذات سے محبت رکھتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ جسے خود سے محبت ہو گی وہ کبھی بھی اسلام کے اصولوں کے خلاف نہیں جائیگا ۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ وہ کون انسان ہو گا کہ جسے آپ اس بات کی دعوت دیں کہ آؤ ہم تمہیں آگ میں بھونتے ہیں یا تمہارے ٹکڑے کر کے اسے جانوروں کو کھلاتےہیں ۔ تو آپ ہی بتائیں وہ کون ہو گا جو اس بات کے لیئے خود کو پیش کرے گا ۔ کیوں ؟ کیوں کہ اسے اپنی زندگی سے پیار ہے اسے اپنے آپ سے محبت ہے۔ اسے درد کی یہ اذیت کسی طور قبول نہیں ہے  ۔ تو ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ دین فطرت کی مخالفت کرتے ہیں یا اُسے اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں انہیں خدا سے نہیں اپنے آپ سے ہی محبت نہیں ہے جبھی وہ ہر اس بات سے بھاگتے ہیں جو بات انہیں ان سزاؤں سے بچاتی ہے ۔ جبھی تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ'' بے شک انسان خسارے میں ہے۔'' 
 اگر خسارے میں نہ ہوتا تو یہ نہ سمجھ لیتا کہ وہ اپنے ہی لیئے بنائے گئے حفاظتی بند یہ سوچ کر توڑ رہا ہے کہ وہ آزاد ہو رہا ہے جبکہ معاملہ اسکے بلکل برعکس ہے۔ وہ آزاد نہیں ہو رہا بلکہ نفس کے پروپیگنڈے میں آکر اپنے ہی آپ کو عذابوں میں گرفتار کرتا جا رہا ہے۔  ایک مکڑی کے جالے کی طرح جو دیکھنے میں تو بہت خوبصورت اور نازک ہے۔ لیکن اس کی گرفت سے آزادی صرف خاتمے کی صورت ہی ملتی ہے ۔ اسلام نے ہم سب کو حفاظتی حصار مہیا کیئے ہیں ۔ جن میں ہماری بقاء  کا راز ہے ۔ خواتین اس معاملے میں کمزور حصّے کی صورت ہمیشہ ہی زیادہ نشانے پر رہتی ہیں کیوں کہ ہمارا معاشرہ ہی کیا پوری دنیا ہی مردوں کی مرضی سے چلتی ہے ۔ یہاں وہ ہی خواتین کامیاب ہیں جو یا تو بہت زیادہ مقابلہ کرنے کی ہمت خدا کی جانب سے لیکر آتی ہیں یا پھر وہ اتنی خوش نصیب ہیں کہ انہیں اپنے گھروں سے ہی اچھے اور منصف باپ، بھائیوں یا شوہر کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ہاں ایک عورت کی  حیثت برتنے والی چیز سے ذیادہ کبھی نہیں رہی ۔ ایک لڑکی کی پیدائش شرمندگی اور پریشانی ہے تو اسے اسکی تمام تر قربانیوں اور خدمتوں کے باوجود اکثر اسکی مرضی کے خلاف شادی کر کے سر سے جلد یا بدیر اتارکر ایسے پھینکا جاتا ہے جیسے کسی اچھوت مرض سے جان چھوٹے ۔  شادی سے پہلے اور شادی کے بعد اس کی حیثت ذیادہ تر ایک بے تنخواہ ملازم کی سی ہوتی ہے ۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی پوچھو کہ آپ کی بہن ،بیٹی یا بیوی کیا کرتی ہے تو سب کا جواب یہ ہی ہوتا ہے کہ جی وہ کچھ نہیں کرتی ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور تو اور شادی کی بعد اس کی شادی کسی بھی وجہ سے چل نہ سکے یا اسے بیوگی کا دکھ دیکھنا پڑ جائے ۔ تو  سُسرال میں رہے تو سب کی نگاہوں کی گندگی کا شکار ہو گی اور ایک چوبیس گھنٹے کے مزدور کی سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہے اورباپ اور بھائی کے گھر جاتی ہے تو بھی یہ ہی اسکی تقدیر ہے۔ اگر قسمت سے کہیں سے اسکا رشتہ آجائے تو اسے یہ ہی سگے رشتے بے حیا اور بے غیرت جیسے خطابات سے نوازنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرینگے ۔ اس وقت دین اسلام انہیں کوسوں دور بھی دکھائی نہیں دیگا۔ جو عدّت کے ساتھ ہی ایسی خاتون کا نکاح کرنے کی سختی سے تلقین کرتا ہے ۔ تاکہ انہیں کسی کے بھی جبر اور اذیت سے بچایا جا سکے ۔ اس خاتون سے وابستہ ہر رشتہ اسکی خدمت اور کمائی سے دستبردار ہونے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتا اور نام لیا جاتا ہے غیرت کا ۔ منٹو نے ایک بار بڑی ننگی حقیقت بیان کی تھی جس پر اسے بہت کچھ جھیلنا پڑا ۔ ۔ کہ 
'' معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی جازت تو دیتا ہے ۔لیکن تانگہ چلانے کی نہیں ۔''
 عورت کی تمام ذہنی ،جسمانی، معاشی ضروریات کو کوئی بھی جائز دائرے میں پوری کرنے کی ذمّہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ لیکن اس پر حکم چلانے اور اسے استعمال کرنے کا شوق بھی سب کو ہے ۔   ایسی خواتین کو عام طور پر نوالہ تر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے 90 فیصد خواتین کی سب سے بڑی پریشانی مالی ہو تی ہے ۔ اور انہیں دووقت کی روٹی کی بلیک میلنگ میں اپنی مرضی سے چلانے کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں ۔ باپ کے گھر میں بھی بھائی بیویوں کو خوش کرنے کے چکر میں بہنوں کو گھر بٹھا کر انہیں مفت کی نوکرانی سے مستفید کرتے ہیں ۔  بھابیوں کی اکثریت بھی اس خادمہ کو ہاتھ سے گنوانے پر کسی طور تیار نہیں ہوتی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی تمام مطلقہ اور بیوہ خواتین اپنے تحفّظ کے لیئے انہی بھابیوں کی زندگی بھی اجیرن کرنے کا موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتیں ۔ اور بھائیوں کے گھروں کی تباہی بھی ایسی ہی خواتین اپنی حفاظت کے نقطئہ نظر سے کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ نند یا بھابی کے پاؤں اکھاڑنے کے لیئے اسے ہر لمحہ کوشش کرنی ہو گی کیوں کہ یہ اسکی بھی بقاء کا سوال ہے ۔ اس سوال کو اٹھانے سے پہلے ہی ان خواتین کو معزز افراد نکاح کر کےاپنا لیں  تو اس سے بہت سارے معاشرتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہی نہیں ہونگے ۔ ( خواتین  مردوں کو ان کے بچوں سمیت قبول کرنے کو تیار ہوتی ہیں تو مرد کیوں ذہنی طور پر اتنا تنگ ہے کہ وہ عورت کے بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ کر اجرو ثواب کمانے  کو تیار نہیں  ہوتا ۔) لہذا ایسی خواتین کی شادیوں میں ہمارے بھائیوں کو بہت ذیادہ جلدی  کرنی چاہیئے ۔ یہ ضروری نہیں جن کا گھر ایک بار کسی بھی وجہ سے نہیں بس سکا تو اگلی بار بھی نہ بس سکے ۔ ویسے بھی شوہر کے گھر کی سوکھی روٹی بھائیوں کے گھر کے پراٹھوں سے زیادہ لذیذ ہوتی ہے ۔ کہ اس میں اسکی نگاہیں اور وقار دونوں بلند رہتے ہیں ۔ اسی میں ہمارے بھائیوں کی عزت بھی ہے اور اپنے گھروں کا سکھ بھی ہے ۔ کیوں کہ بہنیں باندیاں اور خادمہ بنا لینے میں عزت نہیں ہوتی انکی اپنے گھروں میں آبادی میں ہی ایک باحیا باپ اور بھائی کی عزت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ جتنی جلد ہو اپنے ایسی تمام بہنوں اور بیٹیوں کو خواہ وہ کسی بھی عمر کی ہوں ان کے ہم پلہ لوگوں کے ساتھ بیاہ کر اپنے لیئے اپنی قبر کے معاملوں کو آسان کیجیئے ۔ کیوں کہ وہ بھی اللہ کی جانب سے آپ کی رعیّت میں دی گئی ہیں اور کون نہیں جانتا کہ'' ہر ایک اپنی رعیّت کے لیئے خدا کو جوابدہ ہے ۔ ''
(نوٹ ۔ کوئی بھی بات سو فیصد لوگوں کے لیئے نہیں ہے۔
 لیکن ہاں اکثریت کیلیئے ضرور ہے۔) 
●●●
تحریر: ممتازملک
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

منگل، 1 جولائی، 2014

کوئی تعویذ دو ردّبلا کا ۔ ممتازملک ۔ پیرس


کوئی تعویذ دو ردّبلا کا
ممتازملک۔ پیرس


سیانے کہتے ہیں کہ جب تھوڑی تکلیف کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو بڑے مرض میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ یہ ہی کچھ پاکستان کے دفاعی معاملات میں ہماری نااہل حکومتوں نے کِیا ۔ جو بھی آیا اس نے لمبی لمبی ہانکیں ۔ پاکستان کو زبانی تڑکوں میں کیا سے کیا بنا دیا ۔ لیکن جیسے ہی ہماری بیوقوف اور ڈگڈگی پر ناچنے کی شوقین عوام نے انہیں ان کی اہلیت دیکھے بنا اپنے سر پر بٹھا لیا ،تو سب کے اندر سے ان کا اصلی ریڑھی والا دھم سے چھلانگ لگا کر باہر آگیا ۔ آوازیں اور سودا سب کا اپنا اپنا تھا ۔ آلو لے لو ، پیاز لے لو ، چینی لے لو، لوہا لے لو ، دودہ لے لو ، کمیشن دیدو ، بھتہ کی پرچی لے لو ، بوری بند لاش لے لو ، کٹی ہوئی گردنیں لے لو ، بیوقوفی کے نسخے لے لو، مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ لے لو ۔                                                               ان میں سے کسی بھی مداری یا ریڑھی والے کے پاس اگر نہیں تھی تو کوئی بھی قابل ٹیم نہیں تھی جو اس بیچارے ملک کے معاملات چلاتی ۔ ہر سال دنیا بھر کی بہترین ڈگریاں اعزازات کیساتھ حاصل کرنے والے پاکستانی دنیا بھر کو اپنی قابلیت سے فیضیاب کر رہے ہیں ۔ لیکن پاکستان آ کے وہ تو کیا ڈاکٹر قدیر جیسا ہیرا تھڑوں پر رول دیا جاتا ہے ۔ ڈگریوں اور گولڈ میڈلز والے نوکری کے لیئے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور ذہنی ریڑھی بان ان کے پاس سے زن ن ن ن سے تمسخر اور تکبّر کا کیچڑ اڑا کر گزر جاتے ہیں ۔ اس ملک پر کوئی تعویذ کرواؤ ردّ بلا کا ۔  جہاں ہیرا کوڑے میں اور کچرا کرسیوں پر نظرآ رھا ہے  ۔                  
 ہماری قوم کا مرض ہے محبت ۔ بلکہ بے جگہ محبت کہیں تو ذیادہ بہتر ہو گا ۔ کبھی ہمیں اپنی برادری سے محبت ہو جاتی ہے کبھی ہمیں اپنے فرقے سے محبت ہو جاتی ہے ، کبھی کسی کی حیثیت سے محبت ہو جاتی ہے ،  کبھی مفت کے کھابوں سے محبت ہوجاتی ہے تو کبھی مفت کی پینے سے محبت ہو جاتی ہے ۔ کبھی کسی اور کی بیوی سے محبت ہو جاتی ہے تو کسی کو کسی اور کے شوہر سے محبت ہو جاتی ہے ، الغرض جب بھی ہوتی ہے غلط جگہ ہی ہوتی ہے ۔  اس لیئے کہنا پڑتا ہے کہ 
 کوئی تعویذ دو ردّبلا کا 
محبت اک مصیبت ہو گئی ہے 
اب تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہوس ، مفاد اور محبت میں فرق کیا ہے ۔   سکولوں کو دھماکوں سے اڑانے والوں سے تو کئی بیوقوفوں کو ہمدردی ہو رہی ہے ۔ جبکہ ان سکولوں اور علم کی شمعوں کو بجھنے سے بچانے کے لیئے اپنی زندگی کی شمعیں گل کرنے والوں پر منہ بھر کر بکواس کرنے والوں کی آنکھ میں بھی کیا ہی خبیث کا بال ہے۔  دوسری جانب جو جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کیئے جا رہا ہے ، یہ حالات اس کی گرفت سے نکل کر کہاں تک جا سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اپنی بندوق جس عوام کے کندھے پر رکھ کر چلا رہا ہے اسے یہ بھی خیال نہیں آرہا کہ اگر خطرے کے ہارن سے کہیں خوابیدہ عوام غلطی سے بیدار ہو ہی گئی تو کیا غضب ڈھائیں گے ۔ ابھی سے شہنشاہ وقت کو ان ان بھیڑوں کے لیئے کوئی اچھی سی افیم ڈھونڈ لینی چاہییئے ۔کسی بھی نئے ڈرامے کی ، کسی بھی سیاسی شہادت کی افیم یا پھر یا پھر ان ریڑھی بان لیڈران کے عشق کی افیم ۔ کہ جسکا نشہ 70 سال سے ٹوٹنے میں ہی نہیں آرھا ۔ آخر  کو ہے نا محبت کی ماری قوم ۔                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/