ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 27 فروری، 2013

کیا تارکین وطن مجرم ہیں ؟ / کالم


 کیا تارکین وطن مجرم ہیں؟
       (ممتازملک ۔پیرس)
اپنی ساری زندگی اپنوں کی خاطر اپنے پیاروں سے دور رہنے والوں نے کیا کیا دکھ نہ جھیلے ۔کسی
نے اپنے ماں باپ کے جنازوں کو کندھا نہ دیا تو کسی نے بہنوں کی ڈولیاں بھی نہ رخصت کیں ۔
کسی نے بھائیوں کے مستقبل کے لیۓ خود کو مشقت کے ہل میں بیل کی طرح جوت لیا ،
تو کسی نے بیوی بچوں کے آرام کے لیۓ خود کو انہیں کی نظروں میں اجنبی بنا لیا ۔
اور تو اور جہاں اپنے لوگوں کےلیۓ مذید کچھ اچھا کر سکنے کی امید نظر آئی تو اپنی ہی پیاری
زمیں کے نام کے ساتھ ایک اور مُلک کی وفاداری تک ساتھ لگانے کا حلف اٹھا لیا ۔
دیکھیۓ تو یہ سب سننے میں کتنا آسان لگتا ہے لیکن بھگتۓ تو یہ اپنے ہی دل پر پاؤں رکھ کر کھڑا
ہو جانے کے برابر ہی اقدام ہے ۔اس زمانے میں کہ جب ایک ہی ملک سے وفاداری
نبھانا پاکستانیوں کے لیۓ بہت مشکل لگتا ہے ۔ وہاں یہ تارکین وطن دو ، دو ملکوں کے ساتھ
وفاداری نبھا رہے ہیں ۔کسی اور ملک کے لوگوں نے اپنے ملک کے لیۓ اس سے آدھا بھی کیا
ہوتا تو وہ لوگ انہیں اپنا ہیرو بنا لیتے ۔لیکن بھلا ہو پاکستان کے سب سے بڑے منصف کا کہ
جس نے ایک ہی وار سے تارکین وطن کو بد نییت ، غدار اور جانے کیا کیانام دیدیا ۔ افسوس
صد افسوس اسی پاکستان کے یہ لٹیرے لیڈر جب مصیبتوں میں بھیک مانگنے کے لیۓ انہیں
تارکین وطن کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیۓ دورے کرتے ہیں ۔ان کو پاکستان ، پاکستان کا بھوں
بھوں سناتے ہیں،  اس وقت جب انہیں تارکین وطن کی منتیں کی جاتی ہیں۔ کہ بھوکے مر گۓ ہیں،
خودکھاؤ نہ کھاؤ ہمیں کھلاؤ ، تب انہیں شرم نہیں آتی ، لیکن جب ان سے راۓ دینے کا حق مانگا
جاتا ہے، جس ملک میں اپنے خون پسینے کی کمائی بھیجی جاتی ہے ، وہاں کے معاملات میں حصہ
لینے کا حق مانگا جاتا ہے ، تو بڑی ہی بے حیائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آپ کون ہوتے
ہیں یہاں کے معاملات میں دخل دینے والے ؟ یہ ہی وہ نمک حرامی کی صفت ہے کہ جس
کی وجہ سے پاکستانی بیرون ملک اپنی کوئی عزت بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی
قانون سازوں کو قوانین بناتے ہوۓ اپنی عقل کے گھوڑے بھی دوڑا لینے چاہیئں تاکہ
آپ کو پتہ چلے کہ جس ملک کی روزی روٹی کےاتنے بڑے حصے کا انحصار تارکین وطن کے خون
پسینے پر ہو وہ انہیں آنکھیں نہیں دکھایا کرتے ۔پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی حکومت
پاکستان کی ذمہ داری ہیں کہ وہ انہیں روزگار ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرے ۔ملک سے باہر رہنے والے اگر ان کی مالی امداد کا سلسلہ بند بھی کر دیں تو دنیا کاکوئ قانون انہیں اس بات
پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے خاندانوں کو سپورٹ کرنے کے نام پر پاکستانی بینکس کو بھرنے کا کام کریں ۔
کیوں کہ کوئی بھی شخص جہاں رہتا ہے وہیں اپنی زندگی کو مینج کرتا ہے ۔ یورپ میں دو ، دو کمروں کے
فلیٹ میں رہنے والوں نے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کو کروڑوں روپے کے گھر بنا کر دیۓ ۔
دکانیں خرید کر دیں ۔ کاروبار کروا کر دیۓ ۔ ٹرانسپورٹ ، پٹرول پمپس ۔ میرج ہالز ، سکولز ،
کالجز ،ٹیکسٹائل ملز ، امپورٹ ایکسپورٹ ، پراپرٹیز اور جانے کس کس شعبے میں
انویسٹمنٹ کر کے پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا ہے ۔
ٹھیکیدارو ۔۔۔۔۔۔۔
زرا اپنے اردگرد نظر ڈالو تو پتہ چلے کہ کماؤ پوتوں کے ساتھ بات کرنے کے آداب کیا ہوتے ہیں ؟کیوں کہ
سگی ماں بھی کمانے اور گھر چلانے والی اولاد کو اپنی نکمی اولاد پر ہمیشہ فوقیت دیتی ہے ۔لیکن ہمارے
ہاں معاملہ یہ ہے کہ نکمی اور لٹیری اولاد گھر کے بارے میں فیصلے کر رہی ہے اور کماؤ اولاد کو گلے میں پھندا لگانے اور منہ پر ٹیپ لگانے کا حکم دیدیا گیا ہے۔ یا پھر یہ سب کرنے اور انہیں عزت
دینے کا حوصلہ نہیں ہے ، تو جرٔات کر کے ان تارکین وطن کا پیسہ کھانے سے بھی
انکار کر دیں انہیں اپنی پراپرٹیز بھی یہاں سے بیچ کر غیر ملکی قرار دیےدیجیۓ ۔
تاکہ جب وہ پاکستان آئیں تو غیر ملکیوں کی طرح ہی آئیں اور انہیں کی طرح اپنے رائٹس
بھی استعمال کریں ۔کم از کم کوئی بھرم تو نہ رہے پاکستانیوں اور ان
تارکین وطن غیر ملکیوں کے بیچ ۔
،،،،،،،،،،،،،،




جمعرات، 21 فروری، 2013

واہ چیف جسٹس صاحب


 واہ چیف جسٹس صاحب
ممتازملک ۫۔ پیرس
کیا بات ہے آپ کی ۔کہاں تو کسی ایک بھی شخص کے لیۓ آپ سوووموٹو ایکشن لیتے نہ تھکتے تھے اور کہاں اٹھارہ کروڑ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اُٹھے ہوۓ نکات کی اہم ترین پٹیشن کو آپ نے سننا تو کیا گوارہ کرنا تھا ۔الٹا یہ بات لانے والے ہی کو بدنیت ، بےایمان اور ،، آپ ہوتے کون ہیں ،،کہہ کر خود کو ایک بہت بڑی اور شاطرانہ گیم کا حصہ بھی بنا لیا ۔ چیف صاب کیا آپ بھی یہ بھول گۓ کہ کون کہہ رہا ہے سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی ہمارا مجموعی قومی المیہ ہے کہ ہم آج تک یہ بات سمجھ ہی نہیں سکے کہ بات اہم ہوتی ہے مقاصد اہم ہوتے ہیں نا کہ کون اور لوگ ۔ ڈوول نیشنیلٹی کا بہانہ بنا کر آپ نے ان لاکھوں لوگوں سے بات کرنے کا حق ہی چھین لیا ۔ جنہوں نے اپنی نسلیں اس ملک کے لیۓ زر مبادلہ کمانے کے لیۓ قربان کر دیں ۔ آپ نے علامہ صاب سے یہ اس وقت نہیں پوچھا جب علامہ صاب ایک ایک پروجیکٹ پر کروڑوں روپیہ لگا رہے تھے ۔ اور لگا رہے ہیں ۔ جب یہ ہی علامہ صاحب دینا کے ایک سو نو ممالک میں پاکستانیوں کو متحد کر کے انہیں پاکستان کے قریب رکھنے کا جرم کرتے رہے ہیں ان کے دلوں میں اپنے پاکستان اور وہاں رہنے والوں کو اپنا بہن بھائ کہہ کر ان کے لیۓ سینکڑوں سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز ، ہاسپٹلز ، جہیز فنڈز ۔ یتیم خانے اور کیا کیا کچھ ان تارکین وطن کی فنڈنگ سے بناتے رہے ۔تب کسی نہیں پوچھا یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ، کون کس کا ایجنٹ ہے ۔ یا کس کے کیا مقاصد ہیں ، یا یہ تو ہمارے حکومت کا کام ہے آپ کیوں کر رہے ہیں اب جب ایک عام پاکستانی کے حقوق کے لیۓ آواز اٹھانے کی کوشش کی گئ اور پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والے65 سالہ دھوکے کا پردہ چاک کرنے کے لیۓ کوشش کی گئ تو آپ نے وہ آواز ان لٹیروں کو خوش کرنے کے لیۓ سنے بنا ہی دبا دی ۔ جو ملک کو جونکوں کی طرح چوس چوس کر قریب المرگ کر چکے ہیں کوئ بھی پٹیشن رد کرنے کا آپ کو پورا پورا حق ہے لیکن اتنے اہم قومی معاملے کو نہ سننا ضرووووووووور خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے ۔کتنے ہی مواقع پر آپ کے فیصلوں کی کھلی اڑائ گئ لیکن عوام آپ کے ساتھ کھڑی رہی ۔ لیکن اب جبکہ عوام کے لیۓ کچھ سب سے اہم کرنے کا وقت آیا تو آپ نے انتہائ بچگانہ رد عمل دکھا کران کروڑوں پاکستانیوں کو مایوس کر دیا جنہوں نے اس ملک میں آپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا تھا نہ صرف یہ بلکہ آپ نے اپنی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی ۔کبھی آپ کو گیلانی آرڈر مان کر نہیں دیتا ۔ تو کبھی راجہ رینٹل کی گرفتاری کا حکم آپ کے فیصلوں پرآپ کی گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سب باتوں کے باجود آپ کے فیصلوں کا احترام کرنے والوں کو بھی آپ نے مایوس کر دیا ۔کیوں اور کس کے اشارے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی وضاحت تو بس آپ ہی کر سکتے ہیں ۔ یا تو اپنے اس اقدام کی وضاحت کیجیۓ یا پھر تارکین وطن کو بھی بہاری قرار دے دیجیۓ ۔ کیجیۓ کچھ تو کیجیۓ ۔
جو آپ کو آسان لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 فروری، 2013

کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا / کالم


کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
(ممتازملک۔ پیرس)



ایک عجیب سا طوفان بدتمیزی بپا ہے کہ جس کا کوئ سر پیر نہیں ہے کوئ جان کر خود کو زیادہ ہی عزت دے رہا ہے تو کوئ جانتے بوجھتے ہوۓ کسی کی عزت کو کم کرنے کے لیۓ سارا زور لگانے میں مصروف ہے ۔ ابھی پچھلے کئ دنوں سے ہم نے نیا آرٹیکل لکھنے کے بجاۓ دوسروں کا لکھا پڑھنے میں وقت گزارا ۔ کئ باتیں بہت ہی کھٹکتی رہیں ۔ جس پر آج ہمہیں سوچنا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بات کرتے ہوے معلوم ہونا چاہیے ایک مولوی ، مولانا ، اور سکالر کا فرق ۔ یہان بار بار لفظ مولانا کی گردان کی گئ جو کہ لکھنے والے کی معلومات کا گراف بتاتی ہے ۔ دوسری بات کہ علامہ صاحب نے ملٹری کو دخل اندازی کی دعوت دی۔ تو یہ بھی غلط اندازہ ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج اس ملک کی سلامتی کی زمہ دار ہوتی ہے اسی کے پیش نظر علامہ صاحب کا یہ مطالبہ پاکستان جیسے ملک کےحالات میں ایک بہت ہی ضروری نقطہ ہے جسے نظر انداز کرنا انتہائ بڑی حماقت ہو گا ۔ کیوں کہ پاکستان کے الیکشن کے زمانے کو قریب سے دیکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیسے ان پڑھ لوگوں کے ساتھ پولنگ بوتھ میں انہی پارٹیز کے جیالے متوالے زبردستی سٹیمپس لگواتے ہیں ۔ کیسے انہین دھمکایا جاتا ہے ۔
کیسے بھرے ہوۓ ڈبے لاکر پولنگ سٹیشنز پر بدل کر من چاہا امیدوار جسے چاہے اپنے گھر کے لوگ بھی ووٹ دینے کے روادار نہ ہوں بھاری کامیابی سے جتا دیا جاتا ہے۔ اس میں مرے پہ سو درے والا حساب ہو جاتا ہے کہ انہیں کرپٹ سسٹم کے ہی ٹھیکیدارو ں میں سے ہی لوگوں کو اٹھا کر انہی کی نگرانی میں الیکشن الیکشن کھیلا جاۓ ۔ جب کہ پاکستان کو اس نام نہاد جمہوریت نے جس طرح گوڈے گوڈے قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے وہاں ہم انہیں کے چیلوں کی زیر نگرانی مزید ایسے ہی الیکشنی خودکشی کی متحمل کسی طور بھی نہیں ہو سکتے ۔ اس کے لیۓ ضروری ہے کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں منعقد کرواۓ جاۓ اور ا سے ے تک تمام لوگوں کو برخواست کیا جاۓ ۔ تبھی صادق اور امین لوگوں کو لا کر ایک عبوری حکومت تشکیل دی جا سکےگی ۔ اب وہ حکومت اپنا کام 90 دن میں کرے یا 190 دن میں اس سے زیادہ اہم پاکستان کی سلامتی ہے ۔ کیا ہم 2، 4 مہینے کرسی پر جلدی بیٹھنے کی قیمت پاکستان کی سلامتی کی شکل میں دینا چاہتے ہیں یا پھر ایک باقاعدہ سسٹم کے تحت ہمیشہ کے لیۓ چوروں کے آنے کا راستہ بند کر کے آئندہ کے لیۓ ایک منظم طریقہ دے کر اس کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیں گے ۔ اس وقت پاکستان نام کے مریض کو وقتی بیہوشی کی نہیں ایک نیٹ اینڈ کلین آپریشن کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے اندر کے تمام ناسور کاٹ کر اسے حقیقی صحت کی جانب لایا جا سکتا ہے ۔ اور یہ علاج ملٹری کی نگرانی کے بغیر قطعی ناممکن ہے ۔ فوج بھی ہمارے ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور اسکے تمام اراکان اسی معاشرے میں اپنے خاندانوں سمیت رہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ سب ہم سب سے کہیں زیادہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور بہادر و وفادار ہیں ۔زرا سوچیۓکہ آج ھی زرداری ٹولہ 5 سال کی عیاشی کے بعد جاتے جاتے ایسے قوانین کیوں بنوا رہا ہے کہ کئ محکموں میں آج 5 سال گزار کر بھرتیاں کھولی جارہی ہیں ایسے قوانین بنواۓ جا رہے ہیں جو اگر اپنی حکومت میں بنواۓ گۓ ہوتے تو کہیں انہیں اس پر عمل کر کے اپنے خزانے کم نہ کرنے پڑ جائیں ۔ ایک بھی میگاواٹ بجلی نہ پیدا کرنے اور اربوں روپیہ ملک سے باہر بھجوانے کے انعام کے طور پر ایک راجہ رینٹل کو وزیر اعظم کا منصب بادشاہ سلامت کی جانب سے تحفے میں عنایت کر دیا جاتا ہے ۔ اور جاتے جاتےاسی بجلی کے پیداواری منصوبوں کے فیتے کاٹے جارہیےہیں ۔ ان سے کوئ یہ نہیں پوچھتا کہ اچکو 5 سال میں آتے ہی یہ فیتے کاٹ لیتے تو ابھی تک ہم بجلی میں خود کفیل ہوتے لیکن پھر سوئس بینک کون بھرتا ۔ آج فیتہ کاٹ کاٹ کر کبھی لاشوں پر لوگوں سے بھیک مانگ کر ووٹ لیاجانا ہے اب انہیں فیتوں کی تصویریں کیش کرواۓ جانے کی تیاری ہے ۔کل کی آنے والی حکومت اگر یہ منصوبے روکے گی تو ہم شہید کہ ھا ھا ہم نے تو سب کچھ کیا آنے والوں نے آکر ملیامیٹ کر دیا لو جی ہم شہید سیاست ۔ اور اگر کسی حکومت نے اسے پورا کرنے کا نیک کام کر لیا تو ہم کہیں گے کہ دیکھا یہ ہمارا وائیدہ تھا جو ہم نے پورا کیا تھا ۔ جو ہم نے شروع کیا تھا ۔ لہذا اب بھی ہم ہی سیاسی فاتح ۔ خدایا کیا کھلا دھوکہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب پاکستانی قوم کو یہ بات سمجھ جانی چاہیۓ کہ فیتے کاٹنے والے ہیرو نہیں ہوتے بلکہ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کر کے عوام کو اس کا فیض پہنچانے والے اصل ہیرو اور عوام دوست ہوتے ہیں ۔ لہذا اب رنگین وعدوں اور بلیک میلنگ والے نعروں کے دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔ ہمیں یہ فیصلہ ابھی سے کرنا ہے کہ ووٹ ضرور دینا ہے اسے دینا ہے جو ہمارے علاقے میں نیک نامی اور ایمانداری میں شہرت رکھتا ہے ، جو ہم میں سے ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو ۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ہی پارٹیز کو بھی نیک اور ایماندار کارکنوں کی قدر ہو گی اور اگلے الیکشن میں وہ انہیں ٹکٹ دینے پر بھی مجبور ہوں گے۔ اب پاکستانی کسی کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ دیں ۔ اور جو لوگ اپنے مخصوص شہروں میں ہی سیاست کرتے رہیں ہیں انہیں وہیں تک رہنے دیا جاۓ کیوں کہ وہ اس سے زیادہ کے قابل ہی نہیں تھے ۔ ورنہ جہاں تک کے علاقے ان کی ذمہ داری میں آتے تھے انہیں میں اتنا بہترین کام دکھاتے کہ آج انہیں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑنے کی نوبت ہر گز پیش نہ آتی ۔ آئۓ سب مل کراپنے اپنے حصے کی عملی کوشش بھی کریں اور دعا بھی تاکہ خدا پاکستان کی حفاظت فرماۓ۔ آمین
                  ۔۔۔۔۔

منگل، 29 جنوری، 2013

شکر گزار ہونا

Add caption

[3شکر گزار ہونا
میں نے سیکھا ہے کہ
ہمیں زندگی میں اُن لوگوں کا تو شکر گزار ہونا ہی چاہیئۓ
جو زندگی میں ہمیں ہمارا ہاتھ پکڑ کر کچھ کرنا سکھاتے ہیں
کسی قابل بناتے ہیں اور ہمارے مددگار ہوتے ہیں ؛
لیکن
ہمیں اُن لوگوں کا تو اور بھی زیادہ شکر گزار ہونا چاہیۓ
جنہوں نےہمیں گرانے کی ؛جھکانے کی؛ ہرانے کی کوششیں کیں
کیوں
کیوں کہ ان کے کانٹے بچھانے پر ہی تو آپ نے کانٹے چننا سیکھا
ان کے رکاوٹ ڈالنےکی وجہ سے ہی تو آپ نے رکاوٹوں کو پار کرنا
سیکھا؛رکاوٹوں کی دوڑ کو دوڑنا ہی نہیں جیتنا بھی سیکھا؛
اسے جیتنے کا حوصلہ کیا۔
ایک لمحے کو سوچیۓاگریہ رکاوٹیں ڈالنے والے نہ ہوتے تو حضرتِ انسان
کیا کرتا۔کیسے ہار کے بعد جیت کا مزہ لیتا؛کیسےآنسوؤں کے بعد
ہنسی سے لطف اندوز ہوتا۔ خزاؤں میں پتّے گرتے ہیں
تو نئ کونپلوں کے پھوٹنے کی امیدبھی تو پیدا ہوتی ہے نا۔
اسی طرح ہرانے والا آپ کو جیتنے کا نیا جزبہ بھی
عطا کرتا ہے۔چاہے آپ اسے ضد کہیں یا حوصلہ جو بھی ہے
ieyہمیں شکر گزار تو ہونا چاہ
تحریر۔ممّتازملک

پیر، 14 جنوری، 2013

اٹھو ملک بچانے نکلو / ممتازملک ۔ پیرس


اٹھو ملک بچانے نکلو
ممتازملک ۔ پیرس

جنازے سڑک پر رکھے لوگ اس بات کا انتظار کریں کہ کوئ مسیحا آۓ اور ہمارے آنسو پونچھے ، ہمارے سر پر ہاتھ رکھے ۔ ہمارے زخموں پر مرہم رکھے ۔ کون آرہا ہے ، کون آیا ۔ کون آۓ گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ نہیں ، کوئ نہیں ، کوئ نہیں ۔
اسی کو تو ہم رو رہے ہیں ۔ طاہرالقادری صاحب پر انگلیاں اٹھانے والوں کو شرم کرنی چاہیۓ ۔ ملک کے کس حصے میں امن ہے سکون ہے ، روٹی ہے ، بجلی ہے ،حفاظت ہے ۔ جنازوں پر رونے والوں کے لیۓ آنسو پونچھنے کا وقت نہیں ، رحمان ملک ہوٹلوں میں عیاشیاں کرنے میں مصروف ہے ، زرداری نے بے غیرتی کا ورلڈ ریکارڈ توڑتے ہوۓ بلاولی بنکر میں پناہ لی ہوئ ہے، رینٹل وزیر اعظم بونگیاں مار رہا ہے محل میں میں بیٹھ کر ۫ ۔ کوئ لاشیں لیۓ خون جما دینے والی سردی میں آہ و فغاں کر رہا ہے ۔ جوان لڑکیاں مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں اشکبار نگاہو ں سے آسمان کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ الہی کیا ہمارا کوئ پرسان حال ہے ۔ کیا ہم اپنے ہی ملک میں ہیں ۔ آج امریکی ایجنٹس نے امریکی ایجنڈہ پورا کرتے ہوۓ ملک کو سن 47 کے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ۔ آج لٹیروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ ڈوب مرنے کے بجاۓ ہر اس شخص کو بیرونی ایجنٹ کہنے میں اپنا زور صرف کر رہا کہ جو بھی اس ملک کے پسے ہوۓ عوام کے لیۓ آواز اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے بکاؤ لوگ اپنی قیمت کھری کرنے میں مصروف ہیں ۔ مرہم رکھنے والے ہاتھ مرچیں لیۓ گھوم رہے ہیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے بڑے کروفر کے ساتھ اپنے پانچ سالہ عیاشانہ دور کے مکمل ہونے پر جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں گویا روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے ۔ اور کتنی دیر ہے کہ جس کے بعد یہ تحت اکھاڑے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے ۔اب آگیا وہ وقت مذید انتظار کی گنجائش ختم ہو چکی ہے ہر بولنے والے کی آواز کو دبانے کو ہر اوچھا ہتھکنڈہ اپنا کر اپنے بےایمان اور چور ہونے کا اعلانیہ اظہار کر دیا گیا ہے ۔ فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر دوسرا گروپ کھلم کھلا قومی خزانہ لٹا کر اپنے زہنی عیاش ہونے کا ثبوت دیۓ جا رہا ہے ، اور اپنی باری کے انتظار میں ایک جوکر کو عوام میں   قلابازیاں لگانے کے لیۓ رحمان ملک کے نام سے چھوڑ دیا ہے ۔جب کہ وقت خود ہر جرم کا نشان اسی جوکر کے گھر کی جانب لے کر جا رہا ہے ۔ اب بھی اگر کوئ یہ سوچ کر گھر میں دبک کر بیٹھنا چاہتا ہے کہ جی ہمیں کیا پڑی ایک طاہرالقادی کے پیچھے لگنے کی یا عمران خان کے پیچھے جانے کی تو انپہیں معلوم ہو جانا چاہیۓ کہ ان کے یہ آنسو پوچھنے والے ان کی خون پسینے کی کمائ خزانے سے چوس کے ان کے لیۓ نہیں لڑ رہے بلکہ ان عوام اور لاکھوں تارکین وطن کی طاقت پر لڑنے کے لیۓ میدان میں آۓ ہیں ۔ جو اپنے کروڑوں پاکستان میں رہنے والے خاندانوں کی حفاظت کے لیۓ لفظوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں اپنا تن ، من دھن داؤ پر لگا کر سروں پر کفن باندھ کر پاکستان بچانے کے لیۓ چوروں اور لٹیروں کا خاتمہ کرنے کے لیۓ اس جنگ میں کود چکے ہیں ۔ خدارا آنکھ کھول کر دیکھو پوری حکومتی مشینری کو اس وقت اپنی غنڈہ گردی کے زریعے عوامی طاقت کو کچلنے پر لگا گیا گیا ہے ۔ جسکا صاف مطلب ہے کہ اس مشنری کا کام عوام کی حفاظت نہیں بلکہ سرکاری غنڈوں اور ان کے پلوں کی حفاظت کرنا رہ گیا گیا ہے ۔ ۔ زرا سا ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر نظر ڈال لیں تو آ پ کو معلوم ہو جاۓ گا کہ جب حکمران ریشمی کپڑے پہننے لگیں ، لونڈیوں اور طوائفوں سے اولادیں پیدا کرنے لگیں اور وہی اولادیں کل کو ملک کے تخت پر رقص کریں ، جب فوجیوں کے دروازوں پر بھی گارڈز مقرر کیۓ جائیں ، حکومتی نمائندے محلوں میں رہنے لگیں ، اور دربان مقرر کرنے لگیں ، اپنے ملک سے زیادہ بیرینی کرنسی کی غلامی کرنے لگیں ، عوام بم دھماکوں میں تو پھٹنے کو تیار ہوں لیکن سامنے آکر بدبختوں کا منہ توڑ کر سینے پر تمغہ شہادت سجانے کو تیار نہیں ، تو سمجھ لیں کہ تباہی یقینی ہے جو لوگ ظلم تو سہتے ہیں بغاوت نہیں کرتے ،، ان سے بڑا ظالم اور کوئ نہیں ہو سکتا ۔ کسی شخص کی ذات سے اختلاف ہے تو ضرور کرو لیکن یہ بھی ضرور سنو کہ کون کب ، کہاں ، کیا کہہ رہا ہے ، اور کیا کر رہا ہے ۔ کیا یہ جمہوریت ہے تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر ۔ اس جمہوریت کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنے کی گھڑی آن پہنچی ۔ اٹھو ملک بچانے نکلو ، اپنی اپنی اولادوں کو ،اور عزت بچانے نکلو ، اٹھو ملک بچانے نکلو ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

جمعہ، 4 جنوری، 2013

پاکستانی کرپٹ پولیٹیکل سسٹم کے لیۓ تیزابی غسل تیار ہے / ممتاز ملک ۔ پیرس



پاکستانی کرپٹ پولیٹیکل سسٹم کے
لیۓ تیزابی غسل تیار ہے
ممتاز ملک ۔ پیرس
23 دسمبر2012 کا اجتماع کیا ہوا لُٹیروں کے بٹیرے اُڑ گۓ ۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ گئ ہے ، کہاں تو اسے ایک مُلا کا جلسہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور کہاں یہ ایک منظم اور بےمثال اجتماع ثابت ہوا ۔ لوگوں کے ایک جمع غفیر نے اس بار انقلاب کے دروازے کی کنڈی یہ کہہ کرہلا دی ہے کہ سیدھا ہونے والو ،،،،،، سیدھا ہونے کے لیۓ اب اور مہلت کی گنجائش ختم ہوئ ۔ 60 سال سے اس ملک کو گٹر بنانے والو صفائ کا لمحہ آن پہنچا ۔اب اس صفائ میں اپنا حصہ ڈالو گے یا ہم گند کے ساتھ گندوں کو بھی دھو ڈالیں ۔ بظاہر خود کو مطمئن دکھانے کی ناکام کوشش میں مصروف حکومتی اور نام نہاد اپوزیشن کے ایوانوں میں زلزلہ آچکا ہے ۔ اس کا ثبوت ان کے نمائندوں کے آۓ روز کے سٹُوپڈ سوالات سے ہم سب ہر روز ملاحظہ فرما رہے ہیں ۫ ۔ کبھی علامہ صاحب کی کردار کشی ، کبھی ان پر گندے بہتان ۔ کبھی ان کی سیکیورٹی واپس لینے جیسے کمینے اقدامات ، کبھی ان کے خطابات میں سے ٹکڑے اکٹھے کر کے بے سروپا افواہیں ۔ غرض کیا ہے جو نہیں کیا جا رہا ۔ لیکن پھر بھی پاکستانی اب مذید بیوقوف بننے کو ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ پاکستانیوں کی برداشت کی گاگر بھر چکی ہے ۔ اور چھلکنے کو تیار ہے یہ گاگر چھلکی تو اس میں بھرا پاکستانیوں کے صدموں آہوں خساروں ، دکھوں لاچاریوں ،بیماریوں دھوکوں کا تیزاب اس پورے کرپٹ سسٹم کو جلا کر راکھ کر کے ہی دم لے گا ۔ جن لوگوں کو اس بات پر شبہ تھا کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ۔ تو ان کے منہ پر کرارہ چانٹا 29 دسمبر 2012 کو بے لوث پاکستانیوں نے آدھا گھنٹے میں یعنی 30 منٹ میں 30 کروڑ روپے اکٹھے کر کے لگا دیا ۔ مخالفوں نے گھر بیٹھے دانتوں میں اپنی انگلیا ں داب لیں ۔ کہاں تو اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کو کوئ دنیا بھر سے چند لاکھ چندے میں دینے کو تیار نہیں تھا اور کہاں ایک ہی کال پر کروڑں روپے کا ڈھیر لگا دیا گیا ۔ یہ بات ہوتی ہے اعتبار کی ۔ اس بات کا یقین جبھی تو کمزور نہیں ہوتا کہ ہماری قوم ایک بیمثال قوم ہے ۔ اسے صرف ایماندار قیادت کی ضرورت ہے جو اس کی توانائیوں اور قربانیوں کو ملکی ترقی میں صحیح طور سے استعمال کر سکے ۔ پھر وہ کوئ بھی پارٹی ہو ۔ اس میں موجود وہ مخلص کارکن جو اپنے دلوں میں خدمت کی تڑپ رکھنے کے باوجوں صرف اس لیۓ خدمت کے موقع سے محروم رکھے جاتے ہیں کہ نہ وہ کھاتے ہیں نہ ہی کھانے دیتے ہیں ۔ وہ قوم کے پیسے کو خود پر حرام سمجھتے ہیں ۔ لہذا ایسے دیوانوں ،جیالوں پروانوں کو دلاسے اور آسرے دے کر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے ۔ پانچ کروڑ کا ٹکٹ خرید کر جو پروانہ الیکشن لڑے گا وہ اسے500 کروڑ میں بدلنے کا تو دیوانہ ہو گا ہی ۔ لہذا اسی ڈاکو راج اور لٹیرے وڈیرے سسٹم کو ہی آخری غسل دینے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں ۔ رہی بات کہ کون ان غسل دینے والوں میں شریک ہوتا ہے کس کا کیا ریکارڈ ہے اسے بھول کر یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ غیرت کسی کو کبھی بھی آسکتی ہے ۔ اور گناہوں کا راستہ کوئ کبھی بھی ترک کر سکتا ہے۔ یہ پاکستان سب کا ہے۔ یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ جہاں بہنوں کے ،، ماؤؤں کے دوپٹے جو چاہے اپنے نام کے آگے لگے دُم چھلے کے زور پر چھین لے ۔ جس کا جی چاہے اپنے لُٹیرے اور وڈیرے خطاب کے بل پر قوم کے کانسٹیبل کی آنکھیں نکال کے اس کے بدن کے ٹکڑے کر کے پولیس کو اپنی رکھیل کی طرح استعمال کرے ۔ پاکستانی قوم نے تہیہ کر لیا ہے کہ پاکستانی پولیٹیکل سسٹم کو انقلاب کے تیزاب سے غسل دینے کا وقت آگیا ہے ۔ پاکستان ہے تو پارٹیاں ہزار اور اگر پاکستان کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو یہ چوہے جہازوں کے ڈوبنے سے پہلے اپنے بریف کیس تیار رکھنے والوں میں سے ہیں ۔ لیکن اس بار ان کو بھاگنے کا موقع دینے کا پاکستانیوں کا کوئ موڈ نہیں ہے ۔
سلطانی ٔجمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آۓ مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
طاہر القادری صاحب کسی بھی پارٹی کے خلاف نہیں ہیں سب پارٹیز میں اچھے اور مخلص لوگ بھی ضرور ہوں گے ۔ سو فیصد برائ جہاں ہو اس پارٹی کا تو وجود ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ لڑائ ہم سب کی سلامتی کی لڑائ ہے اس بدمعاش نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کی لڑائ ہے تاکہ ہر پارٹی کے مخلص لوگوں کو اپنے پاکستان کے لیۓ خدمات سرانجام دینے کا موقع مل سکے ، اور ایسا ضرور ہو گا انشااللہ ۔ 14 جنوری 2013 کو انقلابی مارچ میں ہر وہ شخص شامل ہو گا جو پاکستان سے پیار کرتا ہے ۔ جو قانون سے پیار کرتا ہے ۔ جو اپنی ماؤؤں بہنوں سے پیار کرتا ہے ۔ جو تعلیم سے محبت کرتا ہے ۔ جو عہد فاروقی سے محبت کرتا ہے ۔دنیا کی سب سے بیمثال قوم کے نمائندے ہیں ہم ۔ جنہیں دنیا نے اُن مشکلوں میں اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوۓ دیکھا ہے کہ جن میں سُپر پاورز نے بھی ہاتھ کھڑے کر دییۓ ہو ں ۔ کہ اگر ہم بھی ہوتے تو ان سے کبھی نہیں نپٹ سکتے تھے ۔ اسکا مطلب صرف ایک ہی ہے کہ جس روز ہم نے اپنی خامیوں سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا وہی ہما ری ترقی کا پہلا دن ہو گا۔ خدا پاکستان کو سلامت رکھے اور خوشحال بناۓ ۔آمین
،، ارادے جن کے پُختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطُم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،        

منگل، 25 دسمبر، 2012

● [74] دُعا/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے




(74)
  دُعا
            Doa    

اے خدا تجھ سے ہے فریاد مجھے لوگوں کی
بات میں ہوں تو دُعاؤں میں بھی شامل کر دے
ay khuda tujh se hai feryad mujge logon ki
bat mein hon to doaon mein bhi shamil kr de
عقل مندوں کی عطا کی ہے اگر صحبتِ خاص
عقل والوں میں بٹھا کر مجھے عاقل کر دے
aql mandon ki ata ki hai ager sohbate khas
aql walon mein bitha kr mjhe aqil kr de
ہوں نکمّی بڑی ایمان کے ہر درجے میں
مجھ کو ایمان کے ہر درجے میں کامل کر دے
hon nikammi bari iman k hr derje mein
mjh ko iman k hr derje mein kamil kr de
تیرے احکام کو مانوں میں اک عاشق بن کر
اپنے ہر حکم کا بس تُو مجھے عامل کر دے
tere ehkam ko manon main ik ashiq ban kr
 apne hr hukm ka bus tu mujhe amil kr de
میری دھڑکن کرے دھک دھک کے بجاۓ حق حق
تُو مجھے اپنے کرم کے لیئے قابل کر دے
meri dharkan kare dhak dhak k bajae haq haq
tu mujhe apne karam k liey qabil kr de
وہ جو اک دائرہء عشق بنا رکھا ہے
کبھی ممّتاز کو بھی اس میں تُو داخل کر دے
wo jo ik daira e ishq bana rakha hai
kabhi Mumtaz ko bhi is mein tu dakhil kr de
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے اشاعت:2011ء
●●●  
 

● [73] سوچتا ہی نہیں / شاعری / مدت ہوئی عورت ہوئے

(73) سوچتا ہی نہیں
Sochta hi nahin


بڑے مزے میں میرے رات دن گزرتے ہیں
میں سوچتا ہی نہیں کچھ بھی کھوجتا ہی نہیں
bare maze mein mere rat din guzerte hain
main sochta hi nahin kuch bhi khojta hi nahin
تڑپ تڑپ کے گریبان پھاڑتا ہی نہیں
پھنسا کے انگلیاں بالوں کو نوچتا ہی نہیں
tarap tarap k greban pharta hi nahin
phansa k ongliyan balon ko nochta hi nahin
میں اپنے دل کا لہو آنکھ سے یوں ٹپکا کر
بنا کے آستیں رومال پونچھتا ہی نہیں
main apne dl ka laho ankh se yon tapka kr
bna k astin romal ponchta hi nahin
میں اپنے ظرف کو اک طاق میں سجا بیٹھا
کہ اس تک اب تو میرا ہاتھ پہنچتا ہی نہیں
main apne zarf ko ik taaq mein sja baitha
k is tak ab to mera hath pohenchta hi nahin
میں زخم دیکھ بھی لوں تب بھی درد ہوتا نہیں
کہ بے کلی سے میں مٹھی کو بھینچتا بھی نہیں
main zakhm deikh bhi lon tab bhi dard hota nahin
k bekali se main mutthi ko bhainchta hi nahin
یہ دیکھنا ہے میری فطری بےبسی ممّتاز
بڑے سکون میں ہوں میں کہ سوچتا ہی نہیں
ye daikhna hai meri fitri bebasi Mumtaz
bare sukoon mein hon main k sochta hi nhi
●●●
کلام:ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے
 اشاعت: 2011ء
●●●


(73) سوچتا ہی نہیں


بڑے مزے میں میرے رات دن گزرتے ہیں
میں سوچتا ہی نہیں کچھ بھی کھوجتا ہی نہیں

تڑپ تڑپ کے گریبان پھاڑتا ہی نہیں
پھنسا کے انگلیاں بالوں کو نوچتا ہی نہیں

میں اپنے دل کا لہو آنکھ سے یوں ٹپکا کر
بنا کے آستیں رومال پونچھتا ہی نہیں

میں اپنے ظرف کو اک طاق میں سجا بیٹھا
کہ اس تک اب تو میرا ہاتھ پہنچتا ہی نہیں 

میں زخم دیکھ بھی لوں تب بھی درد ہوتا نہیں
کہ بے کلی سے میں مٹھی کو بھینچتا بھی نہیں

یہ دیکھنا ہے میری فطری بےبسی ممّتاز
بڑے سکون میں ہوں میں کہ سوچتا ہی نہیں

●●●
کلام:ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے
 اشاعت: 2011ء
●●●



 


 

● [72] توفیق /شاعری ۔مدت ہوئی عورت ہوئے


[72] توفیق
Tofeeq


خدا جب روشنی کی آپ کو توفیق دیتا ہے
تو کالے راستے پھر خود بخود کترانے لگتے ہیں
khuda jab roshni ki ap ko tofeeq deta hai
to kale raste  phir khud bkhud katrane lagte hain
خدانخواستہ گر آپ سے توفیق کھو جاۓ
تو پھر سے آپ کو شیطان کچھ بہکانے لگتے ہیں
khuda na khasta ger ap se tofeeq kho jae
to phir se ap ko shaitan kuch behkane lagte hain
ان کی پیروی کا کھیل بھی کیا طول لیتا ہے
کبھی پھر ہنسنے لگتے ہیں کبھی یہ گانے لگتے ہیں
on ki pairwi ka kheil bhi kia tool leita hai
kabhi phir hansne lagte hain kabhi ye gane lagte hain
بھلا کر اپنے پیارے رشتے اور انکی محبت کو
یہ کر کے جھوٹے وعدے ان کو پھر پھسلانے لگتے ہیں
bhula kr apne pyare rishte aur on ki mohabbat ko
ye kr ke jhote wade on ko phir phuslane lagte hain
مقامِ شرم آتا ہے تو پھر بلکل نہیں آتی
جہاں اس کا نہیں موقع وہاں شرمانے لگتے ہیں
maqam e sharm ata  hai to phir bilkul nahin ati
jahan is ka nahin moqa wahan shermane lagte hain
وہ جن کے عیب انکے بعد گننے سے نہیں فرصت
انہیں محفل میں دیکھیں تو گلے لپٹانے لگتے ہیں
wo jin k aib on k bad ginney se nahi foursat
onhain mehfil mein dekhein to gale liptane lagte hain
وہ سارے لوگ جو خود کو بڑا معصوم کہتے ہیں
مجھے ممّتاز نہ جانے وہ کیوں بیگانے لگتے ہیں
wo sare log jo khud ko bara masom kehte hain
mujhe Mumtaz na jane wo kyun beygane lagte hain
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے اشاعت:2011ء
●●●

 

● [71] انجام / شاعری ۔مدت ہوئی عورت ہوئے


[71] انجام
Anjam


بجلی کی کڑک کب تیرے جانے سے رکی تھی
طوفانِ بلا کب تیرے آنے سے تھما ہے
bijli ki karak kab tere jany se ruki thi
tufan e bala kab tere aane se thama hai
ہر وقت کی سختی اِنہیں باغی نہ بنا دے
گستاخ جواں سامنے تیرے جو تنا ہے
hr wqt ki sakhti inhein baghi na bana de
gustakh jawan samne tere jo tana hai
نرمی سے بزرگی کی عقیدت کا سبق دے
سمجھا اِسے بربادی ہی انجامِ انا ہے
nermi se bzurgi ki aqidat ka sabaq de
samjha ise berbadi hi anjam e ana hai
پھلدار درختوں کی روش کیا نہیں دیکھی
اکڑے ہوں شجر تو کبھی سایہ نہ گھنا ہے
phaldar darakhton ki rawish kia nahin deikhi
akre hon shajer to kbhi saya na ghana hai
ممّتاز میرے سامنے جو ٹوٹ کے بکھرا
آئینے کے ٹکڑوں پہ میرا عکس جما ہے
Mumtaz mere samne jo toth k bikhra
aainon k tokron pe mera aks jama hai
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے اشاعت:2011ء
●●●

 

● (70) شریکِ غم/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


(70)شریکِ غم
shareek e gham


شریکِ زندگی تو ہو شریکِ غم نہیں ہوتے 
ہر اک کی زندگی میں کیا یہ زیروبم نہیں ہوتے
shareek e zindagi to ho shareek e gham nahin hoty 
hr ik ki zindagi mein kia ye ranj o gham nahin hote
میں سالوں کی مسافت میں تھکن سے چور ہو لیکن
نہ منزل پاس آتی ہے یہ رستے کم نہیں ہوتے
main saloon ki mosafat mein thakan se choor hon leikin
na manzil pas aati hai ye raste kam nahin hote
یہ دونوں وقت تو ملتے ہیں چند خاموش گھڑیوں میں
مگر سچ یہ ہے شام اور صبح سدا باہم نہیں ہوتے
ye donon waqt to milty hain chand khamosh ghrhyon mein
mager sach hai sham aur subh kabhi bahum nahin hote 
اگر دوچار دکھ اس زندگی سے ہم جدا کر دیں
تو شاید پھر ہمیں دنیا کے فکروغم نہیں ہوتے
ager do char dukh is zindagi se hum juda kr dein
to shayad phir hamein dunya ke ranj o gham nahin hote
مگر کچھ تقویّت اس زندگی کو غم بھی دیتے ہیں
یہ اُٹھی گردنیں ورنہ یہ لہجے خم نہیں ہوتے
mager kuch taqwiyat is zindagi ko gham bhi dete hain
ye oththi gerdanein werna ye lehjey kham nahin hote
جہاں میں کچھ بھی تو ممّتاز بے مقصد نہیں ہوتا
اگر مقصد نہیں ہوتا تو رشتے ضم نہیں ہوتے
jahan mein kuch bhi to Mumtaz bemaqsad nahin hota
ager maqsad nahin hota to rishte zam nahi hote
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے اشاعت:2011ء
●●●
 

● [69] بےعقل دہقان/ شاعری ۔مدت ہوئی عورت ہوئے


(69) بےعقل دہقان
Be aqal dehkan


دائرے محدود ہوتے جا رہے ہیں
راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں
daire mehdod hote ja rahe hain
raste masdod hote ja rahe hain
ہو گیا رخصت ہماری زندگی سے اعتدال
ابتداء میں اِنتہا بھی ہم تو کھوتے جا رہے ہیں
ho gaya rukhsat hamari zindgi se etedal
ibtida main intiha bhi hum to khote ja rahe hain
اب رویّوں میں وہ پہلے جیسی سرگرمی نہیں
جاگنے کے شوق میں ہم جیسے سوتے جارہے ہیں
ab rawayyon mein wo pehle jeisi sergermi nahin
jagne k shoq mein hum jeise sote ja rahe hain
عقل مندی کی فصل کا اب کوئی اِمکاں نہیں
بے عقل دہقان کیسا بیج بوتے جا رہے ہیں
aql mandi ki fasal ka ab koi imkan nahin
be aqal dehqan keisa beej bote ja rahe hain
یااِلہی اب دعا کا وقت نہ جاۓ گزر
ہم دعاؤں پر ہی سارے دن یہ ڈھوتے جا رہے ہیں
ya ilahi ab doa ka waqt na jaye guzer
hum doaon pr hi sare din ye dhote ja rahe hain
بھول کر ان بےقراروں کی سبھی قربانیاں
اِک گدائی ہل میں مثلِ بیل جوتے جا رہے ہیں
bhol kr on be qararon ki sabhi qurbanian
ik gadai hal mein misl e bail jote ja rahe hain
آس کیوں گھٹتی نہیں یہ رات کیوں کٹتی نہیں
دن میں بھی اب رات سے سپنے سنجوتے جا رہے ہیں
aas kiyon ghathti nahin ye rat kiyon kathti nahin
din mein bhi ab rat sy sapne sanjote ja rahe hain
ہم نے تو وہ پوچھنے والے بھی اب چھوڑے نہیں
زندگی کی ڈور میں جو دکھ پروتے جا رہے ہیں
hum ne to wo pochne wale bhi ab chorhe nahin
zindagi ki door mein jo dukh pirote ja rahe hain
مضطرب آنکھوں سے اب مّمتاز یہ پوچھے گا کون
کیوں اشک گرتے جا رہے ہیں آپ روتے جا رہے ہیں
moztarib aankhon sy ab Mumtaz ye poche ga koon
kiyon ashq girte ja rahe hain ap rote ja rahe hain 

●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے اشاعت:2011ء
●●●
 

● [68] پوچھوں خدا سے کس طرح/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


(68) پوچھوں خدا سے کس طرح
Pochon khuda se kis 
tarah 


خدایا کس زمانے میں مجھے پیدا کیا تو نے
جہاں مائیں بھی ماؤں سے نظر آئیں جدا یکسر
khudaya ks zamane mein
mujhe paida kia tu ne
jahan maein bhi maon se nazer aein juda yakser
کسی نے باندہ کے بم اپنے بچوں کو دعا دی ہے
کسی نے اپنے بچوں کو بنا ڈالا ہے اِک برگر
kisi ne bandh k bum apne bachchon ko dua di hai
ksi ne apne bachchon ko bana dala hai ik berger
خدایا کس زمانے میں مجھے اب سر اُٹھانا ہے
مجھے خود سے نمک اپنے ہی زخموں پر لگانا ہے
khudaya ks zamane mein mujhey ab sr uthana hai
mujhey khud se nmak apne hi zakhmon pr lagana hai
کوئی اُونچے پہاڑوں پر وطن پر جان دیتے ہیں
کسی نے آج برپا کی قیامت ہر جگہ گھر گھر
koi onchey paharhon pr watan pr jan dete hain
kisi ne aaj berpa ki qyamat hr jaga gher gher
خدایا کس زمانے میں مجھے اب سانس لینا ہے
جہاں پر سانس کا مجھ کو بڑا اِک دام دینا ہے
khudaya ks zamane mein mujhey ab sans lena hai
jahan pr sans ka mujh ko bara ik dam deyna hain

جہاں پر اب گلابوں کی مہک بارود میں ڈوبی
جہاں پر عیب بن جاتے ہیں اب اِنسان کی خوبی
jahan pr ab gulabon ki mehek barood mein dubi
jahan pr aib ban jate hain ab insan ki khubi
جہاں پر ہم کو رشتوں کا بڑا تاوان بھرنا ہے
مجھے بس دوسروں کی خواہشوں پر آج مرنا ہے
jahan pr hum ko rishton ka bara tawan bherna hai
mujhey bus dosron ki khahishon pr aaj merna hai
یہاں جگنو پکڑ کر اُن کو آگے بیچ دیتے ہیں
یہاں سچ بولنے والوں کی سانسیں کھینچ دیتے ہیں
yahan jugno pkerh kr on ko agey beich deitey hain
yhan such bolne walon ki sansein kheinch leyte  hain
خدایا کس طرح میں اپنے دل کو آج سمجھاؤں
خدایا عقل کو میں اور کیا تاویل دے پاؤں
khudaya ks tarah main apne dl ko aaj samjhaon
khudaya aql ko main aur kia taweel de paon
قیامت کی گھڑی ہو گی قیامت کا سماں ہو گا
کہ جب تو جھوٹ بولے گا تو سچ کا سا گماں ہو گا
qyamat ki gharhi ho gi qayamat ka saman ho ga
k jab tu jhoth boly ga to such ka sa goman ho ga


میری سچائی بوڑھوں کی طرح ڈھونڈے سہارے اور
تمہارا جھوٹ میرے سامنے ہنستا جواں ہو گا
meri sachai borhon ki tarah dhondhe sahare aur
tumhara jhoth mere samne hansta jawan ho ga
خدا سے کس طرح پوچھوں کہ میرا سچ کہاں ھو گا
یہ میری جاں کہاں ہو گی یہ میرا دل کہاں ھو گا
khuda se ks tarah pochon k mera sach kahan ho ga
ye meri jan kahan ho gi ye
mera dl kahan ho ga
●●●
کلام:ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے
 اشاعت: 2011ء
●●●
 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/