ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 26 دسمبر، 2016

نصاب،درسگاہ اور استاد۔ کالم


        نصاب ،درسگاہ اور استاد
تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے .
لیکن جس گود میں یہ آنے والے وقت کے بچے پلنے ہیں اس بچی کے پیدا ہونے سے لیکر صاحب اولاد ہونے تک خود وہ بچی کن کن امتحانات سے گزاری جاتی ہے اور کیسے پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنا ضروری  نہیں سمجھتا . کہنے والے نے پھر بھی کہا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی قوم دونگا "
لیکن  پھر بھی ہم ایشیائی   یا جنوبی ایشیا اور افریقہ کی عورت کو پیدائش کے بین اور بچپن کی گھرکیوں اور ٹھڈے جبکہ جوانی کا ایک جبری رشتہ بطور شوہر کے ہی ملا ...
اب اس جبری رشتے سے پیدا ہونے والی نسل کو کون کس خیال سے پروان چڑھائے گا یہ اندازہ  ہمارے معاشروں میں پھیلے ہوئے بے ترتیب، بے ڈھنگی، زندگی گزارتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ  کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ...
پھر اس پر یہ غضب بھی ڈھایا گیا کہ جو کام حکومت کے ذمے تھا کہ اچھی قوم بنانے کے لیئے ان بچوں کو اچھا سکول سسٹم ،اچھا متناسب یکساں تعلیمی نصاب ، خوشگوار اور کارآمد تعلیمی ماحول ،مہربان ، شفیق اور قابل اساتذہ، پر اعتماد ہنر مند مستقبل ،
فراہم کیا جائے.  لیکن حکومتوں کی بے پروائی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تعلیم کو کمائی کی انڈسٹری بنانے کی سوچ نے ہماری پوری نسل کو ایک چابی کا ٹٹو بنا دیا. نہ انہیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز ہے ،نہ ان میں مطالعے کا شوق ہے،نہ انہیں کوئی باخبر رہنے اور معلومات عامہ سے کوئی لگاو ہے  .اور کچھ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا ہی دنیا بھر کے علم کا نعم البدل لگتا ہے .

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ 80ء اور 85ء کے سن میں اگر 1100 میں سے بھی کوئی آٹھ سو نمبر لے لیتا تھا تو سمجھ لیں کہ سارے زمانے کا علم اور قابلیت اس کے پاس ہوتی تھی . اور آج جسے پوچھو وہ گیارہ سو میں سے پانچ یا دس نمبر کم لیکر ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ
اقبال کا مزار کہاں ہے؟
یا
قائد اعظم کا اصل نام اور جائے پیدائش کہاں ہے ؟
تو جانئے جیسے ان سے جانکنی کے لمحات کی تفصیل پوچھ لی گئی ہو ...
کبھی ان سے جاں کنی کے مطلب پوچھ کر دیکھیئے گا ...
 سو واضح رہے کہ والدین کو پرورش کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی جانتے ہوں گے کہ 
بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف وہ والدین ہی اچھی کر سکتے ہیں جن کی اپنی پرورش محبت، سچائی اور اعتماد کی فضاء میں ہوئی ہو ...
ورنہ دوسری صورت میں انہیں  اپنے خوف، اپنے درد چھپا کر اور دبا کر اپنے بچوں کو  پروان چڑھانا ہوتا ہے .سو ان کے ہاں بھی اپنا نفسیاتی معائنہ اور رہنمائی لینا بے حد ضروری ہوتا ہے ...
اب یہ سب ہونے کے  بعد باری آتی ہے اساتذہ کی .
کیا وہ اتنے اہل ہیں؟ کیا وہ  پروفیشنل ٹیچنگ کے عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ؟
سفارشی لوگ اور نوکری کہیں  نہیں ملی تو " چلو استاد بن جاؤ " کی سوچ رکھنے والے لوگ استاد کے نام پر دھبہ ہیں .
تیسری بات ہمارا نصاب جسے ازسر نو معنی اور مطالب کیساتھ ایک جیسا مرتب کرنا ہو گا . جو نیچے سے اوپر تک ہر بچے کے لیئے ایک سا ہو ،تبھی اس قوم میں یک رنگی اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے .
سو یہ نصاب کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسا بدن میں خون کا کردار ..
تو جب خون ہی فاسد ہو جائے تو اس بدن کو کیا تقویت دیگا، بلکہ  اسے موت تک لیجائیگا .اصل بات یہ ہی  ہے کہ 
دینی تعلیم کے لیئے سب سے بڑا نصاب تو ہمارے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجے سجائے جلدان میں موجود ہے جناب ..
قرآن سے بڑا بھی کوئی نصاب ہو گا کیا؟ ...اور پھر احادیث کے لیئے صحیح مسلم و بخاری سے زیادہ کوئی مستند کتابیں نہیں ہیں ..
ہمارے ہاں اول تو مذہب کے ان ہی حصوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے پیش کرنے والے کو اپنا کوئی مفاد اس میں نظر آئے. اس سلسلے میں پیش کرنے والے کو اپنے مطلب کی کوئی بات نہ ملے تو گھڑ کر سنانے میں بھی کوئی شرم حیا انہیں بلکل درکار نہیں ہے . اس لیئے کوئی بھی حدیث پاک یا آیات مبارکہ سننے کا موقع ملے تو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے . اور جو بات فطرت سے ٹکرائے گی . وہ ہمارے دین کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی . اسی لیئے
بہت سے واقعات مذہب کے نام پر گھڑے گئے ہیں . لوگوں کی عقیدت اور اندھے اعتقاد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کے لئے انہیں ہر مذہب میں آلہ کار بنایا گیا ہے ..
لیکن یہ مشکل صرف اسلام کی نہیں ہے.
دنیا کے ہر مذہب کے ٹھیکیدار نے یہ کام کیئے ہیں اور دھڑلے سے کیئے ہیں ...

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نام پر ایک الگ ملا مافیا کام کر رہا ہے اور جدید تعلیم اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگ دو سسٹم نہیں بلکہ چکی کے  دو پاٹوں میں پس رہے ہیں .
سرکاری سکولوں کو ہی دینی تعلیم کا پیریڈ رکھنا چاہیئے . اور ہنڈی  کرافٹ اور دستکاری کے پروفیشنل اساتذہ کیساتھ سکول کے آخری دو گھنٹے مخصوص کیجیئے .
اور سب سے اہم بات دین کا مذاق بند کر کے اپنے گھر کا سائیں بچہ اللہ کی راہ پر زبردستی لگا کر طالبان اور داعش پیدا کرنے کی بجائے . کم از کم میٹرک کے بعد دین کا شوق رکھنے والے بچے اور بچی کو اس راہ میں پڑھائی پر لگایئے . تبھی ہم اچھے مسلمان کی اصطلاح سے انصاف کرنے کا سوچ سکیں گے .
جس انسان کو دنیاوی علم سکھا دیا جائے ہنر سکھا دیا جائے . جس سے وہ عزت سے روزی کما سکے اور اپنی کنبے کو پروان چڑھائے تو اس کے ہر لقمے پر اس تعلیم کا انتظام کرنے اور کروانے والے کے لیئے بے شمار صدقہ جاریہ کا وعدہ ہے . بیشک اللہ پاک  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین


■ محرم بنن لئی / پنجابی کلام ۔ او جھلیا


محرم بنن لئی

اک میرا محرم بنن لئی
کئی نامحرم تیار جے

پرجناں دے محرم اے ہوندے
نہیں اناں دے سچے یار وے

جتھے ایناں نوں ہوناں چاہیدا
اوتھے چولاں جاندے ماروے

اے کسے دے اپنے ہوندے نئیں
نہ کرن اے سچا پیار وے

چھڈن  لمیاں عشق اندر
اوتوں لمیاں لمیاں ماردے

ایہہ دو چھلاں نہ سہہ سکدے
نہ لان کسے نوں پار وے

سچ پچھو تے ہورکی دسیئے جی
نہ گھر دے نہ اے بار دے

ممتاز نہ کول جے قدر کوئی
کلے ہون تے واجاں ماردے
●●●

دوسری بیوی یا دوسری عورت۔ کالم





دوسری بیوی یا
 دوسری عورت
تحریر:
(ممتاز ملک. پیرس)





ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ جہاں جذبات نہیں رہتے وہاں صرف روبوٹ رہا کرتے ہیں ..کسی نے کہا کہ جذبات بیکار شے ہیں ان کیساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی .
آپ کی بات مان لیں کہ جذبات  ایک بیکار شے کا نام ہے جس پر کوئی نظام نہیں چل سکتا تو اللہ نے یہ بیکار جزبہ پیدا ہی کیوں کیا ؟عورت کو مسئلہ کہنے والا نہ انسان ہے نہ مسلمان. دنیا کی پہلی فرمائشی تخلیق عورت ہے ....
دنیا میں اللہ کے بعد تخلیق کی ذمہ داری عورت کو انہیں جذبات کے بل پر دی گئی . عورت ہی دنیا میں آنے کے بعد شفقت  اور محبت کی پہلی علامت کسی بھی انسان کے لیئے  ہوتی ہے اور اس کی بنیاد ہیں اس کے جزبات. ایک خاتون نے ایک بحث کے دوران  مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی بڑے دھڑلے سے وکالت کی کہ یہ اللہ کا "حکم" ہے اس میں عورت کو ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے لیئے شادی بلکہ شادیوں کی ایسی مثال  اور " حکم" کی بات پر باقاعدہ برا بھی مان گئی اور ذاتیات ذاتیات  کا رونا رونے لگیں . تو ہم نے کہا کہ بی بی عورت کو ہلکان ہونے کی ضرورت اس لیئے ہے کہ سڑک پر بچوں کی لائن لیکر وہ کھڑی ہوتی ہے مرد نہیں . دربدر عورت ہوتی ہے مرد نہیں . برا نہ مانیں تو آپ کو بھی ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنے میاں کی کتنی مزید شادیاں کروائی ہیں، دو دو یا تین تین ..آپ تو شاید کماتی بھی ہیں پھر دل تو کافی بڑا ہو گا آپ کا۔ ہم جیسی عام عورت مرد کو یہ حق دینے میں مجاز نہیں تو خلع لیکر اپنی زندگی اپنی مرضی سے کسی اور مرد کیساتھ شروع کرنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہے اور اس میں ہمارا کوئی باپ بھائی یا شوہر بات کرنے کے یا اعتراض کا کوئی حق نہیں رکھتا...
موصوفہ کے مطابق مردوں کو اس کی "اجازت کا حکم" ہے۔۔۔"اجازت کا حکم "تو  آپ کی نئی اختراع ہے ..اسے اپنی فرمائش کہیں تو اچھا ہے۔ دین کا حلیہ کیوں بگاڑ رہی ہیں . اور آدھی آیت یا آدھی حدیث بیان کرنا بڑی گمراہی ہے . اس آیت اور اس سے متصل آیت کے اگلے حصے کو مکمل کیجیئے..(اور نکاح کرو ایک ایک  دو دو اور تین تین لیکن عدل کیساتھ ... اور سمجھو تو تمہارے لیئے ایک ہی کافی ہے کیونکہ تم عدل نہ کر سکو گے )
یہاں اجازت دی گئی ہے . اور آگے اس اجازت کی شرائط بھی بیان کی گئی ہیں ..اسے کیوں بیان کرنے کی زحمت نہیں فرمائی  جاتی؟ وگرنہ معاشی اور اخلاقی اعتبار سے تو ایک بیوی اور دو تین بچے بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے ہمارا آج کا مرد . جبھی اللہ پاک نے ہی  یہ فرما کر بات پوری کر دی کہ "اور میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے۔ سو تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر ہے "۔ اب اگر اسلامی مثال ہی دینی ہے تو ...
*کیا صحابہ کرام کی بیگمات نے بہت مالدار زندگی گزاری ؟
*کیا وہ اپنی بیویوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے؟
*کیا ان کے پاس ہر بیوی کو دینے کا ذاتی مکان تھا ؟
*کیا ان کے بچے ان کے خرچ پر بیس بیس سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے ؟
اور سب  سے خاص بات ...
*کیا صحابہ نے جیسے صبر شکر پر بیویاں رکھیں ، کیا آج کی کوئی دوسری یا تیسری بیوی بننے کی شوقین خاتون بھی رہ سکیں گی ؟
*کیا یہ خود اپنی ذمہ داری پر کسی سے بچے پیدا کر کے اسے پالیں گی .
* بنا خرچہ مانگے.. اس کی پہلی بیوی کی مشقت سے بنائی جائیداد میں اپنا اور اپنے بچے کا حصہ ڈالے  بنا خوشی سے زندگی گزار لیں گی ؟
کیونکہ آج اگر واقعی کوئی خاتون  محض شوہر کا رشتہ نام کو ہی  مانگ رہی ہے تو کل کو اسے چوبیس گھنٹے وہ اپنے  قدموں میں بھی چاہیئے
* پھر وہ اسے روز فرمائشیں پوری کر کے دے .
*اس کو گھر لیکر دے .
*گاڑی بھی الگ لیکر دے،
*اس کو زیورات کے تحفے دے .
*اسے ماہانہ منہ مانگا خرچ دے .
(بڑے مطالبات اور رولےشروع ہو جاتے ہیں )
*پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف عورت کا مرد کو دوسری شادی سے منع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ  مرد بھی معاشی لحاظ سے  آج کسی بیوی کو کجھور اور حجرے میں تو نہیں رکھے گا نہ عورت رہے گی ...
*دوسری بات کہ کتنے مرد ہیں جو کم صورت ، ان پڑھ ، مطلقہ،  اپنے سے بڑی یا ہم عمر ہی سے  شادی ہر تیار ہیں؟
"دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکھا دو
جس مرد کی آنکھوں میں کوئی ایسی حیا ہو
ہم  نے ایسی کئی تیس پینتیس سال کی خواتین دیکھی ہیں.جو کنوارے مرد کے علاوہ کسی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں . اب کوئی ان سے پوچھے کہ کتنے تیس سے چالیس سال کے مرد ان کو کنوارے ملیں گے ...
عموما اٹھائیس  تیس تک وہ بھی شادی کر چکے ہوتے ہیں .
اور دوسری شادی کے خواہشمند مردوں میں سب سے
* پہلا اور حقیقی حق بدکردار بیوی والوں کا...
*دوسرا حق
پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے والوں کا ہے .
*تیسرا حق بدزبان بیوی ہو جبکہ خود بااخلاق اور اچھے زبان و کردار کا ہو تو. ..
جو خواتین بڑے اونچے معیار کے آئیڈیل کی تلاش میں اپنی شادی کی عمر گنوا چکی ہیں انہیں دوسروں کے شوہروں پر حریص نظریں ڈالنے کی بجائے پہلے سے طلاق یافتہ ، رنڈوے یا بے اولاد دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کی جانب متوجہ ہونا  چاہیئے . اور اگر اولاد والے بھی ہیں تو اسے بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے .
دوسری شادی میں اگر خاتون یا صاحب پہلے سے کوئی اولاد رکھتے ہیں تو  نئے ساتھی کو اللہ کی رضا کے لیئے انہیں بخوشی اپنانا چاہیئے۔ کوئی کام تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہونا چاہیئے . اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی نئی ماں یا باپ کے سوتیلے پن کا خوف اور ہوا ان بچوں کے ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیئے، بلکہ ان کے دل کو نئے رشتے کے لیئے محبت اور احترام کیساتھ نرم کر کے اپنے نیکی کے موقع کو اپنے نام سے اللہ کے ہاں درج کروانا چاہیئے . اپنی عمر سے دو چار سال  بڑے انسان کو اپنا کر خاتون اپنے لیئے نفسیاتی طور پر تحفظ محسوس کرتی ہے . شادی کی عمر پار کرتی خواتین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ناکہ بسے بسائے ہنستے مسکراتے گھروں پر ڈائن بن کر پنجے گاڑنے چاہئیں۔ انہیں باتوں کے سبب وہ دوسری عورت کے لیبل سے جان نہیں چھڑا پاتی کیونکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات سے آنے والی عورت دوسری عورت نہیں کہلاتی . صرف بسے ہوئے گھر میں زبردستی داخل ہونے والی عورت تادم مرگ  دوسری عورت ہی رہتی ہے .

جمعہ، 16 دسمبر، 2016

● چھوٹا منہ بڑی بات/ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


چھوٹا منہ بڑی بات
تحریر: ممتازملک.پیرس 


کبھی کبھی بچوں کے منہ سے بھی اللہ پاک بڑی بڑی معرفت بیان کروا دیتا ہے . جیسا کہ ہمارے صاحبزادے سات برس کی عمر میں ایک دن اپنی ہی جون میں بیٹھے مخاطب ہوئے ...
ماما جی آپ کو پتہ ہے یہ دنیا کیسے بنی؟ ...
میں نے پوچھا کیسے بنی ؟
اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگی.
وہ بات جو شاید اس سے پہلے مجھے کوئی اتنی اچھی طرح نہیں سمجھا سکا وہ بات مجھے اس کی ایک بات سے سمجھا دی  ...
پہلے ایک لمحہ توقف فرمایا اور پھر بڑی متانت سے بولے ..
پہلے یہ دنیا صرف پانی کا ایک بلبلہ تھی، جب اللہ نے چاہا کہ اس پر دنیا بسائے .تو اس پر زمین کی (خاک کی)ایک تہہ بچھا دی. 🤔🤔🤔
●●●
                تحریر:ممتازملک۔پیرس
            مجموعہ: چھوٹی چھوٹی باتیں 
                         ●●●
 



ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

دعا ۔ ایسی مثال دے

             
ایسی مثال دے
کلام/ ممتازملک. پیرس)

ہر چیز تیرے عشق میں ایسی مثال دے
بجھتے دیئےمیں جیسےکوئی تیل ڈال دے

جب سوچتا ہے دل تیرے بے پایاں فضل کو
دھڑکن نکل کے وجد میں آکر دھمال دے

ہر ایک گام  پاؤں میں زنجیر ضبط کی
وہ ہی تو  مشکلات سے آ کر نکال دے

تجھ سے تیرے کلیم کا صدقہ ہی مانگ لوں
تجھ تک پہنچ سکے وہی لفظی کمال دے

نہ چھوڑ مجھ کو وقت کی دہلیز پہ تنہا
گرنےلگوں توبڑھ کے مجھے بھی سنبھال دے

میں ہوں سیاہ کار مگر تو ہے مغفرت
انصاف کی نہیں مجھے رحمت کی ڈھال دے

دامن ہے مختصر تیری رحمت دراز ہے
ممتاز کو کوئی بھی نہ ہلکا خیال دے

       ...........
                       
Add caption

اتوار، 4 دسمبر، 2016

کل اور آج کی دوری مٹائیں


اگر اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنے نزدیک رکھنا چاہتے ہیں تو
انہیں اپنے عہد میں مت لے جائیں ،
بلکہ ان کے عہد میں جینا سیکھیئے ،
تاکہ آپ انہیں قدیم دور کی یادگار نہ لگیں بلکہ انکے دور کے ساتھی لگیں .جن سے وہ مشاورت کر سکتے ہیں اور جن کے تجربات کو آج  کے وقت میں جدید انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے.
ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ہمارے بچے ہمارا امتحان/ کالم




کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو یہ امید بھی ساتھ لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے ناامید نہیں ہوا ہے . تو گویا ایک انسان کی پیدائش رب کی امید لیکر آتی ہے اور یہ امید یقینا خیر کے کام کی ہی ہو سکتی ہے،  بے خیری کی تو ہو  نہیں سکتی . کیونکہ یہ امید تخلیق کار   کی اپنی تخلیق سے ہے . 
ہم بار بار اللہ کے بعد اسے دنیا میں  لانے والے کے حقوق تو زورشور سے بتایا ہی کرتے ہیں. لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والا کوئی چھ فٹ کا کماتا  ہوا طاقتور جوان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا ایک تین کلو کا معصوم سا وجود ہے جو اپنی ہر ضرورت کے لیئے آپ کی مدد کا محتاج ہے . تو اس کی مدد کیسے کی جائے ؟

اس بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے خود کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیئے تیار کیا جائے  اور بچے کو اندھیرے کا تیر سمجھ کر نہ چلایا جائے بلکہ اس کو اس معاشرے کا، بلکہ دنیا کا ایک بہترین فرد بنانے کے لیئے ہر ممکنہ سہولت دی جائے . محبت اور اعتماد کی کھاد اس کی جڑوں میں ڈالی جائے . انصاف کی فضا اپنے گھر سے میسر کی جائے .
جہاں اس کا حق اس کے مانگے بنا ملے گا اور کوئی بہن بھائی یا ماما  چاچا اس کی زندگی کا دخیل نہیں ہو گا تو بچہ بھی کل کو آپ کو ہی نہیں  ساری دنیا کو اس کے حقوق بنا مانگے دینے کا اہل ہو گا .
ہمارے ہاں ہمیشہ بچوں کو یہ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے یہ حقوق ہیں، باپ کے یہ حقوق ہیں ، بہن بھائیوںکے یہ حقوق ہیں، 
تمہارے انکی طرف یہ فرائض ہیں،وہ فرائض ہیں ..
یہ نہ کیا تو جہنم میں جاو گے....
وہ نہ کیا تو برباد ہو جاو گے..
اور باپ کے حقوق تو مائیں ویسے  بھی بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتیں ہیں . حالانکہ ماں اگر جنت ہے  تو اس جنت کا دروازہ تو ہوتا ہی دراصل اس کا باپ ہے . اور ہماری مائیں اپنے بچوں کو بغیر دروازے کی جانے کون سی جنت میں داخل کرنے کا منصوبہ بناتی رہتی ہیں . جس کے لیئے باپ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اور تو اور ایسے میں کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس بچے کے اس کے پیدا کرنے والے پر بھی کچھ حقوق ہیں . جو انہیں بھی جہنم میں لے جا سکتے ہیں .  آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ کرتے ہیں. جبکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق اور حفاظت کی بارہا تلقین فرمائی  گئی ہے . 
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن پاک کو تعلیمی اور تربیتی نقطہ نظر سے نہ کبھی دیکھا گیا ہے نہ ہی اس سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے . 
اسے صرف ڈرانے اور کم علموں کو دبا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے ہی استعمال کیا گیا ہے . ورنہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل اس کی روشنی میں منور ہو سکتا ہے .
ہمارے ہاں عورت اور بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں وہ ایک خوفناک صورتحال ہے . کسی بھی خاتون کو رات کیا دن میں کہیں اکیلا (لاکھ پردے میں ہی) کھڑا کر کے دیکھ لیں ....
کسی بچے کو کھڑا کر کے دیکھ لیں ...کیسے گوشت کی بو سونگھتے کتے کی طرح ان کے شکاری پہنچتے ہیں ...
بچے پیدا کرو، یہ تو  ہمیں معلوم ہے لیکن کتنے  پیداکرو ،کہ پال سکو،  یہ کہہ دے کوئی تو سمجھیئے، اپنا ہی سر منڈوانے والی بات ہے . تربیت تو بہت دور کی بات ہے . ہمارے ہاں بچہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری جاگیر ہوتا ہے ..سو اسے جاگیر کی طرح ہی برتا بانٹا اور کاٹا جاتا ہے .
اللہ پاک ہمیں بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا شعور عطا فرمائے.
یاد رکھیئے ماں باپ کا حق بعد میں شروع ہوتا ہے اس سے پہلے ہم پر بچے کا حق لاگو ہوتا ہے .
جس میں یہ شامل ہے کہ ہم اسے محبت اور حفاظت کیساتھ اچھا طرز ذندگی اور تعلیم و تربیت دے سکیں .
اور اسے یہ بتا سکیں کہ کب ،کہاں کس ، سے ،کس طرح بات کرنی ہے اور کس سے کیسے اور کتنا تعلق رکھنا ہے . اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی کی طرح محسوس کیا جائے اور  اسکی  پریشانیوں کو محبت سے  اپنے تجربات کی روشنی میں مشاورت سے حل کیا جائے. 
  ورنہ روز قیامت ہمارے گریبان کو ہمارے بچوں  کے معصوم ہاتھوں سے کوئی  نہیں بچا سکتا .
        ممتازملک. پیرس

جمعرات، 1 دسمبر، 2016

ادھوری اڑان

ادھوری اڑان
ممتازملک. پیرس

اس دنیا میں جہاں مرد طاقتور ہے ،خود مختار ہے ،عقلمند ہے ...
وہاں کتنی عجیب بات ہے کہ اسے کمزور ، بے عقل اور بیوقوف عورت سے ہی  کسی نہ کسی رشتے میں  معافی چاہیئے . اپنی اڑان کو اور اونچا  اڑانے کے لیئے ...کہ اڑان کو اس معافی کے بنا وہ مکمل ہی نہیں کر سکتا ...
☆کہیں باپ ہے تو اس کی بیٹی اس پر اپنی شادی اور زندگی گزارنے کا حق معاف کر دے.اس کے غرور کو بلند کرنے کے لیئے ....
☆کہیں بہن ہے تو اس پر اپنی جائیداد کا حق معاف کر دے ، بھائی کا شملہ اونچا کرنے کے لیئے ...
☆بیوی ہے تو اس کے ساتھ رہنے کے لیئے اپنا مہر معاف کر دے ....
اور اگر اس سے آزادی چاہتی ہے تو اس کے لیئے اس کا ہر محبت کے دعویداری لمحوں کا تحفہ اور تحفظ کے نام پر دیا گھر بار معاف کر دے ..
☆ماں ہے تو اپنے بچوں کے باپ پر بچوں کی زندگی کا ہر اچھا برا  فیصلہ معاف کر دے ...

اور اولاد کو اس کی ہر زیادتی اور گستاخی معاف کر دے ..
ہر بار ایک کمزور ایک طاقتور کو معاف کر دے تاکہ اس کی سلطنت قائم رہے ..یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ جس مٹی سے اناج اگا کر ہم زندہ ہیں اسی مٹی کے کلیجے پر جب چاہے چھلانگیں لگا لیں پھاوڑے چلا لیئے .....
ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 26 نومبر، 2016

تسلسل ۔ سراب دنیا



تسلسل
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 

میرے آنسو میرا سارا 
تسلسل توڑ دیتے ہیں 
کہیں کی بات کو جا کر 
کہیں سے جوڑ دیتے ہیں 
سنو 
وہ جاں بلب ہونے کا
اک لمحہ بہت ہے
کہ جس کے سامنے
سارے ہی گھٹنے 
موڑ دیتے ہیں
۔۔۔۔۔

اتوار، 13 نومبر، 2016

بھج گیا تے (دوڑ گیا تو)


کیوں سوچتے ہیں ہم کہ وہ مجھے چھوڑ کر "بھج" گیا تو....
جدھر  بھی" بھج" جائے عادتیں اس کی پرانے "کلے"(کھونٹا) کی ہی قائم رہیں گی .جبھی تو ہم نے شعر" مارا "ہے کہ

وہ جہاں بھی" بھجا" تھکا تو میرے پاس آیا
اک یہ ہی بات ہے اچھی میرے "بھجیارے " کی 😆😆

وہ تو آیا تھا نشانہ میرا لینے لیکن
میں نے بھی بینڈ بجا دی میرے ہتھیارے
کی 😆😆😆
ممتازملک. پیرس

وہ تو ۔۔ سراب دنیا




وہ تو آیا تھا 
(کلام/ممتازملک۔پیرس) 




جھانکتا  تھا مجھے ہر روز جو آتے جاتے
اینٹ بن جاوں نہ میں اسکے ہی چوبارے کی


ہائے کہنے کے بھی قابل نہیں رہنے والا 
سننے والا نہیں رہنا اسی دکھیارے  کی


اب اسے کون بتائے نہیں بٹنے  والا
بات جو کرتا ہے یوں عقل کے بٹوارے کی


جس سے لائے ہو ادھاری کا یہ چھلہ جھلے 
مجھ کو آئی ہے  شکایت اسی سنیارے  کی


یہ الگ بات کہ اب یاد نہ رہنے پائے
ہمتیں کس نے بڑھائیں تھیں تھکے ہارے کی


ہم نے آنکھوں میں لگائے تبھی بھر کر کاجل 
یاد آتی ہے کسی روز جو کجرارے کی



ہے ادھوری سی مگر پھر بھی مکمل نکلے
بات کرتی ہے جو حیران استعارے کی


جس جگہ بیٹھتے تھے ٹیک لگا کر اکثر
کتنی خستہ ہے وہ دیوار گردوارے کی


یہ زبان اب بھی تیرے ہاتھ کے پکوانوں کی
کر کے تعریف مزا لیتی ہے چٹخارے کی


دل کو آوارہ ہی رہنے دو نہ روکو اسکو
اس کی عادات ہیں جیسے کسی بنجارے  کی


اس کے منزل سے بھٹکنے کا اب امکان نہیں 
روشنی مل گئی ممتاز صبح تارے کی

۔۔۔۔۔۔



یہ جوان

آج کل کے جوان ہماری نہیں سنتے بس اپنی ہی کرتے ہیں 😲😲😲
دیکھیں تو ہر زمانے میں والدین اور اساتذہ کو ایسی ہی شکایات رہتی ہیں . وقت کیساتھ ساتھ یہ جوان جو ہوا کو مٹھی میں قید کرنے کے خیال میں پھدک رہے ہوتے ہیں اپنی ہوا نکلوا کر خود ہی لائن پر آ جاتے ہیں .😂😂😂
ممتازملک.پیرس

چھوڑ دینا آسان


صحیح کو کیوں چھوڑ  دیا جاتا ہے غلط کے لیئے ....
کیونکہ
چھوڑنا آسان جو لگتا ہے .اور قائم رہنا مشکل....
اور ہر انسان آسانی کے چکر میں ہی غلط کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے . اور ایک دن آتا ہے اسے وہ غلط ہی صحیح لگنے لگتا ہے .اسے کہتے ہیں ضمیر کی موت
ممتازملک . پیرس

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

دو سیانے


بقول سیانے آدمی کے ...
کہ کوئی حسین اور امیر  بڑھیا اگر ہو توعشق ضرور کیا جائے اس سے
بہت فائدہ ہوگا :)
اور بقول میرے ...
اگر بڑھیا خود ہی امیر ہو  تو...
اس نے گھاس ہی کھائی ہو گی اگر وہ کوئی دم چھلا کھاوں کھاوں اپنے ساتھ باندھے گی تو 😆😆😆😆
سوری ذاتی ریڈیو
ممتازملک

جمعہ، 11 نومبر، 2016

باپ کی کمائی


ہم سب اس بات کو مانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی رفتار ہم سے زیادہ تیز ہے اور اور ہمیں ان کا ہر انداز بھاتا بھی بہت ہے لیکن آخر اس ترقی کے راز ہے کیا ؟
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز تو یہ ہے کہ ہر بچے  کو (لڑکا ہو یا لڑکی چاہے صدر اور وزیر کی ہی اولاد کیوں نہ ہو)  تیرہ سال کی عمر سے سکول کی چھٹیوں میں ایک ہفتہ سے ایک مہینہ کہیں بھی خود نوکری ڈھونڈنی  اور کرنی ہوتی ہے . بنا تنخواہ کے ..اور اس کا آپ کے اخلاق، بات چیت، تہذیب، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی گویا ہر ایک نقطے پر ایک گواہی کا سرٹیفیکیٹ لینا ہوتا ہے .
اس کے بنا آپ اپنا سالانہ امتحان پاس نہیں کر سکتے .
اس سے ان بچوں کو اپنے والدین کی کمائی کی ویلیو  اور محنت کا احساس پیدا ہوتا ہے  ...
جبکہ ہمارے ہاں تو ماشااللہ 
          بھی    P H D 
   والدین کی کمائی پر ہو رہی ہے .  تو پھر ہم دنیا میں  خود کو ان کے برابر کیسے کر سکتے ہیں . کیونکہ ہمارے اور ان کے تجربات اور احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے .
ہمارے ہاں غریب لوگوں کے بچے زندگی میں  اکثر اپنا کوئی (ٹارگٹ) نشانہ بنا لیں تو مالدار لوگوں کی اولاد سے زیادہ بہتر انداز میں اسے حاصل  بھی کر لیتے ہیں  . اسکی وجہ بھی یہ احساس اور جذبہ ہوتا  ہے کہ انہیں محنت کرنا بھی آتی  ہے اور محنت کرنے  والوں کی قدر کرنا بھی آتی یے .
ویسے بھی جس انسان نے اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی محنت  ہی نہ کی ہو.  کبھی کسی محنت کے کام میں پسینہ نہ بہایاہو وہ کسی اور کے پسینے کو بھی جم کے پسینے سے زیادہ کی اہمیت کیسے دیگا .
اکثر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنی محبت کے مارے ہی بٹھا کر سست، کاہل  اور کام چور بنا دیتے ہیں . اور نتیجہ اس آرام طلبی میں وہ بہت آسانی سے بری عادات  کا شکار ہو جاتے ہیں . ظاہر ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ مصروفیت تو بہرحال  چاہیئے ہوتی ہے . تو جب یہ مثبت  مصروفیت آپ یعنی والین اسے مہیا نہیں کرتے تو ماحول ،صحبت  اور سنگت انہیں مہیا کر دیتی ہے . اور آپ تک یہ سب صورتحال جب تک پہنچتی ہے تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے .
سو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بے مقصد زندگی دینے کی بجائے محنت کرنے کے جذبے سے بھرپور صحت مند اور معاشرے کے لیئے فعال زندگی عطا کریں .
ورنہ کھانا پینا سونا جاگنا اور بچے پیدا کرنا تو دنیا کی ہر مخلوق جانتی ہے . انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا گیا ہے تو ہمیں اس بات کو  اپنی محنت  اور انسانیت سے ثابت بھی کرنا ہے کہ واقعی انسان اللہ کی بنائ ہوئی سب سے زیادہ شرف رکھنے والی مخلوق یے .
                     ................

تاجر یا رہنما

تاجر تب تک ہی تاجر رہے جب تک وہ حکومت کی کرسی پر منتخب نہیں ہوا تب تک تو زود ہضم ہے لیکن اس کرسی کے تشریف تک پہنچنے کے بعد اسے تجارت کرنے کا حق دینا گویا خود اپنی گردن پر خنجر چلانے کے مترادف ہے . کیونکہ دولت آزمائش ہے اور جو شخص پہلے ہی آزمائش (دولت کی) میں مبتلا ہو وہ قوم کا غم اور تکلیف کیسے دور کریگا.
ممتازملک .پیرس

عمر یا تجربہ

عمر یا تجربہ
ممتازملک. پیرس

پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
ممتازملک.پیرس

جمعرات، 3 نومبر، 2016

آیئے پیارے بلوچستان کی ترقی کے لیئے آواز اٹھائیں

جی ہاں  بلوچستان کے حالات بے حد تشویشناک بلکہ شرمناک ہیں  .
جہاں ستر سال سے سردار اور بگٹی اور کون کون سے نام وفاقی  حکومت سے بھاری بھرکم بجٹ وصول کرتے ہیں . اس پر عیشہ کرتے ہی . کبھی ایک ہی وزیر اپنے گھر میں کروڑوں کا خزانہ ساتھ لیکر سوتاہے . کوئی ریلوے کی پٹریاں یہ بیچ کر کھا جاتا ہے کہ یہاں کون سی ٹرین آتی ہے  . اس پہ طرہ یہ کہ لڑکیوں کے سکول بنانے  کو اس لیئے روایات  کا نام دیکر بننے سے روک دیا جاتا ہے کہ مزید غلام کون پیدا کریگا . زاتی جیلیں بنا کر پورا پورا خاندان اس اکیسویں صدی میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیئے جاتے ہیں ....
اف خدایا کیا کیا کریں اور  لکھیں . دل میں تو بیان تک کرنے کی تاب نہیں ہے .
بلوچستان کے عوام کیا انسان نہیں ہیں یا ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کارندوں کی رگوں میں کوئی خاص برانڈ کا خون بہتا ہے . خدا کا خوف کریں پلیز ..
ان لوگوں کی محبتوں کو مزید آزمائش میں مت ڈالیں ...
پیارا بلوچستان
ممتازملک
آیئے بطور پاکستانی اپنے پیارے بلوچستان کے لیئے آواز اٹھائیں ...
ممتازملک
اسے بھرپور شئیر کریں.اپنے کمنٹس بھی اس پر پوسٹ کریں .
سب سندھی پنجابی اور پختون بہن بھائی  اس وقت پیارے بلوچستان کے لیئے صرف پاکستانی بناکر آواز اٹھائیں . تاکہ ہم میں  کوئی کمزورنہ رہے . ہم سب ایکدوسرے کے لیئے اسی طرح باری باری مظبوط کندھا بن جائیں . اور قطرہ قطرہ سمندر ہو جائیں .
آیئے آواز اٹھائیں .
ممتازملک
ہم سب کا فرض ہے کہ ہم چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں بھرپور انداز میں بطور پاکستانی بلوچستان کی ترقی خصوصا تعلیم اور صحت کی سہولیات کے  لیئے آواز اٹھائیں اور اسے ایک مہم کی طرح چلائیں .
میں ایک پنجابی ہوتے ہوئے بطور پاکستانی اس مہم کا آج اور ابھی سے آغاز کرتی ہوں..
آیئے اپنے سوا کسی اور کے لیئے بھی آواز اٹھانے کی رسم ڈالیں.
ممتازملک

منگل، 1 نومبر، 2016

عمران خان چکر کیا ہے ؟


عمران خان کیا چکر یے ؟؟؟

دنیا بھر  میں کشمیری نوجوانوں سے اپنی آزادی اور الحاق پاکستان کی تحریک کو اپنا جوان خون پلایا ...ماوں کے دوپٹے کو  پاکستان کا جھنڈا بنا دیا ...بہنوں کی آبرووں کا صدقہ کر دیا اور دنیا نے ان کے خلاف منظم ہندوستانی دہشت گردی پر  آواز اٹھانا شروع کی اور ساتھ ہی خان صاحب نے پاکستان میں بدامنی کا ایسا بگل  بجا دیا کہ آج مہینہ ہونے کو ہے میڈیا ان کے پیچھے دم ہلا رہا ہے اور دنیا کو کشمیر کا قتل عام بھلانے میں جو کام مودی اپنی ساری مشینری کیساتھ نہ کر سکا وہ خان صاحب نے کر دیا . آج دنیا کو پھر سے کشمیر پوائنٹ یاد ہے نہ وہاں ہونے والی دہشت گردی 😲😲😲 ارے جاو جاو
کوئی اندر کی خبر تو لاو
آخر چکر کیا ہے
کیونکہ سنا ہے کہ
جو مودی کا یار ہے
غدار ہے غدار ہے
ممتازملک

جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

شام کا منظر / شاعری





اتنا اداس شام کا منظر کبھی نہ تھا 
آنکھوں میں اسکی درد کا ساگر کبھی نہ تھا
اس بار توڑ ڈالا محبت کے بوجھ نے
ورنہ تو اس سے پہلے وہ لاغر کبھی نہ تھا 
 (کلام/ممتازملک۔پیرس)



بدھ، 26 اکتوبر، 2016

بے رنگ بے محبت مگر کامیاب شادیاں

ایک کامیاب شادی کیا ہوتی ہے ؟
ایک کامیاب بیاہتا جوڑا کون سا ہوتا ہے ؟
ہم میں سے ننانوے فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وہ شادی ایک کامیاب شادی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ عرصہ  میاں بیوی نے ایک ہی گھر میں گزار لیا . یعنی دوسرے لفظوں میں جن کی طلاق نہیں ہوئی وہ بڑا خوشگوار اور کامیاب بیاہتا جوڑا ہے اور ان کی شادی بھی بڑی کامیاب شادی ہے .جبکہ حقیقت بلکل ہی عجیب ہے ایک تو یہ کہ ان کی اکثریت میں آپس میں پیار محبت نام کی کوئ چیز موجود د ہی نہیں ہوتی .
تو پھر ایک جگہ کیوں رہتے ہیں ؟
کسی کے بقول اب بچے ہو گئے ہیں اس لیئے ،
کسی کے بقول لوگ کیا کہیں گے،
اب بچے بڑے ہو رہے ہیں ،
خاندان میں دشمنی پڑ جائے گی،
وغیرہ وغیرہ وغیرہ
رہی بات طلاق کی  تو نہیں لینی. لیکن
کئی جگہ تو اس آپسی ناچاقی کا علاج ایک دوسرے سے بھرپور بےوفائی کر کے نکالا جاتا ہے .صاحب تو صاحب ان کی بی بی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی ہیں . یعنی صاحب کے نام کا ٹیگ بھی لگا رہے اور محبت کی کمی کا رونا کہیں اور جا کر  بھی نہ صرف رو لیا جائے بلکہ اس کی کمی کو پورا کرنے  کا ہر اقدام بھی اٹھا لیا جائے . حالانکہ کوئی ذرا سی عقل اور شرافت رکھنے والا بھی  یہ بخوبی سمجھ سکتا  یے کہ ایک باقاعدہ بیوی یا
  شوہر کے ہوتے ہوئے محبت کا ناجائز کھیل کھیلا  جائے تو یہ بیمار نفسیات کی علامت ہے . اس لیئے اگر وہ محبت کرنے والا اتنا ہی مخلص ہے تو طلاق لیکر اسے اپنا کیوں نہیں لیتا ؟
اور اگر وہ سچا نہیں ہے تو عورت یہ میٹھا زہر کیوں پھانک  رہی ہے ؟
جبکہ اس کا انجام سو فیصد تباہی ہے.خاص طور پر جب اپنے شوہر کے سوا کسے کا خیال دل میں بس جائے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا خبط سوار ہو جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کے معانی  ہیں کہ اپنے شوہر سے طلاق لیکر اسی دوسرے آدمی سے شادی کر لو ...
ورنہ دوسری صورت میں تباہی صرف عورت کا ہی مقدر بنتی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ..
رہی بات یہ ثابت کرنے کی کہ جس کے جتنے زیادہ بچے ہیں ان کی آپس میں اتنی ہی زیادہ محبت ہے تو یہ ایک بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے.
بچے پیدا کر لینا اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس جوڑے کے بیچ محبت بھی یے .
اس کا ثبوت کہ عورت کا ریپسٹ ایک بار کسی کو  بربادکر کے اس کی جھولی میں بچہ ڈال جائے تو کیا وہ د ونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے ؟
جبکہ دونوں میں ایک لٹنے والی تھی اور ایک لٹیرا تھا 😲
کسی بھی رشتے کو گھسیٹنے سے کہیں اچھا ہے کہ اس کو آر یا پار کر دیا جائے .
رہی بات بچوں کی تو بچے باپ کے پاس رہنے چاہیئیں . کیونکہ سوتیلا باپ  سوتیلی ماں سے کہیں زیادہ خوفناک کردار ہوتا ہے یا پھر ماں اس  صوررت میں اپنے بچے اپنے پاس رکھے جب وہ مالی اور معاشرتی طور پر ایک مضبوط حیثیت رکھتی ہے . اگر باپ یہ مضبوط حیثیت رکھتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو ان کی ماں کے ساتھ رہنے کی صورت میں بہترین نان  نفقہ  بخوشی ان کے تعلیمی اخراجات اور شادی بیاہ تک ادائیگی کرتا  رہے تو بھی یہ بچے محفوظ ماحول میں پل سکتے ہیں . اور ان کی ماں کو دوسری  شادی نہ کرنے کی بلیک میلنگ کسی طور پر نہیں کرنا چاہیئے . تاکہ وہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے . کیونکہ اس کا ایسا کرنا بھی آپ کے ہی بچوں پر اثرانداز ہو گا .
اور بچوں نے اپنے اپنے راستے ہو لینا ہوتا ہے.جبکہ عورت ان سے لپٹ کر ساری عمر کی خواری  اپنے نام کروا لیتی ہے .
ممتازملک

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

گفٹ یا بھتہ ۔ کالم






ہمارے گھرون مین زیورات خریدنے اور پہننے کی شوقین آبادی کی تو کوئی کمی نہیں ہے لیکن جب بات آتی ہے اس سونے پر یا زیورات پر زکوات ادا کرنے کی تو گھروں میں جھگڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ساس اور شوہر کا حکم ہوتا ہے کہ خاتون اس زیور کی مالک ہے تو وہی اس پر اپنے پاس سے زکواتہ ادا کرے ۔ اب وہ خاتون اپنی کو ذاتی کمائی کا ذریعہ نہیں رکھتی تو اسے کیا کرنا چاہیئے تو ظاہر ہے اپنے زیور میں سے ہی چاہپے کوئی چیز بیچ کر ہی اس کی ذکواتہ ادا کرے لیکن بیچنے کی بات پر اس شوہر اور اس کی امان ہی ولن بن کر کھڑے ہو جائیں گے کہ خبردار تمہاری کیا جرات ہے کہ تم اس زیور کو ہاتھ بھی لگاؤ ۔ بیچنے کا تو سوچا بھی کیسے ۔ 
اگر وہ خاتون جاب کرتی ہے اور اپنی تنخواہ میں سے اس کی زکواتہ ادا کرتی ہے تو بھی میاں جب چاہے وہ زیورات اٹھا کر کبھی کاروبار کے نام پر اور کبھی قرض کی ادائیگی کے نام پر اس سے پوچھے بیچ آتا ہے . اور اگر کبھی پوچھے بھی تو حکم دینے کے انداز میں اس سے چھین کر بیچ آئے گا ۔ ہر دوسرے چیز کے طعنے کی طرح کہ یہ میرا مال ہے تم کیا اپنے باپ کے گھر سے لائی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایسے زیور کو خاتون کے حوالے کرنا اور اسے مالک قرار دینا اور پھر جب چاہے چھین لینا یہ کون سی ملکیت ہے ؟
اللہ پاک فرماتا ہے کہجو کچھ ایک مرد اپنی بیوی کو دیتا ہے وہ اس جانب سے اس کا تحفہ ہے اور وہ تحفے واپس لینا اس آدمی کی شان کے خلاف ہے ۔ 
تحفہ اس کی ملکیت ہوتا ہے اور ملکیت وہ چیز ہوتی ہے جسے انسان جیسے چاہے استعمال کر سکے ۔ اسے استعمال کرے ، کسی کو دیدے ، پھینک دے ،بیچ دے یہ سب اس کے اختیارات میں شامل ہوتا ہے ۔
گفٹ تب ہوتا ہے جب کوئی چیز آپ کی ملکیت اور استعمال میں ہو . اور آپ کے حالات آپ کو اجازت دیں کہ اس چیز کے دینے سے آپ کی ضروریات پر کوئی اثر نہیں پڑتا . وگرنہ اپنے بچے بھوکے ہوں تو گفٹ تو کیا آپ کی دی ہوئی تو خیرات بھی خدا کو قبول نہیں . کیونکہ
اول خویش بعد درویش
دوسری  بات
تحفہ اپنی خوشی سے دیا جاتا ہے اور جو دوسرے کے دھمکانے اور مجبور کر کے دینا پڑے اسے بھتہ کہتے ہیں
اور بھتہ لینے والے کو صرف گالیاں اور بددعائیں ملتی ہیں محبت نہیں ...
ممتازملک

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

زندگی کیا ہے ۔ سراب دنیا












زندگی کیا ہے....


کسی تتلی کے پر جیسی
بہت رنگین اور نازک
ذرا سا ہاتھ لگ جائے
 قضاء کا
اور
 قضاء ہو جائے 
یک دم سے 
          (کلام/ممتازملک. پیرس)




بدھ، 28 ستمبر، 2016

کرتب ۔ سراب دنیا


کرتب 


کرتب 

یا مدارت مانگتی ہے 
یا حقارت مانگتی ہے 

آرزووں کے نگر میں 
شدھ بصارت مانگتی ہے 

زندگی کرتب نہیں ہے 
یہ مہارت مانگتی ہے

دل اگر بوجھل بہت ہو 
اک شرارت مانگتی ہے

خون رگ جمنے لگے تو
پھر حرارت مانگتی ہے 

کوئی حق تلفی کہیں ہو 
بس جسارت مانگتی ہے

زندگی ممتاز تجھ سے
اب صدارت مانگتی ہے 

ممتازملک. پیرس
.............


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/