ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 26 دسمبر، 2016

نصاب،درسگاہ اور استاد۔ کالم


        نصاب ،درسگاہ اور استاد
تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے .
لیکن جس گود میں یہ آنے والے وقت کے بچے پلنے ہیں اس بچی کے پیدا ہونے سے لیکر صاحب اولاد ہونے تک خود وہ بچی کن کن امتحانات سے گزاری جاتی ہے اور کیسے پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنا ضروری  نہیں سمجھتا . کہنے والے نے پھر بھی کہا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی قوم دونگا "
لیکن  پھر بھی ہم ایشیائی   یا جنوبی ایشیا اور افریقہ کی عورت کو پیدائش کے بین اور بچپن کی گھرکیوں اور ٹھڈے جبکہ جوانی کا ایک جبری رشتہ بطور شوہر کے ہی ملا ...
اب اس جبری رشتے سے پیدا ہونے والی نسل کو کون کس خیال سے پروان چڑھائے گا یہ اندازہ  ہمارے معاشروں میں پھیلے ہوئے بے ترتیب، بے ڈھنگی، زندگی گزارتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ  کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ...
پھر اس پر یہ غضب بھی ڈھایا گیا کہ جو کام حکومت کے ذمے تھا کہ اچھی قوم بنانے کے لیئے ان بچوں کو اچھا سکول سسٹم ،اچھا متناسب یکساں تعلیمی نصاب ، خوشگوار اور کارآمد تعلیمی ماحول ،مہربان ، شفیق اور قابل اساتذہ، پر اعتماد ہنر مند مستقبل ،
فراہم کیا جائے.  لیکن حکومتوں کی بے پروائی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تعلیم کو کمائی کی انڈسٹری بنانے کی سوچ نے ہماری پوری نسل کو ایک چابی کا ٹٹو بنا دیا. نہ انہیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز ہے ،نہ ان میں مطالعے کا شوق ہے،نہ انہیں کوئی باخبر رہنے اور معلومات عامہ سے کوئی لگاو ہے  .اور کچھ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا ہی دنیا بھر کے علم کا نعم البدل لگتا ہے .

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ 80ء اور 85ء کے سن میں اگر 1100 میں سے بھی کوئی آٹھ سو نمبر لے لیتا تھا تو سمجھ لیں کہ سارے زمانے کا علم اور قابلیت اس کے پاس ہوتی تھی . اور آج جسے پوچھو وہ گیارہ سو میں سے پانچ یا دس نمبر کم لیکر ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ
اقبال کا مزار کہاں ہے؟
یا
قائد اعظم کا اصل نام اور جائے پیدائش کہاں ہے ؟
تو جانئے جیسے ان سے جانکنی کے لمحات کی تفصیل پوچھ لی گئی ہو ...
کبھی ان سے جاں کنی کے مطلب پوچھ کر دیکھیئے گا ...
 سو واضح رہے کہ والدین کو پرورش کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی جانتے ہوں گے کہ 
بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف وہ والدین ہی اچھی کر سکتے ہیں جن کی اپنی پرورش محبت، سچائی اور اعتماد کی فضاء میں ہوئی ہو ...
ورنہ دوسری صورت میں انہیں  اپنے خوف، اپنے درد چھپا کر اور دبا کر اپنے بچوں کو  پروان چڑھانا ہوتا ہے .سو ان کے ہاں بھی اپنا نفسیاتی معائنہ اور رہنمائی لینا بے حد ضروری ہوتا ہے ...
اب یہ سب ہونے کے  بعد باری آتی ہے اساتذہ کی .
کیا وہ اتنے اہل ہیں؟ کیا وہ  پروفیشنل ٹیچنگ کے عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ؟
سفارشی لوگ اور نوکری کہیں  نہیں ملی تو " چلو استاد بن جاؤ " کی سوچ رکھنے والے لوگ استاد کے نام پر دھبہ ہیں .
تیسری بات ہمارا نصاب جسے ازسر نو معنی اور مطالب کیساتھ ایک جیسا مرتب کرنا ہو گا . جو نیچے سے اوپر تک ہر بچے کے لیئے ایک سا ہو ،تبھی اس قوم میں یک رنگی اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے .
سو یہ نصاب کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسا بدن میں خون کا کردار ..
تو جب خون ہی فاسد ہو جائے تو اس بدن کو کیا تقویت دیگا، بلکہ  اسے موت تک لیجائیگا .اصل بات یہ ہی  ہے کہ 
دینی تعلیم کے لیئے سب سے بڑا نصاب تو ہمارے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجے سجائے جلدان میں موجود ہے جناب ..
قرآن سے بڑا بھی کوئی نصاب ہو گا کیا؟ ...اور پھر احادیث کے لیئے صحیح مسلم و بخاری سے زیادہ کوئی مستند کتابیں نہیں ہیں ..
ہمارے ہاں اول تو مذہب کے ان ہی حصوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے پیش کرنے والے کو اپنا کوئی مفاد اس میں نظر آئے. اس سلسلے میں پیش کرنے والے کو اپنے مطلب کی کوئی بات نہ ملے تو گھڑ کر سنانے میں بھی کوئی شرم حیا انہیں بلکل درکار نہیں ہے . اس لیئے کوئی بھی حدیث پاک یا آیات مبارکہ سننے کا موقع ملے تو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے . اور جو بات فطرت سے ٹکرائے گی . وہ ہمارے دین کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی . اسی لیئے
بہت سے واقعات مذہب کے نام پر گھڑے گئے ہیں . لوگوں کی عقیدت اور اندھے اعتقاد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کے لئے انہیں ہر مذہب میں آلہ کار بنایا گیا ہے ..
لیکن یہ مشکل صرف اسلام کی نہیں ہے.
دنیا کے ہر مذہب کے ٹھیکیدار نے یہ کام کیئے ہیں اور دھڑلے سے کیئے ہیں ...

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نام پر ایک الگ ملا مافیا کام کر رہا ہے اور جدید تعلیم اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگ دو سسٹم نہیں بلکہ چکی کے  دو پاٹوں میں پس رہے ہیں .
سرکاری سکولوں کو ہی دینی تعلیم کا پیریڈ رکھنا چاہیئے . اور ہنڈی  کرافٹ اور دستکاری کے پروفیشنل اساتذہ کیساتھ سکول کے آخری دو گھنٹے مخصوص کیجیئے .
اور سب سے اہم بات دین کا مذاق بند کر کے اپنے گھر کا سائیں بچہ اللہ کی راہ پر زبردستی لگا کر طالبان اور داعش پیدا کرنے کی بجائے . کم از کم میٹرک کے بعد دین کا شوق رکھنے والے بچے اور بچی کو اس راہ میں پڑھائی پر لگایئے . تبھی ہم اچھے مسلمان کی اصطلاح سے انصاف کرنے کا سوچ سکیں گے .
جس انسان کو دنیاوی علم سکھا دیا جائے ہنر سکھا دیا جائے . جس سے وہ عزت سے روزی کما سکے اور اپنی کنبے کو پروان چڑھائے تو اس کے ہر لقمے پر اس تعلیم کا انتظام کرنے اور کروانے والے کے لیئے بے شمار صدقہ جاریہ کا وعدہ ہے . بیشک اللہ پاک  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/