ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 25 جولائی، 2014

سوالنامہ جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے/ ممتازملک۔ پیرس


سوالنامہ
 جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے
ممتازملک۔ پیرس

کون ہے جس نے ہم سب کی دعاؤں کو عرش پر پہنچنے سے روک رکھا ہے ۔ کون ہے جو ہمارے اور خدا کی سماعتوں کے بیچ دیوار بن گیا ہے ؟ کون ہے جو میرے حصے کا سکون مجھ تک پہنچنے نہیں دے رہا ؟خدا سے ذیادہ طاقتور تو کوئی بھی شے ہو ہی نہیں سکتی ۔ پھر کچھ تو ایسا ہے جو ہماری دعاؤں کو ، صداؤں کو ، آرزوؤں کو رب خالق تک پہنچنے سے روک رہا ہے تو گویا اس روکنے والے کو بھی رب کائینات نے اتنی قوت دے ہی رکھی ہے جبھی تو ایسا ممکن ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں یا اللہ ہم تو نمازین بھی پڑھ رہے ہیں ، صدقے بھی دے رہے ہیں ، مسجدیں بھی بنوا رہے ہیں ، ہر سال حج کر کر کے  بھی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ، ہر دوسرے مہینے عمرے پر بھی دوڑے دوڑے جا رہے ہیں ، پھر بھی ہم بے سکون کیوں ہیں ، اولادیں نافرمان کیوں ہیں ،  راتوں کو نیند کیوں نہیں آتی ، دل سے بے چینی کیوں نہیں جاتی ۔ اس کے حصول کے لیئے ہم کیا کریں ؟
 کوئی مشکل نہیں ہے اس کا جواب  ۔ اسکا اور اس جیسےہزاروں سوالوں کا جواب ۔ بس ہمارے ذہن کا منصف ہونا ضروری ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں ۔ ایک ہی  دن میں آپ کو اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔ کیا ہم نے اپنے ملاذم کے ساتھ آج کوئی نااصافی تو نہیں کر دی ، کیا آج کسی نے مجھ سے کچھ رقم اپنے علاج کے لیئے مانگی اور میں نے اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جانے دو یہ تو اس کا روز کا کام ہے ( حالانکہ میری تجوری میں اس وقت بے مصرف لاکھوں روپے رکھے تھے ۔)  کیا ہم نے آج گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو گاڑی کو ہاتھ لگانے پر گالی تو نہیں دی ۔ کیا میں آج کسی کو محض میرے لیئے کھڑا نہ ہونے پر بے عزت تو نہیں کر دیا ۔ کیا ہم نے آج کسی پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا ۔ کیا  ہم نے آج کسی بھکاری کو جھڑک تو نہیں دیا ۔ ( حالانکہ اس کی جگہ میں بھی ہو سکتا تھا ۔ ) کیا ہم نے آج کسی کی عزت پر میلی نظر تو نہیں ڈالی ۔ کیا ہم نے آج کسی کی عزت اپنے کسی قول فعل یا عمل سے تو تار تار نہیں کردی  ۔  کیا میں کسی کے گھر ، کمرے یا  آفس مین بلا اجازت تو داخل نہیں ہو گیا ؟ کیا آج مجھے جہاں جہاں سچ بولنا چاہیئے تھا وہاں وہاں سچ بولا؟  کیا آج میرے سامنے کسی کے ساتھ ذیادتی ہو رہی تھی تو میں نے ہو جانے دی یا اسے روکنے کی کوئی کوشش کی ؟ کیا مین نے کر نے کی ہمت کے باوجود کسی ظالم کے ہاتھ توڑے یا روکے ؟کیا آج مجھے جس جس کو ادائیگی کرنی تھی اسے وقت مقررہ اور مقام پر ادائیگی کی ۔ جس سے جہاں ملنے کا وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ؟ کیا میں نے حیثیت کے باوجود آج کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ۔ کیا میں نے آج جانتے ہوئے بھی ہوتے ہوئے بھی کسے غریب طالبعلم کا داخلہ یا فیس جمع کرائی ؟ کیا جانتے ہوئے بھی یا کسی کے مانگنے کے باوجود کسی مریض کو کوئی دوا لا کے یا منگوا کے دی ؟ کیا میں نے کبھی سارا دن بور ہونے کے باوجود کسی ہسپتال میں کسی مریض کی عیادت کی ۔ کیا ہم نے زندگی میں کبھی کسی اولڈ ہوم کا دورہ کیا ہے ۔ کیا ہم نے اپنے زندگی میں کبھی کسی یتیم خانے کا دورہ کیا ہے یا اسکے لیئے یتیم ہونا ضروری ہے ؟ کیا ہم نے کسی یتم یسیر کے سر پر مدد کا ہاتھ رکھا ۔ کیا بے شمار مال و دولت  ہوتے ہوئے بھی پوری زندگی میں کسی ایک بھی طالبعلم کی پڑھائی کا خرچہ اٹھایا ۔ ؟ کیا ساری عمر میں کسی ایک بیوہ کے گھر کا خرچ اس کے بچوں کے بڑے ہونے تک اٹھایا؟کیا کسی ایک بھی غریب لڑکی کا گھر بسانے میں بغیر بتائے اور بغیر کوئی فائدہ اتھائےاس کی مالی مدد کی ؟ کیا کسی نوکری کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے کسی ایک بھی انسان کو نوکری دلوائی ۔ کیا کبھی ایک بھی انسان کو پوری زندگی میں کوئی ٹیکنیکل ٹریننگ دلا کر اسے بسر روزگار ہونے میں اس کی مدد کی ؟ کیا آج آپ کی کسی حرکت سے کسی ضرورت مند کا دل تو نہیں ٹوٹ گیا ؟ کیا آج آپ کے دروازے سے کوئی کوئی ضرورت مند سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ تو نہیں لوٹ گیا ؟کیا کوئی آپ کے گھر میں ان گنت نعمتوں کی موجودگی کے باوجود آپکے در سے بھوکا یا پیاسا تو نہیں لوٹ گیا ؟ کیا آپ کی الماریوں میں کپڑوں کے ٹُھسّے ہونے کے باوجود کوئی پھٹے ہوئے کپڑوں میں تو نہیں لوٹ گیا ؟َ کیا کوئی کتابوں کے نہ ہونے پر آپ کے سامنے تعلیم سے محروم تو نہیں رہ گیا ۔ اگر میں نے یا آپ نے اس میں سے کوئی بھی حرکت کی ہے تو جان جائیئے کہ اسی کی آہ ہے، اسی کی ہائے ہے، اسی کی بدعا ہے جو ہماری دعاؤں کا راستہ روکے کھڑی ہے ۔ ہمت کیجیئے اج ہی اپنےاس گناہ یا حق تلفی یا غلطی کی تلافی کر کے اس دیوار کو توڑ دیجیئے جو ہماری دعاؤں کو عرش تک اور سمیع اللہ تک پہنچنے سے روک رہی ہے ۔ اللہ اپنے آگے کیئے ہوئے سجدوں کی کمی بیشی تو معاف کر سکتا ہے ۔ لیکن کسی انسان پر کیا ہواظلم ، زیادتی اور اسکا مارا ہوا حق کبھی معاف نہیں کرتا ۔  یاد رکھیں مظلوم کی بدعا اور آہ عرش کو ہلا دیتی ہے ۔ اور ہلتے ہوئے عرش کو ٹہرانے کے لیئے دوسروں کے بجائے اپنے گناہ اور عیب تلاش کیجیئے تاکہ ابھی زندہ ہوتے ہوئے ہم اس کی تلافی کر سکیں ۔ ورنہ آنکھیں بند  تو
 منہ بند، ہاتھ بند ، پاؤں بند ،اور عمل موقوففففففف !
 ایک ہی آواز
 اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمد عبد ورسولُہ 
چلو بھئی سیدھے ہو جاؤ ۔ 
حساب کا وقت شروع ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/