ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 27 فروری، 2013

کیا تارکین وطن مجرم ہیں ؟ / کالم


 کیا تارکین وطن مجرم ہیں؟
       (ممتازملک ۔پیرس)
اپنی ساری زندگی اپنوں کی خاطر اپنے پیاروں سے دور رہنے والوں نے کیا کیا دکھ نہ جھیلے ۔کسی
نے اپنے ماں باپ کے جنازوں کو کندھا نہ دیا تو کسی نے بہنوں کی ڈولیاں بھی نہ رخصت کیں ۔
کسی نے بھائیوں کے مستقبل کے لیۓ خود کو مشقت کے ہل میں بیل کی طرح جوت لیا ،
تو کسی نے بیوی بچوں کے آرام کے لیۓ خود کو انہیں کی نظروں میں اجنبی بنا لیا ۔
اور تو اور جہاں اپنے لوگوں کےلیۓ مذید کچھ اچھا کر سکنے کی امید نظر آئی تو اپنی ہی پیاری
زمیں کے نام کے ساتھ ایک اور مُلک کی وفاداری تک ساتھ لگانے کا حلف اٹھا لیا ۔
دیکھیۓ تو یہ سب سننے میں کتنا آسان لگتا ہے لیکن بھگتۓ تو یہ اپنے ہی دل پر پاؤں رکھ کر کھڑا
ہو جانے کے برابر ہی اقدام ہے ۔اس زمانے میں کہ جب ایک ہی ملک سے وفاداری
نبھانا پاکستانیوں کے لیۓ بہت مشکل لگتا ہے ۔ وہاں یہ تارکین وطن دو ، دو ملکوں کے ساتھ
وفاداری نبھا رہے ہیں ۔کسی اور ملک کے لوگوں نے اپنے ملک کے لیۓ اس سے آدھا بھی کیا
ہوتا تو وہ لوگ انہیں اپنا ہیرو بنا لیتے ۔لیکن بھلا ہو پاکستان کے سب سے بڑے منصف کا کہ
جس نے ایک ہی وار سے تارکین وطن کو بد نییت ، غدار اور جانے کیا کیانام دیدیا ۔ افسوس
صد افسوس اسی پاکستان کے یہ لٹیرے لیڈر جب مصیبتوں میں بھیک مانگنے کے لیۓ انہیں
تارکین وطن کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیۓ دورے کرتے ہیں ۔ان کو پاکستان ، پاکستان کا بھوں
بھوں سناتے ہیں،  اس وقت جب انہیں تارکین وطن کی منتیں کی جاتی ہیں۔ کہ بھوکے مر گۓ ہیں،
خودکھاؤ نہ کھاؤ ہمیں کھلاؤ ، تب انہیں شرم نہیں آتی ، لیکن جب ان سے راۓ دینے کا حق مانگا
جاتا ہے، جس ملک میں اپنے خون پسینے کی کمائی بھیجی جاتی ہے ، وہاں کے معاملات میں حصہ
لینے کا حق مانگا جاتا ہے ، تو بڑی ہی بے حیائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آپ کون ہوتے
ہیں یہاں کے معاملات میں دخل دینے والے ؟ یہ ہی وہ نمک حرامی کی صفت ہے کہ جس
کی وجہ سے پاکستانی بیرون ملک اپنی کوئی عزت بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی
قانون سازوں کو قوانین بناتے ہوۓ اپنی عقل کے گھوڑے بھی دوڑا لینے چاہیئں تاکہ
آپ کو پتہ چلے کہ جس ملک کی روزی روٹی کےاتنے بڑے حصے کا انحصار تارکین وطن کے خون
پسینے پر ہو وہ انہیں آنکھیں نہیں دکھایا کرتے ۔پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی حکومت
پاکستان کی ذمہ داری ہیں کہ وہ انہیں روزگار ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرے ۔ملک سے باہر رہنے والے اگر ان کی مالی امداد کا سلسلہ بند بھی کر دیں تو دنیا کاکوئ قانون انہیں اس بات
پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے خاندانوں کو سپورٹ کرنے کے نام پر پاکستانی بینکس کو بھرنے کا کام کریں ۔
کیوں کہ کوئی بھی شخص جہاں رہتا ہے وہیں اپنی زندگی کو مینج کرتا ہے ۔ یورپ میں دو ، دو کمروں کے
فلیٹ میں رہنے والوں نے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کو کروڑوں روپے کے گھر بنا کر دیۓ ۔
دکانیں خرید کر دیں ۔ کاروبار کروا کر دیۓ ۔ ٹرانسپورٹ ، پٹرول پمپس ۔ میرج ہالز ، سکولز ،
کالجز ،ٹیکسٹائل ملز ، امپورٹ ایکسپورٹ ، پراپرٹیز اور جانے کس کس شعبے میں
انویسٹمنٹ کر کے پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا ہے ۔
ٹھیکیدارو ۔۔۔۔۔۔۔
زرا اپنے اردگرد نظر ڈالو تو پتہ چلے کہ کماؤ پوتوں کے ساتھ بات کرنے کے آداب کیا ہوتے ہیں ؟کیوں کہ
سگی ماں بھی کمانے اور گھر چلانے والی اولاد کو اپنی نکمی اولاد پر ہمیشہ فوقیت دیتی ہے ۔لیکن ہمارے
ہاں معاملہ یہ ہے کہ نکمی اور لٹیری اولاد گھر کے بارے میں فیصلے کر رہی ہے اور کماؤ اولاد کو گلے میں پھندا لگانے اور منہ پر ٹیپ لگانے کا حکم دیدیا گیا ہے۔ یا پھر یہ سب کرنے اور انہیں عزت
دینے کا حوصلہ نہیں ہے ، تو جرٔات کر کے ان تارکین وطن کا پیسہ کھانے سے بھی
انکار کر دیں انہیں اپنی پراپرٹیز بھی یہاں سے بیچ کر غیر ملکی قرار دیےدیجیۓ ۔
تاکہ جب وہ پاکستان آئیں تو غیر ملکیوں کی طرح ہی آئیں اور انہیں کی طرح اپنے رائٹس
بھی استعمال کریں ۔کم از کم کوئی بھرم تو نہ رہے پاکستانیوں اور ان
تارکین وطن غیر ملکیوں کے بیچ ۔
،،،،،،،،،،،،،،




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/