ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 1 جولائی، 2014

کوئی تعویذ دو ردّبلا کا ۔ ممتازملک ۔ پیرس


کوئی تعویذ دو ردّبلا کا
ممتازملک۔ پیرس


سیانے کہتے ہیں کہ جب تھوڑی تکلیف کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو بڑے مرض میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ یہ ہی کچھ پاکستان کے دفاعی معاملات میں ہماری نااہل حکومتوں نے کِیا ۔ جو بھی آیا اس نے لمبی لمبی ہانکیں ۔ پاکستان کو زبانی تڑکوں میں کیا سے کیا بنا دیا ۔ لیکن جیسے ہی ہماری بیوقوف اور ڈگڈگی پر ناچنے کی شوقین عوام نے انہیں ان کی اہلیت دیکھے بنا اپنے سر پر بٹھا لیا ،تو سب کے اندر سے ان کا اصلی ریڑھی والا دھم سے چھلانگ لگا کر باہر آگیا ۔ آوازیں اور سودا سب کا اپنا اپنا تھا ۔ آلو لے لو ، پیاز لے لو ، چینی لے لو، لوہا لے لو ، دودہ لے لو ، کمیشن دیدو ، بھتہ کی پرچی لے لو ، بوری بند لاش لے لو ، کٹی ہوئی گردنیں لے لو ، بیوقوفی کے نسخے لے لو، مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ لے لو ۔                                                               ان میں سے کسی بھی مداری یا ریڑھی والے کے پاس اگر نہیں تھی تو کوئی بھی قابل ٹیم نہیں تھی جو اس بیچارے ملک کے معاملات چلاتی ۔ ہر سال دنیا بھر کی بہترین ڈگریاں اعزازات کیساتھ حاصل کرنے والے پاکستانی دنیا بھر کو اپنی قابلیت سے فیضیاب کر رہے ہیں ۔ لیکن پاکستان آ کے وہ تو کیا ڈاکٹر قدیر جیسا ہیرا تھڑوں پر رول دیا جاتا ہے ۔ ڈگریوں اور گولڈ میڈلز والے نوکری کے لیئے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور ذہنی ریڑھی بان ان کے پاس سے زن ن ن ن سے تمسخر اور تکبّر کا کیچڑ اڑا کر گزر جاتے ہیں ۔ اس ملک پر کوئی تعویذ کرواؤ ردّ بلا کا ۔  جہاں ہیرا کوڑے میں اور کچرا کرسیوں پر نظرآ رھا ہے  ۔                  
 ہماری قوم کا مرض ہے محبت ۔ بلکہ بے جگہ محبت کہیں تو ذیادہ بہتر ہو گا ۔ کبھی ہمیں اپنی برادری سے محبت ہو جاتی ہے کبھی ہمیں اپنے فرقے سے محبت ہو جاتی ہے ، کبھی کسی کی حیثیت سے محبت ہو جاتی ہے ،  کبھی مفت کے کھابوں سے محبت ہوجاتی ہے تو کبھی مفت کی پینے سے محبت ہو جاتی ہے ۔ کبھی کسی اور کی بیوی سے محبت ہو جاتی ہے تو کسی کو کسی اور کے شوہر سے محبت ہو جاتی ہے ، الغرض جب بھی ہوتی ہے غلط جگہ ہی ہوتی ہے ۔  اس لیئے کہنا پڑتا ہے کہ 
 کوئی تعویذ دو ردّبلا کا 
محبت اک مصیبت ہو گئی ہے 
اب تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہوس ، مفاد اور محبت میں فرق کیا ہے ۔   سکولوں کو دھماکوں سے اڑانے والوں سے تو کئی بیوقوفوں کو ہمدردی ہو رہی ہے ۔ جبکہ ان سکولوں اور علم کی شمعوں کو بجھنے سے بچانے کے لیئے اپنی زندگی کی شمعیں گل کرنے والوں پر منہ بھر کر بکواس کرنے والوں کی آنکھ میں بھی کیا ہی خبیث کا بال ہے۔  دوسری جانب جو جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کیئے جا رہا ہے ، یہ حالات اس کی گرفت سے نکل کر کہاں تک جا سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اپنی بندوق جس عوام کے کندھے پر رکھ کر چلا رہا ہے اسے یہ بھی خیال نہیں آرہا کہ اگر خطرے کے ہارن سے کہیں خوابیدہ عوام غلطی سے بیدار ہو ہی گئی تو کیا غضب ڈھائیں گے ۔ ابھی سے شہنشاہ وقت کو ان ان بھیڑوں کے لیئے کوئی اچھی سی افیم ڈھونڈ لینی چاہییئے ۔کسی بھی نئے ڈرامے کی ، کسی بھی سیاسی شہادت کی افیم یا پھر یا پھر ان ریڑھی بان لیڈران کے عشق کی افیم ۔ کہ جسکا نشہ 70 سال سے ٹوٹنے میں ہی نہیں آرھا ۔ آخر  کو ہے نا محبت کی ماری قوم ۔                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/