ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 5 جولائی، 2014

● (5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے


(5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار
تحریر: ممتازملک۔پیرس



(5) اسلام انسان کا حفاظتی حصار
تحریر: ممتازملک۔پیرس


اسلام دین فطرت ہے اسکا کوئی بھی قاعدہ یا اُصول ایسا نہیں ہے ۔ جسے ہم  انسانی زندگی کے متضاد قرار دے سکیں۔ یہ اور بات ہےکہ ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ  اور کڑوا کڑوا تُھوتُھو کرنے کے عادی ہیں ۔ ہر وہ بات جو ہمیں اپنے آپ کو کہیں روکنے کا کہتی ہے ۔ ہماری شیطانی طبیعتوں  پر بہت گراں گزرتی ہے لیکن ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ہر وہ شخص جو  پاکیزہ فطرت ہے، جو آنکھ میں حیا رکھتا ہے ،جو دل میں خدا کا خوف اور اسکی ذات سے محبت رکھتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ جسے خود سے محبت ہو گی وہ کبھی بھی اسلام کے اصولوں کے خلاف نہیں جائیگا ۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ وہ کون انسان ہو گا کہ جسے آپ اس بات کی دعوت دیں کہ آؤ ہم تمہیں آگ میں بھونتے ہیں یا تمہارے ٹکڑے کر کے اسے جانوروں کو کھلاتےہیں ۔ تو آپ ہی بتائیں وہ کون ہو گا جو اس بات کے لیئے خود کو پیش کرے گا ۔ کیوں ؟ کیوں کہ اسے اپنی زندگی سے پیار ہے اسے اپنے آپ سے محبت ہے۔ اسے درد کی یہ اذیت کسی طور قبول نہیں ہے  ۔ تو ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ دین فطرت کی مخالفت کرتے ہیں یا اُسے اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں انہیں خدا سے نہیں اپنے آپ سے ہی محبت نہیں ہے جبھی وہ ہر اس بات سے بھاگتے ہیں جو بات انہیں ان سزاؤں سے بچاتی ہے ۔ جبھی تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ'' بے شک انسان خسارے میں ہے۔'' 
 اگر خسارے میں نہ ہوتا تو یہ نہ سمجھ لیتا کہ وہ اپنے ہی لیئے بنائے گئے حفاظتی بند یہ سوچ کر توڑ رہا ہے کہ وہ آزاد ہو رہا ہے جبکہ معاملہ اسکے بلکل برعکس ہے۔ وہ آزاد نہیں ہو رہا بلکہ نفس کے پروپیگنڈے میں آکر اپنے ہی آپ کو عذابوں میں گرفتار کرتا جا رہا ہے۔  ایک مکڑی کے جالے کی طرح جو دیکھنے میں تو بہت خوبصورت اور نازک ہے۔ لیکن اس کی گرفت سے آزادی صرف خاتمے کی صورت ہی ملتی ہے ۔ اسلام نے ہم سب کو حفاظتی حصار مہیا کیئے ہیں ۔ جن میں ہماری بقاء  کا راز ہے ۔ خواتین اس معاملے میں کمزور حصّے کی صورت ہمیشہ ہی زیادہ نشانے پر رہتی ہیں کیوں کہ ہمارا معاشرہ ہی کیا پوری دنیا ہی مردوں کی مرضی سے چلتی ہے ۔ یہاں وہ ہی خواتین کامیاب ہیں جو یا تو بہت زیادہ مقابلہ کرنے کی ہمت خدا کی جانب سے لیکر آتی ہیں یا پھر وہ اتنی خوش نصیب ہیں کہ انہیں اپنے گھروں سے ہی اچھے اور منصف باپ، بھائیوں یا شوہر کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ہاں ایک عورت کی  حیثت برتنے والی چیز سے ذیادہ کبھی نہیں رہی ۔ ایک لڑکی کی پیدائش شرمندگی اور پریشانی ہے تو اسے اسکی تمام تر قربانیوں اور خدمتوں کے باوجود اکثر اسکی مرضی کے خلاف شادی کر کے سر سے جلد یا بدیر اتارکر ایسے پھینکا جاتا ہے جیسے کسی اچھوت مرض سے جان چھوٹے ۔  شادی سے پہلے اور شادی کے بعد اس کی حیثت ذیادہ تر ایک بے تنخواہ ملازم کی سی ہوتی ہے ۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی پوچھو کہ آپ کی بہن ،بیٹی یا بیوی کیا کرتی ہے تو سب کا جواب یہ ہی ہوتا ہے کہ جی وہ کچھ نہیں کرتی ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور تو اور شادی کی بعد اس کی شادی کسی بھی وجہ سے چل نہ سکے یا اسے بیوگی کا دکھ دیکھنا پڑ جائے ۔ تو  سُسرال میں رہے تو سب کی نگاہوں کی گندگی کا شکار ہو گی اور ایک چوبیس گھنٹے کے مزدور کی سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہے اورباپ اور بھائی کے گھر جاتی ہے تو بھی یہ ہی اسکی تقدیر ہے۔ اگر قسمت سے کہیں سے اسکا رشتہ آجائے تو اسے یہ ہی سگے رشتے بے حیا اور بے غیرت جیسے خطابات سے نوازنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرینگے ۔ اس وقت دین اسلام انہیں کوسوں دور بھی دکھائی نہیں دیگا۔ جو عدّت کے ساتھ ہی ایسی خاتون کا نکاح کرنے کی سختی سے تلقین کرتا ہے ۔ تاکہ انہیں کسی کے بھی جبر اور اذیت سے بچایا جا سکے ۔ اس خاتون سے وابستہ ہر رشتہ اسکی خدمت اور کمائی سے دستبردار ہونے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتا اور نام لیا جاتا ہے غیرت کا ۔ منٹو نے ایک بار بڑی ننگی حقیقت بیان کی تھی جس پر اسے بہت کچھ جھیلنا پڑا ۔ ۔ کہ 
'' معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی جازت تو دیتا ہے ۔لیکن تانگہ چلانے کی نہیں ۔''
 عورت کی تمام ذہنی ،جسمانی، معاشی ضروریات کو کوئی بھی جائز دائرے میں پوری کرنے کی ذمّہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ لیکن اس پر حکم چلانے اور اسے استعمال کرنے کا شوق بھی سب کو ہے ۔   ایسی خواتین کو عام طور پر نوالہ تر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے 90 فیصد خواتین کی سب سے بڑی پریشانی مالی ہو تی ہے ۔ اور انہیں دووقت کی روٹی کی بلیک میلنگ میں اپنی مرضی سے چلانے کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں ۔ باپ کے گھر میں بھی بھائی بیویوں کو خوش کرنے کے چکر میں بہنوں کو گھر بٹھا کر انہیں مفت کی نوکرانی سے مستفید کرتے ہیں ۔  بھابیوں کی اکثریت بھی اس خادمہ کو ہاتھ سے گنوانے پر کسی طور تیار نہیں ہوتی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی تمام مطلقہ اور بیوہ خواتین اپنے تحفّظ کے لیئے انہی بھابیوں کی زندگی بھی اجیرن کرنے کا موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتیں ۔ اور بھائیوں کے گھروں کی تباہی بھی ایسی ہی خواتین اپنی حفاظت کے نقطئہ نظر سے کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ نند یا بھابی کے پاؤں اکھاڑنے کے لیئے اسے ہر لمحہ کوشش کرنی ہو گی کیوں کہ یہ اسکی بھی بقاء کا سوال ہے ۔ اس سوال کو اٹھانے سے پہلے ہی ان خواتین کو معزز افراد نکاح کر کےاپنا لیں  تو اس سے بہت سارے معاشرتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہی نہیں ہونگے ۔ ( خواتین  مردوں کو ان کے بچوں سمیت قبول کرنے کو تیار ہوتی ہیں تو مرد کیوں ذہنی طور پر اتنا تنگ ہے کہ وہ عورت کے بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ کر اجرو ثواب کمانے  کو تیار نہیں  ہوتا ۔) لہذا ایسی خواتین کی شادیوں میں ہمارے بھائیوں کو بہت ذیادہ جلدی  کرنی چاہیئے ۔ یہ ضروری نہیں جن کا گھر ایک بار کسی بھی وجہ سے نہیں بس سکا تو اگلی بار بھی نہ بس سکے ۔ ویسے بھی شوہر کے گھر کی سوکھی روٹی بھائیوں کے گھر کے پراٹھوں سے زیادہ لذیذ ہوتی ہے ۔ کہ اس میں اسکی نگاہیں اور وقار دونوں بلند رہتے ہیں ۔ اسی میں ہمارے بھائیوں کی عزت بھی ہے اور اپنے گھروں کا سکھ بھی ہے ۔ کیوں کہ بہنیں باندیاں اور خادمہ بنا لینے میں عزت نہیں ہوتی انکی اپنے گھروں میں آبادی میں ہی ایک باحیا باپ اور بھائی کی عزت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ جتنی جلد ہو اپنے ایسی تمام بہنوں اور بیٹیوں کو خواہ وہ کسی بھی عمر کی ہوں ان کے ہم پلہ لوگوں کے ساتھ بیاہ کر اپنے لیئے اپنی قبر کے معاملوں کو آسان کیجیئے ۔ کیوں کہ وہ بھی اللہ کی جانب سے آپ کی رعیّت میں دی گئی ہیں اور کون نہیں جانتا کہ'' ہر ایک اپنی رعیّت کے لیئے خدا کو جوابدہ ہے ۔ ''
(نوٹ ۔ کوئی بھی بات سو فیصد لوگوں کے لیئے نہیں ہے۔
 لیکن ہاں اکثریت کیلیئے ضرور ہے۔) 
●●●
تحریر: ممتازملک
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/